Surat ul Mursilaat

Surah: 77

Verse: 20

سورة المرسلات

اَلَمۡ نَخۡلُقۡکُّمۡ مِّنۡ مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ ﴿ۙ۲۰﴾

Did We not create you from a liquid disdained?

کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے ( منی سے ) پیدا نہیں کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Did We not create you from a despised water? meaning, weak and despised in comparison to the power of the Creator. This is similar to what has been reported in the Hadith of Busr bin Jahhash (that Allah says), ابْنَ ادَمَ أَنْى تُعْجِزُنِي وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ مِثْلِ هَذِهِ "(O) Son of Adam! How can you think that I am unable, and yet I created you from something like this (i.e., semen)" فَجَعَلْنَاهُ فِي قَرَارٍ مَّكِين

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) الم نخلقکم من مآء مھین…: اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حقیر پانی یعنی منی کے قطرے سے پیدا فرمایا، پھر اسے ایک محفوظ ٹھکانے یعنی ماں کے رحم میں رکھا، جو تین اطراف سے ہڈیوں سے گھبرا ہوا ہے۔ حمل قرار پاتے ہی بچے کو اتنی مضبوطی سے رحم میں جمایا جاتا ہے اور اس کی حفاظت کا اتنا انتظام ہوتا ہے کہ شدید حادثے کے بغیر اس کا سقاط نہیں ہوسکتا۔ (٢) الی قدر معلوم :“ اس اندازے تک جو معلوم ہے “ یعنی نو ماہ یا اس سے کم یا زیادہ، جس کا علم اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کہ وہ اتنے مہینوں، دنوں، گھنٹوں یا منٹوں میں پیدا ہوگا، کسی دوسرے کو اس کا علم نہیں۔ (٣) فقدرنا فنعم القدرون : یعنی ہم نے ایک اسی مدت مقرر کی جس میں بچے کی ساخت مکمل ہوجاتی ہے، نہ کوئی چیز ضرورت سے زائد بنتی ہے اور نہ کوئی ضروری چیز ر جاتی ہے۔ جب تک اس کے لئے رحم کے اندر رہنا ضروری ہوتا ہے وہ اس میں رہتا ہے اور جب باہر آنا ضروری ہوتا ہے تو وہ باہر آجاتا ہے۔ یہ مدت ہم نے مقرر کی ہے اور ہم کتنا ٹھیک اندازہ کرنے والے ہیں۔ ” فقدرنا ‘ ‘ کا دوسرا ترجمہ ” ہم قادر ہوئے “ بھی ہوسکتا ہے یعنی ہم نے پانی کی ایک بوند کو بتدریج ترقی دیتے دیتے کامل و عاقل انسان بنادیا، اس سیت م سمجھ سکتے ہو کہ ہم کیا خوب قدرت رکھنے والے ہیں۔ (اشرف الحوشای) (٤) ویل یومئذ للمکذبین : ایک حقیر قطرے سے اپنی تخلیق کو یدکھنے کے بعد جو لوگ آخرت کے دن کو ناممکن قرار دے کر جھٹلاتے ہیں ان کے لئے اس دن بڑی ہلاکت اور بربادی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّاۗءٍ مَّہِيْنٍ۝ ٢٠ ۙ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے هان الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ به فيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت سے مروی ہے کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کت اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ بی مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہل کہ بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ فاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠۔ ٢١) اے جھٹلانے والوں کی جماعت کیا ہم نے تمہیں ایک بےقدر پانی سے نہیں بنایا پھر ہم نے اس کو نو مہینے تک یا اس سے کم یا زائد تک ایک محفوظ جگہ یعنی رحم مادر میں رکھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٠{ اَلَمْ نَخْلُقْکُّمْ مِّنْ مَّآئٍ مَّہِیْنٍ ۔ } ” کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا ؟ “ انسان کا مادئہ تخلیق ایسی گھٹیا چیز ہے کہ جس کا نام بھی کوئی اپنی زبان پر لانا پسند نہیں کرتا۔ سورة الدھر میں اس حقیقت کا ذکر اس طرح آیا ہے : { ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا ۔ } ” کیا انسان پر اس زمانے میں ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جبکہ وہ کوئی قابل ذکر شے نہیں تھا ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(77:20) الم نخلقکم : أ ھمزہ استفہامیہ ہے لم نخلق مضارع نفی جحد بلم کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ کیا ہم نے تم کو پیدا نہیں کیا ماء مھین موصوف و صفت ، مھین ھون (باب نصر) مصدر سے اسم مفعول کا صیغہ واحد مذکر۔ یہ اصل میں مہیون تھا۔ بروزن مفعول۔ حقیر، ذلیل، گندہ مرادیہاں نطفہ منی سے ہے۔ کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا۔ یعنی ضرور کیا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا انکار کرنے والوں کو اپنی تخلیق پر غور کرنے کی دعوت۔ سور ۃ الدّھر کی ابتدائی آیات میں یہ بیان ہوا کہ کیا انسان کو معلوم نہیں کہ اس پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہے کہ اس کا کائنات میں ذکر تک نہیں تھا۔ اب ارشاد فرمایا ہے کہ کیا لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ہم نے انہیں ایک حقیر پانی سے پیدا کیا اور اپنی قدرت سے اسے ایک محفوظ مقام پر ٹھہرایا اور ہم پوری قدرت رکھنے والے ہیں یعنی انسان کی پوری زندگی اور اسے دوبارہ زندہ کرنے پھر اپنے حضور پیش کرنے پر قادر ہیں۔ گویا کہ انسان اپنے رب کے سامنے بےبس ہے نہ اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے جیتا اور مرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے۔ تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جو قیامت کے دن کو جھٹلاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت قائم کرنے کے بارے میں بہت سے دلائل دیئے ہیں ان میں ایک دلیل یہ ہے کہ انسان اپنی تخلیق پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پانی کی ایک حقیر بوند سے پیدا کیا ہے۔ بظاہر اس پانی کی بوند میں نہ زندگی کی رمق دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی انسانی ڈھانچے کا وجود پایا جاتا ہے اس کے باوجود اس کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ اس نے معمولی جرثومے کے اندر انسان کے وجود اور کردار کو چھپا رکھا ہے۔ غور کرو کہ جو ذات انسان کو عدم سے وجود میں لاتی ہے کیا وہ اس کے مرنے کے بعد اسے دوبارہ پیدا نہیں کرسکتی ؟ ظاہر ہے کہ وہ پیدا کرسکتا ہے اور کرے گا۔ اسی نے زمین کو اس قابل بنایا کہ وہ زندہ اور مردہ اور ہر چیز کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔ اسی نے زمین میں بلندوبالا پہاڑ جمائے اور تمہارے لیے میٹھے پانی کا انتظام فرمایا۔ زمین کی خصوصیت بیان فرماکر یہ ثابت کیا ہے کہ جس زمین میں مدتوں پڑے ہوئے بیج اللہ کے حکم سے اگ آتے ہیں کیا اس خالق کے حکم سے قیامت کے دن مردے دوبارہ پیدا نہیں ہوسکتے ؟ پھر سوچو ! جس نے زمین پر بلندو بالا پہاڑ گاڑ دیئے ہیں اور وہی زمین اور پہاڑوں سے میٹھے چشمے جاری کرتا ہے کیا وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟ زمین سے ہزارہا چیزیں نکلتی ہیں اور ہزاروں چیزیں اس میں دفن ہوتی ہیں، معلوم نہیں یہ عمل کب سے جاری ہے اور کب تک جاری رہے گا۔ جس ذات کے حکم سے یہ عمل جاری ہے اسی کے حکم سے قیامت قائم ہوگی اور زمین ہر چیز اگل دے گی بلکہ وہ سب کچھ بتائے گی جو انسان اس کے سینے پر کیا کرتا تھا لہٰذا جو لوگ قیامت کو جھٹلاتے ہیں ان کے لیے بڑی مصیبت اور بربادی ہے۔ ” جب زمین پوری شدت کے ساتھ ہلادی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے بوجھ نکال کر باہر پھینک دے گی اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوگیا ہے ؟ اس دن وہ اپنے حالات بیان کرے گی کیونکہ آپ کے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ “ (الزلزال : ١ تا ٥) ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ حدیث کو مرفوع بیان کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ پوچھتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب ! یہ گوشت کا لوتھڑا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا خوش بخت اس کا رزق کتنا ہے اس کی عمر کتنی ہے اسی طرح اس کا نیک اور بد ہونا اس کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔ “ (رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حقیر پانی سے پیدا کیا ہے۔ ٢۔ اللہ ہی جرثومے رحم مادر میں ایک جگہ ایک مقررہ مدت تک ٹھہراتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی قدرت رکھنے والا ہے۔ ٤۔ قیامت کو جھٹلانے والوں کے لیے تباہی اور ہلاکت ہوگی۔ تفسیر بالقرآن تخلیق انسانی کے مختلف مراحل : (النحل : ٤) (آل عمران : ٥٩) (النساء : ١) (المومنون : ١٢) (الدھر : ٢) (النساء : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الم نخلقکم ............................ للمکذبین اس سے مراد جنین کا طویل اور عجیب سفر ہے۔ اس طویل نامیاتی سفر کو قرآن کریم چند جھلکیوں کے اندر بیان کردیتا ہے۔ ایک حقیر پانی کی بوند ، پھر قرار مکین اور محفوظ جگہ میں رکھنا ، ایک متعین وقت تک ایک واضح نظام اور اندازے کے مطابق ، اور اس نظام اور اندازے کے بارے میں یہ تبصرہ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” الم نخلقکم “ یہ حشر و نشر پر عقلی دلیل ہے۔ ان سے پوچھو تو سہی کیا ہم نے ان کو ایک حقیر اور ناپاک پانی سے پیدا نہیں کیا ؟ اس نطفہ کو ایک میعاد معین تک جائے قرار (رحم) میں رکھا۔ پھر اس کے بارے میں ہر چیز کا نداز مقرر کیا۔ رحم مادر میں اس کے ٹھہرنے کی مدت، اس کی عمر، اس کا عمل، اس کا رزق اور اس کی سعادت و شقاوت وغیرہ۔ ہم کیسے ہی قادر ہیں کہ کوئی چیز ہماری قدرت اور دسترس سے باہر نہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم حشر و نشر پر بھی قادر ہیں تو ان لوگوں کے لیے ہے اس دن ہلاکت اور بربادی ہوگی جو حشر و نشر کا یا اس پر ہماری قدرت کا انکار کرتے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) کیا ہم نے تم کو ایک بےقدر پانی سے نہیں بنایا یعنی نطفے سے۔