Surat ul Infitaar

Surah: 82

Verse: 15

سورة الإنفطار

یَّصۡلَوۡنَہَا یَوۡمَ الدِّیۡنِ ﴿۱۵﴾

They will [enter to] burn therein on the Day of Recompense,

بدلے والے دن اس میں جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Therein they will enter, and taste its burning flame on the Day of Recompense, meaning, the Day of Reckoning, Recompense, and Judgement. وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَايِبِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

15۔ 1 یعنی جس دن جزا و سزا کے دن کا وہ انکار کرتے تھے اسی دن جہنم میں اپنے اعمال کی پاداش میں داخل ہونگے،

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(یصلونھا یوم الذین…:” بغآئبین “ پر باء نفی کی تاکید کیلئے ہے، اس لئے ترجمہ ” کبھی غائب ہونے والے نہیں۔ “ کیا گیا ہے۔ فاجر لوگ قیامت کے دن جہنم میں داخل ہوں گے اور ہمیشہ اس میں رہیں گے، کبھی اس سے نہیں نکلیں گے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اگرچہ وہ قیامت کے دن جہنم میں دناخل ہوں گے مگر اس سے پہلے قبر میں بھی وہ آگ سے غائب نہیں ہیں، ، جیسا ہ آل فرعون کے متعلق فرمایا :(وحاق بال فرعون سوء العذاب ، النار یعرضون علیھا غدواً وغشیاً ویوم تقوم الساعۃ ادخلوا ال فرعون اشد العذاب) (المومن : ٣٥، ٣٦)” اور آل فرعون کو بدترین عذاب نے گھیر لیا جو آگ ہے۔ اس پر صبح اور شام پیش کئے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہوگی (کہا جائے گا کہ) آل فرعون کو سخت ترین عذاب میں داخل کرو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَّصْلَوْنَہَا يَوْمَ الدِّيْنِ۝ ١٥ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ دين والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] ( د ی ن ) دين الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران/ 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(82:15) یصلونھا یوم الدین : یہ جملہ یا تو الجحیم کی صفت ہے یا جملہ مستانفہ ہے۔ سوال مقدر کا جواب ہے جیسے کہا جائے ما حالہم (ان کا کیا حال ہوگا) جواب ہوگا : یصلونھا یوم الدین (روز جزاء کو وہ اس میں داخل ہونگے) تفسیر حقانی۔ یصلون مضارع جمع کا صیغہ جمع مذکر غائب ضمیر فاعل کا مرجع الفجار ہے صلی (باب ضرب) مصدر بمعنی بھوننا۔ آگ میں پھینکنا، بوخواہی کرنا۔ ہلاکت میں ڈالنا۔ دھوکہ دینا خوشامد کرنا۔ داخل کرنا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع الجحیم ہے۔ فجار دوزخ میں داخل ہوں گے۔ یوم مفعول فیہ اور مضاف ہے الدین مضاف الیہ۔ روز جزاء کو ۔ قیامت کے دن ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یصلونھا یوم الدین (15:82) ” جزا کے دن وہ اس میں داخل ہوں گے “۔ تو بطور تاکید مزیدیہ کہا جاتا ہے کہ وہاں مجرم مفرور نہ ہوسکیں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) یہ بدکردار لوگ اس دوزخ میں جزا کے دن داخل ہوں گے۔