Surat ul Ghashiya

Surah: 88

Verse: 21

سورة الغاشية

فَذَکِّرۡ ۟ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾

So remind, [O Muhammad]; you are only a reminder.

پس آپ نصیحت کر دیا کریں ( کیونکہ ) آپ صرف نصیحت کرنے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی آپ کا کام صرف تبلیغ و دعوت ہے، اس کے علاوہ یا اس سے بڑھ کر نہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فذکر انما انت مذکر…: آپ کا کام نصیحت کرنا ہے، زبردستی مسلمان کرنا نہیں، جیسا کہ فرمایا : (لا اکراہ فی الدین “ (البقرۃ : ٢٥٦)”’ دین میں کوئی زبردستی نہیں ۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَذَكِّرْ۝ ٠ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ۝ ٢١ ۭ ذكر ( نصیحت) وذَكَّرْتُهُ كذا، قال تعالی: وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] ، وقوله : فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] ، قيل : معناه تعید ذكره، وقد قيل : تجعلها ذکرا في الحکم «1» . قال بعض العلماء «2» في الفرق بين قوله : فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] ، وبین قوله : اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] : إنّ قوله : فَاذْكُرُونِي مخاطبة لأصحاب النبي صلّى اللہ عليه وسلم الذین حصل لهم فضل قوّة بمعرفته تعالی، فأمرهم بأن يذكروه بغیر واسطة، وقوله تعالی: اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ مخاطبة لبني إسرائيل الذین لم يعرفوا اللہ إلّا بآلائه، فأمرهم أن يتبصّروا نعمته، فيتوصّلوا بها إلى معرفته . الذکریٰ ۔ کثرت سے ذکر الہی کرنا اس میں ، الذکر ، ، سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذَكَّرْتُهُ كذا قرآن میں ہے :۔ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یاد دلاؤ ۔ اور آیت کریمہ ؛فَتُذَكِّرَ إِحْداهُمَا الْأُخْرى [ البقرة/ 282] تو دوسری اسے یاد دلا دے گی ۔ کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اسے دوبارہ یاد دلاوے ۔ اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں وہ حکم لگانے میں دوسری کو ذکر بنادے گی ۔ بعض علماء نے آیت کریمہ ؛۔ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ [ البقرة/ 152] سو تم مجھے یاد کیا کر میں تمہیں یاد کروں گا ۔ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ [ البقرة/ 40] اور میری وہ احسان یاد کرو ۔ میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کے مخاطب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جنہیں معرفت الہی میں فوقیت حاصل تھی اس لئے انہیں براہ راست اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اور دوسری آیت کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کو اس نے انعامات کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ۔ اس بنا پر انہیں حکم ہوا کہ انعامات الہی میں غور فکر کرتے رہو حتی کہ اس ذریعہ سے تم کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوجائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢١۔ ٢٦) تو آپ بھی بذریعہ قرآن کریم ان کو نصیحت کردیا کیجیے، آپ ان پر مسلط نہیں ہیں کہ ان کو ایمان لانے پر مجبور کریں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے قتال کا حکم دیا البتہ جو ایمان لانے سے روگردانی کرے گا تو اللہ تعالیٰ آخرت میں اسے دوزخ کا عذاب دے گا، آخرت میں ہمارے ہی پاس ان کا آنا ہوگا اور دنیا میں ان کی پختگی دنیا اور آخرت میں ثواب و عذاب دینا ہمارا ہی کام ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(88:21) فذکر : ف ترتیب کا ہے۔ امر مابعد کا قبل پر مترتب ہونا۔ ذکر فعل امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ تذکیر (تفعیل) مصدر سے ۔ تو یاد دلاتا رہ۔ تو نصیحت کرتا رہ۔ تو سمجھاتا رہ۔ یعنی آپ دلائل متذکرہ بالا کی روشنی میں ان کو سمجھائیں۔ نصیحت کریں۔ انما انت مذکر : تحقیق تم نصیحت کرنے والے ہی ہو۔ یعنی آپ کا کام ان کو نصیحت کرنا ہے۔ آپ کا ذمہ صرف نصیحت پہنچا دینا ہے۔ یہ نصیحت کرنے کی علت کا بیان ہے ۔ مذکر ، تذکیر (تفعیل) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے ۔ نصیحت کرنے والا۔ یاد دلانے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اونٹ کی خلقت، پہاڑوں کی جسامت اور زمین کی وسعت کا ذکر فرما کر دین کے داعی کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ اسے بھی اپنے آپ میں یہ اوصاف پیدا کرنے چاہیے۔ اونٹ کی خلقت، آسمان کی بلندی اور زمین کی وسعت کا تذکرہ فرما کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ ان لوگوں کو نصیحت کرتے جائیں، آپ کا فرض نصیحت کرنا ہے کیونکہ آپ کو ان پر چوکیدار اور کو توال نہیں بنایا گیا۔ آپ کی پرخلوص کوشش کے باوجود جو شخص اس نصیحت سے منہ پھیرے اور اس کا انکار کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بڑا عذاب دے گا کیونکہ بالآخر انہیں ہمارے پاس حاضر ہونا ہے اور ان کا حساب ہمارے ذمہ ہے۔ اونٹ کی خلقت، آسمان کی بلندی اور زمین کی وسعت کا ذکر فرما کر یہ اشارہ دیا ہے کہ ایک داعی کا حوصلہ اونٹ کی طرح ہونا چاہیے جو بھوک، پیاس اور مشقت برداشت کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور اپنے مالک کی تابعداری کرتا ہے۔ آسمان کی بلندی کا ذکر فرما کر اشارہ کیا ہے کہ داعی کی سوچ اور عزم آسمان کی طرح بلند ہونی چاہیے اور اسے دنیا کے نفع و نقصان سے بالاتر ہو کر دین حنیف کی خدمت اور لوگوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے لگے رہنا چاہیے۔ زمین کا ذکر فرماکر بتلایا ہے کہ داعی میں زمین کی مانند حوصلہ اور وسعت ہونی چاہیے۔ جس داعی میں اونٹ کا حوصلہ، سوچ اور عزم میں آسمان کی بلندی اور زمین جیسی وسعت اور ظرف پایا جائے گا یقیناً وہ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرے گا۔ اگر بظاہر اپنی دعوت میں کامیاب نہ ہوپائے تو تب بھی وہ زمین و آسمان کی وسعتوں سے زیادہ اجر پائے گا۔ جہاں تک مخالفت کرنے والوں کا تعلق ہے ان کا معاملہ ” اللہ “ کے حوالے کرنا چاہیے، وہی ان سے حساب لینا والا اور ان کو سزا دینے والا ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے کہ سب نے اس کے حضور پیش ہونا ہے اور اس نے ان سے حساب لینے کا ذمہ اٹھا رکھا ہے، لہٰذا داعی کا فرض نصیحت کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذمہ ان سے حساب لینا ہے۔ مسائل ١۔ ایک داعی کو پورے اخلاص کے ساتھ لوگوں کو نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ ٢۔ الدّاعی کو لوگوں پر کو توال بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ٣۔ تمام لوگوں نے بالآخر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔ ٤۔ جو شخص نصیحت سے منہ پھیرے اور انکار کرے گا اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو جزا دے گا اور برے لوگوں کو بڑے عذاب سے دوچار کرے گا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کا حساب لینے والا ہے : ١۔ یا اللہ میرے حق میں فیصلہ فرمادے تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یوسف : ٨٠) ٢۔ بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (ھود : ٤٥) ٣۔ وحی کی فرمانبرداری کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرمادے اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس : ١٠٩) ٤۔ آپ کا کام تبلیغ کرنا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے۔ (الرعد : ٤٠) ٥۔ سن لو ! اللہ ہی کا حکم چلتا ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام : ٦٢) ٦۔ خبردار اسی کے لیے حکم ہے اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (الانعام : ٦٢) ٧۔ صبر کرو یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ فرما دے اور وہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ (الاعراف : ٨٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فذکر ........................ حسابھم ان کو آخرت کے واقعات کی یاددہانی کرائیں اور اس کائنات کے شواہد بھی بتایں۔ آپ کو بڑا فریضہ یہ ہے کہ یاد دہانی کرائیں۔ اور یہ ایک متعین اور مقدر فریضہ ہے۔ دعوت اسلامی کے معاملے میں آپ کا کردار بس اسی قدر ہے کہ آپ دعوت پہنچادیں۔ اس کے بعد نہ آپ کا حق ہے کہ کچھ مزید کریں اور نہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ آپ کا فریضہ یہ ہے کہ آپ دعوت پہنچائیں اس سے آگے آپ کسی اسلام پر مجبور کرنے کے مکلف نہیں ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مخاطبین کو قیامت کے وقوع اور اس دن کی پریشانی اور اہل ایمان کی خوبی اور خوشحالی سے اور وہاں کی نعمتوں سے باخبر فرما دیا اور ان چیزوں کے بارے میں جو مخاطبیین کو تعجب تھا اسے دور فرما دیا اس سب کے باوجود اگر کوئی نہیں مانتا اور ایمان نہیں لاتا تو اس کے نتیجے کا وہ خود ذمہ دار ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے مخاطبین کو ہدایت پر لانے کا زیادہ فکر رہتا تھا۔ لوگ آپ کی دعوت کو قبول نہ کرتے تھے تو اس سے آپ رنجیدہ ہوتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ آپ ان کو نصیحت کردیا کریں۔ ان کے قبول نہ کرنے کی وجہ سے رنجیدہ نہ ہوں آپ کا کام اتنا ہی ہے کہ ان کو بتادیں۔ نصیحت فرما دیں، آپ پر مسلط نہیں کیے گئے کہ ان کو منوا کر ہی چھوڑیں، آپ نے بتادیا سمجھا دیا، جو مان لے گا اس کے لیے بہتر ہوگا لیکن جو نہ مانے گا کفر پر ہی جما رہے گا، نصیحت سے روگردانی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے بڑا عذاب دے گا اسے عذاب دینے پر پوری طرح قدرت ہے، کوئی اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتا۔ پھر فرمایا ﴿ اِنَّ اِلَيْنَاۤ اِيَابَهُمْۙ٠٠٢٥﴾ (بلاشبہ ہماری ہی طرف ان کو لوٹنا ہے) ﴿ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ (رح) ٠٠٢٦﴾ (بلاشبہ ہمارے ذمہ ان کا حساب لینا ہے) ۔ وھذا آخر تفسیر سورة الغاشیة اعاذنا اللہ تعالیٰ من اھوال الغاشیة وادخلنا فی الجنة العالیة۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ ” فذکر “ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلیہ ہے اور یہ آیت سورة الاعلی کی آیت ” فذکر ان نفعت الذکری “ سے متعلق ہے۔ کیونکہ یہ سورت اس سورت کا تتمہ ہے۔ اگر مشرکین قرآن میں غور و تدبر نہیں کرتے اور آپ کے بطریق احسن بیان و ارشاد کے باوجود نہیں مانتے تو اس سے آپ غمگین نہ ہوں کیونکہ آپ بشیر و نذیر اور ناصح و معلم ہیں۔ اس لیے آپ اپنا کام کرتے رہیں آپ کو ان پر داروغہ اور نگران بنا کر نہیں بھیجا گیا کہ ان کو ماننے اور ایمان لانے پر مجبور کریں۔ ” الا من تولی وکفر “ استثناء منقطع ہے اور ” الا “ بمعنی ” لکن “ ہے موصول مع صلہ مبتداء اور ” فیعذبہ اللہ الخ “ جملہ اس کی خبر ہے (روح) ۔ یہ تخویف اخروی ہے لیکن جو ایمان سے اعراض کرے گا اور حق کا انکار کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو سب سے بڑی سزا دے گا۔ مراد آخرت میں دوزخ کا عذاب ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(21) سوائے پیغمبر آپ تو ان کو نصیحت کردیا کیجئے سوائے اس کے نہیں کہ آپ تو نصیحت کنندہ اور تذکیر کرنے والے ہیں ۔ یعنی اگر یہ منکر قیامت کے قائل نہیں ہوتے اور دین حق کو نہیں مانتے تو آپ اس سے نہ تو غمگین ہوں اور نہ کوئی فکر کریں آپ ان کو نصیحت کرتے رہئے اور ڈراتے رہے کیونکہ آپ کا کام تو یہی تبلیغ تذکیر اور اتدار ہے لہٰذا ان کو سمجھادیا کیجئے اور بس۔