Surat ul Qiyama

Surah: 75

Verse: 7

سورة القيامة

فَاِذَا بَرِقَ الۡبَصَرُ ۙ﴿۷﴾

So when vision is dazzled

پس جس وقت کہ نگاہ پتھرا جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So, when Bariqa the sight. Abu `Amr bin Al-`Ala' recited this Ayah as Bariqa with a Kasrah under the letter Ra, which means to be diminished. That which he (Abu `Amr) has said resembles the statement of Allah, لااَ يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ Their gaze returning not towards them. (14:43) meaning, they will be looking this way and that way in horror. Their gaze will not be able to rest upon anything due to the severity of the terror on that Day. Others recited it as Baraqa with a Fathah over the letter Ra, and its meaning is close to the first recitation (Bariqa). The intent here is that the eyes will be dazzled, humbled, diminished, and humiliated on the Day of Judgement due to the severity of the horrors and the greatness of the matters that they will witness on that Day. Concerning Allah's statement, وَخَسَفَ الْقَمَرُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 دہشت اور حیرانی سے جیسے موت کے وقت عام طور پر ہوتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] یعنی جب نظام کائنات درہم برہم ہوگا تو کئی طرح کے دھماکے ہوں گے، گرج بھی پیدا ہوگی اور بجلی بھی جس سے انسان کی آنکھیں خیرہ ہوجائیں گی۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان دہشت انگیز نظاروں کو دیکھ کر انسان کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فاذا برق البصر :” برق البصر “ (س، ن)” برفا و بروفا “ آکھ کا حیرت سے کھلا رہ جانا یا دہشت زدہ ہو کر کچھ نہ دیکھ سکنا۔ (قاموس) (رض) عنہمانے قیامت کی تاریخ اور قیامت کے متعلق بتانے کے بجائے اس دن واقع ہونے والی چند چیزیں بیان فرما دیں۔ ” فاذا برق البصر “ یعنی قیامت کے دن کے عجیب و غریب حوادث و واقعات کو دیکھ کر آنکھیں حیرت سے کھلی رہ جائیں گی اور خوف و دہشت کے مارے ان سے کچھ دکھائی نہ دے گا، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ولا تحسبن اللہ غافلاً عما یعمل الظلمون، انما یوخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار مھطعین مقنعی رء و سھم لایرتد الیھم طرفھم ، وافدتھم ھوآئ) (ابراہیم)” اور تو ہرگز خیال نہ کر کہ اللہ ان کاموں سے بیخبر ہے جو ظالم لوگ کر رہے ہیں، وہ تو انہیں صرف اس دن کے لئے مہلت دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔ حال یہ ہوگا کہ سر اٹھائے ہوئے تیز بھاگ رہے ہوں گے، ان کی نگاہیں ان کی طرف لوٹ کر نہیں ائٓیں گی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (So, when the eyes will be dazzled, and the moon will lose its light, and the sun and the moon will be joined together,...75:7-9). This describes the scenes of the Resurrection. The verb bariqa means for the eyes &to be dazzled and unable to see&. On the Day of Resurrection, the eyes of all will be dazzled and will not be able to see consistently. The verb khasafa is derived from khusuf which means &to lose light and become dark&. The verse purports to say that the moon will lose its light or will be eclipsed. The statement that &the sun and the moon will be joined together& signifies that not only the moon will lose its light, but also the sun will be eclipsed. Astronomers have discovered that the sun has the original light, and the light of the moon is borrowed from the sun. Allah says that the sun and the moon on the Day of Resurrection will be fused together, so that they both will lose their lights. Some scholars interpret this statement to mean that on that Day the sun and the moon will rise from the same point, as some narratives report. And Allah know best!

فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ ۝ ۙوَخَسَفَ الْقَمَرُ ۝ ۙوَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ یہ قیامت کے حالات کا بیان ہے برق بفتح البا و کسر را کے معنی آنکھ خیرہ ہوگی کہ دیکھ نہ سکیں۔ قیامت کے روز سب کی نگاہیں خیرہ ہوجائیں گی، نگاہ جما کر کسی چیز کو نہ دیکھ سکیں گی۔ خسف القمر خسوف سے مشتق ہے جس کے معنی روشنی ختم ہو کر تاریکی ہوجانے کے ہیں۔ معنے یہ ہیں کہ چاند بےنور ہوجائے گا۔ آگے وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ میں یہ بتلایا کہ صرف چاند ہی بےنور نہیں ہوگا بلکہ آفتاب بھی بےنور ہوجائے گا جس کے متعلق دنیا کے فلاسفہ کا یہ کہنا ہے کہ اصل روشنی آفتاب میں ہے۔ چاند کی روشنی بھی آفتاب کی شعاعوں سے مستفاد ہے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ قیامت کے روز یہ چاند اور سورج دونوں ایک ہی حال میں جمع کردیئے جاویں گے کہ دونوں بےنور ہوں گے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ چاند سورج کے جمع ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ اس روز چاند اور سورج دونوں ایک ہی مطلع سے طلوع ہوں گے جیسا کہ بعض مقامات میں آیا ہے واللہ اعلم

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ۝ ٧ ۙ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ برق البَرْقُ : لمعان السحاب، قال تعالی: فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة/ 19] ( ب رق ) البرق کے معنی بادل کی چمک کے ہیں قرآن میں ہے : فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة/ 19] اس میں اندھیرے پر اندھیرا چھارہا ) ہو اور بادل ) گرج ( رہا ) ہو اور بجلی کوند رہی ہو ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 Literally, the words bariq al-basaru mean dazzling of the eyes by lightning, but in the Arabic idiom these words do not specifically carry this meaning only but are also used for man's being terror-stricken and amazed, or his being confounded on meeting with an accident suddenly and his eyes being dazed at some distressing sight before him. This subject has been expressed at another place in the Qur'an, thus; "AIlah is only deferring their case to the Day when the eyes shall stare with consternation." (Ibrahim: 42) .

سورة الْقِیٰمَة حاشیہ نمبر :7 اصل میں برق البصر کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے لغوی معنی بجلی کی چمک سے آنکھوں کے چندھیا جانے کے ہیں ۔ لیکن عربی محاورے میں یہ الفاظ اسی معنی کے لیے مخصوص نہیں ہیں بلکہ خوف زدگی ، حیرت یا کسی اچانک حادثہ سے دو چار ہو جانے کی صورت میں اگر آدمی ہک دک رہ جائے اور اس کی نگاہ اس پریشان کن منظر کی طرف جم کر رہ جائے جو اس کو نظر آ رہا ہو تو اس کے لیے بھی یہ الفاظ بولے جاتے ہیں ۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے: انما یوخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار ، اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اس دن کے لیے جب آنکھیں پھٹی پھٹی رہ جائیں گی ( ابراہیم ، 42 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(75ـ:7) فاذا برق البصر : ف جواب کا ہے ۔ یہ آیت اور اگلی دو آیات انسان کے سوال ایان یوم القیمۃ کے جواب میں ہیں۔ برق ماضی واحد مذکر غائب برق (باب سمع) مصدر سے ، جس کے معنی نظر کے متحیر اور خیرہ ہونے کے ہیں۔ برق کے معنی بجلی کے ہیں اور اسی اعتبار سے اس کے معنی چمکنے کے آنے لگے لیکن جب آنکھ کے ساتھ اس کا استعمال ہو تو اس کے معنی خوف سے پتلیوں کے پھرنے اور نظر کے خیرہ ہونے کے آتے ہیں۔ ترجمہ ہوگا :۔ پھر جب نظر چندھیا جائے گی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاذا ............................................ المفر (75:7 تا 10) ” پھر جب دیدے پتھرا جائیں گے اور چاند بےنور ہوجائے گا اور چاند سورج ملا کر ایک کردیئے جائیں گے۔ اس وقت یہی انسان کہے گا ” کہاں بھاگ کر جاﺅں ؟ “۔ جب بجلی چمکتی ہے تو نظر چندھیاجاتی ہے اور جلدی لوٹ آتی ہے۔ اور جب سورج خسف کا شکار ہوتا ہے تو بےنور ہوجاتا ہے اور سورج اور چاند دور ہیں لیکن یہ باہم مل جائیں گے اور اس طرح تمام فلکی انتظام مختل ہوجائے گا اور ایک خوفناک اور انقلابی صورت حالات ہوگی اس وقت ہر انسان پاہم ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُۙ٠٠٧ وَ خَسَفَ الْقَمَرُۙ٠٠٨ وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُۙ٠٠٩﴾ (سو جس وقت آنکھیں حیران رہ جائیں گی اور چاند بےنور ہوجائے گا اور سورج اور چاند ایک حالت کے ہوجائیں گے) ۔ ﴿ يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍ اَيْنَ الْمَفَرُّۚ٠٠١٠﴾ (اس دن انسان کہے گا کہاں ہے بھاگنے کی جگہ) یعنی میں کہاں بھاگوں اور کیا کروں ﴿ كَلَّا لَا وَزَرَؕ٠٠١١﴾ (اللہ پاک کی طرف سے جواب ملے گا کہ ہرگز بھی کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے) ﴿ اِلٰى رَبِّكَ يَوْمَىِٕذِ ا۟لْمُسْتَقَرُّؕ٠٠١٢﴾ (آج کے دن تیرے رب ہی کے پاس ٹھکانا ہے) نہ بھاگنے کی جگہ ہے نہ بھاگنا فائدہ دے سکتا ہے، اللہ تعالیٰ جس حال میں رکھے اسی میں رہنا ہوگا اسی کے فیصلے نافذ ہوں گے۔ قولہ تعالیٰ : وجمع الشمس والقمر ای جمع بینھما فی ذھاب ضوء ھما فلاضوء للشمس کما لاضوء للقمر بعد خسوفہ قالہ الفراء والزجاج وقال ابو عبیدة ھو علی تغلیب المذکر وقال المبرد التانیث غیر حقیقی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” فاذا برق “ یہ تخویف اخروی ہے اور اس میں قیامت کے بعض احوال واہوال کا ذکر ہے۔ جب آنکھیں ہیبت اور شدت خوف سے حیران ہوجائیں گی، چاند بےنور ہوجائے گا۔ سورج اور چاند کو اکٹھا کردیا جائے گا دونوں بےنور ہوجائیں گے اور اکٹھے ہی مغرب سے طلوع ہوں گے۔ اس دن انسان کہے گا آج کوئی بھاگنے کی جگہ ہے جہاں بھاگ کر پناہ لی جاسکے اور آج کے شدائد واہوال سے جان بچائی جاسکے ؟ قال ابن عباس و ابن مسعود جمع بینھما ای قرن بینھا فی طلوعہما من المغرب اسودین مکورین مظلمین الخ (قرطبی ج 19 ص 93) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) سو جس وقت نگاہیں مضطرب اور متحیر ہوجائیں گی۔