Surat ud Dahar

Surah: 76

Verse: 28

سورة الدھر

نَحۡنُ خَلَقۡنٰہُمۡ وَ شَدَدۡنَاۤ اَسۡرَہُمۡ ۚ وَ اِذَا شِئۡنَا بَدَّلۡنَاۤ اَمۡثَالَہُمۡ تَبۡدِیۡلًا ﴿۲۸﴾

We have created them and strengthened their forms, and when We will, We can change their likenesses with [complete] alteration.

ہم نے انہیں پیدا کیا اور ہم نے ہی ان کے جوڑ اور بند ھن مضبوط کئے اور ہم جب چاہیں ان کے عوض ان جیسے اوروں کو بدل لائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

نَحْنُ خَلَقْنَاهُمْ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ ... It is We Who created them, and We have made them of strong build. Ibn `Abbas, Mujahid and others have said, "This means their creation." ... وَإِذَا شِيْنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَهُمْ تَبْدِيلًإ And when We will, We can replace them with others like them with a complete replacement. meaning, `when We wish, We will resurrect them on the Day of Judgement and change them, repeating their creation in a new form.' Here the beginning of their creation is a proof for the repetition of their creation. Ibn Zayd and Ibn Jarir both said, وَإِذَا شِيْنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَهُمْ تَبْدِيلًإ (And when We will, We can replace them with others like them with a complete replacement.) "This means, if We wish We can bring another group of people besides them (in their place)." This is like Allah's statement, إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ وَيَأْتِ بِـاخَرِينَ وَكَانَ اللَّهُ عَلَى ذلِكَ قَدِيراً If He wills, He can take you away, O people, and bring others. And Allah is capable over that. (4:133) This is also like His statement, إِن يَشَأْ يُذْهِبْكُـمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ If He wills, He can remove you and bring a new creation! And for Allah that is not hard or difficult. (14:19-20) The Qur'an is a Reminder, and Guidance comes from the Help of Allah Allah then says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

28۔ 1 یعنی ان کی پیدائش کو مضبوط بنایا، یا ان کے جوڑوں کو، رگوں کو اور پٹھوں کے ذریعے سے، ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیا، بلفظ دیگر، ان کا مانجھا کڑا کیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] ہم نے رحم مادر سے ایک خوردبینی کیڑے کی نشوونما کرکے انہیں اس طرح پیدا کیا کہ ان کا بند بند اور پور پور درست کرکے انہیں ایک صاحب عقل و شعور انسان بنا کر پیدا کردیا تھا تو ہم میں یہ بھی قدرت ہے کہ تمہیں پرے ہٹا کر دوسری مخلوق تمہاری جگہ لے آئیں جو تمہاری طرح نافرمان اور سرکش نہ ہو۔ اور یہ بھی قدرت ہے کہ تمہیں اس صفحہ ہستی سے مٹا کر دوبارہ تمہیں پیدا کرکے تمہارا پوری طرح محاسبہ کریں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

نحن خلقنھم وشددنا اسرھم…:” اسرھم “ ” اسر “ کا معنی باندھنا ہے، سایر بھی اسی سے نکلا ہے، یعنی ہم نے ان کے اعضا کا بندھن مضبوطی سے باندھا ہے، ہڈیوں اور پٹھوں کے جوڑ نہایت مضبوط بنئاے ہیں، یعنی یہ لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو عقل کے خلاف سمجھتے ہیں، لیکن اتنا نہیں سوچتے کہ ہم نے انہیں پ لہی مرتبہ پیدا کیا، ان کے نرم و نازک رگ و ریشے، گوشت پوست، جوڑوں اور ہڈیوں کو مضبوطی سے باندھ دیا تو ہم دوبارہ انہیں کیوں زندہ نہیں کرسکتے ؟ ہم تو جب چاہیں انہیں ختم کر کے ان کی جگہ ان جیسے اور لوگ لاسکتے ہیں، تو ان کا بنانا ہمیں کیا مشکل ہے ؟ دوسری جگہ فرمایا :(ان یشا یذھبکم ایھا النسا و یات باخرین وکان اللہ علی ذلک قدیراً ) (النسائ : ١٣٣)” اگر وہ چاہے تو تمہیں لے جائے اور دوسرے لوگوں کو لے آئے اور اللہ اس پر خوب قدرت رکھنے والا ہے۔ “ مزید دیکھیے سورة ابراہیم (١٩، ٢٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

نَحْنُ خَلَقْنٰہُمْ وَشَدَدْنَآ اَسْرَہُمْ۝ ٠ ۚ وَاِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَآ اَمْثَالَہُمْ تَبْدِيْلًا۝ ٢٨ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ أسر الأَسْر : الشدّ بالقید، من قولهم : أسرت القتب، وسمّي الأسير بذلک، ثم قيل لكلّ مأخوذٍ ومقيّد وإن لم يكن مشدوداً ذلك «1» . وقیل في جمعه : أَسَارَى وأُسَارَى وأَسْرَى، وقال تعالی: وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان/ 8] . ويتجوّز به فيقال : أنا أسير نعمتک، وأُسْرَة الرجل : من يتقوّى به . قال تعالی: وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] إشارة إلى حکمته تعالیٰ في تراکيب الإنسان المأمور بتأمّلها وتدبّرها في قوله تعالی: وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ [ الذاریات/ 21] . والأَسْر : احتباس البول، ورجل مَأْسُور : أصابه أسر، كأنه سدّ منفذ بوله، والأسر في البول کالحصر في الغائط . ( ا س ر ) الاسر کے معنی قید میں جکڑ لینے کے ہیں ۔ یہ اسرت القتب سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں میں نے پالان کو مضبوطی سے باندھ دیا اور قیدی کو اسیر اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ رسی وغیرہ سے باندھا ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :َ { وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا } ( سورة الإِنْسان 8) اور یتیموں اور قیدیوں کو ۔ پھر اس شخص کو جو گرفتار اور مقید ہوکر آئے الاسیر کہہ دیا جاتا ہے گو وہ باندھا ہوا نہ ہوا سیر کی جمع اسارٰی و اساریٰ واسریٰ ہے اور مجازا ۔ انا اسیر نعمتک کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی تیرے احسان کی رسی میں بندھا ہوا ہوں ۔ اور اسرۃ الرجل کے معنی افراد خادندان کے ہیں جن سے انسان قوت حاصل کرتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ } ( سورة الإِنْسان 28) اور ان کی بندش کو مضبوطی سے باندھ دیا ۔ میں اس حکمت الہی کی طرف اشارہ ہے جو انسان کی بئیت ترکیبی میں پائی جاتی ہے جس پر کہ آیت { وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ } ( سورة الذاریات 21) میں غور فکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ الاسر ۔ کے معنی ہیں پیشاب بند ہوجانا ۔ اور جو شخص اس بماری میں مبتلا ہوا سے عاسور کہا جاتا ہے گو یا اس کی پیشاب کی نالی بند کردی گئی ہے اس کے مقابلہ میں پاخانہ کی بندش پر حصر کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» . وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس/ 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم/ 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع : البَئَادِل قال الشاعر : ولا رهل لبّاته وبآدله ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : { وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ } ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔{ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ } ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ہم نے ہی ان مکہ والوں کو پیدا کیا اور ان کو مضبوط بنایا اور جب چاہیں تو ہم ان کو ہلاک کردیں اور ان کی جگہ ان ہی جیسے بہترین عبادت گزار آدمی پیدا کردیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨{ نَحْنُ خَلَقْنٰـہُمْ وَشَدَدْنَآ اَسْرَہُمْ } ” ہم نے ہی ان کو تخلیق فرمایا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کیے ہیں۔ “ { وَاِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَآ اَمْثَالَہُمْ تَبْدِیْلًا ۔ } ” اور ہم جب چاہیں گے ان جیسے بدل کر اور لے آئیں گے۔ “ عام طور پر اس آیت کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب چاہے ایک قوم کو ختم کر کے اس کی جگہ کسی دوسری قوم کو لے آئے۔ لیکن اس سے پہلے چونکہ انسانی تخلیق اور انسانی جسم کے جو ڑبند درست کرنے کا ذکر ہوا ہے اس لیے میرے نزدیک اس جملے کا درست مفہوم یہ ہے کہ آخرت میں ہم ان لوگوں کو ان کے دنیوی زندگی والے جسموں جیسے اور جسم عطا کردیں گے۔ واضح رہے کہ یہ مضمون قبل ازیں سورة بنی اسرائیل : ٩٩ ‘ سورة الواقعہ : ٦١ اور سورة یٰسٓ : ٨١ میں بھی آچکا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

32 The sentence, "Whenever it be Our will We can change their forms°, can have several meanings: (1) That whenever We please We can destroy them and replace them by other people of their own kind, who will be different from them in conduct; (2) that whenever We please We can change their forms; that is, just as We can make someone healthy and sound in body, so also We have the power to make somebody a paralytic, cause someone to be struck with facial paralysis and other to fall a victim to some disease or accident and become a cripple permanently; and (3) that whenever We will We can recreate them in some other form after death.

سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :32 اصل الفاظ ہیں اذا شئنا بدلنا امثالھم تبدیلاً ۔ اس فقرے کے کئی معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم جب چاہیں انہیں ہلاک کر کے انہی کے جنس کے دوسرے لوگ ان کی جگہ لا سکتے ہیں جو اپنے کردار میں ان سے مختلف ہوں گے ۔ دوسرے یہ کہ ہم جب چاہیں ان کی شکلیں تبدیل کر سکتے ہیں ، یعنی جس طرح ہم کسی کو تندرست اور سلیم الاعضاء بنا سکتے ہیں اسی طرح ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ کسی کو مفلوج کر دیں ، کسی کو لقوہ مار جائے اور کوئی کسی بیماری یا حادثے کا شکار ہو کر اپاہج ہو جائے ۔ تیسرے یہ کہ ہم جب چاہیں موت کے بعد ان کو دوبارہ کسی اور شکل میں پیدا کر سکتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

6: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ان سب کو ہلاک کر کے ان کی جگہ دوسرے اِنسان پیدا کردیں، اور دُوسرا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے انہیں شروع میں پیدا کیا تھا، اسی طرح ہم جب چاہیں گے، ان کے مرنے کے بعد بھی انہیں دوبارہ پیدا کردیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(76:28) نحن خلقنھم۔ ہم نے ہی ان کو پیدا کیا ہے۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب کا مرجع کفار مکہ ہیں۔ وشددنا اسرہم : اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ شددنا ماضی جمع متکلم۔ شد باب نصر و ضرب) مصدر سے جس کا معنی مضبوط باندھنے کے ہیں۔ اسرھم مضاف مضاف الیہ ان کی جوڑ بندی، ان کی قید کی بندش (حاصل مصدر) ۔ الاسر کے معنی قید میں جکڑ لینے کے ہیں یہ اسرت العتب سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں : میں نے پالان کو مضبوطی سے باندھ دیا۔ قیدی کو اسیر اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ رسی وغیرہ سے باندھا ہوتا ہے۔ آیت ہذا میں ” ہم نے ان کی بندش کو مضبوطی سے باندھ دیا “ میں اس حکمت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جو انسان کی ہیئت ترکیبی میں پائی جاتی ہے۔ قدرت الٰہی نے انسان کے مختلف اعضاء کو ایک دوسرے کے ساتھ پٹھوں، ریشوں اور رگوں کے ذریعے بڑی پختگی سے جوڑ دیا ہے سب اعضاء اپنے فرائض انجام دیتے رہتے ہیں اس کے باوجود ایک دوسرے سے پیوستہ بھی ہیں۔ ایک دوسرے کی قوت و طاقت کا ذریعہ بھی ہیں ایک دوسرے کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔ اگر اسی ایک بات پر تم غور کرو تو تمہارے شکوک و شبہات کے بادل سب چھٹ جائیں گے۔ (راغب ، ضیاء القرآن) واذا شیئنا بدلنا امثالہم تبدیلا : شیئنا کا مفعول محذوف ہے ای اہلاکہم او تبدیلہم۔ اذا بمعنی جب، شیئا کا ظرف ۔ شئنا ماضی جمع متکلم مشیئۃ (باب سمع) مصدر۔ ہم نے چاہا۔ ہم چاہیں۔ اس کا عطف شددنا پر ہے۔ یہ جملہ شرطیہ ہے۔ بدلنا امثالہم جواب شرط ہے۔ بدلنا ماضی کا صیغہ جمع متکلم تبدیل (تفعیل) مصدر ہم نے بدل ڈالا۔ ہم بدل ڈالیں۔ امثالہم مضاف مضاف الیہ۔ ان کی مثالیں، ان جیسے ۔ تبدیلا مفعول مطلق تاکید کے لئے ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ ہم نے ہی ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ مضبوط کئے ہیں۔ اور جب ہم چاہیں ان کی شکلوں کو بدل کر رکھ دیں۔ (مودودی) ۔ مودودی صاحب تفہیم القرآن کے فٹ نوٹ میں رقم طراز ہیں :۔ اذا شئنا بدلنا امثالہم تبدیلا اس جملہ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں :۔ ایک یہ کہ ہم جب چاہیں انہیں ہلاک کرکے ان ہی کی جنس کے دوسرے لوگ ان کی جگہ لاسکتے ہیں ۔ جو اپنے کردار میں ان سے مختلف ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ ہم جب چاہیں ان کی شکلیں تبدیل کرسکتے ہیں۔ یعنی جس طرح ہم کسی کو تندرست اور سلیم الاعضا بنا سکتے ہیں ، اسی طرح ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ کسی کو مفلوج کردیں کہ کسی کو لقوہ مار جائے اور ۔۔ کسی بیمای یا حادثہ کا شکار ہو کر اپاہج ہ جائے۔ تیسرے یہ کہ ہم جب چاہیں موت کے بعد ان کو دوبارہ کسی اور شکل میں تبدیل کرسکتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 14 دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ” ہم جب چاہیں ان کی موجودہ ہستیوں کو (ختم کرکے) دوبارہ ایسی ہی ہستیاں بناکر کھڑی کردیں “۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

نحن خلقنھم .................... تبدیلا یہ ذرا ان لوگوں کو تنبیہہ اور تذکیر ہے جو اپنی قوتوں پر مغرور ہیں کہ تمہاری قوت بلکہ تمہارے وجود کا سرچشمہ بھی درحقیقت ہم ہیں۔ اور اس کے بعد مومنین کو اطمینان دلایا جاتا ہے کہ اگرچہ تم قلیل و ضعیف ہو لیکن تم جس ذات کی دعوت لے کر اٹھے ہو وہ نہایت ہی قوت والی ذات ہے۔ اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ تمام واقعات اللہ کی قدرت سے وجود میں آتے ہیں اور ان کی پشت پر اللہ کی قدرت کار فرما ہوتی ہے۔ اور تمام امور اس کی حکمت کے مطابق سرانجام پاتے ہیں اور وہ احکم الحاکمین ہے۔ واذا شئنا ................ تبدیلا (18:76) ” اور جب ہم چاہیں ان کو بدل کر رکھ دیں “۔ اللہ کے مقابلے میں یہ کچھ نہیں کرسکتے۔ اللہ نے ہی ان کو پیدا کیا ہے۔ یو قوت اللہ ہی نے ان کو دی ہے۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ ان کے مقابلے میں ایک دوسری قوم اٹھا دے جو ان کی جگہ لے لے۔ اللہ نے جو ابھی تک ان کو مہلت دی ہے اور ان کی جگہ دوسری قوت نہیں اٹھائی تو یہ اللہ کا فضل وکرم ہے اور اس کا فیصلہ اور حکمت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے اور آپ کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اہل ایمان کے موقف اور دوسروں کے موقف کی وضاحت کی گئی ہے۔ اور ان لوگوں کو تنبیہہ کی گئی ہے جو اس دنیا کے معاملات میں غرق ہیں ، جو اپنی قوت پر مغرور ہیں کہ وہ اللہ کی نعمتوں کی قدر کریں ، یا نہ کریں کہ شکر ادا کرنے کی بجائے وہ اللہ کی نعمتوں کو ذریعہ غرور بنائیں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ نعمتیں اور یہ مہلت دراصل آزمائش ہے۔ جس طرح سورت کے آغاز میں تصریح کی گئی تھی۔ اس کے بعد ان کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ تم کو جو مہلت دی گئی ہے اس کی ایک ایک گھڑی تمہارے لئے بہت قیمتی ہے ، قرآن کریم اللہ کی رحمت ہے۔ یہ مسلسل نازل ہورہا ہے اور یہ سورت بھی ایک تذکرہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو لوگ قیامت کے دن زندہ ہو کر اٹھنے پر تعجب کرتے تھے اور وقوع قیامت کے منکر تھے ان کے استعجاب اور انکار کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ﴿ نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَ شَدَدْنَاۤ اَسْرَهُمْ ١ۚ﴾ (ہم ہی نے ان کو پیدا کیا اور ہم ہی نے ان کے جوڑ بند مضبوط کیے) ۔ ﴿ وَ اِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَاۤ اَمْثَالَهُمْ تَبْدِيْلًا ٠٠٢٨ ﴾ (اور ہم جب چاہیں ان کے جیسے لوگ بدل دیں) یعنی ان کی جگہ ان جیسے لوگ پیدا کردیں۔ جس ذات پاک نے اولاً پیدا کیا مضبوط بنایا وہ تمہاری جگہ دوسرے لوگ پیدا فرما سکتا ہے اور وہ تمہیں موت دے کر دوبارہ پیدا فرمانے پر بھی پوری طرح قادر ہے۔ ﴿ وَ شَدَدْنَاۤ اَسْرَهُمْ ﴾ جو فرمایا (کہ ہم نے ان کے جوڑ مضبوط کیے) اس میں اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا بیان ہے کہ گوشت اور ہڈی اور کھال سے جو اعضاء بنے ہوئے ہیں یہ رات دن حرکت میں رہتے ہیں اٹھنے بیٹھنے میں مڑتے ہیں، کام کاج میں رگڑے جاتے ہیں لیکن نرم اور نازک ہوتے ہوئے نہ گھستے ہیں نہ ٹوٹتے ہیں جبکہ لوہے کی مشینیں بھی گھس جاتی ہیں اور بار بار پرزے بدلنے پڑتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ہے کہ انسانی اعضاء بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کام کرتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ جب صبح ہوتی ہے تو تم سے ہر شخص کے جوڑوں کی طرف سے صدقہ کرنا واجب ہوجاتا ہے سو ہر سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے اور ہر الحمد للہ کہنا صدقہ ہے اور ہر لا اِلٰہ الا اللہ کہنا صدقہ ہے اور ہر اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے اور نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور دو رکعتیں چاشت کی پڑھ لی جائیں تو وہ اس سب کے بدلہ کا کام دے جاتی ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے کہ ہر انسان تین سو ساٹھ (٣٦٠) جوڑوں پر پیدا کیا گیا ہے سو جس نے اللہ اکبر کہا اور الحمد للہ کہا اور لا اِلٰہ الا اللہ کہا اور سبحان اللہ کہا اور اللہ سے مغفرت طلب کی اور لوگوں کے راستہ سے پتھر کانٹا ہڈی کو ہٹا دیا یا امر بالمعروف کیا یا نہی عن المنکر کیا اور ان چیزوں کی تعداد تین سو ساٹھ ہوگئی تو وہ اس دن اس حال میں چلے پھرے گا کہ اپنی جان کو دوزخ سے بچا چکا ہوگا۔ (رواہ مسلم)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ “ نحن خلقنہم “ ہم ہی نے ان کو پیدا کیا ہے اور ان کی خلقت کو محکم اور استوار بنایا ہے اور جب ہم چاہیں گے ان کی جگہ ان کی مانند اوروں کو لے آئیں گے۔ پیدا کرنے اور پھر مارنے اور مرنے والوں کی جگہ دوسروں کو لانے کا یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ ہی کا کرشمہ ہے اور اس سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ جس طرح ہم نے ان کو پہلے پیدا کرلیا اسی طرح جب چاہیں گے قیامت کے دن ان کو دوبارہ پیدا کرلیں گے ای واذا شئنا بعثناہم یوم القیامۃ وبدلناھم فاعددنا ھم خلقا جدیدا (ابن کثیر ج 4 ص 458) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) ہم ہی نے ان کو پیدا کیا ہے اور ہم ہی ان کے جوڑوں کے بندھن اور رگ وپٹھے خوب مضبوط باندھے ہیں اور ہم جب چاہیں ان کے بدلے انہی جیسے اور لوگ لے آئیں۔ یعنی ہم نے ہی ان کو پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اور ہم ہی نے ان کے جوڑ جوڑ کو درست اور مضبوط کیا ہے ہم جب چاہیں ان کی ہستی کو فنا کردیں اور دوبارہ ایسی ہی ہستی بنا کر کھڑی کردیں یا یہ کہ ان کو مٹاکر ان کی جگہ دوسرے آدمی لے آئیں جو ان کی طرح سرکش اور نافرمان نہ ہوں۔ انہوں نے یو ثقیل کو اس لئینظرانداز کیا ہے کہ ان کو مر کر دوبارہ زندہ ہونے کا یقین نہیں یہ اس کا جواب ہے کہ جب ہم دنیا میں تم جیسے دوسرے انسان کو لاسکتے ہیں تو قیامت میں تم کو دوبارہ زندہ کیوں نہیں کرسکتے۔