Surat ut Takveer

Surah: 81

Verse: 28

سورة التكوير

لِمَنۡ شَآءَ مِنۡکُمۡ اَنۡ یَّسۡتَقِیۡمَ ﴿ؕ۲۸﴾

For whoever wills among you to take a right course.

۔ ( بالخصوص ) اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی راہ پر چلنا چاہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

To whomsoever among you who wills to walk straight. meaning, whoever seeks guidance, then he must adhere to this Qur'an, for verily it is his salvation and guidance. There is no guidance in other than it. وَمَا تَشَاوُونَ إِلاَّ أَن يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] یعنی یہ قرآن ہے تو سب اہل عالم کے لیے نصیحت، مگر اس نصیحت سے فائدہ اسے ہی پہنچ سکتا ہے جو خود بھی سیدھی راہ پر چلنا چاہے بغض اور کجروی کی راہ اختیار نہ کرے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّسْتَــقِيْمَ۝ ٢٨ ۭ شاء والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ الاسْتِقَامَةُ يقال في الطریق الذي يكون علی خطّ مستو، وبه شبّه طریق المحقّ. نحو : اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] واسْتِقَامَةُ الإنسان : لزومه المنهج المستقیم . نحو قوله :إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] الاستقامۃ ( استفعال ) کے معنی راستہ خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ [ الفاتحة/ 6] ہم کو سيدھے راستے پر چلا ۔ اور کسی انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا[ فصلت/ 30] جس لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار خدا پے پھر وہ اس پر قائم رہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور بالخصوص اس کے لیے جو اوامر خداوندی پر سیدھا چلنا چاہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٨{ لِمَنْ شَآئَ مِنْکُمْ اَنْ یَّسْتَقِیْمَ ۔ } ” ہر اس شخص کے لیے جو تم میں سے سیدھے راستے پر چلنا چاہے۔ “ یعنی قرآن ہر اس شخص کے لیے یاد دہانی ہے جو ہدایت کا طالب ہو اور پورے خلوص سے چاہتا ہو کہ وہ گمراہی سے نکل کر ہدایت کے راستے پر آجائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22 In other words, although this is an Admonition for all mankind, only such a person can benefit by it, who is himself desirous of adopting piety and righteousness. Man's being a seeker after truth and a lover of right is the foremost condition of his gaining any benefit from it.

سورة التَّكْوِیْر حاشیہ نمبر :22 بالفاظ دیگر یہ کلام نصیحت ہے تو ساری نوع انسانی کے لیے مگر اس سے فائدہ وہی شخص اٹھا سکتا ہے جو خود راست روی اختیار کرنا چاہتا ہو ۔ انسان کا طالب حق اور راستی پسند ہونا اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے شرط اول ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(81:28) لمن شاء منکم ان یستقیم : یہ جملہ العلمین سے بدل ہے ان مصدریہ ہے۔ یستقیم ن تاویل مصدر شاء کا مفعول ہے۔ ای لمن شاء منکم الاستقامۃ تم میں سے ان کے لئے جو استقامت کا خواستگار ہو یہ قرآن نصیحت ہے۔ یستقیم مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) واحد مذکر غائب استقامۃ (استفعال) مصدر سے۔ سیدھا چلنا۔ راہ مستقیم پر چلنا۔ راہ راست پر چلنا اور اس پر ثابت قدم رہنا۔ چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔ ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا۔ (41:30) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے اور پھر اس پر قائم رہے۔ صحیح مسلم میں ہے :۔ سفیان بن عبد اللہ ثقفی نے بیان کیا کہ میں عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے اسلام کی کوئی ایسی بات کہہ دیجئے کہ آپ کے بعد مجھے اس کے متعلق کسی سے نہ پوچھنا پڑے۔ فرمایا۔ کہو امنت باللہ ثم استقم۔ کہ میں خدا پر ایمان لایا اور پھر اس پر ثابت قدم رہ۔ یہ ق و م سے مشتق ہے اس مادہ سے کثیر التعداد مشتقات مختلف المعانی میں مستعمل ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لمن شآئ .................... یستقیم (28:81) ” تم میں سے ہر اس شخص کے لئے جو سیدھے راستے پر چلنا چاہے “۔ یعنی جو وراہ ہدایت لینے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اللہ کی طرف چلنا چاہتا ہو۔ کیونکہ اس کلام کے بعد تو اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں رہتا کہ اللہ کا راستہ ہی سیدھا راستہ ہے۔ اس کلام اور تذکرہ کے بعد تو تمام عذرات ساقط ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ یہ کلام ایک صحیح اور سلیم دل پر راہ راست آشکارا کردیتا ہے۔ لہٰذا اب جو راہ راست سے انحراف کرے گا اس سے باز پرس ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ انفس وآفاق میں اشارات ایمان اور دلائل ہدایت اس قدر کثرت سے ہیں کہ ہر انسان بمشکل ان کے دائرہ اثر سے پانے آپ کو نکالتا ہے اور اس کے لئے اسے عمداً سعی کرنی پڑتی ہے۔ ہر انسان پر ان دلائل کا زبردست اثر ہر وقت قائم رہتا ہے۔ خصوصاً جو شخص قرآن پر غور و تدبر کرے اور قرآن کے نہایت موثر اسلوب کلام کو سمجھتا ہو ، اور جو لوگ بھی قرآن کو سنیں اور سمجھیں۔ وہ راہ حق سے انحراف عمداً کریں گے اور ان کے پاس کبھی بھی کوئی معقول عذر اور وجہ جواز نہ ہوگا۔ جب یہ بتا دیا گیا کہ تمام لوگوں کا راہ ہدایت پر آنا ممکن ہے اور یہ بھی بتا دیا گیا کہ الہل نے ہر کسی کے لئے راہ حق پر چلنا آسان کردیا ہے ، تو اس مقام پر مناسب سمجھا گیا کہ لوگوں کی خواہش کے پس پردہ جو عظیم حقیقت کار فرما ہے ، وہ بھی انہیں صاف صاف بتادی جائے۔ وہ یہ کہ اگر وہ چاہیں بھی تو ، توفیق الٰہی کے بغیر راہ راست پر نہیں آسکتے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(28) خاص طور پر اس شخص کے لئے جو تم میں سے سیدھا چلنا چاہے یعنی اس نصیحت نامے اور دستور سے خاص طور پر وہ شخص مستفید ہوتا ہے جو عناد اور کج روی کو چھوڑ کر سیدھی راہ چلنا چاہے۔