Surat ud Dahar

Surah: 76

Verse: 26

سورة الدھر

وَ مِنَ الَّیۡلِ فَاسۡجُدۡ لَہٗ وَ سَبِّحۡہُ لَیۡلًا طَوِیۡلًا ﴿۲۶﴾

And during the night prostrate to Him and exalt Him a long [part of the] night.

اور رات کے وقت اس کے سامنے سجدے کر اور بہت رات تک اس کی تسبیح کیا کر ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And during the night, prostrate yourself to Him, and glorify Him a long night through. This is similar to Allah's statement, وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً مَّحْمُودًا And in some parts of the night offer the Salah with it (the Qur'an), as an additional prayer (Tajhajjud) for you. It may be that you Lord will raise you to Maqam Mahmud. (17:79) Similarly, Allah also says, يأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ الَّيْلَ إِلاَّ قَلِيلً نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلً أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْءَانَ تَرْتِيلً O you wrapped! Stand all night, except a little. Half of it or a little less than that, or a little more. And recite the Qur'an Tartil. (73:1-4) The Censure of Love for the World and informing about the Day of the Final Return Allah reprimands the disbelievers and those similar to them who love the world and are devoted and dedicated to it, who put the abode of the Hereafter behind them in disregard. He says; إِنَّ هَوُلاَء يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءهُمْ يَوْمًا ثَقِيلً

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2 6 ۔ 1 رات کو سجدہ کر سے مراد بعض نے مغرب و عشاء کی نمازیں مراد لی ہیں اور تسبیح کا مطلب جو باتیں اللہ کے لائق نہیں ہیں ان سے اس کی پاکیزگی بیان کر، بعض کے نزدیک اس سے رات کی نفلی نمازیں یعنی تہجد ہے امر ندب واستحباب کے لیے ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمِنَ الَّيْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَيْلًا طَوِيْلًا۝ ٢٦ ليل يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل : أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم/ 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے طول الطُّولُ والقِصَرُ من الأسماء المتضایفة كما تقدّم، ويستعمل في الأعيان والأعراض کالزّمان وغیره قال تعالی: فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید/ 16] ، سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، ويقال : طَوِيلٌ وطُوَالٌ ، و عریض وعُرَاضٌ ، وللجمع : طِوَالٌ ، وقیل : طِيَالٌ ، وباعتبار الطُّولِ قيل للحبل المرخيِّ علی الدّابة : طِوَلٌ «3» ، وطَوِّلْ فرسَكَ ، أي : أَرْخِ طِوَلَهُ ، وقیل : طِوَالُ الدّهرِ لمدّته الطَّوِيلَةِ ، وَتَطَاوَلَ فلانٌ: إذا أظهر الطُّولَ ، أو الطَّوْلَ. قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] ، وَالطَّوْلُ خُصَّ به الفضلُ والمنُّ ، قال : شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر/ 3] ، وقوله تعالی: اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة/ 86] ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء/ 25] ، كناية عمّا يصرف إلى المهر والنّفقة . وطَالُوتُ اسمٌ عَلَمٌ وهو أعجميٌّ. ( ط و ل ) الطول یہ اسمائے اضافیہ سے ہے ۔ اور اس کے معنی دراز اور لمبا ہونا کے ہیں یہ القصر کے مقابلہ میں آتا ہے اور اعیان واعرراض مثلا زمانہ وغیرہ سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ [ الحدید/ 16] پھر ان پر لمبا عرصہ گزر گیا ۔ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] بہت لمبے شغل ( ہوتے ہیں ) طول طول جیسے عریض و عریض دراز لمبا اس کی جمع طوال آتی ہے اور بعض نے طیال بھی کہا ہے اور لمبا ہونے کی مناسبت سے جانور کی پچھاڑی کی رسی کو طول کہا جاتا ہے طول کہا جاتا ہے طول فرسک اپنے گھوڑے کی پچھاڑی باندھ دے ۔ طوال الدھر عرصہ دارز ۔ تطاول فلان درازی یا وسعت کو ظاہر کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص/ 45] پھر ان پر لمبا عرسہ گزر گیا ۔ اور طول کا لفظ خاص کر فضل و احسان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ شَدِيدِ الْعِقابِ ذِي الطَّوْلِ [ غافر/ 3] سخت عذاب دینے والا اور صاحب کرم ہے ۔ اور آیت کریمہ : اسْتَأْذَنَكَ أُولُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ [ التوبة/ 86] تو جو ان میں دولتمند ہیں وہ تم سے اجازت طلب کرتے ہیں میں اولوالطول سے خوش حال طبقہ مراد ہے اور آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا[ النساء/ 25] اور جو شخص تم میں سے مقدر نہ رکھے ۔ میں طولا کنایہ ہے اس مال سے ( جو عورت کو ) مہر میں یا نان ونفقہ کے طور پر دینا پڑتا ہے ۔ طالوت یہ اسم عجمی ہے اور بنی اسرائیل کے ایک با اقبال بادشاہ کا نام تھا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦{ وَمِنَ الَّـیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ } ” اور رات کے ایک حصے میں اس کے لیے سجدہ کیا کیجیے “ { وَسَبِّحْہُ لَـیْلًا طَوِیْلًا ۔ } ” اور رات کے بڑے حصے میں اس کی تسبیح کیا کیجیے۔ “ یہ اسی حکم کا تسلسل ہے جو سورة المزمل کی ابتدائی آیات میں دیا گیا تھا۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کا بیشتر حصہ اللہ کے حضور کھڑے ہو کر قرآن پڑھنے ‘ اس کے حضور سربسجود رہنے اور اس کی تسبیح کرنے میں َصرف کیا کریں۔ اس وقت تک چونکہ ابھی نماز پنجگانہ کا حکم نہیں آیا تھا ‘ اس لیے سارا زور رات کی عبادت پر تھا۔ بعد میں جب نماز پنجگانہ کی فرضیت کا حکم آگیا تو اس ” قیام اللیل “ کو مختصر کر کے تہجد میں تبدیل کردیا گیا۔ وہ بھی سب کے لیے نہیں صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے : { وَمِنَ الَّــیْلِ فَتَہَجَّدْ بہٖ نَافِلَۃً لَّکَ } (بنی اسراء یل : ٧٩) ۔ نَافِلَۃ کے لفظی معنی اضافی اور زائد کے ہیں ۔ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نماز تہجد باقی فرض نمازوں کے علاوہ اضافی فرض کے درجے میں تھی ‘ جبکہ امت کے لیے اس کی حیثیت نفل کی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 The rule followed in the Qur'an is that wherever the Muslims have been exhorted to show patience against the disbelievers, immediately after it they have been commanded to remember Allah much and to observe the Prayer, which automatically implies that the power needed to meet the resistance of the enemies of the Truth in the way of truth faith can be obtained only by this means. To remember Allah morning and evening may also imply remembering Allah always but when the command to remember Allah at specific times is given, it implies the salat (Prayer) . In this verse, bukrah means the morning and asil the time from the sun's decline till sunset, which obviously covers the Zuhr and the Asr times. Night starts after sunset;. therefore, the command "to prostrate yourself in the night" would apply to both the Maghrib and the `Isha' Prayers. Then, the command "to glorify Allah in the long hours of night", clearly points to the time of the Tahajjud Prayer. (For further explanation, see E.N.'s 92 to 97 of Bani Isra'il, E N. 2 of AI-Muzzammil) . This also shows that these very have been the Prayer times in Islam from the beginning. However, the command making the Prayer obligatory five times a day with fixed tunes and number of rak ahs was given on the occasion of mi`raj (ascension) .

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(76:26) ومن الیل فاسجدلہ۔ واؤ عاطفہ، من تبعیضیہ ہے اور رات کے بعض حصہ میں۔ فاسجد میں ف زائدہ ہے اور اما شرطیہ ہے جو مقدر ہے۔ اصل کلام یوں ہے :۔ واما من الیل فاسجد (تفسیر مظہری) اسجد فعل امر، واحد مذکر حاضر۔ سجود (باب نصر) مصدر۔ تو سجدہ کر۔ یہاں سجدہ سے مراد نماز پڑھنا ہے۔ یہاں مغرب اور عشاء کی نمازیں مراد ہیں۔ وسبحہ لیلا طویلا : سبح فعل امر واحد مذکر حاضر۔ تسبیح (تفعیل) مصدر ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع رب ہے تو اس کی تسبیح بیان کر۔ تو اس کی پاکی بیان کر۔ لیلا مفعول فیہ۔ رات کو، رات کے دوران۔ طویلا۔ لمبا۔ طویل، دراز، طول (باب نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ یہاں طویلا مصدر محذوف کی صفت ہے یعنی تسبیحا طویلا۔ مراد اس سے آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش ہے۔ (تفسیر مظہری) تسبیح سے مراد نماز شب ہے۔ مدارک التنزیل میں ہے :۔ ای تھجدلہ ھزیعا طویلا من الیل ثلثیہ او نصفہ او ثلثہ۔ اس کے لئے تہجد کی نماز پڑھ۔ رات کے طویل حصہ میں اس کا دو تہائی یا نصف یا اس کا ایک تہائی حصہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی تہجد کی نماز پڑھئے۔ یہ حکم استحباب کے لئے ہے، اگر یہ کہا جائے کہ تہجد کی نماز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی فرض نہ تھی بلکہ عام مسلمانوں کی طرح صرف نفل تھی۔ یا یہ حکم صرف نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے، اگر یہ کہا جائے کہ تہجد کی نماز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرض تھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) اور رات کے کچھ حصے میں اس کو سجدہ کیا کیجئے اور رات کے بڑے حصے میں بھی اس کی پاکی بیان کیا کیجئے بعض اہل تفسیر نے فرمایا ہے کہ اس سے پانچوں وقت کی نماز مراد ہے کہ آپ پانچوں وقت نماز پڑھتے رہیے یا یہ مطلب ہے کہ صبح وشام خاص طور قر اس کا نام لیا کیجئے اور اس کا نام کا ذکر کیا کیجئے یہ دو وقت خاص طور پر اس کو یاد کرنا اور اس کا نام جپنا بہت سی مشکلات کا علاج ہے۔ رات کے کچھ حصے میں سجدہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مغرب اور عشاء کی نماز پڑھا کیجئے اور رات کے بڑے حصے میں پاکی بیان کرنے سے مطلب شاید تہجد کی نماز ہے اور اگر ومن الیل فاسجدلہ سے تہجد مراد لیں تو وسبحہ لیلا طویلا کا مطلب یہ ہوگا کہ رات کے طویل حصہ میں ذکر اور تسبیح الٰہی کیا کرو۔ بہرحال مخالفت کا مقابلہ عبادت الٰہی سے کیجئے اور ان منکروں کا کہنا نہ مانیے۔