Surat ul Qiyama
Surah: 75
Verse: 26
سورة القيامة
کَلَّاۤ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ ﴿ۙ۲۶﴾
No! When the soul has reached the collar bones
نہیں نہیں جب روح ہنسلی تک پہنچے گی ۔
کَلَّاۤ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ ﴿ۙ۲۶﴾
No! When the soul has reached the collar bones
نہیں نہیں جب روح ہنسلی تک پہنچے گی ۔
Certainty will Occur at the Time of Death. Allah Informs of the Condition at the Time of Death and What Terrors it Contains. May Allah make us firm at that time with the Firm Statement. Allah says, كَلَّ إِذَا بَلَغَتْ التَّرَاقِيَ Nay, when it reaches to the collarbones. If we make the word "Kalla" negative, then this Ayah means, `O son of Adam! You are not able to deny that which I informed you of at that time (death). This will become something witnessed by you with your own eyes.' If we consider the word "Kalla" to be a word of affirmation, then this would be the most obvious meaning. In this case it would mean that it is certainly true when the soul reaches the collarbones - meaning, `your soul will be pulled out of your body and it will reach your collarbones.' This is similar to Allah's statement, فَلَوْلاَ إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ وَأَنتُمْ حِينَيِذٍ تَنظُرُونَ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـكِن لاَّ تُبْصِرُونَ فَلَوْلاَ إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ تَرْجِعُونَهَأ إِن كُنتُمْ صَـدِقِينَ Then why do you not (intervene) when (the soul of the dying person) reaches the throat And you at the moment are looking on, but We are nearer to him than you, but you see not, then why do you not if you are exempt from the reckoning and recompense, bring back the soul, if your are truthful? (56:83-87) Thus, Allah similarly says here, كَلَّ إِذَا بَلَغَتْ التَّرَاقِيَ وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ
جب ہماری روح حلق تک پہنچ جاتی ہے اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے یہاں موت کا اور سکرات کی کیفیت کا بیان ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس وقت حق پر ثابت قدم رکھے ۔ ( کلا ) کو اگر یہاں ڈانٹ کے معنی میں لیا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ اے ابن آدم تو جو میری خبروں کو جھٹلاتا ہے یہ درست نہیں بلکہ ان کے مقدمات تو تو روزمرہ کھلم کھلا دیکھ رہا ہے اور اگر اس لفظ کو ( حقا ) کے معنی میں لیں تو مطلب اور زیادہ ظاہر ہے یعنی یہ بات یقینی ہے کہ جب تیری روح تیرے جسم سے نکلنے لگے اور تیرے نرخرے تک پہنچ جائے ( تراقی ) جمع ہے ( ترقوۃ ) کی ان ہڈیوں کو کہتے ہیں جو سینے پر اور مونڈھوں کے درمیان میں ہیں جسے ہانس کی ہڈی کہتے ہیں ، جیسے اور جگہ ہے ( فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ 83ۙ ) 56- الواقعة:83 ) فرمایا ہے یعنی جبکہ روح حلق تک پہنچ جائے اور تم دیکھ رہے ہو اور ہم تم سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے پس اگر تم حکم الٰہی کے ماتحت نہیں ہو اور اپنے اس قول میں سچے ہو تو اس روح کو کیوں نہیں لوٹا لاتے؟ اس مقام پر اس حدیث پر بھی نظر ڈال لی جائے جو بشر بن حجاج کی روایت سے سورہ یٰسین کی تفسیر میں گذر چکی ہے ، ( تراقی ) جو جمع ہے ( ترقوہ ) کی ان ہڈیوں کو کہتے ہیں جو ( حلقوم ) کے قریب ہیں اس وقت ہائی دہائی ہوتی ہے کہ کوئی ہے جو جھاڑ پھونک کرے یعنی کسی طبیب وغیرہ کے ذریعہ شفا ہو سکتی ہے؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہے یعنی اس روح کو لے کر کون چڑھے گا رحمت کے فرشتے یا عذاب کے؟ اور پنڈلی سے پنڈلی کے رگڑا کھانے کا ایک مطلب تو حضرت ابن عباس وغیرہ سے یہ مروی ہے کہ دنیا اور آخرت اس پر جمع ہو جاتی ہے دنیا کا آخری دن ہوتا ہے اور آخرت کا پہلا دن ہوتا ہے جس سے سختی اور سخت ہو جاتی ہے مگر جس پر رب رحیم کا رحم و کرم ہو ، دوسرا مطلب حضرت عکرمہ سے یہ مروی ہے کہ ایک بہت بڑا امیر دوسرے بہت بڑے امیر سے مل جاتا ہے بلا پر بلا آجاتی ہے ، تیسرا مطلب حضرت حسن بصری وغیرہ سے مروی ہے کہ خود مرنے والے کی بےقراری ، شدت درد سے پاؤں پر پاؤں کا چڑھ جانا مراد ہے ۔ پہلے تو ان پیروں پر چلتا پھرتا تھا اب ان میں جان کہاں؟ اور یہ بھی مروی ہے کہ کفن کے وقت پنڈلی سے پنڈلی کا مل جانا مراد ہے ، چوتھا مطلب حضرت ضحاک سے یہ بھی مروی ہے کہ دو کام دو طرف جمع ہو جاتے ہیں ادھر تو لوگ اس کے جسم کو نہلا دھلا کر سپرد خاک کرنے کو تیار ہیں ادھر فرشتے اس کی روح لے جانے میں مشغول ہیں اگر نیک ہے تو عمدہ تیاری اور دھوم کے ساتھ اگر بد ہے تو نہایت ہی برائی اور بدتر حالت کے ساتھ اب لوٹنے ، قرار پانے ، رہنے سہنے ، پہنچ جانے کھچ کر اور چل کر پہنچنے کی جگہ اللہ ہی کی طرف ہے روح آسمان کی طرف چڑھائی جاتی ہے پھر وہاں سے حکم ہوتا ہے کہ اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ میں نے ان سب کو اسی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹا کر لے جاؤں گا اور پھر اسی سے انہیں دوبارہ نکالوں گا ، جیسے کہ حضرات براء کی مطول حدیث میں آیا ہے ، یہی مضمون اور جگہ بیان ہوا ہے آیت ( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً ۭﱑ اِذَا جَاۗءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ 61 ) 6- الانعام:61 ) ، وہی اپنے بندوں پر غالب ہے وہی تمہاری حفاظت کے لئے تمہارے پاس فرشتے بھیجتا ہے یہاں تک کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اسے فوت کر لیتے ہیں اور وہ کوئی قصور نہیں کرتے پھر سب کے سب اپنے سچے مولا کی طرف لوٹائے جاتے ہیں یقین مانو کہ حکم اسی کا چلتا ہے اور وہ سب سے جلد حساب لینے والا ہے ۔ پھر اس کافر انسان کا حال بیان ہو رہا ہے جو اپنے دل اور عقیدے سے حق کا جھٹلانے والا اور اپنے بدن اور عمل سے حق سے روگردانی کرنے والا تھا جس کا ظاہر باطن برباد ہو چکا تھا اور کوئی بھلائی اس میں باقی نہیں رہی تھی ، نہ وہ اللہ کی باتوں کی دل سے تصدیق کرتا تھا نہ جسم سے عبادت اللہ بجا لاتا تھا یہاں تک کہ نماز کا بھی چور تھا ، ہاں جھٹلانے اور منہ مڑونے میں بےباک تھا اور اپنے اس ناکارہ عمل پر اتراتا اور پھولتا ہوا بےہمتی اور بدعملی کے ساتھ اپنے والوں میں جا ملتا تھا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوْا فَكِهِيْنَ 31ڮ ) 83- المطففين:31 ) یعنی جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے ہیں تو خوب باتیں بناتے ہوئے مزے کرتے ہوئے خوش خوش جاتے ہیں اور جگہ ہے آیت ( انہ کان فی اھلہ مسروراً ) یعنی یہ اپنے گھرانے والوں میں شادمان تھا اور سمجھ رہا تھا کہ اللہ کی طرف اسے لوٹنا ہی نہیں ۔ اس کا یہ خیال محض غلط تھا اس کے رب کی نگاہیں اس پر تھیں ، پھر اسے اللہ تبارک و تعالیٰ دھمکاتا ہے اور ڈر سناتا ہے اور فرماتا ہے خرابی ہو تجھے اللہ کے ساتھ کفر کر کے پھر اتراتا ہے ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( ذُقْ ڌ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيْمُ 49 ) 44- الدخان:49 ) یعنی قیامت کے دن کافر سے بطور ڈانٹ اور حقارت کے کہا جائے گا کہ لے اب مزہ چکھ تو تو بڑی عزت اور بزرگی والا تھا اور فرمان ہے آیت ( كُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِيْلًا اِنَّكُمْ مُّجْرِمُوْنَ 46 ) 77- المرسلات:46 ) کچھ کھا پی لو آخر تو بدکار گنہگار ہو اور جگہ ہے آیت ( فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ ۭ قُلْ اِنَّ الْخٰسِرِيْنَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَهُمْ وَاَهْلِيْهِمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ اَلَا ذٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُ 15 ) 39- الزمر:15 ) جاؤ اللہ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو وغیرہ وغیرہ غرض یہ ہے کہ ان تمام جگہوں میں یہ احکام بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہیں ۔ حضرت سعید بن جبیر سے جب یہ آیت ( اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى 34ۙ ) 75- القيامة:34 ) ، کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ابو جہل کو فرمایا تھا پھر قرآن میں بھی یہی الفاظ نازل ہوئے ، حضرت ابن عباس سے بھی اسی کے قریب قریب نسائی میں موجود ہے ، ابن ابی حاتم میں حضرت قتادہ کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر اس دشمن رب نے کہا کہ کیا تو مجھے دھمکاتا ہے؟ اللہ کی قسم تو اور تیرا رب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان چلنے والوں میں سب سے زیادہ ذی عزت میں ہوں ۔ کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا ؟ اسے کوئی حکم اور کسی چیز کی ممانعت نہ کی جائے گی؟ ایسا ہرگز نہیں بلکہ دنیا میں اسے حکم و ممانعت اور آخرت میں اپنے اپنے اعمال کے بموجب جزاء و سزا ضرور ملے گی ، مقصود یہاں پر قیامت کا اثبات اور منکرین قیامت کا رد ہے ، اسی لئے دلیل کے طور پر کہا جاتا ہے کہ انسان دراصل نطفہ کی شکل میں بےجان و بےبنیاد تھا پانی کا ذلیل قطرہ تھا جو پیٹھ سے رحم میں آیا پھر خون کی پھٹکی بنی ، پھر گوشت کا لوتھڑا ہوا ، پھر اللہ تعالیٰ نے شکل و صورت دے کر روح پھونکی اور سالم اعضاء والا انسان بنا کر مرد یا عورت کی صورت میں پیدا کیا ۔ کیا اللہ جس نے نطفہ ضعیف کو ایسا صحیح القامت قوی انسان بنا دیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اسے فنا کر کے پھر دوبارہ پیدا کر دے؟ یقیناً پہلی مرتبہ کا پیدا کرنے والا دوبارہ بنانے پر بہت زیادہ اور بطور اولیٰ قادر ہے ، یا کم از کم اتنا ہی جتنا پہلی مرتبہ تھا ۔ جیسے فرمایا ( وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ 27ۧ ) 30- الروم:27 ) اس نے ابتدا پیدا کیا وہی پھر لوٹائے گا اور وہ اس پر بہت زیادہ آسان ہے ۔ اس آیت کے مطلب میں بھی دو قول ہیں ، لیکن پہلا قول ہی زیادہ مشہور ہے جیسے کہ سورہ روم کی تفسیر میں اس کا بیان اور تقریر گذر چکی واللہ اعلم ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی چھت پر بہ آواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے تھے جب اس سورت کی آخری آیت کی تلاوت کی تو فرمایا ( سبحانک اللھم قبلی ) یعنی اے اللہ تو پاک ہے اور بیشک قادر ہے ، لوگوں نے اس کہنے کا باعث پوچھا تو فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کا یہی جواب دیتے ہوئے سنا ہے ابو داؤد میں بھی یہ حدیث ہے ، لیکن دونوں کتابوں میں اس صحابی کا نام نہیں گو یہ نام نہ ہونا مضر نہیں ، ابو داؤد کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص تم میں سے سورہ والتین کی آخری آیت ( اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ Ďۧ ) 95- التين:8 ) پڑھے وہ ( بلا وانا علی ذالک من الشاھدین ) کہے یعنی ہاں اور میں بھی اس پر گواہ ہوں اور جو شخص سورہ قیامت کی آخری آیت ( اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى 40ۧ ) 75- القيامة:40 ) پڑھے تو وہ کہے ( بلی ) اور جو سورہ والمرسلات کی آخری آیت ( فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ 50ۧ ) 77- المرسلات:50 ) پڑھے وہ ( امنا باللہ ) کہے یہ حدیث مسند احمد اور ترمذی میں بھی ہے ، ابن جریر میں حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آخری آیت کے بعد فرماتے ( سبحانک وبلی ) حضرت ابن عباس سے اس آیت کے جواب میں یہ کہنا ابن ابی حاتم میں مروی ہے ۔ سورہ قیامہ کی تفسیر الحمد اللہ ختم ہوئی ۔
26۔ 1 یعنی یہ ممکن نہیں کہ کافر قیامت پر ایمان لے آئیں۔ 26۔ 2 گردن کے قریب، سینے اور کندھے کے درمیان ایک ہڈی ہے، یعنی جب موت آئے گی آہنی پنجہ تمہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔
[١٦] یعنی خوب سمجھ لو کہ قیامت کا دن کچھ دور نہیں بلکہ اس کا منہ تم اس دنیا میں ہی دیکھ لو گے۔ جب تم مرنے کے قریب ہوتے ہو اور تمہاری جان ہنسلی تک پہنچ جاتی ہے تو سمجھ لو کہ تمہارا سفر آخرت شروع ہوگیا۔
(١) کلا اذا بلغت التراقی…:” بلغت “ کا فاعل ” نفس “ ہے جو محذوف ہے ، یعنی جان ہنسلیوں تک پہنچ جائیگی۔ ” التراقی “ ” ترقوۃ “ کی جمع ہے، سینے کی اوپر والی ہڈی جو گلے کے ساتھ ہے، ہنسلی۔ ” راق “ ” رفی یرفی “ (ض) سے اسم فاعل ہے، دم کرنے والا۔” ظن “ کا معنی گمان کرنا ہے، اگر اس کے بعد ” ان “ ہو تو یقین کے معنی میں بھی آتا ہے۔” المساق “ ” ساق یسوق سوقاً “ (ن) سے مصدر میمی ہے، ہانکنا، چلانا (٢) ” کلا “ نہیں نہیں، یعنی تمہارا جلدی حاصل ہونے والی دنیا سے محبت کرنا اور آخرت کو چھوڑ دینا ہرگز درست نہیں، تمہارے سامنے کتنے لوگ دنیا سے رخصت ہوئے، ان کا آخرت وقت یاد کرو جب جان پیروں سے اور تمام جسم سے نکل کر ہنسلیوں تک پہنچ جاتی ہے اور حکمیوں ڈاکٹروں سے مایوس ہو کر کسی دم کرنے والے کی تلاش شروع ہوتی ہے کہ شاید دم ہی سے اچھا ہوجائے۔ ادھر بیمار کو زندگی سے ناامیدی ہوگئی اور مرنے کا گمان قوی ہوگیا ۔ پکے دنیا داروں کو جان بہت پیاری ہوتی ہے ، وہ مرنا نہیں چاہتے، آخری وقت تک ان کو زندگی کی توقع رہتی ہے، اس لئے یقین کی جگہ گمان کا لفظ فرمایا، لیکن آخر یہ گمان یوں بقین کے درجے کو پہنچ گیا کہ پاؤں کا دم نکل گیا، پنڈلیاں سوکھ کر ایک دوسرے سے لپٹ گئیں، یہاں تک کہ ٹانگوں کو کوئی دوسرا آدھی سیدھا نہ کرے تو سمٹی ہوئی ہی رہ جائیں، آخر سارے جسم میں سے کھینچ کر جان حلق میں آگئی تھی اس نے بھی جسم کو چھوڑ دیا اور پھر اس کی روانگی اس رب تعالیٰ کی طرف ہوگئی جس نے پہلے جسم میں وہ جان ڈلایھی۔ (خلاصہ احسن التفاسیر)
كَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ وَقِيْلَ مَنْ ۫رَاقٍ وَّظَنَّ اَنَّهُ الْفِرَاقُ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ اِلٰى رَبِّكَ يَوْمَىِٕذِۨ الْمَسَاقُ (When the soul [ of a patient ] reaches the clavicles, and it is said, |"Who is an enchanter [ that can save him?] |", and he realizes that it is [ the time on departure [ from the world,] and one shank is intertwined with the other shank, then on that day, it is to your Lord that one has to be driven.... 75:26-30] In the preceding verses, reckoning on the Day of Reckoning and conditions of the inmates of Paradise and Hell were described. In these verses, man&s attention is drawn to his approaching death, which he should not neglect. He should embrace the faith and do deeds of righteousness before death overtakes him, so that he may attain salvation in the Hereafter. The above verse depicts the scene of death. The unmindful man forgets his death until his soul comes up to his collar-bone [ throat ]. The healers fail to heal him, and the people look for enchanters to save him. When one shank is entwined with the other, he realizes that it is the final moments of his parting. At this juncture neither is his repentance acceptable nor a righteous deed. Therefore, it is necessary for a wise person to make amends before this moment arrives. In the statement, وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ (and one shank is intertwined with the other shank) the word saq means &shank&. This statement could mean that, being agitated and restless, he strikes one shank on the other, or rubs one shank against the other. It could also signify that if one leg is placed on the other, and the dying person wants to move it, he would not be able to do so. [ Sha` bi and Hasan have interpreted it in this way ]. Sayyidna Ibn ` Abbas says that the two &shanks& refer to the two worlds: the Here and the Hereafter. The verse signifies &the last day of the days of this world and the first day of the days of the Hereafter; one affliction will be joined to another, and the agony of leaving this world will be joined to the agony of the punishment awaiting the disbeliever in the next world&. And Allah knows best!
كَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ 26ۙوَقِيْلَ مَنْ ۫رَاقٍ 27ۙوَّظَنَّ اَنَّهُ الْفِرَاقُ 28ۙوَالْتَفَّتِ السَّاق بالسَّاقِ 29ۙاِلٰى رَبِّكَ يَوْمَىِٕذِۨ الْمَسَاقُ سابقہ آیات میں قیامت کے حساب کتاب اور اہل جنت و دوزخ کا کچھ حال بیان فرمانے کے بعد اس آیت میں انسان کو متوجہ کیا گیا کہ اپنی موت کو نہ بھولے موت سے پہلے پہلے ایمان اور عمل صاحل کی طرف آجائے تاکہ آخرت میں نجات ملے۔ آیت مذکورہ میں موت کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا کہ غفلت شعار انسان بھول میں رہتا ہے یہاں تک مہ موت سر پر آکھڑی ہو اور روح ترقوہ یعنی گلے کی ہنسلی میں آپھنسے اور تیمار دار لوگ دوا وعلاج سے عاجز ہو کر جھاڑ پھونک کرنے والوں کو تلاش کرنے لگیں اور ایک پاؤں کی پنڈلی دوسری پر لپٹنے لگے تو یہ وقت اللہ کے پاس جانیکا آگیا۔ اب نہ توبہ قبول ہوتی ہے نہ کوئی عمل اسلئے عقلمند پر لازم ہے کہ اس وقت سے پہلے اصلاح کی فکر کرے والْتَفَّتِ السَّاق بالسَّاق میں لفظ ساق کے مشہور معنے پاؤں کی پنڈلی کے ہیں اور پنڈلی کے ایک دوسرے پر لپٹنے کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت اضطراب اور بےچینی سے ایک پنڈلی دوسری پر مارتا ہے اور یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ اس وقت اگر ایک پاؤں دوسرے پر رکھا ہوا ہے اور اس کو حرکت دے کر ہٹانا چاہتا ہے تو وہ اس کی قدرت میں نہیں ہوتا (کما قال الشعبی والحسن) اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ یہاں دو ساقوں سے مراد دو عالم دنیا وآخرت کے ہیں اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ اس وقت دنیا کا آخری دن اور آخرت کا پہلا دن جمع ہوا ہے اسلئے دوہری مصیبت میں گرفتار ہے دنیا سے جدائی کا غم اور آخرت کے معاملے کی فکر۔ واللہ اعلم
كَلَّآ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَ ٢٦ ۙ كلا كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] . کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ رقی رَقِيتُ في الدّرج والسّلم أَرْقَى رُقِيّاً ، ارْتَقَيْتُ أيضا . قال تعالی: فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص/ 10] ، وقیل : ارْقَ علی ظلعک أي : اصعد وإن كنت ظالعا . ورَقَيْتُ من الرُّقْيَةِ. وقیل : كيف رَقْيُكَ ورُقْيَتُكَ ، فالأوّل المصدر، والثاني الاسم . قال تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ [ الإسراء/ 93] ، أي : لرقیتک، وقوله تعالی: وَقِيلَ مَنْ راقٍ [ القیامة/ 27] ، أي : من يَرْقِيهِ تنبيها أنه لا رَاقِي يَرْقِيهِ فيحميه، وذلک إشارة إلى نحو ما قال الشاعر : وإذا المنيّة أنشبت أظفارها ... ألفیت کلّ تمیمة لا تنفعم وقال ابن عباس : معناه من يَرْقَى بروحه، أملائكة الرّحمة أم ملائكة العذاب والتَّرْقُوَةُ : مقدّم الحلق في أعلی الصّدر حيث ما يَتَرَقَّى فيه النّفس كَلَّا إِذا بَلَغَتِ التَّراقِيَ [ القیامة/ 26] . ( ر ق ی ) رقی ( س ) رقیا ۔ فی السلم کے معنی سیڑھی پر چڑھنے کے ہیں اور ارتقی ( افتعال ) بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآں میں ہے :۔ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص/ 10] تو ان کو چاہیے کہ سیڑھیاں لگا کر آسمان پر چڑھیں ۔ مثل مشہور ہے :۔ ارق علی ظلعک یعنی اپنی طاقت کے مطابق چلو اور طاقت سے زیادہ اپنے آپ پر بوجھ نہ ڈالو ۔ اور رقیت بمعنی رقیہ یعنی افسوس کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ؛کیف رقیک اور قیتک کہ تمہارا افسوس کیسا ہے ۔ اس میں رقی مصدر ہے اور رقیۃ اسم اور آیت کریمہ : لَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ [ الإسراء/ 93] یعنی ہم تیرے افسوں پر یقین کرنے والے نہیں ہیں ۔ میں رقی بمعنی رقیۃ کے ہے ۔ اور آیت ؛۔ وَقِيلَ مَنْ راقٍ [ القیامة/ 27] اور کون افسوں کرے ۔ میں اسے بات پر تنبیہ ہے کہ اس وقت جھاڑ پھونک سے کوئی اس کی جان نہیں بچا سکے گا ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) (190) وإذا المنيّة أنشبت أظفارها ... ألفیت کلّ تمیمة لا تنفع کہ جب موت اپنا پنجہ گاڑ دیتی ہے ۔ تو کوئی افسوں کارگر نہیں ہوتا ۔ ابن عباس نے من راق کے معنی کئے ہیں کہ کونسے فرشتے اس کی روح لے کر اوپر جائیں یعنی ملائکہ رحمت یا ملائکہ عذاب ۔ الترقوۃ ہنسلی کی ہڈی کو کہتے ہیں اس لحاظ سے کہ سانس پھول کر وہیں تک چڑھتی ہے اس کی جمع تراقی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَلَّا إِذا بَلَغَتِ التَّراقِيَ [ القیامة/ 26] سنوجی ! جب جان بدن سے نکل کر گلے تک پہنچ جائیگی ۔
(٢٦۔ ٣٠) ہرگز ایسا نہیں جب جان ہنسلی تک پہنچ جاتی ہے اور حاضرین سے کہتا ہے کہ کوئی دوا دارو کرنے والا ہے یا یہ کہ فرشتے آپس میں کہتے ہیں کہ کون اس کی روح اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والا ہے اور اس وقت مردہ یقین کرلیتا ہے کہ یہ جدائی کا وقت ہے اور دنیاوی آخری دن کی سختی آخرت کے پہلے دن کی سختی کے ساتھ مل جاتی ہے یا یہ کہ ایک پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ جاتی ہے اور قیامت کے دن تمام مخلوقات کو اپنے پروردگار کی طرف جانا ہے۔
18 The phrase "by no means" relates to the context, and means: "You are wrong in thinking that you will be annihilated after death and you will not return to your Lord. "
سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :18 اس ہر گز نہیں کا تعلق اسی سلسلہ کلام سے ہے جو اوپر سے چلا آ رہا ہے ، یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ تمہیں مر کر فنا ہو جانا ہے اور اپنے رب کے حضور واپس جانا نہیں ہے ۔
٢٦۔ ٤٠۔ اوپر ان اہل دنیا کا ذکر تھا جنہوں نے دنیا کے پیچھے اپنی عقبی کو برباد کردیا ان آیتوں میں انہی لوگوں کے خبردار کرنے کے لئے فرمایا کہ جس طرح ان لوگوں نے خیال کرلیا ہے کہ دنیا ایک پائیدار چیز ہے وہ بات ہرگز نہیں ہے یہ لوگ دنیا کو نہ چھوڑیں دنیا کے پیچھے عمر بھر عقبیٰ کو برباد کریں۔ پھر آخر یہ دنیا کی گرویدگی عقبیٰ کی بربادی کب تک۔ ان کے بڑوں میں سے کوئی ہمیشہ جیا ہے جو یہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ قبر ‘ حشر ‘ قیامت کی باتیں تو بھلا آنکھوں کے سامنے نہیں ہیں کیا کسی کی یہ حالت بھی ان کی آنکھوں کے سامنے نہیں گزری کہ آخری وقت آن پہنچا اور جان سارے جسم میں سے کھنچ کر حلق میں آگئی۔ ایسے حکیم یا جھاڑنے پھونکنے والے کی ڈھونڈیا پڑی جو بیمار کو اچھا کر دے۔ ادھر بیمار کو زندگی سے ناامیدی ہوگئی مرنے کا گمان قوی ہوگیا پکے دنیا داروں کو جان بہت پیاری ہوتی ہے ‘ مرنا نہیں چاہتے آخری وقت تک ان کو زیست کی توقع رہتی ہے۔ اس لئے یقین کی جگہ گمان کا لفظ فرمایا لیکن آخر یہ گمان یوں یقین کے درجے کو پہنچ گیا کہ پیروں کا دم نکل گیا۔ پنڈلیاں بالکل سوکھ گئیں یہاں تک کہ پیروں کو کوئی دوسرا آدمی سیدھا نہ کرے تو سمٹے ہی ہوئے رہ جائیں۔ آخر سارے جسم سے کھنچ کر جو جان حلق میں آگئی تھی اس نے بھی جسم کو چھوڑ دیا۔ اور پھر اس جان کا پالا اس پروردگار سے پڑا جس نے پہلے جسم میں جان ڈالی تھی۔ مسند ١ ؎ امام احمد ابو داؤود وغیرہ میں براء بن عازب (رض) سے روایت ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نیک آدمی کی روح جب جسم سے نہایت آسانی کے ساتھ نکل جاتی ہے تو اس کو ساتویں آسمان پر فرشتے لے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے کہ اس کا نام اس دفتر میں لکھ لو جس کا نام علیین ہے اور روح کو منکر نکیر کے سوال و جواب کے لئے زمین پر پھر لے جائو۔ اور مردے کے جسم میں اس کو جانے دو ۔ اور بد آدمی کی روح کو جب اول آسمان تک فرشتے لے جاتے ہیں تو اس کو آسمان پر لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ یہیں سے سجین میں اس کا نام لکھ لینے کا حکم ہوتا ہے اور روح کو منکر نکیر کے سوال و جواب کے لئے مردے کے جسم میں چھوڑ دیا جاتا ہے منذری ٢ ؎ نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اکثر سلف کا قول ہے کہ علیین ساتویں آسمان پر ایک دفتر ہے جس میں نیک روحیں اور ان کے اعمال نامے ہیں اور سجین ساتوں زمین پر ایک دفتر ہے جس میں بد روحیں اور ان کے اعمال نامے ہیں۔ اس حدیث سے آیت کی یہ تفسیر معلوم ہوگئی کہ جسم سے نکلتے ہی نیک و بد روح کا پالا اللہ تعالیٰ سے کیونکر پڑتا ہے اب ایسے لوگوں کی شان میں آخر سورة تک آیتیں نازل فرمائیں جو اہل مکہ میں منکر حشر تھے اور یہ کہتے تھے کہ بوسیدہ ہڈیاں دوبارہ کیونکر پیدا ہوجائیں گی۔ ان کے حال میں یہ فرمایا کہ یہ لوگ نادانی سے ایسی باتوں کے منکر ہیں جن باتوں کی صداقت ہر عقل مند کے دل میں ہونی چاہئے۔ جیسے مثلاً یہ بات کہ جس قادر مطلق نے پانی جیسی پتلی چیز منی سے آدمی کی ہڈیاں پسلی آنکھ ناک غرض سارا پتلا بنا دیا اور رحم جیسی تنگ جگہ میں روح کا تعلق اس جسم سے کردیا جس سے روح کو کبھی پہلے کچھ واسطہ نہ تھا اس کی قدرت سے یہ کیا بعید ہے کہ مٹی جیسی پرکار چیز سے آدم (علیہ السلام) کے پتلے کی طرح خاک کا پتلا بنا کر کھلے میدان میں روح کا اس پتلے سے تعلق کر دے جس پتلے اور روح میں ہر شخص کی عمر کی مدت تک تعلق پہلے دنیا میں رہ چکا ہے۔ اسی طرح یہ بات ہر عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ جس اللہ نے انسان کو انسان کی زندگی سے قائم رہنے کے ہر ایک طرح کے سامان کو پیدا کیا اس اللہ کی تعظیم انسان پر لازم ہے برعکس اس کے یہ لوگ بتوں کی تعظیم کرتے ہیں اور خالص اللہ کی تعظیم میں ایک سجدہ تک ان سے ادا نہیں ہوسکتا اور اسی طرح ہر شخص سمجھ دار سمجھ سکتا ہے کہ انسان جب ایسی حقیر چیز سے پیدا ہوا ہے تو اس کی کوئی چیز اترانے کے لائق نہیں ہے۔ برخلاف اس کے بازار وغیرہ میں جب یہ لوگ کسی شخص کو اپنے سے کم درجہ کا خیال کرکے اپنے گھر کی طرف مڑتے ہیں تو ایسے مغروروں کی چال سے اتراتے ہوئے گھر تک پہنچتے ہیں کہ ان میں کا ہر شخص گویا کہ فرعون ہے۔ آگے چار دفعہ تاکید سے یہ جو فرمایا ” تیری خرابی ہے۔ “ اس کی شان نزول نسائی ‘ تفسیر ١ ؎ ابن جریر وغیرہ میں معتبر سند سے حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت سے یہ ہے کہ ابوجہل کی طرح طرح کی شرارتوں کے سبب سے ایک روز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوجہل کی چادر کا پلو پکڑ کر یہی لفظ فرمائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے کلام کی صداقت کے طور پر یہی لفظ ان آیتوں میں نازل فرمائے۔ حاکم ٢ ؎ نے اس شان نزول کو صحیح کہا ہے۔ اللہ سچا ہے اللہ کا کلام سچا ہے۔ بدر کی لڑائی کے وقت ابوجہل کی جو خرابی پیش آئی اس کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ لفظ خاص ابوجہل کے حق میں فرمائے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسان کے عام طور کے ذکر میں یہ لفظ اس لئے فرمائے تاکہ معلوم ہوجائے کہ یہ خرابی کچھ ابوجہل پر منحصر نہیں ہے بلکہ جو شخص ابوجہل کی سی عادتوں کا ہوگا اس کے پیچھے یہ دونوں جہان کی خرابی لگی ہوئی ہے پھر فرمایا کہ اس نادان انسان نے یہ گمان کا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بےفائدہ پیدا کیا ہے۔ دنیا میں نہ کسی نیک کام کرنے کی اس کو تاکید کی جائے گی نہ کسی بد کام سے اسے روکا جائے گا۔ پھر دنیا کا معاملہ دنیا پر ہی ختم کرکے نہ اس کو پھر دوبارہ پیدا کیا جائے گا نہ نیک و بد کی کچھ جزا و سزا دی جائے گی اس نادان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر دنیا کا معاملہ دنیا پر ختم رہے تو دنیا کا پیدا کرنا بالکل بلا نتیجہ رہے گا جو اللہ کی حکمت سے سرتا پا بعید ہے اسی طرح اس نادان کو یہ بھی سمجھنا چاہئے کہ جس قادر مطلق نے اس طرح خلاف عقل ایک قطرہ پانی سے انسان کو سب کی آنکھوں کے سامنے پیدا کیا پھر یہ تو تجربہ انسانی کی بات ہے کہ جو کام ایک دفعہ کرلیا گیا پھر دوبارہ اس کا کرنا نہایت سہل ہوجاتا ہے چند روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورة کے ختم کے بعد لفظ بلیٰ کا کہنا سنت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہاں اللہ تعالیٰ انسان کے دوبارہ پیدا کرنے پر ضرور قادر ہے کیونکہ اس کی قدرت سے کوئی بات نہیں ہے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ شریف باب فیما یقال عند من حضرہ الموت الفصل الثالث ص ١٤٢ ) (٢ ؎ اترغیب والترہیب فصل فے عذاب القبر ونعیمہ الخ ص ٧١٠ ج ٤۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٤٥٢ ج ٤۔ ) (٢ ؎ تفسیر الدرالمنثور ص ٢٩٦ ج ٦۔ )
(75:26) کلا : یہ تحبوب العاجلۃ وتذرون الاخرۃ سے باز داشت ہے۔ علامہ پانی پتی لکھتے ہیں :۔ یہ آخرت پر دینا کو ترجیح دینے سے بازداشت ہے۔ گویا یوں کہا گیا ہے دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے سے باز رہو۔ موت کو یاد کرو، موت کے وقت دینا ختم ہوجائے گی۔ اور غیر فانی آخرت سامنے آجائے گی۔ اذا بلغت التراقی : اذا شرطیہ ہے اور الی ربک ۔۔ جزاء ہے بلغت ماضی واحد مؤنث غائب بلوغ (باب نصر) مصدر۔ وہ پہنچی، بلغت کا فاعل نفس محذوف ہے التراقی ترقوۃ کی جمع ہے بمعنی ہنسلی۔ ہنسلی کی ہڈیاں۔ ہنسلی کی ہڈیوں تک جان کا آجانا موت کا قریب آجانا ہے۔
یہ موت کا منظر ہے اور یہ نص قرآنی اسے یوں پیش کررہا ہے گویا وہ آنکھوں کے سامنے ہے۔ یہ منظر آنکھوں کے سامنے یوں آرہا ہے جس طرح مصور کے قلم سے رنگ نکلتے ہی تصویر کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ کلا اذا ................ التراقی (75:26) ” ہرگز نہیں ، جب جان حلق تک پہنچ جائے “۔ جب روح حلق تک آجائے تو اس وقت انسان کی زندگی کے آخری لمحات ہوتے ہیں۔ ان لمحات میں انسان پر ذہول اور مدہوشی طاری ہوجاتی ہے۔ انسان پر شدت کی ایسی حالت طاری ہوجاتی ہے کہ نظریں ٹکٹی باندھ لیتی ہیں اور جس کی موت وقاع ہورہی ہوتی ہے ، اس کے ارد گرد دوست و رشتہ دار جمع ہوجاتے ہیں اور مرنے والے کو بچانے کے لئے ہر حیلہ اور ہر وسیلہ اختیار کرتے ہیں۔ وقیل من راق (75:27) ” کہا جائے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا “۔ شاید بطور آخری چارہ کار یہ دم درود اور جھاڑ پھونک ہی مفیدہوجائے اور جس شخص پر موت کی حالت طاری ہے شاید یہ اس سے واپس آجائے اور آخری حالت۔
كَلَّاۤ یہ بات ہرگز ٹھیک نہیں ہے کہ دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتے رہو، بلکہ موت کے و قت کے لیے اور موت کے بعد کے حالات کے لیے فکر مند رہنا ضروری ہے۔ یہ دنیا بہر حال چھوٹ جانے والی ہے۔ ﴿اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِيَۙ٠٠٢٦﴾ جب ہنسلیوں تک پہنچ جائے (یعنی روح نکلنے لگے) ﴿وَ قِيْلَ مَنْٚ رَاقٍۙ٠٠٢٧﴾ (اور یوں کہا جائے کہ جھاڑ پھونک کرنے والا کون ہے یعنی پاس کے بیٹھنے والے تیمار دار عزیز قریبی سوچنے لگیں کہ کوئی علاج کرنے والا ہے) ۔ ﴿ وَّ ظَنَّ اَنَّهُ الْفِرَاقُۙ٠٠٢٨﴾ (اور یہ یقین کرلے گا کہ اب جدائی ہے) یعنی جس کی روح ہنسلیوں تک پہنچی اس کے تیمار دار تو معالج کی تلاش میں لگ جاتے ہیں اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ اب میرا چل چلاؤ ہے روح جسم سے جدا ہو رہی ہے۔ ﴿ وَ الْتَفَّتِ السَّاق بالسَّاقِۙ٠٠٢٩﴾ (اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ جائے) جیسا کہ بعض مرنے والوں کا سکرات موت کے وقت ایسا حال بن جاتا ہے۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے پنڈلی کا لپٹنا ہی مراد نہیں بلکہ نزع کے احوال اور سکرات مراد ہیں چونکہ سب سے پہلے پنڈلیوں سے روح نکلتی ہے اور یہ دونوں ٹھنڈی پڑجاتی ہیں اور خشک ہوجاتی ہیں اسی لیے ان کا تذکرہ فرمایا ﴿ اِلٰى رَبِّكَ يَوْمَىِٕذِ ا۟لْمَسَاقُ ٢ؕ (رح) ٠٠٣٠﴾ (اس دن تیرے رب کی طرف چلا جانا ہے) ۔ یعنی جس وقت مذکورہ بالا حالات انسان پر گزرتے ہیں اس وقت دنیا اور اہل دنیا سے کٹ کر انسان اپنے رب کی طرف چل دیتا ہے یعنی کوئی معاون و مددگار نہیں رہتا اللہ تعالیٰ ہی کے فیصلے نافذ ہوتے ہیں جنت ملتی ہے یا دوزخ میں جاتا ہے اللہ تعالیٰ ہی اس کا فیصلہ فرما دے گا۔ قال صاحب الروح وتقدیم الخبر للحصر والکلام علی تقدیر مضافٍ ھو حکم وقیل ھو موعدٌ والمراد بہ الجنة او النار والمساق مصدر میمیٌ کالمقال قولہ تعالیٰ ﴿ التَّرَاقِيَ﴾ ای اعالی الصدورھی العظام المکتنفة صغرة النحر عن یمین و شمال جمع ترقوة (من روح المعانی) ۔
11:۔ ” کلا اذا “ کلا حرف ردع ہے اور بل تحبون العاجلۃ سے متعلق ہے یعنی دنیا سے محبت نہ کرو اور آخرت کی فکر کرو۔ یا بمعنی حقا ہے اور الی ربک یومئذن المساق سے متعقل ہے ای حقا ان المساق الی اللہ (قرطبی) ۔ مَنْ پر سکتہ ہے جب انسان کی روح موت کے وقت ہنسلیوں تک آپہنچے گی تو اس کے پاس موجود لوگ کہیں گے کون کون ؟ وہ کہے گا کوئی ہے دم اور جھاڑ پھونک جاننے والا جو اس وقت اس مصیبت سے بچا سکے۔ اور اس کو یقین ہوجائے گا کہ اب دنیا سے اٹھنے اور اعزہ و اقارب سے جدا ہونے کا وقت ہے اب اس کی پنڈلی پنڈلی کے ساتھ جڑ جائے گی یقینا یہ دن خدا کی طرف کوچ اور روانگی کا دن ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیل من کا قائل اور ہے اور راق کا قائل اور ہے۔
(26) ہرگز ایسا نہیں جب جان گلے کی ہنسلی تک پہنچ جاتی ہے یعنی قیامت کا ہرگز انکار نہ کردیا دنیا سے ہرگز محبت نہ کرو یہ مرنے کے وقت کام آنے والی نہیں چناچہ جب جان تمام بدن سے سمٹ کر ہنسلی میں پہنچ جائے اور ہنسلی تک جا پہنچے تراقی سینے اور گلے کی ہڈیوں کو کہتے ہیں گویا مرنیوالے کا آخری وقت۔ تراقی وھی العظام المکتنفۃ لثغرۃ السنحرعن یمین و شمال۔