Surat ul Mursilaat

Surah: 77

Verse: 46

سورة المرسلات

کُلُوۡا وَ تَمَتَّعُوۡا قَلِیۡلًا اِنَّکُمۡ مُّجۡرِمُوۡنَ ﴿۴۶﴾

[O disbelievers], eat and enjoy yourselves a little; indeed, you are criminals.

۔ ( اے جھٹلانے والو تم دنیا میں ) تھوڑا سا کھا لو اور فائدہ اٹھالو بیشک تم گنہگار ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Eat and enjoy yourselves for a little while. Verily, you are criminals. This is an address to the deniers of the Day of Judgement. It is commanding them with a command of threat and intimidation. Allah says, كُلُوا وَتَمَتَّعُوا قَلِيلً (Eat and enjoy yourselves for a little while).) meaning, for a period of time that is short, small and brief. إِنَّكُم مُّجْرِمُونَ (Verily, you are criminals).) meaning, then you all will be driven to the fire of Hell which has already been mentioned. وَيْلٌ يَوْمَيِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 یہ مکذبین قیامت کو خطاب ہے اور یہ امر، تہدید و وعید کے لئے ہے، یعنی اچھا چند روز خوب عیش کرلو، تم جیسے مجرمین کے لئے شکنجہ عذاب تیار ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٦] یہ خطاب دنیا بھر کے کافروں اور آخرت کے منکروں کو ہے کہ ان کی موت تک ان کے پاس وقت ہے اس عرصہ میں وہ آزادانہ زندگی بسر کرلیں مزے اڑالیں، مال و دولت جیسے بھی ہاتھ لگتا ہے سمیٹ لیں۔ اور اللہ کی آیات کے مقابلہ میں جتنی باتیں بنا سکتے ہیں انہیں کھلی چھٹی ہے۔ مرنے کے ساتھ ہی وہ اپنی ہلاکت اور تباہی کے گڑھے میں گرنے والے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

کلوا وتمتعوا قلیلاً…: سورت کے آخر میں قیامت کو جھٹلانے والوں کو پھر خطاب ہے کہ دنیا میں کھلاو اور فائدہ اٹھا لو، یہ سامان بالکل قلیل ہے، جیسا کہ فرمایا ا :(قل متاع الدنیا قلیل) (النسائ : ٨٨) ” کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے۔ “ یقیناً تم مجرم ہو، قیامت کے دن تمہارے جیسے جھٹلانے والوں کے لئے بہت بڑی خرابی اور بربادی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

كُلُوا وَتَمَتَّعُوا قَلِيلًا إِنَّكُم مُّجْرِ‌مُونَ (|"Eat and drink for a while! You are guilty ones...77:46) This verse addresses the infidels through the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . They may eat and drink and enjoy themselves in this world, but the span is short, and then there will be nothing but punishment for them. [ Abu Hayyan ].

كُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِيْلًا اِنَّكُمْ مُّجْرِمُوْنَ ، یعنی کھاؤ پیو اور آرام اٹھا لو تھوڑے دن کیونکہ تم مجرم ہو، آخر کار سخت عذاب میں جانا ہے۔ یہ مکذبین کو خطاب ہے۔ دنیا میں، انبیاء کے ذریعہ ان کو کہا گیا ہے کہ یہ تمہارا عیش و آرام چند روزہ ہے پھر عذاب ہی عذاب ہے (کذا فسرہ، ابوحیان)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِيْلًا اِنَّكُمْ مُّجْرِمُوْنَ۝ ٤٦ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦{ کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلًا اِنَّکُمْ مُّجْرِمُوْنَ ۔ } ” (اے کفار و مشرکین ! ) تم کھا پی لو تھوڑی دیر کے لیے ‘ یقینا تم لوگ مجرم ہو۔ “ تم لوگ اپنی دنیوی زندگی میں عیش کر رہے ہو تو کرتے جائو۔ بالآخر قیامت کے دن تمہیں مجرموں کی حیثیت سے ہمارے سامنے پیش ہونا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 In conclusion, these words are being addressed not only to the disbelievers of Makkah but to alI disbelievers of the world. 25 "For a while": in their brief life of the world.

سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :24 اب کلام ختم کرتے ہوئے نہ صرف کفار مکہ کو بلکہ دنیا کے تمام کفار کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کلمات ارشاد فرمائے جا رہے ہیں ۔ سورة الْمُرْسَلٰت حاشیہ نمبر :25 یعنی دنیا کی اس چند روزہ زندگی میں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(77:46) کلوا وتمتعوا قلیلا انکم مجرمون ۔ کلوا تم کھاؤ تو کھالو۔ تمتعوا۔ فعل امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ تمتع (تفعل) مصدر سے۔ تم فائدہ اٹھالو۔ تم مزے لے لو۔ قلیلا : ای زمانا قلیلا : تھوڑے وقت کے لئے ۔ قلیل عرصہ کے لئے۔ ظرف محذوف کی صفت کی وجہ سے منصوب ہے۔ انکم مجرمون : بلاشک وشبہ ہو تو تم مجرم ہی۔ یہ جملہ تہدید سابق کی علت ہے (یعنی کلوا وتمتعوا قلیلا تھوڑا سا وقت کھا پی لو اور عیش کرلو۔ یہ ایک تہدیدی اور زجر آمیز امر ہے) اس جملہ کا اطلاق کسی زمانہ پر ہے۔ صاحب کشاف لکھتے ہیں :۔ ویجوز ان یکون کلوا وتمتعوا ۔ کلاما مستانفا خطابا للمکذیب فی الدنیا ہوسکتا ہے کہ کلام کلوا وتمتعوا مستانفہ (نیا) ہے۔ اور دنیا میں مکذبین سے خطاب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں چند روز یہاں کی چیزیں کھا پی لو اور عیش و عشرت کرلو آخر مرنے پر یہ سلسلہ ختم ہو ہی جانا ہے۔ تم بیشک و شبہ مجرم تو ہو ہی مرنے کے بعد روز قیامت تمہیں اپنے کئے کی پاداش میں سزا بھگتنا ہی ہوگی۔ صاحب ضیاء القرآن رقمطراز ہیں :۔ سورة کے اختتام سے پہلے منکرین قیامت کو جھنجھوڑا جا رہا ہے کہ طرح طرح کے لذیذ کھانے خوب سیر ہو کر کھالو دنیوی عزتیں اور برائیاں جو تمہیں حاصل ہیں اور جو عیش و عشرت کا سامان تمہیں میسر ہے اس سے جی بھر کر فائدہ اٹھالو۔ یہ رونق میلہ چند روزہ ہے۔ درحقیقت تم بدترین مجرم ہو صرف مہلت کی مدت گزرنے اور مقررہ گھڑی گزر جانے کی دیر ہے تمہیں اپنا انجام معلوم ہوجائے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنتی کے لیے جنت میں حکم ہوگا کہ مزے سے کھاؤ اور پیو ! یہ تمہاری نیکیوں کا صلہ ہے۔ جہنمیوں کے لیے دنیا میں حکم ہے کہ کھا، پی لو مگر یاد رکھو کہ تم حقیقت میں اپنے رب کے مجرم ہو اور تمہارا انجام جہنم ہوگا۔ جنت کی زندگی اور اس کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کی نعمتیں اور زندگی نہایت قلیل اور حقیر ہے۔ جو لوگ قیامت کا انکار کرتے ہیں اور اپنی مرضی سے زندگی گزارتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے جس وجہ سے انہیں یوں مخاطب کیا گیا ہے کہ کھاؤ اور مزے اڑاؤ ! لیکن یاد رکھو ! دنیا کا فائدہ اور کھانا پینا قلیل اور تھوڑی مدت کے لیے ہے بالفاظ دیگر انہیں یہ وارننگ دی گئی ہے کہ کھاؤ اور مزے اڑاؤ ! تمہارے دن تھوڑے ہیں بالآخر تم مجرم کی حیثیت سے پیش کیے جاؤ گے اس لیے کہ تم قولاً اور عملاً قیامت کو جھٹلانے والے ہو۔ ایسے لوگوں کو جب اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے کے لیے کہا جاتا ہے تو نہیں جھکتے کیونکہ حقیقت میں ان کا قیامت پر یقین نہیں ہوتا ایسے لوگوں کے لیے قیامت کے دن ویل ہوگا۔ ” وَیْلٌ“ کا دوسرا معنٰی جہنم ہے۔ (الھمزہ : ١) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نصیحت کے لیے نازل فرمایا ہے اور بار بار لوگوں کو یاد کروایا ہے کہ اگر تم اپنے رب کی نافرمانی کرو گے تو قیامت کے دن سزا پاؤ گے اس انتباہ کے باوجود دنیا دار لوگ دنیا کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں بالخصوص فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے بعد پھر کس چیز پر ایمان لاؤ گے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوں گویا ہم آخرت کے میدان میں دنیا کی فلم دیکھ رہے ہیں اور یہ جھلک ہمیں صرف دو فقروں میں دکھائی جاتی ہے۔ گویا ہم اپنی آنکھوں سے یہ جھلکیاں دیکھ رہے ہیں۔ اگرچہ دنیا وآخرت میں طویل عرصے ہیں ، آخرت میں یہ خطاب متقین کو تھا ، جبکہ دنیا میں یہ مجرمین کے لئے ہے اور زبان حال سے یہ کہا جارہا ہے کہ دیکھو کس قدر فرق ہوگا دونوں کے حالات میں ۔ کہ ایک گروہ اس مختصر زمانے میں خوب کھاپی رہا ہے اور طویل زمانوں کے لئے پھر محروم ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد کافروں سے خطاب فرمایا کہ تم دنیا میں تھوڑے دن کھالو اور اللہ کی نعمتوں کو برت لو ان سے فائدہ اٹھا لو تم مجرم ہو کافر اور مشرک ہو عذاب کے مستحق ہو اگر تم ایمان نہ لائے تو عذاب میں جانا پڑے گا۔ ﴿ وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ ٠٠﴾ (بڑی خرابی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے) ۔ دنیا میں جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سامنے جھکو رکوع کرو سجدہ کرو اور نماز پڑھو تو فرمانبرداری نہیں کرتے اللہ کی بارگاہ میں نہیں جھکتے، نماز سے دور رہتے ہیں اور ایمان سے دور بھاگتے ہیں۔ ﴿ وَيْلٌ يَّوْمَىِٕذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ ٠٠﴾ (بڑی خرابی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ” کلوا وتمتعوا “ یہ مکذبین کیلئے زجر و تخویف ہے اگر یہ کلام قیامت کے دن کہا جائیگا تو اس سے پہلے کان یقال لہم فی الدنیا مقدر ہوگا۔ یا یہ خطاب دنیا میں ہے یعنی دنیا میں کھا پی لو اور دنیوی ساز و سامان سے فوائد و منافع چند روزہ حاصل کرلو، تم مجرم ہو اور مجرموں کے لیے آخرت میں ویل اور ہلاکت ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(46) اے منکرین حق تو تھوڑے دن کھالو اور برت لو اور نفع اٹھا لو یقینا تم مجرم اور گنہگار ہو۔ یعنی یہ دنیا چند روزہ ہے یہاں کھالو اور بہرہ مند ہوجائو اور دنیا کی نعمتیں برت لو اور اس کا یقین رکھو کہ تم مجرم اور دین حق کے باغی ہو۔