Surat ul Ghashiya
Surah: 88
Verse: 4
سورة الغاشية
تَصۡلٰی نَارًا حَامِیَۃً ۙ﴿۴﴾
They will [enter to] burn in an intensely hot Fire.
وہ دہکتی ہوئی آگ میں جائیں گے ۔
تَصۡلٰی نَارًا حَامِیَۃً ۙ﴿۴﴾
They will [enter to] burn in an intensely hot Fire.
وہ دہکتی ہوئی آگ میں جائیں گے ۔
They will enter into Fire, Hamiyah. So that is what has made me cry. "' Al-Bukhari recorded that Ibn `Abbas said, عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ Laboring, weary. "The Christians." It is narrated that Ikrimah and As-Suddi both said, "Laboring in the worldly life with disobedience, and weariness in the Fire from torment and perdition." Ibn `Abbas, Al-Hasan, and Qatadah all said, تَصْلَى نَاراً حَامِيَةً (They will enter into Fire, Hamiyah), meaning, hot with intense heat. تُسْقَى مِنْ عَيْنٍ انِيَةٍ
نَارًا حَامِيَةً (...[ the ] scorching fire...88:4). The word حَامِيَةً hamiyah literally means &hot& and &scorching&. Although this is the natural property of fire that needed no mention, yet the specific reference to this quality of the fire brings out the point that the fire of Hell cannot be compared to the fire of this world. The heat of the fire of this world, some time or the other, is reduced or ends. But the fire of Hell is everlasting and eternal. Its heat will neither reduce nor end.
ناراً حامیہ، حامیہ کے لفظیمعنے گرم کے ہیں اور آگ کا گرم ہونا اس کا طبعی حال ہے پھر اس کی صفت خاصہ بیان کرنا یہ بتلانے کے لئے ہے کہ اس آگ کی گرمی دنیا کی آگ کی طرح کسی وقت کم یا ختم ہونے والی نہیں بلکہ یہ حامیہ دائماً ہے۔
تَصْلٰى نَارًا حَامِيَۃً ٤ ۙ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ حمی الحَمْيُ : الحرارة المتولّدة من الجواهر المحمية، کالنّار والشمس، ومن القوّة الحارة في البدن، قال تعالی: في عين حامية أي : حارة، وقرئ : حَمِئَةٍ وقال عزّ وجل : يَوْمَ يُحْمى عَلَيْها فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 35] ، وحَمِيَ النهار وأَحْمَيْتُ الحدیدة إِحْمَاء . وحُمَيّا الكأس : سورتها وحرارتها، وعبّر عن القوة الغضبية إذا ثارت و کثرت بالحمِيَّة، فقیل : حَمِيتُ علی فلان، أي : غضبت عليه، قال تعالی: حَمِيَّةَ الْجاهِلِيَّةِ [ الفتح/ 26] ، وعن ذلک استعیر قولهم : حمیت المکان حمی، وروي : ( لا حِمَى إلا لله ورسوله) وحمیت أنفي مَحْمِيَة وحمیت المریض حَمْياً ، وقوله عزّ وجل : وَلا حامٍ [ المائدة/ 103] ، قيل : هو الفحل إذا ضرب عشرة أبطن كأن يقال : حَمَى ظَهْرَه فلا يركبوأحماء المرأة : كلّ من کان من قبل زوجها وذلک لکونهم حُمَاة لها، وقیل : حَمَاهَا وحَمُوهَا وحَمِيهَا، وقد همز في بعض اللغات فقیل : حمء، نحو : كمء والحَمْأَةُ والحَمَأُ : طين أسود منتن، قال تعالی: مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] ، ويقال : حمأت البئر : أخرجت حمأتها، وأحمأتها : جعلت فيها حما، وقرئ : فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ : ذات حمأ . ( ح م ی) الحمی وہ حرارت جو گرم جو اہر جیسے آگ سورج وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی جو قوت حارہ سے پیدا ہوجاتی ہے قرآن میں ہے :۔ في عين حامية گرم چشمے میں ۔ ایک قرآت میں حمئۃ ہے يَوْمَ يُحْمى عَلَيْها فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 35] جس دن وہ مال درزخ کی آگ میں خوب گرم کیا جائے گا ۔ حمی النار دن گرم ہوگیا ۔ احمیت الحدیدۃ لوہا گرم کیا گیا ۔ حمیا الک اس شراب کی تیزی ، اور انسان کی قوت غضبیہ جب جوش میں آجائے اور حد سے بڑھ جائے ۔ تو اسے بھی حمیۃ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے حمیت عل فلان میں فلاں پر غصے ہوا ۔ قرآن میں ہے :۔ حَمِيَّةَ الْجاهِلِيَّةِ [ الفتح/ 26] اور ضد بھی جاہلت کی پھر استعارہ کے طور پر حملت المکان کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی کسی جگہ کی حفاظت کرنا ۔ ایک روایت میں ہے (99) لاحمی الاللہ ورسولہ ۔ کہ چراگاہ کا محفوظ کرنا صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حق ہے ۔ حمیت انفی محمیۃ میں نے اپنی عزت کی حفاظت کی ۔ حمیت المرض حمیا بیمار کو نقصان دہ چیزوں سے روگ دیا ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَلا حامٍ [ المائدة/ 103] اور نہ حام ۔ میں بعض کے نزدیک حام سے وہ نرا اونٹ مراد ہے جس کی پشت سے دن بچے پیدا ہوچکے ہوں ( اس کے متعلق ) کہہ دیا جاتا تھا حمی ظھرہ فلا یرکب اس کی پشت محفوظ لہذا اس پر کوئی سوار نہ ہو۔ احماء المرءۃ خاوند کی طرف سے عورت کے رشتہ دار کیونکہ وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں اضافت کے وقت تینوں حالتوں میں حماھا وحموھا وحمیھا کہاجاتا ہے بعض حما ( مہموز ) بھی بولتے ہیں جیسا کہ کما ہے ۔ الحماۃ والحماٰء سیاہ بدبودر مٹی ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر/ 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔ کہا جاتا ہے حمات البئر میں نے کنوئیں کو صاف کیا ۔ احما تھا اسے کیچڑ سے بھر دیا ۔ ایک قرآت میں عَيْنٍ حَمِئَةٍ ہے یعنی سیاہ بدبودار کیچڑ والا چشمہ ۔
(٤۔ ٧) اور پھر جہنم میں داخل ہوں گے اور دوزخ میں کھولتے ہوئے چشمہ سے پانی پلائے جائیں گے اور ان کو ماسوائے ایک خاردار درخت کے اور کوئی کھانا نصیب نہیں ہوگا، ضریع یہ مکہ کے راستہ میں ایک خاردار درخت ہے جب یہ ہرا اور تازہ ہوتا ہے تو اسے اونٹ کھاتے ہیں اور خشک ہوجانے کے بعد بلی کے ناخنوں کی طرح ہوجاتا ہے، غرض وہ درخت نہ فربہ کرے گا اور نہ بھوک ہی کو دور کرے گا۔
(88:4) تصلی نارا حامیۃ یہ جملہ بھی وجوہ کی خبر ہے (دہکتی ہوئی آگ میں پڑے ہوں گے) تصلی۔ صلی سے (باب سمع) مصدر۔ مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ وہ آگ میں پڑیں گے۔ وہ آگ میں داخل ہوں گے۔ نارا حامیۃ موصوف و صفت مل کر تصلی کا مفعول۔ حامیۃ : حمی (باب سمع) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث بمعنی دہکتی ہوئی۔ گرم تیز۔
﴿ تَصْلٰى نَارًا حَامِيَةًۙ٠٠٤﴾ (جلتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے) ۔ لفظ حامیة کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کا معنی ہے ” انتہائی گرم “ جو حمیت النار سے ماخوذ ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری یہ آگ (جس کو تم جلاتے ہو) دوزخ کی آگ کا سترھواں حصہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا (جلانے کو تو) یہی بہت ہے، آپ نے فرمایا (وہاں اس کے باوجود) دنیا کی آگ سے دوزخ کی آگ گرمی میں ٦٩ درجہ بڑھی ہوئی ہے۔
4:۔ ” تصلی “ ، ” حامیۃ “ نہایت تند و تیز آگ جو اللہ کے دشمنوں پر بھڑک اٹھے گی۔ ” قال ابن عباس قد حمیت فھی تتلظی علی اعداء اللہ۔ (مظہری، کبیر) ۔ ” تسقی من عین انیۃ “ جب ان کو جہنم کی شدید ترین گرمی میں پیاس لگے گی تو ان کو ایک ایسے چشمے سے پانی پلایا جائے گا جس سے نہایت گرم اور کھولتا ہوا پانی ابل رہا ہوگا۔ ” انیۃ “ نہایت گرم۔ بلغت نتہاہا فی الرچ (بیضاوی) ۔