Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 17

سورة الفجر

کَلَّا بَلۡ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ الۡیَتِیۡمَ ﴿ۙ۱۷﴾

No! But you do not honor the orphan

ایسا ہرگز نہیں بلکہ ( بات یہ ہے ) کہ تم ( ہی ) لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

كَلَّ ... But no! meaning, the matter is not as he claims, neither in this nor in that. For indeed Allah gives wealth to those whom He loves as well as those whom He does not love. Likewise, He withholds sustenance from those whom He loves and those whom He does not love. The point is that Allah should be obeyed in either circumstance. If one is wealthy, he should thank Allah for that, and if he is poor, he should exercise patience. From the Evil that the Servant does regarding Wealth Allah said, .. بَل لاَّ تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ But you treat not the orphans with kindness and generosity! This contains the command to honor him (the orphan). Abu Dawud recorded from Sahl bin Sa`id that the Messenger of Allah said, أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّة The guardian of the orphan and I will be like these two in Paradise. And he put his two fingers together - the middle finger and the index finger. وَلاَ تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی بات اس طرح نہیں جیسے لوگ سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مال اپنے محبوب بندوں کو بھی دیتا ہے اور ناپسندیدہ افراد کو بھی اور وہ اپنے اور بیگانوں دونوں کو مبتلا کرتا ہے۔ اصل مدار دونوں حالتوں میں اللہ کی اطاعت پر ہے جب اللہ مال دے تو اللہ کا شکر کرے، تنگی آئے تو صبر کرے۔ 17۔ 2 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے وہ گھر سب سے بہتر ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے اور وہ گھر بدترین ہے جس میں اس کے ساتھ بدسلوکی کی جائے۔ پھر اپنی انگلی کے ساتھ اشارہ کر کے فرمایا، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں ساتھ ملی ہوئی ہیں (ابو داؤد)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Spending on the Orphan is not Sufficient. Their respect is also necessary لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيم (No! But you do not honour the orphan....89:17). The unbelievers are warned, in these verses, against some of their evil character traits. First, as is mentioned in this verse, they do not honour and treat the orphans kindly. The basic objective of the verse is that they deprive them of their rights, and do not spend on them what is due to them, but the expression used is that they do not honour them, probably to indicate that the requirement of Allah&s gratitude, and also of humanitarian sense, is not only that the orphans are given their dues by spending wealth on them, but it is also necessary to honour them and treat them kindly. The guardians should not despise and look down upon their wards, and to discriminate them against their own children. This is apparently a rebuff to the unbelievers who think that wealth is an &honour& and poverty is a &dishonour&. After refuting their thoughts and ideas with the expression کَلَّا Kalla &No/ never!&, the verse under comment progresses to say bal &But& that they are deprived of sustenance, because they squander it in immoral pursuits, depriving the orphans of their rights in it. وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَىٰ طَعَامِ الْمِسْكِينِ (and do not encourage one another to feed the needy....89:18). This is the second evil trait of the unbelievers. The style of this verse, in condemning the evil trait of the unbelievers, indicates that it is an obligation of the affluent to spend on the poor and indigent from their own wealth. Obviously, the poor are unable to spend owing to lack of means, but they should at least encourage others to feed the needy.

یتیم پر صرف خرچ کرنا کافی نہیں اس کا احترام بھی ضروری ہے اس کے بعد کفار کو ان کی چند بری خصلتوں پر تنبیہ ہے اول لاتکرمون الیتیم یعنی تم یتیم بچے کا اکرام نہیں کرتے اس میں اصل بتلانا تو یہ ہے کہ یتیم کے حقوق ادا نہیں کرتے اس پر ضروری خرچ نہیں کرتے لیکن اس کی تعبیر اکرام کے عنوان سے کی گئی جس میں اشارہ ہے کہ عقل و انسانیت کا اور اللہ نے جو مال تمہیں دیا ہے اسکے شکر کا تقاضا تو یہ ہے کہ تم یتیم کو فقط یہی نہیں کہ اس کا حق دو اور اس پر خرچ کرو بلکہ واجب ہے کہ اس کا اکرام بھی کرو اپنے بچوں کے مقابلے میں اس کو ذلیل وخقیر نہ جانو۔ یہ بظاہر کفار کے اس قول کا جواب ہے کہ دنیا کی فراخی کو اکرام اور تنگی کو اہانت سمجھا کر کرتے تھے اس صرف بل کے ساتھ یہ ذکر فرمایا کہ اگر تمہیں کبھی تنگی رزق پیش آتی ہے تو وہ اس وجہ سے کہ تم ایسی بری عادتوں میں پھنسے ہوئے ہو کہ یتیم جیسے قابل رحم بچوں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے۔ دوسری بری خصلت ان کی یہ بتلائی ولا تحضون علی طعام المسکین، یعنی تم خود تو کسی مسکین غریب کو کیا دیتے دوسروں کو بھی اس کی ترغیب نہیں دیتے کہ وہ بھی یہ کام کرلیں۔ اس عنوان میں بھی ان کفار کی بری عادت اور مذمت کے بیان کے ساتھ اس طرف اشارہ ہے کہ غربا و مساکین کا حق جیسے اغنیا اور مالداروں پر ہے کہ ان کو اپنے پاس سے دیں اسی طرح جو لوگ خود دینے کی قدرت نہیں رکھتے انکو بھی اتنا تو کرنا چاہئے کہ دوسروں ہی کو اسکے لئے ترغیب دیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ۝ ١٧ ۙ كلا كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] . کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم/ 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون/ 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس/ 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔ بل بَلْ كلمة للتدارک، وهو ضربان : - ضرب يناقض ما بعده ما قبله، لکن ربما يقصد به لتصحیح الحکم الذي بعده وإبطال ما قبله، وربما يقصد تصحیح الذي قبله وإبطال الثاني، فممّا قصد به تصحیح الثاني وإبطال الأول قوله تعالی: إِذا تُتْلى عَلَيْهِ آياتُنا قالَ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ كَلَّا بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ ما کانوا يَكْسِبُونَ [ المطففین/ 13- 14] ، أي : ليس الأمر کما قالوا بل جهلوا، فنبّه بقوله : رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ علی جهلهم، وعلی هذا قوله في قصة إبراهيم قالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هذا بِآلِهَتِنا يا إِبْراهِيمُ قالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذا فَسْئَلُوهُمْ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 62- 63] وممّا قصد به تصحیح الأول وإبطال الثاني قوله تعالی: فَأَمَّا الْإِنْسانُ إِذا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ وَأَمَّا إِذا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهانَنِ كَلَّا بَلْ لا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ [ الفجر/ 15- 17] . أي : ليس إعطاؤهم المال من الإکرام ولا منعهم من الإهانة، لکن جهلوا ذلک لوضعهم المال في غير موضعه، وعلی ذلک قوله تعالی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقاقٍ [ ص/ 1- 2] ، فإنّه دلّ بقوله : وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ أنّ القرآن مقرّ للتذکر، وأن ليس امتناع الکفار من الإصغاء إليه أن ليس موضعا للذکر، بل لتعزّزهم ومشاقّتهم، وعلی هذا : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ بَلْ عَجِبُوا [ ق/ 1- 2] ، أي : ليس امتناعهم من الإيمان بالقرآن أن لا مجد للقرآن، ولکن لجهلهم، ونبّه بقوله : بَلْ عَجِبُوا علی جهلهم، لأنّ التعجب من الشیء يقتضي الجهل بسببه، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ [ الانفطار/ 6- 9] ، كأنه قيل : ليس هاهنا ما يقتضي أن يغرّهم به تعالی، ولکن تكذيبهم هو الذي حملهم علی ما ارتکبوه . - والضرب الثاني من «بل» : هو أن يكون مبيّنا للحکم الأول وزائدا عليه بما بعد «بل» ، نحو قوله تعالی: بَلْ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء/ 5] ، فإنّه نبّه أنهم يقولون : أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ ، يزيدون علی ذلك أنّ الذي أتى به مفتری افتراه، بل يزيدون فيدّعون أنه كذّاب، فإنّ الشاعر في القرآن عبارة عن الکاذب بالطبع، وعلی هذا قوله تعالی: لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ [ الأنبیاء/ 39- 40] ، أي : لو يعلمون ما هو زائد عن الأول وأعظم منه، وهو أن تأتيهم بغتة، و جمیع ما في القرآن من لفظ «بل» لا يخرج من أحد هذين الوجهين وإن دقّ الکلام في بعضه . بل ( حرف ) بل حرف استدراک ہے اور تدارک کی دو صورتیں ہیں ( 1) جبکہ بل کا مابعد اس کے ماقبل کی نقیض ہو تو اس صورت میں کبھی تو اس کے مابعد حکم کی تصیح سے ماقبل کی تردید مقصود ہوتی ہے & اور کبھی اس کے برعکس ماقبل کی تصیحح اور بابعدار کے ابطال کی غرض سے بل کو لایا جاتا ہے ۔ چناچہ پہلی صورت کے متعلق فرمایا ۔ إِذا تُتْلى عَلَيْهِ آياتُنا قالَ أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ كَلَّا بَلْ رانَ عَلى قُلُوبِهِمْ ما کانوا يَكْسِبُونَ [ المطففین/ 13- 14] جب اس کو بیماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہنا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں دیکھو یہ جود اعمال بد کر رہے ہیں ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے ۔ تو بل کا معنی یہ ہیں کہ آیات الہی کو اساطیر کہنا صحیح نہیں ہے بلکہ یہ ان کے جہالت ہے پھر ران علی قلوبھم کہہ کر ان کی جہالت پر تنبیہ کی ہے ۔ اسی طرح حضرت ابراھیم (علیہ السلام) کے قصہ میں فرمایا : ۔ قالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هذا بِآلِهَتِنا يا إِبْراهِيمُ قالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذا فَسْئَلُوهُمْ إِنْ كانُوا يَنْطِقُونَ [ الأنبیاء/ 62- 63] جب ابراہیم آئے تو ) توبت پرستوں نے کہا کہ ابرہیم بھلا یہ کام ہمارے معبودوں کے ساتھ تم نے کیا ہے ( ابراہیم نے کہا ) نہیں بلکہ یہ ان کے اس بڑے ربت نے کیا ہوگا اگر یہ بولتے ہوں تو ان سے پوچھ دیکھو ،۔ اور دوسری صورت میں ماقبل کی تصیحح اور مابعد کے ابطال کے متعلق فرمایا : ۔ فَأَمَّا الْإِنْسانُ إِذا مَا ابْتَلاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ وَأَمَّا إِذا مَا ابْتَلاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهانَنِ كَلَّا بَلْ لا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ [ الفجر/ 15- 17] . مگر انسان ( عجیب مخلوق ہے کہ ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے کہ اسے عزت دیتا اور نعمت بخشا ہے تو کہتا ہے کہ ( آہا ) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی اور جب دوسری طرح آزماتا ہے کہ روزی تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ ( ہائے ) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے ۔ یعنی رزق کی فراخی یا تنگی اکرام یا اہانت کی دلیل نہیں ہے ( بلکہ یہ پروردگار کی طرف سے آزمائش ہے مگر لوگ اس حقیقت سے بیخبر ہیں کیونکہ یہ مال کو بیجا صرف کررہے ہیں اور اسی طرح آیت : ۔ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقاقٍ [ ص/ 1- 2] قسم ہے اس قرآن کی جو نصیحت دینے والا ہے کہ تم حق پر ہو ( مگر جو لوگ کافر ہیں وہ غرور اور مخالفت میں ہیں میں کہہ کر یہ ثابت کیا ہے کہ قرآن تذکرہ یعنی نصیحت حاصل کرنے کی کتاب ہے اور کفار کا اس کی طرف متوجہ نہ ہونا اس کی نفی نہیں کرتا بلکہ ان کا اعراض محض غرور اور مخالفت کی وجہ سے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ أنّ القرآن مقرّ للتذکر، وأن ليس امتناع الکفار من الإصغاء إليه أن ليس موضعا للذکر، بل لتعزّزهم ومشاقّتهم، وعلی هذا : ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ بَلْ عَجِبُوا [ ق/ 1- 2] قرآن مجید کی قسم ( کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغمبر ہیں ۔ لیکن ان لوگوں نے تعجب کیا ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے یعنی ان کا قرآن پر ایمان نہ لانا قرآن کے بزرگ ہونے کے منافی نہیں ہے بلکہ محض ان کی جہالت ہے بل عجبوا کہہ کر ان کی جہالت پر متنبہ کیا ہے کیونکہ کسی چیز پر اسی وقت تعجب ہوتا ہے جب اس کا سبب معلوم نہ ہو ۔ نیز فرمایا : ۔ ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُونَ بِالدِّينِ [ الانفطار/ 6- 9] تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کہ دیا ( وہی تو ہے ) جس نے تجھے بنایا اور ( تیرے اعضاء کو ) ٹھیک کیا ۔ اور ( تیرے قامت کو ) معتدل رکھا اور جس صورت میں چاہا جوڑ دیا ۔ مگر ہیبات تم لوگ جزا کو جھٹلاتے ہو ۔ یعنی رب کریم کے بارے میں کوئی چیز سوائے اس کے دھوکے میں ڈالنے والی نہیں ہے کہ وہ دین کو جھٹلا رہے ہیں ۔ (2 ) تدارک کی دوسری صورت یہ ہے کہ دوسری کلام کے ذریعہ پہلی کلام کے ذریعہ پہلی کلام کی وضاحت اور اس پر اضافہ مقصود ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ بَلْ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء/ 5] بلکہ ( ظالم ) کہنے لگے کہ ( در قرآن ) پریشان ) باتیں ہیں جو ) خواب ) میں دیکھ لی ) ہیں ( نہیں بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنالیا ہے ( نہیں ) بلکہ یہ ( شعر ہے ) جو اس شاعر کا نتیجہ طبع ) ہے ۔ یہاں متنبہ کیا ہے کہ والاد انہوں نے قرآن کو خیالات پریشان کیا پھر اس پر اضافہ کرکے اسے افترا بتلانے لگے پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ کے متعلق ( نعوذ باللہ ) کذاب ہونے کا واعا کرنے لگے کیونکہ قران کی اصطلاح میں شاعر فطرۃ کاذب کو کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ [ الأنبیاء/ 39- 40] اے کا ش کافر اس وقت کو جانیں جب وہ اپنے مونہوں پر سے ( دوزخ کی ) آگ کو روک نہ سکیں گے اور نہ اپنی پیٹھوں پر سے اور نہ ان کا کوئی مدد گار ہوگا بلکہ قیامت ان پر ناگہاں آواقع ہوگی اور ان کے ہوش کھودے گی ۔ بھی اس معنی پر محمول ہے کہ کاش وہ اس کے علاوہ دوسری بات کو جانتے ہوتے جو پہلی بات سے زیادہ اہم ہے یعنی یہ کہ قیامت ان پر ناگہاں آواقع ہوگی ۔ قرآن میں جتنی جگہ بھی بل آیا ہے ان دونوں معنی میں سے کسی ایک پر دلالت کرتا ہے اگرچہ بعض مقامات ذرا وضاحت طلب ہیں اور ان کے پیچیدہ ہونے کی بنا پر بعض علمائے نحو نے غلطی سے کہدیا ہے کہ قرآن میں بل صرف معنی ثانی کیلئے استعمال ہوا ہے كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے يتم اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی/ 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان/ 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء/ 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة/ 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ. ( ی ت م ) الیتم کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی/ 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان/ 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء/ 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة/ 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےمثل چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(20-17) ہرگز ایسا نہیں، نہ میں مال و دولت سے قدر بڑھاتا ہوں اور نہ ان چیزوں کی کمی سے گھٹاتا ہوں، میں تو معرفت و توفیق سے قدر بڑھاتا ہوں اور انکار و ذلت سے گھٹاتا ہوں بلکہ تمہارے زیر پرورش جو یتیم ہیں تم ان کی کچھ قدر اور خاطر نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی مسکین کو کھانا کھلانے پر آمادہ نہیں کرتے تم میراث کا سارا مال کھا جاتے ہو اور مال سے بہت ہی محبت رکھتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ کَلَّا } ” ایسا ہرگز نہیں ہے ! “ یہ مقام اپنے مضمون کے اعتبار سے پورے قرآن مجید میں منفرد و ممتاز ہے۔ مذکورہ دونوں کیفیات کے حوالے سے انسان کے جن مکالمات کا یہاں ذکر ہوا ہے بظاہر ان میں کوئی خرابی یا شرک کی آلودگی نظر نہیں آتی۔ دونوں کلمات توحید کے عین مطابق ہیں۔ رزق کی فراخی اور تنگی کے حوالے سے عزت اور ذلت کو کسی دیوی یا دیوتا سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے منسوب کیا گیا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دی ہے اور یہ کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کیا ہے۔ بظاہر تو یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان { وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُط } (آلِ عمران : ٢٦) ہی کا اقرار ہے ‘ کہ اے اللہ تو ُ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور تو جسے چاہتا ہے ذلیل کردیتا ہے۔ تو پھر یہاں ان جملوں کو آخر قابل مذمت کیوں ٹھہرایا گیا ہے ؟ اس نکتہ لطیف کو سمجھنے کے لیے اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ توحید تو ہدایت کی جڑ اور بنیاد ہے ‘ جبکہ اس بنیاد سے اوپر بھی ہدایت کی بہت سی منازل ہیں۔ اس لیے ایک بندئہ مومن کو زندگی میں راہنمائی کے لیے اپنی نگاہیں صرف مینارئہ توحید پر ہی مرکوز نہیں رکھنی چاہئیں بلکہ اسے شاہراہِ ہدایت کے ہر سنگ میل اور ہر موڑ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے اندازِ فکر اور طرزعمل کا رخ متعین کرنا چاہیے۔ چناچہ ان جملوں کے حوالے سے اصل اور بنیادی خرابی یہ ہے کہ یہاں انسانی سوچ نے رزق کی فراخی اور تنگی کو عزت اور ذلت کا معیار سمجھ لیا ہے اور اس حقیقت کو نظرانداز کردیا ہے کہ انسان کے رزق کی بست و کشاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ امتحان اور آزمائش کے لیے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو کبھی زیادہ رزق دے کر آزماتا ہے تو کبھی اس کو معاشی تنگی سے دوچار کر کے اس کا امتحان لیتا ہے۔ گویا انسان کے لیے عیش و آرام اور مال و دولت کی فراوانی میں بھی امتحان ہے اور رنج و عسرت اور تنگدستی و ناداری بھی امتحان ہی کے مراحل ہیں۔ اس زاویے سے دیکھا جائے تو جس انسان نے مال و دولت کی کمی یا زیادتی کو ذلت اور عزت کا معیار سمجھ لیا وہ دھوکا کھا گیا۔۔۔۔ ایک بندئہ مومن کو تو دنیوی عزت و ذلت کی ویسے بھی پروا نہیں ہونی چاہیے۔ ظاہر ہے اصل اور حقیقی عزت یا ذلت کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہوگا۔ چناچہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ رزق کی فراخی سے آزمارہا ہے اس کی عزت اس میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرے اور اپنے دائیں بائیں محروم و نادار لوگوں کو ان کا وہ حق ادا کرے جو اللہ تعالیٰ نے آزمائش کی غرض سے اس کے مال میں رکھ دیا ہے۔ اسی طرح جس شخص کا امتحان رزق کی تنگی کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی عزت اس میں ہے کہ وہ صبر کرے اور اپنی عزت نفس کو بچا کر رکھے۔ اس معاملے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اگر رزق کی کمی بیشی اور عزت و ذلت کے حوالے سے مذکورہ فلسفہ واقعتا ہماری سمجھ میں آبھی جائے تو بھی ہمارا نفس ہمیں یہ پٹی ّضرور پڑھاتا ہے کہ رزق کی فراخی والی آزمائش آسان ہے اور اس کے مقابلے میں غربت و تنگدستی کی آزمائش بہت مشکل ہے ‘ جبکہ اصل حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ اس حوالے سے اصل حقیقت یہ ہے کہ غربت و تنگدستی کی آزمائش سے سرخرو ہونا انسان کے لیے نسبتاً آسان ہے اور اس کے مقابلے میں مال و دولت کی فراوانی کی آزمائش میں ثابت قدم رہنا بہت مشکل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آسائش و آرام میں انسان کے غافل ہوجانے اور اللہ تعالیٰ کو بھول جانے کا زیادہ امکان ہے ‘ جبکہ مشکل اور پریشانی کی کیفیت میں انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا رہتا ہے ۔ اس حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے : (مَا قَلَّ وَکَفٰی خَیْرٌ مِمَّا کَثُرَ وَاَلْھٰی) (١) ” جو (مال) مقدار میں کم ہو مگر کفایت کر جائے وہ اس سے بہتر ہے جو زیادہ ہو مگر غافل کر دے۔ “ امام احمد بن حنبل - جب خلیفہ وقت کے عتاب کا شکار ہوئے تو جیل میں آپ پر بےپناہ تشدد کیا گیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں آپ (رح) کو جس تشدد کا سامنا کرنا پڑا ویسا تشدد اگر ہاتھی پر بھی کیا جاتا تو وہ بھی بلبلا اٹھتا۔ لیکن آپ نے وہ اذیت ناک آزمائش کمال صبر و استقامت سے برداشت کی اور اس دوران آنکھوں میں کبھی آنسو تک نہ آنے دیے۔ لیکن دوسرے خلیفہ کے دور میں جب آپ (رح) کو رہائی ملی اور آپ (رح) کی خدمت میں اشرفیوں کے توڑے بطور نذرانہ پیش کیے گئے تو آپ (رح) یہ ” نذرانہ “ دیکھ کر بےاختیار رو پڑے اور اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کی کہ اے اللہ ! تیری یہ آزمائش بہت سخت ہے ‘ میں اس آزمائش کے قابل نہیں ہوں۔ اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ” توحید “ ہدایت کا پہلا اور بنیادی درجہ ہے۔ اگر انسان اپنے اچھے برے ہر طرح کے حالات کو من جانب اللہ سمجھے تو اس کا یہ طرزعمل توحید کے عین مطابق ہے۔ لیکن اس کے اوپر بھی ہدایت کے بہت سے درجات ہیں۔ ان درجات میں سے ایک درجہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی آزمائش و ابتلاء کے اصول و ضوابط کو سمجھے اور یقین رکھے کہ دنیا کے عیش و آرام اور تنگدستی و عسرت کی کیفیات اللہ تعالیٰ کی آزمائش ہی کی مختلف صورتیں ہیں اور یہ کہ تنگدستی و عسرت کی آزمائش کے مقابلے میں دولت کی فراوانی کی آزمائش کہیں زیادہ سخت اور خطرناک ہے۔ { کَلَّا بَلْ لَّا تُـکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ ۔ } ” ایسا ہرگز نہیں ‘ بلکہ تم لوگ یتیم کی عزت نہیں کرتے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 That is, this is not all the criterion of honour and disgrace, for the real criterion is the moral good and evil. 11 That is, "As long as his father is alive, your treatment of him is attentive and when his rather dies, even the paternal and maternal uncles and the elder brothers, to say nothing of the neighbours and distant relatives, neglect him."

سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :10 یعنی عزت اور ذلت کا معیار ہرگز نہیں ہے ۔ تم سخت غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ اخلاق کی بھلائی اور برائی کے بجائے تم نے اسے معیار عزت و ذلت بنا رکھا ہے ۔ سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :11 یعنی جب تک اس کا باپ زندہ رہتا ہے ، اس کے ساتھ تمہارا برتاؤ کچھ اور ہوتا ہے اور جب اس کا باپ مرجاتا ہے تو ہمساٍئے اور دور کے رشتہ دار تو درکنار چچا ماموں اور بڑے بھائی تک اس سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

7: اﷲ تعالیٰ نے رزق کی تقسیم اپنی حکمت کے مطابق فرمائی ہے، لہٰذا رزق میں تنگی ہو تو اُسے اپنی توہین سمجھنا بھی غلط ہے، اور رزق میں زیادتی ہو تو اُسے لازماً اپنی عزت سے تعبیر کرنا بھی غلط ہے، کیونکہ اس دُنیا میں اﷲ تعالیٰ نے بہت سے ایسے لوگوں کو مال ودولت سے نوازا ہے جو نیک نہیں ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(89:17) کلا۔ حرف ردع وزجر (ذانٹ ، جھڑک) اور کسی کام سے روکنے کے لئے آتا ہے) ہرگز نہیں َ یعنی جیسا کہ انسان نعمت و راحت اور تنگ دستی و تکلیف کا معیار عزت افزائی و توہین خیال کرتا ہے ایسا نہیں ہے۔ بل لا تکرمون الیتیم : بل حرف اضراب ہے ماقبل کے ابطال اور مابعد کی تصحیح کے لئے آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بات یوں نہیں کہ فقیر رکھ کر اللہ تمہاری بےعزتی کرتا ہے بلکہ اس نے تو تم کو مال عطا فرما کر تم کو نوازا ہے مگر تم یتیم کو نہیں نوازتے اس کی پاسداری نہیں کرتے نہ اس سے محبت کرتے ہو نہ اس پر خرچ کرتے ہو۔ ترجمہ :۔ بلکہ (بات یہ ہے کہ) تم یتیم کی عزت نہیں کرتے۔ فائدہ : تکرمون (آیۃ 17) تحاضون (آیۃ 18) تاکلون (آیۃ 19) اور یحبون (آیۃ 20) میں جمع حاضر کے صیغے آئے ہیں اور ان کی ضمیریں انسان کی طرف راجع ہیں کیونکہ جنس انسان مراد ہے ایک انسان مراد نہیں ہے۔ لیکن لفظ انسان مفرد ہے اس لئے ابتلہ ، اکرمہ، نعمہ، یقول (آیۃ 15) کی مفرد ضمیریں بھی اسی کی طرف راجع کی گئی ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی تمہارا یہ خیال درست نہیں کہ جس پر وہ روزی تنگ ہے وہ اس کی نظر میں ذلیل ہے اور جس کو وہ بھرپور دولت دیتا ہے وہ اس کے نزدیک پسندیدہ ہے بلکہ بسا اوقات کفار کو دنیاوی مال و متاع سے نوازا جاتا ہے تاکہ اپنی سرکشی میں مزید ترقی کرتے رہیں۔ اسی کا نام اسد درج ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کلا بل ........................................ حباجما بات یوں نہیں جس طرح ایمان سے خالی انسان سوچتا ہے۔ محض یہ کہ کسی کو کشادہ رزق دیا گیا ہے۔ یہ اللہ کے نزدیک کرامت والی بات نہیں ہے ، اور نہ تنگی رزق اس بات کی دلیل ہے کہ ایسے شخص کی اللہ کے ہاں کوئی قدر نہیں ہے اور اسے اللہ نے چھوڑ دیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ تم دولت کا حق ادا نہیں کرتے اور مال سے حقوق نہیں نکالتے۔ تم لوگ یتیم کی کفالت بھی نہیں کرتے ، جو اپنے والدین اور اولیاء اور سرپرستوں سے محروم ہوگیا ہے۔ اسی طرح معاشرے کے اندر موجود ناداروں کی معاشی کفالت کے لئے کوئی بندوبست نہیں کرتے۔ مسکین کے معنی ہیں وہ شخص جو ساکن ہے ، سکون سے بیٹھا ہے اور اور لوگوں سے مانگتا نہیں پھرتا۔ یہاں یہ کہا گیا کہ یتیموں اور مسکینوں کے کھانے یعنی معاشی ضروریات فراہم کرنے کے لئے دوسروں کو نہیں ابھارتا۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسلامی نظام میں ناداروں کی کفالت کے لئے ایک عام تحریک ہوتی ہے ، عام لوگوں کی بھلائی کے لئے لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھتے اور ایک دوسرے کو آمادہ کرتے ہیں۔ ناداروں کی کفالت اسلام کی خصوصیت ہے۔ تم لوگ ابتلا کا مفہوم سمجھتے ہو۔ نہ اس آزمائش میں کامیاب ہونا چاہتے ہو ، حالانکہ اس آزمائش میں کامیابی کی راہ یہ ہے کہ یتیم کی عزت کرو ، ایک دوسرے کو یہ وصیت اور تلقین کرو کہ یتیموں کو کھانا کھلایا جائے بلکہ تم اس کے برعکس صورت اختیار کرتے رہو۔ تم لوگ نہایت لالچ کے ساتھ پوری کی پوری میراث ہڑپ کر جاتے ہو ، اور تم مال کی بھرپور محبت کرتے ہو ، جو کسی حد تک محدود نہیں ہے۔ مال کے معاملے میں تمہارے اندر کوئی خودداری ، کوئی وضع داری نہیں ہے۔ اور تم محتاجوں کی نہ عزت کرتے ہو اور نہ ان کی حاجت براری کرتے ہو۔ جیسا کہ ہم نے اس سے قبل تفصیلات دی ہیں ، مکہ میں ایسی صورت حال تھی کہ لوگ بےحد لالچی اور مفادات کے پیچھے کتوں کی طرح بھاگنے والے تھے ، اور ہر طریقے سے دولت سمیٹتے تھے ، جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں بخل اور سنگدلی پیدا ہوگئی تھی۔ یتیم چونکہ بےسہارا ہوتے تھے اس لئے ان کے مال ہڑپ کرلیے جاتے تھے۔ خصوصاً یتیم عورت کے۔ پھر ان کو میراث سے محروم کردیتے تھے جیسا کہ متعدد مقامات پر ہم نے تفصیلات دی ہیں۔ ان ہتھکنڈوں کے علاوہ سودی کاروبار کے ذریعہ بھی اہل مکہ رات دن دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ یہ بات یہاں نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ دولت کی پرستش ہر جاہلیت کی خصوصیت ہوتی ہے جہاں بھی ہو اور جب بھی ہو۔ ان آیات میں نہ صرف یہ کہ ان کے موقف کو اچھی طرح بیان کیا گیا ہے بلکہ ان کی مذمت بھی کی گئی ہے اور اس صورت حال کو بڑی سختی سے ناقابل برداشت بنایا گیا ہے اور اس کے لئے لفظ ” کلا “ استعمال کیا گیا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا ، ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ آیات کے انداز بیان اور زودار تعبیر اور الفاظ کے زبردست لہجے سے بھی اس صورت حالات کی مذمت نکلتی ہے۔ ذرا دوبارہ غور کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ان آیات میں اول تو انسان کے اس خیال کی تردید فرمائی کہ مالدار ہونا اللہ تعالیٰ کا مقبول بندہ ہونے کی اور تنگدست ہونا اللہ تعالیٰ کا مردود بندہ ہونے کی دلیل ہے اور اس کو ﴿كَلَّا ﴾ فرما کر بیان فرمایا یعنی ایسا ہرگز نہیں جیسا تم سمجھتے ہو۔ اس کے بعد انسانوں کی دنیاداری اور حب مال کا مزاج بیان فرمایا ﴿ بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَۙ٠٠١٧ وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِيْنِۙ٠٠١٨﴾ (بلکہ تم لوگ یتیم کا اکرام نہیں کرتے (جو مدد کا مستحق ہے) اور نہ صرف یہ کہ یتیم کا اکرام نہیں بلکہ آپس میں ایک دوسرے کو مسکین کا کھانا کھلانے کی ترغیب بھی نہیں دیتے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

9:۔ ” کلا بل لا تکرمون “۔ کلا ردعیہ ہے۔ یہ انسان کے مذکورہ بالا رویہ پر شکوی ہے علی سبیل الترقی۔ دنیا دار لوگو ! تم ہر وقت دنیا میں اپنی ہی عزت و ذلت کی فکر میں مست رہتے ہو۔ مگر یتیموں کا خیال نہیں کرتے ہو اور نہ ان کا اکرام کرتے ہو مراد یہ ہے کہ ان کا حق نہیں ادا کرتے ہو۔ ” ولا تحاضون علی طعام المسکین “ یہ ماقبل سے بطور ترقی ہے۔ یتیموں کا اکرام تو ایک طرف رہا تم تو مسکینوں کو کھانا بھی نہیں کھلاتے ہو۔ اور نہ ایک دوسرے کو مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب ہی دیتے ہو۔ لا تحاضون اصل میں لا تتحاضون تھا۔ ایک تاء بغرض تخفیف حذف کردی گئی ہے۔ ” وتاکلون التراث اکلا لما “ یہ ماقبل سے بطور ترقی ہے۔ یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے ترغیب دینا تو رہا ایک طرف، ان غریبوں کا میراث میں جو جائش حق ہے تو تم اس کو بھی ڈکار لیے بغیر ہی ہضم کر جاتے ہو اور مال جمع کرتے وقت حلال و حرام کی بھی کوئی تمیز نہیں کرتے ہو۔ ” وتحبون المال حبا جما “ یہ بھی ماقبل سے بطور ترقی ہے۔ تم لوگوں کے دلوں میں مال کی محبت اس قدر زیادہ ہے کہ تم نہ صرف یتیموں اور مسکینوں کی میراث پر ناجائز قبضہ کرتے ہو، بلکہ ڈاکہ اور چوری ہر ناجائز طریقہ سے مال جمع کرنے کی کوشش کرتے ہو ” اکلا لما “ حلال حرام کے درمیان امتیاز کے بغیر مال کھانا ہے۔ ” حبا جما “ بہت زیادہ محبت۔ ذالم وھو الجمع بین الحلال والحرام وکانوا لا یورثون النساء ولا الصبیان ویاکلون تراثھم مع تراثھم (حبا جما) کثیر شدیدا مع الحرص و منع الحقوق (مدارک ) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) ہرگز ایسا نہیں بلکہ تم لوگ نہ تو یتیم کی عزت کرتے ہو۔