Surat ul Fajar
Surah: 89
Verse: 11
سورة الفجر
الَّذِیۡنَ طَغَوۡا فِی الۡبِلَادِ ﴿۪ۙ۱۱﴾
[All of] whom oppressed within the lands
ان سبھوں نے شہروں میں سر اٹھا رکھا تھا ۔
الَّذِیۡنَ طَغَوۡا فِی الۡبِلَادِ ﴿۪ۙ۱۱﴾
[All of] whom oppressed within the lands
ان سبھوں نے شہروں میں سر اٹھا رکھا تھا ۔
الَّذِيْنَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ ١١ طغی طَغَوْتُ وطَغَيْتُ «2» طَغَوَاناً وطُغْيَاناً ، وأَطْغَاهُ كذا : حمله علی الطُّغْيَانِ ، وذلک تجاوز الحدّ في العصیان . قال تعالی: اذْهَبْ إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] ( ط غ ی) طغوت وطغیت طغوانا وطغیانا کے معنی طغیان اور سرکشی کرنے کے ہیں اور أَطْغَاهُ ( افعال) کے معنی ہیں اسے طغیان سرکشی پر ابھارا اور طغیان کے معنی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِنَّهُ طَغى[ النازعات/ 17] وہ بےحد سرکش ہوچکا ہے ۔ بلد البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی: بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] ، وقال عزّ وجلّ : فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر : وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» . ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔
(89:11) الذین طغوا فی البلاد : الذین۔ اسم موصول جمع مذکر۔ جنہوں نے ۔ ان سب نے۔ (یعنی عاد وثمود و فرعون نے) طغوا۔ ماضی جمع مذکر غائب طغیان (باب نصر، سمع) مصدر سے بمعنی انہوں نے سرکشی کی۔ وہ حد سے گزر گئے۔ جنہوں نے ملکوں میں سرکشی کی حد کردی۔ یہ جملہ عاد وثمود اور فرعون کی صفت ہے۔
الذین ............................................ الفساد (12:89) ” یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی اور ان میں فساد پھیلایا تھا “۔ سرکشی کے بعد فساد ہی ہوتا ہے کیونکہ سرکشی ، سرکش شخص کو خراب کردیتی ہے۔ اسی طرح جو لوگ سرکشی اور ظلم کا شکار ہوتے ہیں وہ بھی فساد میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان کے اندر اخلاقی بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد اجتماعی زندگی کا ہر پہلو فساد کی زد میں آجاتا ہے اور زندگی اپنی صحت مند تعمیری اور پاکیزہ راستے سے ہٹ جاتی ہے اور ایسے راستوں پر پڑجاتی ہے جو انسان کی خلیفہ اللہ فی الارض ہونے کی ذمہ داری کے خلاف ہوتی ہے۔ طغیانی اور سرکشی کی وجہ سے عوام الناس غلام اور ذلیل ہوجاتے ہیں ، ان کے اندر ایک خفیہ بغض اور حسد پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ غصہ اور حسد کو ہر وقت سینوں میں دبائے رکھتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کی شخصیت سے عزت نفس اور اعلیٰ انسانی شعور مٹ جاتا ہے ، اور ان میں سے تخلیقی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ تخلیقی عمل کے لئے آزادفضا کا ہونا ضروری ہے۔ اور جس سوسائٹی کو کوئی ڈکٹیٹر ذلیل کرکے رکھتا ہے وہ متعفن ہوجاتی ہے۔ اور ایک سڑی ہوئی سوسائٹی ہوتی ہے۔ اس میں لوگ اس طرح گری ہوئی زندگی بسر کرتے ہیں جس طرح کیڑے مکوڑے ۔ زیادہ سے زیادہ وہ گری ہوئی عادتوں اور عیاشیوں کے رسیا ہوجاتے ہیں۔ ان کی قوائے عقل وخرد ماند پڑجاتی ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں ایسے لوگوں کے اندرجرائم پیدا ہوجاتے ہیں۔ ان کو قوائے عقل وخردماند پڑجاتی ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں ایسے لوگوں کے اندر جرائم پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے اندرخودداری ہمت ، بلندعزائم ، بلند نگاہی جیسی اعلیٰ صفات ختم ہوجاتی ہیں اور یہ ہے بہت عظیم بگاڑ۔ ڈکٹیٹر اور جبار ہمیشہ اعلیٰ قدروں اور سیدھی سوچ کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیتے ہیں۔ اس لئے اعلیٰ اقدار اور سیدھی سوچ کے نتیجے میں ان کے باطل اقتدار کو خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے جبار ہمیشہ لوگوں کے لئے کھوٹی قدریں وضع کرتے اور معاشروں میں فاسد پیمانے رائج کرتے ہیں اور غلط افکار و تصورات کو رائج کرکے خوشنما بناتے ہیں تاکہ لوگ ان کے عدوان اور قہاری وجباری کو قبول کریں۔ اور اسے ایک پاپولر اور مقبول اور مروج نظریہ سمجھیں۔ اور یہ ہے وہ بڑا فساد جس سے اور کوئی بڑا فساد نہیں ہے۔ اور جب یہ لوگ زمین کے اندر ہمہ جہت فساد پھیلادیتے ہیں ، اس لئے زمین کی تطہیر ضروری ہوجاتی ہے۔
بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا کہ اسے لٹا کر ہاتھوں میں کیلیں گڑواتا تھا۔ سورة ص کے پہلے رکوع میں بھی یہ بیان گزر چکا ہے۔ ﴿الَّذِيْنَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ۪ۙ٠٠١١﴾ یہ قومیں جن کا اوپر ذکر ہوا (عاد اور ثمود اور فرعون) انہوں نے شہروں میں سرکشی کی اور نافرمانی میں بہت آگے بڑھ گئے۔