Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 26

سورة الفجر

وَّ لَا یُوۡثِقُ وَ ثَاقَہٗۤ اَحَدٌ ﴿ؕ۲۶﴾

And none will bind [as severely] as His binding [of the evildoers].

نہ اس کی قید و بند جیسی کسی کی قیدو بند ہوگی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And none will bind as He will bind. meaning, there is no one who is more severely punished and bound than those the Az-Zabaniyah punish the disbelievers in their Lord. This is for the criminals and the wrongdoers among the creatures. In reference to the pure and tranquil soul -- which is always at rest and abiding by the truth it will be said to it, يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَيِنَّةُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

اس لیے کہ اس روز تمام اختیارات صرف ایک اللہ کے پاس ہوں گے، دوسرے کسی کو اس کے سامنے رائے یادم زنی نہیں ہوگا حتی کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش تک نہیں کرسکے گا ایسے حالات میں کافروں کو جو عذاب ہوگا اور جس طرح وہ اللہ کی قید وبند میں جکڑے ہوں گے، اس کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، چہ جائیکہ اس کا کچھ اندازہ ممکن ہو، یہ تو مجرموں اور ظالموں کا حال ہوگا لیکن اہل ایمان وطاعت کا حال اس سے بلکل مختلف ہوگا جیسا کہ اگلی آیات میں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٨] ایسے لوگوں کو اس اس دن ایسی سخت مار پڑے گی اور سزا ملے گی جیسی کوئی دوسرا دے ہی نہیں سکتا۔ فرشتے ان کے گلوں میں طوق اور پاؤں میں زنجیریں ڈال کر جہنم میں پھینک دیں گے پھر اوپر سے جہنم کو بند کردیا جائے گا۔ اس میں سانپ اور بچھوؤں کے ڈسنے کا عذاب الگ ہوگا اور فرشتوں کے مارنے اور ڈانٹنے کا الگ۔ پھر ذہنی عذاب یہ ہوگا کہ اس عذاب سے نجات کی انہیں کوئی صورت نظر نہ آئے گی۔ علاوہ ازیں یہ عذاب وقتی اور عارضی نہیں بلکہ مستقل اور دائمی ہوگا۔ یہ فکر ان کے جسمانی عذاب کو کئی گنا زیادہ بنا دے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّلَا يُوْثِقُ وَثَاقَہٗٓ اَحَدٌ۝ ٢٦ ۭ وثق وَثِقْتُ به أَثِقُ ثِقَةً : سکنت إليه واعتمدت عليه، وأَوْثَقْتُهُ : شددته، والوَثَاقُ والوِثَاقُ : اسمان لما يُوثَقُ به الشیء، والوُثْقَى: تأنيث الأَوْثَق . قال تعالی: وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] ، حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] والمِيثاقُ : عقد مؤكّد بيمين وعهد، قال : وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] ، وَإِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثاقَهُمْ [ الأحزاب/ 7] ، وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] والمَوْثِقُ الاسم منه . قال : حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] ( و ث ق ) وثقت بہ اثق ثقتہ ۔ کسی پر اعتماد کرنا اور مطمئن ہونا ۔ اوثقتہ ) افعال ) زنجیر میں جکڑنا رسی سے کس کر باندھنا ۔ اولوثاق والوثاق اس زنجیر یارسی کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز کو کس کو باندھ دیا جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا يُوثِقُ وَثاقَهُ أَحَدٌ [ الفجر/ 26] اور نہ کوئی ایسا جکڑنا چکڑے گا ۔ حَتَّى إِذا أَثْخَنْتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثاقَ [ محمد/ 4] یہ ان تک کہ جب ان کو خوب قتل کرچکو تو ( جو زندہ پکڑے جائیں ان کو قید کرلو ۔ المیثاق کے معنی پختہ عہدو پیمان کے ہیں جو قسموں کے ساتھ موکد کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثاقَ النَّبِيِّينَ [ آل عمران/ 81] اور جب ہم نے پیغمبروں سے عہد لیا ۔ وَأَخَذْنا مِنْهُمْ مِيثاقاً غَلِيظاً [ النساء/ 154] اور عہد بھی ان سے پکالیا ۔ الموثق ( اسم ) پختہ عہد و پیمان کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تُؤْتُونِ مَوْثِقاً مِنَ اللَّهِ إلى قوله : مَوْثِقَهُمْ [يوسف/ 66] کہ جب تک تم خدا کا عہد نہ دو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦{ وَّلَا یُوْثِقُ وَثَاقَہٗٓ اَحَدٌ ۔ } ” اور اس کا سا باندھنا کوئی اور نہیں باندھ سکتا۔ “ میدانِ حشر میں ایک طرف تو یہ نقشہ ہوگا اور دوسری طرف کچھ ایسے خوش قسمت لوگ بھی ہوں گے جن سے کہا جائے گا :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَّ لَا يُوْثِقُ وَ ثَاقَهٗۤ اَحَدٌؕ٠٠٢٦﴾ (اور اس دن کی جیسی بندش کوئی نہ کرے گا) یعنی اس دن ایسی سخت سزا دی جائے گی کہ اس سے پہلے کسی نے کسی کو اتنی سخت سزا نہ دی ہوگی اور اس سے پہلے کسی نے ایسی سخت جکڑ بندی نہ کی ہوگی۔ سورة ٴ سبا میں فرمایا ﴿ وَ جَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِيْۤ اَعْنَاقِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ﴾ (اور ہم کافروں کی گردنوں میں طوق ڈالیں گے) اور سورة ٴ مومن میں فرمایا ﴿فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَۙ٠٠٧٠ اِذِ الْاَغْلٰلُ فِيْۤ اَعْنَاقِهِمْ وَ السَّلٰسِلُ ١ؕ﴾ (سو ان کو عنقریب معلوم ہوجائے گا جبکہ ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور زنجیریں) اس کے بعد اہل ایمان کو بشارتیں دیں اور فرمایا ﴿يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُۗۖ٠٠٢٧ ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًۚ٠٠٢٨﴾ (اے نفس مطمئنہ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ جا تو راضی خوشی ہے اور تیرا رب بھی تجھ سے راضی ہے) ۔ نفس مطمئنہ سے کہا جائے گا کہ تو اپنے رب کی طرف یعنی اس کے ثواب کی طرف اور جو کچھ اس نے تیرے لیے اپنی جنت میں تیار کیا ہے اس کی طرف لوٹ جا (ذكرہ فی کنز العمال الادعیة المطلقہ حدیث صفحہ ٦٨٧ ض ج ٢ بمعہ حلب وعزا فی الروح الی الطبرانی ایضًا) ۔ راضیة (اس حال میں کہ تو اللہ سے راضی ہے اور جو نعمتیں اس نے تیرے لیے تیار فرمائی ہیں ان سے تو خوش ہے) ۔ مرضیۃ مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ تیرا رب بھی تجھ سے راضی ہے۔ مفسر ابن کثیر نے لکھا کہ نفس مطمئنہ کو یہ خوشخبری موت کے وقت دی جاتی ہے اور قیامت کے دن بھی اسے یہ خوشخبری دی جائے گی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک حدیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مرنے والے کے پاس فرشتے آتے ہیں اگر نیک بندہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ اے پاکیزہ نفس جو پاکیزہ بدن میں تھی تو اللہ کی نعمت اور اللہ کے رزق پر خوش ہوجا اور اس بات پر خوش ہوجا کہ تیرا رب تجھ پر غصہ نہیں ہے۔ حضرت ابوامامہ (رض) نے بیان کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص کو دعا بتائی (کہ اس کو پڑھا کرو) اللھم انی اسالک نفسا مطمئنة تو من بلقائك وترضی بقضآئك وتقنع بعطآئك (اے اللہ میں آپ سے نفس مطمئنہ کا سوال کرتا ہوں جو آپ کی ملاقات کا یقین رکھتا ہو اور آپ کی قضا پر راضی اور آپ کی عطا پر قناعت کرتا ہو) ۔ اس دعا میں نفس مطمئنہ کی بعض صفات بیان فرمائی ہیں اول تو یہ فرمایا کہ وہ اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا ہے، یعنی یہی اصل چیز ہے اور یہ ہی اطمینان کا ذریعہ ہے جب کسی کو آخرت کے دن کی حاضری کا یقین ہوگا تو اپنی عبادات اور معاملات اور تمام امور اچھی طرح انجام دے گا اور یوم الحساب کی حاضری کا یقین ہوگا تو دینی کاموں کو اچھی طرح ادا کرے گا مثلاً نماز میں جلدی نہیں کرے گا اطمینان سے ادا کرے گا۔ نفس مطمئنہ کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی قضا یعنی اس کے فیصلہ پر راضی ہو وہ جس حال میں رکھے اس پر راضی رہے، یہ بھی اطمینان کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ نفس مطمئنہ کی تیسری صفت بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ وہ اللہ کی عطا پر قناعت کرے، قناعت بھی بہت بڑی نعمت ہے اللہ نے جو کچھ عطا فرمایا اس پر قناعت کرتا رہے تو بڑے اطمینان میں رہتا ہے، مال زیادہ کمانے کی حرص نہیں رہتی، مال کمانے کے لیے نہ گناہوں میں ملوث ہونا پڑتا ہے اور نہ عبادات میں کوتاہی ہوتی ہے، خیانت کرنے سے کسی کا حق دبانے سے، غصب سے، چوری سے کمائی کے تمام حرام طریقوں سے حفاظت رہتی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) اور نہ اس کے باندھنے اور جکڑنے کی طرح کوئی جکڑنے والا ہوگا یعنی عذاب اور قیدو بند اللہ تعالیٰ کی مانند کوئی کسی کو نہ کرسکے گا کیونکہ قیامت کے دن سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی کسی کے عذاب کرنے پر قادر نہ ہوگا اور اس دن حضرت حق تعالیٰ کے علاوہ کسی کو کچھ بھی اختیار نہ ہوگا یا یہ مطلب یہ ہو کہ دنیا میں کسی کو کسی نے ایسا عذاب نہ کیا ہوگا اور نہ کسی کو ایسی قید اور سخت بندش سے باندھا ہوگا جیسا اس دن اللہ تعالیٰ کافر کو عذاب کرے گا اور قید وبند میں جکڑے گا۔ مطلب یہ ہے کہ جسمانی عذاب بھی دے گا اور روحانی عذاب بھی دے گا اور وہ اس دن انتہائی حسرت و ندامت اور پشیمانی میں مبتلا ہوگا۔ کہتے ہیں یہ آیت امیہ بن خلف مشہور کافر کے حق میں نازل ہوئی ہے آگے نیک اور مومن بندوں کو خطاب ہے۔