Surat ul Fajar
Surah: 89
Verse: 19
سورة الفجر
وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا ﴿ۙ۱۹﴾
And you consume inheritance, devouring [it] altogether,
اور ( مردوں کی ) میراث سمیٹ سمیٹ کر کھاتے ہو ۔
وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا ﴿ۙ۱۹﴾
And you consume inheritance, devouring [it] altogether,
اور ( مردوں کی ) میراث سمیٹ سمیٹ کر کھاتے ہو ۔
وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ ... And you devour the Turath, meaning, the inheritance. ... أَكْلً لَّمًّا devouring with greed. meaning, however they can get it, whether lawful or forbidden. وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا
19۔ 1 یعنی جس طریقے سے بھی حاصل ہو، حلال طریقے سے حرام طریقے سے۔
وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَّمًّا (And you devour the inheritance with a sweeping gulp...89:19). The word lamm means to &gather, amass, concentrate the thing&. This is the third evil trait of the unbelievers, and the verse signifies that they devour inheritance with voracious appetites however they can get it, whether by lawful means or unlawful means. They gather them all together to make a sweeping gulp. When someone passes away, they take their own shares, together with the shares of others, regardless of whether the shares belong to orphans, widows or people who are absent. [ As a matter of principle,] it is not permitted to mix up lawful and forbidden wealth in any transaction. Here, however, &inheritance& has been particularly mentioned, probably because having a greedy eye on it and pursuing it are a proof of man&s greed and voracity for wealth. He stares at it like a beast of prey waiting for the person to die, and looking for the opportunity to distribute the estate. But an honourable man of principle and a noble person would not look at the wealth of the deceased with greedy eyes.
تیسری بری خصلت یہ بیان فرمائی وتاکلون التراث اکلا لما، لم کے معنے جمع کرنیکے ہیں، مطلب یہ ہے کہ تم میراث کا مال حلال و حرام سب کو جمع کرکے کھا جاتے ہو اپنے حصے کے ساتھ دوسوں کا حصہ بھی غصب کرلیتے ہو۔ یہاں خصوصیت سے میراث کے مال کا ذکر کیا گیا حالانکہ ہر ایک مال جس میں حلال و حرام کو جمع کیا گیا ہونا جائز ہی ہے۔ وجہ خصوصیت کی شاید یہ ہو کہ میراث کے مال پر زیادہ نظر رکھنا اور اسکے درپے ہونا بڑی کم ہمتی اور کم حوصلہ ہونے کی دلیل ہے کہ مردار خور جانوروں کی طرح تکئے رہیں کہ کب ہمارا مورث مرے اور کب ہمیں یہ مال تقسیم کرنے کا موقع ہاتھ آئے۔ اولو العزم اور باہمت لوگ اپنی کمائی پر خوش ہوتے ہیں۔ مردوں کے مال پر ایسی حریصانہ نظر نہیں ڈالتے۔
وَتَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا ١٩ ۙ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ ورث الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» أي : أصله وبقيّته، قال الشاعر : فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً : قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون/ 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ [ مریم/ 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة ( ور ث ) الوارثۃ ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر/ 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل/ 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء/ 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔ وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة/ 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء/ 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء/ 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان/ 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب/ 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف/ 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف/ 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو لمَم تقول : لَمَمْتُ الشیء : جمعته وأصلحته، ومنه : لَمَمْتُ شعثه . قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ أَكْلًا لَمًّا[ الفجر/ 19] واللَّمَمُ : مقاربة المعصية، ويعبّر به عن الصّغيرة، ويقال : فلان يفعل کذا لَمَماً. أي : حينا بعد حين، وکذلک قوله : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] وهو من قولک : أَلْمَمْتُ بکذا . أي : نزلت به، وقاربته من غير مواقعة، ويقال : زيارته إِلْمَامٌ. أي : قلیلة . ( ل م م ) الممت الشئی کے معنی کسی معنی کو جمع کرنے اور اس کی اصلاح کرنے کے ہیں ۔ اسی سے لممت شعثہ کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی کی پراگندہ حالت کو سنوارنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ أَكْلًا لَمًّا[ الفجر/ 19] اور میراث کے مال کو سمیٹ کر کھاجاتے ہو۔ اللمم کے اصل معنی معصیت ک قریب جانے کے ہیں کبھی اس سے صغیر گناہ بھی مراد لے لئے جاتے ہیں محاورہ ہے : فلان یفعل کذا لمما وہ کبھی کبھار یہ کام کرتا ہے ۔ اور ایت کریمہ : الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو صغیرہ گناہوں کے سو ابڑے بڑے گناہوں اور بےحیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ میں لمم کا لفظ الممت بکذا سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی کسی چیز کے قریب جانا کے ہیں یعنی ارادہ کرنا مگر مرتکب نہ ہونا ۔ نیز محاورہ ہے : زیارتہ المام یعنی اس کی زیارت مختصر ہوتی ہے ۔
آیت ١٩{ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا ۔ } ” اور تم ساری کی ساری میراث سمیٹ کر کھا جاتے ہو۔ “ اس آیت میں انسانوں کے بنائے ہوئے غیر متوازن اور ظالمانہ قوانین وراثت کی طرف بھی اشارہ ہے اور اس سے یہ بھی مراد ہے کہ تم میں سے جو طاقتور ہے وہ مختلف حیلوں بہانوں سے تمام وراثت پر قبضہ کرلینا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ قرآن مجید نے دنیا کو مفصل ‘ جامع اور متوازن قوانین وراثت عطا کیے ہیں - اسلام سے قبل عرب معاشرے میں باپ کی پوری وراثت بڑے بیٹے کو منتقل ہوجاتی تھی اور چھوٹے تمام بہن بھائیوں کو اس میں سے کچھ بھی نہیں ملتا تھا۔ دنیا کے بعض ممالک میں ایسے ظالمانہ قوانین آج بھی نافذ العمل ہیں۔
13 In Arabia, the women and children were as a rule deprived of inheritance and the people's idea in this regard was that the right to inheritance belonged only to those male members who were fit to fight and safeguard the family. Besides, the one who was more powerful and influential among the heirs of the deceased, would annex the whole inheritance without qualms, and usurp the shares of all those who did not have the power to secure their shares. They did not give any importance to the right and duty so that they should honestly render the right to whom it was due as a duty whether he had the power to secure it or not.
سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :13 عرب میں عورتوں اور بچوں کو تو میراث سے ویسے ہی محروم رکھا جاتا تھا اور لوگوں کا نظریہ اس باب میں یہ تھا کہ میراث کا حق صرف ان مردوں کو پہنچتا ہے جو لڑنے اور کنبے کی حفاظت کرنے کے قابل ہوں ۔ اس کے علاوہ مرنے والے کے وارثوں میں جو زیادہ طاقتور اور با اثر ہوتا تھا وہ بلا تامل ساری میراث سمیٹ لیتا تھا اور ان سب لوگوں کا حصہ مار کھاتا تھا جو اپنا حصہ حاصل کرنے کا بل بوتا نہ رکھتے ہوں ۔ حق اور فرض کی کوئی اہمیت ان کی نگاہ میں نہ تھی کہ ایمانداری کے ساتھ اپنا فرض سمجھ کر حق دار کو اس کا حق دیں خواہ وہ اسے حاصل کرنے کی طاقت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو ۔
(89:19) التراث۔ میراث، مردے کا مال۔ اصل میں وراث تھا۔ واؤ کو ت سے بدل لیا گیا ہے۔ اکلا مفعول مطلق تاکید کے لئے لایا گیا ہے یہ موصوف ہے اور لما اس کی صفت ہے اور میراث کا سارا مال چٹم کر جاتے ہو۔ علامہ قرطبی فرماتے ہیں :۔ وکان اہل الشرک لا یورثون النساء ولا الصبیان بل یاکلون میراثہم مع میراثھم۔ یعنی مشرکین بچوں اور عورتوں کو ورثہ میں سے کچھ نہ دیتے تھے بلکہ ان کے حصے کو بھی اپنے حصہ کے ساتھ ملا کر ہڑپ کر جاتے تھے۔ لما۔ جمعا۔ اصل اللمم فی کلام العرب الجمع ۔ یقال لممت الشیء المہ لما اذا جمعتہ۔ ترجمہ : لما کا معنی ہے جمع کرنا۔ کلام عرب میں لمم کا مادہ اسی مفہوم پر دلالت کرتا ہے ۔ جب تو کسی چیز کو جمع کرے گا اور سمیٹ لے گا تو تو کہے گا لمت الشیء المہ لما۔ (تفسیر ضیاء القرآن) لما مصدر ہے۔ لم یلم لما (باب نصر) اپنا اور دوسروں کا حصہ کھا لینا۔
ف 3 یعنی اس کے ترکہ میں سے یتیموں کا حصہ بھی اڑا لیتے ہو اور عورتوں کا حصہ بھی ادا نہیں کرتے۔
وتاکلون ............................ حبا جما (20:89) ” اور میراث کا سرا مال سمیٹ کر کھاجاتے ہو ، اور مال کی محبت میں بری طرح گرفتار ہو “۔ یہاں تک کہ ان کی ناپسندیدہ حالات کی تصویر کشی کردی گئی اور امارت اور غربت کے بارے میں ان کے غلط تصور کی تردید کردی گئی۔ اب ان کو قیامت کی حقیقت اور اس کے مرعوب کن حالات اور آزمائش کے نتائج اور جزاء وسزا اور حساب و کتاب کے مناظر کو نہایت ہی زور دار الفاظ میں لایا جاتا ہے۔
﴿ وَ تَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّاۙ٠٠١٩﴾ (اور تم میراث کو سمیٹ کر کھا جاتے ہو) ۔ جب کوئی مرنے والا مرجاتا ہے تو مال کی محبت کی وجہ سے دوسروں کے حصوں کا مال بھی کھا جاتے ہو چھوٹے بچے جو یتیم ہوتے ہیں اور مرنے والوں کی بیویاں جو بیوہ ہوجاتی ہیں اور جو وارث غائب ہوتے ہیں ان سب کا مال جس کے ہاتھ لگ جاتا ہے لے اڑتا ہے اور اصحاب حقوق کو نہیں دیتا۔ ﴿ وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّاؕ٠٠٢٠﴾ (اور تم مال سے بہت محبت رکھتے ہو) اس آخری جملہ میں جب مال کی مذمت فرما دی، جتنے طریقوں سے بھی مال حاصل کیا جاتا ہے ان سب طریقوں میں لگ کر جو لوگ مال کے کمانے میں منہمک ہوجاتے ہیں اور آخرت کو بھول جاتے ہیں اور احکام شرعیہ کا لحاظ نہیں رکھتے اور نماز سے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہوجاتے ہیں آیت شریفہ کے الفاظ میں مجموعی طور پر ان سب کی مذمت بیان فرما دی، بلکہ جہاں جہاں وجوباً یا استحباباً مال خرچ کرنے کا حکم ہے وہاں خرچ نہ کرنا بھی اسی مذمت کی ذیل میں آگیا، درحقیقت مال کی محبت انسان کو اللہ تعالیٰ سے غافل کرنے اور بہت سے گناہوں پر آمادہ کرنے کا ذریعہ ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : الدنیا دار من لا دار لہ ومال من لا مال لہ ولھا یجمع من لا عقل لہ (دنیا اس کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہیں اور اس کا مال ہے جس کا کوئی مال نہیں اس لیے وہ شخص جمع کرتا ہے جس کو عقل نہیں) ۔ ہر شخص اس دنیا کو چھوڑ کر جائے گا اور جو کمایا ہے اسے بھی یہیں چھوڑے گا پھر اس کا کیا رہا ؟ بقدر ضرورت حلال ماں کما لے اگر اللہ تعالیٰ شانہ زیادہ دے دے جو حلال ہو تو اسے اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے بندوں پر خرچ کر دے، حضرت محمود بن لبید (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ دو چیزیں ہیں جنہیں انسان مکروہ سمجھتا ہے موت کو مکروہ سمجھتا ہے حالانکہ موت مومن کے لیے بہتر ہے تاکہ فتنوں سے محفوظ رہے اور مال کی کمی کو مکروہ سمجھتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کی کمی کا ذریعہ ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٤٨)