Surat ul Mudassir

Surah: 74

Verse: 37

سورة المدثر

لِمَنۡ شَآءَ مِنۡکُمۡ اَنۡ یَّتَقَدَّمَ اَوۡ یَتَاَخَّرَ ﴿ؕ۳۷﴾

To whoever wills among you to proceed or stay behind.

۔ ( یعنی ) اسے جو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے ہٹنا چاہئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

A warning to mankind -- to any of you that chooses to go forward, or to remain behind. meaning, for whoever wishes to accept the warning and be guided to the truth, or hold back from accepting it, turn away from it and reject it.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 یعنی یہ جہنم ڈرانے والی ہے یا نذیر سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یا قرآن بھی اپنے بیان کردہ وعد و وعید کے اعتبار سے انسانوں کے لئے نذیر ہے۔ اور ایمان واطاعت میں آگے بڑھنا چاہیے یا اس سے پیچھے ہٹنا چاہیے مطلب ہے کہ انداز ہر ایک کے لیے ہے جو ایمان لائے یا کفر کرے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] حقیقت تو وہی کچھ ہے جو تمہیں بتادی گئی ہے۔ اب یہ بات ہر شخص کی پسند اور ارادہ و اختیار پر منحصر ہے کہ ہدایت کی طرف آگے بڑھتا ہے۔ یا گمراہی کی دلدلوں میں ہی پھنسا رہنا چاہتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّتَقَدَّمَ اَوْ يَتَاَخَّرَ (to the one who wishes to come forward [ towards good deeds ] or to go back [ from them ]...74:37) In this context, &to come forward& signifies &coming forward towards faith and obedience& and ta&akhkhur &to go backward& signifies &moving away from faith and obedience&. The verse purports to warn against the torment and torture of the Hellfire. This applies to all human beings in general. Some accept the warning and are guided by the truth, and the unfortunate ones hold back from accepting the warning, turn away from it and reject it.

لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّتَقَدَّمَ اَوْ يَتَاَخَّرَ یہاں تقدم سے مراد تقدم الی الایمان والطاعة اور تاخر سے مراد ایمان وطاعت سے پیچھے ہٹنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہنم کے عذاب سے ڈرانا جو اوپر کی آیت میں ہے یہ ہر ایک انسان کے لئے عام ہے پھر کوئی یہ ڈرسن کر ایمان و اطاعت کی طرف پیشقدمی کرتا ہی کوئی بدنصیب اس کے باوجود پیچھے رہ جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّتَقَدَّمَ اَوْ يَتَاَخَّرَ۝ ٣٧ ۭ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ قدم وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] ، وقوله : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ، أي : سابقة فضیلة، وهو اسم مصدر، وقَدَّمْتُ كذا، قال : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] وقوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ، قيل : معناه لا تَتَقَدَّمُوهُ. وتحقیقه : لا تسبقوه بالقول والحکم بل افعلوا ما يرسمه لکم كما يفعله العباد المکرمون، وهم الملائكة حيث قال : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] ( ق د م ) القدم عموما القدیم کا لفظ قدم باعتبار زمانہ یعنی پرانی چیز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس/ 39] کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ۔ اور آیت کریمہ : قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ [يونس/ 2] ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے ۔ میں قدم صدق سے سابقہ فضیلت مراد ہے ۔ اور یہ اسم مصدر ہے اور قدمت کذا کے معنی پہلے کسی کوئی کام کرچکنے یا بھیجنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْواكُمْ صَدَقاتٍ [ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ پیغمبر کے کان میں کوئی بات کہنے سے پہلے خیرات دیا کرو، ڈرگئے ہو اور آیت کریمہ : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] خدا اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لاتقدموا بمعنی لاتتقدموا کے ہے اور اس کے اصل معنی یہ ہیں ۔ کہ قول وحکم میں پیغمبر سے سبقت نہ کرو بلکہ وہی کام کرو جس کا تمہیں حکم دیتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ کے مکرم بندوں یعنی فرشتوں کا کردار بیان کرتے ہوئے فرمایا : لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ [ الأنبیاء/ 27] اس کے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے۔ أخر ( تاخیر) والتأخير مقابل للتقدیم، قال تعالی: بِما قَدَّمَ وَأَخَّرَ [ القیامة/ 13] ، ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَما تَأَخَّرَ [ الفتح/ 2] ، إِنَّما يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصارُ [إبراهيم/ 42] ، رَبَّنا أَخِّرْنا إِلى أَجَلٍ قَرِيبٍ [إبراهيم/ 44] ( اخ ر ) اخر التاخیر یہ تقدیم کی ضد ہے ( یعنی پیچھے کرنا چھوڑنا ۔ چناچہ فرمایا :۔ { بِمَا قَدَّمَ وَأَخَّرَ } ( سورة القیامة 13) جو عمل اس نے آگے بھیجے اور جو پیچھے چھوڑے ۔ { مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ } ( سورة الفتح 2) تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ { إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ } ( سورة إِبراهيم 42) وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ دہشت کے سبب آنکھیں کھلی کی کھلی ۔ رہ جائیں گی ۔ { رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ } ( سورة إِبراهيم 44) اسے ہمارے پروردگار ہمیں تھوڑی سی مہلت عطا کر

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧{ لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّتَقَدَّمَ اَوْ یَتَاَخَّرَ ۔ } ” جو بھی تم میں سے چاہے کہ وہ آگے بڑھے یا پیچھے رہ جائے۔ “ اب کامیابی کا دار و مدار ہر کسی کی ہمت اور کوشش پر ہے۔ جس کی ہمت جوان ہو وہ سب سے آگے بڑھ کر صدیقیت کا مقام اور ” السابقون الاولون “ کا درجہ حاصل کرلے۔ جو کوئی دوسروں کا انتظار کرکے ذرا دیر سے چلنے میں عافیت سمجھے وہ وَاتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ والوں کی فہرست میں اپنا نام لکھوا لے اور جس کسی کی ہمت اور قسمت ساتھ نہ دے وہ خود کو مستقل طور پر محروم کرلے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29 That is, the people have been warned to this effect. Now, let him who heeds the warning go forward on the right way, and let him who wills still lag behind.

سورة الْمُدَّثِّر حاشیہ نمبر :29 مطلب یہ ہے کہ اس چیز سے لوگوں کو ڈرا دیا گیا ہے ۔ اب جس کا جی چاہے اس سے ڈر کر بھلائی کے راستے پر آگے بڑھے اور جس کا جی چاہے پیچھے ہٹ جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: یعنی یہ اُس شخص کو بھی خبردار کرتا ہے جو بھلائی کی طرف آگے بڑھے، اور اُس کو بھی جو بھلائی سے پیچھے ہٹے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(74:37) لمن شاء منکم ان یقدم او یتاخر لمن شاء بدل ہے۔ للبشر سے یعنی تم میں سے دونوفریقوں کے لئے نذیر ہے ایک فریق وہ جو خیر و طاعت میں آگے بڑھنا چاہتا ہے دوسرا وہ فریق جو کہ شر اور گناہ میں پڑا رہنا چاہتا ہے۔ مطلب یہ کہ تم کو سقر کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے اب تم میں سے جس کا جی چاہے اس سے ڈر کر بھلائی اور نیکی کے راستہ پر آگے بڑھے یا برائیوں میں پھنس کر پیچھے رہ جائے۔ ان یتقدم : ان مصدریہ یتقدم مضارع منصوب بوجہ عمل ان صیغہ واحد مذکر غائب ۔ تقدم (تفعل) مصدر آگے بڑھنا۔ او بمعنی یا یتاخر ای ان یتاخر ان مصدریہ یتاخر فعل مضارع منصوب بوجہ عمل ان صیغہ واحد مذکر غائب۔ تاخر (تفعل) مصدر بمعنی پیچھے رہنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مطلب یہ کہ جمیع مکلفین کے لئے نذیر ہے اور چونکہ عواقب اس انذار کے قیامت میں ظاہر ہوں گے اس لئے قسم ایسی چیزوں کی کھائی گئی ہے جو قیامت کے بہت ہی مناسب ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ہر شخص اپنے نفس کا ذمہ دار ہے ، جس حالت میں اسے چاہے ، رکھ دے ، جو بوجھ چاہے اٹھالے ، جو قدم چاہے اٹھائے۔ اچھائی کی طرف آگے بڑھے ، یا پیچھے رہ جائے۔ اپنے آپ کو عزت دے یا ذلیل کرے۔ ہر نفس اپنی کمائی کے ہاتھ رہن ہے اور اپنے اعمال کے ہاں قید ہے۔ اللہ نے ہر شخص کو راہ ہدایت بھی بتادی ہے اور راہ ضلالت بھی دکھا دی ہے اور اس کائنات کے ان مناظر کی روشنی میں اور جہنم کی منظر کشی کے بعد وہ ہر اس چیز کو فنا کردینے والی ہے ، جو اس کے دائرے کے اندر آجائے۔ اس منظر کے بعد کہ ہر نفس اپنے کیے کا ذمہ دار ہے اور جو کچھ اس نے کیا اس کا مرہون ہے۔ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اصحاب الیمین ان جکڑ بندیوں اور ان پابندیوں سے آزاد ہوں گے اور وہ حساب و کتاب کے بعد رہائی پالیں گے۔ اور اس کامیابی کے بعد اب وہ مجرمین سے پوچھیں گے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی وجہ سے وہ اس انجام سے دوچار ہوئے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(37) جو تم میں سے کوئی آگے بڑھنا چاہے اس کے لئے بھی اور جو پیچھے رہے اس کے لئے بھی۔ کلا اصل میں تو ردع اور جھڑکی کے لئے ہے اس جگہ کی مناسبت سے اپنے حضرات نے کئی طرح معنی کئے ہیں ہم نے تقریباً سب لکھ دیئے ہیں اس کے بعد چاند کی قسم ہے جس کا گھٹنا بڑھنا آنکھوں کے سامنے ہے یہ نمونہ عالم کے نشو و نما اور اضمحلال کا رات کا جانا اور صبح کا آنا نمونہ ہے فنا اور بقا کا۔ جس طرح رات ختم ہوکر دن نکلتا ہے اور رات کے اندھیرے میں چھپی ہوئی سب چیزیں منکشف ہوجاتی ہیں اور ہر شئے کی حقیقت ظاہر ہوجاتی ہے اسی طرح اس عالم کے بعدجب دوسرے عالم کی روشنی ظاہر ہوگی اس وقت حق اور باطل علیحدہ علیحدہ نظر آجائے گا، یہ سب قسمیں ہی مناسبت سے فرمائیں قسموں کے جواب میں فرمایا اس دوزخ کو معمولی چیز نہ سمجھو، وہ منجملہ دوسرے مصائب اور ہولناک و دہشت انگیز بڑی بڑی چیزوں میں سے ایک الم ناک اور خطرناک چیز اور بڑی بھاری چیز ہے جو انسان کے لئے ڈرانے والی اور بڑا ڈراوا ہے کوئی چاہے آگے بڑھنا تو بڑھے اور کوئی پیچھے رہے تو رہے یعنی دوزخ تمام کلفین کے لئے ڈراوے کی چیز ہے۔ آگے بڑھنے اور پیچھے رہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خیر میں آگے بڑھنا چاہے یا خیر سے پیچھے رہے دوزخ ہر شخص کے لئے ڈرنے کی چیز ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں آگے بڑھے بہشت کو یا پیچھے رہے دوزخ میں۔ خلاصہ : یہ ہے کہ دوزخ ہر شخص اور مکلف کے لئے ڈراوے کی چیز ہے کوئی آگے بڑھ کر اور نیک کام کرکے جنت میں داخل ہوجائے یا کوئی وہمی الجھنوں میں الجھ کر اور بےہودہ تخیلات میں مبتلا ہوکر جہنم میں رہ جائے آگے بڑھے بھلائی میں یہ پیچھے رہے بدی میں۔ صاحب تفسیر عزیزی نے چاند کی قسم پر لکھا ہے کہ انیس راتیں چاند کی زیادہ روشن ہوتی ہیں اور ان روشن راتوں میں نباتات پر بلکہ حیوانات پر عجیب و غریب اثرات مرتب ہوتے ہیں جو اندھیری راتوں میں اس قدر نہیں ہوتے صاحب تفسیر عزیزی کی اس تقریر پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ چاند کی قسم کھانے سے وہ دوزخ کے نگراں فرشتوں کی اہمیت کی طرف اشارہ ہے جو صاحب چاہیں وہ تفسیر عزیزی کا مطالعہ فرمائیں۔