Surat ul Ghashiya
Surah: 88
Verse: 3
سورة الغاشية
عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۙ﴿۳﴾
Working [hard] and exhausted.
۔ ( اور ) محنت کرنے والے تھکے ہوئے ہونگے ۔
عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۙ﴿۳﴾
Working [hard] and exhausted.
۔ ( اور ) محنت کرنے والے تھکے ہوئے ہونگے ۔
Laboring, weary. meaning, they did many deeds and became weary in their performance, yet they will be cast into a blazing Fire on the Day of Judgement. Al-Hafiz Abu Bakr Al-Burqani narrated from Abu `Imran Al-Jawni that he said, "`Umar bin Al-Khattab passed by the monastery of a monk and he said: `O monk!' Then the monk came out, and `Umar looked at him and began to weep. Then it was said to him: `O Commander of the faithful! Why are you weeping' He replied: `I remembered the statement of Allah, the Mighty and Majestic, in His Book, عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ (Laboring, weary). تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً
3۔ 1 یعنی انہیں اتنا پر مشقت عذاب ہوگا کہ اس سے ان کا سخت برا حال ہوگا۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں عمل کر کے تھکے ہوئے ہونگے یعنی بہت عمل کرتے رہے، لیکن وہ عمل باطل مذہب کے مطابق بدعات پر مبنی ہونگے، اس لئے عبادت اور سخت اعمال کے باوجود جہنم میں جائیں گے۔ چناچہ اس مفہوم کی روح سے حضرت ابن عباس نے (عَمِلَۃ، نَّاصِیَۃ) سے نصاریٰ مراد لئے ہیں (صحیح بخاری)
[٣] بعض مفسرین نے اس آیت کو آخرت سے متعلق کیا ہے اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ایسے لوگوں کے گلوں میں طوق اور پاؤں میں بیڑیاں ہوں گی۔ اسی حال میں کبھی انہیں کسی بلندی پر چڑھنے کا حکم دیا جائے گا اور کبھی اترنے کا۔ اسی محنت و مشقت کی وجہ سے وہ تھک کر چور ہوجائیں گے۔ اور بعض نے اسے دنیا سے متعلق کیا ہے اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ دنیا میں محنت اور ریاضت کرکے تھک چکے ہوں گے لیکن ان کے نیک اعمال بھی شرک یا کسی دوسری وجہ سے برباد ہوجائیں گے تو ایسے لوگ بھی اپنے انجام سے سخت خوفزدہ ہوں گے۔
(١) عاملۃ ناصبۃ…: کافر دنیا میں جتنی محنت بھی کرے وہ قیامت کے دن گرد و غبار کی طرح اڑا دی جائے گی۔ (دیکھیے فرقان : ٢٣) یہی حال دکھاوا کرنے والے اور سنت کو چھوڑ کر خود ساختہ عمل کرنے والے کا ہے کہ سخت محنت کے باوجود جہنم میں جائے گا۔ (دیکھیے سورة کہف کا آخری رکوع مع تفسیر) اسی مفہم کے پیش نظر ابن عباس (رض) عنہمانے ” عاملتہ ناصبۃ “ سے مراد نصاریٰ لئے ہیں۔ (دیکھیے بخاری، التفسیر، سورة (ھل اتاک حدیث الغاشیۃ) (بعد ح : ٣٨٣١) نصرانی راہبوں کی شدید ریاضتیں مشہور ہیں، مگر وہ قیامت کے دن ان کے کسی کام نہیں آئیں گی۔ اسی طرح جو لوگ خود ساختہ ورد وظیفے یا عبادتیں کرتے ہیں یا اپنے بنائے ہوئے طریقوں پر عبادت کرتے ہیں، خواہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر کریں یا الٹے لٹک کر یا سانس بند کر کے کریں یا مشرکین کی طرح کسی مخلوق کا تصور باندھ کر کریں یا ضربیں لگا کر اتنی سخت مشقتوں کے باوجود وہ قیامت کے دن ذلیل ہوں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یرد علی یوم القیامۃ رھط من اصحابی فیجلون عن الحوص فاقول یا رب ! اصحابی فیقول انک لا علم لک بما احدثوا بعدک انھم ارتدوا علی ادبارھم القھقری فاقول سحقاً سحقاً لمن غیر بعدی) (بخاری، الرقاق، باب فی الحوض : ٦٥٨٥، ٦٥٨٥)” قیامت کے دن میرے ساتھیوں میں سے ایک جماعت مجھ پر پیش کی جائے گی، پھر انہیں حوض سے روک دیا جائے گا تو میں کہوں گا :” اے میرے رب ! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ “ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا :” آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں شروع کردی تھیں، بلاشبہ یہ لوگ ایڑیوں کے بل الٹے لوٹ گئے تھے۔ “ تو میں کہوں گا :” پھر جس نے میرے بعد تبدیلی کردی اسے مجھ سے دور لے جاؤ، اسے مجھ سے دور لے جاؤ۔ “ (٢) تصلی نارًا حامیۃ :” حامیۃ “” حمی یحمی حمیاً “ (س)” النار “ (آگ کا سخت گرم ہونا) سے اسم فاعل مونث ہے، سخت گرم۔
عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ٣ ۙ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے نصب ( تعب) والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص/ 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی: عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] . ( ن ص ب ) نصب اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر/ 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معنی تھک جائے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية/ 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔
(88:3) عاملۃ : ناصبۃ ، عاملۃ ، عمل (باب سمع) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث، عمل کرنے والی۔ محنت کرنے والی۔ (تھکی ہوئی) ۔ ناصبۃ (باب سمع) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث ، عاجز، مصیبت میں مبتلا ہونے والی۔ یہ بھی وجوہ مبتداء کی خبر ہے ۔ یعنی قیامت کے دن بہت سے چہرے (یا چہرے والے) اپنے دنیاوی اعمال کی وجہ سے ذلیل و خوار ہوں گے اور مشقت سے عاجز اور مصیبت میں مبتلاء ہوں گے۔
ف 6 یعنی طرح طرح کے عذاب جھیلتے جھیلتے درماندہ و خستہ حال ہوں گے۔
عاملة ناصبة (3:88) ” سخت مشقت کر رے ہوں گے ، تھکے جاتے ہوں گے “۔ دنیا میں وہ صرف اپنے نفس اور اپنی اولاد کے لئے جدوجہد کررہے ہوں گے ، دنیا اور دنیا کی طمع اور آز کے لئے تھکے ہوں گے۔ پھر آج انجام ان کے سامنے ہے کہ دنیا میں ان کو مل گیا جو ملنا تھا ، مگر آخرت میں تاریکی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اب یہ آخرت کا سامنا ذلیل ہوکر کررہے ہیں ، تنگ ہیں ، خائب و خاسر ہیں اور مایوس ہیں۔ اور اس ذلت اور خواری کے ساتھ پھر درد ناک عذاب۔ تصلی ................ حامیة (4:88) ” شدید آگ میں جھلس رہے ہوں گے “۔ یہ اس کا مزہ چکھیں گے اور مشقتیں برداشت کریں گے۔
﴿عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌۙ﴾ (بہت سے چہرے مصیبت جھیلنے والے دکھ تکلیف اٹھانے والے ہوں گے) صاحب روح المعانی نے حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت حسن (رض) وغیرہما سے نقل کیا ہے کہ اس سے قیامت کے دن کے سلاسل و اغلال یعنی زنجیروں اور بیڑیوں کو لے کر چلنا اور دوزخ کے پہاڑوں پر چڑھنا اور اترنا اور اس کے اثر سے خستہ ہونا مراد ہے اور حضرت عکرمہ (رض) سے اس کا یہ معنی نقل کیا ہے کہ بہت سے لوگ دنیا میں عمل کرتے ہیں (دنیاوی اعمال بھی اور عبادت کے لائن کی ریاضتیں بھی کرتے ہیں اور اس میں تکلیفیں اٹھاتے ہیں لیکن چونکہ اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت پر نہیں اس لیے یہ سب کچھ ضائع ہوگا اور کفر پر موت آنے کی وجہ سے آخرت میں عذاب میں پڑیں گے اور وہاں کی بہت بڑی تکلیف اٹھائیں گے) ۔