Surat ud Dahar

Surah: 76

Verse: 12

سورة الدھر

وَ جَزٰىہُمۡ بِمَا صَبَرُوۡا جَنَّۃً وَّ حَرِیۡرًا ﴿ۙ۱۲﴾

And will reward them for what they patiently endured [with] a garden [in Paradise] and silk [garments].

اور انہیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا ... And their recompense because they were patient, meaning, due to their patience He will give them, bestow upon them and accommodate them with Paradise and silken garments. This means a home that is spacious, a delightful life and fine clothing. Al-Hafiz Ibn `Asakir said in his biography of Hisham bin Sulayman Ad-Darani, "Surat Al-Dahr was recited to Abu Sulayman Ad-Darani, and when the reciter reached the Ayah where Allah says, وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا And their recompense shall be Paradise, and silken garments, because they were patient. he (Abu Sulayman) said, `Because they were patient in leaving off their desires in the world."'

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 صبر کا معنی ہے دین کے راستے میں جو تکلفیں آئیں انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرنا اللہ کی اطاعت میں نفس کی خواہشات اور لذات کو قربان کرنا اور معصیتوں سے اجتناب کرنا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] دنیا میں ان لوگوں نے اللہ کی رضا کی خاطر بیشمار پابندیاں برداشت کی تھیں۔ اسلام کی راہ میں آنے والی مشکلات کو بھی خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے تھے۔ اس مستقل صبر کے عوض آج انہیں جنت بھی عطا کی جائے گی اور فاخرانہ ریشمی لباس بھی پہنائے جائیں گے اور وہ جنت میں پورے شاہانہ ٹھاٹھ کے ساتھ تکیہ لگائے بیٹھا کریں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وجزھم بما صبروا جنتہ وحریراً : اور انہیں اللہ تعالیٰ ان کے صبر کے عوض جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے گا۔ صبر کا مفہوم بہت وسیع ہے، اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی پر صبر، اس کی حرام کردہ چیزوں سے صبر، اس کے دین کی دعوت پر صبر، آزمائشوں اور تکلیفوں پر صبر، خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلانے پر صبر، غرض مومن کی زندگی اول تا آخر صبر ہی صبر ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَزٰىہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِيْرًا۝ ١٢ ۙ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ حَريرُ من الثیاب : ما رقّ ، قال اللہ تعالی: وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر/ 33] لحریری ( ریشمی کپڑا ) ہر ایک بار کپڑے کو حریر کیا جاتا ہے فرمایا :۔ وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر/ 33] وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢{ وَجَزٰٹہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًا ۔ } ” اور بدلے میں دے گا انہیں ان کے صبر کے سبب جنت اور ریشم کا لباس۔ “ دنیا میں وہ لوگ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجاآوری میں لگے رہے۔ انہوں نے فاقوں سے رہنا گوارا کرلیا لیکن حرام کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے انہوں نے اپنی جانیں تک قربان کردیں۔ ان کے اس صبر کے بدلے میں اللہ تعالیٰ انہیں رہنے کے لیے جنت اور پہننے کے لیے ریشم کی پوشاکیں عطا کرے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

16 Here the word sabr (patience) has been used in a very comprehensive sense. The whole worldly life of the righteous believers in fact has been described as a life of patience. From the time a man attains discretion, or believes, till death;' his suppressing of unlawful desires, adhering to the bounds set by Allah, carrying out the duties enjoined by Him, sacrificing his time, his wealth, his effort, powers and abilities, even his life if so required, ignoring every greed and temptation, which might turn him away from Allah's way, meeting every danger and enduring every hardship faced on the way of the truth, giving up every gain and pleasure accruing from unlawful ways and means, bearing every loss and suffering and affliction incurred on account of his love for truth, and doing all this with full faith in the promise of Allah that He will bless the doer with the fruits of this righteous conduct not in this world but in the second life after death, turns the whole life of a believer into a life of patience-eternal and perpetual patience. all-pervasive and life-long patience! (For further explanation, see E N 60 of Al-Baqarah. E.N.'s 13, 107, 131 of ,AI-`Imran, E.N. 23 of Al-An`am, E.N.'s 37, 47 of Al-Anfal, E.N. 9 of Yunus, E N 11 of Hud, E.N. 39 of Ar-Ra'd, E.N. 98 of An-Nahl, E.N. 40 of Maryam, E.N: 94 of AI-Furgan, E.N.'s 75, l00 of AI-Qasas. E.N. 97 of Al-`Ankabut, E.N.'s 29, 56 of Luqman, E.N. 37 of As-Sajdah, E.N. 58 of Al-Ahzab, E.N. 32 of Az-Zumar, E.N. 38 of Ha-Mim As-Sajdah, E.N. 53"of Ash-Shura) .

سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :16 یہاں صبر بڑے وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے ، بلکہ در حقیقت صالح اہل ایمان کی پوری دنیوی زندگی ہی کو صبر کی زندگی قرار دیا گیا ہے ۔ ہوش سنبھالنے یا ایمان لانے کے بعد سے مرتے دم تک کسی شخص کا اپنی ناجائز خواہشوں کو دبانا ، اللہ کی باندھی ہوئی حدوں کی پابندی کرنا ، اللہ کے عائد کیے ہوئے فرائض کو بجا لانا ، اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنا وقت ، اپنا مال ، اپنی محنتیں ، اپنی قوتیں اور قابلتیں ، حتی کہ ضرورت پڑنے پر اپنی جان تک قربان کر دینا ، ہر اس لالچ اور ترغیب کو ٹھکرا دینا جو اللہ کی راہ سے ہٹانے کے لیے سامنے آئے ، ہر اس خطرے اور تکلیف کو برداشت کر لینا جو راہ راست پر چلنے میں پیش آئے ، ہر اس فائدے اور لذت سے دست بردار ہو جانا جو حرام طریقوں سے حاصل ہو ، ہر اس نقصان اور رنج اور اذیت کو انگیز کر جانا جو حق پرستی کی وجہ سے پہنچے ، اور یہ سب کچھ اللہ تعالی کے اس وعدے پر اعتماد کرتے ہوئے کرنا کہ اس نیک رویے کے ثمرات اس دنیا میں نہیں بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ملیں گے ، ایک ایسا طرز عمل ہے جو مومن کی پوری زندگی کو صبر کی زندگی بنا دیتا ہے ۔ یہ ہر وقت کا صبر ہے ، دائمی صبر ہے ۔ ہمہ گیر صبر ہے اور عمر بھر کا صبر ہے ۔ ( مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ حاشیہ 60 ۔ آل عمرا ، حواشی 13 ، 107 ، 131 ۔ الانعام ، حاشیہ 23 ۔ جلد دوم ، الانفال ، حواشی 37 ، 47 ، یونس ، حاشیہ 9 ۔ ہود ، حاشیہ 11 ۔ الرعد ، حاشیہ 39 ۔ النحل ، حاشیہ 98 ۔ جلد سوم ، مریم ، حاشیہ 40 ۔ الفرقان ، حاشیہ 94 ۔ القصص ، حواشی 75 ، 100 ، العنکبوت ، 97 ۔ جلد چہارم ، لقمان ، حواشی 29 ، 56 ۔ السجدہ ، حاشیہ 37 ۔ الاحزاب ، حاشیہ 58 ۔ الزمر ، حاشیہ 32 ۔ حم السجدہ ، حاشیہ 38 ۔ الشوری ، حاشیہ 53 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(76:12) وجزہم بما صبروا جنۃ وحریرا۔ واؤ عاطفہ۔ جزی ماضی (بمعنی مستقبل) واحد مذکر غائب (مفعول اول) ان کو۔ ب سببیہ۔ ما موصولہ۔ صبروا صلہ اور وہ ان کو صبر کے بدلہ میں عطا کرے گا۔ جنۃ : جنت۔ مفعول دوم ۔ وحریرا اور ریشمی لباس مفعول سوم۔ حریر۔ رشیم (اسم ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 13 یعنی اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عائد کردہ احکام بجالائے تھے اور ان کی منع کردہ چیزوں سے بازر ہے تھے۔14 جس کا پہننا ان پر دنیا میں حرام کیا گیا تھا اور انہوں نے کبھی اسے نہ پہنا تھا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نیک لوگوں کی جزا اور انعام کا ذکر جاری ہے۔ نیک لوگوں کو جزا اور انعام اس لیے دیا جائے گا کیونکہ وہ اللہ کی توحید پر ایمان رکھتے تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کیا کرتے رہے اور دیگر نیک اعمال کے ساتھ اپنی نذروں کو پورا کرتے تھے، صرف اللہ کی رضا کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ کیونکہ یہ کام بڑے حوصلے کے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ صبر کرنے والوں کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ صابر حضرات کو دیگر انعامات کے ساتھ ریشم کے لباس پہنائے جائیں گے، وہ تکیوں پر ایسے مقامات پر جلوہ افروز ہوں گے جنہیں نہ دھوپ لگے گی اور نہ ہی سردی چھوئے گی، ان پر اس طرح کے سایہ دار درخت ہوں گے جن کی شاخوں پر پھل ٹپک رہے ہوں گے۔ جنت کے خدّام شیشے اور چاندی سے بنے ہوئے صاف اور شفاف جام لیے ہوئے جنتی کے آگے پیچھے پھریں گے۔ جنتی کو ایسی شراب پیش کی جائے گی جس میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی یہ جنت میں اس چشمے سے نکلے گی جس کا نام سلسبیل ہے۔ جنتی کو شراب پلانے اور ان کی خدمت کرنے والے غلمان ہمیشہ ایک جیسے رہیں گے، ان کے حسن و جمال کا عالم یہ ہوگا کہ دیکھنے والا انہیں چمکتے ہوئے موتی تصور کرے گا۔ جنتی جنت میں جدھر بھی آنکھ اٹھائے گا وہ ہر قسم کی نعمتیں پانے کے ساتھ اپنے لیے بہت بڑی سلطنت پائے گا۔ گویا کہ اسے وسیع ترین جنت دی جائے گی۔ انہیں دیباج اور اطلس کے زرق برق لباس پہنائے جائیں گے اور چاندی کے کنگن ان کی کلائیوں میں ہوں گے۔ ان کے رب کے حکم سے انہیں شراب طہور پلائی جائے گی۔ ارشاد ہوگا کہ یہ تمہاری کوشش کا صلہ ہے جو ہمارے ہاں قبول ہوچکی ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَیْسٍ (رض) عَنْ أَبِیْہِ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ لِلْمُؤْمِنِ فِی الْجَنَّۃِ لَخَیْمَۃً مِنْ لُؤْلُؤَۃٍ وَاحِدَۃٍ مُجَوَّفَۃٍ طُوْلُھَا سِتُّوْنَ مِیْلًا لِلْمُؤْمِنِ فِیْھَا أَھْلُوْنَ یَطُوْفُ عَلَیْھِمُ الْمُؤْمِنُ فَلَا یَرٰی بَعْضُھُمْ بَعْضًا) (رواہ مسلم : باب فی صفۃ خیام الجنۃ ....) ” حضرت عبداللہ بن قیس اپنے باپ سے اور وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ کا فرمان ہے کہ جنت میں مومن کے لیے موتی کا ایک ایسا خیمہ ہوگا جس کی لمبائی ساٹھ میل ہوگی وہاں مومن کے گھر والے ہوں گے جن کے ہاں وہی جائے گا دوسرا انہیں دیکھ نہیں پائے گا۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَ لَآ اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ وَّاقْرَءُ وْا إِنْ شِءْتُمْ (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآاُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ) (رواہ البخاری : باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وأنھا مخلوقۃ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ نعمتیں تیار کی ہیں، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ ہی ان کے متعلق کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال پیدا ہوا۔ اگر چاہو تو اس آیت کی تلاوت کرو۔ (کوئی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا چیز چھپا کے رکھی گئی ہے۔ “ ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لایا، نماز قائم کی، رمضان کے روزے رکھے ‘ اللہ تعالیٰ نے ذمّہ لے لیا ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔ خواہ اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا یا اپنی پیدائش کے علاقے میں رہا صحابہ (رض) نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول ! اجازت ہو تو ہم لوگوں کو یہ خوش خبری سنائیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بلاشبہ جنت کی سومنزلیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے، جو اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر دو منزلوں کے درمیان زمین و آسمان کے برابر فاصلہ ہے۔ جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو اس سے جنت الفردوس کا سوال کروکیون کہ وہ اعلیٰ و افضل جنت ہے اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے اور وہیں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔ “ (رواہ البخاری : کتاب الجہاد) (عن عَبْداللّٰہِ بْنَ عُکَیْمٍ قَالَ کُنَّا مَعَ حُذَیْفَۃَ (رض) بِالْمَدَآءِنِ فَاسْتَسْقٰی حُذَیْفَۃُ فَجَآ ءَ ہٗ دِہْقَانٌ بِشَرَابٍ فِیْ إِنَاءٍ مِّنْ فِضَّۃٍ فَرَمَاہُ بِہٖ وَقَالَ إِنِّیْٓ أُخْبِرُکُمْ أَنِّیْ قَدْ أَمَرْتُہٗ أَنْ لاَّ یَسْقِیَنِیْ فِیْہِ فَإِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لاَ تَشْرَبُوْا فِیْ إِنَآء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَلاَ تَلْبَسُوا الدِّیْبَاجَ وَالْحَرِیْرَ فَإِنَّہٗ لَہُمْ فِی الدُّنْیَا وَہُوَ لَکُمْ فِی الآخِرَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) (رواہ مسلم : کتاب اللباس والزینۃ، باب تَحْرِیمِ اسْتِعْمَالِ إِنَاء الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ عَلَی الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ ) ” حضرت عبداللہ بن عکیم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم حذیفہ (رض) کے ساتھ مدائن میں تھے۔ حذیفہ (رض) نے پانی طلب کیا تو ایک کاشتکار چاندی کے برتن میں پانی لے کر حاضر ہوا۔ حضرت حذیفہ (رض) نے اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ میں تمہیں یہ بات بتلاتے ہوئے حکم دیتا ہوں کہ کوئی مجھے ایسے برتن میں پلائے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ سونے اور چاندی کے برتنوں میں نہ پیو۔ زیور اور ریشمی لباس نہ پہنو (مرد) یہ دنیا میں کافروں کے لیے ہیں اور تمہارے لیے آخرت میں ہیں۔ “ مسائل ١۔ جنت میں جنتی ایسی جگہوں پر تکیہ لگائے تشریف فرما ہوں گے جہاں اللہ تعالیٰ انہیں دھوپ اور سردی سے بچائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ خوش وخرم رکھے گا۔ ٣۔ جنتی کو جنت کے باغات اور ریشمی لباس دیئے جائیں گے۔ ٤۔ جنتی کے سامنے جنت کے پھل لٹک رہے ہوں گے۔ ٥۔ جنتی کے غلمان چاندی اور شیشے سے بنے ہوئے جاموں میں جنتی کو شراب پیش کریں گے۔ ٦۔ جنت میں شراب کا ایک چشمہ ہوگا جس کا نام سلسبیل ہے اس شراب میں زنجبیل کی آمیزش ہوگی۔ تفسیر بالقرآن جنت کے چشمے اور نہریں : ١۔ ہم نے اس میں کھجوروں، انگوروں کے باغ بنائے ہیں اور ان میں چشمے جاری کیے ہیں۔ (یٰس : ٣٤) ٢۔ یقیناً متقین باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ (الذاریات : ١٥) ٣۔ اللہ نے مومن مرد اور عورتوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ اللہ کی رضابڑی بات ہے۔ (التوبہ : ٧٢) ٤۔ ایمان والوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا جس میں نہریں بہتی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (النساء : ٥٧) ٥۔ جس جنت کا مومنوں کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے سے نہریں جاری ہیں اور اس کے پھل اور سائے ہمیشہ کے لیے ہوں گے۔ (الرعد : ٣٥) ٦۔ اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں۔ (آل عمران : ١٩٨) ٧۔ مومنوں کے ساتھ جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں چار قسم کی نہریں ہوں گی۔ پانی کی نہر، دودھ کی نہر، شراب کی نہر اور شہد کی نہر۔ ( سورة محمد : ١٥) ٨۔ متقین گھنے سایوں اور چشموں والی جنت میں ہوں گے۔ (المرسلات : ٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد جنت کی نعمتوں کا مزید ذکر اور تفصیلات :۔ وجزھم .................... وحریرا ” اور ان کے صبر کے بدلے میں انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا “۔ اس جنت میں ان کی مستقل رہائش ہوگی اور ریشمی لباس ہوگا جسے وہ پہنیں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ جَزٰىهُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّةً وَّ حَرِيْرًاۙ٠٠١٢﴾ (اور اللہ تعالیٰ انہیں ان کے صبر کی وجہ سے جنت عطا فرمائے گا اور ریشمی لباس) ﴿مُّتَّكِـِٕيْنَ فِيْهَا عَلَى الْاَرَآىِٕكِ ١ۚ﴾ (اس میں مسہریوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے) ۔ ﴿ لَا يَرَوْنَ فِيْهَا شَمْسًا وَّ لَا زَمْهَرِيْرًاۚ٠٠١٣﴾ (اس میں نہ دھوپ دیکھیں گے اور نہ ٹھنڈک) یعنی وہاں کی فضا پر کیف ہوگی گرمی اور دھوپ کی تپش اور کسی طرح کی سردی اور ٹھنڈک محسوس نہ ہوگی۔ ﴿ بِمَا صَبَرُوْا ﴾ جو فرمایا اس کا عموم تینوں قسم کے صبر کو شامل ہے طاعات پر جمنا (یعنی احکام کی پابندی کرنا) اور اپنے نفس کو گناہوں سے بچائے رکھنا اور مصائب اور مکروہات پر صبر کرنا صبروا کے عموم میں سب داخل ہے۔ جنت کی پر فضاء بہار اور موسم کی کیفیت بیان کرنے کے بعد وہاں کے پھلوں کی کیفیت بیان فرمائی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” وجزاھم “ ایمان وطاعت پر ثابت قدم رہنے اور اللہ کی راہ میں شدائد و مصائب برداشت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو جنت اور ریشمی لباس بطور جزاء وانعام عطاء فرمائے گا۔ متکئین، ھم ضمیر منصوب سے حال ہے۔ ارائک، رایکۃ کی جمع ہے یعنی تکیہ دار تخت جو پر تکلف فروش اور پرندوں سے آراستہ ہوں۔ شمس، گرمی، دھوپ۔ زمہریر، سردی۔ اھل جنت پر تکلف اور عالیشان تختوں پر تکیہ لگائے ہوں گے اور جنت میں وہ سردی اور گرمی کی شدت کا نام و نشان نہیں پائیں گے یعنی وہ گرمی اور سردی کی ایذاء و مضرت سے محفوظ رہیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) اور ان لوگوں کو ان کے صبر و استقلال اور ان کی پختگی اور استقامت فی الدین کے صلے میں جنت ریشمی لباس عطا فرمائے گا۔