Surat ul Qiyama

Surah: 75

Verse: 10

سورة القيامة

یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍ اَیۡنَ الۡمَفَرُّ ﴿ۚ۱۰﴾

Man will say on that Day, "Where is the [place of] escape?"

اس دن انسان کہے گا کہ آج بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

On that Day man will say: "Where (is the refuge) to flee" meaning, the human will see these horrors on the Day of Judgement and he will want to flee. He will say, "Where (is the place) to flee to" This means, where is the escape or refuge? Allah then says, كَلَّ لاَ وَزَرَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی جب یہ واقعات ظہور پذیر ہونگے تو پھر اللہ سے یا جہنم کے عذاب سے راہ فرار ڈھونڈے گا، لیکن اس وقت راہ فرار کہاں ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

یقول الانسان یومئذ …: یہ انسان جو آج پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہوگا، اس دن ایسا حیران اور خوف زدہ ہوگا کہ بھگانے کے لئے جگہ تلاش کرے گا، مگر اس دن کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی اور سب لوگوں کو اپنے رب کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍ اَيْنَ الْمَفَرُّ۝ ١٠ ۚ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ أين أَيْنَ لفظ يبحث به عن المکان، كما أنّ «متی» يبحث به عن الزمان، والآن : كل زمان مقدّر بين زمانین ماض ومستقبل، نحو : أنا الآن أفعل کذا، وخصّ الآن بالألف واللام المعرّف بهما ولزماه، وافعل کذا آونة، أي : وقتا بعد وقت، وهو من قولهم : الآن . وقولهم : هذا أوان ذلك، أي : زمانه المختص به وبفعله . قال سيبويه رحمه اللہ تعالی: الآن آنك، أي : هذا الوقت وقتک . وآن يؤون، قال أبو العباس رحمه اللہ : ليس من الأوّل، وإنما هو فعل علی حدته . والأَيْنُ : الإعياء، يقال : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، وکذلك : أنى يأني أينا : إذا حان . وأمّا بلغ إناه فقد قيل : هو مقلوب من أنى، وقد تقدّم . قال أبو العباس : قال قوم : آنَ يَئِينُ أَيْناً ، والهمزة مقلوبة فيه عن الحاء، وأصله : حان يحين حينا، قال : وأصل الکلمة من الحین . این ( ظرف ) یہ کلمہ کسی جگہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے جیسا کہ لفظ متی ، ، زمانہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے ( ا ی ن ) الاین ( ض) کے معنی تھک کر چلنے سے عاجز ۔ ہوجانا کے ہیں آن یئین اینا اور انیٰ یانی ان یا کے معنی کسی چیز کا موسم یا وقت آجانا کے ہیں اور محاورہ میں بلغ اناہ کے متعلق بعض نے کہا ہے کہ انیٰ ( ناقص) سے مقلوب ہے جیسا کہ پہلے گزچکا ہے ۔ ابوالعباس نے کہا ہے کہ آن مقلوب ( بدلاہوا ) ہے اور اصل میں حان یحین حینا ہے اور اصل کلمہ الحین ہے ۔ فر أصل الفَرِّ : الکشف عن سنّ الدّابّة . يقال : فَرَرْتُ فِرَاراً ، ومنه : فَرَّ الدّهرُ جذعا «1» ، ومنه : الِافْتِرَارُ ، وهو ظهور السّنّ من الضّحك، وفَرَّ عن الحرب فِرَاراً. قال تعالی: فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] ، وقال : فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] ، فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] ، لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] ، فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] ، وأَفْرَرْتُهُ : جعلته فَارّاً ، ورجل ( ف ر ر ) الفروالفرار ۔ اس کے اصل معنی ہیں جانور کی عمر معلوم کرنے کے لئے اس کے دانتوں کو کھولنا اسی سے فرالدھر جذعا کا محاورہ ہے یعنی زمانہ اپنی پہلی حالت پر لوٹ آیا ۔ اور اسی سے افترار ہے جس کے معنی ہنسنے میں دانتوں کا کھل جانا کے ہیں ۔ فر من الحرب فرار میدان کا راز چھوڑ دینا ۔ لڑائی سے فرار ہوجانا قرآن میں ہے ۔ فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ [ الشعراء/ 21] تو میں تم سے بھاگ گیا ۔ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [ المدثر/ 51] یعنی شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں ۔ فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعائِي إِلَّا فِراراً [ نوح/ 6] لیکن میرے بلانے سے اور زیادہ گریز کرتے رہے ۔ لَنْ يَنْفَعَكُمُ الْفِرارُ إِنْ فَرَرْتُمْ [ الأحزاب/ 16] کہ اگر تم ۔ بھاگتے ہو تو بھاگنا تم کو فائدہ نہ دے گا ۔ فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ [ الذاریات/ 50] تو تم خدا کی طرف بھاگ چلو ۔ افررتہ کسی کو بھگا دینا ۔ رجل فر وفار ۔ بھاگنے والا ۔ المفر ( مصدر ) کے معنی بھاگنا ( ظرف مکان ) جائے ۔ فرار ( ظرف زمان ) بھاگنے کا وقت چناچہ آیت ؛ أَيْنَ الْمَفَرُّ [ القیامة/ 10] کہ ( اب ) کہاں بھاگ جاؤں کے معنی تینوں طرح ہوسکتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠۔ ١٢) تو دوزخ کے دیکھنے کے بعد عدی اور اس کے ساتھی ہوں گے اب کہاں بھاگوں اور کس جگہ پناہ لوں ہرگز کوئی پہاڑ اس کو دوزخ سے بچانے والا نہ ہوگا، کہتے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ سے بچنے کے لیے کوئی اس کی رکاوٹ اور جائے پناہ نہ ہوگی قیامت کے دن صرف آپ ہی کے رب کے پاس جانے کا ٹھکانا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(75:10) این المفر : کافر کا مقولہ ہے :۔ این کہاں ۔ ظرف ہے۔ جس طرح متی سے زبان کے متعلق سوال کیا جاتا ہے اسی طرح این سے مکان دریافت کیا جاتا ہے۔ المفر مصدر میمی ہے، فرار، بھاگنا۔ الفرار۔ خوف سے بھاگنا۔ باب ضرب سے مصدر ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ کہاں ہے بھاگ، کہاں ہے بھاگ کر جانے کی جگہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر ہو رہا ہے اس دن لوگوں کی کیا حالت ہوگی۔ پہلی مرتبہ اسرافیل کے صور پھونکنے پر چاند اور سورج بےنور ہوجائیں گے اور کائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے گا اللہ تعالیٰ اس دن زمین و آسمانوں کو بدل دے گا۔ ( ابراہیم : ٤٨) اسرافیل کے دوسری مرتبہ صورپھونکنے پر لوگ اپنے اپنے مدفن سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور ہر فرد محشر کے میدان کی طرف اس طرح جائے گا جس طرح تیر اپنے نشانے پر جاتا ہے۔ (یٰس : ٥١) رب ذوالجلال کی تشریف آوری سے پہلے جنتیوں اور جہنمیوں کو لوگوں کے سامنے لایا جائے گا، ملائکہ جہنمیوں کو بڑی بڑی زنجیروں کے ساتھ کھینچ کر محشر کے میدان میں لاکھڑا کریں گے۔ یہ منظر دیکھ کر قیامت کا انکار کرنے والا اور ہر مجرم کہے گا کہ میں کہیں بھاگ جاؤں لیکن وہ کوئی پناہ گاہ نہیں پائے گا۔ اس دن سب کو اپنے رب کے حضور ہی کھڑا ہونا ہوگا اور انسان نے جو کچھ اپنے آگے بھیجا اور جو پیچھے چھوڑا اسے انسان کے سامنے کردیا جائے گا، یقیناً انسان اپنے آپ پر گواہ ہوگا اور وہ معذرت پر معذرت پیش کرے گا لیکن اس کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ ہر مجرم کی بھاگ جانے کی خواہش ہوگی لیکن کوئی بھی اپنا قدم نہیں اٹھا سکے گا۔ اس حالت میں سب کچھ اسے بتایا جائے گا اور اس کا نفس اس کے خلاف گواہی دے گا۔ دنیا میں بیشمار گناہ ایسے ہیں جنہیں انسان بھول جاتا ہے لیکن قیامت کے دن ہر انسان اپنے کیے کو اپنے سامنے پائے گا اور اس کا دل اور اعضاء گواہی دیں گے کہ واقعی ہی اس نے یہ کام کیے ہیں۔ (الملک : ١١) وہ اس پر بار بار معذرت پیش کرے گا لیکن اس کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ جو انسان اپنے آگے بھیجتا اور جو اپنے پیچھے چھوڑتا وہ اسے اپنے سامنے پائے گا۔ پیچھے چھوڑنے سے مراد وہ نیکی یا برائی ہے جس کے اچھے یا برے اثرات انسان اپنی موت کے بعد چھوڑجاتا ہے۔ ہم یقیناً ایک دن مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں جو اعمال انہوں نے کیے ہیں وہ ہم لکھتے جا رہے ہیں اور جو آثار انہوں نے پیچھے چھوڑے ہیں وہ بھی ہم لکھ رہے ہیں ہر بات کو ہم نے ایک کھلی کتاب میں درج کر رکھا ہے۔ “ (یٰس : ١٢) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَہُ ) (رواہ مسلم : بَاب مَا یَلْحَقُ الْإِنْسَانَ مِنْ الثَّوَابِ بَعْدَ وَفَاتِہِ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع کردیے جاتے ہیں مگر تین عمل باقی رہتے ہیں۔ (١) صدقہ جاریہ۔ (٢) ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ (٣) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرے۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دن ہر مجرم کی خواہش ہوگی کہ وہ بھاگ جائے لیکن اس کے لیے کوئی بھی پناہ گاہ نہیں ہوگی۔ ٢۔ قیامت کے دن ہر انسان اپنے رب کے حضور کھڑا ہوگا اور جو کچھ اس نے اپنے آگے بھیجا اور جو کچھ اپنے پیچھے چھوڑا اسے اپنے سامنے پائے گا۔ ٣۔ قیامت کے دن ہر انسان اپنے کیے کا اعتراف کرے گا۔ ٤۔ قیامت کے دن مجرم معذرت پر معذرت کرے گا لیکن اس کی کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن مجرمین کی خواہش : ١۔ مٹی کے ساتھ مٹی ہوجانے کی خواہش۔ (النساء : ٤٢، النباء : ٤٠) ٢۔ دنیا میں لوٹ کر نیک عمل کرنے کی تمنا۔ (السجدۃ : ١٢) ٣۔ ظالم اپنے ہاتھ کاٹتے ہوئے کہے گا، کاش ! میں رسول کی اتباع کرتا۔ (الفرقان : ٢٧) ٤۔ کاش میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ (الفرقان : ٢٨) ٥۔ جہنم کے داروغہ سے درخواست کرنا۔ (الزخرف : ٧٧) ٦۔ اپنے مرشدوں اور لیڈروں کو دگنی سزا دینے کا مطالبہ کرنا۔ (الاحزاب : ٦٨) ٧۔ اللہ تعالیٰ سے مریدوں کا اپنے مرشدوں کو اپنے پاؤں تلے روندنے کا تقاضا کرنا۔ (السجدۃ : ٢٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

این المفر (75:10) ” بھاگنے کی جگہ کہاں ہے “۔ اور انسان اس جزع فزع میں پھر ہر طرف بھاگتا پھرے گا۔ جس طرح چوہا پنجرے میں بند ہوجاتا ہے اور ہر طرف بھاگتا رہتا ہے۔ اب نہ جائے فرار ہے ، نہ جائے پناہ ہے ، نہ آگے جاسکتے ہیں اور نہ پیچھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اس دن انسان کہے گا کہاں چلا جائوں بھاگ کر اور کدھر بھاگ جائوں اور آج کہیں جائے گریز اور جائے فرار ہے۔