Surat ud Dahar

Surah: 76

Verse: 2

سورة الدھر

اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿۲﴾

Indeed, We created man from a sperm-drop mixture that We may try him; and We made him hearing and seeing.

بیشک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لئے پیدا کیا اور اس کو سنتا دیکھتا بنایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِنَّا خَلَقْنَا الاِْنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ ... Verily, We have created man from Nutfah Amshaj, meaning, mixed. The words Mashaj and Mashij mean something that is mixed together. Ibn `Abbas said concerning Allah's statement, مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ (from Nutfah Amshaj,) "This means the fluid of the man and the fluid of the woman when they meet and mix." Then man changes after this from stage to stage, condition to condition and color to color. Ikrimah, Mujahid, Al-Hasan and Ar-Rabi` bin Anas all made statements similar to this. They said, "Amshaj is the mixing of the man's fluid with the woman's fluid." Concerning Allah's statement, ... نَّبْتَلِيهِ ... in order to try him, means, `We test him.' It is similar to Allah's statement, لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلً That He may test you which of you is best in deed. (67:2) Then Allah says, ... فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا so, We made him hearer and seer. meaning, `We gave him the faculties of hearing and sight so that he would be able to use them for obedience and disobedience.' Allah guided Him to the Path, so Man is either Grateful or Ungrateful Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 ملے جلے مطلب، مرد اور عورت دونوں کے پانی کا ملنا پھر ان کا مختلف اطوار سے گزرنا ہے۔ پیدا کرنے کا مقصد انسان کی آزمائش ہے۔ 2۔ 2 یعنی اسے سماعت اور بصارت کی قوتیں عطا کیں، تاکہ وہ سب کچھ دیکھ سکے اور سن سکے اور اس کے بعد اطاعت یا انکاری دونوں راستوں میں کسی ایک کا انتخاب کرسکے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] یعنی باپ کا نطفہ الگ تھا، ماں کا الگ، ان دونوں نطفوں کے ملاپ سے ماں کے رحم میں حمل قرار پایا۔ پھر ہم نے اس مخلوط نطفہ کو ایک ہی حالت میں پڑا نہیں رہنے دیا۔ ورنہ وہ وہیں گل سڑ جاتا۔ بلکہ ہم اس کو الٹتے پلٹتے رہے اور رحم مادر میں اس نطفہ کو کئی اطوار سے گزار کر اسے ایک جیتا جاگتا انسان بنادیا۔ [٣] انسان کی دوسرے جانداروں پر کیا فضیلت ہے ؟:۔ انسان کے علاوہ جتنی بھی جاندار مخلوق ہے۔ تقریباً سب ہی سنتے بھی ہیں اور دیکھتے بھی ہیں۔ لیکن سمیع اور بصیر نہیں ہیں۔ سمیع اور بصیر صرف انسان ہے۔ اور یہی چیزیں انسان کے لئے علم کے حصول کے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔ انسان اشیاء کو دیکھ کر اور بعض آوازیں سن کر ان پر غور کرتا، ان میں قیاس اور استنباط کرتا پھر ان سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ جبکہ دوسرے جاندار دیکھنے اور سننے کے باوجود ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کرسکتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج : یعنی انسان کی پیدائش صرف مرد یا صرف عورت کے نطفہ سے نہیں ہوئی بلکہ دونوں کے ملے جلے نطفہ سے ہوئی ہے، کیونکہ دونوں کے ملنے ہی سے حمل منعقد ہوتا ہے۔ ام سلیم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان ماء الرجل غلیظ ابیض وماء المراۃ رقیق اصفر فمن ابھما علا او سبق یکون من ہالشبہ) (مسلم، الحیض ، باب وجوب الغسل علی المراۃ…: ٣١١)” مرد کا پ انی سفید گاڑھا اور عورت کا پانی پتلا زرد ہوتا ہے، ان میں سے جو غلاب آجائے یا سبقت کر جائے اسی سے مشابہت ہوتی ہے۔ “ (٢) نبتلیہ : ہم اسے آزماتے ہیں، یعنی انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اس کی آزمائش ہے کہ اچھے عمل کرتا ہے یا برے، جیسے فرمایا، (لیبلوکم ایکم احسن عملاً ) (الملک : ٢)”(اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کو اس لئے پیدا فرمایا) تاکہ تمہاری آزمائش رکے کہ تم میں سے کون عمل میں بہتر ہے۔ “ (٣) فجعلنہ سمیعاً بصیراً :” ہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والا بنایا “ اگرچہ جانور بھی سنتے اور دیکھتے ہیں مگر انہیں ” سمیع وبصیر “ نہیں کہاجاتا کیونکہ وہ عقل کی نعمت سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سننے اور دیکھنے کی ایسی قوتیں دی ہیں جن سے وہ اچھے برے میں تمیز کرسکتا ہے اور بہت دور تک سوچ سکتا ہے۔ گویا دوسرے جانور اس کے مقابل بہرے اور اندھے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Neither we were there, nor was there any demand from us. It is only Your mercy that listened to what we never said. Verse [ 2] describes the inception of human creation thus: اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ (We have created man from a mixed sperm-drop __76:2). The word amshaj is the plural of mashj or mashj which means a &mixture&. Here obviously it refers to the male and female gametes according to most commentators, but some commentators say, as cited in Ruh-ul-Ma` ni, that amshaj refers to the four fluids of the body [ blood, phlegm, choler and melancholy ] of which the sperm is composed. Man Is Made up of Particles from Different Parts of the World If we reflect carefully, the cardinal fluids are made up of various kinds of nutriment. If we reflect further on man&s food, it contains elements of water and air from distant parts of the globe. Thus, if we were to analyse man&s present body, we will discover that it is composed of elements and particles that were scattered in every nook and corner of the world. A marvellous system set by Allah has, in a wonderful way, put them together in human structure. If this sense of amshaj &mixed& is taken into account here, it allays the greatest doubt of the rejecters of Resurrection. Their main objection is that when they are dead, reduced to crumbled bones and dust, how will they be raised to life again? They thought this was impossible. The interpretation of amshaj as &cardinal humours/fluids& allays their doubt once and for all. At the inception, when man was created, he was composed of particles and elements from all parts of the world. Allah did not find this difficult the first time. Why should He find its recreation difficult the second time. According to this interpretation, the addition of the word &amshaj& (mixed) could have a special significance of its own. And Allah knows best! نَّبْتَلِيْهِ (to put him to a test...76:2). The Arabic verb is derived from ibtila& which means &to put to test&. This phrase puts forward the Wisdom underlying human creation. Allah has created man to put him to a test. This test is defined in forthcoming verses. Allah sent Prophets and celestial Books for the purpose of showing him both ways, one leading to Paradise, and the other to Hell. Man has been given a choice to adopt any one of the two ways. This led mankind into two groups, thus: اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا (We have shown him the way to (let him) become either grateful or ungrateful...76:3). The first group was of those who, appreciating Allah&s bounties, offered gratitude to Allah, and believed in Him, while the second group was of those who remained ungrateful to Allah&s favours, disbelieved. After the description of the two groups, the next verse describes the punishment and evil consequences of the disbelievers. Allah has prepared, for the disbelievers, shackles and iron-collars and a blazing Fire. On the other hand, huge bounties are mentioned for the believers and righteous people. Out of these bounties, drinkables are mentioned first. They will have a drink from a goblet, blended with (a drink from) Camphor. اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا (The righteous will have a drink from a goblet, blended; with [ a drink from ] Camphor....76:5). Some of the commentators say that kar (Camphor) refers to a fountain in Paradise. In order to enhance the taste and pleasure of this drink, it will be mixed with water from this spring. If the word &camphor& is taken in its popular sense, it does not necessarily signify that the camphor of Paradise be equated with the camphor available in this world, because the latter is not palatable.

اس کے بعد تخلیق انسانی کی ابتداء کا بیان اس طرح فرمایا اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاج یعنی ہم نے پیدا کیا انسان کو ایک مخلوط نطفہ سے امشاج، مشج یا مشیج کی جمع ہے جس کے معنے مخلوط کے آتے ہیں بعض مفسرین سے نقل کیا ہے کہ امشاج سے مراد اخلاص اربعہ یعنی خن، بلغم، سودا، صفراء ہیں جن سے نطفہ مرکب ہوتا ہے۔ ہر انسان کی تخلیق میں دنیا بھر کے اجزاء اور ذرات کی شمولیت :۔ اور اگر غور کیا جائے تو یہ اخلاط اربعہ مذکورہ بھی اقسام غذا سے حاصل ہوتے ہیں اور ہر انسان کی غذا میں غور کیا جائے تو اس میں دور دراز نلکوں اور خطوں کے اجزاء آب و ہوا وغیرہ کے ذریعہ شامل ہوتے ہیں اس طرح ایک انسان کے موجودہ جسم کا تجزیہ اور تحلیل کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایسے اجزاء اور ذرات کا مجموعہ ہے جو دنیا کے گوشہ گوشہ میں بکھرے ہوئے تھے۔ قدرت کے نظام عجیب نے حیرت انگیز طریقہ پر ان کو اس کے وجود میں سمویا ہے۔ اگر امشاج کا مطلب یہ لیا جائے تو اس جگہ لفظ امشاج کے ذکر سے منکرین قیامت کے سب سے بڑے شبہ کا ازالہ بھی ہوجائے گا کیونکہ ان خداناشناس لوگوں کے نزدیک قیامت قائم ہونے اور مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے میں سب سے بڑا اشکال یہی ہے کہ انسان مر کر مٹی اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر دنیا میں بکھر جاتا ہے ان کو دوبارہ جمع کرنا پھر ان میں روح ڈالنا ان کے نزدیک گویا ناممکن ہے۔ امشاج بمعنے اخلاط کی تفسیر میں ان کے اس شبہ کا ایک واضح جواب ہے کہ ابتدائی تخلیق انسانی میں بھی تو دنیا بھر کے اجزاء و ذرات شامل تھے جس کو یہ ابتدائی تخلیق مشکل نہ ہوئی اس کے لئے اس کا دوبارہ پیدا کرنا کیوں مشکل ہوگیا اور اس تفسیر پر لفظ امشاج کا اس جگہ اضافہ بھی ایک مستقل فائدہ کے لئے ہوسکتا ہے واللہ اعلم۔ نبتلیہ ابتلاء سے مشتق ہے جس کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں یہ تخلیق انسانی کی غرض و حکمت کا بیان ہے کہ انسان کو اس شان کیساتھ پیدا کرنے کا مقصد اس کی آزمائش ہے جس کا بیان اگلی آیتوں میں آیا ہے کہ ہم نے انبیاء اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ اس کو راستہ دکھلا دیا کہ یہ راستہ جنت کی طرف اور دوسرا دوزخ کی طرف جاتا ہے اور اسے اختیار دے دیا کہ ان میں سے جس کو چاہے اختیار کرے چناچہ ان میں دو گرو ہوگئے اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا یعنی ایک گروہ ان لوگوں کا ہوا جنہوں نے اپنے پیدا کرنے والے اور نعمت دینے والے کو پہچان کر اس کا شکرادا کیا اور اس پر ایمان لایا دوسرا گروہ وہ ہوا جس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور کافر رہا۔ اس کے بعد ان دونوں گروہوں کی جزا اور انجام کا ذکر فرمایا کہ کافروں کے لئے زنجیریں اور طوق اور جہنم ہے اور ابرار یعنی ایمان و اطاعت کے پابند لوگوں کے لئے بڑی نعمتیں ہیں سب سے پہلے پینے کی چیزوں کا ذکر فرمایا کہ ان کو ایسا جام شراب دیا جائے گا جس میں کافور کی آمیزش ہوگی (يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا) بعض مفسرین نے فرمایا کہ کافور جنت کے ایک چشمہ کا نام ہے اس شراب میں لذت و کیفیت بڑھانے کے لئے اس چشمہ کا پانی شامل کیا جائے گا اور کافور کے مشہور معنے لئے جاویں تو یہ ضروری نہیں کہ جنت کا کا فور بھی دنیا کے کافور کی طرح ہو کھانے پینے کے قابل نہ ہو اس کافور کی خصوصیات جدا ہوں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ۝ ٠ ۤ ۖ نَّبْتَلِيْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا۝ ٢ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے نطف النُّطْفَةُ : الماءُ الصافي، ويُعَبَّرُ بها عن ماء الرَّجُل . قال تعالی: ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] ، وقال : مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] ، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] ويُكَنَّى عن اللُّؤْلُؤَةِ بالنَّطَفَة، ومنه : صَبِيٌّ مُنَطَّفٌ: إذا کان في أُذُنِهِ لُؤْلُؤَةٌ ، والنَّطَفُ : اللُّؤْلُؤ . الواحدةُ : نُطْفَةٌ ، ولیلة نَطُوفٌ: يجيء فيها المطرُ حتی الصباح، والنَّاطِفُ : السائلُ من المائعات، ومنه : النَّاطِفُ المعروفُ ، وفلانٌ مَنْطِفُ المعروف، وفلان يَنْطِفُ بسُوء کذلک کقولک : يُنَدِّي به . ( ن ط ف ) النطفۃ ۔ ضمہ نون اصل میں تو آب صافی کو کہتے ہیں مگر اس سے مرد کی منی مراد لی جاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون/ 13] پھر اس کو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ ہیں نطفہ بنا کر رکھا ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان/ 2] نطفہ مخلوط سے أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة/ 37] کیا وہ منی کا جور رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا ۔ اور کنایۃ کے طور پر موتی کو بھی نطمۃ کہا جاتا ہے اسی سے صبی منطف ہے یعنی وہ لڑکا جس نے کانوں میں موتی پہنے ہوئے ہوں ۔ النطف کے معنی ڈول کے ہیں اس کا واحد بھی نطفۃ ہی آتا ہے اور لیلۃ نطوف کے معنی بر سات کی رات کے ہیں جس میں صبح تک متواتر بارش ہوتی رہے ۔ الناطف سیال چیز کو کہتے ہیں اسی سے ناطف بمعنی شکر ینہ ہے اور فلان منطف المعروف کے معنی ہیں فلاں اچھی شہرت کا مالک ہے اور فلان ینطف بسوء کے معنی برائی کے ساتھ آلودہ ہونے کے ہیں جیسا کہ فلان یندی بہ کا محاورہ ہے ۔ مشج قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان/ 2] . أي : أخلاط من الدّم، وذلک عبارة عمّا جعله اللہ تعالیٰ بالنّطفة من القوی المختلفة المشار إليها بقوله : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ مِنْ سُلالَةٍ إلى قوله خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 12- 14] ( م ش ج ) المشیح مخلوط ج امشاں قرآن میں ہے : ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان/ 2] نطفہ مخلوط سے پیدا کیا تاکہ اسے آز مائیں ۔ یعنی خون کی مختلف خلطوں سے اور مختلف خلطوں سے مختلف قوی مراد ہیں جن کی طرف کہ آیت : ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ مِنْ سُلالَةٍ إلى قوله خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 12- 14] اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ بلی يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي : أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس/ 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] ( ب ل ی ) بلی الثوب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس/ 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة/ 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور ہم نے اولاد آدم کو حضرت آدم اور حوا سے پیدا کیا یا یہ کہ مختلف مخلوط نطفہ سے پیدا کیا، کیونکہ مرد کی منی سفید گاڑھی ہوتی ہے اور عورت کی منی زردی مائل اور پتلی ہوتی ہے اور بچہ دونوں کی منی سے پیدا ہوتا ہے اس طور پر کہ ہم سختی اور فراخی سے یا یہ کہ نیکی اور برائی کے ذریعے سے آزمائیں پھر ہم نے اس کو قوت سماعت عطا کی تاکہ حق و ہدایت کی بات سنے اور بینائی عطا کی تاکہ حق و ہدایت کو دیکھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ { اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ } ” ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ملے جلے نطفے سے “ موجودہ دور میں سائنس نے اس آیت کا مفہوم بہت اچھی طرح واضح کردیا ہے کہ مرد کی طرف سے spermatozoon اور ماں کی طرف سے ovum ملتے ہیں تو zygote وجود میں آتا ہے۔ لیکنظاہر ہے پندرہ سو سال پہلے صحرائے عرب کا ایک بدو تو لفظ ” اَمْشَاج “ کو اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق ہی سمجھا ہوگا۔ گویا قرآن مجید کے اعجاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے الفاظ کا مفہوم ہر زمانے کے ہر قسم کے انسانوں کے لیے قابل فہم رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان الفاظ کے معانی و مطالب میں نئی نئی جہتیں بھی دریافت ہوتی رہتی ہیں۔ { نَّـبْـتَلِیْہِ } ” ہم اس کو الٹتے پلٹتے رہے “ یعنی رحم مادر میں ہم نے اس ” نُطْفَۃٍ اَمْشَاج “ کو مختلف مراحل سے گزارا۔ نطفہ سے اسے علقہ بنایا۔ علقہ کو مغضہ کی شکل میں تبدیل کیا اور پھر اس کے اعضاء درست کیے۔ ” نَـبْـتَلِیْہِ “ کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے ” تاکہ ہم اس کو آزمائیں “۔ یعنی ہم نے انسان کو امتحان اور آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔ { فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا ۔ } ” پھر ہم نے اس کو بنا دیا سننے والا ‘ دیکھنے والا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 "From a mixed sperm-drop": from the intermingling of the male sperm with the female ovum and not separately from the sperm and the ovum. 3 This shows man's real position in the world and the position of the world for man. He is not like the trees and animals that the object of his creation be fulfilled on the earth itself, and he should die and perish here after he has played his appointed role over a period of time according to the law of nature. Furthermore, this world is neither a place of punishment for him, as the monks think, nor a place of rewards as the believers of the law of transmigration think, nor a place of entertainment and enjoyment, as the materialists think, nor a battlefield, as the followers of Darwin and Marx think, but in fact it is a place of test and trial for him. That which he regards as his age, is in fact the time given him for the test. Whatever powers and capabilities he has been given in the world, the thing, that have been placed under his control and authority, the various positions and capacities in which he functions, and the relationships that he enjoys with other men, alI these are the countless papers of the test and this test continues till the last breath of his life. The result is not to be announced in this world but in the Hereafter when all his answer-books will have been assessed, decision will be given whether he has come out successful or failed. And his success or tailure wholly depends on what he thought of himself while he functioned here and how he answered the papers that were given him here. If he believed that he had no God, or that he was the slave of many gods, and while answering the papers thought that he was not to be held accountable before his Creator in the Hereafter, his whole lifework went wrong. And if he regarded himself as the slave of One God and worked in the way approved by God, with the accountability of the Hereafter always in view, he stood successful in the test. (This theme has occurred at many places in the Qur'an and has been dealt with at length in the corresponding notes. It is not possible to give all the references, but those who are interested in it may see the explanation of it in its different aspects under "Test and Trial" in the Index. In no other book beside the Qur'an has this truth been explained at such length ) . 4 The word .sami' (hearing) and basir (seeing) in the original actually imply being "sensible and intelligent". These words of the Arabic language are never used in respect of the animal although it also hears-and sees. Thus, hearing and seeing here do not imply the powers of hearing and seeing which have been given to the animals too, but those means through which man obtains knowledge and then draws conclusions from it. Besides, since hearing and seeing are among the most important means of knowledge for man, only these two have been mentioned briefly; otherwise it actually implies giving man all those senses of the body by which he gathers information. Then the senses given to man are quite different in their nature from those given to animals, for at the back of every sense he has a thinking brain, which collects information gained through the senses; arranges it, draws conclusions from it, forms opinions, and then takes some decisions which become the basis of his attitude and conduct in life. Hence, after saying, "We created man in order to try him," to say, "therefore, We made him capable of hearing and seeing° actually contains the meaning that Allah save him the faculties of knowledge and reason to enable him to take the test. Obviously, if this were not the meaning and the meaning of making man hearing and seeing just implied the one who could hear and see, then a blind and deaf person would stand exempted from the test, whereas unless a person is utterly devoid of knowledge and reason, there can be no question of his being exempted from the test.

سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :3 یہ ہے دنیا میں انسان ، اور انسان کے لیے دنیا کی اصل حیثیت ۔ وہ درختوں اور جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا مقصد تخلیق یہیں پورا ہو جائے اور قانون فطرت کے مطابق ایک مدت تک اپنے حصے کا کام کر کے وہ یہیں مرکر فنا ہو جائے ۔ نیز یہ دنیا اس کے لیے نہ دار العذاب ہے ، جیسا کہ راہب سمجھتے ہیں ، نہ دار الجزا ہے جیسا کہ تناسخ کے قائلین سمجھتے ہیں ، نہ چراگاہ اور تفرگاہ ہے ، جیسا کہ مادہ پرست سمجھتے ہیں اور نہ رزم گاہ ، جیسا کہ ڈارون اور مارکس کے پیرو سمجھتے ہیں ، بلکہ دراصل یہ اس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے ۔ وہ جس چیز کو عمر سمجھتا ہے حقیقت میں وہ امتحان کا وقت ہے جو اسے یہاں دیا گیا ہے ۔ دنیا میں جو قوتیں اور صلاحتیں بھی اس کو دی گئی ہیں ، جن چیزوں پر بھی اس کو تصرف کے مواقع دیے گئے ہیں ، جن حیثیتوں میں بھی وہ یہاں کام کر رہا ہے اور جو تعلقات بھی اس کے اور دوسرے انسانوں کے درمیان ہیں ، وہ سب اصل میں امتحان کے بے شمار پرچے ہیں ، اور زندگی کے آخری سانس تک اس امتحان کا سلسلہ جاری ہے ۔ نتیجہ اس کا دنیا میں نہیں نکلنا ہے بلکہ آخرت میں اس کے تمام پرچوں کو جانچ کر یہ فیصلہ ہونا ہے کہ وہ کامیاب ہوا ہے یا ناکام ۔ اور اس کی کامیابی و ناکامی کا سارا انحصار اس پر ہے کہ اس نے اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہوئے یہاں کام کیا ، اور کس طرح امتحان کے وہ پرچے کیے جو اسے یہاں دیے گئے تھے ۔ اگر اس نے اپنے آپ کو بے خدایا بہت سے خداؤوں کا بندہ سمجھا ، اور سارے پرچے یہ سمجھتے ہوئے کیے کہ آخرت میں اسے اپنے خالق کے سامنے کوئی جوابدہی نہیں کرنی ہے ، تو اس کا سارا کارنامہ زندگی غلط ہو گیا اور ا گر اس نے اپنے آپ کو خدائے واحد کا بندہ سمجھ کر اس طریقے پر کام کیا جو خدا کی مرضی کے مطابق ہو اور آخرت کی جوابدہی کو پیش نظر رکھا تو وہ امتحان میں کامیاب ہو گیا ۔ ( یہ مضمون قرآن مجید میں اس کثرت کے ساتھ اور ر اتنی تفصیلات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ان سب مقامات کا حوالہ دینا یہاں مشکل ہے ۔ جو حضرات اسے پوری طرح سمجھنا چاہتے ہوں وہ تفہیم القرآن کی ہر جلد کے آخر میں فہرست موضوعات کے اندر لفظ آزمائش نکال کر وہ تمام مقامات دیکھ لیں جہاں قرآن میں مختلف پہلوؤں سے اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔ قرآن کے سوا دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں یہ حقیقت اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہو ) ۔ سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :4 اصل میں فرمایا گیا ہے ہم نے اسے سمیع و بصیر بنایا ۔ اس کا مفہوم صحیح طور پر ہوش گوش رکھنے والا بنایا سے ادا ہوتا ہے ، لیکن ہم نے ترجمے کی رعایت سے سمیع کے معنی سننے والا اور بصیر کے معنی دیکھنے والا کیے ہیں ۔ اگرچہ عربی زبان کے ان الفاظ کا لفظی ترجمہ یہی ہے مگر ہر عربی دان جانتا ہے کہ حیوان کے لیے سمیع اور بصیر کے الفاظ کبھی استعمال نہیں ہوتے ، حالانکہ وہ بھی سننے اور دیکھنے والا ہوتا ہے ۔ پس سننے اور دیکھنے سے مراد یہاں سماعت اور بینائی کی وہ قوتیں نہیں ہیں جو حیوانات کو بھی دی گئی ہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا اور ر پھر اس سے نتائج اخذ کرتا ہے ۔ علاوہ بریں سماعت اور بصارت انسان کے ذرائع علم میں چونکہ سب سے زیادہ اہم ہیں اس لیے اختصار کے طور پر صرف انہی کا ذکر کیا گیا ہے ، ورنہ اصل مراد انسان کو وہ تمام حواس عطا کرنا ہے جن کے ذریعہ سے وہ معلومات حاصل کرتا ہے ۔ پھر انسان کو جو حواس دیے گئے ہیں وہ اپنی نوعیت میں ان حواس سے بالکل مختلف ہیں جو حیوانات کو دیئے گئے ہیں کیونکہ اس کے ہر حاسہ کے پیچھے ایک سوچنے والا دماغ موجود ہوتا ہے جو حواس کے ذریعہ سے آنے والی معلومات کو جمع کر کے اور ان کو ترتیب دے کر ان سے نتائج نکالتا ہے ، رائے قائم کرتا ہے اور پھر کچھ فیصلوں پر پہنچتا ہے جن پر اس کا رویہ زندگی مبنی ہوتا ہے ۔ لہذا یہ کہنے کے بعد کہ انسان کو پیدا کر کے ہم اس کا امتحان لینا چاہتے تھے یہ ارشاد فرمانا کہ اسی غرض کے لیے ہم نے اسے سمیع و بصیر بنایا ، دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے علم اور عقل کی طاقتیں دیں تاکہ وہ ا متحان دینے کے قابل ہو سکے ۔ ظاہر ہے کہ اگر مقصود کلام یہ نہ ہو اور سمیع و بصیر بنانے کا مطلب محض سماعت و بینائی کی قوتیں رکھنے والا ہی ہو تو ایک اندھا اور بہرا آدمی تو پھر امتحان سے مستثنیٰ ہو جاتا ہے حالانکہ جب تک کوئی علم و عقل سے بالکل محروم نہ ہو ، امتحان سے اس کے مستثنیٰ ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: یعنی مرد اور عورت کے ملے جلے اجزا سے پیدا کیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(76:2) نطفۃ امشاج ، موصوف و صفت نطفۃ قطرہ منی۔ امشاج ۔ یمشج مشج (باب نصر) بمعنی ملانا۔ خلط ملط کرنا سے مشتق ہے۔ امشاج بمعنی مخلوط یہ جمع لیا گیا ہے کہ اس میں مردو عورت کا نطفہ (پانی) مخلوط ہوتا ہے۔ اور ہر نطفہ اجزاء ، خواص، عقت، قوام کے لحاظ سے مختلف و منفرد ہوتا ہے۔ نبتلیہ : مضارع جمع متکلم ابتلاء (افتعال) مصدر سے ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع الانسان ہے۔ ہم اس کی آزمائش کریں۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) یہ خلقنا کے فاعل سے حال ہے والمراد مریدین ابتلائہ واختبارہ بالامر والنھی (مدارک التنزیل، روح المعانی) اور مراد ہماری اس کی آزمائش اور امتحان اوامرو نواہی کا مکلف بنانے کے بعد لینا تھا۔ (2) یہ معلول ہے جس کی علت الانسان کو نطفہ امشاج سے پیدا کرنا ہے لام علت محذوف ہے۔ ای خلقنہ لنختبرہ بالامر والنھی تاکہ اوامرو نواہی کے ذریعہ اس کی آزمائش کریں۔ (تفسیر خازن) اور جگہ قرآن مجید میں ہے :۔ الذی خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا (27:2) اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے تم میں سے کون اچھے کام کرتا ہے۔ فجعلنہ : ف سببیہ ہے ای بسبب ذلک (جلالین) ہ ضمیر مفعول واحد مذکر الانسان کے لئے ہے۔ ہم نے اس کو بنایا۔ سمیعا بروزن (فعیل) صفت مشبہ کا صیغہ ہے سننے والا۔ اسماء حسنی میں سے ہے جب یہ حق تعالیٰ شانہ کی صفت واقع ہو تو اس کے معنی ہیں ایسی ذات جس کی سماعت ہر شے پر حاوی ہو۔ بصیرا۔ بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے بمعنی دیکھنے والا۔ ترجمہ ہوگا :۔ بیشک ہم نے انسان کو ایک نطفہ مخلوط سے پیدا کیا ۔ تاکہ ہم اس کی آزمائش کریں بدیں وجہ ہم نے اس کو سنتا اور دیکھتا بنادیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 شرعی احکام دے کر آیا ان سے انکار کرکے کفروشرک کی راہ اختیار کرتا ہے یا ایمان لا کر نیک عمل کرتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ مطلب یہ کہ ہم نے ایسی ہیات وصفات کے ساتھ پیدا کیا کہ اس میں مکلف بننے کی قابلیت ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انا خلقنا ............................ بصیرا (2:76) ” ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لئے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا “۔ امشاج کے معنی ہیں مخلوط۔ یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جب مرد کا خلیہ عورت کے ہیضے میں داخل ہوکر اس کے ساتھ خلط ہوجاتا ہے اور اس میں مرد اور عورت کی موروثی خصوصیات کی طرف اشارہ بھی ہوسکتا ہے ، جن کو علمائے حیاتیات ” جینز “ کہتے ہیں۔ یہ وہ خصائص ہیں جو جنس انسانی کو دوسرے زندہ اجناس سے ممیز کرتے ہیں ، پھر اس کے ذریعہ خاندانی موروثی خصائص بھی بچے میں منتقل ہوتے ہیں۔ اور انسانی نطفہ انسانی جنین کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اور دوسرے حیوانات سے مختلف شکل اختیار کرتا ہے اور یہی مخلوط نطفہ ہے جس کی طرف مرد اور عورت کی وراثتی خصوصیات منسوب کی جاتی ہیں بلکہ یہ مخلوط نطفہ کئی مختلف وراثتی خصوصیات کا محزن ہوتا ہے۔ یوں اللہ نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔ یہ نہ اتفاقاً پیدا ہوا ہے۔ اور نہ اس کی تخلیق ایک بےمقصد اور عبث ہے۔ اسے کھیل کے طور پر پیدا کیا گیا ہے۔ بلکہ انسان کو ایک ذمہ دار مخلوق کے طور پر امتحان اور آزمائش کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ آزمائش کیا ہے ؟ کیا امتحان ہے ؟ اور اس امتحان کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ البتہ انسان دنیا کے اسٹیج پر جو ڈرامہ کرتا ہے ، یہ محض نتیجے کے اظہار کے لئے ہے تاکہ یہ نتیجہ کھلی عدالت میں پیش ہو اور اس کے اوپر جزا وسزا مرتب ہوں۔ اور لوگ اپنے اچھے اور برے انجام تک پہنچیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے انسان کو سمیع وبصیر بنایا ہے۔ یعنی اسے ادراک کے وسائل دیئے ہیں کہ وہ نیک وبد کو سمجھ سکے اور جان سکے ۔ اور اس دنیا کے افعال واشیاء کی حقیقت کو اچھی طرح پاسکے اور اس امتحان کو اچھی طرح پاس کرسکے۔ پس اللہ تعالیٰ نے انسان کے سلسلہ توالد وتناسل کو چلانے کا جو ارادہ کیا اور اس کے لئے جو نظام متعین فرمایا وہ نطفہ مخلوط سے اس کی تخلیق کا نظام ہے۔ اور اس میں گہری حکمت اور گہری مقصدیت ہے۔ یہ کوئی اتفاقی اور بےسوچے سمجھے کا سلسلہ نہیں ہے۔ اور یہ حکمت اور مقصد اس انسان کو آزمانا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اس ذات کے اندر ہدایت کے اخذ کرنے اور حق کی قبولیت کی استعداد رکھی۔ اور پھر اسے علم ومعرفت اور قدرت واختیار عطا کیا گیا اور یہ تمام صلاحیتیں ، علم وادراک اور اخذ ہدایت اور تربیت کی اللہ نے ایک نہایت ہی متعین وزن اور مقدار کے ساتھ اسے عطا کیں۔ پھر علم ومعرفت اور فہم وادراک کے ساتھ ساتھ اسے یہ قدرت اور اختیار بھی دیا کہ وہ راہ حق کو اختیار کرے۔ چناچہ اسے حق و باطل کی تمیز دے کر چھوڑ دیا کہ جو راہ چاہے اختیار کرے۔ خواہ اللہ کی راہ اختیار کرے یا اس کے سوا کوئی اور راہ اختیار کرے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(2) ہم نے انسان کو ایک ایسے نطفے سے بنایا جو اجزائے مختلفہ سے مخلوط اور مرکب تھا اور اس طور پر اور اس حال میں بنایا کہ ہم اس کی آزمائش کریں لہٰذا ہم نے اس کو سننے والا دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے جو تقریر اوپر کی ہے اس سے اس آیت کا خطاب خوف واضح ہوسکتا ہے مخلوط سے مراد یا تو عورت اور مرد کے نطفے کا اختلاط ہے یا یہ مطلب کہ نطفہ ہر حصہ جسم کا خلاصہ ہے اس لئے اس کو مخلوط فرمایا کیونکہ وہ نطفہ تمام انسانی جسم کا ست ہے یا اس وجہ سے مختلف کھیت اور باغ کی مٹی کا نچوڑ ہے من سلالۃ من طین اس لئے مختلف اجزا سے مرکب ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں امشاج یعنی ملایا ہوا کئی چیز سے عنی منی مرد کی اور عورت کی اور خون حیض کا تو سب مل کر وہی لچھی کہلایا۔ اور یہ جو فرمایا کہ ہم اس کو آزمایں اور اس کو مکلف بنائیں اس واسطے اس کو سنتا اور دیکھتا بنایا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس کو سمجھ اور شعور عطا فرمایا جو آزمائش کے لئے اور مکلف ہونے کے لئے ضروری اور لازمی چیز ہے قرآن نے صرف دو حاسوں کا ذکر فرمایا ہے چونکہ یہ دونوں باقی حواس سے اعظم اور اشرف ہیں۔ اور چونکہ عام طور سے سنتا دیکھتا عاقل ہی کو کہتے ہیں اس لئے عقل کا ذکر یہاں نہیں فرمایا لیکن مراد ضرور ہے نیز یہ آنکھیں دلائل قدرت کو دیکھنے اور کان آیات وجج سننے کے لئے ہوتے ہیں اس لئے ان دونوں کے ذکر کو اختیار کیا ۔ نبتیلہ کا بعض بزرگوں نے ترجمہ ہم پلٹتے رہے اس کو کیا ہے اس ترجمہ کا مطلب واضح ہے ترجمہ یوں ہے بنایا آدمی ایک بوند کے لچھے سے پلٹتے رہے اس کو یعنی نطفے کو خون بنایا پھر لوٹھرا پھر اعضا بنائے وغیرہ وغیرہ اور کئی اطوار و درجات میں الٹ پلٹ کرکے اس کو سنتا دیکھتا کردیا۔ (واللہ اعلم)