Surat ul Fajar

Surah: 89

Verse: 6

سورة الفجر

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ۪ۙ﴿۶﴾

Have you not considered how your Lord dealt with 'Aad -

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے عادیوں کے ساتھ کیا کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Saw you not how your Lord dealt with `Ad? These were people who were rebellious, disobedient, arrogant, outside of His obedience, deniers of His Messengers and rejectors of His Scriptures. Thus, Allah mentions how He destroyed them, annihilated them and made them legends to be spoken of and an exemplary lesson of warning. He says, أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 ان کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجے گئے تھے انہوں نے جھٹلایا، بالآخر اللہ تعالیٰ نے سخت ہوا کا عذاب بھیجا۔ جو متواتر سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی اور انہیں نہس تہس کر کے رکھ دیا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(الم ترکیف فعل ربک بعاد)…:” العماد “ اسم جنس ہے جو واحد و جمع سب پر آتا ہے، ستون۔” ارم “ نوح (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ایک آدمی کا نام ہے جس کی نسل سے عاد ارم تھے۔ عاد ارم سے مراد عاد اولیٰ ہیں جن کی طرف ہود (علیہ السلام) بھیجے گئے تھے اور عاد ثانیہ یا عاد اخریٰ ثمود کو کہتے ہیں ڈ۔ بعض کا خیال ہے کہ ارم خاص اس جگہ کا نام تھا جہاں عاد رہتے تھے۔ (واللہ الع) البتہ حفاظ ابن کثیر (رح) نے ان لوگوں کی باتوں کو خرافات قرار دیا ہے جن ہوں نے ارم ایک ایسا شہر بیان کیا ہے جس کی ایک اینٹ سونے کی اور ایک چاندی کی تھی۔ ” ذات العماد “ کا لفظی معنی ہے ” ستونوں والے۔ “ ان کا یہ لقب اس لئے ہے کہ وہ بڑے قد آور تھے (جس طرح کھجوروں کے تنے۔ دیکھیے حاقہ : ٧) اور اسلئے بھی کہ وہ بڑے بڑے ستونوں والی عمارتیں بناتے تھے اور محض شان و شوکت کے اظہار کے لئے اونچی سے اونچی یادگاریں بناتے تھے۔ دیکھیے سورة شعراء (١٢٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ۝ ٦ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ فعل الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، ( ف ع ل ) الفعل کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا آپ کو بذریعہ قرآن معلوم بھی ہے کہ آپ کے رب نے قوم عاد یعنی ارم بن ارم کے ساتھ کیا معاملہ کیا، کہ ان کو جھٹلانے کی وجہ سے ہلاک کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

2 After reasoning out the judgement from the system of day and night, now an argument is berg given from man's own history for its being a certainty The mention of the conduct of a few well known tribes of history and their ultimate end is meant to point out that the universe is not working under some deaf and blind law of nature, but a Wise God is ruling over it, and in the Kingdom of that God only one law, which man describes as the law of nature is not working, but a moral law also is operative, which necessarily calls for retribution and rewards and punishments. The results of the working of the law have been appearing over and over again even in this world, which poinnt out to the people of understanding as to what is the nature of the Kingdom of the Universe. Any nation which carved out a system of life for itself heedless of the Hereafter and of the rewards and punishments of God, was ultimately corrupted and depraved, and whichever nation followed this way, was eventually visited with the scourge of punishment by the Lord of the universe. This continuous experience of man's own history testifies to two things clearly: (1) That denial of the Hereafter has been instrumental in corrupting every nation and sending it ultimately to its doom; therefore, the Hereafter indeed is a reality clashing with which leads, as it has always led, to the same inevitable results; and (2) that retribution for deeds will at some time in the future take place in its full and complete form also, for the people who touched the extreme limits of corruption and depravity and were visited with punishment had been preceded be many others who had sown seeds of corruption for centuries and left the world without being visited by any scourge. The justice of God demands that all those people also should be called to account at some time and they too should suffer for their misdeeds. (Argument from history and morals for the Hereafter has been given at many places in the Qur'an and we have explained it everywhere accordingly. For example, see E.N.'s 5, 6 of AI-A'raf, E.N. 12 of Yunus,, E.N.'s 57, 105, 115 of Hud, E.N. 9 of Ibrahim, E.N.'s 66, 86 of An-Naml, E.N. 8 of Ar-Rum E.N. 25 of Saba, E.N.'s 29. 30 of Suad, E.N. 80 of Al-Mu'min, E.N.'s 33, 34 of Ad-Dukhan, E.N.'s 27, 28 of Al-Jathiah, E.N. 17 of Qaf, E.N. 21 of Adh-Dhariyat) .

سورة الْفَجْر حاشیہ نمبر :2 جزا و سزا پر شب و روز کے نظام سے استدلال کرنے کے بعد اس کے ایک یقینی حقیقت ہونے پر انسانی تاریخ سے استدلال کیا جا رہا ہے ۔ تاریخ کی چند معروف قوموں کے طرز عمل اور ان کے انجام کے ذکر سے مقصود یہ بتانا ہے کہ یہ کائنات کسی اندھے بہرے قانون فطرت پر نہیں چل رہی ہے بلکہ ایک خدائے حکیم اس کو چلا رہا ہے اور اس خدا کی خدائی میں صرف ایک وہی قانون کار فرما نہیں ہے جسے تم قانون فطرت سمجھتے ہو ، بلکہ ایک قانون اخلاق بھی کار فرما ہے جس کا لازمی تقاضا مکافات عمل اور جزا اور سزا ہے ۔ اس قانون کی کار فرمائی کے آثار خود اس دنیا میں بھی بار بار ظاہر ہوتے رہے ہیں جو عقل رکھنے والوں کو یہ بتاتے ہیں کہ سلطنت کائنات کا مزاج کیا ہے ۔ یہاں جن قوموں نے بھی آخرت سے بے فکر اور خدا کی جزا و سزا سے بے خوف ہو کر اپنی زندگی کا نظام چلایا وہ آخر کار فاسد و مفسد بن کر رہیں ، اور جو قوم بھی اس راستے پر چلی اس پر کائنات کے رب نے آخر کار عذاب کا کوڑا برسا دیا ۔ انسانی تاریخ کا یہ مسلسل تجربہ دو باتوں کی واضح شہادت دے رہا ہے ۔ ایک یہ کہ آخرت کا انکار ہر قوم کے بگاڑنے اور بالآخر تباہی کے غار میں دھکیل دینے کا موجب ہوا ہے اس لیے آخرت فی الواقع ایک حقیقت ہے جس سے ٹکرانے کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہر حقیقت سے ٹکرانے کا ہوا کرتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ جزائے اعمال کسی وقت مکمل طور پر بھی واقع ہونے والی ہے ، کیونکہ فساد کی آخری حد پر پہنچ کر عذاب کا کوڑا جن لوگوں پر برسا ان سے پہلے صدیوں تک بہت سے لوگ اس فساد کے بیج بو کر دنیا سے رخصت ہو چکے تھے اور ان پر کوئی عذاب نہ آیا تھا ۔ خدا کے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ کسی وقت ان سب کی باز پرس بھی ہو اور وہ بھی اپنے کیے کی سزا پائیں ( قرآن مجید میں آخرت پر یہ تاریخی اور اخلاقی استدلال جگہ جگہ کیا گیا ہے اور ہم نے ہر جگہ اس کی تشریح کی ہے ۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں: تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف ، حواشی 5 ۔ 6 ۔ یونس ، حاشیہ 12 ۔ ہود ، حواشی 57 ۔ 105 ۔ 115 ۔ ابراہیم ، حاشیہ 9 ۔ جلد سوم ، النمل ، حواشی ، 62 ۔ 86 ۔ الروم ، حاشیہ 8 ۔ جلد چہارم ، سبا ، حاشیہ 25 ، ص ، حواشی 29 ۔ 30 ۔ المومن ، حاشیہ 80 ۔ الدخان ، حواشی 33 ۔ 34 ۔ الجاثیہ ، حواشی 27 ۔ 28 ۔ جلد پنجم ، ق ، حاشیہ 17 ۔ الذرایات ، حاشیہ 21 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(89:6) الم تر : ہمزہ استفہامیہ انکاریہ ہے جب نفی پر داخل ہوتا ہے تو اسے اثبات میں بدل دیتا ہے ۔ کیونکہ جب نفی پرد اخل ہوا تو نفی ہوئی اور نفی کی نفی اثبات ہے۔ لم تر نفی جحد بلم کا صیغہ واحد مذکر حاضر (خطاب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے) کیا تو نے (دل کی آنکھوں سے) نہیں دیکھا۔ ای الم تنظر بعینی قلبک کیف فعل ربک ۔۔ الخ (ایسر التفاسیر) کیا آپ نے اپنے دل کی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ یعنی آپ نے ضرور دیکھا ہوگا۔ علامہ سیوطی (رح) اپنی تفسیر الاتقان حصہ اول میں رقمطراز ہیں :۔ جب ہمزہ استفہام ” رأیت “ پر داخل ہوتا ہے تو اس حالت میں رؤیت کا آنکھوں یا دل سے دیکھنے کے معنی میں آنا ممنوع ہوتا ہے اور اس کے معنی اخبرنی (مجھے خبر دو ، مجھے بتاؤ) کے ہوتے ہیں۔ اکثر مفسرین نے اس کا تررجمہ ” کیا آپ نے نہیں دیکھا “ ہی کیا ہے۔ عاد سے مراد قوم عاد یا قبیلہ ہے۔ عاد حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم میں ایک شخص گزرا ہے جس کا سلسلہ نسب تین واسطوں سے حضرت نوح (علیہ السلام) سے جا ملتا ہے۔ اس کی نسل بھی اسی نام سے موسوم ہوئی۔ جو طوفان نوح کے بعد ملک عرب میں پہلی با اقتدار حکمران قوم تھی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں جس طرح اس کی قدرت کی نشانیاں پائی جاتی ہیں اسی طرح یہ بات بھی اس کی قدرت اور قوت کا مظہر ہے کہ اس نے عاد اور ثمود جیسی قوموں کو نیست و نابود کیا جن کی تباہی سے لوگوں نے سکون پایا۔ موجودہ جغرافیے کے مطابق قوم عاد کی رہائش عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالا پہاڑ تھے۔ اس کے باسی جسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے دنیا میں ان کا ثانی کوئی نہیں پیدا کیا گیا۔ انھوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات لہلہاتے تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے “ بھی کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے لمبی مدت تک اپنی قوم کو سمجھایا مگر قوم سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ قوم عاد کے جرائم : ١۔ قوم عاد نے خود ساختہ معبود بنا رکھے تھے ان کے سامنے اپنی حاجات و مشکلات پیش کرتے تھے۔ (الاعراف : ٧٠) ٢۔ یہ لوگ آخرت کو جھٹلانے اور دنیا پر اترانے والے تھے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٣۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا کے سوا اور کوئی جہاں برپا نہیں ہوگا۔ (المؤمنون : ٣٧) ٤۔ یہ اپنی قوت پر اترانے والے تھے۔ (حٰآالسجدۃ : ١٥) اس قوم کی تباہی کا ایک منظر : ١۔ ان پر سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقۃ : ٧) (الشعراء : ٢٠) ٢۔ گرج چمک اور بادو باراں کا طوفان آیا۔ (الاحقاف : ٢٤) ٣۔ آندھیوں نے انھیں کھجور کے تنوں کی طرح پٹخ پٹخ کر دے مارا۔ (الحاقۃ : ٧) ٤۔ انھیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ (الذاریات : ٤١، ٤٢) ٥۔ دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے اور آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ (السجدۃ : ١٦، ھود : ٥٩) ٦۔ قوم ھود کو نیست و نابود کردیا گیا۔ (الاعراف : ٧٢) قوم صالح کے جرائم : ١۔ قوم صالح اللہ کے ساتھ شرک کیا کرتی تھیں۔ (ھود : ٦٢۔ ٦١) ٢۔ ثمود انبیاء کو جھوٹا قرار دیتے تھے۔ (الشعراء : ١٤١) ٣۔ وہ لوگ بہت زیادہ اسراف، تکبر اور زمین میں فساد کرنے والے تھے۔ (الشعراء : ١٥٢، ١٥١) ٤۔ قوم ثمود ہدایت کے بجائے گمراہی کو پسند کرتی تھی۔ (حٰم السجدۃ : ١٧) ٥۔ انھوں نے اللہ کی نشانی کو جھٹلایا۔ (ھود : ٦٦) قوم ثمود کی ہلاکت کا منظر : ١۔ قوم ثمود کو تین دن کی مہلت دی گئی۔ (ھود : ٤٥) ٢۔ قوم ثمود کو صبح کے وقت ہولناک دھماکے نے آلیا اور ان کا مال واسباب ان کے کچھ کام نہ آئے۔ (الحجر ٨٣۔ ٨٤) ٣۔ ہم نے ان پر ہولناک چیخ نازل کی وہ ایسے ہوگئے جیسے بوسیدہ اور سوکھی ہوئی باڑ ہوتی ہے۔ (القمر : ٣١) فرعون اور اس کے ساتھیوں کا انجام : فرعون مصر کے حکمران کا اصلی نام نہیں بلکہ اس کا سرکاری لقب تھا۔ قدیم تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یمن کا حکمران تبع، حبشہ کا بادشاہ نجاشی، روم کا حکمران قیصر، ایران کا فرمانروا کسریٰ کہلواتا اور ہندوستان کے حکمران اپنے آپ کو راجا کہلوانا پسند کرتے تھے۔ جس طرح آج کل صدارتی نظام میں حکمران پریذیڈنٹ اور پارلیمانی نظام رکھنے والے ممالک میں وزیر اعظم اور جرمن کا حکمران چانسلر کہلواتا ہے اسی طرح ہی مصر کا بادشاہ سرکاری منصب کے حوالے سے فرعون کہلواتا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جس فرعون سے واسطہ پڑا اس کا نام قابوس یا رعمیس تھا۔ یہ اپنے آپ کو خدا کا اوتار سمجھتے ہوئے لوگوں کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوا کہ اگر میں خدا کا اوتار نہ ہوتا تو دنیا کی سب سے بڑی مملکت کا فرمانروا کیسے ہوسکتا تھا۔ پھر اس نے لوگوں کے مزاج اور مشرکانہ عقائد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے آپ کو رب اعلیٰ قرار دیا۔ قوم اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے دعویٰ کیا کہ زمین و آسمان میں مجھ سے بڑھ کر کوئی رب نہیں ہے میں ہی سب دیوتاؤں سے بڑا دیوتا اور سب سے اعلیٰ اور اولیٰ کائنات کا رب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی جھوٹی خدائی کے پرخچے اڑانے اور اس کی کذب بیانی کا پول کھولنے کے لیے اسی کے گھر میں پرورش پانے والے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول منتخب فرمایا۔ فرعون کو میخوں والا اس لیے کہا گیا ہے۔ 1 ۔ وہ اسلحہ کے لحاظ سے بڑا طاقتور تھا۔ 2 ۔ فرعون اپنے مخالفوں پر اس قدر ظلم کرتا کہ ان کے جسم پر کیل ڈھونک دیتا تھا بعض مفسرین کے مطابق اس نے اپنی بیوی حضرت آسیہ (رض) جو موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائی تھی اسے بھی یہی سزا دی تھی۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے عاد اولیٰ اور عاد ثانیہ کو ہلاک کیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے ثمود جیسی قوم دوبارہ پیدا نہیں کی۔ ٣۔ قوم ثمود نے پہاڑوں میں مکانات تعمیر کیے۔ ٤۔ قوم ثمود نے ملک میں بہت زیادہ فساد برپا کر رکھا تھا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود پر عذاب نازل کیا اور انہیں نیست ونابود کردیا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ نے قوم عاد اور آل فرعون تباہ کردیا۔ تفسیر بالقرآن قوم ثمود کی ہلاکت کا ایک منظر : ١۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف : ٧٧) ٢۔ انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور وہ نادم ہونے والوں میں سے ہوگئے۔ (الشعراء : ١٥٧) ٣۔ قوم ثمود کے بدبختوں نے اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ الشمس : ١٤) ٤۔ ثمود زور دار آواز کے ساتھ ہلاک کیے گئے۔ (الحاقہ : ٥) ٥۔ قوم عاد وثمود کے اعمال بد کو شیطان نے ان کے لیے فیشن بنا دیا تھا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٦۔ قوم ثمود کو زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (الاعراف : ٧٨) ٧۔ قوم ثمود کو چیخ نے آپکڑا۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے ہوئے تھے۔ (ھود : ٦٧) قوم عاد کے بارے میں تفصیلاً الاعراف کے رکوع ١٦ جبکہ آل فرعون کے بارے میں سورة یونس رکوع ١٢، ١٣ کا مطالعہ کریں۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الم ترکیف .................................... المرصاد اس قسم کے مطابق سیاق کلام میں استفہام کا صیغہ پرکشش ہوتا ہے اور وہ سامعین کو زیادہ متوجہ کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ ابتداً یہ خطاب تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے لیکن بعدہ ہر اس شخص کو خطاب ہے جو ان اقوام کے عبرت آموز واقعات سے سبق لینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جس زمانے میں یہ آیات اتریں ، مخاطبین کے درمیان ان اقوام کے قصے معروف ومشہور تھے۔ اس علاقے میں جو آثار قدیمہ ابھی تک باقی ہیں اور جو قصے ابھی تک زبان زدعام ہیں ، ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان اقوام کے بارے میں عرب اچھی طرح جانتے تھے۔ یہاں فعل کا فاعل ” ربک “ کو لایا گیا ہے۔ اس میں حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس وقت کے مٹھی بھر مسلمانوں کے لئے سامان اطمینان ہے۔ اس وقت مکہ کے مسلمان قریش کے سرکشوں کے ہاتھوں مظالم جھیل رہے تھے اور ان کے خلاف یہ لوگ ہر محاذ پر راہ روکے کھڑے تھے۔ اس پیرا یہ اظہار سے ان کے دلوں میں راحت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ ان مختصر آیات میں اللہ نے تاریخ انسانی کے سرکردہ جباروں کی داستانوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان میں سے ایک مشہور قوم عادارم ہے جسے عاد اولیٰ بھی کہا گیا ہے۔ یہ ان عربوں میں سے تھے جو ابتدائی ادوار میں خالص عرب تھے (عاربہ) یا ان عربوں میں سے تھے جن کی نسل ختم ہوگئی ہے (بائدہ) یہ لوگ احقاف میں رہتے تھے ، احقاف ریت کے ٹیلوں کو کہتے ہیں۔ جنوب عرب میں یمن اور حضرت موت کے درمیان ان کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ یہ بدوی لوگ تھے اور ایسے خیموں میں رہے تھے جو ستوتوں پر قائم ہوتے تھے۔ قرآن کریم میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ بڑے قوی تھے اور سخت گرفت کی طاقت رکھتے تھے۔ اپنے وقت پر یہ قوی تر قوم تھی اور اقوام میں زیادہ ممتاز تھی۔ التی لم ........................ فی البلاد (8:89) ” جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی “۔ یعنی اس وقت تک۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد بعض گزشتہ اقوام کی بربادی کا تذکرہ فرمایا خطاب بظاہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے اور آپ کے واسطہ سے تمام انسانوں کو ہے تاکہ ان واقعات سے عبرت حاصل کریں یہاں ان اقوام کی ہلاکت کا اجمالی تذکرہ فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں دیگر مواقع میں ان کے تفصیلی حالات جگہ جگہ مذکور ہیں، فرمایا ﴿اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ۪ۙ٠٠٦﴾ (کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا جو ارم نام کے ایک شخص کی نسل میں سے تھے اور ذات العماد تھے) ان کے بڑے بڑے قد تھے، مشہور ہے کہ ان کے قدر بارہ ہاتھ کے تھے (كما ذکرہ فی الروح) یہ ذات العماد کا ایک معنی ہے اور بعض حضرات نے اس کا لغوی یہ معنی لیا ہے کہ وہ لوگ ستونوں والے تھے خیمے لیے پھرتے تھے جنگلوں میں جہاں سبزہ دیکھا وہیں خیمے لگا دیتے تھے اور خیموں کو ستونوں سے باندھ دیتے تھے پھر جب سبزہ ختم ہوجاتا تھا تو اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے تھے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” الم تر “ یہ تخوید دنیوی کا پہلا نمونہ ہے برائے تزہید فی الدنیا۔ حاصل یہ ہے کہ دنیا کی کوئی چیز نہیں دنیا کے پیچھے نہ بھاگو بلکہ آخرت کی فکر کرو۔ اور اللہ تعالیٰ سے مبارک وقتوں میں اپنے گناہوں کی معافی مانگو قوم عاد کو دیکھو یہ کس قدر طاقتور قوم تھی دنیا میں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا۔ مگر انہوں نے سرکشی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو تہس نہس کردیا اور ان کا دنیوی ساز و سامان اور کرو فر ان کے کسی کام نہ۔ ” عاد “ ارم یا ارم۔ عاد کے باب ادا کا نام ہے۔ اس صورت میں بدل مبدل منہ کی ترکیب درست نہ ہوگی بلکہ مضاف مقدر ہوگا۔ اصل میں عاد بن ارم تھا۔ قالہ الشیخ (رح) تعالیٰ ۔ ” ذات العماد “ لمبے قد والے یا خیموں والے۔ یعنی کان طولہم مثل العمال وقیل سمیت تلک الامۃ بذلک لانہم کانوا اھل اعمدۃ و خیال و ما شیۃ سیارۃ فی الربیع (مظہری ج 10 ص 255 (۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) اے پیغمبر کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے پروردگار نے قوم عاد کے ساتھ کیا سلوک کیا۔