Surat ul Ghashiya

Surah: 88

Verse: 6

سورة الغاشية

لَیۡسَ لَہُمۡ طَعَامٌ اِلَّا مِنۡ ضَرِیۡعٍ ۙ﴿۶﴾

For them there will be no food except from a poisonous, thorny plant

ان کے لئے سوائے کانٹے دار درختوں کے اور کچھ کھانا نہ ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

No food will there be for them but from Dari`, Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas that he said, "A tree from the Hellfire." Ibn Abbas, Mujahid, `Ikrimah, Abu Al-Jawza' and Qatadah, all said, "It is Ash-Shibriq (a type of plant)." Qatadah said, "The Quraysh called it Ash-Shabraq in the spring and Ad-Dari` in the summer." Ikrimah said, "It is a thorny tree which reaches down to the ground." Al-Bukhari related that Mujahid said, "Ad-Dari` is a plant that is called Ash-Shibriq. The people of the Hijaz call it Ad-Dari` when it dries, and it is poisonous." Ma`mar narrated that Qatadah said, لَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلاَّ مِن ضَرِيعٍ (No food will there be for them but from Dari`,) "This is Ash-Shibriq. When it dries it is called Ad-Dari`." Sa`id narrated from Qatadah that he said, لَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلاَّ مِن ضَرِيعٍ (No food will there be for them but from Dari`), "This is of the worst, most disgusting and loathsome of foods." Concerning Allah's statement, لاَا يُسْمِنُ وَلاَا يُغْنِي مِن جُوعٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

یہ ایک کانٹے دار درخت ہوتا ہے جسے خشک ہونے پر جانور بھی کھانا پسند نہیں کرتے، بہرحال یہ بھی زقوم کی طرح ایک نہایت تلخ، بدمزہ، اور ناپاک ترین کھانا ہوگا جو جزو بدن بنے گا نہ اس سے بھوک ہی مٹے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] دوزخیوں کی مختلف غذائیں :۔ ضَرِیْعٌ ایک خار دار گھاس جس کا ذائقہ انتہائی تلخ اور بوناگوار ہوتی ہے اور جب سوکھ جاتی ہے تو زہر بن جاتی ہے۔ عربی میں اسے شبرق بھی کہتے ہیں۔ اہل دوزخ کی یہی غذا ہوگی۔ واضح رہے کہ قرآن میں بعض مقامات پر اہل دوزخ کی خوراک تھوہر کا درخت ذکر ہوئی ہے اور بعض مقامات پر غسلین بھی زخموں کا دھو ون اور اس مقام پر ضریع بتائی گئی ہے۔ اس کی وجہ ایک تو یہ ہوسکتی ہے کہ مختلف قسم کے مجرموں کی خوراک مختلف ہو، دوسری وجہ اختلاف زمانہ ہے یعنی کسی دور میں ایک قسم کی خوراک دی جائے گی اور دوسرے دور میں دوسری قسم کی اور اس کی تیسری وجہ تنوع بھی ہوسکتی ہے۔ یعنی کبھی ایک خوراک دی جائے اور کبھی دوسری اور کبھی تیسری۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(لیس لھم طعام الا من ضریع :” ضریع “ ایک خار دار پودا ہے جو تازہ ہو تو اہل حجاز اسے ” شبرق “ کہتے ہیں اور خشک ہو تو ” ضریع “ جو سخت زہریلا ہوتا ہے۔ (دیکھیے بخاری، التفسیر، سورة :(ھل اتاک …) ، بعد ج : ٣١٩٣١)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِيعٍ (There will be no food for them except from a thorny plant...88:6) The only food available for the inmates of Hell would be dari`. In the world, this is a kind of thorny grass that spreads on the ground. No animal goes near it. It is foul-smelling, poisonous and thorny. [ As interpreted by ` Ikrimah, Mujahid, and quoted by Qurtubi ]. How will Grass or Tree Survive in Hell One may ask the question that the grass or trees are among things that burn in fire. How will they survive in Hellfire? The answer is that the Supreme Creator Who cherished and sustained them in this world with water and air, has the power and ability to make the fire itself the nutrient of these trees, so that they may flourish. Another question may be raised here. The Qur&an mentions several things as the food of the inmates of Hell. Here it refers to their food as dart`. On another occasion, it refers to zaqqum, and on a third occasion it refers to ghislin. This verse restricts their food to dari&, thus: &There will be no food for them except from a thorny plant...88:6) The answer is that the restriction in this verse is in contrast to a palatable food that may be fit for [ human ] consumption. Dari` is cited here as an example. The verse means that the inmates of Hell will not get any palatable food. They will get worst, most disgusting and loathsome food like Dari`. Thus the purpose of mentioning Dari` is not restriction. In fact, Dari` includes zaqqum and ghislin. Qurtubi says that it is possible there will be different levels in Hell, and on different levels there will be different kinds of food. On one level, there will be dart` and on another level, ghislin, and so on.

لیس لھم طعام الا من ضریع یعنی اہل جہنم کو کھانے کے لئے ضریع کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ ضریع دنیا میں ایک خاص قسم کی خار دار گھاس ہے جو زمین پر پھیلتی ہے کوئی جانور اس کے پاس نہیں جاتا بدبو دار زہریلی کانٹوں والی ہے (کذافسرہ عکرمہ و مجاہد، قرطبی) جہنم میں گھاس درخت کیسے :۔ یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے گا کہ گھاس درخت تو آگ سے جل جانے الی چیزیں ہیں جہنم میں یہ کیسے رہیں گی کیونکہ جس خالق ومالک نے ان کو دنیا میں پانی اور ہوا سے پالا ہے اس کو یہ بھی قدرت ہے کہ جہنم میں ان درختوں کی غذا آگ ہی بنا دے وہ اسی سے پھلیں پھولیں۔ ایک شبہ کا جواب :۔ قرآن میں اہل جہنم کی غذا کے بارے میں مختلف چیزوں کا ذکر آیا ہے۔ یہاں ضریع ان کی غذا بتلائی ہے۔ دوسری جگہ زقوم اور تیسری جگہ غسلین، تو اس آیت میں جو حصر کیساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اہل جہنم کو کوئی غذا بجز ضریع کے نہ دی جائے گی، یہ حصر بمقابلہ اس غذا کے ہے جو کھانے کے لائق خوشگوار جزء بدن بننے والی ہو اور ضریع بطور مثال کے لایا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اہل جہنم کو کوئی کھانے کے لائق غذا نہیں ملے گی بلکہ ضریع جیسی تکلیف وہ مضر چیزیں دی جائیں گی اس لئے ضریع میں حصر مقصود نہیں بلکہ زقوم اور غسلین بھی ضریع میں شامل ہیں اور قرطبی نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ جہنم کے مختلف درکات طبقات میں ان کی مختلف غذائیں ہوں کہیں ضریع کہیں زقوم کہیں غسلین۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَيْسَ لَہُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِيْعٍ۝ ٦ ۙ طعم الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا [ الأحزاب/ 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا [ المائدة/ 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام : «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ. ( ط ع م ) الطعم ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة/ 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔ ضرع الضَّرْعُ : ضَرْعُ الناقةِ ، والشاة، وغیرهما، وأَضْرَعَتِ الشاةُ : نزل اللّبن في ضَرْعِهَا لقرب نتاجها، وذلک نحو : أتمر، وألبن : إذا کثر تمره ولبنه، وشاةٌ ضَرِيعٌ: عظیمةُ الضَّرْعِ ، وأما قوله : لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية/ 6] ، فقیل : هو يَبِيسُ الشَّبْرَقِ «1» ، وقیل : نباتٌ أحمرُ منتنُ الرّيحِ يرمي به البحر، وكيفما کان فإشارة إلى شيء منكر . وضَرَعَ إليهم : تناول ضَرْعَ أُمِّهِ ، وقیل منه : ضَرَعَ الرّجلُ ضَرَاعَةً : ضَعُفَ وذَلَّ ، فهو ضَارِعٌ ، وضَرِعٌ ، وتَضَرّعَ : أظهر الضَّرَاعَةَ. قال تعالی: تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام/ 63] ، لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [ الأنعام/ 42] ، لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف/ 94] ، أي : يَتَضَرَّعُونَ فأدغم، فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام/ 43] ، والمُضَارَعَةُ أصلُها : التّشارک في الضَّرَاعَةِ ، ثمّ جرّد للمشارکة، ومنه استعار النّحويّون لفظَ الفعلِ المُضَارِعِ. ( ض ر ع ) الضرع اونٹنی اور بکری وغیرہ کے تھن اضرعت الشاۃ قرب دلادت کی وجہ سے بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آیا یہ اتمر والبن کی طرح کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں زیادہ دودھ یا کھجوروں والا ہونا اور شاۃ ضریع کے معنی بڑے تھنوں والی بکری کے ہیں مگر آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية/ 6] اور خار جھاڑ کے سوا ان کے لئے کوئی کھانا نہیں ہوگا میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں ضریع سے خشک شبرق مراد ہے اور بعض نے سرخ بدبو دار گھاس مراد لی ہے ۔ جسے سمندر باہر پھینک دیتا ہے بہر حال جو معنی بھی کیا جائے اس سے کسی مکرو ہ چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ ضرع البھم چوپایہ کے بچہ نے اپنی ماں کے تھن کو منہ میں لے لیا بعض کے نزدیک اسی سے ضرع الرجل ضراعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کمزور ہونے اور ذلت کا اظہار کرنے کے ہیں الضارع والضرع ( صفت فاعلی کمزور اور نحیف آدمی تضرع اس نے عجز وتزلل کا اظہار کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام/ 63] عاجزی اور نیاز پنہانی سے ۔ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [ الأنعام/ 42] تاکہ عاجزی کریں لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف/ 94] تاکہ اور زاری کریں ۔ یہ اصل میں یتضرعون ہے تاء کو ضاد میں ادغام کردیا گیا ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام/ 43] تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے ۔ المضارعۃ کے اصل معنی ضراعۃ یعنی عمز و تذلل میں باہم شریک ہونے کے ہیں ۔ پھر محض شرکت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اسی سے علماء نحو نے الفعل المضارع کی اصطلاح قائم کی ہے کیونکہ اس میں دوز مانے پائے جاتے ہیں )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 At some places in the Qur'an it has been stated that the dwellers of Hell will be given zaqqum to eat; at another place it has been said that they will have no other food but glhislin (washing from wounds) , and here that "their only food will he thorny, dry grass." There is, in fact, no contradiction between these statements. This may as welt mean that Hell will have many different compartment in which different categories of the criminals will be lodged according to their crimes, and subjected to different punishments. This may also mean that if they try to avoid zaqqum they will be given ghislin, and if they try to avoid even that, they will only get thorny grass. In short, they would get nothing to suit their taste.

سورة الْغَاشِیَة حاشیہ نمبر :3 قرآن مجید میں کہیں فرمایا گیا ہے کہ جہنم کے لوگوں کو زقوم کھانے کے لیے دیا جائے گا کہیں ارشاد ہوا ہے کہ ان کے لیے غسلین ( زخموں کے دھوون ) کے سوا کوئی کھانا نہ ہو گا ، اور یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ انہیں خاردار سوکھی گھاس کے سوا کچھ کھانے کو نہ ملے گا ۔ ان بیانات میں در حقیقت کوئی تضاد نہیں ہے ۔ ان کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جہنم کے بہت سے درجے ہوں گے جن میں مختلف قسم کے مجرمین اپنے جرائم کے لحاظ سے ڈالے جائیں گے اور مختلف قسم کے عذاب ان کو دیے جائیں گے ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ زقوم کھانے سے بچنا چاہیں گے تو غسلین ان کو ملے گا ، اس سے بھی بچنا چاہیں تو خاردار گھاس کے سوا کچھ نہ پائیں گے ، غرض کوئی مرغوب غذا بہرحال انہیں نصیب نہ ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(88:6) لیس لہم طعام الا من ضریع لا یسمن ولا یغنی من جوع۔ یہ جملہ مستانفہ ہے اہل نار کے حال کے بیان میں۔ حال ان کا یہ ہوگا کہ ان کی خوراک ضریح کے علاوہ کچھ نہ ہوگی۔ ضریع کے متعلق حضرت عبد اللہ ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ :۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :۔ ضریع ایک چیز ہے ایلوے (ناگ پھنی خاندان کا ایک پودا) سے زیادہ تلخ، مردار سے زیادہ بدبودار اور آگ سے زیادہ گرم۔ شوک یعنی کانٹے کی طرح ہوگی۔ جب کسی کو کھلائی جائے گی تو نہ اس کے پیٹ میں اترے گی نہ منہ تک اٹھ کر آئے گی۔ (بیچ میں پھنس جائے گی) نہ فربہی پیدا کرے گی اور نہ بھوک کو دفر کرے گی اور اس کے درمیان اس کو (کھولتا ہوا) پانی پلایا جائے گا۔ سعید بن جبیر کا قول ہے کہ ضریع زقوم (تھوہر) ہے۔ مجاہد اور عکرمہ کا قول ہے کہ ایک خار دار گھاس ہوتی ہے قریش اس کو شبرق کہتے ہیں لیکن جب اس کی لکڑی سوکھ جائے تو اس ضریع کہتے ہیں۔ یہ بدترین خوراک ہے۔ ابن ابی زید نے کہا ہے کہ :۔ دنیا میں جس خار دار خشک جھاڑ میں پتے نہ ہوں وہ ضریع ہے اور آخرت کا ضریع آگ کا جھاڑ ہوگا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یہ کہ ایک کانٹے دار جھاڑی ہے۔ قریش کی زبان میں اگر تر ہو تو اسے شبریق اور سوکھ جائے تو ضریع کہا جاتا ہے۔ وہ سوکھ کر اس قدر زہریلی اور بدبو دار ہوجاتی ہے کہ کوئی جانور اس کے قریب تک نہیں جاتا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لیس لھم ............................ من جوع (7:88) ” خاردار سوکھی گھاس کے سوا کوئی کھانا ان کے لئے نہ ہوگا جو نہ موٹا کرے نہ بھوک مٹائے۔ “” ضریع “ کے معنی کے بارے میں دوقول ہیں ، ایک یہ کہ یہ ایک درخت ہوگا جو جہنم کے اندر ہی پیدا ہوگا جیسا کہ خود قرآن مجید میں زقوم آیا ہے کہ وہ ایک درخت ہے ، جو جہنم کی تہہ میں پیدا ہوگا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ایک کانٹے دار جھاڑی ہے جو زمین کے ساتھ چپکی ہوئی ہوتی ہے ، اور جب یہ سبز ہوتی ہے تو اسے شبرق کہتے ہیں اور جب اسے کاٹ لیا جائے اور خشک ہو تو ضریع کہتے ہیں ، اسے اونٹ چرتے ہیں۔ جب یہ خشک ہو تو اونٹ بھی اسے کھا نہیں سکتے کیونکہ اس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے۔ غرض جو معنی بھی ہوں ، یہ اس طرح کی خوراک ہے جس طرح پانی کے بارے میں آیا ہے کہ وہ غسلین یا غساق پئیں گے اور جو خوراک بھی وہاں ہوگی وہ نہ ان کو موٹا کرے گی اور نہ بھوک مٹائے گی۔ آخرت کا یہ عذاب کیسا ہوگا ؟ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں ہم اس کا تصور نہیں کرسکتے۔ یہاں اس کی ایسی صفات دی جاتی ہیں تاکہ ہم بدترین سزا کا تصور کرسکیں۔ جس می ذلت ، کمزوری ، نامرادی ، گرم ترین آگ کی جلن ، زمہریر یعنی بہت سرد ، پینے کے لئے سخت گرم پانی ، اور اس قسم کا کھانا کہ اسے اونٹ بھی نہ کھا سکیں اور اگر کھائیں بھی تو ان کو کوئی نفع نہ دے ۔ ان اوصاف سے ہمارے احساسات میں جو چیز بیٹھتی ہے وہ حد درجہ کا رنج والم ہے۔ لیکن آخرت کا عذاب ہمارے تصورات سے شدید تر ہے۔ اور وہ کیا ہوگا ، یہ وہی بتا سکتا ہے جو اس میں مبتلا ہوگا۔ العیاذ باللہ ! اور دوسری طرف اہل ایمان :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِيْعٍۙ٠٠٦﴾ (ان کے لیے ضریع کے سوا کوئی کھانا نہیں ہوگا) ۔ گزشتہ آیت میں ان کے پینے کی چیز بتائی اور اس آیت میں ان کا کھانا بتایا۔ لفظ ضریع کا ترجمہ خاردار جھاڑ کیا گیا ہے۔ صاحب مرقاۃ لکھتے ہیں : ” ضریع “ حجاز میں ایک کاٹنے دار درخت کا نام ہے، جس کی خباثت کی وجہ سے جانور بھی پاس نہیں پھٹکتے۔ اس کو کھالے تو مرجائیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ہے : الضریع شی فی النار شبہ الشوک امر من الصبرو انتن من الجیفة واشد حرًا من النار۔ (معالم التنزیل) یعنی ضریع دوزخ میں ایک ایسی چیز ہوگی جو کانٹوں سے مشابہ ہوگی ایلوے سے زیادہ کڑوی اور مردار سے زیادہ بدبودار اور آگ سے زیادہ گرم ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” لیس لہم “ دوزخیوں کے مشروب کا ذکر کر کے ان کے طعام کا ذکر فرمایا۔ ” ضریع “ ایک خاردار پودا ہے زمین پر مفروش، نہایت زہریلا کوئی جانور یا چوپایہ اس کے قریب بھی نہیں جاتا۔ سرسبز ہو تو شبرق اور خشک ہونے پر ضریع کہلاتا ہے۔ قال عکرمۃ و مجاھد الضریع نبت ذو شوک لاصق بالارض تسمیہ قیش الشبرق اذا کان رطبا، فاذا یبس فھو الضریع، لاتقربہ دابۃ ولا بھیمۃ ولا ترعاہ، وھو سم قاتل، وھو اخبث الطعام واشنعہ، علی ھذا عامۃ المفسرین (قرطبی ج 20 ص 29) ۔ دوزخیوں کو کھانے کے لیے ضریع کی قسم کا خاردار اور بدبودار نہایت زہریلا پودا دیا جائے گا جو کھانے والے کو موٹا کرے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) ان لوگوں کو وہاں سوائے اس خاردار درخت کے اور کوئی کھانا نصیب نہ ہوگا۔