Surat ud Dahar

Surah: 76

Verse: 31

سورة الدھر

یُّدۡخِلُ مَنۡ یَّشَآءُ فِیۡ رَحۡمَتِہٖ ؕ وَ الظّٰلِمِیۡنَ اَعَدَّ لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿٪۳۱﴾  20

He admits whom He wills into His mercy; but the wrongdoers - He has prepared for them a painful punishment.

جسے چاہے اپنی رحمت میں داخل کر لے ، اور ظالموں کے لئے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

He will admit to His mercy whom He wills and as for the wrongdoers -- He has prepared a painful torment. meaning, He guides whomever He wishes and He leads astray whomever He wishes. Whoever He guides, there is no one who can lead him astray; and whoever He leads astray, there is no one who can guide him. This is the end of the Tafsir of Surah Al-Dahr. And all praise and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 والظالمین اس لیے منصوب ہے کہ اس سے پہلے یعذب محذوف ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] یعنی جو انسان اس دنیا میں اپنے اختیار کا صحیح استعمال کرے گا اور کائنات کی دوسری اشیاء کی طرح اپنے آپ کو اللہ کا تابع فرمان رکھے گا۔ اسے تو اللہ اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا اور جو اس اختیار کا غلط استعمال کرے گا اور اللہ کا سرکش اور نافرمان بن کر زندگی گزارے گا اسے مرنے کے ساتھ ہی دکھ دینے والے عذاب سے دوچار کر دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) یدخل من یشآء فی رحمتہ :” وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے “ مالک اپنی چیز جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے، کوئی اسے پوچھ نہیں سکتا، جیسا کہ فرمایا، (لایسئل عما یفعل وھو یسئلون) (الانبیائ : ٢٣)” اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھا جاتا ہے۔ “ (٢) والظلمین اعدلھم عذاباً الیماً : یعنی اس نے ظالموں کے لئے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے۔ یہاں ” الظلمین “ سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ سب سے بڑے ظالم وہی ہیں، جیسا کہ فرمایا :(ان الشرک لظلم عظیم) (لقمان : ١٣)” بیشک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔ “ معلوم ہوا اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے محروم انھی کو رکھتا ہے جو ظالم ہیں، جیسے فرمایا :(یضل بہ کثیراً ویھدی بہ کثیراً وما یضل بہ الا الفسققین ، الذین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ و یقطعون ما امر اللہ بہ ان یوصل ویفسدون فی الارض اولئک ھم الخسرون) (البقرۃ : ٢٦/٢٨)” وہ اس (قرآن) کے ساتھ بہت سے لوگوں کو گمراہ کردیتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور اس کے ساتھ گمراہ نہیں کرتا مگر نافرمانوں کو ۔ وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو ، اسے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جس کے متعلق اللہ نے حکم دیا کہ اسے ملایا جائے اور زمین میں فساد کرتے ہیں یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ “ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بیھ اپنی حمت میں داخل فرمائے اور عذاب الیم سے محفوظ رکھے۔ (آمین)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يُّدْخِلُ مَنْ يَّشَاۗءُ فِيْ رَحْمَتِہٖ۝ ٠ ۭ وَالظّٰلِمِيْنَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا اَلِــيْمًا۝ ٣١ ۧ دخل الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] ( دخ ل ) الدخول ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة/ 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں عد ( اعداد) والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة/ 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه . ( ع د د ) العدد الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال/ 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء/ 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان/ 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة/ 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة/ 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا ألم الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء/ 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام/ 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» . ( ا ل م ) الالم کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ { فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ } ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ } ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کہ تم بغیر اس کی مشیت کے کسی چیز کو اختیار نہیں کرسکتے جو دین اسلام کا اہل ہوتا ہے وہ اس سے سرفرازی عطا کرتا ہے اور کافروں کے لیے اس نے آخرت میں قریب ہی دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١{ یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآئُ فِیْ رَحْمَتِہٖ } ” وہ داخل کرے گا اپنی رحمت میں جس کو چاہے گا۔ “ ظاہر ہے دنیا و آخرت کا کوئی کام بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ہم اللہ کے حکم اور اذن کے بغیر کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ اگر کوئی شخص ایک کام کرنے پر بظاہر قادر بھی ہو تو وہ اس کام کو اس وقت تک انجام نہیں دے سکتا جب تک اس کی مشیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مشیت بھی شامل نہ ہو۔ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جس طرح ہم خود اللہ کی مخلوق ہیں اسی طرح ہمارے تمام اعمال بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ سورة الصَّافّات میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ۔ } کہ اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تمہارے اعمال کو بھی۔ اس مفہوم میں ہر انسان اپنی نیت اور اپنے ارادے کی بنا پر ” کا سب ِاعمال “ ہے ‘ جبکہ ” خالق اعمال “ اللہ تعالیٰ ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا اسے ایسے اعمال کی توفیق دے گا جن کی بنا پر وہ اس کی رحمت کا مستحق ٹھہرے گا۔ اس جملے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ داخل کرے گا اپنی رحمت میں ‘ اسے جو چاہے گا ۔ یعنی وہ صرف اسی شخص کو اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے گا جو اس کی رحمت کا مستحق بننے کے لیے کوشاں ہوگا۔ جیسا کہ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا گیا ہے : { وَمَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَۃَ وَسَعٰی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَّشْکُوْرًا ۔ } یعنی جس شخص نے آخرت کو اپنا اصل مقصود بنا لیا اور اس کے لیے اس نے مقدور بھر محنت بھی کی اور وہ مومن بھی ہو ‘ تو اس کی وہ محنت اور کوشش اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول و مشکور ہوگی۔ { وَالظّٰلِمِیْنَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ۔ } ” اور رہے ظالم ‘ تو ان کے لیے اس نے بہت دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “ اَللّٰھُمَّ اَعِذْنَا مِنْ ذٰلِکَ ! اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنْ ذٰلِکَ !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34 In this verse "wrong doers" imply the people whom the Revelations of Allah and the teachings of His Prophet may reach, yet they deliberately and consciously decide that they would not obey and follow them. This also includes those unjust people who may plainly say that they do not accept the Revelation as God's Revelation and the Prophet as God's Prophet, or that they do not believe in God at all, and also those wicked people who may not refuse to believe in God and the Prophet and the Qur'an, but they are resolved not to obey and follow them. As a matter of fact, both these groups are unjust and wicked. As regards the first group, their case is clear and obvious; but the second group is no less wicked: it is also hypocritical and treacherous. Verbally they say that they believe in God and the Messenger and the Qur'an, but in their hearts and minds they are resolved not to follow them, and their practical conduct of life is also opposed to it. About both Allah has declared that He has prepared for them a painful torment. They might strut about in the world, enjoy life as they like, boast and brag of their superiority, but ultimately they will be subjected to a disgraceful punishment; they cannot enter and enjoy Allah's mercy in any way.

سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :34 اس کی تشریح ہم اسی سورۃ کے دیباچہ میں کر چکے ہیں ۔ ( نیز ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر 2 ، صفحہ نمبر 577 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(76:31) من یشائ : من موصولہ یشاء اس کا صلہ اس کا فاعل اللہ ہے ۔ وہ جسے اللہ چاہتا ہے۔ من یشاء مفعول ہے یدخل کا۔ اور اس کا فاعل بھی اللہ ہے۔ رحمتہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع بھی اللہ ہے ۔ ترجمہ ہوگا :۔ اللہ جسے چاہتا ہے اسے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے۔ رحمت سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک جنت ہی ہے۔ (روح المعانی۔ السیر التفاسیر، تفسیر مظہری) کیونکہ آخرت میں جنت ہی محل رحمت ہے۔ (تفسیر مظہری) والظلمین اعدلہم عذابا الیما۔ واؤ عاطفہ۔ الظلمین مفعول فعل محذوف کا ہے ای ویکفا الظلمین اور وہ ظالموں کو دھتکارتا ہے۔ یکفا کا عطف یدخل پر ہے۔ حسب محاورہ قرآنی سیاق میں ظالم سے مراد کا فرہی ہیں۔ جنہوں نے اپنے ارادہ و اختیار سے کام نہ لیا۔ ای الکافرین (مدارک) اے المشرکین (معالم) وہم الکافرون (جلالین) ۔ اعدلہم عذابا الیما۔ جملہ حالیہ ہے (ان ظالمین کا حال یہ ہے کہ ان کے لئے اس نے ردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ اعد ماضی واحد مذکر غائب اعداد (افعال) مصدر۔ اس نے تیار کیا ہے اس نے تیار کر رکھا ہے۔ عذابا الیما۔ موصوف و صفت : دردناک عذاب، دکھ دینے والا عذاب ۔ الم یالم ایلام (افعال) مصدر سے بروزن فعیل بمعنی فاعل ہے۔ عذابا بوجہ اعد کے مفعول ہونے کے منصوب ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یدخل ............................ الیما غرض اللہ کی مشیت بےقید ہے ، جس طرح چاہے فیصلہ کردے ۔ اگر اللہ چاہے تو کسی کو بھی اپنی رحمت میں داخل کردے۔ انسانوں میں سے ہو ، جو بھی اس کی رحمت میں داخل ہونے کی التجا کرے۔ اس کی اطاعت پر اللہ کی مدد طلب کریں۔ ہدایت کی توفیق کے طلبگار ہوں جبکہ ظالموں کے لئے اس نے عذاب تیار کررکھا ہے ، جو بہت درد ناک ہے اور اللہ نے ان کو اس جہاں میں مہلت دے رکھی ہے تاکہ وہ عذاب الیم تک جا پہنچیں۔ سورت کا یہ خاتمہ اس کے آغاز سے ہم آہنگ ہے۔ اس میں آزمائش کا آخری انجام بتلایا گیا ہے۔ جس کے لئے اللہ نے انسان کو نطفہ امشاج (مخلوط نطفے) سے پیدا کیا ہے جس کے لئے اللہ نے انسان کو سمع وبصر عطا کیا۔ اور جنت اور دوزخ کا راستہ بتلایا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ یدخل من یشاء یہ مومنوں کے لیے بشارت ہے وہ جسے چاہتا ہے یعنی جو اس کی طرف انابت کرتے ہیں ان کو اپنی رحمت میں داخل فرما لیتا ہے اور ان کو قبول حق کی اور حق پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطاء فرما دیتا ہے۔ ” والظالمین اعد لہم “ یہ کافروں کے لیے تخویف ہے اور کفار و مشرکین کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ سورة الدہر میں آیات توحید۔ 1 ۔ واذکر اسم ربک۔ تا۔ وسبحہ لیلا طویلا۔ نفی شرک فی العبادۃ۔ سورة الدہر ختم ہوئی

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) کہ وہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور جو سرکش ظالم ہیں ان کے لئے اس نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔ یعنی جس کو چاہے اپنی رحمت میں داخل کرلے اور جس کو چاہے کفر وظلم میں چھوڑ دے۔ بہرحال جو اس کی مشیت اور مصلحت کے ماتحت اس کی رحمت میں داخل ہوجائیں وہ ہر اعتبار سے کامیاب اور زمرہ ابرار میں شامل ، اور جو اپنی سرکشی اور ظلم و شرک کی وجہ سے اس کی رحمت سے محروم ہوگئے ان کے لئے دردناک عذاب مہیا ہے۔ تم تفسیر سورہو الدھر اور سوروہ الانسان