Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 11

سورة الأنفال

اِذۡ یُغَشِّیۡکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنۡہُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَہِّرَکُمۡ بِہٖ وَ یُذۡہِبَ عَنۡکُمۡ رِجۡزَ الشَّیۡطٰنِ وَ لِیَرۡبِطَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ وَ یُثَبِّتَ بِہِ الۡاَقۡدَامَ ﴿ؕ۱۱﴾

[Remember] when He overwhelmed you with drowsiness [giving] security from Him and sent down upon you from the sky, rain by which to purify you and remove from you the evil [suggestions] of Satan and to make steadfast your hearts and plant firmly thereby your feet.

اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لئے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا کہ اس پانی کے ذریعے سے تم کو پاک کردے اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کردے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہارے پاؤں جمادے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Slumber overcomes Muslims Allah said, إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ ... (Remember) when He covered you with a slumber as a security from Him, Allah reminds the believers of the slumber that He sent down on them as security from the fear they suffered from, because of the multitude of their enemy and the sparseness of their forces. They were given the same favor during the battle of Uhud, which Allah described, ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُمْ مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاساً يَغْشَى طَأيِفَةً مِّنْكُمْ وَطَأيِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ Then after the distress, He sent down security for you. Slumber overtook a party of you, while another party was thinking about themselves. (3:154) Abu Talhah said, "I was among those who were overcome by slumber during (the battle of) Uhud. The sword fell from my hand several times, and I kept picking it up again, several times. I also saw the Companions' heads nodding while in the rear guard." Al-Hafiz Abu Ya`la narrated that Ali said, "Only Al-Miqdad had a horse during Badr, and at some point, I found that all of us fell asleep, except the Messenger of Allah. He was praying under a tree and crying until dawn." Abdullah bin Mas`ud said, "Slumber during battle is security from Allah, but during prayer, it is from Shaytan." Qatadah said, "Slumber affects the head, while sleep affects the heart." Slumber overcame the believers on the day of Uhud, and this incident is very well-known. As for this Ayah (8:11), it is describing the battle of Badr, indicating that slumber also overcame the believers during Badr. Therefore, it appears that this will occur for the believers, whenever they are in distress, so that their hearts feel safe and sure of Allah's aid, rewards, favor and mercy from Allah with them. Allah said in other Ayat, فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً Verily, along with every hardship is relief. Verily, along with every hardship is relief. (94:5-6) In the Sahih, it is recorded that; on the day of Badr, while he was in the bunker with Abu Bakr, the Messenger and Abu Bakr were invoking Allah. Suddenly, slumber overcame the Messenger and he woke up smiling and declared, أَبْشِرْ يَا أَبَابَكْرٍ هَذَا جِبْرِيلُ عَلَى ثَنَايَاهُ النَّقْع "Good news, O Abu Bakr! This is Jibril with dust on his shoulders." He left the shade while reciting Allah's statement, سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ Their multitude will be put to flight, and they will show their backs. (54:45) Rain falls on the Eve of Badr Allah said next, ... وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّن السَّمَاء مَاء ... and He caused rain to descend on you from the sky.) Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas said, "When the Prophet arrived at Badr, he made camp. At the time, there was a sandy piece of land between the idolators and the water (the wells at Badr). Muslims felt weak and the Shaytan cast frustration into their hearts. He whispered to them, `You claim that you are Allah's supporters and that His Messenger is among you! However, the idolators have taken over the water resource from you, while you pray needing purity.' Allah sent down heavy rain, allowing the Muslims to drink and use it for purity. Allah also removed Shaytan's whisper and made the sand firm when rain fell on it, and the Muslims walked on the sand along with their animals, until they reached the enemy. Allah supported His Prophet and the believers with a thousand angels on one side, five hundred under the command of Jibril and another five hundred under the command of Mikhail on another side." An even a better narration is that collected by Imam Muhammad bin Ishaq bin Yasar, author of Al-Maghazi, may Allah have mercy upon him. Ibn Ishaq narrated that, Yazid bin Ruwman narrated to him that, Urwah bin Az-Zubayr said, "Allah sent rain down from the sky on a sandy valley. That rain made the area where the Messenger of Allah and his Companions camped firmer so that it did not hinder their movement. Meanwhile, the part that the Quraysh were camping on became difficult to move in." Mujahid said, "Allah sent down the rain on the believers before slumber overtook them, and the rain settled the dust, made the ground firmer, made them feel at ease and their feet firmer." Allah said next, ... لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ ... to clean you thereby, using it after answering the call of nature or needing to wash oneself, and this involves cleansing what is on the out side, ... وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ ... and to remove from you the Rijz of Shaytan, such as his whispers and evil thoughts, this involves sinner purification, whereas Allah's statement about the residents of Paradise, عَالِيَهُمْ ثِيَابُ سُندُسٍ خُضْرٌ وَإِسْتَبْرَقٌ وَحُلُّوا أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٍ (Their garments will be of fine green silk, and gold embroidery. They will be adorned with bracelets of silver), involves outer appearance, وَسَقَاهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا (and their Lord will give them a pure drink), (76:21) that purifies the anger, envy and hatred that they might have felt. This is the inner purity. Next, Allah said, ... وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ ... and to strengthen your hearts, with patience and to encourage you to fight the enemies, and this is inner courage, ... وَيُثَبِّتَ بِهِ الاَقْدَامَ and make your feet firm thereby. this involves outer courage. Allah know best. Allah commands the Angels to fight and support the Believers Allah said next,

تائید الٰہی کے بعد فتح و کامرانی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے احسانات بیان فرماتا ہے کہ اس جنگ بدر میں جبکہ اپنی کمی اور کافروں کی زیادتی ، اپنی بےسرو سامانی اور کافروں کے پر شوکت سروسامان دیکھ کر مسلمانوں کے دل پر برا اثر پڑ رہا تھا پروردگار نے ان کے دلوں کے اطمینان کیلئے ان پر اونگھ ڈال دی جنگ احد میں بھی یہی حال ہوا تھا جیسے فرمان ہے آیت ( ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَاۗىِٕفَةً مِّنْكُمْ ۙ وَطَاۗىِٕفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ يَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۭ يَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْءٍ ۭ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ ۭ يُخْفُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِھِمْ مَّا لَا يُبْدُوْنَ لَكَ ۭ يَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰهُنَا ۭقُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ ۚ وَلِيَبْتَلِيَ اللّٰهُ مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ١٥٤؁ ) 3-آل عمران:154 ) ، یعنی پورے غم و رنج کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں امن دیا جو اونگھ کی صورت میں تمہیں ڈھانکے ہوئے تھا ایک جماعت اسی میں مشغول تھی ۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد والے دن اونگھ غالب آ گئی تھی اس وقت میں نیند میں جھوم رہا تھا میری تلوار میرے ہاتھ سے گر پڑتی تھی اور میں اٹھاتا تھا میں نے جب نظر ڈالی تو دیکھا کہ لوگ ڈھالیں سروں پر رکھے ہوئے نیند کے جھولے لے رہے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ بدر والے دن ہمارے پورے لشکر میں گھوڑ سوار صرف ایک ہی حضرت مقداد تھے میں نے نگاہ بھر کر دیکھا کہ سارا لشکر نیند میں مست ہے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے آپ ایک درخت تلے نماز میں مشغول تھے روتے جاتے تھے اور نماز پڑھتے جاتے تھے صبح تک آپ اسی طرح مناجات میں مشغول رہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی للہ عنہ فرماتے ہیں کہ میدان جنگ میں اونگھ کا آنا اللہ کی طرف سے امن کا ملنا ہے اور نماز میں اونگھ کا آنا شیطانی حرکت ہے ، اونگھ صرف آنکھوں میں ہی ہوتی ہے اور نیند کا تعلق دل سے ہے ۔ یہ یاد رہے کہ اونگھ آنے کا مشہور واقعہ تو جنگ احد کا ہے لیکن اس آیت میں جو بدر کے واقعہ کے قصے کے بیان میں اونگھ کا اترنا موجود ہے پس سخت لڑائی کے وقت یہ واقعہ ہوا اور مومنوں کے دل اللہ کے عطا کردہ امن سے مطمئن ہوگئے یہ بھی مومنوں پر اللہ کا فضل و کرم اور اس کا لطف و رحم تھا سچ ہے سختی کے بعد آسانی ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت صدیق اکبر کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھپر تلے دعا میں مشغول تھے جو حضور اونگھنے لگے ۔ تھوڑی دیر میں جاگے اور تبسم فرما کر حضرت صدیق اکبر سے فرمایا خوش ہو یہ ہیں جبرائیل علیہ السلام گرد آلود پھر آیت قرآنی ( سیھزم الجمع ویولون الدبر ) پڑھتے ہوئے جھونپڑی کے دروازے سے باہر تشریف لائے ۔ یعنی ابھی ابھی یہ لشکر شکست کھائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا ۔ دوسرا احسان اس جنگ کے موقعہ پر یہ ہوا کہ بارش برس گئی ابن عباس فرماتے ہیں کہ مشرکوں نے میدان بدر کے پانی پر قبضہ کر لیا تھا مسلمانوں کے اور پانی کے درمیان وہ حائل ہوگئے تھے مسلمان کمزوری کی حالت میں تھے شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالنا شروع کیا کہ تم تو اپنے تئیں اللہ والے سمجھتے ہو اور اللہ کے رسول کو اپنے میں موجود مانتے ہو اور حالت یہ ہے کہ پانی تک تمہارے قبضہ میں نہیں مشرکین کے ہاتھ میں پانی ہے تم نماز بھی جنبی ہونے کی حالت میں پڑھ رہے ہو ایسے وقت آسمان سے مینہ برسنا شروع ہوا اور پانی کی ریل پیل ہو گئی ۔ مسلمانوں نے پانی پیا بھی ، پلایا بھی ، نہا دھو کر پاکی بھی حاصل کر لی اور پانی بھر بھی لیا اور شیطانی وسوسہ بھی زائل ہو گیا اور جو چکنی مٹی پانی کے راستے میں تھی دھل کر وہاں کی سخت زمین نکل آئی اور ریت جم گئی کہ اس پر آمد ورفت آسان ہو گئی اور فرشتوں کی امداد آسمان سے آ گئی پانچ سو فرشتے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ما تحتی میں اور پانچ سو حضرت میکائیل کی ما تحتی میں ۔ مشہور یہ ہے کہ آپ جب بدر کی طرف تشریف لے چلے تو سب سے پہلے جو پانی تھا وہاں ٹھہرے حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا کہ اگر آپ کو اللہ کا حکم یہاں پڑاؤ کرنے کا ہوا تب تو خیر اور اگر جنگی مصلحت کے ساتھ پڑاؤ یہاں کیا ہو تو آپ اور آگے چلئے آخری پانی پر قبضہ کیجئے وہیں حوض بنا کر یہاں کے سب پانی وہاں جمع کرلیں تو پانی پر ہمارا قبضہ رہے گا اور دشمن پانی بغیر رہ جائے گا اور آپ نے یہی کیا بھی ۔ مغازی اموی میں ہے کہ اس رائے کے بعد جبرائیل کی موجودگی میں ایک فرشتے نے آ کر آپ کو سلام پہنچایا اور اللہ کا حکم بھی کہ یہی رائے ٹھیک ہے ۔ آپ نے اس وقت حضرت جبرائیل سے پوچھا کہ آپ انہیں جانتے ہیں؟ حضرت جبرائیل نے فرمایا میں آسمان کے تمام فرشتوں سے واقف نہیں ہوں ہاں ہیں یہ فرشتے شیطان نہیں ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ مشرکین ڈھلوان کی طرف تھے اور مسلمان اونچائی کی طرف تھے بارش ہونے سے مسلمانوں کی طرف تو زمین دھل کر صاف ہو گئی اور پانی سے انہیں نفع پہنچا لیکن مشرکین کی طرف پانی کھڑا ہو گیا ۔ کیچڑ اور پھسلن ہو گئی کہ انہیں چلنا پھرنا دو بھر ہو گیا بارش اس سے پہلے ہوئی تھی غبار جم گیا تھا زمین سخت ہوگئی تھی دلوں میں خوشی پیدا ہوگئی تھی ثابت قدمی میسر ہو چکی تھی اب اونگھ آنے لگی اور مسلمان تازہ دم ہوگئے ۔ صبح لڑائی ہونے والی ہے رات کو ہلکی سی بارش ہو گئی ہم درختوں تلے جاچھپے حضور مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلاتے رہے ۔ یہ اس لئے کہ اللہ تمہیں پاک کر دے وضو بھی کر لو اور غسل بھی اس ظاہری پاکی کے ساتھ ہی باطنی پاکیزگی بھی حاصل ہوئی شیطانی وسوسے بھی دور ہوگئے دل مطمئن ہوگئے جیسے کہ جنتیوں کے بارے میں فرمان ہے کہ آیت ( عالیھم ثیاب سندس خضر الخ ) ، ان کے بدن پر نہیں اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنکھن پہنائے جائیں گے اور انہیں ان کا رب پاک اور پاک کرنے والا شربت پلائے گا پس لباس اور زیور تو ظاہری زینت کی چیز ہوئی اور پاک کرنے والا پانی جس سے دلوں کی پاکیزگی اور حسد و بغض کی دوری ہو جائے ۔ یہ تھی باطنی زینت ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس سے مقصود دلوں کی مضبوطی بھی تھی کہ صبرو برداشت پیدا ہو شجاعت و بہادری ہو دل بڑھ جائے ثابت قدمی ظاہر ہو جائے اور حملے میں استقامت پیدا ہو جائے واللہ اعلم ۔ پھر اپنی ایک باطنی نعمت کا اظہار فرما رہا ہے تاکہ مسلمان اس پر بھی اللہ کا شکر بجا لائیں کہ اللہ تعالیٰ تبارک و تقدس و تمجد نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم جاؤ مسلمانوں کی مدد و نصرت کرو ، ان کے ساتھ مل کر ہمارے دشمنوں کو نیچا دکھاؤ ۔ ان کی گنتی گھٹاؤ اور ہمارے دوستوں کی تعداد بڑھاؤ ۔ کہا گیا ہے کہ فرشتہ کسی مسلمان کے پاس آتا اور کہتا کہ مشرکوں میں عجیب بد دلی پھیلی ہوئی ہے ۔ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے حملہ کر دیا تو ہمارے قدم نہیں ٹک سکتے ہم تو بھاگ کھڑے ہوں گے ۔ اب ہر ایک دوسرے سے کہتا دوسرا تیسرے سے پھر صحابہ کے دل بڑھ جاتے اور سمجھ لیتے کہ مشرکوں میں طاقت و قوت نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم اے فرشتوں اس کام میں لگو ادھر میں مشرکوں کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دوں گا میں ان کے دلوں میں ذلت اور حقارت ڈال دوں گا میرے حکم کے نہ ماننے والوں کا میرے رسول کے منکروں کا یہی حال ہوتا ہے ۔ پھر تم ان کے سروں پر وار لگا کر دماغ نکال دو ، گردنوں پر تلوار مار کے سر اور دھڑ میں جدائی کردو ۔ ہاتھ پاؤں اور جوڑ جوڑ پور پور کو تاک تاک کر زخم لگاؤ ۔ پس گردنوں کے اوپر سے بعض کے نزدیک مراد تو سر ہیں اور بعض کے نزدیک خود گردن مراد ہے چنانچہ اور جگہ ہے آیت ( فضرب الرقاب ) گردنین مارو ۔ حضور فرماتے ہیں میں قدرتی عذابوں سے لوگوں کو ہلاک کرنے کیلئے نہیں بھیجا گیا بلکہ گردن مارنے اور قید کرنے کیلئے بھیجا گیا ہوں ۔ امام ابن جرید فرماتے ہیں کہ گردن پر اور سر پر وار کرنے کا استدلال اس سے ہو سکتا ہے ۔ مغازی اموی میں ہے کہ مقتولین بدر کے پاس سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گذرے تو ایک شعر کا ابتدائی ٹکڑا آپ نے پڑھ دیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پورا شعر پڑھ دیا ۔ آپ کو نہ شعر یاد تھے نہ آپ کے لائق ۔ اس شعر کا مطلب یہی ہے کہ جو لوگ ظالم اور باغی تھے اور آج تک غلبے اور شوکت سے تھے آج ان کے سر ٹوٹے ہوئے اور ان کے دماغ بکھرے ہوئے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جو مشرک لوگ فرشتوں کے ہاتھ قتل ہوئے تھے انہیں مسلمان اس طرح پہچان لیتے تھے کہ ان کی گردنوں کے اوپر اور ہاتھ پیروں کے جوڑ ایسے زخم زدہ تھے جیسے آگ سے جلے ہونے کے نشانات ۔ بنان جمع ہے بنانتہ کی ۔ عربی شعروں میں بنانہ کا استعمال موجود ہے پس ہر جوڑ اور ہر حصے کو بنان کہتے ہیں ۔ اوزاعی کہتے ہیں منہ پر آنکھ پر آگ کے کوڑے برساؤ ہاں جب انہیں گرفتار کر لو پھر نہ مارنا ۔ ابو جہل ملعون نے کہا تھا کہ جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو زندہ گرفتار کر لو تاکہ ہم انہیں اس بات کا مزہ زیادہ دیر تک چکھائیں کہ وہ ہمارے دین کو برا کہتے تھے ، ہمارے دین سے ہٹ گئے تھے ، لات و عزی کی پرستش چھوڑ بیٹھے ٹھے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور فرشتوں کو یہ حکم دیا ۔ چنانچہ جو ستر آدمی ان کافروں کے قتل ہوئے ان میں ایک یہ پاجی بھی تھا اور جو ستر آدمی قید ہوئے ان میں ایک عقبہ بن ابی معیط بھی تھا لعنہ اللہ تعالیٰ ، اس کو قید میں ہی قتل کیا گیا اور اس سمیت مقتولین مشرکین کی تعداد ستر ہی تھی ۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کا نتیجہ اور بدلہ یہ ہے ۔ شقاق ماخوذ ہے شق سے ۔ شق کہتے ہیں پھاڑنے چیرنے اور دو ٹکڑے کرنے کو ۔ پس ان لوگوں نے گویا شریعت ، ایمان اور فرماں برداری کو ایک طرف کیا اور دوسری جانب خود رہے ۔ لکڑی کے پھاڑنے کو بھی عرب یہی کہتے ہیں جبکہ لکڑی کے دو ٹکڑے کر دیں ۔ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف چل کر کوئی بچ نہیں سکا ۔ کون ہے جو اللہ سے چھپ جائے؟ اور اس کے بےپناہ اور سخت عذابوں سے بچ جائے؟ نہ کوئی اس کے مقابلے کا نہ کسی کو اس کے عذابوں کی طاقت نہ اس سے کوئی بچ نکلے ۔ نہ اس کا غضب کوئی سہہ سکے ۔ وہ بلند و بالا وہ غالب اور انتقام والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود اور رب نہیں ۔ وہ اپنی ذات میں ، اپنی صفتوں میں یکتا اور لا شریک ہے ۔ اے کافرو! دنیا کے یہ عذاب اٹھاؤ اور ابھی آخرت میں دوزخ کا عذاب باقی ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 جنگ احد کی طرح جنگ بدر میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اونگھ طاری کردی جس سے ان کے دلوں کے بوجھ ہلکے ہوگئے اور اطمینان و سکون کی ایک خاص کیفیت ان پر طاری ہوگئی۔ 11۔ 2 تیسرا انعام یہ کیا کہ بارش نازل فرمادی جس سے ایک تو ریتلی زمین میں نقل و حرکت آسان ہوگئی دوسرے وضو و طہارت میں آسانی ہوگئی، تیسرے اس سے شیطانی وسوسوں کا ازالہ فرما دیا جو اہل ایمان کے دلوں میں ڈال رہا تھا کہ تم اللہ کے نیک بندے ہوتے ہوئے بھی پانی سے دور ہو، دوسرے جنابت کی حالت میں تم لڑوگے تو کیسے اللہ کی رحمت و نصرت تمہیں حاصل ہوگی ؟ تیسرے تم پیاسے ہو، جب کہ تمہارے دشمن سیراب ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ 11۔ 3 یہ چوتھا انعام ہے جو دلوں اور قدموں کو مضبوط کرکے کیا گیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ : جنگ بدر میں فرشتوں کے ساتھ مدد کے علاوہ یہ دوسری مدد تھی۔ یہ اونگھ دو طرح سے آئی، ایک تو یہ کہ جس رات کی صبح کو لڑائی ہونے والی تھی صحابہ کرام (رض) خوب سوئے، حالانکہ دشمن کی فکر لگی ہوئی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند بھیج دی، تاکہ وہ تازہ دم ہوجائیں اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ علی (رض) فرماتے ہیں : ” بدر کے دن مقداد (رض) کے سوا اور کسی کے پاس گھوڑا نہیں تھا، میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر شخص سو رہا تھا مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) درخت کے نیچے نماز پڑھتے رہے اور رو رو کر دعائیں کرتے رہے، حتیٰ کہ صبح ہوگئی۔ “ [ أحمد : ١؍١٢٥، ح : ١٠٢٣، قال شعیب أرنؤوط إسنادہ صحیح ] اس نیند کے ساتھ مسلمان تازہ دم ہوگئے۔ دوسرا یہ کہ لڑائی سے پہلے میدان میں آنے پر تمام مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے اونگھ طاری کردی، حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی۔ حافظ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں : ” لڑائی کے دوران میں اونگھ طاری ہونے کا واقعہ جنگ احد میں بھی پیش آیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَاۗىِٕفَةً مِّنْكُمْ ) [ آل عمران : ١٥٤ ] ” پھر اس غم کے بعد اس نے تم پر ایک امن نازل فرمایا، جو ایک اونگھ تھی، جو تم میں سے کچھ لوگوں پر چھا رہی تھی۔ “ یہاں مذکور آیت : (ۧاِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ ) میں یہ معاملہ بدر کے دن پیش آیا، جس سے مسلمانوں کے دلوں سے دشمن کا خوف ختم ہوگیا اور امن و اطمینان کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ “ سبھی شرکاء پر ایک ہی وقت میں اونگھ طاری کرنا، جس سے وہ بےسدھ ہو کر سو بھی نہ جائیں، بلکہ دشمن کی حرکت پر فوراً متحرک ہوجائیں اور اس اونگھ کی برکت سے انھیں ہر قسم کے خطرے سے بےخوف کرکے امن عطا کرنا، یقیناً ایک عظیم معجزہ تھا۔ اہل علم فرماتے ہیں، لڑائی کے دوران میں اونگھ آنا اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتی ہے۔ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً : یہ بھی اسی رات کا واقعہ ہے کہ رات کو بارش ہوگئی، جس سے ایک تو ریت جم گئی اور زمین پر پاؤں اچھی طرح جمنے لگے، جس سے فائدہ اٹھا کر مسلمان آگے بڑھے، نقل و حرکت آسان ہوگئی، دوسرے پانی کی کمی دور ہوگئی اور وضو اور طہارت کے لیے آسانی ہوگئی، جب کہ کفار کے پڑاؤ کی جگہ نیچی تھی، وہاں بارش کی وجہ سے کیچڑ ہوگئی اور پاؤں پھسلنے لگے۔ تیسرے مسلمانوں کے دلوں سے شیطان کی گندگی، یعنی گھبراہٹ، خوف، اللہ تعالیٰ سے بدگمانی اور مایوسی کی کیفیت دور ہوگئی اور صبح ہوئی تو وہ لڑنے کے لیے چاق چوبند تھے۔ بدر کے موقع پر یہ تیسرا انعام تھا جس سے کفار پر فتح یاب ہونے میں بڑی مدد ملی۔ (ابن کثیر)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تعالیٰ تم پر اونگ طاری کر رہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لئے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا تاکہ اس پانی کے ذریعہ تم کو ( بےوضو یا بےغسل ہونے کی حالت سے) پاک کردے اور ( تاکہ اس کے ذریعہ) تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کردے اور ( تاکہ) تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور (تاکہ) تمہارے پاؤں جمادے ( یعنی تم ریگ میں نہ دھسو) اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب ( ان) فرشتوں کو ( جو امداد کے لئے نازل ہوئے تھے) حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں تو ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوں سو تم کفار کی گردنوں پر ( حربہ) مارو اور ان کے پور پور کو مارو۔ یہ اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ( اس کو سخت سزا دیتے ہیں ( خواہ دنیا میں کسی حکمت سے یا آخرت میں یا دونوں میں) سو ( بالفعل) یہ سزا چکھو اور جان رکھو کہ کافروں کے لئے جہنم کا عذاب مقرر ہی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنْہُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لِّيُطَہِّرَكُمْ بِہٖ وَيُذْہِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ وَلِيَرْبِطَ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ۝ ١١ ۭ غشي غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية/ 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ نعس النُّعَاسُ : النَّوْمُ القلیلُ. قال تعالی: إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعاسَ أَمَنَةً [ الأنفال/ 11] ، نُعاساً [ آل عمران/ 154] وقیل : النُّعَاسُ هاهنا عبارةٌ عن السُّكُونِ والهُدُوِّ ، وإشارةٌ إلى قول النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «طُوبَى لِكُلِّ عَبْدٍ نُوَمَةٍ» ( ن ع س ) النعاس کے معنی اونگھ یا ہلکی سی نیند کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعاسَ أَمَنَةً [ الأنفال/ 11] جب اس نے تمہیں نیند کی چادر اڑھادی ۔ نُعاساً [ آل عمران/ 154] تسلی ۔۔۔۔ یعنی نیند بعض نے کہا ہے کہ یہاں نعاس سے مراد سکون اور اطمینان ہے اور یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول مبارک کی طرف اشارہ ہے طوبیٰ لکل عبد نومۃ کہ ہر باسکون آدمی کے لئے خوش خبری ہے ۔ أمن أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال/ 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ } ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے طهر والطَّهَارَةُ ضربان : طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة/ 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة/ 222] ، ( ط ھ ر ) طھرت طہارت دو قسم پر ہے ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة/ 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة/ 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ رجز أصل الرِّجْزِ : الاضطراب، ومنه قيل : رَجَزَ البعیرُ رَجَزاً ، فهو أَرْجَزُ ، وناقة رَجْزَاءُ : إذا تقارب خطوها واضطرب لضعف فيها، وشبّه الرّجز به لتقارب أجزائه وتصوّر رِجْزٍ في اللسان عند إنشاده، ويقال لنحوه من الشّعر أُرْجُوزَةٌ وأَرَاجِيزُ ، ورَجَزَ فلان وارْتَجَزَ إذا عمل ذلك، أو أنشد، وهو رَاجِزٌ ورَجَّازٌ ورِجَّازَةٌ. وقوله : عَذابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ [ سبأ/ 5] ، فَالرِّجْزُ هاهنا کالزّلزلة، وقال تعالی: إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلى أَهْلِ هذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزاً مِنَ السَّماءِ [ العنکبوت/ 34] ، وقوله : وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] ، قيل : هو صنم، وقیل : هو كناية عن الذّنب، فسمّاه بالمآل کتسمية النّدى شحما . وقوله : وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّماءِ ماءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطانِ [ الأنفال/ 11] ، والشّيطان عبارة عن الشّهوة علی ما بيّن في بابه . وقیل : بل أراد برجز الشّيطان : ما يدعو إليه من الکفر والبهتان والفساد . والرِّجَازَةُ : کساء يجعل فيه أحجار فيعلّق علی أحد جانبي الهودج إذا مال وذلک لما يتصوّر فيه من حرکته، واضطرابه . ( ر ج ز ) الرجز اس کے اصل معنی اضطراب کے ہیں اور اسی سے رجز البعیر ہے جس کے معنی ضعف کے سبب چلتے وقت اونٹ کی ٹانگوں کے کپکپائی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے کے ہیں ایسے اونٹ کو ارجز اور ناقہ کو رجزاء کہا جاتا ہے اور شعر کے ایک بحر کا نام بھی رجز ہے جس میں شعر پڑھنے سے زبان میں اضطراب سا معلوم ہوتا ہے اور جو قصیدہ اس بحر میں کہا جائے اسے ارجوزۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع اراجیز آتی ہے اور رجز فلان وارتجز کے معنی بحر رجز پر شعر بنانے يا ارجوه پڑہنے کے ہیں اور رجز گو شاعر کو راجز ، رجاز اور رجازۃ کہا جاتا ہے ۔ اور آیت : ۔ عَذابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ [ سبأ/ 5]( ان کیلئے ) عذاب دردناک کی سزا ہے ۔ میں لفظ رجز زلزلہ کی طرح عذاب سے کنایہ ہے ۔ اور فرمایا : ۔ إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلى أَهْلِ هذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزاً مِنَ السَّماءِ [ العنکبوت/ 34] ہم ان پر ایک آسمانی آفت نازل کرنے والے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] اور نجاست سے الگ رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ رجز سے بت مراد ہیں ۔ بعض نے اس سے ہر وہ عمل مراد لیا ہے جس کا نتیجہ عذاب ہو اور گناہ کو بھی مآل کے لحاظ سے عذاب کہا جاسکتا ہے جیسے ندی بمعنی شحم آجاتا ہے اور آیت : ۔ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّماءِ ماءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطانِ [ الأنفال/ 11] اور آسمانوں سے تم پر پانی برسا رہا تھا تاکہ اس کے ذریعہ سے تم کو پاک کرے اور شیطانی گندگی کو تم سے دور کرے ۔ میں رجز الشیطان سے مراد خواہشات نفسانی ہیں جیسا کہ اس کے محل میں بیان کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے کفر بہتان طرازی فساد انگیزی وغیرہا گناہ مراد ہیں جن کی کہ شیطان ترغیب دیتا ہے ۔ رجازۃ وہ کمبل جس میں پتھر وغیرہ باندھ کر اونٹ کے ہودہ کا توازن قائم رکھنے کیلئے ایک طرف باندھ دیتے ہیں اس میں بھی حرکت و اضطراب کے معنی ملحوظ ہیں ۔ شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو رَبْطُ رَبْطُ الفرس : شدّه بالمکان للحفظ، ومنه : رِبَاطُ الخیل «3» ، وسمّي المکان الذي يخصّ بإقامة حفظة فيه : رباطا، والرِّبَاط مصدر رَبَطْتُ ورَابَطْتُ ، والمُرَابَطَة کالمحافظة، قال اللہ تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ [ الأنفال/ 60] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا[ آل عمران/ 200] ، فالمرابطة ضربان : مرابطة في ثغور المسلمین، وهي کمرابطة النّفس البدن، فإنها كمن أقيم في ثغر وفوّض إليه مراعاته، فيحتاج أن يراعيه غير مخلّ به، وذلک کالمجاهدة وقد قال عليه السلام : «من الرِّبَاطِ انتظار الصّلاة بعد الصّلاة» «1» ، وفلان رَابِطُ الجأش : إذا قوي قلبه، وقوله تعالی: وَرَبَطْنا عَلى قُلُوبِهِمْ [ الكهف/ 14] ، وقوله : لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص/ 10] ، وَلِيَرْبِطَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنفال/ 11] ، فذلک إشارة إلى نحو قوله : هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 4] ، وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ [ المجادلة/ 22] ، فإنّه لم تکن أفئدتهم كما قال : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] ، وبنحو هذا النّظر قيل : فلان رابط الجأش . ( ر ب ط ) ربط الفرس کے معنی گھوڑے کو کسی جگہ پر حفاظت کے لئے باندھ دینے کے ہیں اور اسی سے رباط الجیش ہے یعنی فوج کا کسی جگہ پر متعین کرنا اور وہ مقام جہاں حفاظتی دستے متعین رہتے ہوں اسے رباط کہا جاتا ہے ۔ اور ربطت ورابطت کا مصدر بھی رباط آتا ہے اور مرابطۃ کے معنی حفاظت کے ہیں ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ [ الأنفال/ 60] اور گھوڑوں کے سرحدوں پر باندھے رکھنے سے جس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو مرعوب کرو ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا[ آلعمران/ 200] ان تکلیفوں کو جو راہ خدا مین تم کو پیش آئیں ) برداشت کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی ترغیب دو اور دشمن کے مقابلے کے لئے تیار رہو ۔ پس معلوم ہوا کہ مرابطۃ کی دو قسمیں ہیں ایک یہ کہ اسلامی سرحدوں پر دفاع کے لئے پہرہ دینا اور دوسرے نفس کو ناجائز خواہشات سے روکنا اور اس میں کوتاہی نہ کرنا جیسے مجاہدہ نفس کی صورت میں ہوتا ہے اور اس مجاہدہ نفس کا ثواب بھی جہاد فی سبیل اللہ کے برا بر ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے «من الرِّبَاطِ انتظار الصّلاة بعد الصّلاة» کہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا بھی رباط ہے ۔ فلان رَابِطُ الجأش ۔ فلاں مضبوط دل ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص/ 10] اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کئے رہتے ( تو عجب نہ تھا کہ وہ ہمارا معاملہ ظاہر کردیں ) ۔ وَلِيَرْبِطَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنفال/ 11] تاکہ تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے ۔ اور اسی معنی کی طرف دوسرے مقام پر اشارہ فرمایا ہے ۔ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 4] وہ خدا ہی تو تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں میں تحمل ڈالا اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی تائید کی ۔ اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی تائید کی ۔ کیونکہ ان کے دل ایسے نہیں تھے جیسے فرمایا : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل ( ہیں کہ ) ہوا ہوئے چلے جارہے ہیں ۔ اور اسی سے فلان رابط الجأش کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی مضبوط دل شخص کے ہیں ۔ ثبت الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] ( ث ب ت ) الثبات یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال/ 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ قدم ( پاؤں) القَدَمُ : قَدَمُ الرّجل، وجمعه أَقْدَامٌ ، قال تعالی: وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال/ 11] ، وبه اعتبر التّقدم والتّأخّر، ( ق د م ) القدم انسان کا پاؤں جمع اقدام ۔ قرآن میں ہے : وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال/ 11] اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے ۔ اسی سے تقدم کا لفظ لیا گیا ہے جو کہ تاخر کی ضد ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

دوران جنگ نیند قول باری ہے اذیغشیکم العناس امنۃ منہ۔ اور وہ وقت جبکہ اللہ نے اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان اور بےخوفی کی کیفیت طاری کردی تھی جب کیل کانٹے سے مسلح دشمن کو اپنے بالمقابل صف آرا دیکھ کر عام حالات میں نیند اڑجاتی ہے خاص طور پر جبکہ دشمن ا ن سے کئی گناہ تھا۔ بارش کے ذریعہ مدد پھر فرمایا وینزل علیکم من السماء ماء لیطھرکم بہ۔ اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے) یعنی جنابت سے پاک کرے اس لئے کہ اسلامی لشکر میں کچھ افراد ایسے تھے جنہیں غسل جنابت کی ضرورت تھی۔ جنابت شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست ہے اس لئے کہ اس کے وسوسے کی بنا پر یہ صورت پیش آتی ہے۔ قول باری ہے ولیربط علی قلوبکم۔ اور تاکہ تمہاری ہمت بندھا دے) یعنی مسلمانوں کے دلوں میں جو سکون اور اطمینان پیدا ہوگیا تھا اور اللہ کے وعدے پر انہوں نے جس طرح بھروسا کرلیا تھا اس کی بنا پر ان کی ہمت بندھ گئی تھی۔ قول باری ہے ویثبتہ بہ الاقدام۔ اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے) قدم جمانے کی بات میں دو احتمال ہیں، ایک تو یہ کہ صحت بصیرت، امن و اطمینان اور اللہ کے وعدے پر بھروسہ یہ تمام باتیں قدم جمانے کا موجب بن گئیں۔ دوم یہ کہ مسلمانوں کا پڑائو جس جگہ تھا وہ ریتلی اور نرم جگہ تھی اس میں قدم دھنس جاتے تھے۔ جب بارش ہوئی تو ریت کی تہہ جم گئی جس کی بنا پر انکے قدم سطح زمین پر ٹکنے لگے۔ تفسیر میں اس بات کی روایت کی گئی ہے۔ قول باری اذیوحی ربک الی الملئکۃ معکم۔ اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ ” میں تمہارے ساتھ ہوں “۔ یعنی تمہاری مدد کروں گا فثبتوا الذین امنو۔ تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو) اس میں دو صورتوں کا احتمال ہے ایک تو فرشتوں کی طرف سے یہ بات مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دی گئی اور انہیں آگاہ کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب ا ن کی مدد کرے گا۔ یہ چیز مسلمانوں کے قدم جمنے اور کافروں کے قدم اکھڑنے کا سبب بن گئی اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو آگاہ کردیا تھا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب آپ کی اور مسلمانوں کی مدد کرے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس بات کی اطلاع مسلمانوں کو ثابت قدم رہنے کی دعوت اور پکار بن گئی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ تم پر اپنی جانب سے دشمن سے راحت دینے کے لیے اونگھ کو طاری کررہا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر بڑا احسان تھا اور اس ذات نے آسمان سے پانی برسایا تاکہ تمہیں چھوٹی ناپاکی اور بڑی ناپاکی سے پاک کر دے۔ اور تمہارے دلوں سے شیطانی وسوسہ کو دور کردے اور اس کے لیے تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور بارش سے ریت پر تمہارے پاؤں کو جمادے یا یہ کہ بارش سے ریت کو جمادے تاکہ پیر اس پر جمنے لگیں ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنْہُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَہِّرَکُمْ بِہٖ ) بدر کی رات تمام مسلمان بہت پر سکون نیند سوئے اور اسی رات غیر معمولی انداز میں بارش بھی ہوئی۔ مسلمانوں کی یہ پر سکون نیند اور بارش کا نزول گویا دو معجزے تھے ‘ جن کا ظہور مسلمانوں کی خاص مدد کے لیے عمل میں آیا۔ یہ معجزات اس انداز میں ظہور پذیر نہیں ہوئے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باقاعدہ ان کے بارے میں اعلان فرمایا ہو ‘ یا یہ کہ یہ بالکل خرق عادت واقعات ہوں ‘ بلکہ یہ معجزات اس انداز میں تھے کہ اس وقت ان دونوں واقعات سے مسلمانوں کو غیر معمولی طور پر مدد ملی ‘ اور اس لیے بھی کہ ایسی چیزیں محض اتفاقات سے ظہور پذیر نہیں ہوتیں۔ حقیقت میں غزوۂ بدر کا یہ معاملہ مسلمانوں کے لیے بہت سخت تھا ‘ جس کی وجہ سے ہر شخص کے لیے بظاہر فکرمندی ‘ تشویش اور اندیشہ ہائے دور دراز کی انتہا ہونی چاہیے تھی ‘ کہ کل جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس میں میں زندہ بھی بچ پاؤں گا یا نہیں ؟ مگر عملی طور پر یہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا۔ مسلمان رات کو آرام و سکون کی نیند سوئے اور صبح بالکل تازہ دم اور چاق و چوبند ہو کر اٹھے۔ اسی طرح اس رات جو بارش ہوئی وہ بھی مسلمانوں کے لیے اللہ کی تائید و نصرت ثابت ہوئی۔ اس بارش سے دوسرے فوائد کے علاوہ مسلمانوں کو ایک یہ سہو لت بھی میسر آگئی کہ جن لوگوں کو غسل کی حاجت تھی انہیں غسل کا موقع مل گیا۔ (وَیُذْہِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ ) ۔ اس بارش میں مسلمانوں کے لیے اطمینان قلوب کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ انہیں اس خشک صحرا کے اندر پانی کا وافر ذخیرہ مل گیا ‘ ورنہ لشکر قریش پہلے آکر پانی کے تالاب پر قبضہ کرچکا تھا اور مسلمان اس سے محروم ہوچکے تھے۔ بارش ہوئی تو نشیب کی بنا پر سارا پانی مسلمانوں کی طرف جمع ہوگیا ‘ جسے انہوں نے بند وغیرہ باندھ کر ذخیرہ کرلیا۔ بارش کی وجہ سے مٹی دب گئی ‘ ریت فرش کی طرح ہوگئی اور چلنے پھرنے میں سہولت ہوگئی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8. In the Battle of Uhud the Muslims passed through a similar experience (see Al'lmran 3: 154 above). On both occasions, when prevalent conditions should have produced intense fear and panic among them, God filled their hearts with such peace and tranquillity that they were overpowered with drowsiness. 9. This refers to the heavy downpour on the night preceding the Battle of Badr. It helped the Muslims in three ways. First, it provided them with an abundant water supply which they quickly stored in large reservoirs. Second, rain compacted the loose sand in the upper part of the valley where the Muslims had pitched their tents. This helped the Muslims plant their feet firmly and facilitated their movement. Third, where the Quray'sh army was stationed in the lower part of the valley, the ground turned marshy. The defilement caused by Satan which occurs in the verse refers to the fear and panic which initially, afflicted the Muslims.

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :8 یہی تجربہ مسلمانوں کو اُحد کی جنگ میں پیش آیا جیسا کہ سورہ آل عمران آیت ١۵٤ میں گزر چکا ہے ۔ اور دونوں مواقع پر وجہ وہی ایک تھی کہ جو موقع شدت خوف اور گھبراہٹ کا تھا اس وقت اللہ نے مسلمانوں کے دلوں کو ایسے اطمینان سے بھر دیا کہ ان پر غنودگی طاری ہونے لگی ۔ سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :9 یہ اس رات کا واقعہ ہے جس کی صبح کو بدر کی لڑائی پیش آئی ۔ اس بارش کے تین فائدے ہوئے ۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو پانی کا کافی مقدار مل گئی اور انہوں نے فوراً حوض بنا بنا کر بارش کا پانی روک لیا ۔ دوسرے یہ کہ مسلمان چونکہ وادی کے بالائی حصے پر تھے اس لیے بارش کی وجہ سے ریت جم گئی اور زمین اتنی مضبوط ہو گئی کہ قدم اچھی طرح جم سکیں اور نقل و حرکت بآسانی ہو سکے ۔ تیسرے یہ کہ لشکر کفار نشیب کی جانب تھا اس لیے وہاں اس بارش کی بدولت کیچڑ ہو گئی اور پاؤں دھنسنے لگے ۔ شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست سے مراد وہ ہراس اور گھبراہٹ کی کیفیت تھی جس میں مسلمان ابتداءً مبتلا تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

5: اتنے بڑے لشکر کے ساتھ تقریباً نہتے آدمیوں کا معرکہ پیش آنے والا ہو تو گھبراہٹ ایک طبعی امر ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس گھبراہٹ کا علاج یہ فرمایا کہ صحابہ پر نیند طاری کردی، جس کی ایک تأثیر یہ ہوتی ہے کہ اس سے گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے، چنانچہ وہ جنگ سے پہلی رات جی بھر کرسوئے جس سے تازہ دم ہوگئے۔ نیز جنگ کے دوران بھی ان پر وقفے وقفے سے اونگھ طاری ہوتی رہی، جس سے انہیں سکون ملتا رہا۔ 6: مسلمانوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کفار نے بدر کے میدان میں پہلے پہنچ کر بہترین جگہ پر قبضہ کرلیا تھا جہاں پانی کافی تھا، اور زمین بھی سخت تھی۔ مسلمانوں کو جگہ ملی وہ ریتیلی جگہ تھی جس پر پاؤں جمتے نہیں تھے، اور نقل وحرکت میں دشواری پیش آتی تھی، اور وہاں پانی بھی نہیں تھا، تھوڑا بہت پانی ایک حوض بناکر اس میں جمع کیا گیا تھا جو جلدی ہی ختم ہونے لگا۔ اﷲ تعالیٰ نے دونوں مسئلوں کے حل کے لئے بارش برسادی جس سے ریت بھی جم گئی اور قدم بھی جمنے لگے، اور پانی کا بھی اچھا ذخیرہ جمع ہوگیا۔ 7: گندگی سے یہاں مراد وسوسے ہیں جو ایسے مواقع پر جب اتنے بڑے دُشمن کا مقابلہ ہو، آیا ہی کرتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١١۔ اوپر کی آیت میں یہ بات گذر چکی ہے کہ بدر کی لڑائی میں مسلمان بہت ہی کم کچھ اوپر تین سو تھے اور دشمن ایک ہزار کے قریب تھے یہ کثرت دشمنوں کی دیکھ کر مسلمانوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ دیکھئے کیوں کر ان پر فتح نصیب ہوتی ہے اس پر یہ ہوا کہ رات کو مسلمانوں کو نہانے کی حاجت ہوگئی اور پانی پر کفار کا قبضہ ہوگیا تھا ریت کی زمین تھی خشکی کے سبب سے نہ انسان کے پاؤں جمتے تھے نہ جانور چل سکتے تھے صبح نماز وغیرہ فرائض ضروری ادا کرنے سے مجبور ہوئے جس کا ان کے دل پر بہت بڑا اثر ہوا اور سمجھے کہ یہ شکست کے آثار ہیں اللہ پاک نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے ایک ہزار فرشتے ان کی مدد کو بھیج دئے جیسا کہ اوپر کی آیت میں گذر چکا اس آیت میں یہ بیان ہے کہ اللہ پاک نے مسلمانوں پر اونگھ کا غلبہ کردیا جس اونگھ سے یہ لوگ بہت جلد چونک پڑے اور دل میں جو کچھ خوف تھا وہ سب جاتا رہا تھکان بھی سب رفع ہوگئی اور ایک اطمینان حاصل ہوگیا حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) اور عبداللہ بن عباس (رض) کا قول ہے کہ جنگ میں اونگھنا خداوند جل شانہ کی طرف سے امن ہے اور نماز میں اونگھنا شیطان کا وسوسہ ہے پھر اللہ پاک نے مینہ برسایا زمین سخت ہوگئی گردو غبار بیٹھ گیا لوگوں کی پیاس کبھی اپنے اپنے برتن پانی سے بھر لئے حوائج ضروری سے فارغ ہوئے وضو کیا غسل کیا پاک و طاہر ہوگئے اسی کو فرمایا کہ تمہارے رب نے تم سے شیطانی وسوسہ دور کردیا کیونکہ حاجت غسل کو بھی علماء شیطانی وسوسہ خیال کرتے ہیں بہر حال اللہ پاک نے جس طرح اونگھ بھیج کر ان کے دلوں کو وسوسوں سے پاک وصاف کیا اسی طرح مینہ برساکر ان کے جسموں کو بھی پاک کردیا پھر روحانی اور جسمانی شجاعت کی طرف ان کا خیال پھیرا کہ تم دل میں یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ کل امور شکست کے آثار ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ نے دفع کردیا اب تمہارے دل مطمئن ہوئے اور خاطر جمع ہوئی اور اب تمہارے قدم ریت کی زمین پر جمیں گے اور تمہارے جانور آسانی سے چلیں پھریں گے سورة آل عمران میں گذر چکا ہے کہ لشکر اسلام کو اونگھ احد کی لڑائی میں بھی عین لڑائی کے وقت آئی تھی لیکن وہ اونگھ لڑائی کے بگڑ جانے کا رنج وغم رفع کرنے کے لئے تھی اور بدر کی لڑائی میں لڑائی سے پہلے کی اونگھ میں اللہ تعالیٰ نے یہ اثر پیدا کردیا تھا کہ دشمنوں کی تعداد کے زیادہ ہونے سے مسلمانوں کے دل میں شکست کھانے کا جو اندیشہ تھا وہ اس اونگھ کے بعد جاتا رہا۔ صحیح بخاری وغیرہ میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ خیبر کی لڑائی میں مسلمانوں میں کے لشکر کا ایک شخص بڑی کوشش اور تندہی سے دشمنوں پر حملہ کر رہا تھا اس شخص کی یہ حالت دیکھ کر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے الہام الہی کے موافق یہ فرمایا کہ اس شخص کا انجام دوزخ ہے۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ظاہری اسباب سے اس شخص کا دوزخی ہونا بعضے صحابہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا لیکن آخر کو وہ شخص ایسا زخمی ہوا کہ زخموں کی تکلیف برداشت نہ کرسکا اور خود کشی کر کے مرگیا اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے کیونکہ آیت اور حدیث کے ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ انسان کی سمجھ کے موافق بعضے کاموں کے ظاہری اسباب کچھ اور طرح کے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے علم غیب کے موافق جس طرح ان کاموں کا کرنا منظور ہوتا ہے وہ غیب سے کوئی سبب ایسا پیدا کردیتا ہے کہ ظاہری اسباب کے برخلاف وہ کام انجام کو پہنچ جاتے ہیں مثلا جس طرح اس نے بدر کی لڑائی میں اونگھ اور مینہ کو مسلمانوں کو فتح کا اور خیبر کی لڑائی میں خود کشی کو اس شخص کے دوزخی ہونے کا غیبی سبب ٹھہرایا :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:11) یغشیکم۔ مضارع واحد مذکر غائب تغشیۃ بروزن تفعلۃ (باب تفعیل) سے مصدر ہے۔ جیسے تصدیۃ۔ تالیاں بجانا۔ (8:35) اور تصلیۃ (56:94) نماز پڑھنا۔ یا ایندھن کا آگ میں جلنا۔ یہاں باب تفعیل سے متعدی بدو مفعول آیا ہے مفعول اول کم اور مفعول ثانی النعاس اس نے غنودگی سے تم کو ڈھانپ دیا۔ وہ غنودگی سے تم کو ڈھانک رہا تھا۔ النعاس۔ اسم معرفہ۔ اونگھ (تھانوی) خفیف سی نیند (راغب) ۔ امنۃ۔ مفعول لہ۔ امن و چین سے۔ یا مصدر ہے۔ منہ۔ ای من اللہ۔ امنۃ کی صفت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوئی تھی۔ بہ میں ضمیر ہ کا مرجع ماء ہے۔ رجز۔ عقوبت۔ بلائ، عذاب۔ کپکپا اور لرزا دینے والا عذاب۔ پلیدی۔ وسوسہ شیطانی۔ شیطان کا مومنین کو پیاس سے ڈرانا۔ لیربط۔ تاکہ مضبوط کرے (تمہارے دلوں کو) ربط مصدر (باب ضرب) مضارع منصوب بوجہ لام تعلیل محد۔ بہ۔ ای بالماء یا ہ ضمیر ربط کے لئے بھی ہوسکتی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

صحیحین کی ایک روایت میں ہے کہ بدر کے دن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر غنودگی طاری ہوگئی پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے اور حضرت ابوبکر (رض) سے فرمایا ابوبکر (رض) خوش ہوجاؤ یہ جبر یل ( علیہ السلام) آئے ہیں ان کے دانتوں پر گرد پڑی ہوئی ہے۔ اس قسم کی غنودگی مسلمانوں پر جنگ احد کی موقع پر بھی طاری کی گئی، ( دیکھئے سورة آل عمران رکوع 19)7 یہ بھی اس راہ کا واقعہ ہے کہ رات کو بارش ہونے ریت جم گئی اور زمین اتنی سخت ہوگئی کہ اس پر پاؤں اچھی طرح جم سکتے تھے اس سے فائدہ اٹھاکر مسلمان آگے بڑھے اور پینے کے لے پانی کی بھی سہولت ہوگئی کفار کے پڑاؤ کو جگہ نشیبی تھی بارش کی وجہ سے کیچڑہو گئی اور پاؤں پھسلنے لگے مسلمانوں کے دلوں سے شیطان کی نجاست یعنی گھبراہٹ اور خوف کی کیفیت دو ہوگئی اور صبح ہوئی تو لڑنے کے لیے چاک و چوبند تھے بدر کے موقع پر یہ تیسرا انعام تھا جس سے کافروں پر فتحیاب ہونے میں بڑی مدد ملی ( ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١١ تا ١٩ اسرار و معارف مزید انعامات یہ کہ مقام بدر میں مشرکین نے ایسی جگہ قبضہ کرلیا جو اونچائی پر تھی اور نسبتا مضبوط زمین تھی اور مسلمانوں کو ایسی جگہ ٹھہرناپڑاجونشیبی تھی حضرت حباب بن منذر (رض) نے عرض کیا کہ یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ اگر یہ جگہ پر قبضہ کرلیا جائے چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا اور پھر حضرت سعدبن معا (رض) ذ کے مشورہ سے ایک طرف ذرابلند ی پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ایک چھونپڑی سی بنادی گئی جس میں صرف صدیق اکبر (رض) کو شرف حضوری حاصل تھا اور حضرت معاذ (رض) دروازہ پر بہرہ دے رہے تھے۔ یہ بدر کی پہلی شب تھی دونوں لشکروں کا دن اس طرح بسرہوارات کفاراونچی اور مضبوط زمین پر تھے اور مسلمان نشیبی زمین پر جس پر ریت بھری تھی اور پاؤں دھنس جاتے تھے کچھ لوگوں کو رات غسل کی ضرورت پیش آگئی تو اب اس قدروافرپانی بھی نہ تھا تو رب جلیل نے اپنی قدرکاملہ سے سب اہتمام فرمائے اول کہ ایک ایسی اونگھ سب پر بھیج دی جس سے اطمینان و سکون نصیب ہوا اور اس سے مراد وہ حالت ہے جو مقامات بالا سے ربط قائم ہونے پروار دہوتی ہے یہ بظاہرنیند ہوتی ہے لیکن نیند ہوتی ہے لیکن نیند نہیں ہوتی کہ آدمی کے ۔ اونگھ سے مرادحواس بیدارہوتے ہیں اور سب کچھ سمجھ رہا ہوتا ہے اسے جذب بھی کہہ دیا جاتا ہے ایسی حالت ہے جوا للہ کریم کی طرف مکمل توجہ سے نصیب ہوتی ہے ورنہ عام نیندتو کمزوری کا باعث ہے کسی فضیلت کا سبب نہین دوسری صورت یہ پیدافرمائی کہ رات بارش برسی جس سے کفار کے لشکر میں دلدل اور کیچڑبن گیا کہ وہاں مٹی ایسی تھی اور جہاں مسلمان تھے وہاں پانی کے سبب ریت ہموار ہو کر جم گئی تھی ان کا کام بھی آسان ہوگیا اور شیطانی نجاست یعنی احتلام سے پاک ہونے کا موقع نصیب ہوا۔ تیسراکرم ربطہ قلبی تھا جو سب کو نصیب ہوا۔ یہ لفظ سورة کہف میں بھی گذرا ہے اصطلاع صوفیہ میں رابطہ سے مرادوہ حالت ہے کہ دل میں ذکر الٰہی سے جو نورپیدا ہو وہ عرش عظیم تک رسائی حاصل کرلے اور جب کسی قلب کو توجہ نصیب ہوتی ہے اور اسے ذکر دوام کانورنصیب ہوتا ہے تو وہ نوراوپر ہی اوپر اٹھتا چلاتا ہے یہاں تک کہ قلب اللہ کہے تو روشنی عرش عظیم تک پہنچتی ہے یہ حال رابطہ کا کام دیتی ہے جو مضبوط ترین صورت ہے اور یہی اعلیٰ ترین صورت اصحاب بدر (رض) کو نصیب ہوئی اور یہ ایسی دولت تھی کہ اب اس کے بعد قدم اکھڑنے کا سوال ہی پیدانہ ہوتا تھا لہٰذا ارشاد فرمایا کہ یہ نعمت رابطہ تمہیں ثابت قدمی عطا کرنے کے لیے نازل فرمائی۔ اور اس کے ساتھ مزید انعام فرمایا کہ فرشتوں کو حکم دیا کہ میری تائید تمہیں نصیب ہے میں تمہارے ساتھ ہوں تم بھی مسلمانوں کے قلوب پر ایساتصرف کرو ایسے انورات القاکرو کہ وہ ثابت قدم رہیں اور میں اپنی پدرت کاملہ سے کفار کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا۔ تم ان کی گردنیں اڑادو اور ایسی ضرب لگاؤکہ ان کے پورپور سے درد اٹھے۔ عذاب الٰہی کی یہی خصوصیت ہے کہ جسم کے کسی حصے کو چھوجائے سارابدن متاثرہوتا ہے جیسے جہنم کی آگ کہ جسم کو چھوئے گی تو دل تک اس کا اثرپہنچے گا اور یہ عذاب اور شدت ان پر بلاوجہ نہیں انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اختیار کی ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اللہ کی مخالفت ہے اور اس کی سزابہت سخت ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کا راستہ اختیار کرتا ہے اسے یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ اللہ کے عذاب بھی بہت سخت ہیں اللہ کی بات انسان تک صرف رسول ہی کے وسیلہ سے پہنچتی ہے اور رسول وہ ہستی ہے جو اپنی پسند سے دین کے بارے کچھ نہیں فرماتا ہے وہ وحی ہوتی ہے لہٰذا اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اختیار کی تو یہ واضح طور پر اللہ ہی کی مخالفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی محالفت عذاب الہٰی کو دعوت دینا ہے اس میں دو درجے ہیں شدید ترین درجہ انکار اور کفر ہے اور کم تریہ کہ رسومات کو سنت کے مقابل رواج دیا جائے جسے بدعت کا نام دیا گیا ہے جو جس درجے کا ارتکاب کرے گا ویسے ہی عذاب کا اس کو سامنا ہوگا اور یہ مزہ تو دنیا میں چکھ لو یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت نقدسزا بھی دلواتی ہے اور پھر دائمی عذاب بھی گلے پڑیگا کہ یہ تو نقدتوقتل ذلت شکست رسوائی اور بربادی ہی اور مرنے کے بعد تمہاراکفر تمہیں آگ کے عذاب میں داخل کرنے کا باعث ہوگا۔ یہاں سے خطاب اطاعت شعاروں کو فرماتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے کہ اے ایمان والوکفار سے سرمیدان مقابلہ کرنا پڑے تو کبھی پیٹھ نہ دکھاؤکہ مومن کو شکست ہوتی نہیں شہید نہیں ہوگیا تو بھی مراد پا گیا اور یا پھر فاتح ہوگا اور مراد پالے گا ہاں جنگی داؤپیچ لگانے کے لیے ادھر ادھر بھاگناجی سے دشمن کے سامنے سے بھاگنا شروع کرکے اسے کسی گھات میں لے آئے یامزید کمک حاصل کرنے کے لیے واپس پلٹنا کہ دنیا عالم اسباب ہے اور ترک سبب درست نہیں مثلا کفار کا لشکر زیادہ تعداد میں ہے اور مسلمان واپس پلٹنا کہ دنیا عالم اسباب ہے اور ترک سبب درست نہیں مثلا کفار کا لشکر زیادہ تعداد میں ہے اور مسلمان واپس جاکرمزید کمک حاصل کرسکتے ہیں تو ایسے میں حرج نہیں ورنہ اگر محض جان بچانے کو بھاگا تو اس نے غضب الٰہی کو دعوت دی اور ایسے لوگوں کاٹھکانہ تو جہنم ہے جو بہت تکلیف وہ جگہ ہے یعنی اس کا یہ عمل دعوی ایمان کی نفی کرتا ہے اور وہ اسی عذاب کا مستحق ہے جو کفار کے لیے ہے اسی لیے میدان جہاد سے بھاگنا حرام ہے۔ فنائے تام چونکہ کمال ایمان تو حضوری اور فنائے تام کا نام ہے جس کا اعلی ترین درجہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور صحابہ کرام (رض) کو حاصل تھا کہ میدان جہاد میں تم لوگوں نے کفار کو تھوٹاہی قتل کیا ہے وہ تو اللہ نے انہیں قتل کیا یعنی فعل باری تھا صادرتمہارے ہاتھوں سے ہوا اور یہی فنائے تام ہے کہ نہ صرف قلب بلکہ اعضاء وجوارح مرضیات باری پہ فدا ہوجائیں جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد ہے کہ میں بندے کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے پکڑتا ہوں ۔ پاؤں بن جاتا ہوں جن سے چلتا ہے وغیرہ ۔ اور یہی کمال بدرجہ اتم آپ کو حاصل تھا کہ جب آپ نے ریت پھینکی تو آپ نے نہیں پھینکی وہ تو اللہ جل شانہ نے پھینکی سبحان اللہ ذراملاخطہ ہو جب آپ نے ریت پھینکی تو آپ نے ریت نہیں پھینکی وہ تو اللہ کریم نے پھینکی یعنی یہاں بھی فعل اسی ذات کا تھا صادروست نبوت سے ہوا آپ نے پہلے خبر کردی تھی کہ اللہ نے فتح کی بشارت دی ہے بلکہ آپ نے مختلف کفار کے قتل ہونے کی جگہ کی نشاندھی فرمادی تھی اور پھر وہ لوگ انہی جگہوں پر قتل ہوئے ، اور جب کفار کا لشکر طبل جنگ بجاتا ہوا متکبر انہ انداز میں آگے بڑھا تو آپ نے تین بارمٹھی مٹھی بھر ریت پھینکی ایک قلب لشکر پر اور ایک ایک میمنہ اور میسرہ پر تو کوئی ایسا لشکر ی نہ تھا جسکے منہ پر کنکریاں نہ لگی ہوں اور آنکھوں میں ریت نہ پہنچی ہو۔ گویا تقاضائے ایمان فنائے تام ہے یہ کمال ہے اور کم تردرجہ یہ ہے کہ اللہ کے ارشادات سن کر ان پر اعتمادتو ہو اگر یہ بھی نصیب نہیں اور اعمال میں سب کچھ اپنی ہی رائے سے کرتا ہے جیسے میدان جنگ سے فرار کہ محض اپنے حیلے کو موت سے بچنے کا سبب سمجھاتویہ ایمان کے نہ ہونے کی دلیل ہے یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہم آج بھی اپنا حلیہ دیکھ سکتے ہیں بہرحال فرمایا یہ احسان کہ قلب کو رابطہ سے نوازا آسمانوں سے پانی برسایا مددکوفرشتے نازل فرمائے اور پھر فنائے تام کے مرتبہ پہ فائز کیا اس لیے کہ مومنین کو حسن و خوبی سے اور انعامات سے بھی آزمایاجائے مکی زندگی کا امتحان شدائدکا تھا یہاں سے انعامات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور یہ مخلوق پر اتمام حجت اور اظہار کے لیے ہوتا ہے ورنہ اللہ کریم تو سننے والے بھی ہیں اور بغیرآزمائے بھی سب ہوگیا اور یہ مخلوق پر اتمام حجت اور اظہارکا مقصد کفار کا غرور توڑنا اور ان کی تجاویز کو ناکام بنانا بھی تھا اب ان سے فرمادیجیے کہ اگر یہی مقابلہ معیارحق تھا تو فیصلہ ہوچکا کہ ان بدبختوں نے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوتے وقت بیت اللہ شریف کے یردوں کو تھا م کر دعا کی تھی کہ اللہ اعلیٰ و افضل کو اور جو حق پر ہے اس کو فتح دے ان کے گمان میں یہ ان کے اوصاف تھے حالانکہ یہ اوصاف تو مومنین کو حاصل تھے تو فرمایا اب بدر کی شکست سے تم پر حق اور بھی واضح ہوگیا اب ان سے کہیے کہ اگر اب بھی کفروعناد سے بازآجائیں تو بہت بہتر ہے لیکن اگر انہوں نے وہی رویہ اپنایا تو اللہ کی طرف سے بھی اسی طرح ذلیل کیے جاتے رہیں گے اور یہ گمان چھوڑدیں کہ پھر زیادہ فوج جمع کرلیں گے ایسی کثرت بھی کوئی فائدہ نہ دے گی اس لیے کہ مومنین کو معیت باری حاصل ہے یعنی مسلمانوں کے ساتھ تو اللہ ہے تمہاری افرادی قوت یا اسباب کی کثرت خود اللہ کے مقابلے میں تو کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ اس میں اشارہ ہے ایک قصہ کی طرف بیان اس اجمال کا یہ ہے کہ بدر میں مشرکین پہلے جاپہنچے تھے اور پانی پر قبضہ کرلیا تھا مسلمان بعد میں پہنچے اور ایک خشک ریگستان میں اترے جہاں پانی نہ ہونے سے پیاس کی بھی شدت اور نماز کے وقت وضو اور غسل سے بھی عاجز اور تیمم کا حکم اس وقت نازل نہ ہوا تھا ادھر ریگستان میں چلنا پھرنا مصیبت کہ اس میں پاوں دھنسے جاتے تھے ان اسباب سے قلب سخت پریشان ہوا اوپر سے شیطان نے وسوسہ ڈالنا شروع کیا کہ تم اگر اللہ کے نزدیک مقبول ومنصور ہوتے تو اس پریشانی میں کیوں پھنستے حالانکہ یہ وسوسہ محض بےبنیاد تھا مگر پریشانی بڑھانے کے لیے کافی تھا اللہ نے اول باران رحمت نازل فرمایا جس سے پانی کی افراط ہوگئی پیا بھی وضو وغیرہ بھی کیا اور اس سے ریت بھی جم گئی اور دھسن جاتی رہی برخلاف اس کے کفار نرم زمین میں تھے وہاں کیچڑ ہوگئی جس سے چلنے پھرنے میں تکلف ہونے لگا غرض سب وساوس وتشویشات دفع ہوگئی اس کے بعد ان پر اونگھ کا غلبہ ہوا جس سے پوری رات راحت ہوگئی اور سب بےچینی جاتی رہی اس آیت میں ان واقعات کی طرف اشارہ ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ غنودگی کا واقعہ بھی نہایت ہی عجیب اور حیرت انگیز ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حالت تھی اور جنگ سے قبل مسلمانوں پر طاری ہوگئی تھی۔ یہ صرف امر الہی اور اللہ کی خاص تدبیر اور تقدیر کا کارنامہ تھا۔ جب لشکروں کا آمنا سامنا ہوا تو مسلمانوں پر قدرے خوف طاری ہوگیا کیونکہ ان کی توقع نہ تھی کہ اس قدر عظیم لشکر امنڈ آئے گا۔ اور اس وجہ سے ان کی تیاری بھی نہ تھی ، اچانک انہیں غنودگی نے آ لیا۔ جب یہ غنودگی دور ہوئی تو وہ بالکل فریش اور تروتازہ تھے۔ ان کے دل اطمینان سے بھرے ہوئے تھے۔ یہ حالات ان پر احد میں طاری ہوگئی تھی۔ لوگوں کے اندر بےچینی آگئی ، اور اللہ نے ان پر غنودگی طاری کردی۔ اور انہیں اطمینان ہوگیا ۔ میں ان آیات کو پڑھ کر گذر جاتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ یہ دور ماضی کا ایک واقعہ ہے۔ میں اس واقعہ کے بارے میں قران کریم کے اس قصے کو پڑھتا اور یہ سمجھتا کہ اس کا راز اللہ ہی جانتا ہے جس نے ہمیں اس کی اطلاع دی ہے۔ لیکن جب مجھ پر مشکلات آئیں اور بعض لمحات نہایت ہی تنگی اور پریشانی کے بھی گذرے تو مجھے ان آایت کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ ایک بار میں نامعلوم خوف سے دوچار ہوگیا ، غروب شمس کا وقت تھا ، اچانک چند منٹوں کے لیے مجھ پر غنودگی آجاتی ہے اور جب یہ حالت دور ہوتی ہے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ میں وہ نہیں ہوں جو اس غنودگی سے پہلے تھا۔ میرا نفس نہایت ہی پرسکون تھا۔ دل مطمئن تھا اور میں گہرے اطمینان میں غرق تھا۔ چند لمحات میں یہ عمل کیسے طے ہوگیا۔ یہ اچانک کس طرح انقلاب برپا ہوگیا۔ یہ میں نہیں جانتا۔ لیکن یہ بات ضرور ہوگئی کہ قصہ بدر و احد میری سمجھ میں آگیا۔ اس واقعہ کے بعد میں اپنی پوری شخصیت کے ساتھ اس قصے کو سمجھ لیا ، محض عقلی طور پر نہیں یہ اب میرے وجود میں ایک زندہ حقیقت تھی۔ محض تصور اور خیال نہ تھا۔ مجھے صاف نظر آیا کہ اس میں دست قدر کی کارفرمائی ہے اور نہایت ہی خفی طور پر مجھے اطمینان عطا ہوگیا۔ بدر کے دن جماعت مسلمہ کے لیے یہ غنودگی اللہ کی غیبی امداد تھی۔ اذ یغشکیم النعاس امنۃ ۔ اس وقت کو یاد کرو کہ تمہار رب اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بےخوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا۔ اس آیت میں یغشیکم النعاس اور امنۃ تینوں لفظ اس فضا پر ایک لطیف اور شفاف پرتو ڈالتے ہیں اور اس منظر کی عام فضا کی نقشہ کشی کرتے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے شب و روز کیا تھے اور یہ کہ مسلمانوں کے عام حالات کے مقابلے میں اور ان کی اس نفسیاتی کیفیت میں فرق کیا تھا۔ اب بارش کا قصہ ملاحظہ فرمائیں۔ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الأقْدَامَ (١١): اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے۔ یہ واقعہ معرکہ سے قدرے پہلے پیش ٓیا۔ اور یہ بھی امت مسلمہ کے لیے ایک قسم کی خاص امداد تھی۔ علی ابن طلحہ نے حجرت ابن عباس سے روایت کی ہے ، کہ یوم بدر میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس جگہ پر قیام کیا اس کی پوزیشن یہ تھی کہ مشرکین اور پانی کے درمیان ایک ریت کا ٹیلہ تھا جو ایک پتھریلی جگہ تھی۔ اس دن مسلمان بہت ہی تھکے ہوئے تھے۔ ایسے حالات میں شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ اندازی شروع کردی کہ تم دعویٰ تو یہ کرتے ہو کہ تم اللہ کے دوست ہو اور تمہارے اندر اللہ کے رسول موجود ہیں۔ حالانکہ مشرکین پانی پر قبضہ کرچکے ہیں اور تمہاری حالت یہ ہے کہ تم حالت جنابت میں نماز پڑھتے ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے شدید بارش برسائی۔ مسلمانوں نے پانی بھی پیا اور طہارت بھی حاصل کی اور اللہ نے شیطانی نجاست سے ان کو پاک کردیا۔ جب بارش ہوئی تو ریت بھی بیٹھ گئی اور لوگ اور جانور اس کے اوپر آسانی سے چلنے لگے۔ اس طرح وہ آگے بڑھے۔ ـاللہ نے نبی کو ایک ہزار فرشتوں کی امداد حضرت جبریل کی کمان میں پانچ صد فرشتے تھے جو ہر قسم کے سامان سے لیس تھے۔ اور میکائیل کی کمان میں بھی پانچ صد فرشتے تھے۔ یہ حالت اس وقت پیش آئی جب کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حباب ابن منذر کے مشور پر کیمپ نہیں بدلا تھا۔ انہوں نے شمورہ دیا کہ مناسب یہ ہے کہ ہم بدر کے پانیوں کے قریب فروکش ہوں اور پانی کا حوض بنا کر مخالف کیمپ کا پانی بند کردیں۔ ” معروف یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب بدر کی طرف چلے تو آپ نے ابتدائی اور پہلے پانی پر قیام کیا لیا۔ اس پر حباب ابن منذر آگے بڑھے کہ جس مقام پر قیام کا حکم دیا گیا ہے آیا یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ ہم اس میں رد و بدل کرسکتے ہیں اور یہ مقام بطور جنگی چال اور تدبیر ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں نے یہ مقام محض جنگی سوچ کی بنا پر تجویز کیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا پھر یہ جگہ ٹھیک نہیں ہے فوجی کیمپ کے لیے۔ مناسب یہ ہے کہ آپ ہمیں آخری پانی پر لے چلیں جو مشرکین کے قریب ہے اور اس آخری پانی سے پیچھے جس قدر پانی ہیں ، ان کو ہم دشمن سے روک لیں گے۔ ہم خود پئیں گے اور مویشیوں کو پلائیں گے۔ یوں ہمارے پاس پانی ہوگا اور ان کے پاس پانی نہ ہوگا۔ اس پر حضور نے لشکر کو ایسا ہی کا حکم دیا اور اس مشورے پر عمل کیا۔ حباب ابن المنذر کے مشورے سے قبل کی رات میں مسلمانوں کی یہ حالت تھی جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ بطور احسان اس جماعت سے کر رہے ہیں جو بدر میں شریک ہوئی۔ یہ جو امداد اللہ نے کی یہ دوسری امداد تھی۔ یہ روحانی بھی تھی اور مادی بھی تھی اس لیے کہ صحراؤں میں پانی پر زندگی موقوف ہوتی ہے۔ پانی فتح کا سامان ہوتا ہے اور صحراؤں میں جس لشکر کے پاس پانی نہ ہو وہ ذہنی طور پر شکست کھا جاتا ہے۔ اور روحانی اس طرح کہ مسلمان شیطانی وسوسوں سے بھی نکل آئے۔ وہ حالت جنابت میں نماز پڑھ رہے تھے۔ اس وقت تک ان کو تیمم کی اجازت بھی نہ تھی۔ یہ اجازت بہت بعد میں غزوہ بنی المصطلق میں دی گئی یعنی 5 ہجری میں۔ ایسے حالات میں شیطان نے نفسیاتی وسوسے ڈالے اور لوگوں کے اندر نفسیاتی اور روحانی بےچینی پیدا کردی تھی تاکہ جب یہ لوگ اس معرکے میں داخل ہوں تو روحانی اعتبار سے پریشان ہوں اور مادی شکست سے پہلے ان کو اندرونی طور پر شکست ہوچکی ہو اور وہ اندر سے ٹوت چکے ہوں۔ ایسے حالات میں اللہ کی یہ امداد خاص آئی ہے۔ ” وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الأقْدَامَ (١١): اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے اور تمہاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے “ یوں مادی امداد کے ساتھ ساتھ روحانی امداد بھی پوری پوری ہوجاتی ہے۔ پانی کی وجہ سے دلوں کو اطمینان ہوگیا اور روح کی پاکیزگی کی وجہ سے وہ تروتازہ ہوگئے۔ بارش کی وجہ سے ریت بیٹھ گئی اور قدم بھی مضبوط ہوگئے۔ یہ تدابیر اس کے علاوہ تھیں کہ اللہ نے فرشتوں کو خصوصی ہدایت دے دیں کہ تم اہل ایمان کے قدموں کو مضبوط کرو اور کفار کے دلوں میں ان کا رعب ڈالو ، اور فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ تم عملاً جنگ میں شرکت کرو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بدر میں مسلمانوں پر اونگھ کا طاری ہونا اللہ جل شانہٗ نے مسلمانوں پر یہ بھی انعام فرمایا کہ پریشانی دور فرمانے کے لیے ان پر اونگھ بھیج دی۔ جیسا کہ غزوۂ احد کے موقعہ پر بھی اونگھ بھیجی تھی۔ جس کا ذکر سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ اس اونگھ کا نفع یہ ہوا کہ وہ جو تکلیف محسوس کر رہے تھے اس کا احساس ختم ہوگیا کو ن کہ نیند ہر چیز سے غافل کردیتی ہے خوشی سے بھی اور رنج سے بھی۔ ان کی پریشانی جاتی رہی، حضرت علی (رض) نے بیان فرمایا کہ ہم سب پر نیند کا غلبہ ہوگیا تھا مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح تک برابر نماز میں مشغول رہے (کمافی الدر المنثور) نیز اللہ تعالیٰ نے بارش بھی نازل فرمائی۔ اس بارش کے دو فائدے ہوئے ایک ایک تو نہانے دھونے اور پانی پینے کا فائدہ ہوا، دوسرے شیطان نے قلوب میں جو ناپاک وسوسے ڈال دیے تھے یہ بارش ان وسوسوں کے ازالہ کا سبب بن گئی نیز یہ بھی فائدہ ہوا کہ مسلمان جس جگہ قیام پذیر تھے وہاں ریت تھی وہ پانی پڑنے کی وجہ سے جم گئی اور جہاں مشرکین ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہاں کیچڑ ہوگئی (تفسیر ابن کثیر ص ٢٥١ ج ٢) میں ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) نے بیان فرمایا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر تشریف لے گئے اور وہاں آپ اور مشرکین کے درمیان بہت زیادہ ریت تھی۔ اس ریت میں جنگ کرنا بھی مشکل تھا اور ادھر مسلمانوں کو پانی کی ضرورت تھی لہٰذا شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ تم یہ خیال کرتے ہو کہ اللہ کے دوست ہو اور تمہارے اندر خدا کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے اور حال یہ ہے کہ پانی پر مشرکین نے قبضہ کر رکھا ہے اور تم حالت جنابت میں نمازیں پڑھ رہے ہو۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے خوب زیادہ بارش برسائی۔ لہٰذا مسلمانوں نے پانی پیا اور پاکی حاصل کی (جس سے ظاہری نجاست دور ہوگئی) اور اللہ تعالیٰ نے شیطان کے وسوسہ کو دور فرما دیا (جس سے باطنی نجاست بھی دور ہوگئی) اور ریت سیمنٹ کی طرح جام ہوگیا۔ جس پر مسلمانوں کا اور ان کے جانوروں کا چلنا پھرنا اور دشمنوں سے جم کر مقابلہ کرنا آسان ہوگیا اور اس سے دلوں کو اطمینان ہوگیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد کا ایک منظر جنگ سے پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11: یہ چوتھی علت ہے۔ “ اَمَنَةً ” مفعول ہے اور “ مِنْهُ ” کی ضمیر مجرور اللہ کی طرف راجع ہے میدان بدر میں کئی ایک ظاہری اسباب کی وجہ سے مسلمان کچھ پریشان سے تھے مشرکین تعداد میں زیادہ تھے اور ہر قسم کے ضروری سامان جنگ سے لیس تھے اور میدان میں صرف ایک ہی جگہ پانی تھا اس پر بھی دشمن ہی کا قبضہ تھا۔ جس جگہ دشمن نے پڑاؤ ڈالا تھا وہاں ریت نہیں تھی بلکہ مٹی تھی لیکن جہاں مسلمانوں کا لشکر ٹھہرا وہاں پانی کا نام و نشان نہ تھا اور ہر طرف ریت ہی ریت تھی جس کی وجہ سے ان کے لیے چلنا پھرنا دشوار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنی مہربانی سے بارش برسا دی جس کی وجہ سے مشرکین کے پڑاؤ کی جگہ میں ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ ہوگیا۔ اور پھسلن کی وجہ سے ان کا چلنا پھرنا دشوار ہوگیا اور وہ ایک نئی مصیبت میں مبتلا ہوگئے دوسری طرف مسلمانوں کے پڑاؤ میں ریت بیٹھ گئی گرد و غبار سے نجات ملی اور پینے اور وضو کے لیے پانی گڑھوں میں جمع ہوگیا اسی دوران میں اللہ نے مسلمانوں پر نیند کی سی حالت طاری فرما دی جب آنکھ کھلی تو سارا خوف و ہراس جاتا رہا اور دلوں میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

1 1 وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہاری تسکین اور چین کے لئے اپنی طرف سے غنودگی اور اونگھ طاری کردی اور تم پر آسمان کی جانب سے بارش نازل فرمائی تاکہ اس پانی سے تم کو پاک کردے اور تم سے شیطانی نجاست اور شیطانی وسوسوں کی آلودگی کو زائل کردے اور تاکہ تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہارے قلوب کو تقویت عطا فرمائے اور اس پانی کی وجہ سے تمہارے قدموں کو جمادے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب دو لشکر مقابل ہوئے رات کو مسلمانوں کو حاجتِ غسل ہوگئی اور پانی پینے کا بھی نہ تھا اور زمین ریت تھی جہاں پائوں نہ ٹھہریں صبح کو لڑائی درپیش یہ چیزیں دیکھ کر مسلمان ڈرے کہ آثار شکست کے ہیں اس وقت بارانِ کامل برسا کہ غسل اور پیاس کو کافی ہو اور زمین جم گئی اور ایک اونگھ آپڑی اس سے چونکے تو دل کا خوف جاتا رہا۔ 12 مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان جنگ بدر میں نکلے تو مختلف پریشانیاں دامن گیر تھیں اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور باطنی طریقوں سے ان پریشانیوں کو دور فرمایا۔ پانی کی قلت کو بارش سے دفع کردیا غسل اور وضو کے لئے پانی مل گیا۔ زمین کا ریت جم گیا دل کا خوف غنودگی سے دور ہوگیا۔ ربط قلب سے ہمتیں بڑھ گئیں شیطان اور اس کی ذریت جو کافروں کی مدد کو جمع ہوئی تھی اس کا علاج فرشتوں کی آمد سے ہوا۔ یہ سب حضرت حق تعالیٰ کے احسان تھے جن کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا۔