Surat ut Takveer
Surah: 81
Verse: 10
سورة التكوير
وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ ﴿۪ۙ۱۰﴾
And when the pages are made public
اورجب نامہ اعمال کھول دئیے جائیں گے ۔
وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتۡ ﴿۪ۙ۱۰﴾
And when the pages are made public
اورجب نامہ اعمال کھول دئیے جائیں گے ۔
And when the pages are laid open. Ad-Dahhak said, "Every person will be given his paper in his right hand or in his left hand." Qatadah said, "O Son of Adam! It (your paper) is written in, then it is rolled up, then it will be distributed to you on the Day of Judgement. So let each man look at what he himself dictated to be written in his paper." Removing the Heavens, Kindling Hellfire, and Paradise Being Brought Near Allah says, وَإِذَا السَّمَاء كُشِطَتْ
10۔ 1 موت کے وقت یہ صحیفے لپیٹ دیئے جاتے ہیں، پھر قیامت والے دن حساب کے لئے کھول دیئے جائیں گے، جنہیں ہر شخص دیکھ لے گا بلکہ ہاتھوں میں پکڑا دیئے جائیں گے۔
[١٠] نُشِرَتْ : نَشَرَ کے معنی کسی چیز کو کھولنا، کھول کر پھیلا دینا اور کوئی خبر مشہور کرنا ہے۔ اور اس کی ضد طوٰی بمعنی لپیٹنا ہے۔ کہتے ہیں نَشَرْتُ الْکِتَابَ ثُمَّ طَوَیْتُہ، یعنی میں نے کتاب کھولی پھر بند کردی۔ یعنی اس دن لوگوں کے اعمال نامے کھول کر ان کے ہاتھوں میں تھما دیئے جائیں گے۔
(واذا الضحف نشرت : اعمال نامے جو بند تھے، پھیلا کر سامنے کردیئے جائیں گے، تاکہ ہر عمل کرنے والا اپنے عمل خود پڑھ لے۔ دورسا معنی یہ ہے کہ لوگوں میں ان کے اعمال نامے دائیں یا بائیں ہاتھوں میں پھیلا دیئے جائیں گے۔
وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ ١٠ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) صحف الصَّحِيفَةُ : المبسوط من الشیء، کصحیفة الوجه، والصَّحِيفَةُ : التي يكتب فيها، وجمعها : صَحَائِفُ وصُحُفٌ. قال تعالی: صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی/ 19] ، يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] ، قيل : أريد بها القرآن، وجعله صحفا فيها كتب من أجل تضمّنه لزیادة ما في كتب اللہ المتقدّمة . والْمُصْحَفُ : ما جعل جامعا لِلصُّحُفِ المکتوبة، وجمعه : مَصَاحِفُ ، والتَّصْحِيفُ : قراءة المصحف وروایته علی غير ما هو لاشتباه حروفه، والصَّحْفَةُ مثل قصعة عریضة . ( ص ح ف ) الصحیفۃ کے معنی پھیلی ہوئی چیز کے ہیں جیسے صحیفۃ الوجہ ( چہرے کا پھیلاؤ ) اور وہ چیز جس میں کچھ لکھا جاتا ہے اسے بھی صحیفہ کہتے ہیں ۔ اس کی جمع صحائف وصحف آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ صُحُفِ إِبْراهِيمَ وَمُوسی [ الأعلی/ 19] یعنی ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَتْلُوا صُحُفاً مُطَهَّرَةً فِيها كُتُبٌ قَيِّمَةٌ [ البینة/ 2- 3] پاک اوراق پڑھتے ہیں جس میں مستحکم ( آیتیں ) لکھی ہوئی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ صحف سے قرآن پاک مراد ہے اور اس کو صحفا اور فیھا کتب اس لئے کہا ہے کہ قرآن میں کتب سابقہ کی بنسبت بہت سے زائد احکام اور نصوص پر مشتمل ہے ۔ المصحف متعدد صحیفوں کا مجموعہ اس کی جمع مصاحف آتی ہے اور التصحیف کے معنی اشتباہ حروف کی وجہ سے کسی صحیفہ کی قرآت یا روایت میں غلطی کرنے کے ہیں ۔ اور صحفۃ ( چوڑی رکابی ) چوڑے پیالے کی طرح کا ایک برتن ۔ نشر النَّشْرُ ، نَشَرَ الثوبَ ، والصَّحِيفَةَ ، والسَّحَابَ ، والنِّعْمَةَ ، والحَدِيثَ : بَسَطَهَا . قال تعالی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] ، وقال : وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ [ الشوری/ 28] ، وقوله : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] أي : الملائكة التي تَنْشُرُ الریاح، أو الریاح التي تنشر السَّحابَ ، ويقال في جمع النَّاشِرِ : نُشُرٌ ، وقرئ : نَشْراً فيكون کقوله :«والناشرات» ومنه : سمعت نَشْراً حَسَناً. أي : حَدِيثاً يُنْشَرُ مِنْ مَدْحٍ وغیره، ونَشِرَ المَيِّتُ نُشُوراً. قال تعالی: وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] ، بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] ، وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلانُشُوراً [ الفرقان/ 3] ، وأَنْشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ فَنُشِرَ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] وقیل : نَشَرَ اللَّهُ المَيِّتَ وأَنْشَرَهُ بمعنًى، والحقیقة أنّ نَشَرَ اللَّهُ الميِّت مستعارٌ من نَشْرِ الثَّوْبِ. كما قال الشاعر : 440- طَوَتْكَ خُطُوبُ دَهْرِكَ بَعْدَ نَشْرٍ ... كَذَاكَ خُطُوبُهُ طَيّاً وَنَشْراً «4» وقوله تعالی: وَجَعَلَ النَّهارَ نُشُوراً [ الفرقان/ 47] ، أي : جعل فيه الانتشارَ وابتغاء الرزقِ كما قال : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] ، وانْتِشَارُ الناس : تصرُّفهم في الحاجاتِ. قال تعالی: ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] ، فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] وقیل : نَشَرُوا في معنی انْتَشَرُوا، وقرئ : ( وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] «1» أي : تفرّقوا . والانْتِشَارُ : انتفاخُ عَصَبِ الدَّابَّةِ ، والنَّوَاشِرُ : عُرُوقُ باطِنِ الذِّرَاعِ ، وذلک لانتشارها، والنَّشَرُ : الغَنَم المُنْتَشِر، وهو للمَنْشُورِ کالنِّقْضِ للمَنْقوض، ومنه قيل : اکتسی البازي ريشا نَشْراً. أي : مُنْتَشِراً واسعاً طویلًا، والنَّشْرُ : الكَلَأ الیابسُ ، إذا أصابه مطرٌ فَيُنْشَرُ. أي : يَحْيَا، فيخرج منه شيء كهيئة الحَلَمَةِ ، وذلک داءٌ للغَنَم، يقال منه : نَشَرَتِ الأرضُ فهي نَاشِرَةٌ. ونَشَرْتُ الخَشَبَ بالمِنْشَارِ نَشْراً اعتبارا بما يُنْشَرُ منه عند النَّحْتِ ، والنُّشْرَةُ : رُقْيَةٌ يُعَالَجُ المریضُ بها . ( ن ش ر ) النشر کے معنی کسی چیز کو پھیلانے کے ہیں یہ کپڑے اور صحیفے کے پھیلانے ۔ بارش اور نعمت کے عام کرنے اور کسی بات کے مشہور کردیتے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ [ التکوير/ 10] اور جب دفتر کھولے جائیں گے ۔ وهو الّذي يرسل الرّياح نُشْراً بين يدي رحمته [ الأعراف/ 57] اور وہی تو ہے جو لوگوں کے ناامیدہو جانیکے بعد مینہ برساتا اور اپنی رحمت ( یعنی بارش کے برکت ) کو پھیلا دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَالنَّاشِراتِ نَشْراً [ المرسلات/ 3] اور بادلوں کو ( بھاڑ ) ( پہلا دیتی ہے ۔ میں ناشرات سے مراد وہ فرشتے ہن جو ہواؤں کے پھیلاتے ہیں یا اس سے وہ ہوائیں مراد ہیں جو بادلون کو بکھیرتی ہیں ۔ چناچہ ایک قرات میں نشرابین یدی رحمتہ بھی ہے جو کہ وہ الناشرات کے ہم معنی ہے اور اسی سے سمعت نشرا حسنا کا محاورہ ہے جس کے معنی میں نے اچھی شہرت سنی ۔ نشرالمیت نشودا کے معنی ہیت کے ( ازسرنو زندہ ہونے کے ہیں ) چناچہ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ النُّشُورُ [ الملک/ 15] اسی کے پاس قبروں سے نکل کر جانا ہے بَلْ كانُوا لا يَرْجُونَ نُشُوراً [ الفرقان/ 40] بلکہ ان کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کی امیدہی نہیں تھی ۔ وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان/ 3] اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے ۔ اور نہ جینا اور نہ مرکراٹھ کھڑے ہونا ۔ انشر اللہ المیت ک معنی میت کو زندہ کرنے کے ہیں۔ اور نشر اس کا مطاوع آتا ہے ۔ جس کہ معنی زندہ ہوجانے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ إِذا شاءَ أَنْشَرَهُ [ عبس/ 22] پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ بعض نے کہا ہے ک نشر اللہ المیت وانشرہ کے ایک ہی معنی میں ۔ لیکن درحقیقت نشر اللہ المیت نشرالثوب کے محاورہ سے ماخوذ ہے شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (425) طوتک خطوب دھرک بعد نشر کذاک خطوبہ طیا ونشرا تجھے پھیلانے کے بعد حوادث زمانہ نے لپیٹ لیا اس طرح حوادث زمانہ لپیٹنے اور نشر کرتے رہتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] اور دن کو اٹھ کھڑا ہونے کا وقت ٹھہرایا ۔ میں دن کے نشوربنانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا روبار کے پھیلانے اور روزی کمانے کے لئے بنایا ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ الآية [ القصص/ 73] اور اس نے رحمت سے تمہارے لئے رات کو اور دن کو بنایا ۔ تاکہ تم اس میں آرام کرو اور اس میں اس کا فضل تلاش کرو ۔ اور انتشارالناس کے معنی لوگوں کے اپنے کاروبار میں لگ جانے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ [ الروم/ 20] پھر اب تم انسان ہوکر جابجا پھیل رہے ہو ۔ فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] تو جب کھانا کھا چکو تو چل دو ۔ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ [ الجمعة/ 10] پھر جب نماز ہوچکے تو اپنی اپنی راہ لو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ نشروا بمعنی انتشروا کے آتا ہے۔ چناچہ آیت کریمہ : وإذا قيل انْشُرُوا فَانْشُرُوا) [ المجادلة/ 11] اور جب کہاجائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑا ہوا کرو ۔ میں ایک قراءت فاذا قیل انشروافانشروا بھی ہے ۔ یعنی جب کہاجائے کہ منتشر ہوجاؤ تو منتشر ہوجایا کرو ۔ الانتشار کے معنی چوپایہ کی رگوں کا پھول جانا ۔۔ بھی آتے ہیں ۔ اور نواشر باطن ذراع کی رگوں کو کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ بدن میں منتشر ہیں ۔ النشر ( ایضا) پھیلنے والے بادل کو کہتے ہیں ۔ اور یہ بمعنی منشور بھی آتا ہے جیسا کہ نقض بمعنی منقوض آجاتا ہے اسی سے محاورہ ہے ؛اکتسی البازی ریشا نشرا ۔ یعنی باز نے لمبے چوڑے پھیلنے والے پروں کا لباس پہن لیا ۔ النشر ( ایضا) خشک گھاس کو کہتے ہیں ۔ جو بارش کے بعد سرسبز ہوکر پھیل جائے اور اس سے سر پستان کی سی کونپلیں پھوٹ نکلیں یہ گھاس بکریوں کے لئے سخت مضر ہوتی ہے ۔ اسی سے نشرت الارض فھی ناشرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی زمین میں نشر گھاس پھوٹنے کے ہیں ۔ شرت الخشب بالمنشار کے معنی آرے سے لکڑی چیرنے کے ہیں ۔ اور لکڑی چیر نے کو نشر اس لئے کہتے ہیں کہ اسے چیرتے وقت نشارہ یعنی پر ادہ پھیلتا ہے ۔ اور نشرہ کے معنی افسوں کے ہیں جس سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے ۔
(١٠۔ ١٨) اور جس وقت نامہ اعمال حساب و کتاب کے لیے کھول دیے جائیں گے، یا یہ کہ ہاتھوں میں دے دیے جائیں گے، اور جس وقت آسمان لپیٹ لیا جائے گا اور جب دوزخ کفار کے لیے دہکائی جائے گی اور جب جنت پرہیزگاروں کے قریب کردی جائے گی، تو اس وقت ہر ایک نیک اور گنہگار کو اپنی نیکی و برائی معلوم ہوجائے گی جو کہ لے کے آیا ہے۔ میں قسم کھاتا ہوں ان ستاروں کی جو دن کو غائب ہوجاتے اور رات کو نکلتے ہیں، جو رات کو چلتے رہتے ہیں اور پھر اپنے مطلع میں جا چھپتے ہیں، یہ کیفیت پانچ ستاروں کو پیش آتی ہے یعنی زحل، مشتری، عطارد، مریخ، زہرہ۔ اور قسم ہے رات کی جب وہ جانے لگے اور صبح کی جب وہ آنے لگے اور خوب روشن ہوجائے۔
(81:10) واذا الصحف نشرت اس کا عطف بھی اذا الشمس کورت پر ہے الصحف صحیفۃ کی جمع ہے۔ نیز ملاحظہ ہو 80:13 ۔ نشرت ماضی مجہول واحد مؤنث غائب نشر (باب ضرب مصدر سے) کھولے جائیں گے۔ یعنی جب اعمال نامے حساب کے لئے کھولے جائیں گے۔ یا جن کے اعمالنامے ہوں گے ان کو تقسیم کئے جائیں گے۔
فہم القرآن ربط کلام : قیامت کا بیان جاری ہے بتلایا ہے کہ اس دن لوگوں کے حساب و کتاب کا آغازکس طرح ہوگا۔ قیامت کے دن زمین و آسمان بدل دئیے جائیں گے۔ (ابراہیم : ٤٨) اور لوگ محشر کے میدان میں جمع کردیئے جائیں گے۔ ملائکہ قطار اندر قطار کھڑے ہوں گے جن میں جبریل امین سب سے نمایاں ہوں گے۔ عدالت کبریٰ کے انتظامات مکمل ہونے کے ساتھ ہی ایک طرف لوگوں کے سامنے بھڑکتی ہوئی جہنم لائی جائے گی اور دوسری طرف جنت کو لایا جائے گا۔ اس کے بعد رب ذوالجلال جلوہ گر ہوں گے اور کچھ مدت کے بعد لوگوں کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے، ہر شخص اپنا اعمال نامہ کھول کر پڑھے گا جس سے اسے معلوم ہوجائے گا کہ وہ اپنے لیے آج کے دن کے لیے کیا لایا ہے۔ جن کے اعمال بہتر ہوں گے وہ دوسروں کو اپنا اعمال نامہ پڑھنے کی دعوت دیں گے اور جن کے اعمال برے ہوں گے وہ کہیں گے کہ ہائے افسوس ! اس اعمال نامے میں ہماری چھوٹی بڑی بات کو درج کردیا گیا ہے۔ (الکہف : ٤٩) ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مر کر مٹی ہوجائیں گے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ (النبا : ٤٠) مسائل ١۔ قیامت کے دن آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا۔ ٢۔ بھڑکتی ہوئی جہنم کو لوگوں کے سامنے لاکھڑا کیا جائے گا اور جنت بھی لائی جائے گی۔ ٣۔ لوگوں کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دئیے جائیں گے، ہر شخص کو اپنے کیے کا پتہ چل جائے گا۔
واذا ............ نشرت (10:81) ’ اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے “۔ صحف سے مراد نامہ اعمال ہے۔ نشر ہونے سے مراد یہ ہے کہ جب لوگوں کے اعمال نامے خفیہ نہ رہیں گے ، کھل کر سب لوگوں کے سامنے آجائیں گے اور نہ ناقابل فہم رہیں گے۔ اور ان کا یہ انکشاف ہی بدکاروں کے لئے سوہان روح ہوگا۔ کیونکہ کئی ایسی خفیہ برائیاں ہوں گی کہ اگر ان کا انکشاف ہو تو بدکار کے لئے سخت شرمندگی کا باعث ہوگا اور وہ پگھل کر رہ جائے لیکن اس کا کیا حال ہوگا کہ جب اس وقت اس کے تمام اعمال لوگوں کے سامنے ہوں گے۔ اعمال ناموں کا نشر ہونا اور رازوں کا کھل جانا بھی اس دن کی ہولناکی میں اضافہ کردے گا اور یہ دنیا کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب ہوگا کہ راز کھل جائیں گے اور لوگوں کے وہ پوشیدہ راز بھی ظاہر ہوں گے جو سینوں میں ہوں گے۔
3﴿ وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ۪ۙ٠٠١٠﴾ (اور جب صحیفے پھیلا دیئے جائیں گے) وہ صحیفے جن میں بندوں کے اعمال لکھے گئے تھے سامنے لائے جائیں گے اچھے لوگوں کے داہنے ہاتھ میں اور برے لوگوں کے بائیں ہاتھ میں ہوں گے۔ سورة ٴ بنی اسرائیل میں فرمایا ﴿وَ نُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا ٠٠١٣﴾ (اور ہم اس کے لیے اعمال نامہ نکال دیں گے جسے وہ کھلا ہوا اپنے سامنے موجود پالے گا) اور سورة الکہف میں فرمایا ﴿ وَ وُضِعَ الْكِتٰبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا فِيْهِ وَ يَقُوْلُوْنَ يٰوَيْلَتَنَا مَالِ هٰذَا الْكِتٰبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيْرَةً وَّ لَا كَبِيْرَةً اِلَّاۤ اَحْصٰىهَا ١ۚ وَ وَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا ١ؕ وَ لَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا (رح) ٠٠٤٩﴾ (اور نامہ اعمال رکھ دیا جائے گا تو آپ مجرموں کو دیکھیں گے کہ اس میں جو کچھ ہوگا اس سے ڈرتے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی اس نامہ اعمال کی عجیب حالت ہے کہ کوئی چھوٹا بڑا گناہ اس نے نہیں چھوڑا جسے نہ لکھا ہو اور جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب موجود پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا) ۔