Surat un Naba
Surah: 78
Verse: 24
سورة النبأ
لَا یَذُوۡقُوۡنَ فِیۡہَا بَرۡدًا وَّ لَا شَرَابًا ﴿ۙ۲۴﴾
They will not taste therein [any] coolness or drink
نہ کبھی اس میں خنکی کا مزہ چکھیں گے ، نہ پانی کا ۔
لَا یَذُوۡقُوۡنَ فِیۡہَا بَرۡدًا وَّ لَا شَرَابًا ﴿ۙ۲۴﴾
They will not taste therein [any] coolness or drink
نہ کبھی اس میں خنکی کا مزہ چکھیں گے ، نہ پانی کا ۔
Nothing cool shall they taste therein, nor any drink. meaning, they will not find any coolness in Hell for their hearts, nor any good drink for them to partake of. Thus, Allah says, إِلاَّ حَمِيمًا وَغَسَّاقًا
لایذوقون فیھا برداً …:” حمیماً “ اور ” غساقاً “ کی تشریح کے لئے دیکھیے سورة ص (٥٧) کی تفسیر۔ ” بردا “ سے مراد خوش گوار ٹھنڈک ہے۔ جہنم میں ایک طبقہ زمہر یر بھی ہے جہاں بےانتہا سردی ہے، اسیم زے کی ٹھنڈک نہیں کہہ سکتے۔ (وحیدی)
لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْہَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا ٢٤ ۙ ذوق الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له : الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] ( ذ و ق ) الذاق ( ن ) کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء/ 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔ برد أصل البرد خلاف الحر، فتارة يعتبر ذاته فيقال : بَرَدَ كذا، أي : اکتسب بردا، وبرد الماء کذا، أي : أكسبه بردا، نحوستبرد أکبادا وتبکي بواکياویقال : بَرَّدَهُ أيضا، وقیل : قد جاء أَبْرَدَ ، ولیس بصحیح ومنه البَرَّادَة لما يبرّد الماء، ويقال : بَرَدَ كذا، إذا ثبت ثبوت البرد، واختصاص للثبوت بالبرد کا ختصاص الحرارة بالحرّ ، فيقال : بَرَدَ كذا، أي : ثبت، كما يقال : بَرَدَ عليه دين . قال الشاعر : الیوم يوم بارد سمومه وقال الآخر : قد برد المو ... ت علی مصطلاه أيّ برودأي : ثبت، يقال : لم يَبْرُدْ بيدي شيء، أي : لم يثبت، وبَرَدَ الإنسان : مات . وبَرَدَه : قتله، ومنه : السیوف البَوَارِد، وذلک لما يعرض للمیت من عدم الحرارة بفقدان الروح، أو لما يعرض له من السکون، وقولهم للنوم، بَرْد، إمّا لما يعرض عليه من البرد في ظاهر جلده، أو لما يعرض له من السکون، وقد علم أنّ النوم من جنس الموت لقوله عزّ وجلّ : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها [ الزمر/ 42] ، وقال : لا يَذُوقُونَ فِيها بَرْداً وَلا شَراباً [ النبأ/ 24] أي : نوما . بارد، أي : طيّب، اعتبارا بما يجد الإنسان في اللذة في الحرّ من البرد، أو بما يجد من السکون . والأبردان : الغداة والعشي، لکونهما أبرد الأوقات في النهار، والبَرَدُ : ما يبرد من المطر في الهواء فيصلب، وبرد السحاب : اختصّ بالبرد، وسحاب أَبْرَد وبَرِد : ذو برد، قال اللہ تعالی: وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ مِنْ جِبالٍ فِيها مِنْ بَرَدٍ [ النور/ 43] . والبرديّ : نبت ينسب إلى البرد لکونه نابتا به، وقیل : «أصل کلّ داء البَرَدَة» «2» أي : التخمة، وسمیت بذلک لکونها عارضة من البرودة الطبیعية التي تعجز عن الهضم . والبَرُود يقال لما يبرد به، ولما يبرد، فيكون تارة فعولا في معنی فاعل، وتارة في معنی مفعول، نحو : ماء برود، وثغر برود، کقولهم للکحل : برود . وبَرَدْتُ الحدید : سحلته، من قولهم : بَرَدْتُهُ ، أي : قتلته، والبُرَادَة ما يسقط، والمِبْرَدُ : الآلة التي يبرد بها . والبُرُد في الطرق جمع البَرِيد، وهم الذین يلزم کل واحد منهم موضعا منه معلوما، ثم اعتبر فعله في تصرّفه في المکان المخصوص به، فقیل لكلّ سریع : هو يبرد، وقیل لجناحي الطائر : بَرِيدَاه، اعتبارا بأنّ ذلک منه يجري مجری البرید من الناس في كونه متصرفا في طریقه، وذلک فرع علی فرع حسب ما يبيّن في أصول الاشتقاق . ( ب ر د ) البرد ( ٹھنڈا ) اصل میں یہ حر کی ضد ہے ۔ محاورہ میں کبھی اس کی ذات کا اعتبار کرکے کہا جاتا ہے : برد ( ن ک ) کذا اس نے ٹھند حاصل کی برد ( ن) الماء کذا پانی نے اسے ٹھنڈا کردیا ۔ جیسے ع ( الطویل ) ( 47 ) ستبرد اکباد وتبلی بو کیا تو بہت سے کلیجوں کو ٹھنڈا کیا اور بہت سی رونے والیوں کو رلا ڈالے گی اور برد تفعیل ) بھی اس معنی میں استعمال ہوتا ہے بعض کے نزدیک ابردر ( افعال ) بھی اس معنی میں آجاتا ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے اسی سے البرادۃ ہے جس کے معنی پانی ٹھنڈا کرنے والی چیز کے ہیں اور محاورہ میں برد کذا کے معنی کسی چیز کے البرد ا ولے کی طرح جامد اور ثابت ہونا بھی آتے ہیں جس طرح حر کو حرکت لازم ہی اسی طرح برد کے ساتھ کسی چیز کا ثبات مختص ہوتا ہے چناچہ محاورہ ہے ۔ برد علیہ دین ۔ اس پر قرض ٹھہر گیا ۔ شاعر نے کہا ہے ( رجز ) ( 48 ) الیوم باردسمومہ ۔ آج باد سموم جامد ہے ۔ اور دوسرے شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) ( 49 ) ۔۔۔۔۔۔ قدبرد الموت ۔۔ ت علی مصطلاہ ۔۔۔۔ کہ اس کے ہاتھ اور چہرہ پر موت طاری ہوگئی ۔ لم یبرد بیدی شیئ میرے ہاتھ میں کوئی چیز قرار نہیں پکڑتی ۔ برد الانسان مرجانا فوت ہوجانا ۔ بردہ اسے قتل کر ڈالا اسی سے سیوف کو بوارد کہا جاتا ہے کیونکہ ہیت بھی فقدان روح سے سرد پڑجاتی ہے اور اسے سکون کا حق ہوتا ہے ۔ یا ظاہری طور پر جلد میں خنکی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور یہ معلوم ہے کہ نیند بھی ایک طرح کی موت ہے ۔ جیسا کہ قران میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِها وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنامِها [ الزمر/ 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی دو روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ؟ اور آیت کریمہ : لا يَذُوقُونَ فِيها بَرْداً وَلا شَراباً [ النبأ/ 24] میں بھی برد بمعنی نیند ہے یعنی ہاں کسی قسم کی راحت اور زندگی کی خوشگواری نصیب ہیں ہوگی اور اس اعتبار سے کہ گرمی میں سردی سے احت اور سکون حاصل ہوتا ہے خوشگوار زندگی لے لئے عیش بارد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے الابردان صبح وشام کیونکہ یہ دونوں وقت ٹھنڈ ہی ہوتے ہیں ۔ البرد کے معنی اولے کے ہیں اور برد السحاب کے معنی ہیں بادل نے ژالہ باری کی سحاب ابرد وبرد ۔ اور اولے برسانے والے بادل قرآن میں ؟ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّماءِ مِنْ جِبالٍ فِيها مِنْ بَرَدٍ [ النور/ 43] اور آسمان کے پہاڑوں سے اولے نازل کرتا ہے ۔ لبرد دی نرکل کی قسم کا ایک پونا ۔ یہ برد کی طرف منسوب ہے کیونکہ یہ بھی پانی میں پیدا ہوتا ہے غل مشہور ہے اصل کل داء البردۃ کہ بدہضمی الا مراض ہے بدہضمی کو بردۃ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس برودت طبعی کی وجہ سے عارض ہوتی ہے س سے قوت ہضم ناقابل ہوجاتی ہے ۔ البردود ٹھنڈا پہنچانے والی چیز کو کہتے ہیں اور کبھی ٹھنڈی چیز کو بھی کہہ دیتے ہیں کیونکہ فعول کبھی بمعنی فاعل ہوتا ہے اور کبھی بمعنی مفعول آتا ہے ۔ جیسے ماء برود ( ٹھنڈا پانی ) ثغر یرود ( خنک دانت ) جیسا کہ آنکھ کو ٹھنڈک پہنچانے والے سرمہ کو برود کہا جاتا ہے بردت الحدید میں نے لو ہے ریتی سے رگڑ یہ بردتہ بمعنی قتلتہ سے مشتق ہے اور لوہ چون کو برادۃ کہا جاتا ہے ۔ المبرۃ ( آلہ ) ریتی جس سے لوہے کو ریتتے بیں ۔ ۔ ا البرد یہ البرید کی جمع ہے اور محکمہ مواصلات کی صطلاح میں برد ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کسی جگہ پر پیغام رسانی کے لئے متعین رہتے ہیں ۔ وہ ہر کارے چونکہ سرعت سے پیغام رسانی کا کام کرتے تھے اس لئے ہر تیز رو کے کے لئے ھو یبرد کا محاورہ استعمال ہونے لگا ہے ۔ اور پرند گے ہر وں کو برید ان کہا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی اسے برید کا کام دیتے ہیں تو یہ بناء الفرح علی الفرع کے قبیل سے ہے جیسا کہ علم الا شتقا ا میں بیان کیا جاتا ہے ۔ شرب الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي - إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ« وقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير : صخب الشّوارب لا يزال كأن وقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن ولذلک قال الشاعر : تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرورولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل . ( ش ر ب ) الشراب کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گورخر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ( گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الاقران حتیٰ وقص تھا بقرح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال میں کہ انہوں نے حمل گرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 259 ) تغلغل حیث لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن و سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشربتنی ما لم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ۔
(٢٤۔ ٢٨) تو وہاں سے ان لوگوں کو نجات حاصل نہیں ہوگی اور دوزخ میں نہ تو وہ ٹھنڈے پانی یا یہ کہ نیند کا مزہ چکھیں گے اور نہ ٹھنڈی پینے کی چیز کا سوائے سخت گرم پانی اور زمہریر، یا یہ کہ پیپ کے، یہ ان کو ان کے اعمال کا پورا بدلہ ملے گا۔ یہ لوگ دنیا میں نہ تو عذاب آخرت سے ڈرتے تھے اور نہ اس پر ایمان ہی لاتے تھے اور ہماری کتاب اور ہمارے رسول کی تکذیب کرتے تھے۔
(78:24) لا یذوقون فیہا بردا ولا شرابا : لا یذوقون مضارع منفی جمع مذکر غائب ذوق (باب نصر) مصدر سے۔ وہ نہیں چکھیں گے۔ فیہا ای فی جھنم، بردا۔ ٹھنڈک، شرابا پینے کی چیز، ہر وہ چہز جس کو چبانا نہ پڑے بلکہ پیا جائے عربی میں اس کے لئے شراب کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ وہ وہاں نہ تو ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے اور نہ کسی پینے کی چیز کا۔ (یعنی ان کو نہ تو ایسی ٹھنڈک نصیب ہوگی جو جسم کو آرام اور سکون دے۔ اور نہ کوئی پینے کی چیز ایسی ملے گی جو پر ذائقہ بھی ہو اور پیاس کو بھی بجھا دے) ۔
لا یذوقون ................ شرابا (24:78) ” اس کے اندر کسی ٹھنڈک اور پینے کے قابل کسی چیز کا مزہ نہ چکھیں گے “۔ ہاں پینے کے لئے انہیں کچھ ملے گا ضرور۔ وہ کیا ہوگا ؟ بہت ہی تلخ اور مکروہ۔
﴿ لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا بَرْدًا وَّ لَا شَرَابًاۙ٠٠٢٤﴾ (دوزخ میں داخل ہونے والے سرکش اس میں کوئی ٹھنڈک نہ پائیں گے نہ وہاں کی آب و ہوا میں ٹھنڈک ہوگی جو آرام دہ ہو اور نہ پینے کی چیزوں میں کوئی ایسی چیز دی جائے گی جس میں مرغوب ٹھنڈک ہو، جو ٹھنڈک عذاب دینے کے لیے ہوگی (یعنی زمھریر) جس کا بعض احادیث میں ذکر آتا ہے اس میں اس کی نفی نہیں ہے۔ قال صاحب الروح والمراد بالبردما یروحھم وینفس عنھم حر النار فلا ینافی انھم قد یعذبون بالزمھریر۔
7:۔ ” لَا یَذُوْقُوْنَ “۔ وہ جہنم میں ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے نہ کسی مشروب کا۔ وہاں ان کو کھولتے پانی اور دوزخیوں کے زخموں سے بہنے والی پیپ کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ یہ ایک ایسی جزا ہوگی جو ان کے عملوں کے عین مطابق ہوگی اور اس میں ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ ” اِنَّھُمْ کَانُوْا “ یہ ما قبل کی علت ہے اگر یہ کلام قیامت کے دن کافروں کے جہنم میں داخل ہونے کے بعد کہنا مراد ہے تو اس سے پہلے یقال مقدر ہے ورنہ اس تقدیر کی ضرورت نہیں۔ وہ قیامت کے دن کے محاسبہ کا اعتقاد نہیں رکھتے تھے اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے۔ ” وَکُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ “ ہم نے ان کے تمام اعمال باطلہ اوراقوال زائعغہ کو باقاعدہ لکھ کر محفوظ کر رکھا ہے اور کوئی چیز ہم سے پوشیدہ نہیں لہذا آج عذاب کا مزہ چکھو اور جب تک تم عذاب میں رہو گے عذاب میں کوئی کمی نہیں ہوگی بلکہ اس کی شدت میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ ” فَذُوْقُوْا “ سے پہلے ” یُقَالُ لَھُمْ “ محذوف ہے (جلالین) ۔