Surat ul Anfaal

Surah: 8

Verse: 9

سورة الأنفال

اِذۡ تَسۡتَغِیۡثُوۡنَ رَبَّکُمۡ فَاسۡتَجَابَ لَکُمۡ اَنِّیۡ مُمِدُّکُمۡ بِاَلۡفٍ مِّنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ مُرۡدِفِیۡنَ ﴿۹﴾

[Remember] when you asked help of your Lord, and He answered you, "Indeed, I will reinforce you with a thousand from the angels, following one another."

اس وقت کو یاد کرو جب تم کہ اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے پھر اللہ تعالٰی نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دونگا جو لگاتار چلے آئیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Muslims invoke Allah for Help, Allah sends the Angels to help Them Allah said; إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَليِكَةِ مُرْدِفِينَ (Remember) when you sought help of your Lord and He answered you (saying): "I will help you with a thousand of the angels Murdifin." Al-Bukhari wrote in the book of battles (in his Sahih) under "Chapter; Allah's statement, إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ ((Remember) when you sought help of your Lord and He answered you) until, فَإِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (then verily, Allah is severe in punishment)" (8:9-13) that Ibn Mas`ud said, "I was a witness to something that Al-Miqdad bin Al-Aswad did, that I would like more than almost anything else to have been the one who did it. Al-Miqdad came to the Prophet while he was invoking Allah against the idolators and proclaimed, `We will not say as the people of Musa said, "So go you and your Lord and fight you two." Rather, we will fight to your right, to your left, before you and behind you.' I saw the Prophet's face beaming with pleasure because of what Al-Miqdad said to him." Al-Bukhari next narrated from Ibn Abbas that on the day of Badr, the Prophet said, اللَّهُمَّ أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ اللَّهُمَّ إِنْ شِيْتَ لَمْ تُعْبَد O Allah! I invoke You for Your covenant and promise (victory). O Allah! If You decide so (cause our defeat), You will not be worshipped. Abu Bakr held the Prophet's hand and said, "Enough." The Prophet went out proclaiming, سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُر Their multitude will be put to flight, and they will show their backs. An-Nasa'i also collected this Hadith. Allah's statement, بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَليِكَةِ مُرْدِفِينَ (with a thousand of the angels Murdifin), means, they follow each other in succession, according to Harun bin Hubayrah who narrated this from Ibn Abbas, about, مُرْدِفِينَ (Murdifin), meaning each behind the other in succession. Ali bin Abi Talhah Al-Walibi reported that Ibn Abbas said, "Allah supported His Prophet and the believers with a thousand angels, five hundred under the leadership of Jibril on one side and five hundred under the leadership of Mika'il on another side." Imams Abu Jafar bin Jarir At-Tabari and Muslim recorded that Ibn Abbas said that Umar said, "While a Muslim man was pursuing an idolator (during the battle of Badr), he heard the sound of a whip above him and a rider saying, `Come, O Hayzum!' Then he looked at the idolator, who fell to the ground. When he investigated, he found that the idolator's nose had wound and his face torn apart, just as if he received a strike from a whip on it, and the entire face had turned green. The Ansari man came to the Messenger of Allah and told him what had happened and the Messenger replied, صَدَقْتَ ذَلِكَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاءِ الثَّالِثَة You have said the truth, that was from the reinforcements from the third heaven. The Muslims killed seventy (pagans) in that battle and captured another seventy. Al-Bukhari also wrote a chapter in his Sahih about the participation of the angels in Badr. He collected a Hadith from Rifa`h bin Rafi Az-Zuraqi, who participated in Badr, Jibril came to the Prophet and asked him, "How honored are those who participated in Badr among you?" The Prophet said, مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِين Among the best Muslims. Jibril said, "This is the case with the angels who participated in Badr." Al-Bukhari recorded this Hadith. At-Tabarani also collected it in Al-Mu`jam Al-Kabir, but from Rafi` bin Khadij, which is an apparent mistake. The correct narration is from Rifa`h, as Al-Bukhari recorded it. In the Two Sahihs, it is recorded that; the Messenger of Allah said to Umar, when Umar suggested that the Prophet have Hatib bin Abi Balta`ah executed, إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللهَ قَدِ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِيْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُم He (Hatib) participated in Badr. How do you know that Allah has not looked at the people of Badr and proclaimed, `Do whatever you want, for I have forgiven you.' Allah said next,

سب سے پہلا غزوہ بدر بنیاد لا الہ الا اللہ مسند احمد میں ہے کہ بدر والے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی طرف نظر ڈالی وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے پھر مشرکین کو دیکھا ان کی تعدد ایک ہزار سے زیادہ تھی ۔ اسی وقت آپ قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے چادر اوڑھے ہوئے تھے اور تہبند باندھے ہوئے تھے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا شروع کی کہ الٰہی جو تیرا وعدہ ہے اسے اب پورا فرما الٰہی جو وعدہ تو نے مجھ سے کیا ہے وہی کر اے اللہ اہل اسلام کی یہ تھوڑی سی جماعت اگر ہلاک ہو جائے گی تو پھر کبھی بھی تیری توحید کے ساتھ زمین پر عبادت نہ ہوگی یونہی آپ دعا اور فریاد میں لگے رہے یہاں تک کہ چادر مبارک کندھوں پر سے اتر گئی اسی وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے آپ کی چادر اٹھا کر آپ کے جسم مبارک پر ڈال کر ( پیچھے سے آپ کو اپنی باہوں میں لے کر ) کو آپ کو وہاں سے ہٹانے لگے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب بس کیجئے آپ نے اپنے رب سے جی بھر کر دعا مانگ لی وہ اپنے وعدے کو ضرور پورا کرے گا اسی وقت یہ آیت اتری ۔ اس کے بعد مشرک اور مسلمان آپس میں لڑائی میں گتھم گتھا ہوگئے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو شکست دی ان میں سے ستر شخص تو قتل ہوئے اور ستر قید ہوئے حضور نے ان قیدی کفار کے بارے میں حضرت ابو بکر حضرت عمر حضرت علی رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تو فرمایا رسول اللہ آخر یہ ہمارے کنبے برادری کے خویش و اقارب ہیں ۔ آپ ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیجئے مال ہمیں کام آئے گا اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ کل انہیں ہدایت دے دے اور یہ ہمارے قوت و بازو بن جائیں ۔ اب آپ نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا میری رائے تو اس بارے میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے کے خلاف ہے میرے نزدیک تو ان میں سے فلاں جو میرا قریشی رشتہ دار ہے مجھے سونپ دیجئے کہ میں اس کی گردن ماروں اور عقیل کو حضرت علی کے سپرد کیجئے کہ وہ اس کا کام تمام کریں اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے سپرد ان کا فلاں بھائی کیجئے کہ وہ اسے صاف کر دیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ ظاہر کر دیں کہ ہمارے دل ان مشرکوں کی محبت سے خالی ہیں ، اللہ رب العزت کے نام پر انہیں چھوڑ چکے ہیں اور رشتہ داریاں ان سے توڑ چکے ہیں ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ سرداران کفر ہیں اور کافروں کے گروہ ہیں ۔ انہیں زندہ چھوڑنا مناسب نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مشورہ قبول کیا اور حضرت عمر کی بات کی طرف مائل نہ ہوئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دوسرے دن صبح ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رو رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ آخر اس رونے کا کیا سبب ہے؟ اگر کوئی ایسا ہی باعث ہو تو میں بھی ساتھ دوں ورنہ تکلف سے ہی رونے لگوں کیونکہ آپ دونوں بزرگوں کو روتا دیکھتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا یہ رونا بوجہ اس عذاب کے ہے جو تیرے ساتھیوں پر فدیہ لے لینے کے باعث پیش ہوا ۔ آپ نے اپنے پاس کے ایک درخت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا دیکھو اللہ کا عذاب اس درخت تک پہنچ چکا ہے اسی کا بیان آیت ( مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67؀ ) 8- الانفال:67 ) سے ( فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا ڮ وَّاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 69؀ۧ ) 8- الانفال:69 ) تک ہے ـ پس اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت حلال فرمایا پھر اگلے سال جنگ احد کے موقعہ پر فدیہ لینے کے بدلے ان کی سزا طے ہوئی ستر مسلمان صحابہ شہید ہوئے لشکر اسلام میں بھگدڑ مچ گئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے چار دانت شہید ہوئے آپ کے سر پر جو خود تھا وہ ٹوٹ گیا چہرہ خون آلودہ ہو گیا ۔ پس یہ آیت اتری ( اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْھَا ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى هٰذَا ۭ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١٦٥؁ ) 3-آل عمران:165 ) ، یعنی جب تمہیں مصیبت پہنچی تو کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آ گئی؟ جواب دے کہ یہ خود تمہاری اپنی طرف سے ہے ۔ تم اس سے پہلے اس سے دگنی راحت بھی تو پا چکے ہو یقین مانو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے مطلب یہ ہے کہ یہ فدیہ لینے کا بدل ہے یہ حدیث مسلم شریف وغیرہ میں بھی ہے ۔ ابن عباس وغیرہ کا فرمان ہے کہ یہ آیت انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بارے میں ہے اور روایت میں ہے کہ جب حضور نے دعا میں اپنا پورا مبالغہ کیا تو حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ اب مناجات ختم کیجئے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ آپ سے کیا ہے وہ اسے ضرور پورا کرے گا ۔ اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت مقداد بن اسود نے ایک ایسا کام کیا کہ اگر میں کرتا تو مجھے اپنے اور تمام اعمال سے زیادہ پسندیدہ ہوتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مشرکوں پر بد دعا کر رہے تھے تو آپ آئے اور کہنے لگے ہم آپ سے وہ نہیں کہیں گے جو قوم موسیٰ نے کہا تھا کہ خود اپنے رب کو ساتھ لے کر جا اور لڑ بھڑ لو بلکہ ہم جو کہتے ہیں وہ کر کے بھی دکھائیں گے چلئے ہم آپ کے دائیں بائیں برابر کفار سے جہاد کریں گے آگے پیچھے بھی ہم ہی ہم نظر آئیں گے میں نے دیکھا کہ ان کے اس قول سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے اور آپ کا چہرہ مبارک چمکنے لگا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس دعا کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے تشریف لائے کہ عنقریب مشرکین شکست کھائیں گے اور پیٹھ دکھائیں گے ( نسائی وغیرہ ) ارشاد ہوا کہ ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری امداد کی جائے گی جو برابر ایک دوسرے کے پیچھے سلسلہ وار آئیں گے اور تمہاری مدد کریں گے ایک کے بعد ایک آتا رہے گا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کے دائیں حصے میں آئے تھے جس پر کمان حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تھی اور بائیں حصے پر حضرت میکائیل علیہ السلام ایک ہزار فرشتوں کی فوج کے ساتھ اترے تھے ۔ اس طرف میری کمان تھی ایک قرأت میں مردفین بھی ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ ان دونوں فرشتوں کے ساتھ پانچ پانچ سو فرشتے تھے جو بطور امداد آسمان سے بحکم الٰحی اترے تھے ۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ ایک مسلمان ایک کافر پر حملہ کرنے کیلئے اس کا تعاقت کر رہا تھا کہ اچانک ایک کوڑا مانگنے کی آواز اور ساتھ ہی ایک گھوڑ سوار کی آواز آئی کہ اے خیروم آگے بڑھ وہیں دیکھا کہ وہ مشرک چت گرا ہوا ہے اس کا منہ کوڑے کے لگنے سے بگڑ گیا ہے اور ہڈیاں پسلیاں چور چور ہو گئی ہیں اس انصاری صحابی نے حضور سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تو سچا ہے یہ تیری آسمانی مدد تھی پس اس دن ستر کافر قتل ہوئے اور ستر قید ہوئے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب باندھا ہے کہ بدر والے دن فرشتوں کا اترنا پھر حدیث لائے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام حضور کے پاس آئے اور پوچھا کہ بدری صحابہ کا درجہ آپ میں کیسا سمجھا جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا اور مسلمانوں سے بہت افضل ۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا اس طرح بدر میں آنے والے فرشتے بھی اور فرشتوں میں افضل گنے جاتے ہیں ۔ بخاری اور مسلم میں ہے کہ جب حضرت عمر نے حضرت حاطب بن ابو بلتعہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا مشورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ نے فرمایا وہ تو بدری صحابی ہیں تم نہیں جانتے اللہ تعالیٰ نے بدریوں پر نظر ڈالی اور فرمایا تم جو چاہے کرو میں نے تمہیں بخش دیا ۔ پھر فرماتا ہے کہ فرشتوں کا بھیجنا اور تمہیں اس کی خوشخبری دینا صرف تمہاری خوشی اور اطمینان دل کے لئے تھا ورنہ اللہ تعالیٰ ان کو بھیجے بغیر بھی اس پر قادر ہے جس کی جاہے مدد کرے اور اسے غالب کر دے ۔ بغیر نصرت پروردگار کے کوئی فتح پا نہیں سکتا اللہ ہی کی طرف سے مدد ہوتی ہے جیسے فرمان ہے آیت ( فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۭ حَتّىٰٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ڎ فَاِمَّا مَنًّـۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَاڃ ذٰ۩لِكَ ړ وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ ۭ وَالَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَلَنْ يُّضِلَّ اَعْمَالَهُمْ Ć۝ ) 47-محمد:4 ) ، کافروں سے جب میدان ہو تو گردن مارنا ہے جب اس میں کامیابی ہو جائے تو پھر قید کرنا ہے ۔ اس کے بعد یا احسان کے طور پر چھوڑ دینا یا فدیہ لے لینا ہے یہاں تک کہ لڑائی موقوف ہو جائے یہ ظاہری صورت ہے اگر رب چاہے تو آپ ہی ان سے بدلے لے لے لیکن وہ ایک سے ایک کو آزما رہا ہے اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے ۔ انہیں اللہ تعالیٰ راہ رکھائے گا اور انہیں خوشحال کر دے گا اور جان پہچان کی جنت میں لے جائے گا اور آیت میں ہے ( وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ ١٤٠؁ۙ ) 3-آل عمران:140 ) یہ دن ہم لوگوں میں گھماتے رہتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ جانچ لے اور شہیدوں کو الگ کر لے ظالموں سے اللہ ناخوش رہتا ہے اس میں ایمانداروں کا امتیاز ہو جاتا ہے اور یہ کفار کے مٹانے کی صورت ہے ۔ جہاد کا شرعی فلسفہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکوں کو موحدوں کے ہاتھوں سزا دیتا ہے ۔ اس سے پہلے عام آسمانی عذابوں سے وہ ہلاک کر دیئے جاتے تھے جیسے قوم نوح پر طوفان آیا ، عاد والے آندھی میں تباہ ہوئے ، ثمودی چیخ سے غارت کر دیئے گئے ، قوم لوط پر پتھر بھی برسے ، زمین میں بھی دھنسائے گئے اور ان کی بستیاں الٹ دی گئیں ، قوم شعیب پر ابر کا عذاب آیا ۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں دشمنان دین مع فرعون اور اس کی قوم اور اس کے لشکروں کے ڈبو دیئے گئے ۔ اللہ نے توراۃ اتاری اور اس کے بعد سے اللہ کا حکم جاری ہو گیا جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ 43؀ ) 28- القصص:43 ) پہلی بستیوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جو سوچنے سمجھنے کی بات تھی ۔ پھر سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ہاتھوں کافروں کو سزا دینا شروع کر دیا تاکہ مسلمانوں کے دل صاف ہو جائیں اور کافروں کی ذلت اور بڑھ جائے جیسے اس امت کو اللہ جل شانہ کا حکم ہے آیت ( قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14۝ۙ ) 9- التوبہ:14 ) ، اے مومنو! ان سے جہاد کرو اللہ انہیں تمھارے ہاتھوں سزا دے گا انہیں ذلیل کرے گا اور تمہیں ان پر مدد عطا فرما کر مومنوں کے سینے صاف کر دے گا ۔ اسی میدان بدر میں گھمنڈ و نخوت کے پتلوں کا ، کفر کے سرداروں کا ان مسلمانوں کے ہاتھ قتل ہونا جن پر ہمیشہ ان کی نظریں ذلت و حقارت کے ساتھ پڑتی رہیں کچھ کم نہ تھا ۔ ابو جہل اگر اپنے گھر میں اللہ کے کسی عذاب سے ہلاک ہو جاتا تو اس میں وہ شان نہ تھی جو معرکہ قتال میں مسلمانوں کے ہاتھوں ٹکڑے ہونے میں ہے ۔ جیسے کہ ابو لہب کی موت اسی طرح کی واقع ہوئی تھی کہ اللہ کے عذاب میں ایسا سڑا کہ موت کے بعد کسی نے نہ تو اسے نہلایا نہ دفنایا بلکہ دور سے پانی ڈال کر لوگوں نے پتھر پھینکنے شروع کئے اور انہیں میں وہ دب گیا ۔ اللہ عزت والا ہے پھر اس کا رسول اور ایماندار ۔ دنیا آخرت میں عزت اور بھلائی ان ہی کے حصے کی چیز ہے جیسے ارشاد ہے ہے آیت ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51؀ۙ ) 40-غافر:51 ) ، ہم ضرور بضرور اپنے رسولوں کی ، ایماندار بندوں کی اس جہان میں اور اس جہان میں مدد فرمائیں گے ۔ اللہ حکیم ہے گو وہ قادر تھا کہ بغیر تمہارے لڑے بھڑے کفار کو ملیامیٹ کر دے لیکن اس میں بھی اس کی حکمت ہے جو وہ تمہارے ہاتھوں انہیں ڈھیر کر رہا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جب کہ کافر اس سے تین گنا (یعنی ہزار کے قریب تھے پھر مسلمانوں نہتے اور بےسروسامان تھے جب کے کافروں کے پاس اسلحے کی بھی فروانی تھی ان حالات میں مسلمانوں کا سہارا صرف اللہ کی ذات ہی تھی جس سے وہ گڑ گڑا کر مدد کی فریادیں کر رہے تھے خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الگ ایک خیمے میں نہایت الحاح وزاری سے مصروف دعا تھے (صحیح بخاری) چناچہ اللہ تعالیٰ نے دعائیں قبول کیں اور ایک ہزار فرشتے ایک دوسرے کے پیچھے مسلسل لگاتار مسلمانوں کی مدد کے لئے آگئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] عریش میں آپ کی دعا :۔ جب بدر کے مقام پر دونوں لشکروں نے آمنے سامنے ڈیرہ ڈال لیا اور آپ نے دیکھا کہ مسلمان کافروں کے مقابلہ میں تہائی سے بھی کم ہیں، نہتے بھی ہیں اور سامان رسد بھی موجود نہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے لیے ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا، جسے عریش کہتے ہیں۔ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ساری رات اللہ کے حضور دعاؤں اور آہ وزاری میں گزاردی، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا عمر (رض) فرماتے ہیں کہ بدر کے دن جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین پر نظر ڈالی تو وہ ایک ہزار تھے اور مسلمان ٣١٩ تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبلہ رو ہو کر دونوں ہاتھ پھیلا دیئے۔ پھر اپنے رب سے فریاد کرنے لگے آپ نے اس طرح دعا کی : & اے اللہ ! تو نے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کر۔ اے اللہ اگر مسلمانوں کی اس جماعت کو تو نے ہلاک کردیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ ہوگی۔ & آپ کافی دیر قبلہ رو ہو کر ہاتھ پھیلائے رہے۔ یہاں تک کہ چادر آپ کے کندھوں سے گرگئی۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) آئے۔ انہوں نے چادر اٹھا کر آپ کے کندھوں پر ڈالی۔ پھر پیچھے سے آپ کے ساتھ چمٹ گئے اور کہا : اے اللہ کے نبی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب سے آہ وزاری کرنے میں حد کردی۔ بیشک اللہ آپ سے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم، کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر ) [ ١١] فرشتوں کا نزول :۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اسے اوپر سے ایک کوڑے کی آواز آئی اور سوار کی بھی آواز آئی، وہ سوار کہہ رہا تھا کہ حیزوم (غالباً اس کے گھوڑے کا نام تھا) آگے بڑھ۔ اتنے میں اس مسلمان نے دیکھا کہ وہ کافر اس کے سامنے چت پڑا ہے۔ اس کی ناک پر نشان تھا اور اس کا سر پھٹ گیا تھا۔ گویا کسی نے اسے کوڑا مارا ہے۔ پھر اس کا سارا جسم سبز ہوگیا۔ وہ انصاری حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم سچ کہتے ہو۔ یہ فرشتے تیسرے آسمان سے مدد کے لیے آئے تھے۔ (مسلم، کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر ) ٢۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : & یہ جبریل امین ہیں اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے اور ان پر لڑائی کے ہتھیار ہیں۔ & (بخاری، کتاب المغازی، باب شھود الملائکۃ بدرا) انہی سے روایت ہے کہ مسلمانوں نے ستر کافروں کو قتل کیا اور ستر کو قید کیا۔ (مسلم، کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر) نیز دیکھئے سورة آل عمران آیت ١٢٥)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ : اپنی تعداد، تیاری، اسلحہ کی کے تین گنا سے زیادہ اور ہر قسم کے اسلحے سے لیس ہونے کی وجہ سے سب مسلمان ہی اپنے پروردگار سے مدد کے لیے فریاد کر رہے تھے۔ خصوصاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو نہایت عجز اور الحاح کے ساتھ دعا فرما رہے تھے۔ عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ جب بدر کا دن ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کی طرف دیکھا، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے ساتھی تین سو انیس آدمی تھے، تو اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبلے کی طرف رخ کرکے ہاتھ پھیلا دیے اور اپنے رب سے بلند آواز سے فریاد کرنے لگے : ” اے اللہ ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ مجھ سے پورا کر، اے اللہ ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ مجھ سے پورا کر۔ اے اللہ ! اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ “ آپ اپنے رب سے بلند آواز سے فریاد کرتے رہے اور ہاتھ پھیلائے ہوئے دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی چادر کندھوں سے گرگئی تو ابوبکر (رض) آپ کے پاس آئے، آپ کی چادر پکڑی، اسے آپ کے کندھوں پر ڈالا، پھر پیچھے سے آپ سے چمٹ گئے اور کہا : ” اے اللہ کے نبی ! آپ کا اپنے رب کو قسم دینا آپ کے لیے کافی ہے، کیونکہ یقیناً وہ آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : (اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ ) پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ساتھ آپ کی مدد فرمائی۔ [ مسلم، الجہاد، باب الإمداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر۔۔ : ١٧٦٣ ] ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ابوبکر (رض) کے کہنے کے بعد آپ یہ کہتے ہوئے نکلے : (سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ) [ القمر : ٤٥ ] ” یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے۔ “ [ بخاری، المغازی، باب قول اللہ تعالیٰ : ( إذ تستغیثون ربکم۔۔ ) : ٣٩٥٣ ] اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ : ایک دوسرے کے پیچھے، یعنی پے در پے آنے والے ہیں۔ چناچہ بدر میں فرشتے نازل ہوئے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن فرمایا : ” یہ جبریل ہیں، اپنے گھوڑے کے سر (لگام) کو پکڑے ہوئے ہیں، لڑائی کے ہتھیار پہنے ہوئے ہیں۔ “ [ بخاری، المغازی، باب شہود الملائکۃ بدراً : ٣٩٩٥ ] یہاں ایک ہزار فرشتے اترنے کے وعدے کا ذکر ہے جو واقعی اترے۔ رفاعہ بن رافع قرظی بدری (رض) سے روایت ہے کہ جبریل (علیہ السلام) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، پوچھا : ” تم اہل بدر کو اپنے میں کیسا شمار کرتے ہو ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مسلمانوں کے سب سے بہتر لوگ۔ “ یا اس کے ہم معنی کوئی بات کہی۔ (جبریل (علیہ السلام) نے) فرمایا : ” اسی طرح وہ فرشتے بھی (افضل) ہیں جو بدر میں شریک ہوئے تھے۔ “ [ بخاری، المغازی، باب شہود الملائکۃ بدرًا : ٣٩٩٢ ] سورة آل عمران میں تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں کے وعدے کا ذکر ہے، تطبیق کے لیے دیکھیے آل عمران (١٢٤، ١٢٥) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In substance, what Muslims are being chastised for is their choice of an option which was laced with timidity, desire to relax, and was a thing of temporal benefit. Contrary to that, the intention made by Allah Ta` ala was based on high determination, great objectives and benefits which were perfect and eternal. Then, in the second verse (8), it was further clarified by saying that there was nothing outside the power and control of Allah Ta` ala. If He had so willed, Muslims would have triumphed over the trading caravan, but He deemed it compat¬ible with the station and majesty of the Messenger of Allah, and his noble Companions (رض) that the confrontation should be against the armed force which should result in their conquest, so that it becomes all too clear that truth is, after all, the truth and that falsehood is, after all, nothing but falsehood. Noteworthy at this point is the question that Allah Ta` ala is All-Knowing, All-Aware and certainly cognizant of the beginning and the end of everything. What then was the expedient consideration behind this ambiguous promise - that Muslims will overcome anyone of the two groups? It seems possible that He could have pinpointed one group precisely and said that such and such group will be overtaken. The reason for this ambiguity - and Allah knows best - seems to be that this was designed to be a test of the noble Companions (رض) to determine whether they opt for the easy, or the difficult. Then, this was part of their moral training as well - through which they were taught a lesson in high determination, in the struggle for great objectives and in how not to be scared of impending dangers. Described in the third (9) and fourth (10) verses is what happened after Muslims stood combat ready against their armed opponents. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) saw that he has only three hundred and thirteen Companions (رض) by his side - and that too being mostly unarmed - and arrayed against them there was an armed force composed of one thousand strong men, then, he raised his hands of prayer before Allah Jalla thana&uh seeking his help and support. As he prayed, the noble Companions, may Allah be pleased with them all, said: آمِین &Amin& (Amen : So be it). Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) has reported the words of this du` a (prayer) made by the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم as given below in its translation: |"0 Allah! let the promise You have made to me comes true now. 0 Allah, if this modest group of Muslims were to perish, then, on Your earth, there shall remain no one to worship You. (Because, the earth is full of kufr and shirk and left here are these few Muslims who worship Allah as due).|" The Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم kept busy with his du&a, beseeching earnestly and plaintively so much so that the sheet wrap around his shoulders slided down. Sayyidna Abu Bakr (رض) stepped forward and put the sheet back on his blessed body and said to him: &Ya Rasul Allah, please worry no more. Allah Ta` ala will surely respond to your prayer and fulfill His promise.& This is the event referred to in the opening statement: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَ‌بَّكُمْ (when you were calling your Lord for help) of verse 9. It means that &worth remembering is the time when you were calling your Lord and appealing for His help and support.& This appeal for help was though from the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in fact but, since all Companions (رض) by his side were saying &Amin& (So be it), therefore, the statement was attributed to the whole group. Immediately after, there appears the statement which describes how this prayer has been answered. The words are: فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْ‌دِفِين (so he responded to you [ saying ]: &I am going to support you with one thousand of the angels, one following the other& - 9) The unmatched power with which Allah Ta` ala has blessed angels can be gauged from the event which transpired at the time the part of earth on which the people of Sayyidna Lut (علیہ السلام) lived was overturned upside down. This was done by Angel Jibra&il (علیہ السلام) with just one flick of his feather. So, there was no need to send such a large number of angels to participate in the combat - even one would have been more than enough. But, Allah Ta` ala knows the nature of His servants as they also get impressed with numbers. Therefore, the promise of sending angels was kept synchronized with the numbers of the adver¬sary in the combat, so that their hearts are put at rest fully and comprehensively.

تیسری اور چوتھی آیتوں میں اس واقعہ کا بیان ہے جو مصلح فوج سے مقابلہ ٹھن جانے کے بعد پیش آیا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ دیکھا کہ آپ کے رفقاء صرف تین سو تیرہ اور وہ بھی اکثر غیر مصلح ہیں اور مقابلہ پر تقریبا ایک ہزار جوانوں کا مصلح لشکر ہے تو اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں نصرت و امداد کی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔ آپ دعا مانگتے تھے اور صحابہ کرام آپ کے ساتھ آمین کہتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کے یہ کلمات نقل فرمائے ہیں : یا اللہ مجھ سے جو وعدہ آپ نے فرمایا ہے اس کو جلد پورا فرمادے۔ یا اللہ اگر یہ تھوڑی سی جماعت مسلمین فنا ہوگئی تو پھر زمین میں کوئی تیری عبادت کرنے والا باقی نہ رہے گا ( کیونکہ ساری زمین کفر و شرک سے بھری ہوئی ہے یہی چند مسلمان ہیں جو صحیح عبادت بجالا تے ہیں ) ۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برابر اسی طرح الحاح وزاری کے ساتھ دعا میں مشغول رہے یہاں تک کہ آپ کے شانوں سے چادر بھی سرک گئی، حضرت ابوبکر صدیق نے آگے بڑھ کر چادر اوڑھائی اور عرض کیا یا رسول اللہ آپ زیادہ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ آپ کی دعا ضرور قبول فرمائیں گے اور اپنا وعدہ پورا فرمائیں گے۔ آیت میں اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ کے الفاظ سے یہی واقعہ مراد ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ وقت یاد رکھنے کے قابل ہے جب تم اپنے رب سے استغاثہ کر رہے تھے اور مدد طلب کر رہے تھے یہ استغاثہ اگرچہ دراصل رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ہوا تھا مگر تمام صحابہ آمین کہہ رہے تھے اس لئے پوری جماعت کی طرف منسوب کیا گیا۔ اس کے بعد اس دعا کی قبولیت کا بیان اس طرح فرمایا (آیت) فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سن لی اور فرمایا کہ ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری امداد کروں گا جو یکے بعد دیگرے قطار کی صورت میں آنے والے ہوں گے۔ فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے جو بےنظیر قوت و طاقت عطا فرمائی ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے جو قوم لوط (علیہ السلام) کی زمین کا تختہ الٹنے کے وقت پیش آیا کہ جبریل امین نے ایک پر کے ذریعہ یہ تختہ الٹ دیا۔ اسی بےمثال طاقت والے فرشتوں کی اتنی بڑی تعداد مقابلہ میں بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی ایک بھی کافی تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی فطرت سے واقف ہیں کہ وہ تعداد سے بھی متاثر ہوتے ہیں اس لئے مقابل فریق کی تعداد کے مطابق فرشتوں کی تعداد بھیجنے کا وعدہ فرمایا تاکہ ان کے قلوب پوری طرح مطمئن ہوجائیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَ۝ ٩ غوث ( استغاث) الغَوْثُ يقال في النّصرة، والغَيْثُ في المطر، واسْتَغَثْتُهُ : طلبت الغوث أو الغیث، فَأَغَاثَنِي من الغوث، وغَاثَنِي من الغیث، وغَوَّثت من الغوث، قال تعالی: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ [ الأنفال/ 9] ، وقال : فَاسْتَغاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] ، وقوله : وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغاثُوا بِماءٍ كَالْمُهْلِ [ الكهف/ 29] ، فإنّه يصحّ أن يكون من الغیث، ويصحّ أن يكون من الغوث، وکذا يُغَاثُوا، يصحّ فيه المعنیان . والغيْثُ : المطر في قوله : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید/ 20] ، قال الشاعر : سمعت النّاس ينتجعون غيثا ... فقلت لصیدح انتجعي بلالا ( غ و ث) الغوث کے معنی مدد اور الغیث کے معنی بارش کے ہیں اور استغثتہ ض ( استفعال ) کے معنی کسی کو مدد کے لیے پکارنے یا اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنا آتے ہیں جب کہ اس معنی مدد طلب کرنا ہو تو اس کا مطاوع اغاثنی آئیگا مگر جب اس کے معنی بارش طلب کرنا ہو تو اس کا مطاوع غاثنی آتا ہے اور غوثت میں نے اس کی مدد کی یہ بھی غوث سے مشتق ہے جس کے معنی مدد ہیں قرآن پاک میں ہے :إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ [ الأنفال/ 9] جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے ۔ فَاسْتَغاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص/ 15] تو جو شخص ان کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دشمنوں میں سے تھا ، موسیٰ سے مدد طلب کی ۔ اور آیت کر یمہ ؛وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغاثُوا بِماءٍ كَالْمُهْلِ [ الكهف/ 29] اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی دادرسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم ہوگا ۔ میں یستغیثوا غوث ( مدد ما نگنا) سے بھی ہوسکتا ہے ۔ اور غیث ( پانی مانگنا ) سے بھی اسی طرح یغاثوا ( فعل مجہول ) کے بھی دونوں معنی ہوسکتے ہیں ( پہلی صورت میں یہ اغاث یعنی ( باب افعال ) سے ہوگا دوسری صورت میں غاث ، یغیث سے اور آیت کریمہ : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید/ 20] جیسے بارش کہ اس سے کھیتی اگتی اور کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے ۔ میں غیث کے معنی بارش ہیں چناچہ کو شاعر نے کہا ہے ۔ (332) سمعت الناس ینتجعون غیثا فقلت لصیدح انتجعی بلالا میں نے سنا ہے کہ لوگ بارش کے مواضع تلاش کرتے ہیں تو میں نے اپنی اونٹنی صیدح سے کہا تم بلال کی تلاش کرو ۔ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ( ج و ب ) الجوب الاستاأبتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ مد أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] والمُدُّ من المکاييل معروف . ( م د د ) المد کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان/ 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه/ 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور/ 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون/ 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح/ 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران/ 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل/ 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم/ 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف/ 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان/ 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف/ 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔ أَلْفُ (هزار) : العدد المخصوص، وسمّي بذلک لکون الأعداد فيه مؤتلفة، فإنّ الأعداد أربعة : آحاد وعشرات ومئات وألوف، فإذا بلغت الألف فقد ائتلفت، وما بعده يكون مکررا . قال بعضهم : الألف من ذلك، لأنه مبدأ النظام، وقیل : آلَفْتُ الدراهم، أي : بلغت بها الألف، نحو ماءیت، وآلفت «1» هي نحو أمأت . الالف ۔ ایک خاص عدد ( ہزار ) کا نام ہے اور اسے الف اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں اعدار کے تمام اقسام جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ اعداد کی چار قسمیں ہیں ۔ اکائی ، دہائی ، سینکڑہ ، ہزار تو الف میں یہ سب اعداد جمع ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو عدد بھی ہو مکرر آتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ الف حروف تہجی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ میرا نظام بنتا ہے ۔ الفت الدراھم میں نے درہموں کو ہزار کردیا جسطرح مائیت کے معنی ہیں میں نے انہیں سو کر دیا ۔ الفت وہ ہزار کو پہنچ گئے جیسے امات سو تک پہنچ گئے ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ ردف الرِّدْفُ : التابع، ورِدْفُ المرأة : عجیزتها، والتَّرَادُفُ : التتابع، والرَّادِفُ : المتأخّر، والمُرْدِفُ : المتقدّم الذي أَرْدَفَ غيره، قال تعالی: فَاسْتَجابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ [ الأنفال/ 9] ، قال أبو عبیدة : مردفین : جائين بعد «1» ، فجعل رَدِفَ وأَرْدَفَ بمعنی واحد، وأنشدإذا الجوزاء أَرْدَفَتِ الثّري وقال غيره : معناه مردفین ملائكة أخری، فعلی هذا يکونون ممدّين بألفین من الملائكة، وقیل : عنی بِالْمُرْدِفِينَ المتقدّمين للعسکر يلقون في قلوب العدی الرّعب . وقرئ مُرْدِفِين أي : أُرْدِفَ كلّ إنسان ملکا، ( ومُرَدَّفِينَ ) يعني مُرْتَدِفِينَ ، فأدغم التاء في الدّال، وطرح حركة التاء علی الدّال . وقد قال في سورة آل عمران : أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ بَلى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هذا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُسَوِّمِينَ. وأَرْدَفْتُهُ : حملته علی رِدْفِ الفرس، والرِّدَافُ : مرکب الرّدف، ودابّة لا تُرَادَفُ ولا تُرْدَفُ وجاء واحد فأردفه آخر . وأَرْدَافُ الملوکِ : الذین يخلفونهم . ( ر د ف) الردف تابع یعنی ہر وہ چیز جو دوسرے کے پیچھے ہو اور ردف المرءۃ کے معنی عورت کے سرین کے ہیں ۔ الترادف یکے بعد دیگرے آنا ۔ ایک دوسرے کی پیروی کرنا ۔ الرادف ۔ متاخر یعنی پچھلا ۔ المردف اگلا جس نے اپنے پیچھے کسی کو سوار کیا ہو ۔ قرآن میں ہے : فَاسْتَجابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَالْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ [ الأنفال/ 9] سو اس نے تمہاری سن لی ( اور فرمایا ) کہ ہم لگاتار ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کریں گے ۔ ابو عبیدہ کے نزدیک ردف واردف یعنی مجرد اور مزید فیہ ایک ہی معنی میں آتے ہیں اس لئے انہوں نے مردفین کا معنی بعد میں آنے والے کیا ہے ۔ اور یہ شاید پیش کیا ہے ۔ (179) |" اذا الجوزاء اردفت الثریا |" جب ثریا کے پیچھے جوزاء ستار نگل آیا ۔ مگر ابو عبیدہ کے علاوہ دوسرے علماء نے مردفین کے معنی یہ کئے ہیں کہ |" دوسرے فرشتوں کو پیچھے لانے والے |" تو اس لحاظ سے گویا دو ہزار فرشتوں کے ساتھ مسلمانوں کی مدد کی گئی تھی ۔ بعض نے کہا ہے مردفین سے مراد وہ فرشتے ہیں ۔ جو اسلامی لشکر کے آگے چلتے تھے تاکہ کفار کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیں ۔ اور ایک قرات میں مردفین فتح دال کے ساتھ ہے یعنی ہر ایک مسلمان فوجی کے پیچھے اس کی مدد کے لئے ایک فرشتہ متعین تھا ۔ ایک اور قرآت میں مردفین بتشدید دال ہے جو دراصل مردفین باب افتعال سے ہے ۔ صرفی قاعدہ کے مطابق تاء کو دال میں ادغام کر کے اس کی حرکت دال کو دے دی گئی ہے ۔ سورة آل عمران میں ہے : أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ بَلى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هذا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُسَوِّمِينَ. کیا تم کو اتنا کافی نہیں کہ تمہارا رب ( آسمان سے ) تین ہزار فرشتے بھیج کر تمہاری مدد فرمائے ( ضرور کافی ہے ) بلکہ اگر تم ثابت قدم رہو ( اور خدا اور رسول کی نافرمانی سے ) بچو اور دشمن ( ابھی ) اسی دم تم پر چڑھ آئیں تم تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا جو بڑی سج دھج سے آموجود ہوں گے ۔ وأَرْدَفْتُهُ : میں نے اسے اپنے پیچھے سوار کیا ۔ والرِّدَافُ : سواری پر ردلف کے بیٹھنے کی جگہ ۔ ودابّة لا تُرَادَفُ ولا تُرْدَفُ : سواری جو ردیف کو سوار نہ ہونے دے ۔ وجاء واحد فأردفه آخر : ایک کے بعد دوسرا آیا ۔ وأَرْدَافُ الملوکِ : بادشاہو

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

فرشتوں کے ذریعہ مدد قول باری ہے فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملائکۃ مردفین وما جعلہ اللہ الا بشری ولتطمین بہ قلوبکم۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لئے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لئے بتادی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل مطمئن ہوجائیں) یہ تمام باتیں واقعاتی طور پر اسی طرح پیش آئیں جس طرح آیت میں بتائی گئی تھیں اور اس طرح یہ باتیں مسلمانوں کے دلوں میں طمانیت کا ذریعہ بن گئیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩) بدر کے روز جب تم لوگ مدد کے لیے دعا کررہے تھے، پھر تمہاری پکار سن لی گئی کہ ایک ہزار فرشتوں سے میں تمہاری مدد کروں گا جو سلسلہ وار چلے آئیں گے۔ شان نزول : (آیت) ” اذ تستغیثون ربکم فاستجاب “۔ (الخ) حضرت امام ترمذی (رح) نے حضرت عمر فاروق (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین مکہ کو دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپ کی جماعت کے لوگ تین سو تیرہ تھے، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبلہ رخ ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر اپنے پروردگار سے دعا کرنے لگے کہ یا الہ العالمین جو آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اس کو پورا کر، یا الہ العالمین مسلمانوں کی اگر یہ جماعت ہلاک ہوجائے گی تو پھر زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی، آپ قبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے اپنے ہاتھوں کو دراز کیے ہوئے اپنے پروردگار سے دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی چادر مبارک گرگئی، حضرت ابوبکر صدیق (رض) حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کی چادر مبارک اٹھا کر آپ کے کندھوں پر ڈالی پھر آپ کو پیچھے کی طرف سے چمٹ گئے۔ اور عرض کرنے لگے، اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار سے آپ کی آہ وزاری بہت ہوگئی وہ ضرور اس چیز کو پورا کرے گا جس کا اس نے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، چناچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی فرشتوں کے ذریعے سے مدد فرمائی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ (اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلآءِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ ) قریش کے ایک ہزار کے لشکر کے مقابلے میں تمہاری مدد کے لیے ایک ہزار فرشتے آسمانوں سے قطار در قطار اتریں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٩۔ صحیح مسلم ترمذی ‘ نسائی اور مسند امام احمد بن حنبل میں چند صحابہ کی روایتوں سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا اصل یہ ہے کہ جب آنحضرت نے مشرکین کی فوج کی ہزار آدمی اور اپنی طرف کے صرف کچھ اگلے تین سو آدمی دیکھے تو آپ کو بڑا اندیشہ ہوا اس لئے جس صبح کو مقابلہ ہونے والا تھا اس رات آپ نے تمام رات اللہ سے مدد اور فتح کی دعا بڑی عاجزی سے دعا مانگی اتنے میں ذرا آپ کو اونگھ آگئی اور پھر آپ مسکراتے ہوئے اٹھے حضرت ابوبکر (رض) سے فرمایا تم کو میں حوشخبری سناتا ہوں کہ اللہ کی مدد آن پہنچی دیکھو ایک طرف جبرئیل پانسو فرشتوں کی فوج سے اور دوسری طرف میکائیل پانسو فرشتوں کو فوج سے لشکر اسلام کے دائیں بائیں موجود ہیں فرشتے اگرچہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی اس لئے اس لڑائی میں فرشتے لڑے بھی ہیں باقی قصہ بدر کا سورة آل عمران میں گذر چکا ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کا یہ قصہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت سے ہے۔ اور صحیح مسلم کی روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے اس بات کی صراحت کردی ہے کہ انہوں نے یہ قصہ حضرت عمر (رض) سے سنا ہے حاصل کلام یہ ہے کہ اوپر یہ جو بیان ہوا تھا کہ بدر کی لڑائی میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) خود تو موجود تو موجود نہیں تھے لیکن بدر کی لڑائی کے قصوں کی ان کی روایتیں اسرائیل صحابہ کے طور پر ہوا کرتی ہے اب مسلم کی سند میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی یہ صراحت کہ انہوں نے یہ قصہ حضرت عمر (رض) سے سنا ہے اس اوپر کے بیان کی ایک مثال ہے اور اس دعا کے بعد فرشتوں کی مدد آنے کی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت جو صحیح بخاری میں ہے حافظ ابن حجر (رح) نے فتح الباری میں اس کا یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ روایت انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو دی تھی جس کا ذکر آیت کی شان نزول کی روایتوں میں گذر چکا ہے۔ صحیح بخاری میں انس بن مالک (رض) سے اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) سے اور معتبر سند سے مسند امام احمد میں عبداللہ بن عمر وبن العاص (رض) سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دعا کرنے والے ہر شخص کو چاہئے کہ دل لگا کر نہایت اصرار اور عاجزی سے دعا مانگے کیوں کہ اوپر دل سے جو دعا مانگی جاتی ہے وہ بارگاہ آلہی میں قبول نہیں ہوتی آیت کی شان نزول میں جو روایتیں گذریں ان کو اور ان روایتوں کو ملانے سے یہ مطلب سمجھ میں آجاتا ہے کہ بدر کی لڑائی سے پہلے آپ نے لشکر اسلام کی فتح کی دعا بڑی عاجزی اور اصرار سے اس لئے مانگی کہ آپ کی دعا رائیگاں نہ جاوے حاصل کلام یہ ہے کہ شان الہی کی پہچان میں نبی اور صدیق کے مرتبہ کا فرق اسی حالت سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اللہ کے رسول دعا کے وقت اپنی عاجزی اور اپنے اصرار سے نہیں گھبرائے بلکہ الہام آلہی کے موافق عاجزی اور اصرار کو دعا کے قبول ہونے کا سبب سمجھا ہاں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا مرتبہ نبوت سے کم تھا اس لئے وہ حضرت کی عاجزی اور آپ کے اصرار سے گھبرا گئے اس کے سوا یہاں بعضے صوفیہ نے کچھ اور باتیں جو لکھی ہیں ان کی تائید کسی صحیح حدیث سے نہیں ہوتی بدر کی لڑائی میں پہلے ہزار فرشتے آئے اور پھر دو دفعہ میں چار ہزار اور آئے غرض سب پانچ ہزار فرشتے آئے اسی واسطے اس آیت میں پہلی دفعہ کے ہزار فرشتوں کا ذکر ہے اور سورة آل عمران میں بیچ کے دفعہ کے تین ہزار اور آخری دفعہ کے پانچ ہزار کا ذکر ہے دونوں آیتوں میں کچھ اختلاف نہیں ہے۔ یہ دونوں آیتوں کی مطابقت ربیع بن انس کے قول کے موافق بیان کی گئی ہے۔ یہ ربیع بن انس حسن بصری اور قتادہ کی طرح تابعیوں میں کے قدیم مفسر ہیں صحاح ستہ میں ان کی روایتیں ہیں آیت مردفین ہزار فرشتوں کے ذکر کے بعد جو فرمایا اس ربیع بن انس کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کیونکہ مردفین کا بھی وہی مطلب ہے کہ ہزار فرشتوں کے بعد اور فرشتے آئے :۔ ١ ؎ الترغیب والترہیب ج ١ ص ٣٠١۔ الترہیب عن رفع المصلی راسہ الی اسلماء الخ

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(8:9) تستغیثون۔ تم فریاد کرتے ہو۔ تم فریاد چاہتے ہو۔ استغاثۃ (استفعال) سے کسی کو مدد کے لئے پکارنا۔ فاستغاثہ الذی من شیعتہ علی الذی من عدوہ (28:15) تو جو شخص ان کی قوم سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلہ میں جو موسیٰ (علیہ السلام) کے دشمنوں میں سے تھا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) سے مدد طلب کی۔ غیث مدد مانگنا اور پانی مانگنا بھی ہوسکتا ہے۔ غیث بمعنی بارش ۔ جیسے کمثل غیث اعجب الکفار نباتہ (57:10) جیسے بارش کہ اس سے کھیتی اگتی اور کسانوں کو بھلی لگتی ہے۔ استجاب۔ اس نے قبول کیا۔ اس نے مانا۔ استجابۃ (استفعال) سے مصدر جس کے معنی قبول کرنے اور ماننے کے ہیں۔ صیغہ واحد مذکر غائب ماضی معروف۔ ممدکم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ممد اسم فاعل واحد مذکر امداد (افعال) مصدر۔ مدد دینے والا۔ مردفین ۔ الردف۔ تابع۔ یعنی ہر وہ چیز جو دوسرے کے پیچھے ہو۔ لگاتار۔ پے در پے۔ ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یہ آنحضرت کی دعا کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ حضرت عمر (رض) سے رایت ہے کہ بدر کے روز کافروں کو تعداد ایک ہزار اور مسلمانوں کی تعاداد 317 تھی، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ صورت حال یہ دیکھی تو قبلہ رخ ہوئے اور ہاتھ اٹھاکر نہایت عاجزی سے دعا فرمانے لگے اے اللہ تو نے مجھ سے وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما اے اللہ۔ ! تو نے مجھے جس چیز کا وعدہ کیا ہے۔ وہ عطا فرما، اے اللہ ! اگر تو نے اہل اسلام کے اس گروہ کو ایک کر ڈالا تو روئے زمین پر تیری بندگی کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ ( مسلم، ابود اؤد)3 یا ایک ہزار پے در پے آنے والے فرشتوں سے تمہاری مدد کرو گا، چناچہ فرشتے نازل ہوئے اور انہوں نے جنگ میں شرکت کی جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے اور صحیح مخاری میں باب شھود الملاکتہ بدرا کے تحت رفاعتہ بن (رض) رافع بدری کی روایت ہے جس میں حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ ج جس طرح بدری صحابہ (رض) سب سے افضل ہیں اسی طرح جو فرشتے بدر میں حا ضر ہوئے وہ دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں ْ ۔ ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ تستغیثون۔ تم فریاد کرتے ہو۔ استجاب۔ جواب دیا۔ قبول کیا۔ ممد۔ مدد کرنے والا۔ الف۔ ہزار۔ مردفین۔ ایک کے بعد دوسرے کا آنا۔ لگاتار آنا۔ بشری۔ خوش خبری۔ لتطمئن۔ تاکہ مطمئن ہوجائیں۔ عزیز۔ زبردست۔ اللہ کی صفت ہے۔ یغشی۔ وہ چھا جاتا ہے۔ النعاس۔ اونگھ (نیند اور جاگنے کی درمیانی حالت) ۔ لیطھرکم۔ تاکہ وہ تمہیں پاک کردے۔ یذھب۔ وہ لے جاتا ہے۔ وہ جاتا ہے۔ رجز الشیطن۔ شیطان کی گندگی۔ لیربط۔ تاکہ وہ باندھ دے۔ یثبت۔ جما دیتا ہے۔ الاقدام۔ (قدم) قدم۔ ثبتوا۔ تم جما دو ۔ القی۔ میں ڈال دوں گا۔ الرعب۔ ہیبت۔ ڈر۔ اضربوا۔ مارو۔ سزا دو ۔ فوق۔ اوپر۔ الاعناق۔ (عنق) ۔ گردنیں۔ بنان۔ انگلیوں کے پورے۔ جوڑ جوڑ۔ شاقوا۔ نافرمانی کی۔ جھگڑا کیا۔ تشریح : یہاں پے در پے تین واقعات کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے جو رہتی دنیا تک اپنے اندر اہم سبق رکھتے ہیں۔ (1) پہلا واقعہ یہ ہے کہ جب نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بد رکی جنگ سے پہلے دونوں فوجوں کا جائزہ لیا تو آپ نے نہایت عاجزی اور انکساری سے اللہ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر یہ دعا فرمائی کہ اے اللہ آپ نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اس کو جلد پورا کر دیجئے کیونکہ اگر مسلمانوں کی یہ چھوٹی سی جماعت فنا ہوگئی تو پھر زمین میں آپ کی عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ اللہ نے آپ کی دعا کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لئے ایک ہزار فرشتے اس طرح بھیجوں گا جو مسلسل آتے رہے گے یہ بھی فرما دیا کہ یہ ایک خوشخبری ہے تاکہ مسلمانوں کو یقین ہوجائے کہ غیب کی مدد ان کے شامل حال ہے اور فتح یقینی ہے۔ (2) دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر نیند اور جاگنے کی درمیانی کیفیت اطمینان و سکون کی ” اونگھ “ طاری کردی۔ یہ ایک ایسی ہلکی سی اونگھ تھی کہ جب صحابہ کرام (رض) کی آنکھ کھلی تو وہ بالکل تازہ دم اور پرسکون تھے۔ دوسری طرف کفار مکہ نے آتے ہی سب سے پہلے میدان جنگ کے لئے اس علاقہ کا انتخاب کیا جہاں پانی تھا اور مسلمان جو پہاڑی کی طرف تھے وہ پانی سے محروم تھے۔ اللہ نے کرم فرمایا کہ تیز بارش برساد دی جس سے کفار کا میدان کیچڑ ہی کیچڑ ہوگیا جس میں چلنا پھرنا بھی دشوار ہوگیا تھا اور جو علاقہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ (رض) کے پاس تھا اس کی ریت دب گئی، پانی کا ذخیرہ کرلیا گیا۔ صحابہ کرام (رض) خوب نہا کر دھو کر تازہ دم ہوگئے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست سے مراد غسل کی حاجت بھی ہوسکتی ہے اور وہ خوف و ہر اس کی کیفیت بھی ہوسکتی ہے جس میں بعض صحابہ (رض) پریشان تھے۔ (3) تیسرا واقعہ وہ ہے جس کا تعلق پردہ غیب سے ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اہل ایمان جو تیر چلائیں اس کو نشانے پر لگا دو اور یہ نشانے کا فروں کی گردنوں اور جوڑ جوڑ پر لگیں اور مزید کرم یہ فرمایا کہ تمام فرشتوں سے ارشاد ہوا کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں اللہ نے یہ بھی فرما دیا کہ میں بہت جلد کافروں کے دلوں میں ایسی ہیبت اور رعب ڈال دوں گا کہ جس سے اللہ اور اس کے رسول کے دشمن شدید کرب میں مبتلا ہوجائیں گے اور اپنی حماقتوں کی آگ میں جلتے رہیں گے۔ ان آیات کا مطلب ایک ہی ہے کہ وہ عوامل جو ہمیں بہت زبردست اور دل ہلا دینے والے نظر آتے ہیں ان سے خوف کھانا اور پریشان ہونا بیکار ہے زیادہ اہم عوامل وہ ہیں جو نظر نہیں آتے مثلاً اللہ کی غیبی مدد فرشتوں کی آمد، بشارت، نندا، بارش، کفار کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ان سب چیزوں کا تعلق غیب سے ہے۔ فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مدینہ طیبہ سے نکلنا، اللہ تعالیٰ کی مشیت کے عین مطابق تھا۔ آپ نے بدر کے ریتلے علاقہ میں پڑاؤ ڈالا جس کا نقشہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات بھر اپنے رب کی بار گاہ میں آہ وزاری کے ساتھ دعا کرتے رہے۔ جس میں آپ اس حد تک اپنے رب کے حضور فریاد کناں ہوئے کہ اے بار الہا ! اگر یہ مٹھی بھر مسلمان ختم ہوگئے تو قیامت تک تیرا نام لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ان الفاظ کے پیچھے دو قسم کے محرکات تھے۔ ایک تو اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں انتہا درجہ کی عاجزی اور بےکسی کا اظہار۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اگر مکہ کے لوگ آج غالب آگئے تو وہ اگلے دن مدینہ میں کسی ایک مسلمان کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ انہی جذبات کے ساتھ اہل مکہ نے بدر کی طرف پیش قدمی کی تھی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کے بارے میں جمع کا جو لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس میں صحابہ کرام (رض) کو شامل فرمایا گیا ہے۔ امام رازی نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کرتے تھے اور آپ کے کیمپ میں موجود صحابہ آمین کہتے تھے اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے۔ جو فطرت کے زیادہ قریب ہے کہ تمام صحابہ رات کے وقت اپنے اپنے مقام پر اللہ تعالیٰ سے آرزوئیں کرتے رہے کہ اے مولائے کریم ! صبح دشمن کے مقابلے میں ہمیں کامیابی نصیب فرمانا۔ کوئی جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جاسکتی جب تک فوج کا ایک ایک سپاہی اپنی کامیابی اور دشمن کو ختم کرنے کے جذبات سے لبریز نہ ہو۔ اسی جذبہ کی یہاں ترجمانی کی گئی ہے کہ جب آپ اور آپ کے صحابہ اپنے رب کی بار گاہ میں فتح کی التجائیں کر رہے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعے انھیں ایک ہزار فرشتے نازل کرنے کی خوشخبری سنائی۔ (آل عمران ١٢٣، ١٢٤) یہ کمک اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنوں کی مدد، ان کے لیے فتح کی خوشخبری کا پیش خیمہ اور اطمینان قلب کا ذریعہ بنی۔ مدد کے لیے فرشتہ تو ایک ہی کافی تھا لیکن انسانی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے پے درپے اس مدد میں اضافہ فرما کر نہتے اور کمزور صحابہ (رض) کو شیروں سے زیادہ بہادر اور طاقت ور بنا دیا اور پھر اس کے ساتھ یہ کرم بھی فرمایا کہ رات کو تمام صحابہ (رض) کو خوب نیند آئی حالانکہ حالت جنگ میں نیندبہت ہی کم آیا کرتی ہے۔ کیونکہ خوف و خطر کی بنا پر اعصاب میں شدید تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ مزید اللہ کا یہ کرم ہوا کہ رات کو اچھی خاصی رحمت کی برکھا برسی جس سے میدان جنگ کی صورت حال واضح طور پر صحابہ کے حق میں ہوگئی اس سے پہلے اسلامی فوج میدان کے اوپر کی طرف تھی جو ریت اور ڈھلوان ہونے کی وجہ سے پاؤں کے پھسلنے کا مقام تھا۔ بارش ہونے کی وجہ سے کفار کا میدان دلدل بنا اور صحابہ (رض) کا حصہ ریت جمنے کی وجہ سے سخت ہوگیا۔ صحابہ (رض) نے بارش کا پانی جمع کرلیا جس سے صحابہ نے وضو اور غسل کیے۔ اس سے صحابہ اپنے آپ کو جسمانی اور ذہنی طور پر بھی تازہ دم محسوس کر رہے تھے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

تفسیر آیات 9 تا 14: اب سیاق کلام میں اس فیصلہ کن جنگ کے مناظر میں سے ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔ اس منظر سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جماعت مسلمہ کا حال کیسا تھا ، اور اللہ نے ان کے لیے کیسی تدابیر اختیار کیں اور اللہ کی تائید و نصرت ان کو محض مشیت الہیہ اور تائید ایزدی کی وجہ سے نصیب ہوئی۔ قرآن کریم کا بےمثال انداز بیان اس معرکے کے مشاہدات ، تاثرات ، واقعات ، پریشانیوں اور امیدوں کو نہایت ہی دقت سے قلم بند کرتا ہے اس طرح کہ قاری گویا اپنے اپ کو اس معرکے کے اندر محسوس کرے مگر قرآنی تبصرے کے ساتھ ، تاکہ وہ حقائق کو بدر سے وسیع تر دائرے میں سمجھیں۔ جزیرۃ العرب سے بھی ان کی نظر وسیع بلکہ ان کا نقطہ نظر پوری کائنات سے بھی زیادہ وسیع ہو۔ اس بیان میں اب اس معرکے کا پس منظر ملاء اعلی تک وسیع ہوجاتا ہے۔ اب یہ معرکہ یوم بدر سے بھی آگے ، پوری انسانی تاریخ سے بھی آگے بڑھ کر ، پوری دنیاوی زندگی کے دائرے سے بھی وسیع تر دار آخرت تک پہنچ جاتا ہے اور اس پیش منظر میں جماعت مسلمہ کو یہ شعور دیا جاتا ہے کہ اللہ کے ہاں اس کی کیا قدروقیمت ہے ، اس کے اعمال کس قدر اہم ہیں اور اس کی اقامت دین کی جدو جہد اور حرکت کس قدر مقدس ہے۔ یہ ایک معرکہ ہے جو اللہ کے امر اور اس کی مشیت کے مطابق چل رہا ہے۔ اللہ کا نظام قضا و قدر اور اس کی تدبیر خود کر رہا ہے۔ اللہ کے خاص دستے اس میں شریک ہیں۔ اس معرکے میں حرکت الابزن کے مناظر اور اس کی خطرناکیاں اور اس کی کامیابیاں قرآنی عبارات میں صاف نظر آرہی ہیں۔ یہ ایک زندہ منظر ہے اور یوں نظر آتا ہے کہ شاید یہ نظر ابھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس معرکے میں اہل ایمان کی فریاد کی تھی ؟ امام احمد حضرت عمر ابن الخطاب سے روایت کرتے ہیں ، جب بدر کا واقعہ درپیش ہوا ، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا کہ وہ تین سو سے کچھ اوپر ہیں اور جب کفار کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ ایک ہزار سے کچھ اوپر ہیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبلہ کی طرف چہرہ مبارک پھیرا ، آپ چادر اور تہہ بند اوڑھے ہوئے تھے اور کہا : اے اللہ آپ نے میرے ساتھ جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کردیجیے۔ اے اللہ اگر آج آپ نے اہل اسلام کے اس گروہ کو ہلاک کردیا تو پھر دنیا میں کبھی تیری بندگی نہ ہوگی " کہتے ہیں آپ اللہ کے سامنے اسی طرح فریاد کرتے رہے اور پکارتے رہے ، یہاں تک کہ آپ کے کاندھوں سے چادر گرگئی۔ حضرت ابوبکر آئے ، انہوں نے چادر کو پکڑا اور اسے اپنی جگہ پر رکھ دیا اور پیچھے سے اسے پکڑے رکھا اور اس کے بعد آپ نے کہا " اے اللہ کے نبی ، بس اللہ کے سامنے آپ کی یہ فریاد کافی ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ اس پر اللہ نے یہ آیات نازل کیں۔ "إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ (٩): اور وہ موقع جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں " یوم بدر میں فرشتوں کی تعداد اور ان کے طریقہ جنگ کے بارے میں متعدد اور مفصل روایات وارد ہیں۔ اور ان میں بتایا گیا ہے کہ وہ اہل ایمان کو کیا کہتے تھے اور کس طرح ان کو جرات دلاتے تھے اور کفار کو کیا کہتے تھے اور کس طرح انہیں شرمندہ کرتے تھے۔ لیکن ظلال القرآن میں ہمارا جو طریقہ ہے ، اس کے مطابق ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں کیونکہ یہ معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے بارے میں قرآن و سنت کی نصوص واضح ہیں۔ یہاں قرآنی آیات بالکل واضح ہیں۔ مثلاً : "إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ (٩): اور وہ موقع جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں "۔ یہ تو تھی ان کی تعداد۔ اور ان کا طریقہ جنگ یہ تھا : "إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الأعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ (١٢): اور وہ وقت جب کہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ، تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو ، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں ، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑ جوڑ پر چوٹ لگاؤ " یہ تھا ان کا عملی کام۔ اس سے مزید تفصیلات کی سرے سے ضرورت نہیں ہے کیونکہ آیت اپنے مفہوم میں واضح ہے۔ ہمیں اس قدر یقین کرلینا چاہیے کہ اس معرکے میں اللہ نے مسلمانوں کو اپنے حال پر نہ چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ تعداد و اسباب کے اعتبار سے بہت کم تھے اور جس طرح قرآن کریم کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے ، اسی انداز سے فرشتوں نے اس جنگ میں شرکت کی۔ امام بخاری باب ثہود الملائکہ بدر میں کہتے ہیں : ابن اسحاق سے ، جریر سے ، یحییٰ ابن سعید سے ، معاز ابن رفاعہ ابن رافع الرزقی سے ، اس کے باپ سے (اور یہ اہل بدر میں سے تھے) کہتے ہیں کہ جبرئیل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا تم اہل بدر کے بارے میں کیا خیال کرتے ہو ، آپ نے فرمایا " ہم ان کو افضل المسلمین سمجھتے ہیں۔ تو جبرئیل نے کہا اسی طرح ہم فرشتوں میں سے جو بدری تھے ، ان کو افضل سمجھتے ہیں۔ (بخاری)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

غزوۂ بدر کے موقعہ پر رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعا میں مشغول رہنا اور آپ کی دعا قبول ہونا قریش مکہ اپنے لشکر اور ساز و سامان اور گانے والی عورتیں لے کر بدر پہنچ گئے۔ یہ لوگ مکہ مکرمہ سے آئے تھے۔ آنحضرت سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی مدینہ منورہ سے روانہ ہو کر چند دن میں بدر پہنچ گئے۔ راستہ میں متعدد مراحل میں قیام فرمایا اور حضرت صحابہ سے مشورہ کیا جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔ صاحب روح المعانی ص ١٧٢ ج ٩ میں بحوالہ مسلم و ابو داؤد و ترمذی حضرت ابن عباس (رض) سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عمر بن الخطاب (رض) نے بتایا کہ بدر کے دن نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صحابہ پر نظر ڈالی تو یہ حضرات تین سو دس سے کچھ اوپر تھے (ان حضرات کی مشہور تعداد ٣١٣ ہے جیسا کہ صحیح بخاری ص ٥٦٤ میں ذکر ہے) اور مشرکین پر نظر ڈالی تو وہ ایک ہزار سے کچھ زیادہ تھے آپ نے قبلہ کی طرف رخ کیا پھر ہاتھ پھیلا کر اپنے پروردگار سے خوب زور دار دعا کرتے رہے دعاء کے الفاظ یہ ہیں اللّٰھُمَّ اَنْجِزْلِیْ مَا وَعَدْتَّنِی اَللّٰھُمَّ اِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعِصَابَۃَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْلَامِ لَا تُعْبَد فِی الْاَرْضِ (اے اللہ آپ نے جو مجھ سے وعدہ فرمایا ہے پورا فرمائیے اے اللہ اگر مسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین میں آپ کی عبادت نہ کی جائے گی) ۔ مطلب یہ تھا کہ یہ اہل اسلام کی مختصر سی جماعت ہے اگر یہ ہلاک ہوگئے تو جو ان کے پیچھے مدینہ منورہ میں رہ گئے ان میں بھی کمزوری آجائے گی اور ایمان و اسلام کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا پھر آپ کی عبادت کرنے والا کوئی نہ رہے گا۔ آپ نے یہ بات نیاز کے انداز میں بار گاہ الٰہی میں عرض کردی ورنہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اگر کوئی بھی نہ کرے اور کبھی بھی نہ کرے تو اس بےنیاز وحدہٗ لا شریک کو کوئی ضرر یا نقصان نہیں پہنچ سکتا (وہ کسی کی عبادت کا محتاج نہیں) آپ قبلہ رخ ہو کر ہاتھ پھیلائے ہوئے برابر اس دعاء میں مشغول رہے یہاں تک کہ آپ کی چادر بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کاندھوں سے گرگئی۔ حضرت ابوبکر (رض) حاضر خدمت ہوئے اور آپ کی چادر لے کر آپ کے مونڈھوں پر ڈال دی پھر آپ سے چھٹ گئے اور عرض کیا یا نبی اللہ ! بس کیجیے آپ نے جو اپنے رب سے بہت زور دار دعا کی ہے یہ کافی ہوگئی۔ بیشک آپ کا رب وعدہ پورا فرمائے گا۔ اس پر یہ آیت (فَاسْتَجَابَ لَکُمْ ) نازل ہوئی۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعا قبول فرمائی اور ایک ہزار فرشتوں کے ذریعے مدد کرنے کا وعدہ فرمایا جو مسلسل آگے رہیں گے، لفظ مردفین کا ایک معنی تو وہی ہے جو ہم نے ابھی لکھا (کہ مسلسل آتے رہیں گے) اور اس لفظ کے دوسرے معانی بھی مفسرین نے بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر فرشتے کے پیچھے ایک ایک فرشتہ ہوگا۔ (و ھو قریب من الاول) فرشتوں کا نازل ہونا اور مومنین کے قلوب کو اطمینان ہونا صاحب روح المعانی نے بحوالہ ابن جریر حضرت علی (رض) سے نقل کیا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) ہزار فرشتوں کو لے کر نازل ہوئے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے داہنی طرف تھے اور اسی جانب حضرت ابوبکر (رض) بھی تھے اور میکائیل (علیہ السلام) ہزار فرشتوں کو لے کر نازل ہوئے جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بائیں طرف تھے اور میں بھی اسی جانب تھا۔ سورۂ آل عمران میں تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں کا ذکر ہے حضرت قتادہ نے فرمایا کہ اولاً ایک ہزار فرشتوں کے ذریعہ مدد کی، پھر تین ہزار فرشتے آئے پھر اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار کی تعداد پوری فرما دی۔ پھر فرمایا (وَ مَا جَعَلَہُ اللّٰہُ اِلَّا بُشْرٰی وَلِتَطْمَءِنَّ بِہٖ قُلُوْبُکُمْ ) (آل عمران) (فرشتوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو امداد فرمائی یہ محض اس لیے ہے کہ تم لوگوں کو بشارت ہو اور تمہارے دلوں کو اطمینان ہو) فرشتوں کی آمد کی پیشگی خبر ایک بہت بڑی خوشخبری تھی جس سے دلوں کو سکون ہوگیا، طبعی طور پر انسان کو اسباب کے ذریعہ تسلی ہوجاتی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسباب کے طور پر فرشتوں کو بھیج دیا گیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8: یہ تیسری علت ہے جب مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ اب مشرک فوج سے مقابلہ ناگزیر ہوگیا ہے تو اب اللہ تعالیٰ سے گڑ گڑا کر امداد و نصرت کے لیے دعائیں کرنے لگے خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انتہائی تضرع اور زاری سے دعا کی۔ آپ قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر عرض کی، بارے خدایا اپنا وعدہ فتح و نصرت پورا فرما۔ اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو زمین پر تیری خالص عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا آپ نے اس قدر طویل دعا مانگی کہ آپ کی چادر کندھوں سے گر پڑی حضرت ابوبکر چادر آپ کے کندھوں پر ڈالتے اور کہتے یارسول اللہ دعا کافی ہوگئی اللہ اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔ (قرطبی وغیرہ) ۔ 9: یعنی اللہ نے تمہاری دعا قبول کرلی اور اسباب کے طور پر تمہاری مدد کے لیے فرشتوں کی فوج نازل کردی۔ “ اِنِّیْ ” سے پہلے حرف جار مقدر ہے “ اي بانی ” (روح) یا اس سے پہلے “ اخبرکم ” فعل محذوف ہے۔ یہاں ایک ہزار فرشتوں کے نزول کا ذکر ہے چونکہ مشرکین کی تعداد ایک ہزار تھی اس لیے ایک ہزار فرشتوں کا آنا بھی حتمی طور پر بیان کیا گیا۔ اس کی مزید تحقیق سورة آل عمران کی تفسیر میں ص 177 پر حاشیہ 191، 192 میں ملاحظہ فرمائیں۔ “ مُرْدِفِیْن ” یعنی فرشتے جن کے پیچھے ایک دوسری جماعت آرہی ہو۔ فرشتگان کہ از پس خود جماعت دیگر آوردند (فتح الرحمن) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

9 وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے اور دعائیں مانگ رہے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری دعا اور تمہاری فریاد کو قبول کرلیا اور یہ وعدہ کیا کہ میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا جن کے پیچھے دوسرے فرشتے ہوں گے۔ یعنی یا تو یہ ایک ہزار لگاتار آئیں گے یا یہ کہ ہزار کے بعد اور مزید فرشتے آئیں گے تفصیل چوتھے پارے میں گزر چکی ہے۔