Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 10

سورة الأنفال

وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشۡرٰی وَ لِتَطۡمَئِنَّ بِہٖ قُلُوۡبُکُمۡ ۚ وَ مَا النَّصۡرُ اِلَّا مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ ﴿٪۱۰﴾  15

And Allah made it not but good tidings and so that your hearts would be assured thereby. And victory is not but from Allah . Indeed, Allah is Exalted in Might and Wise.

اور اللہ تعالٰی نے یہ امداد محض اس لئے کی کہ بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو قرار ہو جائے اور مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے جو کہ زبردست حکمت والا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا جَعَلَهُ اللّهُ إِلاَّ بُشْرَى ... Allah made it only as glad tidings. .. Allah made sending down the angels and informing you of this fact as glad tidings, ... وَلِتَطْمَيِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ ... and that your hearts be at rest therewith. Surely, Allah is able to give you (O Muslims) victory over your enemies, and victory only comes from Him, without need to send the angels, ... وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ ... And there is no victory except from Allah. Allah said in another Ayah, فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّواْ الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَلِكَ وَلَوْ يَشَأءُ اللَّهُ لاَنْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قُتِلُواْ فِى سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَـلَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بَالَهُمْ وَيُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ عَرَّفَهَا لَهُمْ So, when you meet (in fight in Allah's cause) those who disbelieve, smite (their) necks till when you have killed and wounded many of them, then bind a bond firmly (on them, take them as captives). Thereafter (is the time) either for generosity (free them without ransom), or ransom (according to what benefits Islam), until war lays down its burden. Thus, but if it had been Allah's will, He Himself could certainly have punished them (without you). But (He lets you fight) in order to test some of you with others. But those who are killed in the way of Allah, He will never let their deeds be lost. He will guide them and set right their state. And admit them to Paradise which He has made known to them. (47:4-6) and, إِن يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُهُ وَتِلْكَ الاٌّيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاءَ وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ الظَّـلِمِينَ وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَيَمْحَقَ الْكَـفِرِينَ And so are the days (good and not so good), that We give to men by turns, that Allah may test those who believe, and that He may take martyrs from among you. And Allah likes not the wrongdoers. And that Allah may test (or purify) the believers (from sins) and destroy the disbelievers. (3:140-141) These are points of wisdom for which Allah has legislated performing Jihad, by the hands of the believers against the disbelievers. Allah used to destroy the previous nations that denied the Prophets, using various disasters that encompassed these rebellious nations. For instance, Allah destroyed the people of Nuh with the flood, `Ad with the wind, Thamud with the scream, the people of Lut with an earthquake and the people of Shu`ayb by the Day of the Shadow. After Allah sent Musa and destroyed his enemy Fir`awn and his soldiers by drowning, He sent down the Tawrah to him in which He legislated fighting against the disbelievers, and this legislation remained in the successive Laws. Allah said, وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى الْكِتَـبَ مِن بَعْدِ مَأ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الاٍّولَى بَصَأيِرَ And indeed We gave Musa -- after We had destroyed the generations of old -- the Scripture as an enlightenment. (28:43) It is more humiliating for the disbeliever and more comforting to the hearts of the faithful that the believers kill the disbelievers by their own hands. Allah said to the believers of this Ummah, قَـتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّوْمِنِينَ Fight against them so that Allah will punish them by your hands, and disgrace them, and give you victory over them, and heal the breasts of a believing people. (9:14) This is why killing the disbelievers of Quraysh by the hand of their enemies, whom they used to despise, was more humiliating to the disbelievers and comforting to the hearts of the party of faith. Abu Jahl, for instance, was killed in battle and this was more humiliating for him than dying in his bed, or from lightening, wind, or similar afflictions. Also, Abu Lahab died from a terrible disease (that caused him to stink) and none of his relatives could bear approaching him. They had to wash him with water by sprinkling it from a distance, then threw stones over his corpse, until it was buried under them! Allah said next, ... إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ ... Verily, Allah is All-Mighty, the might is His, His Messengers and the believers, both in this life and the Hereafter. Allah said in another Ayah, إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الاٌّشْهَـدُ We will indeed make victorious Our Messengers and those who believe, in this world's life and on the Day when the witnesses will stand forth (Day of Resurrection). (40:51) Allah said next, ... حَكِيمٌ All-Wise. in that He legislated fighting the disbeliever, even though He is able to destroy them and bring their demise by His will and power, all praise and honor is due to Him.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 یعنی فرشتوں کا نزول تو صرف خوشخبری اور تمہارے دلوں کے اطمینان کے لئے تھا ورنہ اصل مدد تو اللہ کی طرف سے تھی جو فرشتوں کے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا تھا تاہم اس سے یہ سمجھنا بھی صحیح نہیں کہ فرشتوں نے عملاً جنگ میں حصہ نہیں لیا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں فرشتوں نے عملی حصہ لیا اور کئی کافروں کو انہوں نے تہ تیغ کیا (صحیح بخاری) ۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] فرشتوں کی اطلاع ثابت قدم رکھنے کے لئے :۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو فرشتوں کے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا اور تمہیں کامیابی سے ہمکنار کرسکتا تھا، اور اگر فرشتے بھیج کر مدد کی تو بھی اسی کی مدد تھی۔ تمہیں پہلے مطلع کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ تم کہیں اپنے سے تین گنا کافروں کا مسلح لشکر دیکھ کر حوصلہ نہ چھوڑ بیٹھو، یہ اطلاع فقط تمہارا حوصلہ بڑھانے اور تمہیں ثابت قدم رکھنے کی وجہ سے دی گئی تھی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰي : آیت کے ان الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ فرشتوں نے خود لڑنے میں کوئی حصہ نہیں لیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مسلمانوں کی مدد کے لیے محض اس لیے بھیجا تھا کہ ان کے حوصلے بلند ہوں اور انھیں اطمینان رہے کہ ان کی مدد کے لیے فرشتے موجود ہیں، لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔ صحیح مسلم میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس دوران میں کہ ایک مسلمان مشرکین میں سے ایک آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اس نے کوڑا مارنے کی ضرب کی آواز سنی اور ایک سوار کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا حیزوم ! آگے بڑھو۔ اس نے اس مشرک کو دیکھا کہ وہ چت گرگیا ہے، دیکھا تو اس کی ناک پر نشان تھا، چہرہ پھٹ گیا تھا، جس طرح کوڑا مارنے سے ہوتا ہے اور وہ ساری جگہ سبز ہوگئی تھی۔ وہ انصاری آیا اور اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات بیان کی، تو آپ نے فرمایا : ” تم نے سچ کہا، یہ تیسرے آسمان کی مدد میں سے تھا۔ “ [ مسلم، الجھاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر۔۔ : ١٧٦٣ ] بدر کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جنگوں میں فرشتوں کے ساتھ مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ میں نے بہت سے قابل اعتماد لوگوں سے سنا کہ متحدہ ہندوستان میں حافظ عبداللہ روپڑی (رض) کے حکم پر مسلمانوں نے عید الاضحی کے دن گائیں ذبح کیں، تو ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملہ کردیا، مسلمانوں نے تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مقابلہ کیا تو کفار کثیر تعداد میں قتل ہوئے اور بھاگ گئے۔ جب مقدمہ چلا تو جنگ میں شریک مسلمان اور کافر پیش ہوئے، کفار کو شناخت کے لیے کہا گیا تو انھوں نے کہا، ہم سے تو وہ لوگ لڑے ہیں جو سفید لباس میں ملبوس گھوڑوں پر سوار تھے، حالانکہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس حالت میں نہ تھا۔ کشمیر میں کفار کے خلاف کار روائیوں کے دوران بھی فرشتوں کی مدد کے کئی واقعات پیش آئے ہیں جو مجلہ الدعوۃ اور غزوہ کے مختلف شماروں میں شائع ہوئے ہیں۔ شاعر نے سچ کہا ہے ؂ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی وَمَا النَّصْرُ اِلَّامِنْ عِنْدِ اللّٰهِ : یعنی یہ نہ سمجھو کہ تمہیں جو فتح نصیب ہوئی ہے وہ ان فرشتوں کی وجہ سے ہوئی ہے، بلکہ حقیقت میں مدد اللہ کی طرف سے ہے، وہ چاہتا تو فرشتوں کے بغیر ہی تمہیں فتح عطا کردیتا، مگر جہاد کو دین کا حصہ بنانے سے تمہارے ایمان کا امتحان، تمہارے ہاتھوں کافروں کو ذلیل اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت سے سرفراز کرنا مقصود ہے۔ پہلی امتوں میں سے جو امت اپنے پیغمبر کو جھٹلاتی اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نہ کسی طرح کا عذاب نازل ہوجاتا، پانی میں غرق کرنا، خوف ناک چیخ، زلزلہ، پتھروں کی بارش اور شکلیں مسخ کردینا وغیرہ۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے غرق ہونے سے لے کر فرعون کے غرق ہونے تک یہی سلسلہ قائم رہا۔ آخر کار جب موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی تو جہاد شروع ہوا اور اس کے بعد یہی طریقہ جاری ہے، اب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کو عذاب دینا چاہتا ہے، فرمایا : (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ ) [ التوبۃ : ١٤، ١٥ ] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے چھ فائدے بیان فرمائے ہیں، تفصیل کے لیے سورة توبہ میں ان آیات کی تفسیر دیکھیے۔ اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بھی آسمان سے عذاب کے بعض واقعات پیش آئے، جیسے اصحاب الفیل کا واقعہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی کے مطابق آپ کی امت میں شراب، زنا، ریشم اور باجوں گاجوں کو حلال کرلینے والوں پر زمین میں دھنس جانے اور بندر اور خنزیر بنا دیے جانے کے عذاب آئیں گے۔ [ بخاری، الأشربۃ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر۔۔ : ٥٥٩٠، عن أبی مالک الأشعری ] مگر وہ عبرت کے لیے ہوں گے اور جزوی، یعنی کہیں کہیں ہوں گے۔ کفار کو کفر سے روکنے اور ان کی سرکشی ختم کرکے انھیں اسلام کے زیر نگیں لانے کی ذمہ داری اب جہاد کے ذریعے سے مسلمانوں ہی پر ہے، جس میں یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شامل ہوگی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The fourth verse (10) restates this aspect explicitly by saying: وَمَا جَعَلَهُ اللَّـهُ إِلَّا بُشْرَ‌ىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ. It means: &Allah has done it only to give you glad tidings and so that your hearts might be at rest thereby.& The number of angels sent to support Muslims in the battle of Badr has been given as one thousand at this place, while in Surah &Al-` Imran (3:124) the number mentioned is three thousand and five thousand. The reason for this lies in three different promises made under different circumstances. The first promise was that of one thousand angels, the reason for which was the prayer of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and the supporting plaint of common Muslims with him. The second promise of three thousand angels which appears first in Surah &Al-` Imran was made at a time when Muslims heard about the addi¬tional forces coming to join the Quraysh army. It has been reported in Ruh al-Ma&ani as based on a narration of Al-Sha&bi from Ibn Abi Shaybah, Ibn al-Mundhir and others that on the day of the battle of Badr when Muslims heard that Kurz ibn Jabir Muharibi was coming with additional armed support for the disbelievers, they were disturbed and agitated. Thereupon, the verse of &Al-` Imran: أَلَن يَكْفِيَكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَ‌بُّكُم بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُنزَلِينَ : |"Shall it not suffice you that your Lord should help you with three thousand of the angels sent down (for you)?|" - 3:124) was revealed and referred to wherein is the promise of sending a force of three thousand angels from the heavens in order to support believers. As for the third promise of five thousand, it was made subject to the condition that should the enemy launch a sudden offensive, a supporting force of five thousand angels will be sent down. That promise appears in the verse which follows verse 124 of Surah &Al-` Imran (3) cited immediately above. Given here are the words in which it has been mentioned: بَلَىٰ ۚ إِن تَصْبِرُ‌وا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُم مِّن فَوْرِ‌هِمْ هَـٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَ‌بُّكُم بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ ﴿١٢٥﴾ |"Why not? If you stay patient and fear Allah and they come upon you even in this heat of theirs, your Lord will reinforce you with five thousand of the angels having distinct marks|" (3:125). Some Commentators have said that this promise had three condi¬tions: (1) Fortitude, (2) Taqwa or fear of Allah and (3) Sudden and all-out attack by the opposing forces. Out of these, the first two conditions were already fulfilled by the noble Companions (رض) for no departure from these was witnessed in this battlefield from the beginning to the end. But, what did not take place was the third condition of a sudden attack. Therefore, things did not reach the point where the army of five thousand angels was to be inducted. So, this matter remained revolving between one and three thousand which also lends to the probability that the figure of three thousand may mean the one thousand sent earlier to which an additional force of two thousand was added and made to be three thousand - and it is also probable that these three thousand were in addition to the first one thousand. At this stage, it is also interesting to note that the promise of sending three groups of angels in these three verses (8:9; 3:124; 3:125) mentions a quality particular to each group. In the present verse, verse 9 of Surah Al-Anfal, where the promise is for one thousand, the word used to describe the quality of these angels is مُرْ‌دِفِينَ (murdifin: translated here as &one following the other& ). Perhaps, the indication already given within the text is that there are others too coming behind these angels. Then, in the first verse of Surah &Al-` Imran (3:124) quoted above, the quality of the angels has been given as: مُنزَلِينَ (munzalin : translated as &sent down [ for you ] & ). The sense is that these angels will be made to descend from the heavens. In this, there is a hint towards the special arrangement made in this connection - that the angels already present on the earth will not be employed for this mission, instead of which, it will be by special appointment and dispatch that these angels will be sent down from the heavens to fulfill the assignment they have been sent to carry out. After that, we have the second verse (3:125) of Surah &Al-` Imran where the figure of five thousand has been mentioned. There, the quality of the angels has been stated to be: مُسَوِّمِينَ (musawwimin: translated as &having distinct marks& ) that is, they shall be appearing in a particular dress and distinctive signs and marks. This is corroborated by Hadith narrations which report that the headgear of angels that descended during the battle of Badr was white and that of the angels who were sent down to help believers in the battle of Hunayn was red. Finally, towards the end of the verse (10), it was said: وَمَا النَّصْرُ‌ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (And the help is from none but Allah. Surely, Allah is Mighty, Wise). Here, Muslims have been warned that all help, whatever and from wherever it may be, open or secret, is from Allah Ta` ala alone and issues forth through His power and control only. The help and support of angels is also subject to nothing but His command. Therefore, all believers must look up to none but the most pristine Being of Allah who is One and with Whom there is no partner or asso¬ciate - because, He is the possessor of Power and Wisdom at its greatest.

چوتھی آیت میں بھی یہی مضمون ارشاد فرمایا (آیت) وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ صرف اس لئے کیا کہ تمہیں بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں۔ غزوہ بدر میں جو اللہ تعالیٰ کے فرشتے امداد کے لئے بیھجے گئے ان کی تعداد اس جگہ ایک ہزار مذکور ہے اور سورة آل عمران میں تین ہزار اور پانچ ہزار ذکر کی گئی ہے۔ اس کا سبب دراصل تین مخلتف وعدے ہیں جو مختلف حالات میں کئے گئے ہیں۔ پہلا وعدہ ایک ہزار فرشتوں کا ہوا جس کا سبب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا اور عام مسلمانوں کی فریاد تھی۔ دوسرا وعدہ جو تین ہزار فرشتوں کا سورة آل عمران میں پہلے مذکور ہے وہ اس وقت کیا گیا جب مسلمانوں کو یہ خبر ملی کہ قریشی لشکر کے لئے اور کمک آرہی ہے۔ روح المعانی میں ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر وغیرہ سے بروایت شعبی منقول ہے کہ مسمانوں کو بدر کے دن یہ خبر پہنچی کہ کرز بن جابر محاربی مشرکین کی امداد کے لئے کمک لے کر آرہا ہے۔ اس خبر سے مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ اس پر آل عمران کی (آیت) اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُنْزَلِيْنَ ، نازل ہوئی جس میں تین ہزار فرشتے امداد کے لئے آسمان سے نازل کرنے کا وعدہ ذکر کیا گیا۔ اور تیسرا وعدہ پانچ ہزار کا اس شرط کے ساتھ مشروط تھا کہ اگر فریق مخالف نے یکبارگی حملہ کردیا تو پانچ ہزار فرشتوں کی مدد بھیج دی جائے گی وہ آل عمران کی آیت مذکورہ کے بعد کی آیت میں اس طرح مذکور ہے (آیت) بَلٰٓى ۙاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُسَوِّمِيْنَ ، یعنی اگر تم ثابت قدم رہے اور تقوی پر قائم رہے اور مقابل لشکر یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑا تو تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزرا فرشتوں سے کرے گا جو خاص نشان یعنی خاص وردی میں ہوگے۔ بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس وعدہ میں تین شرطیں تھیں ایک ثابت قدمی دوسرے تقوی تیسرے مخالف فریق کا یکبارگی حملہ۔ پہلی دو شرطیں تو صحابہ کرام میں موجود تھیں اور اس میدان میں اول سے آخر تک ان میں کہیں فرق نہیں آیا مگر تیسری شرط یکبارگی ہلہ کی واقع نہیں ہوئی اس لئے پانچ ہزار ملائکہ کے لشکر کی نوبت نہیں آئی۔ اس لئے معاملہ ایک ہزار اور تین ہزار میں دائر رہا۔ جس میں یہ بھی احتمال ہے کہ تین ہزار سے مراد یہ ہو کہ ایک ہزار جو پہلے بھیجے گئے ان کے ساتھ مزید دو ہزار شامل کرکے تین ہزار کردیئے گئے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ تین ہزار اس پہلے ہزار کے علاوہ ہوں۔ یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ ان تین آیتوں میں ملائکہ کی تین جماعتوں کے بھیجنے کا وعدہ ہے اور ہر جماعت کے ساتھ ایک خاص صفت کا ذکر ہے۔ سورة انفال کی آیت جس میں ایک ہزار کا وعدہ ہے اس میں تو ان ملائکہ کی صفت میں مُرْدِفِيْنَ فرمایا ہے جس کے معنی ہیں پیچھے لگانے والے اس میں شاید اس طرف پہلے ہی اشارہ کردیا گیا کہ ان فرشتوں کے پیچھے دوسرے بھی آنے والے ہیں۔ اور سورة آل عمران کی پہلی آیت میں ملائکہ کی صفت مُنْزَلِيْنَ ارشاد فرمائی۔ یعنی یہ فرشتے آسمان سے اتارے جائیں گے اس میں اشارہ خاص اہمیت کی طرف ہے کہ زمین میں جو فرشتے پہلے سے موجود ہیں ان سے کام لینے کے بجائے خاص اہتمام کے ساتھ یہ فرشتے آسمان سے اسی کام کے لئے بھیجے جائیں گے اور آل عمران کی دوسری آیت جس میں پانچ ہزار کا ذکر ہے اس میں ملائکہ کی صفت مُسَوِّمِيْنَ ارشاد فرمائی ہے کہ وہ ایک خاص لباس اور علامت کے ساتھ ہوں گے۔ جیسا کہ روایات حدیث میں ہے کہ بدر میں نازل ہونے والے فرشتوں کے عمامے سفید اور غزوہ حنین میں مدد کے لئے آنے والے فرشتوں کے عمامے سرخ تھے۔ آخرت آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَمَا النَّصْرُ اِلَّامِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ، اس میں مسلمانوں کو تنبیہ فرمادی کہ جو مدد بھی کہیں سے ملتی ہے خواہ ظاہری صورت سے ہو یا مخفی انداز سے سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اسی کے قبضہ میں ہے فرشتوں کی مدد بھی اسی کے تابع فرمان ہے اس لئے تمہاری نظر صرف اسی ذات وحدہ لا شریک لہ کی طرف رہنی چاہئے کیونکہ وہ قدرت والا حکمت والا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِہٖ قُلُوْبُكُمْ۝ ٠ ۚ وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ۝ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۝ ١٠ ۧ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ بشر واستبشر : إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] . ( ب ش ر ) البشر التبشیر کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : { إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ } ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر/ 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ { فَبَشِّرْ عِبَادِ } ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ { فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ } ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران/ 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران/ 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر/ 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس/ 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔ لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان/ 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔ وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود/ 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف/ 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال/ 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا طمن الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال/ 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر/ 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد/ 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] ( ط م ن ) الطمانینۃ والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال/ 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر/ 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد/ 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة/ 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر لحكمة» أي : قضية صادقة لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر/ 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود/ 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٠) اور یہ امداد محض اس حکمت سے تھی کہ تمہیں خطبہ سے بشارت ہو اور واقعہ فرشتوں کی ایہ امداد اس ذات کی طرف سے تھی جو اپنے دشمنوں کو سزا دینے میں زبردست ہے اور حکمت والا ہے کہ ان کے لیے قتل اور شکست کا فیصلہ کیا اور تمہارے لیے غنیمت اور مدد کا فیصلہ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ (وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ الاَّ بُشْرٰی وَلِتَطْمَءِنَّ بِہٖ قُلُوْبُکُمْ ط) (وَمَا النَّصْرُ الاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ) اللہ تعالیٰ تو کُنْ فَیَکُوْن کی شان کے ساتھ جو چاہے کر دے۔ وہ فرشتوں کو بھیجے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا تھا ‘ لیکن انسانی ذہن کا چونکہ سوچنے کا اپنا ایک انداز ہے ‘ اس لیے اس نے تمہارے دلوں کی تسکین اور تسلی کے لیے نہ صرف ایک ہزار فرشتے بھیجے بلکہ تمہیں ان کی آمد کی اطلاع بھی دے دی کہ خاطر جمع رکھو ‘ ہم تمہاری مدد کے لیے فرشتے بھیج رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ کے وعدے کے مطابق میدان بدر میں فرشتے اترے ضرور ہیں لیکن انہوں نے عملی طور پر لڑائی میں حصہ نہیں لیا۔ عملی طور پر جنگ کفار کے ایک ہزار اور مسلمانوں کے تین سو تیرہ افراد کے درمیان ہوئی اور قوت ایمانی سے سرشار مسلمان اس بےجگری اور بےخوفی سے لڑے کہ ایک ہزار پر غالب آگئے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4:: یعنی اﷲ تعالیٰ کو مددکرنے کے لئے فرشتے بھیجنے کی حقیقت میں ضرورت نہیں تھی، نہ فرشتوں میں کوئی ذاتی طاقت ہے کہ وہ مدد کرسکیں، مدد تو اﷲ تعالیٰ براہ راست بھی کرسکتا تھا، لیکن یہ اِنسان کی فطرت ہے کہ جس چیز کے اسباب سامنے ہوں، اس پر اسے زیادہ اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے یہ وعدہ کیا گیا تھا۔ اس آیت نے یہ سبق دیا ہے کہ کسی کام کے جو اسباب بھی اختیار کئے جائیں، ایک مؤمن کو یہ بات ہر آن سامنے رکھنی چاہئے کہ یہ اسباب اﷲ تعالیٰ ہی کے پیدا کئے ہوئے ہیں، اور ان میں تأثیر اسی کے حکم سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا بھروسہ اسباب پر نہیں، بلکہ اسی کے فضل وکرم پر کرنا چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٠۔ بدر کی لڑائی میں مسلمان بہت تھوڑے تھے اور کافر بہت تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی اس طرح کی مدد کی اور کئی طرح کے اسباب دل جمعی کے ان کے لئے مہیا کئے آسمان سے اول ایک ہزار پھر تین ہزار پھر پانچ ہزار تک فرشتے ان کی مدد کو بھیجے کافروں نے پہلے سے بدر پر پہنچ کر وہاں کے پانی پر قبضہ کرلیا تھا اور شیطان نے مسلمانوں کی پیاس اور نہانے اور وضو سے تنگ پا کر ان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا تھا کہ اگر یہ دین حق ہوتا اور تم سچے ہوتے تو کیا تم کو ایسی مصیبت میں ڈالتا کہ پانی تک کو ترس رہے ہو شیطان کا یہ وسوسہ دفع کرنے کے لئے فورا اللہ تعالیٰ نے مینہ برسایا اور جگہ جگہ گڑھوں میں مسلمانوں کی ضرورت کے موافق پانی جمع ہوگیا ایک طرح کی تھکان رات بھر کے جاگنے سے جو مسلمانوں پر چھا گئی تھی دشمن کے مقابلہ سے پہلے ان کو ایک طرح کی اونگھ میں کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کی وہ تھکان رفع کردی ان کے دشمنوں کے دل میں رعب اور ان کے دل میں دلیری پیدا کردی مقابلہ کے وقت ان کی نظروں میں دشمنوں کی تعداد کم کردی ان سب اسباب کے بعد اس آیت میں فرمایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے تمہارا دل خوش کرنے اور تمہاری راحت کے لئے کردیا ہے ان اسباب پر فتح منحصر نہیں فتح اللہ تعالیٰ کی مرضی پر ہے جب وہ چاہتا ہے فتح جب ہی ہوتی ہے حاصل یہ ہے کہ اس عالم اسباب میں سبب تو ہر ایک چیز کا اللہ نے لگایا ہے مگر اسی سبب میں وہ تاثیر پیدا نہ کرے تو کچھ نہیں ہوتا یہی روزمرہ کی تاثیر کی دوائیں جب آدمی کا آخری وقت آجاتا ہے اور اللہ کی مرضی ان دواؤں کی اثر کی نہیں ہوتی تو ساری دوائیں بالکل بےاثر ہوجاتی ہیں غرض آدمی کو چاہئے کہ اسباب ظاہری پر تکیہ کر کے اللہ کا بھروس ہو کتاب کے جنت میں جانے کا ذکر ہے اور یہ بھی ہے کہ جن کا یہ ذکر ہے وہ ہر باب میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والے ہونگے۔ آیت میں اللہ پر بھروسہ کرنے کا جو ذکر ہے اس بھروسہ کے اجر کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے۔ بعضے صوفیہ نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ظاہری اسباب کو بالکل چھوڑ دیا جاوے جیسے مثلا شیر سامنے آجاوے تو اللہ پر بھروسہ کر کے اپنی طرف سے اس شیر سے بچنے کی کچھ کوشش نہ کی جاوے لیکن جمہور علماء نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنے کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ آدمی دل سے ہر باب میں اللہ پر بھروسہ کرے اور ہاتھ پاؤں سے ظاہری اسباب کو کام میں لاوے جس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر اسباب کو کام میں لاکر آدمی دل میں یہ اعتقاد رکھے کہ ان ظاہری اسباب میں اللہ تعالیٰ کچھ تاثیر پیدا کرے گا تو ہوگی ورنہ مستقل طور پر ان ظاہری اسباب کو نہ تقدیر الہی میں کچھ دخل ہے نہ اصلی طور پر ان پر بھروسہ کرنے کے حکم سے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنیکا وہی مطلب صحیح قرار پاتا ہے جو جمہور علماء نے بیان کیا ہے۔ اس سورة کی آیتوں کے سوا اور بھی بہت سی آیتیں اور صحیح حدیثیں ایسی ہیں جن سے جمہور علماء کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ ان اللہ عزیز حکیم کا یہ مطلب ہے کہ ظاہری اسباب میں تاثیر کا پیدا کرنا اور نہ کرنا یہ سب اس کی قدرت اور حکمت کے کار خانے ہیں بدر کی لڑائی میں قدرت اور حکمت کے ایک کار خانہ کا ظہور تھا اور احد کی لڑائی میں باوجود زیادہ ہونے اسباب ظاہری کے قدرت اور حکمت کے دوسرے کار خانہ کا ظہور ہوا :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:10) وما جعلہ۔ میں ما نافیہ ہے اور ہ ضمیر قول کریم انی ممدکم کی طرف راجع ہے ای امداد من اللہ۔ بعض کے نزدیک اس کا مرجع نزول المئکۃ ہے جو امداد کی عملی صورت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 آیت کے الفا ظ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ فرشتوں نے خود لڑنے میں کوئی محض اس لیے بھیجا ہے تھا کہ ان کے حوصلے بلند ہوں اور انہیں اطمینان رہے کہ انکی مدد کے لیے فرشتے موجود ہیں لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث سے صراحتہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے لڑائی میں بھی حصہ لیا۔ اگرچہ غزوہ بد رکے علاوہ کسی دوسری جنگ میں انہوں نے لڑکر حصہ نہیں لیا) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہی کہ جنگ بد کے موقع پر ایک انصاری مسلمان کسی کافر کا پیچھا کر رہا تھا کہ اچانک اس نے اوپر سے ایک کوڑے کی آواز سنی اور ایک گھڑ سوارنے اپنے گھوڑے کو پکارا حیزوم ! آگے بڑھو۔ اس نے اپنے سامنے کافر کو دیکھا کہ وہ لڑکھڑا کر گرا اور گرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، اس انصاری نے اس واقعہ کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تذکرہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے سچ کہا یہ تیسرے اسمان کی مدد تھی۔ ( ابن کثیر، بحوالہ صحیح مسلم ) 5 یعنی یہ سمجھو کہ تمہیں جو فتح نصیب ہوئی ان فرشتوں کی وجیہ سے ہوئی حقیقت میں مدد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ چاہتا تو فرشتوں کے بغیر ہی تمہیں فتح نصیب کردیتا مگر جہا کی مشر وعیت سے تمہارے ایمان کا امتحان مقصود ہے شہادت سے تمہارے در جے بلند اور کافروں کا تمہارے ہاتھ سے ذلیل کرنا ہے۔ امم سابقہ میں جو امت تکذیب کرتی اس پر کی طرح کا عذاب نازل ہوجاتا، حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر فرعون کے غرق ہونے تک یہی سلسلہ قائم رہا آخر کار جب جو موسیٰ ( علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی تو جہاد شروع ہو اور اس کے بعد یہی طریقہ جاری ہے۔ ، ( ابن کثیر) جس رات کی صبح کی لڑائی ( جنگ بدر) ہونے والی تھی صحابہ (رض) کرام خونب سوئے حال ن کہ دشمن کی فکر لگی ہوئی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے نیند بھیج دی تاکہ تازہ دم ہوجائیں اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں بدر کر لڑائی میں مقداد بن (رض) بن اسود کے سو کوئی سوار نہ تھا تمام صحابہ (رض) رات کو سئے پڑے رہے بجز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درخت کے نیچے نماز پڑ تھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور آہ و رازی کرتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ ( ابو یعلی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مسلمان اللہ کے دربار میں زاری کر رہے تھے تو اللہ نے ان کو جواب دیا کہ میں ایک ہزار فرشتوں کی امداد تمہارے لیے بھیج رہا ہوں جو لگاتار نازل ہوتے رہیں گے۔ اس اعلان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ بہت عظیم تھا ، اور اللہ کے نزدیک اقامت دین کی بہت اہمیت تھی ، لیکن اللہ تعالیٰ یہاں اس بات کی وضاحت بار بار فرماتے ہیں کہ دنیا میں اسباب کی اس قدر اہمیت نہیں کہ ان سے تخلف ممکن نہ ہو۔ اصل اختیار اللہ کی مشیت کا ہوتا ہے۔ لہذا اسباب کے معاملے میں مومن کو اپنا ذہن صاف رکھنا چاہیے۔ اللہ کی جانب سے مدد کی قبولیت اور پھر اس کی اطلاع محض ایک خوشخبری تھی جس کے ذریعے مومنین کو اطمینان دلانا مقصود تھا۔ رہی نصرت تو وہ اللہ کی جانب سے تھی۔ یہ ہے وہ حقیقت جو یہاں قرآن مومنین کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہے تاکہ وہ کلی تکیہ اسباب پر نہ کریں۔ مسلمانوں کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنی پوری قوت کو اس معرکے میں جھونک دیں اور کچھ بھی باقی نہ رکھیں۔ ابتدائی طور پر بعض لوگوں کے اندر جو تزلزل پیدا ہوگیا تھا اس پر قابو پا لیں۔ کیونکہ اس وقت وہ واقعی اور حقیقی خطرے سے دوچار تھے۔ وہ اللہ کا حکم بجا لاتے ہوئے اگے بڑھیں اور اللہ کی نصرت پر یقین رکھیں۔ بس یہی ان کے لیے کافی تھا تاکہ وہ اپنے حصے کا کردار اچھی طرح ادا کرلی۔ آگے پھر قدرت الہیہ کا کام آتا ہے اور قدرت الہی اپنے معاملات کی تدبیر خود کرتی ہے۔ اس کے علاوہ جو اقدامات ہوئے اور اطلاعات دی گئیں وہ محض مسلمانوں کے اطمینان کے لیے ہیں۔ ان کے قدموں کو ثابت کرنے کے لیے تھیں کیونکہ وہ ایک حقیقی خطرے سے دوچار تھے۔ جماعت مسلمہ کے لیے یہ بات کافی تھی کہ اسے یہ اطمینان ہو کہ اللہ کے لشکر اس کے ساتھ ہیں اور یہ کہ نصرت ان کے لیے مقدر ہے۔ کیونک نصر اللہ کی جانب سے ہوتی ہے اور اللہ ان کے ساتھ ہے ، وہ عزیز ہے اور وہی غالب ہے ، وہی حکیم ہے اور وہ ہر بات کو اپنے حقیقی مقام پر رکھتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

(وَ مَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ) (اور مدد صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے) وہ جس کی چاہے مدد فرمائے اور جیسے چاہے مدد فرمائے (اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ غلبہ والا ہے اور حکمت والا ہے) وہ بغیر فرشتوں کے بھی غلبہ دے سکتا ہے لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ فرشتوں کو بھیجا جائے۔ کسی قوم کو فتح ونصرت اور غلبہ دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کو کسی سبب کی ضرورت نہیں۔ لیکن وہ اپنی حکمت کے مطابق اسباب پیدا فرما دیتا ہے اور پھر اسباب کے ذریعہ جو نفع پہنچانا مقصود ہو وہ نفع پہنچا دیتا ہے۔ جو فرشتے آئے تھے انہوں نے تھوڑا بہت قتال بھی کیا جس کا بعض احادیث میں ذکر ہے لیکن پوری طرح قتال میں حصہ نہیں لیا۔ ان کا اصل کام اہل ایمان کو جمانا اور ثابت قدم رکھنا تھا جیسا کہ آئندہ آیت میں (فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) میں ذکر آ رہا ہے اس سے یہ اشکال بھی رفع ہوگیا کہ ہزار آدمیوں کے لیے ایک فرشتہ بھی کافی تھا۔ ہزاروں فرشتوں کی کیا ضرورت تھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10: فرشتوں کا اتارنا محض فتح و ظفر کی خوشخبری اور ظاہری سبب سازی کے طور پر تھا تاکہ مسلمانوں کے دل مطمئن رہیں اور دشمن کی کثرت اور اس کے سامان جنگ کی وجہ سے ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائے۔ باقی رہی فتح و نصرت تو وہ اللہ کے ہاتھ میں اور اسی کی طرف سے ہے۔ فرشتوں اور دیگر اسباب پر منحصر نہیں کامیاب وہی ہوتا ہے جس کی اللہ مدد کرے خواہ وہ ظاہری اسباب میں پست ہی کیوں نہ ہو۔ “ المعنی لا تحسبوا النصر من الملائکة علیھم السلام فان الناصر ھو اللہ تعالیٰ لکم والملائکة وعلیه فلا دخل للمالئکة فی النصر اصلاً ” (روح ج 9 ص 174) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

10 اور یہ فرشتوں کی مدد جو اللہ تعالیٰ نے فرمائی وہ محض تمہارے خوش کرنے کے لئے فرمائی اور اس لئے بھی فرمائی کہ تمہارے دل اس بشارت اور خوش خبری سے مطمئن ہوجائیں اور تمہارے دلوں کو چین ہو ورنہ حقیقت میں تو مدد اور نصرت و کامرانی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے ہوا کرتی ہے بلاشبہ ! اللہ تعالیٰ کمال قوت اور کمال علم و حکمت کا مالک ہے۔ یعنی جب تک حضرت حق کی امداد شامل حال نہ ہو اس وقت تک کچھ نہیں ہوسکتا۔