Surat un Naziaat

Surah: 79

Verse: 27

سورة النازعات

ءَاَنۡتُمۡ اَشَدُّ خَلۡقًا اَمِ السَّمَآءُ ؕ بَنٰہَا ﴿ٝ۲۷﴾

Are you a more difficult creation or is the heaven? Allah constructed it.

کیا تمہارا پیدا کرنا زیادہ دشوار ہے یا آسمان کا؟ اللہ تعا لٰی نے اسے بنایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Creating the Heavens and the Earth is more difficult than repeating Creation In refutation of the claim rejecting resurrection due to the renewal of creation after its original state, Allah says; أَأَنتُمْ ... Are you `O people' ... أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاء ... more difficult to create or is the heaven... meaning, `rather the heaven is more difficult to create than you.' As Allah said; لَخَلْقُ السَّمَـوَتِ وَالاٌّرْضِ أَكْـبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ the creation of the heavens and the earth is greater than the creation of mankind; (40:57) And His saying; أَوَلَـيْسَ الَذِى خَلَقَ السَّمَـوتِ وَالاٌّرْضَ بِقَـدِرٍ عَلَى أَن يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى وَهُوَ الْخَلَّـقُ الْعَلِيمُ Is not the One Who created the heavens and the earth, capable of creating the similar to them. Yes, indeed! He is the Supreme Creator, the All-Knowing. (36:81) Then Allah says, ... بَنَاهَا He constructed, He explains this by His statement, رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا

موت و حیات کی سرگزشت جو لوگ مرنے کے بعد زندہ ہونے کے منکر تھے ، انہیں پروردگار دلیلیں دیتا ہے کہ تمہاری پیدائش سے تو بہت زیادہ مشکل پیدائش آسمانوں کی ہے جیسے اور جگہ ہے آیت ( لَخَــلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 57؀ ) 40-غافر:57 ) یعنی زمین و آسمان کی پیدائش انسانوں کی پیدائش سے زیادہ بھاری ہے اور جگہ ہے آیت ( اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ ڲ بَلٰى ۤ وَهُوَ الْخَــلّٰقُ الْعَلِـيْمُ 81؀ ) 36-يس:81 ) کیا جس نے زمین و آسمان پیدا کر دیا ہے ان جیسے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا ؟ ضرور وہ قادر ہے اور وہ ہی بڑا پیدا کرنے والا اور خوب جاننے والا ہے ، آسمان کو اس نے بنایا یعنی بلند و بالا خوب چوڑا اور کشادہ اور بالکل برابر بنایا پھر اندھیری راتوں میں خوب چمکنے والے ستارے اس میں جڑ دیئے ، رات کو سیاہ اور اندھیرے والی بنایا اور دن کو روشن اور نور والا بنایا اور زمین کو اس کے بعد بچھا دیا یعنی پانی اور چارہ نکالا ۔ سورہ حم سجدہ میں یہ بیان گزر چکا ہے کہ زمین کی پیدائش تو آسمان سے پہلے ہے ہاں اس کی برکات کا اظہار آسمانوں کی پیدائش کے بعد ہوا جس کا بیان یہاں ہو رہا ہے ، ابن عباس اور بہت سے مفسرین سے یہی مروی ہے ، امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ، اس کا تفصیلی بیان گزر چکا ہے اور پہاڑوں کو اس نے خوب مضبوط گاڑ دیا ہے وہ حکمتوں والا صحیح علم والا ہے اور ساتھ ہی اپنی مخلوق پر بیحد مہربان ہے ، مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا وہ ہلنے لگی پروردگار نے پہاڑوں کو پیدا کر کے زمین پر گاڑ دیا جس سے وہ ٹھہر گئی فرشتوں کو اس سے سخت تر تعجب ہوا اور پوچھنے لگے اللہ تیری مخلوق میں ان پہاڑوں سے بھی زیادہ سخت چیز کوئی اور ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہاں لوہا ، پوچھا اس سے بھی زیادہ سخت ؟ فرمایا آگ ، پوچھا اس سے بھی زیادہ سخت؟ فرمایا ہاں پانی ، پوچھا اس سے بھی زیادہ سخت؟ فرمایا ہوا ، پوچھا پروردگار کیا تیری مخلوق میں اس سے بھاری کوئی اور چیز ہے؟ فرمایا ہاں ابن آدم وہ یہ ہے کہ اپنے دائیں ہاتھ سے جو خرچ کرتا ہے اس کی خبر پائیں ہاتھ کو بھی نہیں ہوتی ، ابن جریر میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب زمین کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو وہ کانپنے لگی اور کہنے لگی تو آدم اور اس کی اولاد کو پیدا کرنے والا ہے جو اپنی گندگی مجھ پر ڈالیں گے اور میری پیٹھ پر تیری نافرمانیاں کریں گے ، اللہ تعالیٰ نے پہاڑ گاڑ کر زمین کو ٹھہرا دیا بہت سے پہاڑ تم دیکھ رہے ہو اور بہت سے تمہاری نگاہوں سے اوجھل ہیں ، زمین کا پہاڑوں کے بعد سکون حاصل کرنا بالکل ایسا ہی تھا جیسے اونٹ کو ذبح کرتے ہی اس کا گوشت تھرکتا رہتا ہے پھر کچھ دیر بعد ٹھہر جاتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لئے ہے ، یعنی زمین سے چشموں اور نہروں کا جاری کرنا زمین کے پوشیدہ خزانوں کو ظاہر کرنا کھیتیاں اور درخت اگانا پہاڑوں کا گاڑنا تاکہ زمین سے پورا پورا فائدہ تم اٹھا سکو ، یہ سب باتیں انسانوں کے فائدے کیلئے ہیں اور ان کے جانوروں کے فائدے کے لئے پھر وہ جانور بھی انہی کے فائدے کے لئے ہیں کہ بعض کا گوشت کھاتے ہیں بعض پر سواریاں لیتے ہیں اور اپنی عمر اس دنیا میں سکھ چین سے بسر کر رہے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

27۔ 1 یہ کفار مکہ کو خطاب ہے اور مقصود تنبیہ ہے کہ جو اللہ اتنے بڑے آسمانوں اور ان کے عجائبات کو پیدا کرسکتا ہے، اس کے لئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا آسمان بنانے سے زیادہ مشکل ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] مختصر طور پر قصہ فرعون بیان کرنے کے بعد اب پھر اصل مضمون یعنی عقیدہ آخرت کی طرف رجوع کرتے ہوئے کافروں سے سوال کیا جارہا ہے کہ کیا اس کائنات کو وجود میں لانا زیادہ مشکل کام ہے یا تمہیں پہلی بار یا دوسری بار پیدا کرنا ؟ یہاں لفظ سماء استعمال ہوا ہے جس سے مراد آسمان بھی ہوسکتا ہے اور تمام عالم بالا بھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ء انتم اشد خلقاً …: شرع سورت میں قیامت حق ہونے کی دلیل کے طور پر فرشتوں کا اور ان چند امور کا ذکر فرمایا جو وہ سر انجام دیتے ہیں، یعنی ان فرشتوں کے رب کے لئے تمہیں دوبارہ زندہ کرنا کون سا مشکل کام ہے ؟ یہاں سے پھر قیامت کے دلائل کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ چناچہ آیت (٢٧) سے (٣٣) تک اللہ تعالیٰ نے اپنی کئی عظیم الشان مخلوقات کا ذکر فرمایا کہ اتنی قدرتوں والے پروردگار کے لئے تمہیں دوبارہ زندہ کرنے میں کیا دشواری ہوسکتی ہے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ءَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ۝ ٠ ۭ بَنٰىہَا۝ ٢٧ ۪ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ بنی يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس/ 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة/ 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف/ 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات/ 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه . و ( ب ن ی ) بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا } ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے { وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ } ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ { وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا } ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ { لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ } ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ { كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ } ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں :{ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ } ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر/ 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٧۔ ٣٣) اے مکہ والو ! بھلا تمہار دوسری دفعہ پیدا کرنا زیادہ سخت ہے یا آسمان کا بنانا، اللہ نے اس کی چھت کو بلند کیا۔ اور زمین پر درست کیا اور اس کی رات کو سیاہ اور اندھیرے والی بنایا اور اس کے دن اور اس کے سورج کو روشن بنایا اور اس کے ساتھ زمین کو پانی پر بچھایا، یا یہ کہ اس کے دو ہزار سال بعد بچھایا اور زمین سے اس کا جاری اور غیر جاری پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو اس کی میخیں بنایا، اور یہ پانی اور گھاس تمہارے اور تمہارے مویشیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب اگلی آیات میں بعث بعد الموت کے حوالے سے مشرکین کے طنزیہ تبصروں کا تفصیلی جواب دیا جارہا ہے :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 Now arguments are being given for the possibility of Resurrection and life after death and their being the very demand and requirement of wisdom. 14 Here, creation implies the recreation of men, and the heaven the entire firmament which contains countless stars and planets, and innumerable solar systems and galaxies. means to say: "You think that your resurrection after death is something extremely improbable and you express wonder saying: `How is it possible that when our very bones will have decayed and become rotten the scattered particles of our bodies will be reassembled and made living once again?' But have you ever also considered whether the great universe is harder to create or your own re-creation in the form in which you were created in the first instance? The God Who created you in the first instance cannot be powerless to create you once again." This same argument for life after death has been given at several places in the Qur'an. For example, in Surah Ya Sin it has been said: "Is not He Who created the heavens and the earth able to create the like of them (again) ? Why not, when He is the skilful Creator." (v. 81) And in Surah Al-Mu'min it was said: "Surely the creation of the heavens and the earth is a greater task than the creation of man, but most people do not know. (v. S7)

سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :13 اب قیامت اور حیات بعد الموت کے ممکن اور مقضائے حکمت ہونے کے دلائل بیان کیے جا رہے ہیں ۔ سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :14 تخلیق سے مراد انسانوں کی دوبارہ تخلیق ہے اور آسمان سے مراد وہ پورا عالم بالا ہے جس میں بے شمار ستارے اور سیارے ، بے حد و حساب شمسی نظام اور ان گنت کہکشاں پائے جاتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم جو موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو کوئی بڑی ہی امر محال سمجھتے ہو ، اور بار بار کہتے ہو کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ہماری ہڈیاں تک بوسیدہ ہو چکی ہوں گی اس حالت میں ہمارے پراگندہ اجزائے جسم پھر سے جمع کر دیے جائیں اور ان میں جان ڈال دی جائے ، کبھی اس بات پر بھی غور کرتے ہو کہ اس عظیم کائنات کا بنانا زیادہ سخت مشکل کام ہے یا تمہیں ایک مرتبہ پیدا کر چکنے کے بعد دوبارہ اسی شکل میں پیدا کر دینا ؟ جس خدا کے لیے وہ کوئی مشکل کام نہ تھا اس کے لیے ( آخر یہ کیوں ایسا مشکل کام ہے کہ وہ اس پر قادر نہ ہو سکے؟ حیات بعد الموت پر یہی دلیل قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دی گئی ہے ۔ مثلاً سورۃ یسین میں ہے اور کیا وہ جس نے آسمان اور زمین کو بنایا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو ( پھر سے ) پیدا کر دے؟ کیوں نہیں ، وہ تو بڑا زبردست خالق ہے ، تخلیق کے کام کو خوب جانتا ہے ( آیت 81 ) ۔ اور سورہ مومن میں فرمایا یقیناً آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے ، مگر اکثر جانتے نہیں ہیں ( آیت 57 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: عرب کے کافر لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا جو اِنکار کرتے تھے، اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کسی مُردے کے زندہ ہونے کو بہت مشکل سمجھتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ کائنات کی دوسری چیزوں، مثلا آسمان، کے مقابلے میں اِنسان کو پیدا کرنا زیادہ آسان ہے، اگر تم مانتے ہو کہ آسمان اﷲ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے تو پھر اِنسان کو دوبارہ پیدا کرنا اُس کے لئے کیا مشکل ہے؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٧۔ ٣٣۔ سورة عم یتساء لون میں جس طرح حشر کے منکر لوگوں کے قائل کرنے کو ان کی آنکھوں کے سامنے کی چند چیزوں کا ذکر فرمایا تھا حشر کے ذکر کے بعد یہاں بھی چند عجائبات کا ذکر اسی غرض سے فرمایا ہے کہ ان عجائبات کو آنکھوں سے دیکھنے کے بعد کسی صاحب عقل کا کام نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس قدرت سے انکار کرے کہ ایک دفعہ ان سب عجائبات کو پیدا کرکے دوسری دفعہ ان میں سے جو کچھ وہ چاہے اس کا پیدا کرنا اس کی قدرت سے کچھ بعید ہے۔ ان آیتوں کو سورة حم السجدہ کی آیتوں سے ملا کر پڑھنے سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ پہلے زمین کو بنایا پھر آسمان کو پیدا کیا پھر زمین پھیلائی اور پر آسمان کو یکساں اور برابر کیا۔ سمک کے معنی بلندی کے ہیں مطلب یہ ہے کہ آسمان کو زمین سے پانسو برس کے راستہ کی بلندی پر بغیر کسی سہارے کے کسی حکمت سے بنایا۔ پھر جس طرح سے اول آسمان زمن کی چھت ہے۔ اسی طرح اسی فاصلہ پر ہر ایک آسمان دوسرے آسمان کی چھت ہے حاصل یہ کہ جو ایسی عظیم الشان انسان کی سمجھ سے باہر چیزوں کے بنانے کی قدرت رکھتا ہے ایک دفعہ پیدا کرکے پھر دوبارہ انسان کو پیدا کرنا اس کی قدرت کے آگے کیا مشکل ہے۔ دن اور رات کا تعلق آسمان سے یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں آسمان کی حرکت کے سبب سے پیدا ہوتی ہیں۔ زمین کا پانی نکالنے سے مطلب دریا اور ندیاں اور چشمے ہیں۔ مرعیٰ کے معنی جانوروں کے چارے کے ہیں۔ پہاڑوں کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(79:27) ء انتم اشد خلقا ام السماء بنھا : (آیت میں کلام کا رخ بدل کر منکرین حشر سے خطاب ہے) ۔ ء استفہامیہ ہے انتم مبتداء ہے اشد اس کی خبر۔ خلقا تمیز۔ السماء مبتداء خبر محذوف کی۔ ای اشد (یعنی زیادہ مشکل) یعنی تخلیق کے اعتبار سے تم زیادہ سخت ہو یا آسمان زیادہ سخت ہے۔ یہ استفہام تقریری ہے۔ یعنی آسمان کی تخلیق زیادہ سخت ہے۔ آسمان سے مراد ہے آسمان مع ان تمام چیزوں کے جو اس کے اندر ہیں کیونکہ مقام تفصیل میں زمین اور پہاڑوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ خلاصہ مطلب یہ ہے کہ آسمان اور اس کے موجودات کی تخلیق تمہاری تخلیق سے زیادہ سخت ہے۔ تم کائنات سماوی کا جزو ہو اور جزء کی تخلیق کل کی تخلیق سے بداہۃ آسان ہوتی ہے پھر دوبارہ تخلیق تو خلق اول سے سہل ہی ہے۔ (المظہری) بنھا۔ جملہ مستانفہ ہے۔ بنی ماضی واحد مذکر غائب۔ بناء (باب ضرب) مصدر سے۔ اس نے بنایا۔ اس نے تعمیر کیا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب السماء کے لئے ہے۔ علامہ پانی پتی (رح) اپنی تفسیر میں اس کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :۔ ” اللہ نے آسمان کو بنایا ہے۔ یہ جملہ السماء کی صفت ہے (لیکن جملہ نکرہ کے حکم میں ہوتا ہے اور السماء معرفہ ہے اور معرفہ کی صفت معرفہ ہونی چاہیے) اور السماء میں الف لام زائدہ ہے (فرد غیر معین کے لئے ہے) جیسے کہ ولقد امر علی اللئیم یسبنی جملہ ہونے کے باوجود اللئیم معرف باللام کی صفت ہے۔ کیونکہ اللئیم سے فرد غیر معین مراد ہے۔ یا التی موصول محذوف ہے۔ یعنی وہ آسمان جس کو خدا نے بنایا۔ یا دوسرے جملہ کا پہلے جملہ پر عطف ہے اور حرف عطف محذوف ہے دونوں جملوں کو ملانے سے پوری دلیل اس طرح بنتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان بنایا جس کی تخلیق تمہاری تخلیق سے زیادہ دشوار ہے اور جو اس کی تخلیق پر قدرت رکھتا ہے وہ ایسی چیز کو جو آسمان سے کمزور ہے۔ دوبارہ بنانے پر (بدرجہ اولیٰ ) قدرت رکھتا ہے۔ (تفسیر مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٢٧ تا ٤٦۔ اسرار ومعارف۔ اگر انہیں دوبارہ زندہ ہونے کا اعتبار نہیں آتا اور اسے مشکل جانتے ہیں تو موجودہ حیات پہ غورکریں کہ بندہ کو دوبارہ بنانامشکل ہے یا آسمانوں کی تخلیق جن کو ان کے بیشمار امور اور مخلوق کے ساتھ بنادیا اور ایسا بنایا کہ کہیں کوئی خامی باقی نہ رہی بلکہ وہ شب وروز کی آمدورفت اور سورج کے طلوع و غروب کے باعث پورے نظام حیات کو چلانے کا سبب بن گیا اس کے بعد زمین کو بچھادیا کہ اپنی کروی صورت کے باوجود ہر جگہ برابر بچھی ہوئی ہے اور اس میں زندگی کے اسباب نہریں دریا اور سبزہ پیدا کردیے ہیں اور اس بڑے بڑے پہاڑ کھڑے کردیے جو بیشمار نعمتوں کا سبب ہیں اور جن سب امور کے نتیجے میں تم اور تمہارے جانور مستفید ہوتے ہیں یہ سب اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ قادر ہے جب چاہے جو چاہے پیدا کرے وہی انسان کو دوبارہ زندہ فرمائے گا اور پھرج ب ہنگامہ قیامت برپا ہوگا تو ہر کوئی نہ صرف مان لے گا بلکہ اپنا کی ابھی سامنے آجائے گا اور انسان ایک ایک عمل کو یاد کرے گا ، اس روز دوزخ بھی میدان حشر میں سامنے موجود ہوگی کہ اب دیکھ کریقین کرلو لیکن جس نے بھی دنیا میں اطاعت الٰہی نہ کی اور دنیا کی لذتوں کے حصول میں لگارہا اس کا گھر دوزخ ہے۔ نظام اسلام کی مخالفت۔ ہرنبی عقیدہ اور عمل لے کرمبعوث ہوا اور نظام حیات میں ہر انسان کا حق مقرر ہوامگر دنیا کے متوالوں نے اس غرض سے مخالفت کی کہ اس طرح انہیں جو عیاشی دوسرے کے حقوق غصب کرکے حاصل ہے نہ رہے گی وہ بالا آخر گمراہ ہو کر موت کا شکار ہوئے لہذا ایسے لوگوں کاٹھکانہ دوزخ ہے۔ اور دوسرے وہ لوگ جنہیں آخرت کا یقین نصیب ہوا اور اللہ کے روبرو پیش ہونے کے خوف سے اطاعت کا راستہ اختیار کیا اور نفس کو خواہشات ولذات سے روکا۔ نفس۔ خواہشات کو روکنے کے تین درجے مذکور ہیں اول عقائد باطلہ سے بچ جانا ، دوم اگر گناہ کا موقع آئے تو اللہ کے خوف سے باز رہنا اور تیسرے ان مشتبہ چیزوں سے بچنا جو کسی ناجائز کام کا سبب بننے کا خطرہ بن سکتی ہوں نیز نفس کو گناہ سے روکنا پھر آسان ہے مگر ایسے مکر جو عبادات تک میں شامل ہوجاتے ہیں ان سے روکنا بغیر شیخ کامل کے ممکن نہیں جیسے خود پسندی یاریا اور نمودونمائش ، ان سے بچنے کے لیے شیخ کی توجہ کے ساتھ سخت مجاہدات ضروری ہیں کہ توجہ کا اثر بھی ہوا اور نتیجہ خیز ہو۔ یہاں دوزخ اور عذاب سے بچنے کی دو شرطیں ارشاد فرمائی ہیں۔ اول ایمان بالاخرۃ قیامت پر کامل یقین اور دوسرے اللہ کی نافرمانی سے رک جانا یہی وہ اوصاف ہیں کہ جن پر جنت کو انکا گھر بنادیاجائے گا ، یہ نادان اپنی اصلاح کرنے کی بجائے یہ پوچھتے ہیں کہ قیامت کب ہوگی بھلا اس سے بنی آدم کو واسطہ ان ک لیے تو اتنا ضروری ہے کہ یقینا واقع ہوگی لہذا آپ کا کام یہی ہے کہ اس کا ہونا یقینی بتادیں ایمان نصیب ہو اس کا کام عمل کرنا ہے ورنہ آج انہیں دور لگتی ہے تو جب سامنے آجائے گی تویہی سمجھیں کہ بہت جلدی آگئی دنیا میں تو کوئی پہر ہی ٹھہرنے کی فرصت ملی تھی۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ ظاہر ہے کہ تمہارے دوسری بار پیدا کرنے سے آسمان کا پیدا کرنا زیادہ سخت ہے، پھر جب اس کو پیدا کردیا تو تمہارا مکرر پیدا کردینا کیا مشکل ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کے منکرین کی سب سے بڑی دلیل کا جواب۔ قیامت کا انکار کرنے والوں کی سب سے بڑی دلیل یہ رہی ہے کہ جب انسان مٹی کے ساتھ مٹی بن جاتا ہے تو پھر اسے کس طرح زندہ کیا جاسکتا ہے ان کے نزدیک یہ بات ناممکنات میں سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی سوچ رکھنے والے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں پر توجہ نہیں دیتے ؟ ان کی سوچ صرف اپنی حد تک رہتی ہے اور وہ دنیا کے اسباب پر ہی نظر رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ساری دنیا کے انسان مل کر بھی چھوٹی سے چھوٹی جاندار چیز پیدا نہیں کرسکتے اگر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرتوں پر توجہ دیں تو انہیں یقین آجائے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ کا فرمان برحق ہے کہ وہ قیامت کے دن لوگوں کو اٹھائے گا اور اپنی بارگاہ میں پیش کرے گا۔ ایسے لوگوں کی سوچ کے دریچے کھولنے کے لیے ارشاد فرمایا کہ کیا تمہیں پیدا کرنا مشکل ہے یا آسمان کو بنانا مشکل ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آسمان کو بنایا بلکہ اسے بنا کر بغیر ستونوں کے فضا میں کھڑا کردیا ہے، دیکھنے والا نہ اس میں کوئی دراڑ دیکھتا ہے اور نہ ہی آج تک کہیں سے وہ جھکا ہے یہ اسی طرح فضا میں معلق اور قائم ہے جس طرح اسے پہلے دن بنایا اور ٹھہرایا گیا تھا۔ پھر ” اللہ تعالیٰ “ ہی زمین و آسمان کے درمیان رات اور دن کو پیدا کرتا ہے، رات اپنی تاریکی اور سکون میں لوگوں کو سلا دیتی ہے اور دن کی روشنی لوگوں کو جگا دیتی ہے۔ اسی ذات کبریا نے زمین کو پانی پر پھیلایا اور بچھایا ہے، وہی زمین سے پانی نکالتا ہے اور اس پانی کے ذریعے لوگوں اور جانوروں کے لیے چارہ نکالتا ہے، اسی نے زمین پر پہاڑ گاڑ دیئے ہیں اور اس میں انسانوں اور ان کے چوپاؤں کے لیے ہر قسم کے فوائد رکھ دئیے ہیں، اگر انسان ان باتوں پر غور کرے تو یہ حقیقت اس پر واضح ہوجائے گی کہ جس خالق نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں وہی انسانوں کو دوبارہ پیدا کرے گا۔ غور کریں کہ آسمان اور زمین آپس میں ملے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو الگ الگ کیا۔ ( الانبیاء : ٣٠) اور دھوئیں سے ٹھوس آسمان پیدا کیے۔ (حمٓ السجدۃ : ١١) اس طرح زمین پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پانی نکالا اور پھر زمین کو فرش کے طور پر بچھادیا۔ ( ھود : ٧، البقرۃ : ٢٢) زمین پر پہاڑ اس لیے گاڑ دیئے تاکہ اس میں ایک طرف جھکاؤ پیدا نہ ہوسکے۔ یہ ایسے دلائل ہیں جس پر معمولی سا غور کرنے سے ایک طرف اللہ تعالیٰ کی خالقیت پر ایمان مضبوط ہوتا ہے اور دوسری طرف قیامت کے دن جی اٹھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ زمین جس دانے کو اپنے پیٹ میں ایک مدت تک چھپائے رکھتی ہے جب اس کے اگنے کا وقت آتا ہے تو اپنے خالق کے حکم سے اس کے نکلنے کے لیے زمین اپنا سینہ کھول دیتی ہے کیا قیامت کے دن زمین ایسا کرنے سے انکار کردے گی ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا جونہی اللہ تعالیٰ اسے حکم دے گا تو زمین پھٹ جائے گی اور لوگ اپنے اپنے مقام سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوسرا صور پھونکنے کا عرصہ چالیس کا ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگردوں نے پوچھا چالیس دن ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں یہ نہیں جانتا۔ انہوں نے استفسار کیا چالیس ماہ ؟ حضرت ابوہریرہ (رض) نے جواباً فرمایا میرا کوئی جواب نہیں۔ انہوں نے پھر پوچھا چالیس سال ہیں ؟ ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں میں یہ بھی نہیں کہتا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے گا۔ لوگ یوں اگیں گے جس طرح انگوری اگتی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، انسان کی دمچی کے علاوہ ہر چیز مٹی ہوجائے گی۔ قیامت کے دن اسی سے تمام اعضاء کو جوڑا جائے گا۔ (رواہ مسلم : باب مَا بَیْنَ النَّفْخَتَیْنِ ) (قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً اَوْ حَدِیْدًا) (بنی اسرائیل : ٥٠) ” فرما دیں کہ تم پتھر بن جاؤ یا لوہا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان کو بنایا اور اسے بلند فرمایا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہی رات کو تاریک کرتا ہے اور دن کو روشن فرماتا ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو فرش بنایا اور وہی اس سے پانی اور چارہ نکالتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو زمین پر بوجھ کے طور پر ڈال رکھا ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں اور ان کے چوپاؤں کے لیے ان کی زندگی کا سامان پیدا کیا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ایسا استفہام ہے جس کا جواب ایک ہی ہے اور ناقابل انکار اور ناقابل بحث و مباحثہ ہے۔ ءانتم ................ السمائ (27:79) ” تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی “۔ یقینا آسمانوں کی تخلیق بہت بڑا اور مشکل کام ہے۔ اس میں کوئی کلام نہیں ہے۔ نہ بحث کی گنجائش ہے۔ لہٰذا تمہیں جو اللہ نے مختصر قوت دی ہے ، اس پر تمہیں اس قدر ناز کیوں ہے حالانکہ آسمان اور کائنات کی دوسری قوتیں تم سے قوی تر ہیں۔ یہ تو ہے اس سوال کا ایک پہلو ، لیکن اس کی ایک جہت اور بھی ہے ، وہ یہ کہ تم اپنے دوبارہ اٹھائے جانے کو ایک مشکل کام تصور کرتے ہو ، جبکہ آسمانوں کی تخلیق تمہاری تخلیق سے مشکل ہے ، حالانکہ حشر میں تمہاری تخلیق ابتدائی تخلیق نہ ہوگی بلکہ محض اعادہ اور جس ذات بابرکات نے آسمانوں اور جہانوں کی تخلیق کی ہے ، اس کے لئے تمہارا اعادہ زیادہ آسان ہے۔ آسمانوں کی تخلیق بلاریب ایک عظیم کام ہے۔ بنھا (27:79) ” اس نے اسے بنایا “۔ ہر عمارت قوت اور باہم سہارا لے کر قیام کی مظہرہوتی ہے۔ آسمانوں کا وسیع نظام بھی ایک عمارت کی طرح باہم بندھا ہوا ہے۔ اس کے ستارے اور سیارے ایک نظام میں بندھے ہوئے ہیں۔ کوئی چیز بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتی۔ نہ اپنے مدار سے نکلتی ہے ، نہ گرتی ہے اور ٹکراتی ہے۔ گویا یہ بالائی کائنات ایک وسیع عمارت ہے ، جس کے تمام اعضاء باہم متماسک ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جو لوگ قیامت کے منکر تھے ان سے خطاب کر کے فرمایا کہ تم اپنی دوبارہ تخلیق کو مشکل سمجھ رہے ہو یہ بتاؤ کہ تمہاری تخلیق زیادہ مشکل ہے یا آسمان کی تخلیق، ذرا سی سمجھ والا آدمی بھی یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ بظاہر آسمان کی تخلیق زیادہ مشکل ہے (یعنی انسان سوچے تو یہ ہی سمجھ میں آئے گا حالانکہ قادر مطلق کے لیے ہر معمولی اور بڑی سے بڑی چیز پیدا کرنا مشکل نہیں) جب اللہ تعالیٰ نے آسمان جیسی چیز کو پیدا فرما دیا تو تمہارا پیدا کرنا کیا مشکل ہے ؟ اس کے بعد آسمان کی بلندی کا اور رات و دن کا تذکرہ فرمایا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ ” ءانتم اشد “ یہ دعوائے سورت یعنی حشر و نشر پر عقلی دلیل ہے خطاب منکرین اہل مکہ سے ہے ” سمک “ کے معنی اونچائی اور بلندی کے ہیں۔ قیامت کے دن مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کو ناممکن بتانے والو یہ تو بتاؤ کہ تمہیں دوبارہ پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا زمین و آسمان اور ساری کائنات کو پیدا کرنا ؟ اللہ نے آسمان کو پیدا فرمایا اس کو ایک خاص مقدار میں زمین سے بلند کیا اور اس کو برابر اور ہموار بنایا کہ اس میں کہیں کوئی شگاف اور نشیب و فراز نہیں۔ ” واغطش لیلہا “ اور اس کی رات کو ڈھانپ دیا یعنی رات کو اندھیرے میں چھپا دیا اور اس کے دن کو روشن اور ظاہر فرما دیا۔ ” لیلہا “ اور ” ضحہا “ کی ” السماء “ کی طرف اضافت ادنی ملابطست کی وجہ سے ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(27) بھلا تمہارا بنانا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کا اللہ تعالیٰ نے اس آسمان کو بنایا۔