Surat un Naba

Surah: 78

Verse: 14

سورة النبأ

وَّ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡمُعۡصِرٰتِ مَآءً ثَجَّاجًا ﴿ۙ۱۴﴾

And sent down, from the rain clouds, pouring water

اور بدلیوں سے ہم نے بکثرت بہتا ہوا پانی برسایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We have sent down from the Mu`sirat water Thajjaj. Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas that he said, "From the Mu`sirat means from the clouds." This was also stated by Ikrimah, Abu Al-`Aliyah, Ad-Dahhak, Al-Hasan, Ar-Rabi` bin Anas, Ath-Thawri, and it is preferred by Ibn Jarir. Al-Farra' said, "They are the clouds that are filled with rain, but they do not bring rain. This is like the woman being called Mu`sir when (the time of) her menstrual cycle approaches, yet she does not menstruate." This is as Allah says, اللَّهُ الَّذِى يُرْسِلُ الرِّيَـحَ فَتُثِيرُ سَحَاباً فَيَبْسُطُهُ فِى السَّمَأءِ كَيْفَ يَشَأءُ وَيَجْعَلُهُ كِسَفاً فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَلِهِ Allah is He Who sends the winds, so that they raise clouds, and spread them along the sky as He wills, and then break them into fragments, until you see rain drops come forth from their midst! meaning, from its midst. (30:48) Concerning Allah's statement, مَأءً ثَجَّاجاً (water Thajjaj) Mujahid, Qatadah, and Ar-Rabi` bin Anas all said, "Thajjaj means poured out." At-Thawri said, "Continuous." Ibn Zayd said, "Abundant." In the Hadith of the woman with prolonged menstrual bleeding, when the Messenger of Allah said to her, أَنْعَتُ لَكِ الْكُرْسُف I suggest you to make an absorbent cloth for yourself." Meaning, `dress the area with cotton.' The woman replied, "O Messenger of Allah! It (the bleeding) is too much for that. Verily, it flows in profusely (Thajja)." This contains an evidence for using the word Thajj to mean abundant, continuous and flowing. And Allah knows best. Allah said, لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَبَاتًا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 مُعْصِرَات، ُ وہ بدلیاں جو پانی سے بھری ہوئی ہوں لیکن ابھی برسی نہ ہوں جیسے اَلْمَرْاَۃُ الْمُعْتَصِرَۃُ اس عورت کو کہتے ہیں جس کی ماہواری قریب ہو ثَجَّاجًا کثرت سے بہنے والا پانی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وازلنا من المعصرت مآء تجاجاً …:” المعصرت “ وہ بادل جو پانی سے بھرے ہوئے ہوں۔” نج “ شدت اور کثرت سے بہنایا بہانا۔ یہ لازم و متعدی دونوں معنوں میں آتا ہے۔” تجاجاً “ کثرت سے برسنے والا۔” الفافاً “ ابوبعیدہ نے فرمایا :” یہ ” لفیف “ کی جمع ہے جیسا کہ ” شریف “ کی جمع ” اشراف “ ہے۔ “ (المراغی) اس کا معنی ہے گھنے، ایک دوسرے سے لیٹے ہئے، جن میں کوئی فاصلہ نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَأَنزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَ‌اتِ مَاءً ثَجَّاجًا (And We have sent down from the rain-laden clouds abundant water,...78:14). The word mu&sirat is the plural of mu` sirah &rain-laden cloud&. This indicates that rain comes down from the cloud. There are verses, however, that indicate that rain comes down from the sky. Those verses too probably refer to &upper atmosphere&. There are many verses in the Qur&an where the word sama& is used in that sense. Having mentioned these Divine blessings, the Surah reverts to its original theme of Resurrection and Judgment:

وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْــصِرٰتِ مَاۗءً ثَجَّاجًا، معصرت، معصرہ کی جمع ہے جو پانی سے بھرے ہوئے ایسے بادل کو کہا جاتا ہے جو برسنے ہی والا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ بارش بادلوں سے نازل ہوتی ہے اور جن آیات میں آسمان سے نازل ہونے کا ذکر ہے یا تو ان میں بھی آسمان سے مراد فضائے آسمانی ہو جیسے کہ قرآن میں بکثرت لفظ سماء اس معنی کے لئے آیا ہے اور یا یہ کہا جائے کہ کسی وقت براہ راست آسمان سے بھی بارش آسکتی ہے اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں، ان تمام صنائع قدرت اور انعامات ربانی کا ذکر فرمانے کے بعد پھر اصل مضمون قیامت کی طرف رجوع ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْــصِرٰتِ مَاۗءً ثَجَّاجًا۝ ١٤ ۙ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا عصر العَصْرُ : مصدرُ عَصَرْتُ ، والمَعْصُورُ : الشیءُ العَصِيرُ ، والعُصَارَةُ : نفاية ما يُعْصَرُ. قال تعالی:إِنِّي أَرانِي أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف/ 36] ، وقال : وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] ، أي : يستنبطو ( ع ص ر ) العصر یہ عصرت الشئی کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں نچوڑ کر نکال لیا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَعْصِرُ خَمْراً [يوسف/ 36] انی اعصر خمرا ( دیکھتا کیو ہوں ) کہ شارب ( کے لئے انگور ) نچوڑ رہا ہوں ۔ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] اور لوگ اسی میں رس نچوڑیں گے ۔ یعنی اس میں خیرو برکت حاصل ہوگی ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے ثجَ يقال : ثَجَّ الماء، وأتى الوادي بِثَجِيجِه . قال اللہ تعالی: وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ النبأ/ 14] ، وفي الحدیث : «أفضل الحجّ العجّ والثَّجُّ» أي : رفع الصوت بالتلبية، وإسالة دم الهدي . ( ث ج ج ) ثج ان ثجوجا ۔ الماء پانی کا زور سے بہنا یا برسنا محاورہ ہے : ۔ اتی ا لوادی بِثَجِيجِه زبردست سیلاب آنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ الْمُعْصِراتِ ماءً ثَجَّاجاً [ النبأ/ 14] اور نچڑے بادلوں میں موسلا دھار مینہ برسایا ۔ حدیث میں ہے : ۔ یعنی افضل حج وہ ہے جس میں زور زور سے لبیک پکارا جائے اور کثرت سے قربانی کا خون بہایا جائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤{ وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآئً ثَجَّاجًا ۔ } ” اور ہم نے اتار دیا نچڑنے والی بدلیوں سے چھاجوں پانی۔ “ یعنی ہم پانی سے لبریز بادلوں سے موسلا دھار بارش برساتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(78:14) وانزلنا من المعصرات ماء ثجاجا : المعصرات اعصار (افعال) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مؤنث ہے۔ نچوڑنے والیاں المعصرۃ واحد۔ مراد وہ ہوائیں جو بادلوں کو دبا کر نچوڑتی ہیں یا وہ ہوائیں جو گرد اڑاتی ہیں جن کے نزدیک المعصرات سے مراد آسمان ہیں۔ ماء ثجاجا موصوف وصفت مل کر مفعول انزلنا کا ، ثجاجا زور و شور کے ساتھ برسنے والا۔ ثج (باب نصر) مصدر سے جس کے معنی زور و شور کے ساتھ پانی کے برسنے اور بہنے کے ہیں۔ بروزن فعال مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اور ہم نے بادلوں کو نچوڑنے والی ہواؤں سے یا بادلوں سے زورشور سے برسنے والا پانی برسایا۔ ماء منصوب بوجہ مفعول انزلنا کے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 مراد بادل ہوں تو اس کے معنی نچڑنے والے، ہوں گے اور ہوائیں مراد ہوں تو نچوڑنے والی، ترجمہ کیا جائے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وانزلنا .................... ثجاجا (14:78) ” اور بادلوں سے لگاتار بارش برسائی “۔ یعنی قوانین قدرت سے ان بادلوں کو نچوڑتے ہیں اور ان کا پانی زمین پر گرتا ہے۔ یہ پانی کس طرح نچوڑا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہواﺅں کے ذریعہ بادلوں سے پانی نچوڑا جاتا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بادلوں کے باہم ٹکرانے سے بجلی کی پیدائش کے عمل سے پانی نکل آتا ہو ، لیکن ان تمام اسباب کے پیچھے کوئی تو مسبب الاسباب ہے جو ان تمام اسباب اور اثرات ڈالنے والی چیزوں کا خالق ہے۔ اس سورج کو چراغ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس میں جلنے کا عمل اور روشنی ہوتی ہے اور یہی کام سورج کے اندر ہورہا ہے کہ اس میں جلنے کا عمل اور روشنی بکھیرنے کا عمل ہورہا ہے۔ لہٰذا سورج اور چراغ پوری طرح ایک ہی عمل کررہے ہیں۔ اللہ کے روشن چراغ سے ہم پر گرم شعاعوں اور روشنی کی بارش ہوتی ہے اور بادلوں سے لگاتار بارش نچوڑی جاتی ہے۔ اور یہ بجلی کی کڑک کے عمل سے بار بار برستی ہے اور اس بارش اور اس گرمی ہی سے اس کرہ ارض پر ہر قسم کے نباتات پیدا ہوتے ہیں اور ان نباتات سے وہ تمام نباتات پیدا ہوتے جن کو انسان استعمال کرتے ہیں اور وہ تمام گھنے باغات پیدا ہوتے ہیں۔ الفاف سے مراد وہ گھنے درخت جو ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے ہوں اور ایک درخت کی ٹہنی دوسرے میں گھسی ہوئی ہو۔ اس کائنات کی تخلیق میں یہ اہم آہنگی ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے ایک حکیمانہ ہاتھ کام کررہا ہے۔ نہایت حکمت کے ساتھ اس کی ہر چیز اندازے کے ساتھ بنائی گئی ہے۔ اور یہی ارادہ اس کو چلارہا ہے اور اس حقیقت کو ہر انسان پاتا ہے ، اگر وہ اپنی عقل اور اپنے شعور کو اس طرف متوجہ کرے ، لیکن دور جدید میں جب انسان نے علم ومعرفت میں ترقی کرلی ، تو اس نے معلوم کیا کہ اس کائنات کی تخلیق میں کیا کیا تدابیر اختیار کی گئی ہیں اور اس کی ہر ہر چیز کس طرح ایک فارمولے کے مطابق بنایا گیا ہے۔ یہ فارمولے اس قدر عجیب اور حیران کن ہیں کہ ان کو دیکھ کر عقل چکرانے لگتی ہے۔ اور علم ومعرفت رکھنے والا جدید انسان اور سائنس دان اس بات کو احمقانہ تصور کرتا ہے کہ یہ کائنات یونہی بخت واتفاق سے پیدا ہوگئی ہے اور جو لوگ اس کائنات کے کسی مدبر اور خالق کو تسلیم کرنے سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ وہ لوگ دراصل محض ہٹ دھرمی اور ضد میں مبتلا ہیں۔ اور ان کے اس رویے کو اب احترام کی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے۔ اور اس کائنات کے پیچھے ایک قوت مدبرہ کام کررہی ہے جس نے ہر چیز کو نہایت ہی حساس سکیل کے ساتھ پیدا کیا ہے اور کائنات کی تمام قوتیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ اور پیوست ہیں۔ اور قرآن کریم نے اس آیت میں اسی تنظیم ، ہم آہنگی اور تقدیر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین کو گہوارہ بنایا ہے اور پہاڑوں کو میخوں کی شکل دی ہے اور لوگوں کو جوڑے جوڑے بنایا ، نیند کو باعث سکون بنایا ، اور رات کو سب کے لئے چھپنے اور آرام کرنے کا ذریعہ بنایا ، اور سورج کے ذریعہ گرمی اور روشنی کا انتظام کیا۔ اور ہواﺅں اور بادلوں کے ذریعہ بارشوں کا انتظام کیا ، جن کے نتیجے میں سبزیاں ، حیوانات اور پھل نکالے گئے۔ یہ تمام حقائق جس انداز سے بیان کیے گئے ہیں۔ سائنسی زاویہ سے بھی یہ باہم متوافق اور ہم آہنگ ہیں اور ان کے اندر گہرا تعلق سبب اور مسبب کا ہے۔ اور یہ تعلق ہی بتاتا ہے کہ اس کائنات کا ایک ایسا خالق ہے جو اس کے نظام کو نہایت ہی خوبصورتی اور حکمت سے ملارہا ہے اور وہ حکیم وقدیر ہے۔ ان سائنسی اور مشاہداتی حقائق کو اگر کھلی آنکھوں سے پڑھاجائے تو اس سے انسان کو حکمت و دانش کا ایک بہت بڑا پیغام ملتا ہے اور اس کے بعد پھر وہ ایک عظیم پیغام پاتا ہے اور اس کی یہ شہ سرخی لگتی ہے کہ ایک فیصلے کا دن آنے والا ہے۔ یہ تمام مخلوقات یہاں تمہارے استفادے کے لئے ہیں ، کھاﺅ اور پیو اور عیش کرو ، مگر ایک دن بھی آنے والا ہے ، یہ دن یوم الفصل ہے ، یہ دن فیصلوں کا دن ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا کہ ہم نے پانی سے بھرے ہوئے بادلوں سے خوب زیادہ بہنے والا پانی اتارا اور اس پانی کو زمین کی سرسبزی کا سامان بنا دیا اس کے ذریعے کھیتیاں اگتی ہیں گیہوں جو وغیرہ اگتے اور باغات میں پھل پیدا ہوتے ہیں جو انسانوں کی خوراک ہیں اور اسی پانی کے ذریعے گھانس پھونس اور بہت سی ایسی چیزیں پیدا ہوتی ہیں جو چوپایوں کی خوراک ہیں، چوپائے اپنی خوراک کھاتے ہیں اور انسان کے کام آتے ہیں دودھ بھی دیتے ہیں اور کھیت کیا ری میں اور بوجھ ڈھونے میں کام آتے ہیں۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(14) اور ہم نے ہی برسنے کے لئے بادلوں سے بکثرت پانی برسایا۔ معصرات کو بعض حضرات نے فرمایا یہ وہ ہوائیں ہیں جو بارش لاتی ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ معصرات کے معنی ابر کے ہیں جس میں خوب پانی بھرا ہوا ہو، چناچہ حضرت ابن عباس (رض) ، ابو العالیہ، ربیع اور ضحاک اسی کے قائل ہیں۔ اسی بنا پر ان اپنے حضرات نے نچوڑنے والی بدلیوں کے ساتھ ترجمہ کیا ہے عرب موسلادھار باشر کو مطر شجاج کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم نے ان بدلیوں سے موسلا دھار پانی برسایا۔