Surat ul Mursilaat

Surah: 77

Verse: 18

سورة المرسلات

کَذٰلِکَ نَفۡعَلُ بِالۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿۱۸﴾

Thus do We deal with the criminals.

ہم گنہگاروں کے ساتھ اسی طرح کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَيْلٌ يَوْمَيِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 یعنی سزا دیتے ہیں دنیا میں اور آخرت میں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِيْنَ۝ ١٨ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(77:18) کذلک۔ کاف تشبیہ کا۔ ذلک کا اشارہ ہے کفار سلف کے ارتکاب جرم کی پاداش میں ہلاک ہونا۔ مطلب یہ کہ ہم مجرموں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کذلک ................ مین (18:77) ” مجرموں کے ساتھ ہم یہی کچھ کیا کرتے ہیں “۔ یہ تو اللہ کی سنت جاریہ ہے۔ کبھی رکتی نہیں ، کبھی اپنا راستہ بدلتی نہیں۔ جب مجرمین جان لیتے ہیں کہ ان کا انجام ان دور کے مجرمین اور قریب کے مجرمین والا ہونے والا ہے تو ان پر ہلاکت کی بددعا آتی ہے اور اللہ کی طرف سے بددعا تو حکم ہلاکت ہوتی ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) ہم گناہگاروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں۔ یعنی کیا ہم پہلی امتوں کو نافرمانی اور دین حق کی تکذیب کی وجہ سے ہلاک نہیں کرچکے پھر ہم ان پچھلوں یعنی آپ کی امت کے نافرمانوں کو بھی انہی کے ساتھ لگادیں گے یعنی ان کو بھی تباہ و برباد کردیں گے کیونکہ ہم گنہگاروں اور مجرموں کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے ہیں جب ہم سب مخلوق کو قیامت میں بیک وقت فنا کرسکتے ہیں تو تھوڑی تھوڑی آبادی کو فنا دینا ہماری نزدیک کیا مشکل ہے خواہ یہ تباہی دونوں جہان میں ہو یا صرف دار آخرت میں ہو باوجود اس کے بھی یہ لوگ قیامت کی تکذیب کرتے ہیں حالانکہ۔