Surat ul Inshiqaaq

Surah: 84

Verse: 23

سورة الانشقاق

وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِمَا یُوۡعُوۡنَ ﴿۲۳﴾۫ ۖ

And Allah is most knowing of what they keep within themselves.

اور اللہ تعالٰی خوب جانتا ہے جو کچھ یہ دلوں میں رکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And Allah knows best what they gather, Mujahid and Qatadah both said, "What they conceal in their chests." فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] وعی کا لغوی مفہوم :۔ یُوْعُوْنَ ۔ وعی کا معنی کسی چیز کو تھیلی میں رکھ کر اوپر سے اس کا منہ بند کردینا ہے اس لحاظ سے وعی کا معنی بخل کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ حفاظت کرنا بھی اور چھپا کر رکھنا بھی اور کسی چیز کو یاد رکھنا بھی۔ یہاں یہ لفظ تیسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی کافر لوگ جو بغض وعناد اور کینہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

واللہ اعلم بما یوعون :” یوعون “ ” وعائ “ سے مشتق ہے، جس کا معنی برتن ہے،” اوعی المال “ اس نے مال جمع کیا۔ یہاں مراد یہ ہے کہ جو اعمال و وہ آخرت کے لئے جمع کر رہے ہیں، زبانی جھٹلانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے دلوں میں جو کبر و عناد جمع کررکھا ہے اور آپ کے خلاف جو جو ساشزیں انہوں نے تیار کر رکھی ہیں وہ اللہ کو ان سے بھی زیادہ معلوم ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاللہُ اَعْلَمُ بِمَا يُوْعُوْنَ۝ ٢٣ ۡ ۖ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان : أحدهما : إدراک ذات الشیء . والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له، أو نفي شيء هو منفيّ عنه . فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو : لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] . والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله : فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله : لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت . والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ. فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم . والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات . ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ، وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] ، ( ع ل م ) العلم کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال/ 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة/ 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔ ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات/ 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن/ 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وعی الوَعْيُ : حفظ الحدیث ونحوه . يقال : وَعَيْتُهُ في نفسه . قال تعالی: لِنَجْعَلَها لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَها أُذُنٌ واعِيَةٌ [ الحاقة/ 12] . والإِيعَاءُ : حفظ الأمتعة في الوِعَاءِ. قال تعالی: وَجَمَعَ فَأَوْعى[ المعارج/ 18] قال الشاعر : وقال تعالی: فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَها مِنْ وِعاءِ أَخِيهِ [يوسف/ 76] ( و ع ی ) الوعی ( ض ) کے معنی ( عموما ) بات وغیر کو یاد کرلینا کے ہوتے ہیں جیسے وعیتہ فی نفسی میں نے اسے یاد کرلیا قرآن میں ہے : ۔ لِنَجْعَلَها لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَها أُذُنٌ واعِيَةٌ [ الحاقة/ 12] تاکہ اس کو تمہارے لئے یاد گار بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔ الایعاء ( افعال ) کے معنی سازو و سامان کو وعاء ظرف میں محفوظ کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَمَعَ فَأَوْعى[ المعارج/ 18] مال جمع کیا اور بند رکھا الوعاء کے معنی بوری یا تھیلا کے ہیں جس میں دوسری چیزیں اکٹھی کرکے رکھی جائیں جمع اوعیۃ آتی ہے قرآن میں ہے : فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَها مِنْ وِعاءِ أَخِيهِ [يوسف/ 76] پھر یوسف نے ا پنے بھائی کے شلیتے سے پہلے ان کے شلیتوں کو دیکھنا شرو ع کیا پھر اپنے بھائی کے شلیتے میں سے اس کو نکال لیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٣۔ ٢٥) اللہ تعالیٰ ان کے اعمال و اقوال اور ان کی پوشیدہ باتوں سے واقف ہے آپ ان کو دردناک عذاب کی خبر دے دیجیے جو کہ بدر میں اور آخرت میں ان پر واقع ہوگا۔ البتہ جو حضرات ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے تو ان کے لیے جنت میں ایسا ثواب ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں، یا یہ کہ بڑھاپے اور موت کے بعد ان کی نیکیوں میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣{ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یُوْعُوْنَ ۔ } ” اور اللہ کو خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ (اپنے اندر) کیا بھرے ہوئے ہیں۔ “ عام طور پر اس آیت کے بارے میں یہی سمجھا گیا ہے کہ اس میں انسان کے مال و دولت جمع کرنے کی طرف اشارہ ہے ‘ لیکن دراصل اس سے دلوں اور سینوں کی گندگی مراد ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ان لوگوں کے سینے کفر ‘ عداوت ‘ بغض ‘ حسد ‘ تکبر وغیرہ کی غلاظتوں سے بھرے ہوئے ہیں اور اسی وجہ سے یہ اللہ کی آیات کو پہچان لینے کے بعد بھی ان کی تکذیب کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 Another meaning also can be: "Allah knows best what tilth of disbelief, malice, hostility to the Truth and evil intentions and designs they keep tilled in their breasts."

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: اس کا ایک مطلب تو یہ کہ وہ اپنے اعمال کا جو ذخیرہ کر رہے ہیں، اﷲ تعالیٰ اُس کو خوب جانتا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے دِلوں میں جو باتیں چھپا رکھی ہیں، اﷲ تعالیٰ ان سے خوب واقف ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(84:23) واللہ اعلم بما یوعون جملہ حالیہ ہے۔ حالانکہ جو انہوں نے اپنے اندر بھر رکھا ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ یوعون مضارع یا صیغہ جمع مذکر غائب (ایعاف (انعال) مصدر۔ مادہ و عی حفاظت کے لئے جمع کرنا۔ بوری یا تھیلا کو جس میں دوسری چیزیں اکٹھی کرکے رکھی کائیں اس کو دعاء کہتے ہیں ۔ اور اس کی جمع اوعیۃ ہے جیسے کہ قرآن مجید میں ہے فبدا باوعیتھم قبل وعاء اخیہ (12:76) پھر اس (یوسف) نے اپنے باھائی کے شیلتے سے پہلے ان کی شلیتوں کو دیکھانا شروع کیا۔ (راغب) (2) اپنے اعمالناموں میں جمع کرتے ہیں ۔ (محلی) (3) چھپاتے ہیں۔ پوشیدہ رکھتے ہیں (یعنی اپنے دلوں میں) حضرت ابن عباس (رض) قتادہ سے نزدیک مطلب یہ کہ :۔ یہ کافر لوگ اور کذاب لوگ اپنے سینوں میں کفرو عناد اور عداوت حق اور برے ارادں کے مطلب اور فاسد نیتوں کی جو گندگی لئے پھرتے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 10 یعنی پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ٹھکرانے کے لئے دلوں میں جو بہانے اور اسکی میں تیار کرتے ہیں ان سب کا اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) اور اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو یہ تکذیب کا سامان دلوں میں جمع رکھتے ہیں یعنی جو اعمال بد کا ذخیرہ یہ جمع کرتے رہتے ہیں اور دلوں میں جو قرآن کی تکذیب کی تدابیر اور کفرونفاق جمع رکھتے ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔