Surat ul Burooj

Surah: 85

Verse: 3

سورة البروج

وَ شَاہِدٍ وَّ مَشۡہُوۡدٍ ؕ﴿۳﴾

And [by] the witness and what is witnessed,

حاضر ہونے والے اور حاضر کئے گئے کی قسم!

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And by the Promised Day. And by the Witness, and by the Witnessed. Ibn Abi Hatim recorded from Abu Hurayrah that the Messenger of Allah said, وَالْيَوْمِ الْمَوْعُود (And by the Promised Day). This refers to يَوْمُ الْقِيَامَةِ the Day of Judgement. And by the وَشَاهِدٍ Witness, this refers to يَوْمُ الْجُمُعَةِ Friday, وَمَا طَلَعَتْ شَمْسٌ وَلاَ غَرَبَتْ عَلَى يَوْمٍ أَفْضَلَ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَفِيهِ سَاعَةٌ لاَ يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللهَ فِيهَا خَيْرًا إِلاَّ أَعْطَاهُ إِيَّاهُ وَلاَ يَسْتَعِيذُ فِيهَا مِنْ شَرَ إِلاَّ أَعَاذَهُ and the sun does not rise or set on a day that is better than Friday. During it there is an hour that no Muslim servant catches while asking Allah from some good except that Allah will give it to him. He does not seek refuge from any evil in it except that Allah will protect him. And by the وَمَشْهُودٍ Witnessed, this refers to the يَوْمُ عَرَفَة day of Arafah (in Hajj). Ibn Khuzaymah also recorded the same Hadith. It has also been recorded as a statement of Abu Hurayrah and it is similar (to this Hadith). The Oppression of the People of the Ditch against the Muslims Concerning Allah's statement, قُتِلَ أَصْحَابُ الاُْخْدُودِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 شَاھْدٍ اور مَشْھُوْدِ کی تفسیر میں بہت اختلاف ہے، امام شوکانی نے احادیث و آثار کی بنیاد پر کہا ہے کہ شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے، اس دن جس نے جو بھی عمل کیا ہوگا یہ قیامت کے دن اس کی گواہی دے گا، اور مشہود سے عرفہ (9 ذوالحجہ) کا دن ہے جہاں لوگ حج کے لئے جمع اور حاضر ہوتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] آیت نمبر ٢ میں (الیوم الموعود) سے مراد تو قیامت کا دن ہے مگر آیت نمبر ٣ میں شاہد اور مشہود کی تعبیر میں بہت اختلاف واقع ہوا ہے۔ کسی نے کہا کہ شاہد سے مراد جمعہ کا دن ہے جو ہر قریہ اور ہر شہر میں ہر جگہ حاضر ہوتا ہے۔ اور مشہود سے مراد عرفہ کا دن ہے۔ جب کہ دنیا کے گوشے گوشے سے لوگ وہاں حاضر ہوتے ہیں کسی نے کہا شاہد سے مراد یوم النحر اور مشہود سے مراد یوم عرفہ ہے وغیرہ وغیرہ لیکن ربط مضمون کے لحاظ سے یہی تعبیر بہتر معلوم ہوتی ہے کہ مشہود سے مراد بھی قیامت کا دن ہو اور شاہد سے مراد قیامت کے دن اکٹھا کی جانے والی خلقت سے ہر فرد مراد ہو جو قیامت اور اس کی ہولناکیوں کو بچشم خود ملاحظہ کر رہا ہو۔ اور چوتھا مفہوم یہ ہے کہ شاہد سے مراد انبیاء اور صلحاء لیے جائیں اور مشہود سے مراد ان کی قومیں جن پر وہ گواہی دے کر ان پر حجت قائم کریں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

واشھد و مشھود :” شاھد “ حاضر ہونے والا۔” مشھود “ جس کے پاس حاضر ہوا جائے۔ لفظوں کے لحاظ سے اس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو کہیں حاضر ہوسکتے ہیں اور مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ تمام چیزیں بھی شامل ہیں جن کا مشاہدہ ہوسکتا ہے یا جن کے پاس کوئی حاضر ہوسکتا ہے۔ اہل علم نے ” شاھد “ اور ” مشھود “ کی تفسیر کرتے ہوئے جس چیز کو زیادہ اہم یا معروف یا مناسب مسجھا اس کے ساتھ تفسیر کردی۔ چناچہ بہت سے صحابہ و تابعین نے ” شاھد “ سے مراد یوم جمعہ اور ” مشھود “ سے مراد یوم عرفہ لیا ہے۔ الفاظ کے عموم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ فرد ہے جو کہیں حاضر ہوتا ہے اور حاضری کا ہر وہ موقع ہے جس میں کوئی فرد حاضر ہوتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَشَاہِدٍ وَّمَشْہُوْدٍ۝ ٣ ۭ شاهِدٌ وقد يعبّر بالشهادة عن الحکم نحو : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف/ 26] ، وعن الإقرار نحو : وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور/ 6] ، أن کان ذلک شَهَادَةٌ لنفسه . وقوله وَما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف/ 81] أي : ما أخبرنا، وقال تعالی: شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة/ 17] ، أي : مقرّين . لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت/ 21] ، وقوله : شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران/ 18] ، فشهادة اللہ تعالیٰ بوحدانيّته هي إيجاد ما يدلّ علی وحدانيّته في العالم، وفي نفوسنا کما قال الشاعر : ففي كلّ شيء له آية ... تدلّ علی أنه واحدقال بعض الحکماء : إنّ اللہ تعالیٰ لمّا شهد لنفسه کان شهادته أن أنطق کلّ شيء كما نطق بالشّهادة له، وشهادة الملائكة بذلک هو إظهارهم أفعالا يؤمرون بها، وهي المدلول عليها بقوله : فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات/ 5] ، اور کبھی شہادت کے معنی فیصلہ اور حکم کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَشَهِدَ شاهِدٌ مِنْ أَهْلِها[يوسف/ 26] اس کے قبیلہ میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا ۔ اور جب شہادت اپنی ذات کے متعلق ہو تو اس کے معنی اقرار کے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَداءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهاداتٍ بِاللَّهِ [ النور/ 6] اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہو تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ چار بار خدا کی قسم کھائے ۔ اور آیت کریمہ : ما شَهِدْنا إِلَّا بِما عَلِمْنا [يوسف/ 81] اور ہم نے تو اپنی دانست کے مطابق ( اس کے لے آنے کا ) عہد کیا تھا ۔ میں شھدنا بمعنی اخبرنا ہے اور آیت کریمہ : شاهِدِينَ عَلى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ [ التوبة/ 17] جب کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دے رہے ہوں گے ۔ میں شاھدین بمعنی مقرین ہے یعنی کفر کا اقرار کرتے ہوئے ۔ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنا [ فصلت/ 21] تم نے ہمارے خلاف کیوں شہادت دی ۔ اور ایت کریمہ ؛ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ [ آل عمران/ 18] خدا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے لوگ ۔ میں اللہ تعالیٰ کے اپنی وحدانیت کی شہادت دینے سے مراد عالم اور انفس میں ایسے شواہد قائم کرنا ہے جو اس کی وحدانیت پر دلالت کرتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ (268) ففی کل شیئ لہ آیۃ تدل علی انہ واحد ہر چیز کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اس کے یگانہ ہونے پر دلالت کر رہے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ باری تعالیٰ کے اپنی ذات کے لئے شہادت دینے سے مراد یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو نطق بخشا اور ان سب نے اس کی وحدانیت کا اقرار کیا ۔ اور فرشتوں کی شہادت سے مراد ان کا ان افعال کو سر انجام دینا ہے جن پر وہ مامور ہیں ۔ جس پر کہ آیت ؛فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً [ النازعات/ 5] پھر دنیا کے کاموں کا انتظام کرتے ہیں ۔ دلاکت کرتی ہے ۔ شَّهِيدُ وأمّا الشَّهِيدُ فقد يقال لِلشَّاهِدِ ، والْمُشَاهِدِ للشیء، وقوله : مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : من شهد له وعليه، وکذا قوله : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] ، وقوله : أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، أي : يشهدون ما يسمعونه بقلوبهم علی ضدّ من قيل فيهم : أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ، وقوله : أَقِمِ الصَّلاةَ إلى قوله : مَشْهُوداً أي : يشهد صاحبه الشّفاء والرّحمة، والتّوفیق والسّكينات والأرواح المذکورة في قوله : وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] ، وقوله : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] ، فقد فسّر بكلّ ما يقتضيه معنی الشهادة، قال ابن عباس : معناه أعوانکم وقال مجاهد : الذین يشهدون لكم، وقال بعضهم : الذین يعتدّ بحضورهم ولم يکونوا کمن قيل فيهم شعر : مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وقد حمل علی هذه الوجوه قوله : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] ، وقوله : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] ، أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] ، وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] ، فإشارة إلى قوله : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] ، وقوله : يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] ، ونحو ذلک ممّا نبّه علی هذا النحو، والشَّهِيدُ : هو المحتضر، فتسمیته بذلک لحضور الملائكة إيّاه إشارة إلى ما قال : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] ، قال : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] ، أو لأنهم يَشْهَدُونَ في تلک الحالة ما أعدّ لهم من النّعيم، أو لأنهم تشهد أرواحهم عند اللہ كما قال : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] ، وعلی هذا دلّ قوله : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ، وقوله : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] ، قيل : الْمَشْهُودُ يوم الجمعة وقیل : يوم عرفة، ويوم القیامة، وشَاهِدٌ: كلّ من شهده، وقوله : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] ، أي : مشاهد تنبيها أن لا بدّ من وقوعه، والتَّشَهُّدُ هو أن يقول : أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أنّ محمدا رسول الله، وصار في التّعارف اسما للتّحيّات المقروءة في الصّلاة، وللذّكر الذي يقرأ ذلک فيه . شھید یہ کبھی بمعنی شاہد یعنی گواہ آتا ہے چناچہ آیت مَعَها سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اسکے ساتھ ( ایک) چلانے والا اور ( ایک ، گواہ ہوگا ۔ میں شہید بمعنی گواہ ہی ہے جو اس کے لئے یا اس پر گواہی دیگا ۔ اسی طرح آیت کریمہ : فَكَيْفَ إِذا جِئْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنا بِكَ عَلى هؤُلاءِ شَهِيداً [ النساء/ 41] بھلا اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو لوگوں کا حال بتانے کو گواہ طلب کریں گے ۔ میں بھی شہید بمعنی شاہد ہی ہے اور آیت کریمہ ؛ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہوکر سنتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں ان کے دل اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ بخلاف ان لوگوں کے جن کے متعلق فرمایا ہے ۔: أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو ( گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَقِمِ الصَّلاةَ ۔۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا کیونکہ صبح کے وقت قرآن کا پڑھنا موجب حضور ملائکہ ہے ۔ میں قرآن کے مشہود ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی قرات کرنے والے پر شفاء رحمت ، توفیق ، سکینت اور ارواح نازل ہوتی ہیں ۔ جن کا کہ آیت ؛ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [ الإسراء/ 82] اور ہم قرآن کے ذریعہ سے وہ کچھ نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور آیت : وَادْعُوا شُهَداءَكُمْ [ البقرة/ 23] اور جو تمہارے مددگار ہیں ان کو بلا لو ۔ میں شھداء کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں جن پر معنی شہادت مشتمل ہے ۔ چناچہ ابن عباس نے اس کے معنی اعوان یعنی مددگار کے کئے ہیں اور مجاہدہ نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ جو تمہارے حق میں گواہی دیں ۔ اور بعض نے شہداء سے وہ لوگ مراد لئے ہیں ۔ جن کے موجود ہونے کو قابل قدر اور معتبر سمجھا جائے یعنی وہ ایسے لوگ نہ ہوں جن کے متعلق کہا گیا ہے ( البسیط) (269) مخلّفون ويقضي اللہ أمرهمو ... وهم بغیب وفي عمیاء ما شعروا وہ پیچھے رہتے ہیں اور لوگ اپنے معاملات کا فیصلہ کرلیتے ہیں وہ غیر حاضر اور بیخبر ہوتے ہیں اور ان کو اس بات کو علم تک نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : وَنَزَعْنا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ القصص/ 75] اور ہم امت میں سے گواہ نکال لیں گے ۔ میں بھی شہید کا لفظ انہی معانی پر حمل کیا گیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّهُ عَلى ذلِكَ لَشَهِيدٌ [ العادیات/ 7] اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ أَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ [ فصلت/ 53] کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے باخبر ہے ۔ وَكَفى بِاللَّهِ شَهِيداً [ النساء/ 79] اور ( حق ظاہر کرنے کو ) خدا ہی کافی ہے ۔ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے ک حق تعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : لا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ [ غافر/ 16] اور کوئی چیز خدا سے مخفی نہیں رہے گی ۔ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفى [ طه/ 7] وہ تو چھپے بھید اور پوشیدہ بات تک کو جانتا ہے ۔ علی ہذالقیاس متعدد آیات ایسی ہیں جو اس معنی ( یعنی علم باری تعالیٰ کے محیط ہونے ) پر دال ہیں ۔ اور قریب المرگ شخص کو بھی شہید کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس فرشتے حاضر ہوتے ہیں چناچہ آیت کریمہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا ... الآية [ فصلت/ 30] آلایۃ ان پر فرشتے اتریں گے اور کہیں گے کہ خوف نہ کرو ۔ میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ اور فرمایا ۔ وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ [ الحدید/ 19] اور اپنے پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ان کے لئے ان کے اعمال کا صلہ ہوگا ۔ اور شھداء کو شھداء یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حالت نزع میں ان نعمتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیار کی ہیں اور یا اس لئے کہ ان کے ارواح باری تعالیٰ کے ہاں حاضر کئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ فرمایا : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ [ آل عمران/ 169- 170] اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے اور ان کو مردہ مت سمجھنا اور آیت کریمہ : وَالشُّهَداءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْاور پروردگار کے نزدیک شہید ہیں ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے اور آیت کریمہ : وَشاهِدٍ وَمَشْهُودٍ [ البروج/ 3] اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی قسم۔ میں بعض نے کہا ہے کہ مشھود سے یوم جمعہ مراد ہے اور بعض نے یوم عرفہ مراد لیا ہے ۔ اور بعض نے یوم قیامت اور شاھد سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو اس روز میں حاضر ہوگا اور آیت کریمہ : يَوْمٌ مَشْهُودٌ [هود/ 103] اور یہی وہ دن ہے جس میں خدا کے روبرو حاضرکئے جائینگے ۔ میں مشھود بمعنی مشاھد ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ وہ دن ضرور آکر رہے گا ۔ التشھد کے معنی اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ پڑھنے کے ہیں اور عرف میں تشہد کے معنی التحیات اور ان اذکار کے ہیں جو حالت تشہد ( جلسہ ) میں پڑھے جاتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ وَشَاہِدٍ وَّمَشْہُوْدٍ ۔ } ” اور قسم ہے حاضر ہونے والے کی اور اس کی جس کے پاس حاضر ہوا جائے ۔ “ اس آیت کی بہت سی تعبیرات کی گئی ہیں ‘ جن میں سے ایک تعبیر یہ ہے کہ شَاہِد سے مراد جمعہ کا دن ہے ‘ جو شہر شہر بستی بستی لوگوں کے پاس حاضر ہوتا ہے ‘ جبکہمَشْہُوْد عرفہ (١٠ ذی الحجہ) کا دن ہے جس کے پاس لوگوں کو خود میدانِ عرفات میں جا کر حاضر ہونا پڑتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 The conunentators have expressed many different views about "the seer" and "that which is seen". In our opinion what fits in well with the context is that the seer is every such person who will witness the Day of Resurrection and that which is seen is the Resurrection itself, the dreadful scenes of which will be seen by aII This is the view of Mujahid. 'Ikrimah, Dahhak, lbn Nujaih and some other conunentators.

سورة الْبُرُوْج حاشیہ نمبر :3 دیکھنے والے اور دیکھی جانے والی چیز کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں ، مگر ہمارے نزدیک سلسلہ کلام سے جو بات مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ دیکھنے والے سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قیامت کے روز حاضر ہو گا اور دیکھی جانے والی چیز سے مراد خود قیامت ہے جس کے ہولناک احوال کو سب دیکھنے والے دیکھیں گے ۔ یہ مجاہد ، عکرمہ ، ضحاک ، ابن نجیح اور بعض دوسرے مفسرین کا قول ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: قرآنِ کریم میں اصل لفظ ’’شاہد‘‘ اور ’’مشہود‘‘ ہیں۔ شاہد کا ترجمہ ’’حاضر ہونے والے‘‘ سے اور مشہود کا ’’جس کے پاس لوگ حاضر ہوں۔‘‘ سے کیا گیا ہے۔ اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ شاہد سے مراد جمعہ کا دِن ہے، اور مشہود سے مراد عرفہ کا دن ہے۔ اس کی تائید ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کی ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ جسے امام ترمذیؒ نے ضعیف کہا ہے، اور طبرانی میں حضرت ابو مالک اشعریؓ کی ایک حدیث سے بھی جسے علامہ ہیثمیؒ نے ضعیف کہا ہے۔ اس کی ایک دوسری تفسیر یہ ہے کہ شاہد سے مراد اِنسان ہے، اور مشہود سے مراد قیامت کا دِن ہے، کیونکہ ہر اِنسان اُس دن اﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔ حافظ ابن جریرؒ نے یہ تفسیر حضرت مجاہدؒ اور حضرت ضحاکؒ وغیرہ سے نقل کی ہے۔ ’’شاہد‘‘ کا ایک ترجمہ گواہ بھی کیا جاسکتا ہے، اور ’’مشہود‘‘ کا وہ جس کے بارے میں گواہی دی جائے۔ قیامت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اہلِ اِیمان کے ایمان کی گواہی دیں گے، اس لئے اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے۔ حافظ ابن جریر رحمۃ اﷲ علیہ یہ سب تفسیریں نقل کر کے فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم کے الفاظ میں ان سب کی گنجائش موجود ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(85:3) وشاہد ومشھود یہ جملہ بھی عطفیہ ہے۔ اس کا عطف بھی السماء پر ہے۔ واؤ قسم محذوف ہے۔ اور قسم ہے شاہد اور مشہود کی۔ شاھد سے کیا مراد ہے :۔ لغت میں شاہد کے معنی سامنے ہونے والے کے ہیں۔ اور پاس آنے والے کے اور گواہی دینے والے کے۔ لفظ وسیع المعنی ہے اور اس کے کئی معنی ہیں۔ اس کے متعلق علماء کے متعدد اقوال ہیں :۔ (1) بعض علماء نے فرمایا کہ شاہد جمعہ کا دن ہے کہ ہر شہر اور ہر مسجد میں آتا ہے اور مشہور عرفہ کا دن ہے کہ تمام بلاد و اطراف سے حاجی وہاں حاضر ہوتے ہیں۔ چونکہ جمہ ہر ہفتہ میں ایک بار اور عرفہ ہر سال آتا ہے اس لئے ان کو نکرہ لایا گیا ہے اور قیامت کا دن چونکہ ایک ہی ہے اس لئے معرف باللام لایا گیا ہے۔ (2) بعض مفسرین نے ہر ایک مجمع کو جو ذکر الٰہی اور دین کے لئے ہو مشہود اور جماعت کو شاہد بتایا ہے اس میں عیدین و جمعہ و عرفہ بھی شامل ہیں۔ (3) بعض علماء نے شاہد اور مشہود میں صرف گواہی کے معنی کا لحاظ کرکے کہا ہے کہ :۔ شاہد سے مراد حق سبحانہ و تعالیٰ بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ خود اس نے فرمایا ہے وکفی باللہ شھیدا (48:28) ب۔ نیز جملہ پیغمبر اور خاص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں کیونکہ وہ قیامت میں گواہی دیں گے۔ ج۔ اور سورتوں میں مشہود توحید اور امت ہیں۔ د۔ انسان کے اعضاء بھی شاہد ہیں جیسا کہ فرمایا یوم تشھد علیہم السنتھم وایدیہم و ارجلہم (24:34) اس صورت میں مشہود انسان کی ذات ہوگی۔ وغیرہ۔ فائدہ : آیت 1 تا 2 میں جو قسمیں آئی ہیں ان کا جواب محذوف ہے۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں بیان کی گئی ہیں :۔ (1) اس کا جواب محذوف ہے لتبعثن اونحوہ۔ یعنی جواب قسم لتبعثن (تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤ گے) ہے یا ایسا کوئی اور کلام۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ جواب قسم ہے قتل اصحب الاخدود النار۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے۔ کیونکہ قسم کا جواب بغیر لام کے بہت کم آتا ہے۔ (3) بعض کے نزدیک ان بطش ربک لشدید۔ جواب قسم ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 14 دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے۔ ” حاضر ہونے والے کی اور جس کے پاس وہ حاضر ہوگا اس کی قسم “ اس لحاظ سے شاہد سے مراد لوگ ہیں اور مشہور سے مراد و عجائب وغرائب جنہیں وہ قیامت کے روز دیکھیں گے۔ اکثر صحابہ وتابعین اس طرف گئے ہیں کہ شاہد سے مراد جمعہ کا دن اور مشہور سے مراد عرفہ کا دن ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں یہ خود آنحضرت سے بھی ثابت ہے اور صحیح بھی ہے۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ حدیث ترمذی میں مرفوعا ہے کہ یوم معود قیامت کا دن ہے اور شاہد جمعہ کا دن، لیکن علی قول المشہور وہ یوم عرفہ ہے جس میں حجاج اپنے اپنے مقامات سے سفر کر کے عرفات میں اس یوم کے قصد سے جمع ہوتے ہیں، تو گویا وہ دن مقصود اور دوسرے لوگ حاضری کا قصد کرنے والے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وشاھد ومشھود (3:85) ” اور دیکھنے والے اور دیکھی جانے والی چیز کی “۔ اس دن لوگوں کے اعمال بھی پیش ہوں گے ، سب لوگ بھی پیش ہوں گے ، تو یہ سب مشہود ہوئے ، اور سب لوگ دیکھیں گے تو وہ شاہد بھی ہوئے ، اس دن ہر چیز پردے سے باہر آجائے گی اور ہر کسی کو نظر آئے گی۔ یہ عظیم اجرام فلکی والا آسمان ، اور یہ عظیم دن جس میں حساب و کتاب ہوگا اور سب شاہد اور مشہود جمع ہوں گے۔ ان کے ذکر سے جو فضا بنتی ہے۔ وہ اپنی عظمت ، اہمیت اور عظیم اجتماع کے لحاظ سے ، اس بات کے لئے مناسب ہے کہ اس میں اصحا بےالاخدود کا عظیم سانحہ بیان کیا جائے۔ یہ وسیع و عریض فضا گویا اس واقعہ کے بیان کے لئے اور اس حقیقت اور وزن دار بنانے کے لئے بنائی گئی یعنی قیامت کی فضا جو اس دنیا کی وسعتوں سے زیادہ وسیع ہے اور اس کی زندگی اور اس کا زمانہ اس دنیا کی محدود زندگ اور محدود زمانے سے زیادہ وسیع ہے۔ اس فضا کی تیاری کے بعد اور ایک وسیع میدان تیار کرنے کے بعد اب اس عظیم واقعہ کی طرف فقط سرسری اشاہ کیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” والیوم “ یہ ثبوت قیامت پر دوسرا شاہد ہے اور اس قسم کا جواب محذوف ہے ” یوم موعود “ سے قیامت کا دن مراد ہے۔ جس طرح قیامت کا یوم موعود پر نہایت سخت اور ہولناک ہوگا۔ اسی طرح اس دن میں مجرموں پر اللہ تعالیٰ کی گرفت بھی سخت ہوگی۔ ” وشاہد و مشہود “ یہ ثبوت قیامت پر تیسرا شاہد ہے۔ شاہد سے وہ کفار مراد ہیں جو دنیا میں مسلمانوں کو ایذائیں دیتے اور ایذاء رسانی کے وقت ان کے پاس حاضر ہوتے۔ مشہود سے وہ مسلمان مراد ہیں جن کو ایذاء دی جاتی تھی یہ شاہد ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کافروں کو سخت سزا دے گا۔ اس دن مسلمان کفار کے عذاب کے شاہد ہوں گے اور وہ مشہود ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور حاضر ہونے والے دن کی قسم اور اس دن کی قسم جس میں حاضری ہونی ہے۔ اس آسمان کی قسم جس میں برج ہیں برجوں سے مراد یا تو وہ مشہور بارہ برج ہیں جن کو علم ہیئت والوں نے بیان کیا ہے کہ آفتاب کی گردش کے باعث آسمان میں ایک دائرہ پیدا ہوتا ہے جس کو دائرۃ البروج کہتے ہیں آفتاب اس دائرہ کو سال بھر میں پورا کرتا ہے اور جو جو ستارے ان بروج میں جمع ہوتے ہیں ان سے جو شکل پیدا ہوتی ہے ان کے نام یہ ہیں۔ حمل، ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت ہم کہیں ان برجوں کے نام کسی دوسری جگہ بھی بتا چکے ہیں یہ ایک فرض تقسیم ہے پھر ان برجوں کے خواص اور ان کے انقلابات وغیرہ پر مفسرین نے بڑی بحث کی ہے خاص طور پر حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب (رح) نے تفسیر عزیزی میں سیر حاصل بحث کی ہے جو صاحب چاہیں تفسیر عزیزی میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ غرض ان ستاروں کی وجہ سے اور ان کی گردش کے باعث عالم سفلی میں عجیب و غریب اتار چڑھائو رونما ہوتے ہیں جس کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ بہرحال ! یا تو یہ بروج ہیں یا منازل نجوم ہیں جن کو محل اور قلعے سے تعبیر فرمایا ہے جیسا کہ ہم نے سورہو فرقان میں عرض کیا تھا ان قلعوں پر فرشتے پہرہ دار مقرر ہیں یہ شاید اس وجہ سے نام رکھا کہ جس طرح بادشاہ اور بڑے ذی عزت لوگ مخلوق میں اترتے ہیں اسی طرح نجوم ان منازل میں اترتے ہیں یا بڑے بڑے ستارے مراد ہیں۔ جیسا کہ ہم کئی جگہ بروج کا ترجمہ ستاروں کے ساتھ کرچکے ہیں چناچہ بعض روایات میں مرفوعاً بروج کی تفسیر ستاروں کے ساتھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے وہ دن جس کا وعدہ کیا گیا ہے یعنی والیوم الموعود سے مراد قیامت کا دن ہے شاھد اور مشھود میں مفسرین کے بہت سے قول ہیں مشہور یہ ہے کہ شاید جمعہ کا دن ہے اور مشہود عرفہ کا دن ہے چونکہ جمعہ ہر شہر میں ہوتا ہے اس لئے اس کو شاید کہا اور عرفات میں لوگ اطراف عالم سے خود جاکر جمع ہوتے ہیں اس لئے شاید اس کو مشہور فرمایا، لہٰذا روایتاً یہ قول بہت راجح ہے اگرچہ اقوال بہت سے ہیں مثلاً شاید اللہ تعالیٰ اور مشہود بہ توحید ، شاہد انبیاء (علیہم السلام) اور مشہود ان کی امتیں شاہدکاتب اعمال اور مشہود وعمل کرنے والے شاید انسان کے اعضا اور مشہود بہ انسان شاہد دن اور رات اور مشہود بہ وہ نیک وبدکام جو انسان کرتا ہے شاہد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مشہود علیہ دوسری امتیں شاہد ہجر اسود اور مشہود لہم حجاج۔ حضرت امام فخر الدین رازی (رح) فرماتے ہیں شاہد مخلوقات اور مشہود حضرت حق جل مجدہ جس طرح شاہد ومشہود میں مفسرین کے کئی قول ہیں اسی طرح جواب قسم کے متعلق بھی کئی قول ہیں بعض نے کہا جواب قسم محذوف ہے۔ یعنی لعن من یوذی المومنین کما لعن اصحاب الاحدود۔ یعنی جو لوگ مومنین کو تکلیف دیتے ہیں ان پر اسی طرح لعنت ہو جس طرح اصحاب اخدود پر لعنت کی گئی بعض نے کہا قد اور لام مقدر مان کر ان قسموں کا جواب قتل اصحب الاخدود ہے قتادہ اور ابن مسعود کا قول ہے کہ جواب قسم ان بطش ربک لشدید ہے مگر اصح یہ ہے کہ جواب قسم ان الذین فتنوا المومنین والمومنت ہے۔