Surat ul Burooj

Surah: 85

Verse: 8

سورة البروج

وَ مَا نَقَمُوۡا مِنۡہُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ یُّؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ ۙ﴿۸﴾

And they resented them not except because they believed in Allah , the Exalted in Might, the Praiseworthy,

یہ لوگ ان مسلمانوں ( کے کسی اور گناہ کا ) بدلہ نہیں لے رہے تھے ، سوائے اس کے کہ وہ اللہ غالب لائق حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And they had no fault except that they believed in Allah, the Almighty, Worthy of all praise! meaning, they did not commit any sin according to these people, except for their faith in Allah the Almighty, Who does not treat unjustly those who desire to be with Him. He is the Most Mighty and Most Praiseworthy in all of His statements, actions, legislation, and decrees. He decreed what happened to these servants of His at the hands of the disbelievers - and He is the Most Mighty, the Most Praiseworthy - even though the reason for this decree is unknown to many people. Then Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یعنی ان لوگوں کا جرم، جنہیں آگ میں جھونکا جا رہا تھا، یہ تھا کہ وہ اللہ غالب پر ایمان لائے تھے، اس واقع کی تفصیل جو صحیح احادیث سے ثابت ہے، مختصراً اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] یمن میں حمیری خاندان کا ایک بادشاہ ذونواس بڑا متعصب یہودی تھا۔ چھٹی صدی عیسوی میں یہ بادشاہ بنا اور متعصب یہودی ہونے کی بنا پر عیسائیوں کا سخت دشمن تھا۔ اس دور تک اگرچہ عیسائی مذہب میں بہت سے مشرکانہ عقائد راہ پاگئے تھے۔ تاہم بہت سے ایسے لوگ موجود تھے جو بالکل صحیح عیسائی مذہب پر قائم تھے۔ اور وہ مشرکانہ عقائد کے سخت مخالف اور توحید پرست تھے جس راہب کا مندرجہ بالا حدیث میں ذکر ہے وہ اسی قسم کے صحیح العقیدہ عیسائیوں سے تعلق رکھتا تھا اور ایسے سچے مسلمانوں کو ایذائیں پہنچانے اور خندق میں ڈالنے والے بھی ذونواس اور اس کے کرتا دھرتا درباری لوگ تھے جو عیسائیت کو ہر جائز و ناجائز حربہ سے ختم کرنا چاہتے تھے۔ چناچہ ایمان لانے والوں کے مکمل استیصال کے لیے انہوں نے یہ آگ میں جلا ڈالنے کا حربہ اختیار کیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) وما نقموا منھم …: ان اہل ایمان نے ان ظالموں پر یا کسی دوسرے پر کوئی زیادتی نہیں کی تھی جس کا وہ بدلہ لے رہے ہوں ، ان کا جرم صرف اللہ پر ایمان لا کر اس پر قائم رہنا تھا۔ آیت میں ” الا ان یومنوا “ فرمایا ہے جو حال و استقبال پر دلالت کرتا ہے۔” الا ان امنوا “ نہیں فرمایا جو ماضی کا صیغہ ہے، یعنی ان کا جرم یہی نہ تھا کہ وہ ایمان لے آئے تھے، بلکہ یہ تھا کہ وہ اب بھی ایمان پر قائم تھے۔ (٢) باللہ العزیز الحمید : یعنی ان کا اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا کوئی جرم یا غلط کام نہ تھا، بلکہ وہ اس اللہ پر ایمان رکھتے تھے جو عزیز وحمید ہے اور آئندہ آیت میں مذکور صفات کا مالک ہے اور ان صفات کی وجہ سے اس کا حق ہے کہ اس پر ایمان رکھا جائے۔ یہ قرآن مجید کا خاص اسلوب ہے کہ واقعات بیان کرتے ہوئے بھی وہ عقائد کی درستی اور احکام کی وضاحت کا اہتمام جاری رکھتا ہے، اس کی ایک مثال یہ آیت ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللہِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ۝ ٨ ۙ نقم نَقِمْتُ الشَّيْءَ ونَقَمْتُهُ : إذا أَنْكَرْتُهُ ، إِمَّا باللِّسانِ ، وإِمَّا بالعُقُوبةِ. قال تعالی: وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة/ 74] ، وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج/ 8] ، هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة/ 59] . والنِّقْمَةُ : العقوبةُ. قال : فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف/ 136] ، فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم/ 47] ، فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف/ 25] . ( ن ق م ) نقمت الشئی ونقمتہ کسی چیز کو برا سمجھنا یہ کبھی زبان کے ساتھ لگانے اور کبھی عقوبت سزا دینے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ [ البروج/ 8] ان کو مومنوں کی یہی بات بری لگتی تھی ۔ کہ وہ خدا پر ایمان لائے ہوئے تھے ۔ وَما نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْناهُمُ اللَّهُ [ التوبة/ 74] اور انہوں نے ( مسلمانوں میں عیب ہی کو کونسا دیکھا ہے سیلا س کے کہ خدا نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا ۔ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّاالآية [ المائدة/ 59] تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو ۔ اور اسی سے نقمۃ بمعنی عذاب ہے قرآن میں ہے ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْناهُمْ فِي الْيَمِ [ الأعراف/ 136] تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا گر ان کو در یا میں غرق کردیا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا[ الروم/ 47] سو جو لوگ نافر مانی کرتے تھے ہم نے ان سے بدلہ لے کر چھوڑا ۔ فَانْتَقَمْنا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ [ الزخرف/ 25] تو ہم نے ان سے انتقام لیا سو دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حی ھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزیز العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حمد الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود : إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ . ( ح م د ) الحمدللہ ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود/ 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف/ 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح/ 29] محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گومن وجہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشاره پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم/ 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پر مذ کور ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨۔ ١٠) اور ان کافروں نے مسلمانوں میں اور کوئی عیب نہیں پایا تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے تھے جن لوگوں نے سچے ایماندار مردوں اور سچی ایماندار عورتوں کو جلایا اور ان کو تکلیف پہنچائی اور پھر انہوں نے اپنے کفر و شرک سے توبہ نہیں کی تو آخرت میں ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے اور دوزخ میں ان کے لیے جلنے کا سخت عذاب ہے۔ یا یہ کہ دنیا میں جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو آگ میں جلایا اور یہ نجرانی یا موصل والے تھے ان لوگوں نے مسلمانوں کی ایک جماعت کو پکڑ کر ان کو تکلیف دی اور آگ میں جلا دیا تاکہ ان کا دین اختیار کرلیں اور ان لوگوں کا بادشاہ یوسف یا ذالنواس تھا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(85:8) وما نقموا منھم : واؤ عاطفہ، ما نافیہ نقموا منھم : نقموا ماضی جمع مذکر غائب ۔ نقم باب ضرب مصدر۔ نقم ۔۔ منہ وعلیہ : کسی کو کسی چیز کا مجرم گرداننا۔ ملامت کرنا ۔ باب افتعال سے بمعنی انتقام لینا۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور انہوں نے ان کو (یعنی مومنین کو) کسی عیب کا مجرم نہ پایا۔ الا (حرف استثنائ) سوائے اس کے کہ۔ ان یؤمنوا ماضی ہے اس لئے یؤمنوا مضارع (منصوب بوجہ عمل ان ) جمع مذکر غائب۔ اور ب تاویل مصدر مفعول ہے فعل نقموا کا۔ کہ وہ اللہ پر ایمان لائے تھے۔ (چونکہ نقموا ماضی ہے اس لئے یؤمنوا (مضارع) بھی ماضی کے معنی میں ہے باللہ جار مجرور۔ اللہ پر۔ مطلب یہ ہے کہ ان مؤمنین کا جن کو آگ کی کھائیوں میں پھینک کر کفار نطارہ کر رہے تھے اور کوئی قصور نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے تھے۔ العزیز (ایسا غالب اور جو اتنا با اقتدار ہے کہ اس کے عذاب کا اندیشہ کیا جاتا ہے) الحمید (ایسا مستحق حمد محسن کہ اس سے ثواب کی امید کی جاتی ہے) دونوں باری تعالیٰ کی صفات ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس سورت میں ایک واقعہ کا اجمالی تذکر ہے جو صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ کسی کافر بادشاہ کے پاس ایک کاہن تھا، اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھ کو کوئی ہوشیار لڑکا دو تو میں اسکو اپنا علم کہنات سکھا دوں۔ چناچہ ایک لڑکا تجویز کیا گیا، اس کے راستہ میں ایک عیسائی راہب رہتا تھا جو اس وقت کے دین حق مسیحیت کا سچا پیرو تھا، اس لڑکے کی راہب کے پاس بھی آمدورفت شروع ہوگئی۔ چناچہ وہ خفیہ مسلمان ہوگیا، ، ایک مرتبہ اس لڑکے نے دیکھا کہ ایک شیر نے راستہ روک رکھا ہے اور لوگ پریشان ہیں، اس نے ایک پتھر ہاتھ میں لیکر دعا کی کہ اے اللہ اگر راہب کا دین سچا ہے تو یہ جانور میرے پتھر سے مارا جائے، یہ کہہ کر وہ پتھر مارا شیر کے لگا، اور وہ ہلاک ہوگیا لوگوں میں چرچا ہوا کہ اس لڑکے کو کوئی عجیب علم آتا ہے، کسی اندھے نے سنا تو اس نے لڑکے سے آکر کہا کہ میری آنکھیں اچھی ہوجائیں، لڑکے نے دعا کی کہ وہ بینا ہو کر مسلمان ہوگیا۔ بادشاہ کو یہ خبریں پہنچیں تو اس نے لڑکے اور راہب اور اندھے کو جو اب بینا تھا گرفتار کرا کر بلایا۔ راہب اور اندھے کو شہید کرادیا اور لڑکے کے لئے حکم دیا کہ پہاڑ سے گرایا جائے، گر جو لوگ اس کو لے گئے تھے وہ خود گر کر ہلاک ہوگئے اور لڑکا صحیح وسالم واپس آیا، پھر بادشاہ نے سمندر میں غرق کرنے کا حکم دیا وہ اس سے بھی بچ گیا اور جو لوگ اس کو ڈبونے لے گئے تھے وہ سب غرق ہوگئے، یہ دیکھ کر بادشاہ سخت مضطرب ہوا، لڑکا بادشاہ سے کہنے لگا کہ مجھ کو بسم اللہ کہہ کر تیر مارو تو میں مرجاوں گا۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا تو لڑکا عازم فردوس ہوگیا، یہ حالت دیکھ کر یکلخت عامة الناس کی زبان سے نعرہ بلند ہوا کہ ہم سب اللہ پر ایمان لاتے ہین، یہ دیکھ کر بادشاہ بد حواس ہوگیا اور حالت غیظ میں ارکان سلطنت سے مشورہ کیا۔ چناچہ ان کی صلاح سے بڑی بڑی خندقیں آگ سے بھروا کر اعلان کردیا کہ جو شخص اسلام سے نہ پھرے گا اس کو آگ میں جلا دیا جائے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ مَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ﴾ میں یہ بتایا کہ لوگوں نے جن اہل ایمان کو تکلیف دی آگ میں ڈالا انہوں نے کوئی چوری نہیں کی ڈاکہ نہیں ڈالا، کسی کا مال نہیں لوٹا، ان سے ناراض ہونے کا سبب اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ وہ لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے، ایمان لانا کوئی جرم کی بات نہیں ہے انسان کے فرائض میں سے ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک پر ایمان لائے اور اس کے بھیجے ہوئے دین کو قبول کرے، بجائے اس کے کہ خندقیں کھودنے والے خود ایمان لاتے، ایمان لانے والوں پر اپنا غصہ اتارا اور انہیں آگ میں ڈالا یہاں پہنچ کر حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی (رض) کا واقعہ یاد آگیا جسے حافظ ابن حجر (رض) نے الاصابہ میں لکھا ہے اور یہ ہے کہ حضرت عمر بن خطاب (رض) نے اپنے زمانہ خلافت میں ان کو ایک لشکر کے ساتھ رومیوں سے جنگ کرنے کے لیے بھیجا ان حضرات کو رومیوں نے قید کیا اور ان کو اپنے بادشاہ کے پاس لے گئے اور بادشاہ سے کہا کہ ان میں سے ایک شخص وہ بھی ہے جو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہا ہے یہ بادشاہ عیسائی تھا اس نے حضرت عبداللہ بن حذافہ (رض) سے گفتگو کی جس کے سوال و جواب اور پورا قصہ درج کیا جاتا ہے۔ عیسائی بادشاہ : میں تم کو اپنی حکومت اور سلطنت میں شریک کرلوں گا اگر تم عیسائی مذہب قبول کرلو۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ (رض) : تیری حکومت تو کچھ بھی نہیں اگر تو اپنی حکومت دے دے اور سارے عرب والے بھی مل کر مجھے اپنا ملک صرف اس شرط پر دینا چاہیں کہ پلک جھپکنے کے برابر جتنا وقت ہوتا ہے صرف اتنی دیر کے لیے بھی دین محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھر جاؤں تو میں ہرگز ایسا نہیں کرسکتا۔ عیسائی بادشاہ : اگر تم عیسائی مذہب قبول نہیں کرتے تو میں تمہیں قتل کر دوں گا۔ حضرت عبداللہ بن حذافہ (رض) : تو چاہے تو قتل کر دے میں اپنی بات ایک مرتبہ کہہ چکا ہوں، نہ اس میں کسی ترمیم کی گنجائش ہے اور نہ سوچنے سے دوسری رائے بدل سکتی ہے بلکہ وہ ایسا حق ہے کہ اس کے خلاف سوچنا بھی مومن بندہ کبھی گوارا نہیں کرسکتا۔ یہ سن کر عیسائی بادشاہ نے ان کو صلیب (سولی) پر چڑھوا دیا اور اپنے آدمیوں سے کہا کہ اس کے ہاتھ اور پاؤں میں تیر مارو اور یہ سمجھ لو کہ اس کو قتل کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ تکلیف دے کر عیسائیت قبول کروانا مقصود ہے، چناچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، اللہ کا یہ بندہ صرف اس بات کا مجرم تھا کہ اللہ کو مانتا تھا اور اس کے بھیجے ہوئے دین حق کو ماننے والا تھا، بادشاہ کے آدمیوں نے تیر مارنے شروع کردیئے، تیر مارتے جاتے اور کہتے جاتے کہ اب بھی ہمارا مذہب مان لے اور دین محمدی کو چھوڑ اور وہ اللہ کا بندہ یہی کہتا جاتا تھا کہ جو مجھے کہنا تھا کہہ چکا اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ جب اس ترکیب سے حضرت عبداللہ بن حذافہ (رض) کا ایمان غارت کرنے میں ناکام ہوگئے تو اس عیسائی بادشاہ نے کہا کہ ان کو سولی سے اتار لو اور ایک دیگ میں خوب پانی گرم کرو اور ان کو دیگ کے پاس کھڑا کر کے ان کے ساتھیوں میں سے ایک ساتھی کو ان کے سامنے اس دیگ میں ڈال دو ۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا اور حضرت عبداللہ بن حذافہ کے سامنے ان کا ایک ساتھی دیگ میں ڈالا گیا جس کی جان ان کے سامنے نکلی اور گوشت و پوست جلا اور ہڈیوں کے جوڑ جوڑ علیحدہ ہوئے، اس درمیان میں بھی حضرت عبداللہ بن حذافہ کو عیسائیت قبول کرنے کی ترغیب دیتے رہے اور جان بچانے کا لالچ دلاتے رہے۔ الحاصل جب وہ عیسائیت قبول کرنے پر راضی نہ ہوئے تو بادشاہ نے ان کو اس جلتی ہوئی دیگ میں ڈالنے کا حکم دیا، چناچہ دیگ کے پاس گئے اور جب ان کو ڈالنے لگے تو وہ رونے لگے۔ بادشاہ کو خبر دی گئی کہ وہ رو رہے ہیں، بادشاہ نے سمجھا کہ وہ موت سے گھبرا گئے اب تو ضرور عیسائی مذہب قبول کرلیں گے۔ چناچہ ان کو بلا کر اس نے پھر عیسائی ہونے کی ترغیب دی مگر انہوں نے اب بھی انکار کیا۔ عیسائی بادشاہ : اچھا یہ بتاؤ کہ تم روئے کیوں ؟ حضرت عبداللہ بن حذافہ : میں نے کھڑے کھڑے سوچا کہ اب میں اس وقت اس دیگ میں ڈالا جا رہا ہوں تھوڑی دیر میں جل بھن کر ختم ہوجاؤں گا اور ذرا دیر میں جان جاتی رہے گی۔ افسوس کہ میرے پاس صرف ایک ہی جان ہے کیا اچھا ہوتا کہ آج میرے پاس اتنی جانیں ہوتیں جتنے میرے جسم میں بال ہیں وہ سب اس دیگ میں ڈال کر ختم کردی جائیں۔ اللہ کی راہ میں ایک جان کی کیا حیثیت ہے۔ عیسائی بادشاہ : میرا ماتھا چوم لو گے تو تمہارے ساتھ سب ہی کو چھوڑ دوں گا۔ حضرت عبداللہ اپنی جان بچانے کے لیے اس پر بھی تیار نہ تھے کہ اس کا ماتھا چوم لیتے (کیونکہ اس سے کفر کی عزت ہوتی ہے) لیکن اس بات کا خیال کرتے ہوئے کہ میرے اس عمل سے سارے مسلمانوں کی رہائی ہوجائے گی اس کا ماتھا چومنے پر راضی ہوگئے اور قریب جا کر اس کا ماتھا چوم لیا۔ اس نے ان کو اور ان کے تمام ساتھیوں کو رہا کردیا۔ جب حضرت عبداللہ مدینہ منورہ پہنچے تو امیر المومنین حصرت عمر (رض) نے پورا قصہ سنا اور پھر فرمایا کہ چونکہ انہوں نے مسلمانوں کی رہائی کے لیے ایک کافر کا ماتھا چوما ہے اس لیے ضروری ہے کہ اب ہر مسلمان ان کا ماتھا چومے، میں سب سے پہلے چومتا ہوں چناچہ سب سے پہلے حضرت عمر (رض) نے ان کا ماتھا چوما۔ اہل ایمان سے دشمنی رکھنے والے صرف اپنے اقتدار کو دیکھتے ہیں اور قادر مطلق جل مجدہ کی قدرت کی طرف نظر نہیں کرتے وہ قادر بھی ہے اور اسے ہر بات کا علم بھی ہے اس کے بندوں کے ساتھ جو بھی زیادتی کرے گا وہ اس کی سزا دے دے گا کوئی شخص یوں نہ سمجھے کہ میرا ظلم یہیں رہ جائے گا اس کی اللہ تعالیٰ کو خبر نہ ہوگی ایسا سمجھنا جہالت ہے۔ آیت کے ختم پر اس مضمون کو بیان فرما دیا ﴿ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌؕ٠٠٩﴾ (اور اللہ ہر چیز سے پورا باخبر ہے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” وما نقموا “ ان مسلمانوں پر ان کی غیظ و غضب کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ شرک کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لا چکے تھے وہ اللہ جو سب پر غالب ہے ہر خوبی کا مالک اور حمد وثنا کا مستحق ہے۔ ” الذی لہ ملک السموت “ یہ توحید کا بیان ہے علی سبیل الترقی وہ ساری کائنات کا بادشاہ ہے، سارے جہان میں اسی کا تصرف و اختیار نافذ ہے وہ عالم الغیب اور حاضر و ناظر ہے اس لیے حاجات و مشکلات میں مافوق الاسباب صرف اسی کو پکارو اور اس کے سوا کسی اور کو مت پکارو۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) اور یہ خندقوں والے ان مسلمانوں سے بدلا نہ لیتے تھے مگر اس بات کا کہ وہ یقین لائے اللہ تعالیٰ پر جو بڑا زبردست اور جملہ صفات سے متصف ہے۔ نقم کے اصل معنی عیب لگانے کے ہیں اور زبردست آدمی جب کوئی عیب لگاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس عیب کی پاداش میں سزا دیتا اور بدلا لیا کرتا ہے اس لئے ہم نے ترجمے اور تیسیر میں فرق کردیا بہرحال ان ظالموں نے مسلمانوں میں سوائے اس کے کوئی عیب نہیں پایا کہ وہ اس اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئے جو کمال قوت کا مالک اور تمام خوبیوں سے متصف ہے یہ بدلا لینا محض ظلم اور زبردستی اور دھینگا دھانگی ہے۔ چناچہ اس کی پاداش دنیا میں بھی پائی اور آختر میں بھی پائیں گے۔ اس قصے کا ذکر فرمانا مسلمانوں کو تسلی کا موجب ہے نیز ان کی کرسیوں پر بیٹھ کر مسلمانوں کو یہ سزا دلوانا ان کی سخت ظالم اور بےرحم ہونے پر دلالت کرتا ہے اسی لئے ہلاکت کئے گئے۔