Surat ul Mursilaat
Surah: 77
Verse: 35
سورة المرسلات
ہٰذَا یَوۡمُ لَا یَنۡطِقُوۡنَ ﴿ۙ۳۵﴾
This is a Day they will not speak,
آج ( کا دن ) وہ دن ہے کہ یہ بول بھی نہ سکیں گے ۔
ہٰذَا یَوۡمُ لَا یَنۡطِقُوۡنَ ﴿ۙ۳۵﴾
This is a Day they will not speak,
آج ( کا دن ) وہ دن ہے کہ یہ بول بھی نہ سکیں گے ۔
That will be a Day when they shall not speak, meaning, they will not speak. وَلاَ يُوْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُونَ
35۔ 1 محشر کا دن جس میں کافروں کی مختلف حالتیں ہوں گی۔ ایک وقت وہ ہوگا کہ وہ وہاں بھی جھوٹ بولیں گے پھر اللہ ان کے مونہوں پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے پھر جس وقت ان کو جہنم میں لے جایا جارہا ہوگا اس وقت عالم اضطراب و پریشانی میں ان کی زبانیں بھی گنگ ہوجائیں گی۔ بعض کہتے ہیں کہ بولیں گے تو سہی لیکن ان کے پاس حجت کوئی نہیں ہوگی۔
(ھذا یوم لاینطقون……) یہاں یہ فرمایا کہ جھٹلانے والے لوگ قیامت کے دن نہ بولیں گے نہ انہیں عذر کرنے کی اجازت ہوگی ، جبکہ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر مذکور ہے کہ وہ اپنے عذر پیش کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا دن پچاس ہزار سال کا ایک طویل دن ہے، وقوع قیامت کے وقت وہ ہیبت سے بول نہیں سکیں گے، پھر اپنی جان بچانے کے لئے جھوٹے عذر بہانے پیش کرنے لگیں گے، اپنے مجرم ہونے یہی سے انکار کردیں گے اور قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہم نے کبھی شرک نہیں کیا، بلکہ مطالبہ کریں گے کہ ہمارے خلاف کوئی ثبوت ہو تو پیش کیا جائے۔ جب ان کے اعمال نامے پیش ہوں گے، ان کو حق پہنچانے والوں کی شہادتیں پیش ہوں گی اور ان کی زبانوں پر مہر لگا کر انھی کے اعضا کی گواہی پیش کردی جائیگی تو پھر ان کا بولنا بند ہوجائے گا اور اب اجازت نہیں ہوگی کہ خواہ مخواہ عذر گھڑتے جائیں۔
هَـٰذَا يَوْمُ لَا يَنطِقُونَ وَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُونَ (This is a day when they will not speak, nor will they be allowed to offer excuses....77:35, 36) In other words, this is the Day in which they will not be able to talk, nor will they be permitted to offer pleas for their misdeeds. However, other verses of the Qur&an inform us that they will speak and will be permitted to offer excuses. There is no discrepancy between the two verses, because there will be various stages on the Plain of Gathering (Mahshar) through which people will have to pass. Sometimes they will pass through a stage where it would be forbidden for them to speak or offer excuses; and at another stage they will be permitted. [ Ruh ].
هٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُوْنَ 35ۙوَلَا يُؤْذَنُ لَهُمْ فَيَعْتَذِرُوْن، یعنی اس دن میں کوئی بول نہ سکے گا اور نہ کسی کو اپنے کئے ہوئے عمل کا عذر پیش کرنے کی اجازت ہوگی، اور دوسری آیات قرآن میں جو کفار کا بولنا اور عذر پیش کرنا مذکور ہے وہ اس کے منافی نہیں کیونکہ محشر میں مختلف مواقف اور مقامات آئیں گے، کسی مقام میں کلام اور عذر پیش کرنا ممنوع ہوگا، کسی میں اجازت ہوگی۔ (روح)
ہٰذَا يَوْمُ لَا يَنْطِقُوْنَ ٣٥ ۙ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ نطق [ النُّطْقُ في التّعارُف : الأصواتُ المُقَطّعة التي يُظْهِرُها اللسّانُ وتَعِيهَا الآذَانُ ] . قال تعالی: ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات/ 92] ولا يكاد يقال إلّا للإنسان، ولا يقال لغیره إلّا علی سبیل التَّبَع . نحو : النَّاطِقُ والصَّامِتُ ، فيراد بالناطق ما له صوت، وبالصامت ما ليس له صوت، [ ولا يقال للحیوانات ناطق إلّا مقيَّداً ، وعلی طریق التشبيه کقول الشاعر : 445- عَجِبْتُ لَهَا أَنَّى يَكُونُ غِنَاؤُهَا ... فَصِيحاً وَلَمْ تَفْغَرْ لِمَنْطِقِهَا فَماً ] «1» والمنطقيُّون يُسَمُّون القوَّةَ التي منها النّطقُ نُطْقاً ، وإِيَّاهَا عَنَوْا حيث حَدُّوا الإنسانَ ، فقالوا : هُوَ الحيُّ الناطقُ المَائِتُ «2» ، فالنّطقُ لفظٌ مشترکٌ عندهم بين القوَّة الإنسانيَّة التي يكون بها الکلامُ ، وبین الکلامِ المُبْرَزِ بالصَّوْت، وقد يقال النَّاطِقُ لما يدلُّ علی شيء، وعلی هذا قيل لحكيم : ما الناطقُ الصامتُ ؟ فقال : الدَّلائلُ المُخْبِرَةُ والعِبَرُ الواعظةُ. وقوله تعالی: لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 65] إشارة إلى أنّهم ليسوا من جِنْس النَّاطِقِينَ ذوي العقول، وقوله : قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] فقد قيل : أراد الاعتبارَ ، فمعلومٌ أنَّ الأشياءَ كلّها ليستْ تَنْطِقُ إلّا من حيثُ العِبْرَةُ ، وقوله : عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] فإنه سَمَّى أصواتَ الطَّيْر نُطْقاً اعتباراً بسلیمان الذي کان يَفْهَمُهُ ، فمن فَهِمَ من شيء معنًى فذلک الشیء بالإضافة إليه نَاطِقٌ وإن کان صامتاً ، وبالإضافة إلى من لا يَفْهَمُ عنه صامتٌ وإن کان ناطقاً. وقوله : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية/ 29] فإن الکتابَ ناطقٌ لکن نُطْقُهُ تُدْرِكُهُ العَيْنُ كما أنّ الکلام کتابٌ لکن يُدْرِكُهُ السَّمْعُ. وقوله : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] فقد قيل : إن ذلك يكونُ بالصَّوْت المسموعِ ، وقیل : يكونُ بالاعتبار، واللهُ أعلمُ بما يكون في النَّشْأَةِ الآخرةِ. وقیل : حقیقةُ النُّطْقِ اللَّفْظُ الّذي هو كَالنِّطَاقِ للمعنی في ضَمِّهِ وحصْرِهِ. وَالمِنْطَقُ والمِنْطَقَةُ : ما يُشَدُّ به الوَسَطُ وقول الشاعر : 446- وَأَبْرَحُ مَا أَدَامَ اللَّهُ قَوْمِي ... بِحَمْدِ اللَّهِ مُنْتَطِقاً مُجِيداً «1» فقد قيل : مُنْتَطِقاً : جَانِباً. أي : قَائِداً فَرَساً لم يَرْكَبْهُ ، فإن لم يكن في هذا المعنی غيرُ هذا البیت فإنه يحتمل أن يكون أراد بِالمُنْتَطِقِ الذي شَدَّ النِّطَاقَ ، کقوله : مَنْ يَطُلْ ذَيْلُ أَبِيهِ يَنْتَطِقْ بِهِ «2» ، وقیل : معنی المُنْتَطِقِ المُجِيدِ : هو الذي يقول قولا فَيُجِيدُ فيه . ( ن ط ق ) عرف میں نطق ان اصات مقطعہ کو کیا جاتا ہے جو زبان سے نکلتی ہیں اور کان انہیں سنکر محفوظ کرلیتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ ما لَكُمْ لا تَنْطِقُونَ [ الصافات/ 92] تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ۔ یہ لفط بالذات صرف انسان کے متعلق بولا جاتا ہے دوسرے حیوانات کے لئے بالتبع استعمال ہوات ہے جیسے المال الناطق والصامت کا محاورہ ہے جس میں ناطق سے حیوان اور صامت سے سونا چاندی مراد ہے ان کے علاوہ دیگر حیوانات پر ناطق کا لفظ مقید یا بطور تشبیہ استعمال ہوتا ہے جسیا کہ شاعر نے کہا ہے ( 430 ) عجبت لھا انی یکون غناؤ ھا فصیحا ولم تفعلو لنطقھا فما مجھے تعجب ہو ا کہ وہ کتنا فصیح گانا گاتی ہے حالانکہ اس نے گویائی کے لئے منہ نہیں کھولا ۔ اہل منطق قوت گو یائی کو نطق کہتے ہیں جب وہ انسان کی تعریف کرتے ہوئے الحی الناطق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتے ہیں ناطق سے ان کی یہی مراد ہونی ہے ۔ معلوم ہوا کہ نطق کا لفظ مشترک ہے جو قوت نطیقہ اور کلام ملفوظ دونوں پر بولا جاتا ہے کبھی ناطق کے معنی الدال علی الشئی کے بھی آتے ہیں اسی بنا پر ایک حکیم جب پوچھا گیا کہ الناطق الصامت کسے کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا لادلائل المخبرۃ والعبر ولوا عظۃ اور آیت کریمہ : ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما هؤُلاءِ يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 65] کہ تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ کہ وہ ذوی النطق اور ذوی العقول کی جنس سے نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اس نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق اعتبار ی مراد ہے کیونکہ یہ بات بالکل بد یہی ہے کہ تمام چیزیں حقیقتا ناطق نہیں ہیں اور آیت کریمہ : ۔ عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل/ 16] ہمیں خدا کی طرف سے جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے میں پرندوں کی آواز کو محض حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لحاظ سے نطق کہا ہے ۔ کیونکہ وہ ان کی آوازوں کو سمجھتے تھے اور جو شخص کسی چیز سے کوئی معنی سمجھا ہو تو وہ چیزخواہ صامت ہی کیوں نہ ہو ۔ اس کے لحاظ سے تو ناطق کا حکم رکھتی ہے اور آیت کریمہ : هذا كِتابُنا يَنْطِقُ عَلَيْكُمْ بِالْحَقِ [ الجاثية/ 29] یہ ہماری کتاب تمہارے بارے میں سچ سچ بیان کردے گی ۔ میں کتاب کو ناطق کہا ہے لیکن اس کے نطق کا ادراک صرف آنکھ ہی کرسکتی ہے ۔ جیسا کہ کلام بھی ا یک کتاب ہے لیکن اس کا ادراک حاسہ سماعت سے ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَقالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا قالُوا أَنْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي أَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ [ فصلت/ 21] اور وہ اپنے چمڑوں یعنی اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی وہ کہیں گے جس خدا نے سب چیزوں کو نطق بخشا اسی نے ہم کو بھی گویائی دی ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نطق صوقی مراد ہے ۔ اور بعض نے نطق اعتباری مراد لیا ہے ۔ اور عالم آخرت کی اصل حقیقت تو خدا ہی جانتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ نطق درحقیقت لفظ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ وہ معنی کو لپیٹنے اور محصور کرنے میں بمنزلہ نطاق کے ہوتا ہے ۔ المنطق والمنطقۃ کمر بند کو کہتے ہیں اور شاعر کے قول ۔ (431) وابرح ما ادام اللہ قومی بحمداللہ منتطقا مجیدا جب تک میری قوم زندہ ہے ۔ میں بحمداللہ عمدگی شاعر رہوں گا ۔ میں بعض نے کہا ہے منتطقا کے معنی جانبا کے ہیں یعنی میں گھوڑے کو آگے سے پکڑ کر کھینچتا رہوں گا اور اس پر سوار نہیں ہوں گا ہاں یہ اگر اس معنی میں کوئی دوسرا شعر نہ آیا تو یہاں منطق سے مراد وہ شخص بھی ہوسکتا ہے جس نے کمرپر نطاق باندھا ہوا ہو ۔ جیسا کہ مقولہ مشہو رہے ۔ ومن یطل ذیل ابیہ ینتطق بہ یعنی جس کے باپ کے فرزند زیادہ ہوں گے ۔ تو وہ ان کی وجہ سے طاقت ور اور توانا ہوجائے گا ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ منتطق کے معنی عمدگو کے ہیں ۔
(77:35) ھذا یوم لا ینطقون : ھذا مبتداء یوم لا ینطقون اس کی خبر۔ یہ وہ دن ہوگا جس میں وہ نہ بول سکیں گے۔ لا ینطقون مضارع منی جمع مذکر غائب۔ نطق (باب ضرب) مصدر بمعنی بولنا۔ وہ نہیں بول سکیں گے۔ وہ نہیں بولتے ہیں۔
مزید فرمایا کہ یہ وہ دن ہوگا جس میں یہ لوگ نہ بول سکیں گے اور نہ ان کو عذر پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی لہٰذا عذر بھی پیش نہ کرسکیں گے۔ یہ شروع میں ہوگا بعد میں بولنے اور عذر پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ لیکن وہ کچھ فائدہ نہ دے گا۔ كما قال تعالیٰ : ﴿ يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظّٰلِمِيْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَ لَهُمْ سُوْٓءُ الدَّارِ ٠٠٥٢﴾ (اس دن ظالموں کو معذرت نہ نفع دے گی اور ان کے لیے لعنت ہوگی اور وہاں کی بدحالی ہوگی) ۔ ﴿ وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ ٠٠﴾ (خرابی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے) ۔
9:۔ ” ھذا یوم “ یہ دن ایسا ہولناک ہوگا کہ کافروں پر اس کی دہشت کی وجہ سے سکتہ چھا جائے گا اور وہ بول بھی نہیں سکیں گے۔ اور نہ ان کو کوئی عذر و بہانہ پیش کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ بس اس دن ان کے لیے ہلاکت اور ویل ہی ہوگی۔ نطق کی نفی سے یا تو نطق مفید کی نفی رماد ہے یا مراد یہ ہے کہ بعض مواطن حشر میں وہ حیرت و دہشت کی وجہ سے بول نہ سکیں گے اور بعض مواقع پر وہ کلام کرسکیں گے۔ نطقا یفیدھم اولا ینطقون شیئا من فرط الدہشۃ والحیرۃ وھذا فی بعض المواقف وینطقون فی بعضہا (مظہری ج 10 ص 169) ۔