Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 15

سورة الأنفال

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡہُمُ الۡاَدۡبَارَ ﴿ۚ۱۵﴾

O you who have believed, when you meet those who disbelieve advancing [for battle], do not turn to them your backs [in flight].

اے ایمان والو! جب تم کافروں سے دو بدو مقابل ہو جاؤ ، تو ان سے پشت مت پھیرنا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Fleeing from Battle is prohibited, and its Punishment Allah said, while warning against fleeing from the battlefield and threatening those who do it with the Fire, يَا أَيُّهَا الَّذِينَ امَنُواْ إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ زَحْفاً ... O you who believe! When you meet those who disbelieve, in a battlefield, when you get near the enemy and march towards them, ... فَلَ تُوَلُّوهُمُ الاَدْبَارَ never turn your backs to them. do not run away from battle and leave your fellow Muslims behind,

شہیدان وفا کے قصے جہاد کے میدان میں جو مسلمان بھی بھاگ کھڑا ہوا اس کی سزا اللہ کے ہاں جہنم کی آگ ہے ۔ جب لشکر کفار سے مڈبھیڑ ہو جائے اس وقت پیٹھ پھیڑ ہو جائے اس وقت پیٹھ پھیرنا حرام ہے ہاں اس شخص کے لئے جو فن جنگ کے طور پر پینترا بدلے یا دشمن کو اپنے پیچھے لگا کر موقعہ پر وار کرنے کے لئے بھاگے یا اس طرح لشکر پیچھے ہٹے اور دشمن کو گھات میں لے کر پھر ان پر اچانک چھاپہ مار دے تو بیشک اس کیلئے پیٹھ پھیرنا جائز ہے ، دوسری صورت یہ ہے کہ ایک لشکر میں سے دوسرے لشکر میں جانا ہو جہاں چھوٹے سے لشکر سے بڑے لشکر کا ٹکراؤ ہو یا امام اعظم سے ملنا ہو تو وہ بھی اس میں داخل ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا میں بھی اس میں ہی تھا لوگوں میں بھگدڑ مچی میں بھی بھاگا ہم لوگ بہت ہی نادم ہوئے کہ ہم اللہ کی راہ سے بھاگے ہیں اللہ کا غضب ہم پر ہے ہم اب مدینے جائیں اور وہاں رات گذار کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوں اگر ہماری توبہ کی کوئی صورت نکل آئے تو خیر ورنہ ہم جنگوں میں نکل جائیں ۔ چنانچہ نماز فجر سے پہلے ہم جا کر بیٹھ گئے جب حضور آئے تو آپ نے دریافت فرمایا کہ تم کون لوگ ہو؟ ہم نے کہا بھاگنے والے آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم لوٹنے والے ہو میں تمہاری جماعت ہوں اور میں تمام مسلمانوں کی جماعت ہوں ہم نے بےساختہ آگے بڑھ کر حضور کے ہاتھ چوم لئے ۔ ابو داؤد و ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ امام ترمذی اسے حسن کہہ کر فرماتے ہیں ہم اسے ابن ابی زیاد کے علاوہ کسی کی حدیث سے پہچانتے نہیں ۔ ابن ابی حاتم میں حضور کے اس فرمان کے بعد آپ کا اس آیت کا تلاوت کرنا بھی مذکور ہے ۔ حضرت ابو عبیدہ جنگ فارس میں ایک پل پر گھیر لئے گئے مجوسیوں کے ٹڈی دل لشکروں نے چاروں طرف سے آپ کو گھیر لیا موقعہ تھا کہ آپ ان میں سے بچ کر نکل آتے لیکن آپ نے مردانہ وار اللہ کی راہ میں جام شہادت نوش فرمایا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ واقعہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا اگر وہ وہاں سے میرے پاس چلے آتے تو ان کے لئے جائز تھا کیونکہ میں مسلمانوں کی جماعت ہوں مجھ سے مل جانے میں کوئی حرج نہیں اور روایت میں ہے میں تمام مسلمانوں کی جماعت ہوں ۔ اور روایت میں ہے کہ تم اس آیت کا غلط مطلب نہ لینا یہ واقعہ بدر کے متعلق ہے ۔ اب تمام مسلمانوں کیلئے وہ فعتہ جس کی طرف پناہ لینے کے لئے واپس مڑنا جائز ہے ، میں ہوں ۔ ابن عمر سے نافع نے سوال کیا کہ ہم لوگ دشمن کی لڑائی کے وقت ثابت قدم نہیں رہ سکتے اور ہمیں یہ معلوم نہیں کہ فئتہ سے مراد امام لشکر ہے یا مسلمانوں کو جنگی مرکز آپ نے فرمایا فئتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے میں نے اس آیت کی تلاوت کی تو آپ نے فرمایا یہ آیت بدر کے دن اتری ہے نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد ۔ ضحاک فرماتے ہیں لشکر کفار سے بھاگ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے پاس پناہ لے اس کے لئے جائز ہے ۔ آج بھی امیر اور سالار لشکر کے پاس یا اپنے مرکز میں جو بھی آئے اس کیلئے یہی حکم ہے ۔ ہاں اس صورت کے سوا نامردی اور بزدلی کے طور پر لشکر گاہ سے جو بھاگ کھڑا ہو لڑائی میں پشت دکھائے وہ جہنمی ہے اور اس پر اللہ کا غضب ہے وہ حرمت کے کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے بخاری مسلم کی حدیث میں ہے سات گناہوں سے جو مہلک ہیں بچتے رہو پوچھا گیا کہ وہ کیا کیا ہیں؟ فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ، جادو ، کسی کو ناحق مار ڈالنا ، سود خوری ، یتیم کا مال کھانا ، میدان جہاد سے پیٹھ دکھا کر بھاگ کھڑا ہونا ، ایماندر پاک دامن بےعیب عورتوں پر تہمت لگانا ۔ فرمان ہے کہ ایسا کرنے والا اللہ تعالیٰ کا غضب و غصہ لے کر لوٹتا ہے اس کی لوٹنے اور رہنے سہنے کی جگہ جہنم ہے جو بہت ہی بدتر ہے ۔ بشیر بن معبد کہتے ہیں میں حضور کے ہاتھ پر بیعت کرنے آیا تو آپ نے شرط بیان کی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، شہادت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت و رسالت کی شہادت دوں پانچوں وقت کی نماز قائم رکھوں اور زکوٰۃ ادا کرتا رہوں اور حج مطابق اسلام بجا لاؤں اور رمضان المبارک کے مہی نے کے روزے رکھوں اور اللہ کی راہ میں جہاد کروں ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ اس میں سے دو کام میرے بس کے نہیں ایک تو جہاد دوسرے زکوٰۃ میں نے تو سنا ہے کہ جہاد میں پیٹھ دکھانے والا اللہ کے غضب میں آ جاتا ہے مجھے توڈر ہے کہ موت کا بھیانک سماں کہیں کسی وقت میرا منہ نہ پھیر دے اور مال غنیمت اور عشر ہی میرے پاس ہوتا ہے وہ ہی میرے بچوں اور گھر والوں کا اثاثہ ہے سواری لیں اور دودھ پئیں اسے میں کسی کو کیسے دے دوں؟ آپ نے اپنا ہاتھ ہلا کر فرمایا جب جہاد بھی نہ ہو اور صدقہ بھی نہ ہو تو جنت کیسے مل جائے ؟ میں نے کہا اچھا یا رسول اللہ سب شرطیں منظور ہیں چنانچہ میں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی ۔ یہ حدیث صحاح ستہ میں نہیں مسند احمد میں ہے اور اس سند سے غریب ہے ۔ طبرانی میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ تین گناہوں کے ساتھ کوئی نیکی نفع نہیں دیتی اللہ کے ساتھ شرک ، ماں باپ کی نافرمانی لڑائی سے بھاگنا ، یہ حدیث بھی بہت غریب ہے ۔ اسی طبرانی میں ہے آپ فرماتے ہیں جس نے دعا ( استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو واتوب الیہ ) پڑھ لیا اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں گو وہ لڑائی سے بھاگا ہو ۔ ابو داؤد اور ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں اور آنحضرت کے مولیٰ زید اس کے راوی ہیں ۔ ان سے اس کے سوا کوئی حدیث نظر سے نہیں گزری ۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ بھاگنے کی حرمت کا یہ حکم صحابہ کے ساتھ مخصوص تھا اس لئے کہ ان پر جہاد فرض عین تھا اور کہا گیا ہے کہ انصار کے ساتھ ہی مخصوص تھا اسلئے کہ ان کی بیعت سننے اور ماننے کی تھی خوشی میں بھی اور ناخوشی میں بھی ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بدری صحابہ کے ساتھ یہ خاص تھا کیونکہ ان کی کوئی جماعت تھی ہی نہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں کہا تھا کہ اے اللہ اگر تو اس جماعت کو ہلاک کر دے گا تو پھر زمین میں تیری عبادت نہ کی جائے گی ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں یو مئذ سے مراد بدر کا دن ہے اب اگر کوئی اپنی بری جماعت کی طرف آ جائے یا کسی قلعے میں پناہ لے تو میرے خیال میں تو اس پر کوئی حرج نہیں ۔ یزید بن ابی حبیب فرماتے ہیں کہ بدر والے دن جو بھاگے اس کیلئے دوزخ واجب تھی اس کے بعد جنگ احد ہوئی اس وقت یہ آیتیں اتریں ( اِنَّ الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰن ١٥٥؁ ) 3-آل عمران:155 ) سے عفا اللہ عنھم تک ۔ اس کے ساتھ سال بعد جنگ حنین ہوئی جس کے بارے میں قرانی ذکر ہے آیت ( ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُّدْبِرِيْنَ 25؀ۚ ) 9- التوبہ:25 ) پھر اللہ نے جس کی جاہی توبہ قبول فرمائی ۔ ابو داؤد نسائی مستدرک حاکم وغیرہ میں ہے کہ ابو سعید فرماتے ہیں یہ آیت بدریوں کے بارے میں اتری ہے لیکن یہ یاد رہے کہ گویہ مان لیا جائے کہ سبب نزول اس آیت کا بدری لوگ ہیں مگر لڑائی سے منہ پھیرنا تو حرام ہے جیسے کہ اس سے پہلے حدیث میں گذرا کہ سات ہلاک کرنے والے گناہوں میں ایک یہ بھی ہے اور یہی مذہب جمہور کا ہے واللہ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 زَ حْفًا کے معنی ہیں ایک دوسرے کے مقابل اور دوبدو ہونا۔ یعنی مسلمان اور کافر جب ایک دوسرے کے بالمقابل صف آرا ہوں تو پیٹھ پھیر کا بھاگنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایک حدیث میں ہے اَ جْتَنِبُوْا السَّبْعَ الْمُوْبِقَاتِ ' سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو ان سات میں ایک واتّوَلَیِ یَوم الزَّحْفِ (مقابلے والے دن پیٹھ پھیر جانا ہے)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا :” زَحَفَ الصَّبِیُّ “ جب بچہ زمین پر گھسٹتا ہوا چلے۔” زَحَفَ الْجَیْشُ “ بڑا لشکر بھی چونکہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے، اس لیے لشکر کے بڑھنے کو بھی ” زَحَفَ “ کہتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ دشمن جب مقابلے کے لیے میدان میں سامنے آکھڑا ہوا، تو بھاگو نہیں۔ یہ حکم صرف بدر ہی میں نہیں تھا بلکہ یہ حکم سب مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ہے۔ متعدد احادیث میں کفار سے بھاگنے کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ “ ان میں سے ایک دشمن سے مڈ بھیڑ کے وقت پیٹھ پھیرنا ہے۔ [ بخاری، الوصایا، باب قول اللہ تعالیٰ : ( إن الذین یأکلون۔۔ ) : ٢٧٦٦ ] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی لیے بزدلی سے پناہ کی کئی دعائیں سکھائی ہیں، چناچہ آپ ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے : ( اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ أَنْ اُرَدَّ اِلٰی اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ ) [ بخاری، الدعوات، باب الاستعاذۃ من أرذل العمر۔۔ : ٦٣٧٤، عن سعد (رض) ] انس (رض) نے فرمایا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی منزل پر اترتے تو میں کثرت سے آپ کو یہ پڑھتے ہوئے سنتا : ( اَللّٰھُمَّ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَ ضَلَعِ الدَّیْنِ وَ غَلَبَۃِ الرِّجَالِ ) [ بخاری، الجھاد والسیر، باب من غذا بصبی للخدمۃ : ٢٨٩٣ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Out of the verses appearing above, the first two (15-16) tell us about a military law of Islam. The word: زحف (zahf) translated here literally as &marching to battle& denotes the confrontation and intermingling between the two armies. The sense is that once a war is on, turning back and deserting the battlefield is not permissible for Muslims. The second verse (16) refers to an exception to this rule, and to a severe punishment for illegal deserters.

خلاصہ تفسیر اے ایمان والوں جب تم کافروں سے ( جہاد میں) دو بدو مقابل ہوجاؤ تو ان سے پشت مت پھیرنا ( یعنی جہاد سے مت بھاگنا) اور جو شخص ان سے اس موقع پر ( یعنی مقابلہ کے وقت) پشت پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لئے پینترا بدلتا ہو یا جو اپنی جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستثنی ہے باقی اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور وہ بہت ہی بری جگہ ہے ( فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ الایة کے اندر بھی ایک قصہ کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ آپ نے بدر کے روز ایک مٹھی کنکریوں کی اٹھا کر کافروں کی طرف پھینکی جس کے ریزے سب کی آنکھوں میں جاگرے اور ان کو شکست ہوئی اور فرشتوں کا امداد کے لئے آنا اوپر آچکا ہے اس پر بطور تفریع فرماتے ہیں کہ جب ایسے عجیب واقعات ہوئے جو کہ بالکل تمہارے اختیار سے خارج ہیں) سو ( اس سے معلوم ہوا کہ تاثیر حقیقی کے مرتبہ میں) تم نے ان ( کافروں) کو قتل نہیں کیا لیکن ( ہاں اس مرتبہ میں) اللہ تعالیٰ نے ( بیشک) ان کو قتل کیا ( یعنی موثر حقیقی اس کی قدرت ہے) اور ( اسی طرح تاثیر حقیقی کے مرتبہ میں) آپ نے خاک کی مٹھی ان کی طرف) نہیں پھینکی، لیکن ( ہاں اس مرتبہ میں) اللہ تعالیٰ نے (واقعی) وہ پھینکی اور ( باوجود اس کے کہ موثر حقیقی قدرت حق ہے پھر جو آثار قتل وغیرہ کو قدرت عبد پر مرتب فرما دیا تو اسمیں حکمت یہ ہے کہ) تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ( ان کے عمل کا) خواب اجر دے ( اور اجر کا ملنا حسب سنت الہیہ موقوف ہے اس پر کہ فعل ان کے عزم و اختیار سے صادر ہو) بلا شبہ اللہ تعالیٰ ( ان مومنین کے اقوال کے) خوب سننے والے ( اور ان کے افعال و احوال کے) خوب جاننے والے ہیں ( ان اقوال استغاثہ اور افعال قتال و احوال تشویش وغیرہا میں جو ان کو محنت پیش آئی ہم کو اس کی اطلاع ہے ان کو اس پر جزا دیں گے) ایک بات تو یہ ہوئی اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کافروں کی تدبیر کا کمزور کرنا تھا ( اور زیادہ کمزوری اس وقت ظاہر ہوئی ہے جب اپنے برابر والے کے بلکہ اپنے سے کمزور کے ہاتھ سے مغلوب ہوجائے اور یہ بھی موقوف ہے اس پر کہ وہ آثار مؤمنین کے ہاتھ سے ظاہر ہوں ورنہ کہہ سکتے تھے کہ تدابیر تو ہماری قوی تھیں لیکن اقوی کے سامنے کہ تدبیر الہی ہے نہ چل سکیں تو اس سے آئندہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ان کا حوصلہ پست نہ ہو کیونکہ ان کو تو ضعیف ہی سمجھتے) اگر تم لوگ فیصلہ چاہتے ہو تو وہ فیصلہ تو تمہارے پاس آموجود ہوا (جو حق پر تھا اس کو غلبہ ہوگیا) اور اگر (اب حق زیادہ واضح ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت سے) باز آجاؤ تو یہ تھمارے لئے نہایت خوب ہے اور اگر (اب بھی باز نہ آئے بلکہ) تم پھر وہی کام کرو گے (یعنی مخالفت) تو ہم بھی پھر یہی کام کریں گے (یعنی تم کو مغلوب اور مسلمانوں کو غالب کردینا) اور (اگر تم کو اپنی جمعیت کا گھمنڈ ہو کہ اب کی بار اس سے زیادہ جمع کرلیں گے تو یاد رکھو کہ) تمہاری جمعیت تمہارے ذرا بھی کام نہ آئے گی گو کتنی زیادہ ہو اور واقعی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ (اصل میں) ایمان والوں کے ساتھ (یعنی ان کا مددگار) ہے (گو کسی عارض کی وجہ سے کسی وقت ان کے غلبہ کا ظہور نہ ہو لیکن اصل محل غلبہ کے یہی ہیں اس لئے ان سے مقابلہ کرنا اپنا نقصان کرنا ہے) ۔ معارف و مسائل آیات مذکورہ میں سے پہلی دو آیتوں میں اسلام کا ایک جنگی قانون بتلایا گیا ہے پہلی آیت میں لفظ زحف سے مراد دونوں لشکروں کا مقابلہ اور اختلاط ہے۔ معنی یہ ہیں کہ ایسی جنگ چھڑ جانے کے بعد پشت پھیرنا اور میدان سے بھاگنا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں۔ دوسری آیت میں اس حکم سے ایک استثناء کا ذکر اور ناجائز طور پر بھاگنے والوں کے عذاب شدید کا بیان ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَ۝ ١٥ ۚ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ زحف أصل الزَّحْفِ : انبعاث مع جرّ الرّجل، کانبعاث الصّبيّ قبل أن يمشي وکالبعیر إذا أعيا فجرّ فرسنه «1» ، وکالعسکر إذا کثر فيعثر انبعاثه . قال : إِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفاً [ الأنفال/ 15] ، والزَّاحِفُ : السّهم يقع دون الغر ( ز ح ف ) الزحف اصل میں اس کے معنی پاؤں کو گھسیٹ گھسیٹ کر چلنا کے ہیں جیسا کہ بچہ چلنے کے قابل ہونے سے پہلے اور اونٹ تھکن کی وجہ سے اپنے پاؤں گھسیٹ کر چلتا ہے ۔ یا فوج کثرت ازحام کی وجہ سے آہستہ گھسٹ گھسٹ کر آگے بڑھتی ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ إِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفاً [ الأنفال/ 15] جب کفار سے تمہاری مٹھ بھیڑ ہوجائے ۔ اور زاحف اس تیر کو کہتے ہیں جو نشانہ سے ورے گر جائے ۔ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ دبر ( پيٹھ) دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا، ( د ب ر ) دبر ۔ بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال/ 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال/ 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال/ 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق/ 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥، ١٦) بدر کے دن کافروں سے سامنا ہوجانے کے بعد ان سے پیٹھ مت پھیرو اور جو شخص بدر کے دن شکست کھا کر ان سے پیٹھ پھیرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا اپنی جماعت کی طرف پناہ لینے اور مدد حاصل کرنے کی وجہ سے ہو اور اس سے مستثنی ہے باقی جو ایسا کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور ناراضگی کے ساتھ واپس لوٹے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٥ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفًا) زحف میں باقاعدہ دو لشکروں کے ایک دوسرے کے مد مقابل آکر لڑنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ غزوۂ بدر سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے علاقے میں آٹھ مہمات (expeditions) بھیجی گئی تھیں ‘ مگر ان میں سے کوئی مہم بھی باقاعدہ جنگ کی شکل میں نہیں تھی۔ زیادہ سے زیادہ انہیں چھاپہ مار مہمات کہا جاسکتا ہے ‘ لیکن بدر میں مسلمانوں کی کفار کے ساتھ پہلی مرتبہ دو بدو جنگ ہوئی ہے۔ چناچہ ایسی صورت حال کے لیے ہدایات دی جارہی ہیں کہ جب میدان میں باقاعدہ جنگ کے لیے تم لوگ کفار کے مقابل آجاؤ : (فَلاَ تُوَلُّوْہُمُ الْاَدْبَارَ ) مطلب یہ ہے کہ ڈٹے رہو ‘ مقابلہ کرو۔ جان چلی جائے لیکن قدم پیچھے نہ ہٹیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٥۔ ١٦۔ اس آیت میں اللہ پاک لڑائی سے بھاگنے والوں کو فرماتا ہے کہ دشمنوں سے بھاگو نہیں اور جو بھاگے گا وہ خدا کا غضب لے کر گھر کی طرف پھریگا اور اس کا ٹھکانا جہنم میں بہت ہی بری جگہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ دین کی لڑائی سے بھاگنا گناہ کبیرہ ہے مگر اس صورت میں کہ اگر کوئی اس لئے لڑائی سے پیٹھ پھیرے کہ دشمن کو دھوکہ دے کر ایک طرف سے بھاگ کر اور پھر دوسری طرف سے دشمن کو قتل کریگا یا اپنے سردار کے پاس لوگ بھاگ کر جائیں تو ان دو صورتوں میں اللہ پاک نے بھاگنے کی اجازت دی ہے اسی کو فرمایا الامتحرفا لقتال اومتحیزا الی فئۃ کہ اس ارادہ سے کوئی لڑائی سے بھاگ نکلا کہ پھر آئے گا یا اپنی دوسری فوج میں شامل ہو کر دشمن کو دھوکا دینا لڑائی میں یہ بھی ایک ہنر جنگ کے فنون میں سے ہے چناچہ صحیح بخاری مسلم اور ابوداؤد کی عبد بن مالک (رض) کی روایت میں اس کا ذکر ہے مسند امام احمد ‘ ترمذی وابن ماجہ میں ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ایک لشکر کے ہمراہ کسی جنگ میں بھیجا لڑائی میں سے لوگ بھاگ نکلے یہ بھی ان کے ساتھ ہٹ آئے ابن عمر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہم لڑائی سے پھر آئے اور خدا کا غضب لے کر گھر کو پھرے گھر جانے سے پہلے حضرت کے پاس چلنا چاہئے اگر توبہ قبول ہوئی تو بہتر ہے ورنہ پھر چل دیں غرض کہ نماز صبح سے پہلے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے حجرہ سے نکل کر فرمایا تم کون لوگ ہو ابن عمر (رض) کہتے ہیں ہم نے کہا کہ ہم لوگ لڑائی سے بھاگ کر آئے ہیں بھگوڑے ہیں آپ نے فرمایا کہ نہیں میں تمہارا اور سارے مسلمانوں کا گروہ ہوں تم لوگ میرے ساتھ دوبارہ حملہ کرنے والوں میں ہو ابن عمر (رض) نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ چوم لیا ابن ابی حاتم نے اس روایت کو بیان کر کے یہ کہا کہ پھر حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی اومتحیز الی فئۃ بہرحال ان دونوں صورتوں کے علاوہ لڑائی سے بھاگنا مطلق حرام ہے صحیح بخاری ومسلم ابوداؤد ونسائی میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سات چیزیں مسلمان شخص کو ہلاک کرنے والی ہیں ان سے بچو لوگوں نے پوچھا یا حضرت وہ کیا ہیں آپ نے فرمایا خدا کے ساتھ شریک ٹھہرانا۔ جادو کرنا۔ ایسے شخص کو قتل کرنا جس کے قتل کو اللہ پاک نے حرام کیا ہے۔ سود کھانا۔ یتیم کا مال کھانا اور لڑائی کے دن بھاگنا اور مومنہ پاک دامن عورت پر بکاری کی تہمت کا لگانا۔ بعضے مفسرین کا مذہب یہ ہے کہ لڑائی سے بھاگنا صحابہ پر حرام تھا کیونکہ جہاد ان پر فرض تھا یا خالص انصار پر حرام تھا کیونکہ ان لوگوں نے اللہ کے رسول کے ہاتھ پر بیعت کی تھی کہ ہر حال میں آپکا ساتھ دیں گے اور بعضے کہتے ہیں کہ آیت خالص اہل بدر کے واسطے اتری ہے۔ اس آیت سے مراد وہی لوگ ہیں جو بدر کی لڑائی میں شریک تھے کیونکہ اب ان کا کوئی ایسا گروہ شوکت دار نہ تھا جس کے پاس یہ لوگ بھاگ کر جاتے اسی لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب خدا سے کمک کے لئے دعا کی تھی تو یہ کہا تھا کہ اے اللہ اگر یہ لوگ ہلاک ہوجاویں گے تو کوئی تیری عبادت کا کرنے والا دنیا میں نہیں رہے گا مگر جمہور مفسرین کا یہ قول ہے کہ آیت عام ہے اس کا حکم بھی عام ہے صحابہ یا انصار یا اہل بدر کے واسطے یہ حکم مخصوص نہیں ہے اگرچہ یہ آیت بدر کے موقعہ پر اتری ہے مگر اقامت تک جتنے جہاد ہوں گے سب کے واسطے یہ حکم باقی ہے اور ہر جنگ کرنے والے مسلمان پر دین کی لڑائی سے بھاگنا حرام ہے ابوہریرہ (رض) کی حدیث جو اوپر گذری اس سے آخری قول کی تائید ہوتی ہے ابن (رض) عمر کی روایت جو اوپر گذری اس کی سند میں ایک راوی یزیدبن ابی زیادہ ہے جس کو اکثر علماء نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ترمذی نے اس کی روایت کو معتبر قرار دیا ہے اور صحیح مسلم میں ایسے موقعہ پر اس کی روایت لی گئی ہے جہاں اور روایتوں سے اس کی روایت کو تقویت پہنچ سکتی ہے امام بخاری نے بھی باب مفرد میں اس حدیث کو روایت کیا ہے ان سب باتوں کے سبب سے اس حدیث کو معتبر کہا جاسکتا ہے۔ ابن عمر (رض) کے قصہ کا حاصل یہ ہے کہ وہ اپنے سردار حضرت کے پاس مدینہ میں لڑائی کے موقعہ کو چھوڑ کر آگئے تھے اس لئے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ان لوگو میں شمار کیا جن کا لڑائی سے بھاگنا مستثنیٰ کے طور پر آیت میں جائز رکھا گیا ہے غرض یہ قصہ آیت کے استثناء کی ایک صورت کی تفسیر ہے جس تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ سردار اگرچہ لڑائی کے میں آگے آویگا کہ ابتدائے اسلام میں ایک مسلمان کو دس مخالف اسلام شخصوں سے لڑنے کا حکم تھا پھر ایک کو دوسرے لڑانے کا حکم آگیا اس حکم کے موافق ایک مسلمان مثلا تین مخالفوں کے مقابلہ سے پہلو تہی کرے تو وہ بھی گناہ میں داخل نہیں ہے اس تفسیر میں ایک جگہ گذر چکا ہے کہ جہاد کے حکم سے درگذر کی مکی آیتیں منسوخ نہیں ہیں اس لئے ضعف اسلام کے زمانے میں بےسرو سامانی کے سبب سے بہ سبب بےسرو سامانی کے دین کی لڑائی سے درگذر بھی گناہ میں داخل نہیں ہے زحف کے معنے لشکر کے ہیں :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:15) زحفا۔ زحف یرحف (فتح) کا مصدر ہے زحفا حال ہے من الذین کفروا کا۔ یعنی درآں حالیکہ کفار کثیر التعداد ہوں۔ زمخشری لکھتے ہیں ۔ زحف وہ انبوہ درانبوہ لشکر ہے جو اپنی کثرت کی بناء پر ایسا معلوم ہونے لگے کہ گویا گھسٹ رہا ہے یہ زحف الصبی سے ہے جس کا استعمال بچہ کے سرین کے بل ذرا ذرا گھسٹنے کیلئے آتا ہے مصدری اسم ہوکر مستعمل ہے۔ اس کی جمع زحوف ہے۔ فلاتولوہم الادبار۔ تو ان کی طرف اپنی پیٹھیں مت پھیرو۔ ازبار جمع دبر کی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی ان کے مقابلہ س بھاگو نہیں، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ حکم صحابہ (رض) کو بدر کے لیے تھا مگر یہ رائے صحیح نہیں بلکہ یہ حکم سب مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے ہے متعدد احادیث میں کفار کے مقابلہ سے بھاگنے کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سات چیزوں کو ذکر فرمایا جن میں سے ایک کافروں کے مقابلہ سے بھاگنا ہے۔ ( شوکانی، ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

آیات : 15 تا 18 لغات القرآن۔ لقیتم۔ تم نے ملاقات کی۔ تم ملے۔ زحف۔ لڑائی۔ لاتولوا۔ تم نہ پھیرو۔ یومئذ۔ اس دن۔ متحرف۔ پینترا بدلنے والے (جنگی چال) ۔ متحیز۔ ملنے والے۔ رمیت۔ تو نے پھینکا۔ رمی۔ اس نے پھینکا۔ بلاء حسن۔ اچھی طرح آزمانا۔ موھن۔ سست اور ضعیف کرنے والا تشریح : دراصل جنگ ہو یا امن۔ زندگی کا میدان ہو یا پریشانی کے حالات جو لوگ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں وہی دنیا اور آخرت کی کامیابی کے حقدر ہوتے ہیں لیکن وہ لوگ جو میدان چھوڑ کر اور پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہیں کبھی کسی طرح کی کامیابی حاصل نہیں کیا کرتے۔ ان آیت میں اس بات کو فرمایا جا رہا ہے کہ اے مومنو ! جب بھی کسی جنگ میں تمہارا مقابلہ کفار سے ہو تو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرو اور وان کو پیٹھ دکھا کر نہ بھاگو کیونکہ اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ اللہ کے غضب کا شکار ہوجائے گا اور اس کے لئے جہنم جیسا بدترین ٹھکانا اس کا مقدر بن جائے گا البتہ اگر کوئی جنگی مصلھت ہو تو اور بات ہے مثلاً اس لئے میدان جنگ سے پیچھے ہٹا جائے تاکہ دشمن آگے بڑہ آئے اور وہ اس گمان میں اپنی مضبوط پوزیشن کو چھوڑ دے کہ مسلمان پیچھے ہٹ رہے ہیں اور جب کفار آگے بڑہ آجائیں تو ان پر ایسا وار کیا جائے کہ دشمن کو شکست کھا کر بھاگنا پڑے۔ جنگ موتہ میں حضرت خالد بن ولید (رض) نے اسی جنگی حکمت عملی کو اختیار کیا اور دشمن کو شکست فاش دیدی۔ پیچھے ہٹنے کی دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ امیر کے حکم سے اپنی فوج کے کسی بڑے حصے سے جا کر ملنا ہوتا کہ جمع ہو کر اور پلٹ کر حملہ کیا جائے۔ ان دو صورتوں کے علاوہ کسی حال میں دشمن کو پیٹھ دکھانا مومن کی شان نہیں ہے اسی طرح کی اور آیات اہل ایمان کی رہنما تھین اور انہوں نے ڈٹ کر دشمنان اسلام کا مقابلہ کیا کامیابیاں حاصل کیں اور دشمن کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا۔ دوسری بات جو پچھلی آیات میں واضح طور پر کہی گئی ہے اور یہاں بھی دوبارہ ارشاد فرمائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہار جیت کا فیصلہ محض انسانی کوششوں سے نہیں ہوتا بلکہ غیبی مدد کا بہت کچھ دخل ہوتا ہے۔ اس لئے اپنی کوششوں پر اعتماد کے بجائے اللہ کی ذات پر بھروسہ کیا جائے۔ کفار کا بھروسہ اور اعتماد ظاہری فوج، ہتھیار، مال اور خزانہ پر ہوتا ہے کہ لیکن، مومنوں کا اعتماد سراسر نصرت الٰہی پر ہوتا ہے ۔ کافر تو تلوار پر بھروسہ کرتا ہے لیکن مومن کے ہاتھ میں تلوار نہ بھی ہو وہ محض اللہ پر بھروسہ کرکے اپنے ایمان و یقین کو پیش کرتا ہے اور اللہ کی مدد سے کامیاب ہوجاتا ہے۔ غزوہ بدر میں اہل ایمان کے پاس نہ سواریاں تھیں نہ تلواریں جب کہ مکہ کے کفار ہتھیاروں اور سواریں سے لیس تھے۔ لیکن اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ کفار مکہ کو شکست فاش ہوئی اور بےسراسامانی کے باوجود مسلمانوں کو تاریخی فتح نصیب ہوئی۔ سچ ہے جنگیں جذبوں سے لڑی جاتی ہیں ہتھیاروں سے نہیں۔ اسی بات کو اللہ نے یہاں جنگ بدر کی مثال دے کر ارشاد فرمایا ہے کہ تم نے قتل نہیں کیا بلکہ ان کفار کو اللہ نے قتل کیا ہے۔ اس کے حکم کے بغیر تمہاری کیا مجال تھی کہ تم دشمن کا بال بھی بیکا کرسکتے۔ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ خاک کی مٹھی آپ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ گویا ہم نے پھینکی تھی ورنہ یہ نتیجہ کبھی ظہور میں نہ آتا۔ واقعہ یہ ہے کہ جہاد بدر میں دشمنوں کی بڑی تعداد دیکھ کر اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی جواب میں اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور کہا کہ ایک مٹھی بھر ریت لشکرکفار کی طرف پھینک دیجئے آپ نے ایسا ہی کیا ہر کافر جنگجو کی آنکھوں میں وہ ذرے پہنچ گئے وہ وقتی طور پر دیکھنے سے محروم ہوگئے اتنی دیر میں مسلمانوں کے تیروں نے ان میں تباہی مچا دی۔ اللہ نے ان آیتوں میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اے مجاہدو ! تم اپنی کوششوں اور سعی و عمل پر ناز نہ کرو یہ تو اللہ کی فتح و نصرت تھی جس نے قدم قدم پر تمہارا ساتھ دیا۔ جس کے حکم سے فرشتے آئے، بارش برسائی گئی اور تم تازہ دن ہوگئے کفار قتل ہوئے اور خاک کے ذرات نے اپنا کرشمہ دکھایا تمہارے ہاتھ پاؤں دل و دماغ تیرو تفنگ جو استعمال کئے گئے ہیں تو محض اس لئے کہ تمہاری آزمائش ہو تم جنت کے حق قرار پائو اور کافروں کو معلوم ہوجائے کہ لشکر ہو یا کروفر ان کی ہر چال کو الٹ دیا جائے گا اس بات کی مزید وضاحت اس کے بعد کی آیات میں فرمائی گئی ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : غزوۂ بدر کے واقعات کا بیان جاری ہے۔ زمانۂ قدیم اور آج بھی بنیادی طور پر جنگ دو طرح لڑی جاتی ہے۔ گوریلا وار، اور ایک دوسرے کے آمنے سامنے برسرپیکار ہونا۔ بدر کا معرکہ فریقین کے آمنے سامنے کی لڑائی تھی۔ جس کے لیے ” زَحْفاً “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ زحفا بچے کے گھسٹ گھسٹ کر چلنے کو کہا جاتا ہے۔ لشکر بڑا ہو تو وہ بھی اپنے ساز و سامان کے ساتھ سست رفتاری سے چلتا ہے۔ بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار کی تعداد ایک ہزار تھی اور ان کے ساتھ گھوڑے، خچر اور اونٹ بھی تھے۔ جس کی نقشہ کشی لفظ ” زَحْفاً “ کے ذریعے کی گئی ہے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب دشمن سامنے ہو یا مسلمانوں پر جنگ مسلط کردی جائے تو اس صورت میں پیٹھ پھیر کر بھاگنے کے بجائے جان پر کھیل جانا چاہیے۔ جو مجاہد دشمن کے مقابلے میں پیٹھ پھیر کر بھاگے گا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے ساتھ لوٹے گا۔ اگر وہ اسی حالت میں مرجائے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا کیونکہ اس نے اسلام کی سربلندی اور مسلمانوں کے مفاد پر اپنے آپ اور اپنے مفاد کو ترجیح دی۔ البتہ جنگی حکمت عملی کے تحت مورچہ چھوڑنا یا ایک محاذ کے بجائے اپنے کمانڈر کے حکم پر دوسرے محاذ پر جانا یا دشمن پر حملہ آور ہونے کے لیے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ملنے کی خاطر پیچھے پلٹتا ہے تو اس پر کوئی جرم نہیں۔ کیونکہ حالت جنگ میں یہ تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے۔ حالت جنگ میں بھاگنا اس لیے سنگین جرم ہے کہ ایک شخص کے بھاگنے سے دوسرے ساتھیوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں۔ اس طرح بھاگنا مسلمان کی غیرت کے منافی ہے۔ جنگ سے فرار موت کے ڈر سے ہوتا ہے۔ جبکہ موت کی جگہ اور وقت مقرر ہے لہٰذا بھاگنا بزدلی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ قَالُوا یَا رَسُول اللّٰہِ وَمَا ہُنَّ قَال الشِّرْکُ باللّٰہِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِی حَرَّمَ اللّٰہُ إِلَّا بالْحَقِّ وَأَکْلُ الرِّبَا وَأَکْلُ مَالِ الْیَتِیمِ وَالتَّوَلِّی یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَات) [ رواہ البخاری : کتاب الحدود، باب رمی المحصنات ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان نقل کرتے ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو۔ صحابہ کرام (رض) نے استفسار کیا۔ اے اللہ کے رسول ! وہ کون سی ہیں ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، کسی کو ناجائز قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال ہڑپ کرنا، لڑائی کے دن میدان سے بھاگنا، معصوم اور بےگناہ عورتوں پر الزام لگانا۔ “ مسائل ١۔ مجاہد کو میدان کارزار میں دشمن کے خلاف ڈٹ کر لڑنا چاہیے۔ ٢۔ حالت جنگ میں پیٹھ پھیرنا سنگین جرم ہے۔ ٣۔ میدان جنگ سے بھاگنے والے پر اللہ کا غضب ہوتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جہاد میں ثابت قدم رہنے کا حکم : ١۔ مسلمانوں کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو۔ (الانفال : ١٥) ٢۔ جب کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں اڑادو۔ (محمد : ٤) ٣۔ غم نہ کرو تم ہی غالب آؤ گے اگر تم ایماندار ہو۔ (آل عمران : ١٣٩) ٤۔ اے ایمان والو ! جب کسی لشکر سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو۔ (الانفال : ٤٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب جبکہ سابقہ واقعات بیان ہوگئے تو اس حقیقت کو ان کے ذہن نشین کرنے کے لیے دوبارہ بیان کیا جاتا ہے تاکہ یہ ان کی نظروں کے سامنے رہے کہ فیصلہ کن جنگ صرف سازوسامان اور زاد و عتاد پر موقوف نہیں ، بلکہ اس میں نصرت الٰہی اور اللہ کی تدبیر اور مشیت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔ اس راہ میں اصل سازوسامان توکل علی اللہ ہوتا ہے۔ اللہ کی طرف التجا اور اللہ کے ہاں فریاد وزاری اور اللہ کی تدبیر اور تقدیر اس میں فیصلہ کن ہوتی ہے۔ یہ منظر ابھی تک ان لوگوں کے ذہنوں میں اچھی طرح بیٹھا ہوا ہے۔ ایسے حالات اور ایسا ماحول اس بات کے لیے نہایت ہی مناسب ہوتا ہے اور اس میں بات مانی جاتی ہے۔ چناچہ ایسے ماحول میں مسلمانوں کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ ان کی صفت ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ جب کفار کے بالمقابل کھڑے ہوں تو ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں اور فرار اور ہزیمت کو ہرگز قبول نہ کریں۔ خصوصاً جبکہ نصرت اور ہزیمت اللہ کے اختیار میں ہوتی ہے اور اس پر تمہارا ایمان ہے۔ نصرت اور ہزیمت کا فیصلہ صرف اسباب ظاہریہ پر ہی نہیں ہوتا ، خصوصاً جبکہ کسی معرکے کی تدبیر اور کمان خود اللہ نے اپنے ہاتھ میں لی ہوئی ہو۔ جیسا کہ تمام امور کی تدبیر وہی کرتا ہے اور وہی ہے جو مومنین کے ہاتھوں کفار کو قتل کراتا ہے۔ وہی ہے جو تیرے کو نشانے پر بٹھاتا ہے۔ اہل ایمان تو دست قدرت کے لیے ایک پردہ اور بہانہ ہیں اور اللہ اس بہانہ سے انہیں جہاد کا ثواب عطا کرتا ہے اور کافروں کو مسلمانوں کی نسبت سے مرعوب کرتا ہے۔ ان کی تدبیر کی چولیں ڈھیلی کرتا ہے اور دنیا و آخرت میں انہیں عذاب سے دوچار کرتا ہے اس لیے کہ وہ درحقیقت اللہ اور رسول سے محاذ آرائی کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔ ” يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دو چار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو “ قرآن نے اس معاملے میں جو سخت انداز گفتگو اختیار کیا ہے اور سخت سزا تجویز کی ہے اور فیصلہ یہ کیا ہے کہ جو شکست کھاتے ہوئے بھاگے وہ غضب الہی کا مستحق ہوگا اور اس کا ٹھکانا جہنم میں ہوگا۔ یہ ڈراوا ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جب تم ایک لشکر کی صورت میں کفار سے دو چار ہو تو ان کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیرو۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری۔ الا یہ کہ نگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا۔ اس کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ بہت بری جائے باز گشت ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب تم حالت ” زحف “ میں ہو یعنی جنگ میں دوبدو مقابلہ آن پڑے تو اس وقت فرار اختیار نہ کرو الا یہ کہ یہ فرار کسی جنگی چال کی صورت میں ہو ، کہ تم بہترین مواقع کے لیے فرار اختیار کر رہے ہو یا کوئی اور بہترین منصوبے کی خاطر فرار کا حکم دیا گیا ہو۔ یا تم کسی دوسری جنگی کمپنی سے ملنے کے لیے فرار اختیار کر رہے ہو۔ یا تم جنگی ہیڈ کو ارٹرز کی طرف بھاگ رہے ہو تاکہ دوبارہ حملہ کرسکو۔ ان حالات کے سوا کسی اور صورت میں اگر تم دشمن کو پیٹھ دکھاؤ گے تو تم عذاب کے مستحق بن جاؤگے تم پر اللہ کا غضب ہوگا اور تمہارا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ بعض اقوال ایسے منقول ہوئے ہیں کہ یہ حکم صرف اہل بدر کے لیے تھا یا ایسے غزوات کے لیے تھا کہ جن میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بذات خود شریک ہوا کرتے تھے لیکن جمہور علماء اور مفسرین کا قول یہ ہے کہ یہ آیت اور حکم عام ہے اور یہ کہ دو بدو مقابلے سے بھاگنا ان سات گناہ ہائے کبیرہ میں سے ایک ہے جن کے بارے میں حضور نے لفظ ” مولفات “ استعمال کیا ہے۔ بخاری اور مسلم نے ابوہریرہ کی روایت نقل کی ہے کہ حضور نے فرمایا سات ان گناہوں سے اجتناب کرو جو مولفات ہیں۔ کہا گیا حضور وہ کیا ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا الشرک باللہ ، سحر ، ایسے شخص کا قتل جس کا قتل حرام ہو ، اکل ربا ، اکل مال یتیم ، دو بدو جنگ میں پیٹھ پھیرنا اور محض بیخبر مومن عورتوں پر الزام لگانا۔ امام ابوبکر الجصاص نے احکام القرآن میں اس کے بارے میں تفصیلات دی ہیں یہاں ان پر نظر ڈالنا مفید رہے گا۔ ” اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ” وَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ “ ابو نضرہ نے اوب سعید سے یہ نقل کیا ہے کہ یہ یوم بدر کے معاملے میں تھا کیونکہ اس دن وہ بھاگ کر کس سے ملتے ؟ صرف یہ صورت تھی کہ وہ مشرکین سے ملتے۔ کیونکہ مسلمان تو ان کے سوا کوئی تھا نہیں۔ اور حجور نے سب لوگوں کو حکم نہ دیا تھا کہ وہ نکلیں ، اور نہ ان لوگوں کی رائے تھی کہ جنگ ہوجائے۔ سب کا خیال یہ تھا کہ قافلے کے ساتھ ہی مڈ بھیڑ ہوگی۔ حضور ایک خفیف سی قوت لے کر نکلے۔ لہذا ابو نضرہ کا کہنا کہ اس دن ان لوگوں کے سوا اور کوئی مسلمان نہ تھا اور اگر وہ بھاگتے تو صرف کفار کی طرف بھاگ جاتے ، غلط ہے اور دلیل وہی ہے جو ہم نے بیان کی۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ جنگ بدر کے دن ان کے لیے بھاگنا اور پیٹھ پھیرنا اس لیے جائز نہ تھا کہ اس دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں موجود تھے اور حضور کو چھوڑ کر بھاگنا جائز نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” ماکان لاھل المدینۃ ومن حولہم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللہ ولا یرغبو بانفسہم عن نفسہ : اہل مدینہ اور اس کے ماحول میں رہنے والے اعراب مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھور کر بیٹھے رہتے اور اس کی طرف سے بےپرواہ ہو کر اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے “۔ اس لیے ان کے لیے یہ جائز نہ تھا کہ وہ اپنے نبی کو ناکام بناتے اور اسے چھور کر دشمن کے حوالے کردیتے۔ اگرچہ اللہ اس کا کفیل تھا اور ان کا مددگار تھا۔ اس نے ذمہ داری قبول کی تھی کہ اسے کافروں سے بچائے گا۔ جیسا کہ کہا گیا واللہ یعصمک من الناس۔ اللہ ٓپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ لہذا ان پر حضور کی مدد کرنا فرض تھا۔ چاہے دشمن زیادہ ہو یا قلیل ہو۔ اور ان لوگوں کی دلیل یہ بھی ہے کہ اس دن حجور ہی ایک دستہ تھے اور جنگ میں پیٹھے پھیرنا اس شرط پر جائز تھا کہ وہ مجاہدین کی کسی دوسری کمپنی کی طرف پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ حضور اس دن واحد گروہ تھے ، کوئی اور گروہ بدریوں کے علاوہ کسی جگہ تعینات نہ تھا۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ میں ایک لشکر میں تھا۔ لوگوں نے یکبارگی حملہ کیا اور ہم مدینہ کی طرف لوٹ آئے۔ ہم نے کہا کہ ہم تو بھاگنے والوں میں سے ہیں۔ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہارے لیے فئہ ہوں۔ اس لیے جو شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دور ہو اور وہ واپس آجائے تو اس کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس واپس ہونا جائز ہے۔ اور اگر حضور جنگ میں موجود ہوں تو پھر کوئی ایسا گروہ موجود نہ ہوگا جس کے ساتھ ملنے کے لیے فوجیوں کے لیے بھاگنا جائز ہو۔ وَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ۔ اور جو شخص اس دن پیٹھ کفار کی طرف پھیرے گا۔ اس آیت کے بارے میں ابن الحسن کہتے ہیں کہ اہل بدر پر بہت ہی سختی سے احکامات نافذ کرائے گئے اور یہ آیت ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعان انما استزلہم الشیطن ببعض ما کسبوا۔ وہ لوگ جو اس دن بھاگ گئے جس دن دو فوجوں کا آمنا سامنا ہوا ، ان کو شیطان نے ان کی بعض بد اعمالیوں کی وجہ سے پھسلا دیا۔ اس لیے کہ یہ لوگ حضور سے بھاگ گئے تھے۔ نیز حنین کی جنگ میں بھی یہ لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھور کر بھاگ گئے تھے۔ اس لیے اللہ نے اس فعل پر ان کو سزا دی۔ ” ویوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم و لیتم مدبرین۔ اور حنین کے دن کو یاد کرو جب تمہاری کثرت نے تمہیں غرور میں ڈال دیا تھا لیکن اس کثرت نے تمہیں کوئی فائدہ نہ دیا۔ اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے۔ تو یہ تھا حکم اس حالت کے لیے جب حضور ان کے ساتھ تھے۔ چاہے دشمن کم ہو یا زیادہ۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے کوئی رعایت نہیں دی۔ ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ” يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا : اے نبی مومنوں کو جنگ پر ابھارو ، اگر تم میں بیس آدمی صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو منکرین حق میں سے ہزار آدمیوں پر بھاری رہیں گے۔ یہ حکم اس وقت کے لیے تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس نہ ہوتے ، واللہ اعلم۔ ایسے حالات میں پہلے حکم یہ تھا کہ بیس دو سو سے مقابلہ کریں گے اور میدان چھوڑ کر نہ بھاگیں گے اور اگر دشمن اس تعداد سے زیادہ ہو تو پھر بہترین صورت میں حملے کے لیے پیچھے ہٹنا جائز ہوگا۔ لیکن یہ حکم بعد میں منسوخ ہوگیا اور دوسری آیت نازل ہوئی۔ ” الآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ : اچھا اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کردیا ، اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے ، پس اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوں وہ دو سو پر اور ہزار آدمی ایسے ہوں تو وہ تو دوہزار پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں گے “ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ پہلے فرض یہ کیا گیا تھا کہ ایک آدمی دس سے نہیں بھاگے گا۔ پھر اسے کم کردیا گیا اور کہا گیا کہ الئٰن خفف اللہ عنکم و علم ان فیکم ضعفا : اچھا رب نے تمہارا بوجھ ہلکا کردیا اور اسے معلوم ہوا کہ ابھی تم میں کمزوری ہے۔ اب فرض یہ عائد ہوا کہ ایک صد دو صد سے نہ بھاگیں گے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اب حکم یہ ہے کہ اگر ایک شخص دو سے بھاگے تو یہ فرار ہوگا اور اگر کوئی تین کے مقابلے میں بھاگ جائے تو فرار نہ ہوگا۔ شیخ کہتے ہیں کہ یہاں فرار سے مراد وہ فرار ہے جو اس آیت میں مقصود ہے۔ ٓآیت نے یہ فرض کیا ہے کہ ایک آدمی دو کے مقابلے میں ڈٹ جائے گا اور اگر دو سے زیادہ تعداد ہو تو پھر مجاہد کے لیے دوبارہ جنگ کی تیار کی نیت سے اور فوج کے ساتھ ملنے کی غرض سے فرار جائز ہے۔ لیکن اگر ایک شخص ایسے غیر مسلم مسلمانوں کی طرف فرار کرتا ہے تو بھی وہ اس وعید کا مستحق ہوگا جو اس آیت میں وارد ہے۔ کیونکہ آیت میں حکم ہے : وَمَنْ يُّوَلِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ دُبُرَهٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَيِّزًا اِلٰي فِئَةٍ فَقَدْ بَاۗءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ ۔ جس نے ایسے موقع پر پیٹھ پھیری۔ الا یہ کہ نگی چال کے طور پر ایسا کرے یا کسی دوسری فوج سے جا ملنے کے لیے۔ تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں ہر مسلمان کے لیے دوسری فوج (فئہ) ہوں۔ حضرت عمر ابن الکطاب وک جب معلوم ہوا کہ ابو عبید ابن مسعود نے ایک لشکر کے ساتھ جنگ کی اور شہید ہوگئے لیکن بھاگے نہیں تو انہوں نے کہا ” اللہ ابو عبید پر رحم کرے اگر وہ میری طرف واپس آجاتا تو میں اس کے لیے دوسری فوج ہوتا۔ اور جب ابو عبید کے ساتھی واپس آئے تو حضرت عمر نے کہا میں تمہارے لیے دوسری فوج ہوں۔ آپ نے ان رپ کوئی سختی نہ کی اور نہ باز پرس کی۔ یہی حکم ہمارے ہاں ہے (یعنی حنفیہ کے نزدیک جب تک مسلمانوں کی فوج کی تعداد 21 ہزار تک نہیں پہنچ جاتی کیونکہ 21 ہزار کے لیے اپنے مقابلے میں ہٹنا جائز نہیں ہے۔ اگر ان کی تعداد دگنی ہو الا یہ کہ وہ جنتگی چال کے طور پر ایسا کریں جنگی چال یہ کہ وہ ایک مورچے سے دوسرے مورچے میں چلے جائیں ، یا کوئی دوسری چال اختیار کریں جس میں جنگ سے فرار کا عنصر نہ ہو۔ یا دوسری فوج اور یونٹوں سے ملیں۔ محمد ابن الحسن سے مذکور ہے کہ اگر فوج 21 ہزار تک پہنچ جائے تو اس پر فرض ہے کہ ہر صورت میں دشمن کا مقابلہ کرے۔ اس بارے میں حنفیہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حنفیہ نے حدی زہری سے استدلال کیا ہے جو انہوں نے عبیداللہ ابن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے حضور سے یہ روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا : ” اچھے ساتھی چار ہیں اور اچھے فوجی دستے چار سو ہیں اور اچھے لشکر چار ہزار ہیں اور 21 ہزار افراد کے لشکر کو قلیل نہ سمجھا جائے گا اور نہ ہی وہ مغلوب ہوں گے “ بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں : ” کہ تم میں سے کوئی قوم بھی اگر 21 ہزار ہو تو مغلوب نہ ہوگی بشرطیکہ کہ اس میں اتحاد ہو “ امام طحاوی نے یہ نقل کیا ہے کہ امام مالک سے پوچھا گیا : ” کیا ہمارے لیے ایسے شخص کے خلاف جہاد و قتال سے رکنا جائز ہے جو احکام الہی کی پیروی نہیں کرتا اور اللہ کے سوا دوسروں کے احکام کے مطابق فیصلے کرتا ہے تو انہوں نے کہا کہ اگر تمہارے جیسے 21 ہزار افراد موجود ہوں تو پیچھے ہٹنا منع ہے۔ اور اگر اس قدر افراد نہ ہوں تو تمہارے لی گنجائش ہے کہ قتال نہ کرو “۔ اور یہ سائل عبداللہ ابن عمر ابن عبدالعزیز تھے۔ ابن عبداللہ ابن عمر تھے۔ اور یہ بات اس رائے کے مطابق ہے جو محمد ابن الحسن سے نقل کی گئی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے 12 ہزار کے بارے میں جو روایت ہے وہ اس موضوع پر اصل اور اصول ہے۔ اگرچہ کافروں کی تعداد بہت زیادہ ہو۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ فرار اختیار کریں۔ اگرچہ وہ ان سے کئی گنا زیادہ ہوں کیونکہ حضور نے جو شرط لگائی ” اگر ان کے اندر اتحاد ہوـ تو اس سے حضور اکرم ان پر اتحاد کرنا فرض کردیا ہے۔ اس طرح ابن عربی نے بھی اپنی کتاب احکام القرآن میں یہ تفصیلات دی ہیں۔ انہوں نے اس حکم کے بارے میں یہ کہا ہے : اس بارے میں اختلاف ہے کہ جنگ کے میدان سے فرار کی ممانعت یوم بدر کے لیے مخصوص تھی یا قیامت تک یہی حکم ہے۔ ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ یہ ممانعت یوم بدر کے ساتھ مخصوص تھی۔ کیونکہ اس دن کے لیے دوسری فوج صرف رسول اللہ کی ذات ہی تھی۔ یہی رائے نافع ، حسن ، قتادہ ، یزید ، ابن حبیب اور ضحاک کی ہے۔ ” حضرت ابن عباس اور تمام دوسرے علماء سے یہ روایت ہے کہ یہ حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے اور جن لوگوں نے اسے یوم بدر کے ساتھ مخصوص کیا ہے انہوں نے ومن یولہم یومئذ دبرہ سے استدلال کیا ہے کہ اس سے مراد بدر ہے حالانکہ یومئذ سے مراد یوم الزحف ہے یعنی مطلق جنگ کا دن۔ ” اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ آیات یوم بدر کی قتال کے بعد نازل ہوئیں اور ان کے نزول کے وقت جنگ بدر ختم ہوچکی تھی۔ اور اس دن جو ہونا تھا ، وہ ہوچکا اور نبی صلی اللہ سے یہ بات ثابت ہے جیسا کہ اس سے قبل ہم حدیث نقل کر آئے کہ کبائر یہ ہیں۔ اور ان میں سے جنگ کے دن بھاگنے کو بھی شمار کیا گیا اور یہ اس مسئلہ پر نص صریح ہے جس کے بعد اختلاف رفع ہوجانا چاہیے اور ہم نے اس نکتے پر متنبہ کردیا ہے جس کی وجہ سے بعض لوگوں کو یہ اشکال پیش آیا کہ اس سے مراد یوم بدر ہے۔ ہمارے خیال میں ابن عربی نے تمام علماء کی جو رائے نقل کی ہے اور ابن عباس سے بھی وہی منقول ہے ، ہم بھی اسی کی طرف جاتے ہیں۔ اس لیے کہ جنگ کی صفوں سے بھاگ نکلنا ایک نہایت ہی برا فعل ہے اور اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تحریکی اعتبار سے بھی اور اعتقادی اور نظریاتی اعتبار سے بھی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

جب کافروں سے مقابلہ ہو تو جم کر قتال کرو اس آیت میں اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ جب کافروں سے مقابلہ ہوجائے تو جم کر لڑیں پشت پھیر کر نہ بھاگیں۔ کیونکہ یہ گناہ کبیرہ ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو، عرض کیا گیا یا رسول اللہ وہ کیا ہے ؟ فرمایا (١) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا (٢) جادو کرنا (٣) کسی جان کو قتل کرنا جس کا قتل اللہ نے حرام قرار دیا الایہ کہ حق کے ساتھ ہو (٤) سود کھانا (٥) یتیم کا مال کھانا (٦) جنگ کے موقعہ پر پشت پھیر کر چلا جانا (٧) مومن پاک دامن عورتوں کو تہمت لگانا جن کو برائی کا دھیان تک نہیں ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ٧١) آیت بالا میں فرمایا کہ جو شخص جنگ کے موقعہ پر پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے وہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں آگیا اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ اسی لیے علماء کرام نے فرمایا کہ جہاد سے بھاگنا حرام ہے۔ دو صورتیں مستثنیٰ ہیں : البتہ دو صورتیں ایسی ہیں کہ ان میں پشت پھیر کر چلا جانا جائز ہے ایک تو یہ کہ مقصود بھاگنا نہ ہو بلکہ اسے بطور ایک تدبیر کے اختیار کر رہا ہو۔ بظاہر جا رہا ہو (جس سے دشمن یہ سمجھے کہ یہ شکست کھا گیا) اور حقیقت میں واپس ہو کر حملہ کرنے کی نیت رکھتا ہو، جس کو اردو کے محاورہ میں پینترا بدلنا کہتے ہیں۔ اس کو (مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ ) سے تعبیر فرمایا یا کہ جس جگہ جنگ کر رہا ہو اسے چھوڑ کر ایسی جگہ چلا جائے جو قتال کے لیے زیادہ مناسب ہو یا کافروں کی ایک جماعت کو چھوڑ کر دوسری جماعت کی طرف چلا جائے آیت کے الفاظ اس سب کو شامل ہیں۔ دوسری صورت جس میں پشت پھیر کر جانے کی اجازت ہے وہ یہ ہے کہ کوئی جنگ کرنے والا مسلمان، مسلمانوں کی کسی جماعت کے پاس چلا جائے تاکہ ان کو ساتھ ملا لے اور ان کو ساتھ لے کر جنگ کرے اس کو مُتَحَیّزًا اِلٰی فِءَۃٍ سے تعبیر فرمایا۔ صحابہ (رض) کا ایک واقعہ : حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے بیان فرمایا کہ کافروں سے لڑنے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارا ایک چھوٹا سا دستہ بنا کر بھیجا اس موقعہ پر کافروں نے حملہ کیا اس کی وجہ سے ہم لوگ محاذ چھوڑ آئے، اور مدینہ منورہ آگئے اور یہ سمجھ کر کہ ہم ہلاک ہوگئے رو پوش ہوگئے پھر آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم تو راہ فرار اختیار کرنے والوں میں سے ہیں آپ نے فرمایا (نہیں) بلکہ تم لوگ جماعت کی طرف ٹھکانہ پکڑنے والے ہو اور میں تمہاری جماعت ہوں (آپ کا مطلب یہ تھا کہ قرآن مجید میں جو دو صورتوں میں بھاگنے کی اجازت دی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنی جماعت کی طرف ٹھکانہ پکڑے۔ لہٰذا تم ان لوگوں میں شمار ہو جو اپنے لشکر اور جماعت کی طرف پناہ لینے کے لیے آئے، مدینہ میں آنا میرے پاس آنا ہے اور میرے ساتھ مسلمانوں کی جماعت ہے۔ تم اپنی جماعت کی طرف آئے ہو اپنے کو ہلاک نہ سمجھو) ۔ (رواہ الترمذی فی اواخر ابواب الجہاد) فائدہ : حدیث کی تصریح سے (جس میں سات کبائر بیان کیے گئے ہیں) اور آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ دو صورتوں کے علاوہ میدان جہاد کو چھوڑ کر بھاگ جانا گناہ کبیرہ ہے کیونکہ قرآن مجید میں (فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ مَاْوٰیہُ جَھَنَّمُ ) فرمایا ہے البتہ دیگر معاصی کبیرہ کی طرح توبہ کرنے سے یہ گناہ بھی معاف ہوجاتا ہے جیسا کہ غزوۂ حنین کے شرکاء کے بارے میں فرمایا (ثُمَّ یَتُوْبُ اللّٰہُ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ ) بارہ ہزار کا لشکر کبھی مغلوب نہ ہوگا : فقہاء نے لکھا ہے کہ یہ میدان چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے کی حرمت اس صورت میں ہے جبکہ کافروں کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے کم ہو یا برابر یاد گنی ہو یا زائد تو ہو لیکن دو گنی سے کم ہو۔ اگر کافروں کی تعداد دو گنی سے زیادہ ہو تو راہ فرار اختیار کرنا جائز ہے ان حضرات کا استدلال آیت شریفہ (فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّاءَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا ماءَتَیْنِ ) سے ہے اور صاحب روح المعانی نے حضرت امام محمد بن الحسن سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ مسلمانوں کا لشکر بارہ ہزار ہو تو میدان چھوڑ کر بھاگنا جائز نہیں ہے کیونکہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ لن یغلب اثنا عشر الفاً من قلۃ یعنی بارہ ہزار کا لشکر قلت کی وجہ سے ہرگز مغلوب نہ ہوگا (رواہ الترمذی) جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہے تو بارہ ہزار مسلمانوں کا لشکرہونے کی صورت میں میدان چھوڑ کر چلے جانے کی اجازت نہیں ہے خواہ دشمنوں کا لشکر کتنا بھی زیادہ ہو اور یہ بات بارہا آزمائی جا چکی ہے۔ بارہ ہزار کا لشکر قلت کی وجہ سے مغلوب نہ ہوگا۔ اخلاص نہ ہونے یا اعجاب نفس کی وجہ سے مغلوبیت ہوجائے یہ دوسری بات ہے (کماوقع غزوۃ حنین) غزوۂ بدر میں کافروں کی تعداد تین گنا تھی پھر بھی فرار کی اجازت نہ تھی کیونکہ اس وقت تک آیت کریمہ (اَلْءٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ ) نازل نہیں ہوئی تھی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15: مضمون ثانی (قوانین جہاد): یہاں سے قوانین جہاد کا بیان شروع ہوا، یہ پہلا قانون جہاد ہے۔ “ زَحْفًا ” بمعنی اسم فاعل “ کَفَرُوْا ” کی ضمیر سے حال واقع ہے۔ یعنی جب میدان جنگ میں کافروں کے لشکر سے مڈ بھیڑ ہوجائے اور وہ متحد ہو کر انبوہ در انبوہ مقابلہ میں آیا ہو تو پیٹھ پھیر کر مت بھاگو بلکہ جوانمردی اور ثابت قدمی سے اس کا مقابلہ کرو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

15 اے ایمان والو ! جب تمہارا ایسے لوگوں سے مقابلہ ہوجائے جنہوں نے راہ کفر و انکار اختیار کررکھی ہے اور تم ان سے بھڑجائو کہ میدانِ نجگ میں آمنے سامنے آجائو تو پھر ان منکروں کو پشت نہ دکھائو اور پیٹھ دکھا کر ان کو لوٹو نہیں۔ یعنی بھاگو نہیں۔