Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 17

سورة التوبة

مَا کَانَ لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ اَنۡ یَّعۡمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰہِدِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ بِالۡکُفۡرِ ؕ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ ۚ ۖ وَ فِی النَّارِ ہُمۡ خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۷﴾

It is not for the polytheists to maintain the mosques of Allah [while] witnessing against themselves with disbelief. [For] those, their deeds have become worthless, and in the Fire they will abide eternally.

لائق نہیں کہ مشرک اللہ تعالٰی کی مسجدوں کو آباد کریں ۔ درآں حالیکہ وہ خود اپنے کفر کے آپ ہی گواہ ہیں ان کے اعمال غارت و اکارت ہیں اور وہ دائمی طور پر جہنمی ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

It is not for Idolators to maintain the Masjids of Allah Allah says; مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ الله شَاهِدِينَ عَلَى أَنفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ... It is not for the Mushrikin, to maintain the Masjids of Allah, while they witness against themselves of disbelief. Allah says that it is not fitting that those who associate others with Allah i... n worship should maintain the Masjids of Allah that were built in His Name alone without partners. Those who read the Ayah, "Masjid Allah", said that; it refers to Al-Masjid Al-Haram, the most honored Masjid on the earth, which was built, from the first day, for the purpose of worshipping Allah alone without partners. It was built by Khalil Ar-Rahman (the Prophet Ibrahim) peace be upon him. The idolators do this while they themselves testify to their disbelief with their statements and actions. As-Suddi said, "If you ask a Christian, `What is your religion', He will tell you he is a Christian. If you ask a Jew about his religion, he will say he is a Jew, and the same for a Sabi' and a Mushrik!"' ... أُوْلَيِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ ... The works of such are in vain, because of their Shirk, ... وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ and in Fire shall they abide. Allah said in another Ayah, وَمَا لَهُمْ أَلاَّ يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُواْ أَوْلِيَأءَهُ إِنْ أَوْلِيَأوُهُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ And why should not Allah punish them while they hinder (men) from Al-Masjid Al-Haram, and they are not its guardians! None can be its guardians except those with Taqwa, but most of them know not. (8:34) Believers are the True Maintainers of the Masjids Allah said,   Show more

مشرکوں کو اللہ کے گھر سے کیا تعلق؟ یعنی اللہ کے ساتھ شریک کرنے والوں کو اللہ کی مسجدوں ( کی تعمیر ) کرنے والے بننا لائق ہی نہیں یہ مشرک ہیں بیت اللہ سے انہیں کیا تعلق؟ مساجد کو مسجد بھی پڑھا گیا ہے پس مراد مسجد حرام ہے جو روئے زمین کی مسجدوں سے اشرف ہے جو اول دن سے صرف اللہ کی عبادت کے لیے بنائی...  گئی ہے جس کی بنیادیں خلیل اللہ نے رکھیں تھیں اور یہ لوگ مشرک ہیں حال و قال دونوں اعتبار سے تم نصرانی سے پوچھو وہ صاف کہے گا میں نصرانی ہوں ، یہود سے پوچھو وہ اپنی یہودیت کا اقرار کریں گے ، صابی سے پوچھو وہ بھی اپنا صابی ہونا اپنی زبان سے کہے گا ، مشرک بھی اپنے مشرک ہو نے کے لیے اقراری ہیں ان کے اس شرک کی وجہ سے ان کے اعمال اکارت ہو چکے ہیں اور وہ ہمیشہ کے لیے ناری ہیں ۔ یہ تو مسجد حرام سے اور اللہ کی راہ روکتے ہی ہیں یہ گو کہیں لیکن دراصل یہ اللہ کے اولیاء نہیں اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو متقی ہوں لیکن اکثر لوگ علم سے کورے اور خالی ہوتے ہیں ۔ ہاں بیت اللہ کی آبادی مومنوں کے ہاتھوں ہوتی ہے پس جس کے ہاتھ سے مسجدوں کی آبادی ہو اس کے ایمان کا قرآن گواہ ہے ۔ مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم کسی کو مسجد میں آنے جانے کی عادت والا دیکھو تو اس کے ایمان کی شہات دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور حدیث میں ہے مسجدوں کے آباد کرنے والے اللہ والے ہیں اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مسجد والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب پوری قوم پر سے ہٹا لیتا ہے ۔ اور حدیث میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے مجھے اپنی عزت اور اپنے جلال کی قسم کہ میں زمین والوں کو عذاب کرنا چاہتا ہوں لیکن اپنے گھروں کے آباد کرنے والوں اور اپنی راہ میں آپس میں محبت رکھنے والوں اور صبح سحری کے وقت استغفار کرنے والوں پر نظریں ڈال کر اپنے عذاب ہٹا لیتا ہوں ۔ ابن عساکر میں ہے کہ شیطان انسان کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے کہ وہ الگ تھلگ پڑی ہوئی ادھر ادھر کی بکھری بکری کو پکڑ کر لے جاتا ہے پس تم پھوٹ اور اختلاف سے بچو جماعت کو اور عوام کو اور مسجدوں کو لازم پکڑے رہو ۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ہے کہ مسجدیں اس زمین پر اللہ کا گھر ہیں جو ان میں داخل ہو اللہ کا ان پر حق ہے کہ وہ مساجد کا احترام کریں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں جو نماز کی اذان سن کر پھر بھی مسجد میں آکر باجماعت نماز نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی وہ اللہ کا نافرمان ہے کہ مسجدوں کی آبادی کرنے والے اللہ کے اور قیامت کے ماننے والے ہی ہوتے ہیں ۔ پھر فرمایا نمازی بدنی عبادت نماز کے پابند ہوتے ہیں اور مالی عبادت زکوٰۃ کے بھی ادا کرنے والے ہوتے ہیں ان کی بھلائی اپنے لیے بھی ہوتی ہے اور پھر عام مخلوق کے لیے بھی ہوتی ہے ان کے دل اللہ کے سوا اور کسی سے ڈرتے نہیں یہی راہ یافتہ لوگ ہیں ۔ موحد ایمان دار قرآن وحدیث کے ماتحت پانچوں نمازوں کے پابند صرف اللہ کا خوف کھانے والے اس کے سوا دوسرے کی بندگی نہ کرنے والے ہی راہ یافتہ اور کامیاب اور بامقصد ہیں ۔ یہ یاد رہے کہ بقول حضرت ابن عباس قرآن کریم میں جہاں بھی لفظ عسی وہاں یقین کے معنی میں ہے امید کے معنی میں نہیں مثلاً فرمان ہے ( آیت عسی ان یبعثک ربک مقام محمودا ) تو مقام محمود میں پہنچانا یقینی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شافع محشر بننا یقینی چیز ہے جس میں کوئی شک شبہ نہیں ۔ محمد بن اسحاق فرماتے ہیں عسی کلام اللہ میں حق و یقین کے لیے آتا ہے   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 مَسَا جِدَ اللّٰہِ سے مراد مسجد حرام ہے جمع کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا کہ یہ تمام مساجد کا قبلہ و مرکز ہے یا عربوں میں واحد کے لئے بھی جمع کا استعمال جائز ہے 17۔ 2 یعنی ان کے وہ عمل جو بظاہر نیک لگتے ہیں، جیسے طواف وعمرہ اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ۔ کیونکہ ایمان کے بغیر یہ اعمال ایسے درخت کی ... طرح ہیں جو بےثمر ہیں یا ان پھولوں کی طرح ہیں جن میں خو شبو نہیں ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] مشرکین مکہ کن کن باتوں سے بیت اللہ کی توہین کرتے تھے ؟:۔ یعنی کعبہ یا کسی بھی مسجد کی تولیت، مجاوری اور آباد کاری مشرکوں کے لیے مناسب ہی نہیں۔ کعبہ خالصتاً اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا تھا اور ایسے ہی دوسری مساجد بھی اسی غرض کے لیے بنائی جاتی ہیں لیکن یہ مشرک بیت اللہ میں بھی اللہ کے ساتھ دو... سروں کو شریک بناتے تھے۔ چناچہ مشرکوں نے اللہ کے اس گھر میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ دیواروں پر اپنے بزرگوں اور دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بنا رکھی تھیں۔ اور ان ظالموں نے سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل کے مجسمے بنا کر ان کے ہاتھوں میں فال گیری کے تیر پکڑا رکھے تھے۔ رسول اللہ نے فتح مکہ کے بعد بیت اللہ کو ان سب چیزوں سے پاک کیا۔ پھر بیت اللہ میں ایسی فحاشی روا رکھی جاتی کہ کیا مرد کیا عورت ننگے طواف کرتے تھے۔ پھر یہ ظالم طواف کے دوران یہ الفاظ کہہ کر اپنے شرک کی شہادت دیتے تھے لاَشَرِِیْکَ لَکَ الاَّ شَرِیْکَ ھُوَلَکَ تَمْلِکُہُ (مسلم۔ کتاب الحج) ان کی نظروں میں سرے سے بیت اللہ کے احترام کا تصور ہی نہ تھا حتیٰ کہ انہوں نے اپنی عبادت کو سیٹیوں، تالیوں اور گانے بجانے کی محفلیں بنا رکھا تھا۔ پھر کیا ایسے لوگ مساجد کی آباد کاری اور سرپرستی کے مستحق ہوسکتے ہیں ؟ [١٦] کیونکہ اعمال کی جزا کا انحصار اللہ اور روز آخرت پر ایمان ہے اور مشرک تو روز آخرت پر ایمان ہی نہیں رکھتے تھے اور اللہ پر ایمان کے معاملہ میں ان کا تصور ہی غلط تھا۔ انہوں نے سب خدائی اختیارات و تصرفات تو اپنے دیوی دیوتاؤں اور بزرگوں کو دے رکھے تھے لہذا ایمان نہ لانے کی وجہ سے ان کے اچھے اعمال ضائع ہوں گے اور شرک اور بداعمالی کی وجہ سے ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہوگا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ : یہاں تک کفار کے عہد و پیمان سے براءت کا اعلان، کفار سے جہاد، اس کے فوائد اور حکمتوں کا بیان تھا۔ اب یہ بیان شروع ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مساجد کی آباد کاری، ان کی نگرانی اور تولیت و خدمت مشرکین کا کسی صورت حق نہیں بنتا، کیونکہ مساجد تو خالص اللہ کے لیے ہیں : (وَّاَنَّ ... الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا) [ الجن : ١٨ ] ” اور یہ کہ بلاشبہ مسجدیں اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔ “ سو ان کی نگرانی اور آباد کاری ان لوگوں کا حق کیسے ہوسکتا ہے جو خود اپنے آپ پر اس اکیلے مالک کے ساتھ کفر کے گواہ اور شاہد ہیں، جو حج اور عمرہ کے وقت بھی ( جو صرف اللہ کے لیے ہیں) لبیک کہتے وقت غیروں کو علی الاعلان اس کا شریک بناتے ہیں۔ چناچہ عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ مشرکین کہتے تھے : ( لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ ) ” حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے : ” اسی پر بس کر دو ، آگے مت کہنا۔ “ مگر وہ کہتے : ( إِلاَّ شَرِیْکًا ھُوَ لَکَ تَمْلِکُہُ وَمَا مَلَکَ )” مگر ایک شریک جو تیرا ہی ہے جس کا تو مالک ہے، وہ خود مالک نہیں۔ “ وہ لوگ یہ الفاظ بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے۔ [ مسلم، الحج، باب التلبیۃ وصف تھا و وقتھا : ١١٨٥ ] ان کی اپنے کفر پر شہادت وہ تین سو ساٹھ بت بھی تھے جو انھوں نے کعبہ کے اندر اور اس کے ارد گرد رکھے ہوئے تھے، کعبہ کی دیواروں پر بزرگوں اور دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بنا رکھی تھیں۔ ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کی صورتیں بناکر ان کے ہاتھ میں فال کے تیر پکڑائے ہوئے تھے، ان کی عبادت غیر اللہ کو پکارنا تھا، ان کا بیت اللہ کا احترام انتہائی بےحیائی، یعنی ننگے ہو کر مردوں اور عورتوں کا طواف کرنا تھا اور ان کی نماز تالیاں پیٹ کر اور سیٹیاں بجا کر مشرکانہ قوالیاں کرنا تھا۔ ایسے لوگ اللہ کے سب سے پہلے اور افضل گھر کے تو کجا اس کی کسی مسجد کے متولی، مجاور یا خادم بننے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتے، اس لیے ان سے کعبہ اور دوسری مساجد کو آزاد کروانا مسلمانوں پر فرض ہے۔ علامہ اقبال نے یہاں ایک نہایت نفیس نکتہ نکالا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے پوری زمین کو مسجد بنایا ہے، جیسا کہ فرمایا : ( جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَّ طَھُوْرًا ) [ بخاری، التیمم، باب قول اللہ تعالیٰ : ( فلم تجدوا مآء۔۔ ) : ٣٣٥۔ مسلم : ٥٢٣ ] اس لیے مسلمانوں کے لیے غیرت اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ان کی مسجد پر غیر مسلموں کا قبضہ ہو، نہیں بلکہ یہ ساری مسجد یعنی ساری زمین مسلمانوں کے قبضے میں ہونی چاہیے اور کفار کو ان کے ماتحت ہونا چاہیے۔ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ : یعنی انھوں نے اگر کچھ نیک کام کیے بھی ہیں، جیسے مسجد حرام اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ، تو ان کے شرک کی وجہ سے وہ سب اکارت گئے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the previous verses was how crooked the Mushrikin of Makkah were, how they broke their pledges and what they did to defend their false ways in religion. With this in view, Muslims were also brought around to stand up against them. In the last previous verse (16), Muslims have been told that Jihad is a test for them. This test is necessary because it helps in marking out a s... incere Muslim from hypocrites and the weak-in-faith. Says the verse: ` Do you think that you will be left alone while Allah has not seen those of you who strug¬gle in jihad and never take anyone, other than Allah and His Messen¬ger and the believers, as their confidant?& The address in this verse is also to those common people who were taken to be Muslims, though some of them were hypocrites while some others were weak in faith and kept wavering. Such people would pass on sensitive information about Muslims to their non-Muslim friends. Therefore, two signs of a sincere Muslim were identified in this verse. Two signs of sincere Muslims (1) They fight disbelievers in the way of Allah. (2) They take no non-Muslim as their close friend to whom secrets are confided. At the end of the verse, it was said: وَاللَّـهُ خَبِيرٌ‌ بِمَا تَعْمَلُونَ (And Allah is [ All ] Aware of what you do) that is, before Him nobody can get away with false excuses and alibis. This wisdom of Jihad mentioned earlier has appeared in another verse of the Holy Qur&an in the following words: أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَ‌كُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (Do people think that they will be left to say, |"We believe,|" and they will not be tried? - 29:2) On taking non-Muslims as close friends and insiders The word: ولیجہ (walijah) used in verse 16 means an insider who shares secrets. There is another verse which uses the word: بطانہ (bitanah) to carry this very sense. Literally, بطانہ ` bitanah& means what is worn under normal clothing and is close to the body. It denotes a person who knows secrets as an insider. The actual words of the verse read: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِّن دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا O those who believe, do not take anyone as insider but from your own selves for they would spare no effort to put you in trouble). (3:118) Now we can turn to the present verses (17 and 18) where instruc¬tions have been given to cleanse al-masjid-al-Haram and other masajid (mosques) of false modes of worship and replacing them with what is correct and acceptable. A little background detail is in order at this point. When the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) got rid of all those idols the Mushriks used to worship from the Baytullah and the Sacred Mosque soon after the conquest of Makkah, it was a matter of relief, at least externally, for the Sacred Mosque was now free from the physical vestiges of Shirk. But, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had granted his old enemies pardon and protection soon after they were overpowered. They still used to do their ` Ibadah and Tawaf in the Sacred Mosque following their false ways. That the Sacred Mosque was cleansed of idols was good, but it was also necessary to purify this sacred site from the fallout of idolatry and its false mores. The only way it could be done was to prohibit the entry of the Mushriks into the Sacred Mosque. But, this would have gone against the promise of protection given to them - and abiding by the terms of a treaty was far more important in Islam. Therefore, such or¬ders were not given immediately. Instead, it was done in the year next to the conquest of Makkah. At that time, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) had Sayyidna Abu Bakr and Sayyidna ` Ali (رض) make an an-nouncement in the great gathering of Mina and ` Arafat that, in the fu¬ture, no ` Ibadah, Hajj or Tawaf performed in the Mushrik way will be allowed in the Sacred Mosque. Also prohibited through this announce¬ment was the evil custom of making Tawaf in the nude that had lin¬gered from the days of Jahiliyah. It was in the gathering at Mina that Sayyidna Ali (رض) proclaimed: لَا یَحُجَّنَّ بعد العام مشرِکُ ولا یَطُوفَنَّ بِالبَیتِ عُریَانُ After this year, no Mushrik will perform Hajj and no naked person will make Tawaf of Baytullah. And this respite of one year was given for the reason that there were many people among them with whom Muslims had a treaty and they had continued to abide by the terms of the treaty. That they should be made to obey a new law before the expiry of the existing treaty with them was contrary to Islamic policy of tolerance. There-fore, a public announcement was made a year in advance to the effect that it has been decided to cleanse the Sacred Mosque from all Mushrik customs and ways of worship - because, their kind of worship would not let a mosque flourish, rather would go on to make it desolate. These Mushriks of Makkah equated their pagan customs with ` worship& and thought that they were contributing towards the mainte¬nance and functional thriving of the Sacred Mosque. They were proud of being the custodians of the Baytullah and the Sacred Mosque. Sayyidna ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) says, ` when his father, before he became a Muslim, was taken prisoner at the battle of Badr, Mus¬lims reproached him for staying on the side of Kufr and Shirk. He told them, ` you only remember what is bad about us. You do not like to talk about our good things. Do you not know that we are the custodians of the Sacred Mosque? We take care of the building. We keep it filled with people. We manage it and we run a drinking water service for the pilgrims. Revealed thereupon were the verses: مَا كَانَ لِلْمُشْرِ‌كِينَ أَن يَعْمُرُ‌وا مَسَاجِدَ اللَّـهِ (It is not for the Mushriks to build up the mosques of Allah). It means that Mushriks (those who ascribe partners to Allah) do not have the right to build and populate the mosques of Allah. The reason is that a masjid is a place that has been built to worship One God while Shirk and Kufr are its antithesis that cannot be combined with the structure and function of a masjid. The word: عمارہ (` imarah: building) appearing in this verse is a multi-faceted word and is used to convey several meanings. It could mean the physical building of the masjid including all elements that go in raising and finishing it externally and internally. Then, it could also denote the maintenance of the masjid that would be inclusive of secur¬ity arrangements, sanitation, upkeep and provision of necessary supplies. And then, it also includes the human dimension of the masjid - that believers present themselves in the masjid for ` Ibadah. (Since there is no exact equivalent in English to carry this sense, the nearest one could come would be to populate, people, fill up, make the masjid flourish in the number of those present and in the quality of acts of ` Ibadah they perform therein.) Incidentally, ` Umrah (عمرہ) is called by that name in view of the fact that one visits Baytullah and makes the best of his presence there in terms of ` Ibadah. So, the sense of the Qur&anic word ` imarah& covers building, mainte¬nance and presence. The Mushriks of Makkah took credit for all three. They took special pride in considering themselves the custodians of the building of the Sacred Mosque. The present verses tell them that the Mushriks did not have any right to build the mosques of Allah while they were witnesses of their own infidelity. Because of their Kufr and Shirk, their deeds had gone waste and they were to live in the Fire of Jahannam eternally. The expression: ` witnesses of their own infidelity& could have two meanings. It could either mean that they were virtually confessing to their Kufr and Shirk because of what they were doing as Mushriks. Or, it could refer to their implied confession and witnessing of their Kufr and Shirk when they identify themselves in social situations. Customarily, when a Christian or Jew is asked as to his religious iden¬tity, he would say that he was a Christian or Jew. The same would be the case with a fire-worshipper or idolater. They would identify them-selves with what they believe in. Thus, the Mushriks will become wit¬nesses of their infidelity against themselves. (Ibn Kathir)   Show more

خلاصہ تفسیر مشرکین کی یہ لیاقت ہی نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو ( جن میں مسجد حرام بھی آگئی) آباد کریں جس حالت میں وہ خود اپنے کفر ( کی باتوں) کا اقرار کر رہے ہیں) (چنانچہ وہ خود اپنا مشرب بتلانے کے وقت ایسے عقائد کا اقرار کرتے تھے جو واقع میں کفر ہیں، مطلب یہ کہ عمارت مساجد گو عمل محمود ہے لیکن ب... اوجود شرک کے کہ اس کے منافی ہے اس عمل کی اہلیت ہی مفقود ہے اور اس لئے وہ محض غیر معتدبہ ہے، پھر فخر کی کیا گنجائش ہے) ان لوگوں کے ( جو مشرک ہیں) سب اعمال ( نیک مثل عمارت مسجد وغیرہ) اکارت ( اور ضائع) ہیں ( بوجہ اس کے کہ ان کی قبولیت کی شرط نہیں پائی جاتی اور ضائع عمل پر فخر ہی کیا) اور دوزخ میں وہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ( کیونکہ وہ عمل جو کہ اسباب نجات سے ہے وہ تو ضائع ہی ہوگیا تھا) ہاں اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا ان لوگوں کا کام ہے ( یعنی علی وجہ الکمال ان سے مقبول ہوتا ہے) جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ( دل سے) ایمان لائیں ( اور جوارح سے اس کا اظہار بھی کریں مثلاً اس طرح کہ) نماز کی پابندی کریں اور زکوٰة دیں اور ( اللہ پر ایسا توکل رکھتے ہوں کہ) بجز اللہ کے کسی سے نہ ڈریں سو ایسے لوگوں کی نسبت توقع ( یعنی وعدہ) ہے کہ اپنے مقصود ( یعنی جنت و نجات) تک پہنچ جائیں گے ( کیونکہ ان کے اعمال بوجہ ایمان کے مقبول ہوں گے، اس لئے آخرت میں نفع ہوگا اور مشرکین اس شرط سے محروم ہیں، اور عمل بےثمر پر فخر لاحاصل ) ۔ معارف و مسائل پچھلی آیات میں مشرکین مکہ کی کج روی، عہد شکنی اور اپنے دین باطل کے لئے ہر طرح کی کوشش کا اور اس کے مقابلہ پر مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب کا بیان آیا تھا، آیات مذکورہ میں مسلمانوں کو جہاد کی تاکید کے ساتھ یہ بتلایا گیا ہے کہ جنگ و جہاد ہی وہ چیز ہے جس میں مسلمان کا امتحان ہوتا ہے مخلص مسلمان اور منافق یا ضعیف الایمان کا امتیاز ہوتا ہے، اور یہ امتحان ضروری ہے۔ سولہویں آیت میں ارشاد فرمایا کہ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم صرف کلمہ اسلام زبان سے کہہ لینے اور اسلام کا دعوٰی کرلینے پر آزاد چھوڑ دیئے جاؤ گے، جب تک اللہ تعالیٰ ظاہری طور پر بھی ان سچے اور پکے مسلمانوں کو نہ دیکھ لیں جو تم میں سے جہاد کرنے والے ہیں، اور جو اللہ و رسول اور مسلمانوں کے سوا کسی کو اپنا رازدار دوست نہیں بناتے۔ اسی آیت میں ان عام لوگوں کو خطاب ہے جو مسلمان سمجھے جاتے تھے، اگرچہ ان میں سے بعض منافق بھی تھے اور بعض ضعیف الایمان اور مذبذب تھے، ایسے ہی لوگوں کا یہ حال تھا کہ اپنے غیر مسلم دوستوں کو مسلمانوں کے راز اور اسرار پر مطلع کردیا کرتے تھے، اس لئے اس آیت میں مخلص مسلمان کی دو علامتیں بتلادی گئیں۔ مخلص مسلمان کی دو ٢ علامتیں : اول یہ کہ اللہ کے واسطے کفار سے جہاد کریں، دوسرے یہ کہ کسی غیر مسلم کو اپنا رازدار، دوست نہ بنائیں آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ یعنی تم جو کچھ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس سے باخبر ہیں، ان کے آگے کسی کا حیلہ و تاویل نہیں چل سکتی۔ یہی مضمون قرآن مجید کی ایک دوسری آیت میں ان الفاظ کے ساتھ آیا ہے : (آیت) اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْٓا اَنْ يَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ ، یعنی کیا لوگوں نے یوں سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف زبانی اپنے آپ کو مومن کہنے پر آزاد چھوڑ دیئے جائیں گے، او ان کا کوئی امتحان نہ لیا جائے گا “۔ کسی غیر مسلم کو ہمراز دوست بنانا درست نہیں : آیت مذکورہ میں جو لفظ وَلِيْجَةً آیا ہے اس کے معنی دخیل اور بھیدی کے ہیں، اور ایک دوسری آیت میں اسی معنی کے لئے لفظ بطانہ استعمال کیا گیا ہے بطانہ کے اصل معنی اس کپڑے کے ہیں جو دوسرے کپڑوں کے نیچے بطن اور بدن کے ساتھ متصل ہو، مراد اس سے ایسا آدمی ہے جو اندر کے رازوں سے واقف ہو، اس آیت کے الفاظ یہ ہیں : (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا، اے ایمان والو ! اپنے مسلمانوں کے سوا کسی کو ہمراز اور بھیدی دوست نہ بناؤ وہ تمہیں دھوکہ دے کر برباد کرنے میں کوئی کسر نہ رکھیں گے “ اس کے بعد سترہویں اور اٹھارہویں آیتوں میں مسجد حرام اور دوسری مساجد کو عبادات باطلہ سے پاک کرنے اور صحیح و مقبول طریقہ پر عبادت کرنے کی ہدایات ہیں اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیت اللہ اور مسجد حرام سے ان تمام بتوں کو نکال ڈالا جن کی مشرکین عبادت کیا کرتے تھے، اس طرح حسی طور پر تو مسجد حرام بتوں سے پاک ہوگئی، لیکن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قدیم دشمنوں پر غالب آنے کے بعد سب کو معافی اور امان دے دیا تھا، اور وہ مشرکین اب بھی بیت اللہ اور حرم محترم میں عبادت و طواف وغیرہ اپنے باطل طریقوں پر کیا کرتے تھے۔ اب ضرورت اس بات کی تھی کہ جس طرح مسجد حرام کو بتوں سے پاک کردیا گیا اسی طرح بت پرستی اور اس کے تمام باطل طریقوں سے بھی اس مقدس زمین کو پاک کیا جائے، اور اس سے پاک کرنے کی ظاہری صورت یہی تھی کہ مشرکین کا داخل مسجد حرام میں ممنوع قرار دے دیا جائے لیکن یہ اس دیئے ہوئے امان کے خلاف ہوتا اور معاہدہ کی پابندی اسلام میں ان سب چیزوں سے مقدم اور اہم تھی، اس لئے فوری طور پر ایسے احکام نہیں دیئے گئے بلکہ فتح مکہ سے اگلے ہی سال میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صدیق اکبر اور علی مرتضیٰ کے ذریعہ منٰی اور عرفات کے عام اجتماع میں یہ اعلان کردیا کہ آئندہ کوئی مشرکانہ طرز کی عبادت اور حج و طواف وغیرہ حرم میں نہ ہوسکے گی اور جاہلیت میں جو ننگے ہو کر طواف کرنے کی رسم بد چل پڑی تھی آئندہ اس حرکت کی اجازت نہ دی جائے گی، چناچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے منٰی کے اجتماع عام میں اس کا اعلان کردیا کہ :۔ لا یحجن بعد العام مشرک ولا یطوفن بالبیت عریان ” یعنی اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرسکے گا اور کوئی ننگا آدمی بیت اللہ کا طواف نہ کرسکے گا “ اور یہ سال بھر کی مہلت اس لئے دے دیگئی کہ ان میں بہت سے وہ لوگ بھی تھے جن کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا اور وہ ابھی تک معاہدہ پر قائم تھے، میعاد معاہدہ پورا ہونے سے پہلے ان کو کسی نئے قانون کا پابند کرنا اسلامی رواداری کے خلاف تھا، اس لئے ایک سال پہلے سے یہ اعلان جاری کردیا گیا کہ حرم محترم کو مشرکانہ عبادات اور رسوم سے پاک کرنا طے کردیا گیا ہے کیونکہ اس قسم کی عبادت درحقیقت عبادت اور مسجد کی آبادی نہیں بلکہ ویرانی ہے۔ یہ مشرکین مکہ اپنی مشرکانہ رسوم کو عبادت اور مسجد حرام کی عمارت و آبا دی کا نام دیتے اور اس پر فخر کیا کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ اور مسجد حرام کے متولی اور اس کی عمارت کے ذمہ دار ہیں، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضرت عباس جب اسلام لانے سے پہلے غزوہ بدر میں گرفتار ہوئے اور مسلمانوں نے ان کو کفر و شرک پر قائم رہنے سے عار دلائی تو انہوں نے جواب دیا کہ تم لوگ صرف ہماری برائیاں یاد رکھتے ہو اور بھلائیوں کا کوئی ذکر نہیں کرتے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم بیت اللہ اور مسجد حرام کو آباد رکھنے اور اس کا انتظام کرنے اور حجاج کو پانی پلانے وغیرہ کی خدمات کے متولی بھی ہیں، اس پر قرآن کریم کی یہ آیتیں نازل ہوئیں، (آیت) مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ : یعنی مشرکین کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مساجد کی تعمیر کریں، کیونکہ مسجد صرف وہی جگہ ہے جو ایک اللہ وحدہ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہے شرک و کفر اس کی ضد ہے، وہ عمارت مسجد کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔ عمارت مسجد کا لفظ جو اس آیت میں آیا ہے کہ معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، ایک ظاہری در و دیوار کی تعمیر، دوسرے مسجد کی حفاظت اور صفائی اور ضروریات کا انتظام، تیسری عبادت کے لئے مسجد میں حاضر ہونا، عمرہ کو عمرہ اسی مناسبت سے کہا جاتا ہے کہ اس میں بیت اللہ کی زیارت اور عبادت کے لئے حاضری ہوتی ہے۔ مشرکین مکہ تینوں معنی کے اعتبار سے اپنے آپ کو معمار بیت اللہ اور عمارت مسجد حرام کا ذمہ دار سمجھتے اور اس پر فخر کیا کرتے تھے، ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ مشرکین کو اللہ کی مساجد کی عمارت کا کوئی حق نہیں جبکہ وہ خود اپنے کفر و شرک کے گواہ ہیں، ان لوگوں کے اعمال حبط اور ضائع ہوگئے اور وہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں رہیں گے۔ خود اپنے کفر و شرک کی گواہی کا مطلب یا تو یہ ہے کہ اپنے مشرکانہ افعال و اعمال کے سبب گویا خود اپنے کفر و شرک کی گواہی دے رہے ہیں، اور یا یہ کہ عادة جب کسی نصرانی یا یہودی سے پوچھا جائے کہ تم کون ہو ؟ تو وہ اپنے آپ کو نصرانی یا یہودی کہتا ہے، اسی طرح مجوس اور بت پرست اپنے کافرانہ ناموں ہی سے اپنا تعارف کراتے ہیں، یہی ان کے کفر و شرک کا اعتراف اور شہادت ہے ( ابن کثیر )   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللہِ شٰہِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ بِالْكُفْرِ۝ ٠ ۭ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ۝ ٠ ۚۖ وَفِي النَّارِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ۝ ١٧ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان ... بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ عمر العِمَارَةُ : نقیض الخراب : يقال : عَمَرَ أرضَهُ : يَعْمُرُهَا عِمَارَةً. قال تعالی: وَعِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ [ التوبة/ 19] . يقال : عَمَّرْتُهُ فَعَمَرَ فهو مَعْمُورٌ. قال : وَعَمَرُوها أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوها [ الروم/ 9] ، وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ [ الطور/ 4] ، وأَعْمَرْتُهُ الأرضَ واسْتَعْمَرْتُهُ : إذا فوّضت إليه العِمَارَةُ ، قال : وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيها[هود/ 61] . ( ع م ر ) العمارۃ یہ خراب کی ضد ہے عمر ارضہ یعمرھا عمارۃ اس نے اپنی زمین آباد کی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَعِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ [ التوبة/ 19] اور مسجد محترم ( یعنی خانہ کعبہ ) کو آباد کرنا ۔ کہا جاتا ہے ۔ عمرتہ میں نے اسے آباد کیا ۔ معمر چناچہ وہ آباد ہوگئی اور آباد کی ہوئی جگہ کو معمور کہا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَعَمَرُوها أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوها [ الروم/ 9] اور اس کو اس سے زیادہ آباد کیا تھا جو انہوں نے کیا ۔ وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ [ الطور/ 4] اور آباد کئے ہوئے گھر کی ۔ اعمر تہ الارض واستعمرتہ میں نے اسے آباد کرنے کے لئے زمین دی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيها[هود/ 61] اور اس نے آباد کیا ۔ مَسْجِدُ : موضع الصلاة اعتبارا بالسجود، وقوله : وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن/ 18] ، قيل : عني به الأرض، إذ قد جعلت الأرض کلّها مسجدا وطهورا کما روي في الخبر وقیل : الْمَسَاجِدَ : مواضع السّجود : الجبهة والأنف والیدان والرّکبتان والرّجلان، وقوله : أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل/ 25] أي : يا قوم اسجدوا، وقوله : وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف/ 100] ، أي : متذلّلين، وقیل : کان السّجود علی سبیل الخدمة في ذلک الوقت سائغا، وقول الشاعر : وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِعنی بها دراهم عليها صورة ملک سجدوا له . المسجد ( ظرف ) کے معنی جائے نماز کے ہیں اور آیت وَأَنَّ الْمَساجِدَ لِلَّهِ [ الجن/ 18] اور مسجدیں تو خدا ہی ( کی عبادت کے لئے ہیں ) میں بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے روئے زمین مراد ہے کیونکہ آنحضرت کے لئے تمام زمین کو مسجد اور طھور بنایا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں مروی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ مساجد سے اعضاء سجود یعنی پیشانی ناک دونوں ہاتھ دونوں زانوں اور دونوں پاؤں مراد ہیں اور آیت : ۔ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ [ النمل/ 25]( اور نہیں سمجھتے ) کہ اللہ کو ۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کیوں نہ کریں ۔ میں لا زائدہ ہے اور معنی یہ ہیں کہ میری قوم اللہ ہی کو سجدہ کرو ۔ اور آیت : ۔ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّداً [يوسف/ 100] اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے ۔ میں اظہار عاجزی مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ مراد سجدہ خدمت ہے جو اس وقت جائز تھا اور شعر ( الکامل ) وافی بها لدراهم الْإِسْجَادِمیں شاعر نے وہ دراھم مراد لئے ہیں جن پر بادشاہ کی تصویر ہوتی تھی اور لوگ ان کے سامنے سجدہ کرتے تھے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ حبط وحَبْط العمل علی أضرب : أحدها : أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] والثاني : أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي : «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» . والثالث : أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان . وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات . ( ح ب ط ) الحبط حبط عمل کی تین صورتیں ہیں ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔ ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مساجد اللہ پر تولیت صرف مسلمانوں کی ہو قول باری ہے (ما کان للمشرکین ان یعمروا مساجد اللہ۔ مشرکین کا یہ کام نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور اور خادم بنیں) عمارۃ المسجد کے دو معنی ہیں۔ اول مسجد کی زیارت اور اس میں موجودگی یعنی اسے آباد کرنا، دوم مسجد کی تعمیر اور اس کے شکستہ حصوں کی مرمت و تجدید۔ ... اس لئے کہ جب کوئی زیارت کرے تو کہا جاتا ہے۔ اعتمر فلان (فلاں نے زیارت کی) اسی سے عمرہ کا لفظ ماخوذ ہے اس میں بیت اللہ کی زیارت ہوتی ہے۔ جب کوئی شخص بکثرت مساجد میں آتا جاتا ہو اور وہاں وقت گزارتا ہو تو کہا جاتا ہے ’ دفلان من عمار المساجد “ (فلاں شخص مساجد کو آباد رکھنے والوں میں سے ہے) اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کی مجلس میں اکثر آئے جائے تو کہا جاتا ہے ” فلان یعمر مجلس فلان “ (فلاں شخص فلاں کی مجلس آباد رکھتا ہے ) اس بنا پر آیت درج ذیل دو باتوں کی مقتضی ہے، کافروں کو مساجد میں داخل ہونے سے روک دیا جائے اور مساجد یک تعمیر، ان کی دیکھ بھال نیز ان کی تولیت کی انہیں اجازت نہ دی جائے اس لئے کہ آیت کے الفاظ ان دونوں باتوں پر مشتمل ہیں۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧) شرک کرنے والوں کی یہ لیاقت نہیں، کیونکہ وہ خود اپنے اوپر کفر کا اقرار کرتے ہیں ان کے زمانہ کفر کی تمام نیکیاں برباد ہوگئیں ان لوگوں کو دوزخ میں نہ موت آئے گی اور نہ یہ وہاں سے باہر نکالے جائیں گے ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧ (مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ شٰہِدِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ بالْکُفْرِ ط) یہ مساجد تو اللہ کے گھر ہیں ‘ یہ کعبہ اللہ کا گھر اور توحید کا مرکز ہے ‘ جبکہ قریش علی اعلان کفر پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اللہ کے گھر کے متولی بھی بنے بیٹھے ہیں۔ ایسا کیونکر ممکن ہے ؟ اللہ...  کے ان دشمنوں کا اس کی مساجد کے اوپر کوئی حق کیسے ہوسکتا ہے ؟ (اُولٰٓءِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْج وَفِی النَّارِ ہُمْ خٰلِدُوْنَ ) بیت اللہ کی دیکھ بھال اور حاجیوں کی خدمت جیسے وہ اعمال جن پر مشرکین مکہ پھولے نہیں سماتے ‘ ایمان کے بغیر اللہ کے نزدیک ان کے ان اعمال کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان کے کفر کے سبب اللہ نے ان کے تمام اعمال ضائع کردیے ہیں۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :19 یعنی جو مساجد خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنی ہوں ان کے متولی ، مجاور ، خادم اور آباد کار بننے کے لیے وہ لوگ کسی طرح موزوں نہیں ہو سکتے جو خدا کے ساتھ خداوندی کی صفات ، حقوق اور اختیارات میں دوسروں کو شریک کرتے ہوں ۔ پھر جبکہ وہ خود بھی توحید کی دعوت قبول کرنے سے...  انکار کرچکے ہوں اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہو کہ ہم اپنی بندگی و عبادت کو ایک خدا کے لیے مخصوص کر دینا قبول نہیں کریں گے تو آخر انہیں کیا حق ہے کہ کسی ایسی عبادت گاہ کے متولی بنے رہیں جو صرف خد اکی عبادت کے لیے بنائی گئی تھی ۔ یہاں اگرچہ بات عام کہی گئی ہے اور اپنی حقیقت کے لحاظ سے یہ عام ہے بھی لیکن خاص طور پر یہاں اس کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجد حرام پر سے مشرکین کی تولیت کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس پر ہمیشہ کے لیے اہل توحید کی تولیت قائم کر دی جائے ۔ سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :20 یعنی جو تھوڑی بہت واقعی خدمت انہوں نے بیت اللہ کی انجام دی وہ بھی اس وجہ سے ضائع ہوگئی کہ یہ لوگ اس کے ساتھ شرک اور جاہلانہ طریقوں کی آمیزش کرتے رہے ۔ ان کی تھوڑی بھلائی کو ان کی بہت بڑی برائی کھا گئ ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: مشرکین مکہ اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ وہ مسجد حرام کے پاسبان ہیں، اس کی خدمت، دیکھ بھال اور تعمیر جیسے نیک انجام دیتے ہیں، اس لئے ان کو مسلمانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ اس آیت نے ان کے اس زعم باطل کی تردید فرمائی ہے، اور وہ اس طرح کہ مسجد حرام یا کسی بھی مسجد کی خدمت یقینا بڑی عبادت ہے، بشرطیکہ و... ہ ایمان کے ساتھ ہو، کیونکہ مسجد کا اصل مقصد اﷲ تعالیٰ کی ایسی عبادت ہے جس میں اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ اگر یہ بنیادی مقصد ہی مفقود ہو تو مسجد کی خدمت کا کیا فائدہ؟ لہٰذا کفر وشرک کے ساتھ کوئی بھی شخص مسجد کا پاسبان بننے کا اہل نہیں ہے۔ چنانچہ آگے آیت نمبر ۲۸ میں مشرکین کو یہ حکم سنادیا گیا ہے کہ اب وہ ان کاموں کے لئے مسجد حرام کے قریب بھی نہیں آسکیں گے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧۔ ٢٢۔ صحیح مسلم ابوداؤد صحیح ابن حبان تفسیر ابن ابی حاتم میں جو شان نزول ان آیتوں کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ بدر کی لڑائی میں قریش کے ستر آدمی جو گرفتار ہوئے جن میں حضرت عباس (رض) بھی تھے تو مسلمانوں نے ان ستر آدمیوں کے روبرو بت پرستی اور شرک کی مذمت بیان کی یہ مذمت سن کر حضرت عباس (رض)...  نے کہا کہ ہم بھی مکہ میں اچھے کاموں میں لگے ہوئے تھے مسجد حرام کو آباد رکھتے تھے حاجیوں کو پانی پلاتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں نازل فرمائیں اور فرما دیا کہ بغیر خالص السلام کے یہ اچھے کام اللہ کے نزدیک کچھ قبول نہیں اس سے معلوم ہوا بغیر صفائی عقیدہ کے کوئی ظاہری عمل قبول نہیں ہوتا۔ یہ اچھے کام اللہ کے نزدیک کچھ قبول نہیں اس سے معلوم ہوا بغیر صفائی عقیدہ کے کوئی ظاہری عمل قبول نہیں ہوتا۔ مسند امام احمد صحیح مسلم اور ابن ماجہ میں ابوہریرہ (رض) اور بریدہ (رض) کی روایتیں ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ ایک صحابی کا اونٹ جاتا رہا تھا اور وہ صحابی اپنے اونٹ کو ڈھونڈ نے کے طور پر اپنے اونٹ کو آواز دے رہے تھے اللہ کے رسول نے ان کو منع کیا اور فرمایا کہ مسجدیں ایسے کاموں کے لئے نہیں بنی ہیں بلکہ مسجدیں تو خالص اللہ کی عبادت کے لئے بنی ہیں اور صحابہ کو مخاطب کر کے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ آئندہ جو شخص اس طرح مسجد میں اونٹ کو آواز دیتا ہوا اور بلاتا ہوا نظر آوے تو اس کے حق میں یہ بددعا کرنی چاہئے کہ اس کا کھویا ہوا اونٹ کبھی نہ ملے۔ ان حدیثوں کو آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ شریعت الٰہی کے موافق تو مسجد میں کھوئے ہوئے اونٹ کا بھی پکارنا منع ہے یہ بت پرست لوگ مسجد حرام میں طواف کے وقت اللہ کے نام کے ساتھ بتوں کو پکارتے ایسے لوگوں سے اللہ کی مسجدیں کب آباد ہوسکتی ہیں اللہ کی مسجدیں تو ایسے لوگوں سے آباد ہوسکتی ہیں جو خالص دل سے اللہ کی ہر طرح کی عبادت کرتے ہیں اور یہ بت پرست لوگ حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد حرام میں آنے جانے کہ اللہ کی وحدانیت اور حشر پر ایمان لانے کے اور دین کی لڑائی کے برابر جو سمجھتے ہیں یہ ان کی بےانصافی ہے کیونکہ ہر عبادت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے صحیح طور پر اپنے معبود کو پہچان لیوے بت پرستی کے سبب سے ان لوگوں میں جب یہ بات نہیں ہے تو اللہ کے نزدیک نہ یہ لوگ اللہ کے پہچاننے والوں کے برابر ہوسکتے ہیں نہ ان کی کوئی عبادت خدا شناس لوگوں کی عبادت کے برابر ہوسکتی ہے اس لئے اللہ کی بارگاہ میں تو انہی لوگوں کے نیک کاموں کے بڑے بڑے اجر ہیں جو اللہ کو معبود حقیقی جانتے ہیں اور خالص دل سے اسی کی ہر طرح کی عبادت کرتے ہیں جن کی عبادت میں شرک یا دنیا کے دکھاوے کا کچھ لگاؤ ہے ان کی عبادت رائگاں ہے مسند امام احمد اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس شخص نے کسی نیک عمل میں سوا اللہ کے کسی دوسرے کو شریک کیا اللہ کی بارگاہ میں ایسے عمل کا ہرگز کچھ اجر نہیں ہے کیونکہ شرک اللہ تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے ان آیتوں میں شرک کے سبب سے نیک عملوں کے رائگاں اور خراب ہوجانے کا جو ذکر ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:17) ما کان للمشرکین۔ مشرکوں کو یہ روا نہیں۔ ان کو یہ حو نہیں پہنچتا۔ ان کے لئے یہ جائز نہیں۔ ان کا یہ کام نہیں۔ ان تعمروا۔ مضارع منصوب بوجہ عمل ان جمع مذکر غائب۔ عمران مصدر (باب نصر) عمر مادہ۔ وہ آباد کریں۔ (آباد کرنے والوں میں وہاں جاکر نماز پڑھنے والے۔ عبادت کرنے والے متولی۔ مجاور۔ خادم سب شامل...  ہیں۔ مسجد اللہ۔ مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول یعمروا کا۔ اللہ کی مسجدیں۔ اگرچہ یہ حکم عام ہے اور اس کا اطلاق تمام مساجد پر ہوسکتا ہے لیکن یہاں مراد مسجد حرام ہے جس میں کعبہ شریف واقع ہے ۔ (یعنی مشرکین مسجد حرام اور کعبہ مکرمہ کے متولی اور مجاور۔ خادم وغیرہ نہیں بن سکتے اور نہ ہی وہ اس میں اب عبادت کرسکتے ہیں) ۔ شاھدین۔ گواہ ۔ ماننے والے۔ شہادت دینے والے۔ شھادۃ اور شھود سے اسم مذکر شاہد واحد واؤ سے حال ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے :۔ ما کان للمشرکین ان یعمروا مسجد اللہ وھم شاھدون علی انفسھم بالکفر۔ وھم حذف ہوگیا اور شھدین (بحالت نصب) ہوگیا۔ حبطت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ وہ اکارت گئے۔ ضائع ہوگئے حیط مصدر۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یا ایسے کام کرتے ہیں جن سے ان کا مشرک ہونا صاف معلوم ہوجاتا ہو۔ جیسے بتوں یا قبروں یا ستاروں کی پوجا کرنا یا زبان ایسی باتیں نکالتے ہوں جو صریحا شرک ہیں جیسے قریش جب تلبیہ کرتے تو یوں کہتے : لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وما ملک ( اللہ ہم حاضر ہیں تیرا کوئی شریک نہیں، مگر وہ شریک کا تو م... الک ہے اور وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے۔ ( وحیدی) مطلب یہ ہے کہ مسجدیں جو اللہ تعالیٰ کے نام پر اراسی کی عبادت کے لیے بنی ہیں مشرکین کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ انہیں آباد رکھیں ج اور ان کے متولی یا خادم بن کر ان پر اجارہ داری قائم کریں، یہ حکم اگرچہ تمام مساجد کے متعلق ہے مگر یہاں مسجد حرام مراد ہے جو اس وقت مشرکین کے قبضہ میں تھی۔ یعنی مسلمانوں کو چاہیئے کہ اس پر سے ان کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے کوئی کسر اٹھانہ رکھیں۔2 یعنی انہوں نے اگر کچھ نیک کام کئے بھی ہیں جیسے مسجد حرام اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ تو ان کے شرک کی وجہ سے وہ سب اکارت گئے۔ ( ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ١٧ تا ٢٤ اسرار و معارف فتح مکہ کے بعد اگر چہ بیت اللہ کو بتوں سے پاک کردیا گیا تھا مگر مشرکین اپنی رسومات تو اپنے ہی طور پر ادا کرتے تھے اور یہ ضروری تھا کہ بیت اللہ کو ان خرافات سے بھی پاک کیا جاتا مگر اس میں رکاوٹ یہ تھی کہ بعض قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے معادہ صلح کی مدت باقی تھی اور انھوں نے...  عہد شکنی بھی نہ کی تھی لہٰذا ایک سال تک مہلت دی گئی اس میں وہ مدت بھی گزرگئی اور کوئی نیا معاہدہ نہ کیا گیا بلکہ ٩ ھجری؁ کے حج میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان کرادیا کہ آئندہ کوئی مشرک بیت اللہ کی حدود میں داخل نہ ہوگا اور نہ کافر انہ رسوم ادا کرسکے گا۔ مشرکین اپنے زعم باطل میں بتوں کی پوجا اور عمارت کی تعمیر یاد دیکھ بھال کو بیت اللہ کی آبادی اور رونق سے تعبیر کرکے اس پر فخر کرتے تھے حتی کہ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) ہی کی روایت ہے کہ جب حضرت عباس (رض) بدر میں اسیر ہوئے تو انھیں شرک پر قائم رہنے پر عاردلائی گئی تو انھوں نے جواب دیا کہ تم لوگ ہماری برائیاں شمار کرتے ہو مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ہم بیت اللہ کو آباد رکھنے کے لئے کتنا اہتمام کیا اور وہاں آنے والوں کی کس قدر خدمت اور دیکھ بھال کرتے ہیں ۔ تو ارشاد ہوا کہ مساجد کی آبادی کا کفار ومشرکین کو کوئی حق نہیں اور جو افعال محض رسومات کے طور پر کئے جاتے ہیں وہ آبادی میں شمار بھی نہیں ہوسکتے کہ اللہ نے ان کے کرنے کا حکم نہیں دیا نہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہیں رہی درد دیوار کی تعمیر اور حفاظت وغیرہ تو یہ کام اگر چہ بجائے خود نیک ہے لیکن کافر ومشرک کو تو اس کا بھی کوئی اجرنہ ملے گا کہ نیکی کی بنیاد بھی ایمان ہے اور اللہ کا حکم جان کر کسی کام کو کرنا آخرت میں اجر کا سبب بنتا ہے جو ان کے ہاں مقصود ہے لہٰذا ان کے یہ اعمال بھی ضائع گئے ” یعمروا “ سے مراد ہر طرح کی آبادی اور عبادت کے لئے حاضری ہے اسی لئے ایسی حاضری کو عمرہ کہا جاتا ہے لہٰذا جس شخص کے عقائدواعمال کافرانہ ہوں وہ تو ہمیشہ کے لئے آگ میں جھونکاجائے گا ۔ مساجد عبادت کے لئے ہیں رسومات کے لئے نہیں یہاں یہ بات بھی ثابت ہے کہ ایسے اعمال جن کا ثبوت سنت میں نہیں اور محض رسومات کا درجہ رکھتے ہیں مساجد میں ان کا کرنا سخت منع ہے بلکہ کافروں کی مشابہت ہے آجکل ہر مسجد میں کوئی نہ کوئی نئی رسم دیکھنے میں آتی ہے اس سے احتیاط ضروری ہے ۔ پھر مساجد کی آبادی کا مثبت پہلوارشاد فرمایا کہ مساجد کو آباد کرنا ایماندار لوگوں کا کام ہے جن کا اللہ پر یوم آخرت پر ایمان ہو اور ان کے اعمال ان کے مومن ہونے کی گواہی دیں مثلا وہ نماز قائم کرنے والے ہوں اور زکٰوۃ ادا کرنے والے یعنی اپنا وقت اپنی طاقت اور اپنا مال اللہ کے حکم کے مطابق صرف کرنے والے ہون نیز صرف اللہ سے ڈرنے والے ہوں محض دنیا کے نقصان کے اندیشوں میں مبتلا ہو کر اللہ کی عبادت چھوڑ دینے والے نہ ہو تو ایسے لوگوں سے امید کی جاسکتی ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے ۔ کافر کو متولی مسجد بنانایا اس کا چندہ یہاں یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ کافر کو مسجد کا متولی بنانا جائز نہیں نہ ہی کفار ومشرکین کا چندہ تعمیر مسجد میں لگانا جائز ہے ۔ ہاں ! اگر کسی کافر ومشرک نے مسجد بنادی یا چندہ دیا تو اس کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ اس کے باعث کوئی نقصان نہ ہو اور وہ مسلمانوں پر احسان نہ حبتلائے یا امور مسجد میں دخل اندازی نہ کرے اور اس کے باو جو دبھی کافر کو ثواب نہ ہوگا ۔ واللہ اعلم ۔ عمارت مسجد عمارت مسجد میں تعمیر ، صفائی حفاظت اور ضروریات کے اہتمام کے ساتھ دینی پڑھنے ، یا تلاوت کرنے عبادت کرنے یا ذکر اللہ کے لئے مساجد میں حاضری جملہ امور شامل ہیں اور تفسیر مظہری کے مطابق ایسے امور جو مسجد میں جائز نہیں ان کاروکنا بھی عمارت مسجد میں شامل ہے مثلا مال دنیا کے لئے لوگوں سے سوال کرنا یا گمشدہ چیزوں کی تلاش کے اعلانات یا خریدو فروخت یا جھگڑا اور شوروشغب اور اسی طرح فضول قسم کے اشعار گانا وغیرہ ذالک من الخرافات ارشاد ہوا کیا تم نے حاجیوں کی خدمت اور مسجد حرام کو آبادرکھنے کی کوششوں کو ایمان باللہ اور آخرت پہ یقین نیز اللہ کی راہ میں جہاد کے ہم پلہ سمجھ لیا ہے ؟ ہرگز نہیں ! جو لوگ مسجدیں آباد کریں بیشک مسجد حرام کی آبادی کا اہتمام کریں اور حاجیوں کو پانی پلانے کا اہتمام کریں وہ ہر گزان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو عملا جہاد میں شریک ہوتے ہیں۔ عبادات اور جہاد مفسرین کرام کے مطابق مشرکین کی بات کا جواب تو پہلے بھی ارشاد ہوچکا ہے اور اس اگر ایمان نصیب نہ ہو تو اس کی کوئی قدروقیمت نہیں کہ ایمان ہی اعمال کی روح ہے جسے اللہ کریم اور آخرت پر ایمان نصیب ہی نہیں وہ بھلا اللہ کی خوشنودی اور آخرت کے اجر کی امید پر کام کیسے کرسکتا ہے اور جب کسی کام میں یہ دونوں باتیں نہ پائی جائیں تو وہ نیکی نہیں کہلائے گا یعنی ایساعمل جو ابدی اور اخروی زندگی میں نفع پہنچائے ۔ اس کے باوجود بھی قرآن حکیم سے ثابت ہے کہ کافر نیکی بھی بالکل بےاثر نہیں رہتی اسے اس کا بدلہ دنیا کی زندگی میں مل جاتا ہے اور ان مسلمانوں کو تنبیہ فرمادی گئی ہے جو محض عبادات ہی پہ سارا زور صرف کردیتے ہیں اور غلبہ اسلامی کے لئے کوشش نہیں کرتے اگرچہ عبادات بہت فضیلت رکھتی ہیں مگر عبادات ہی کے قیام کے لئے مساجدہی کی آبادی کے لئے جہاد کی ضرورت ہے تا کہ اسلام غالب اور حاکم ہو کر رہے اگر ان کوششوں میں کوئی شریک نہیں تو بیشک وہ عمر عزیز کو مسجد الحرام میں عبادت کرنے اور حاجیوں کی خدمت کرنے میں بسر کردے ہرگز ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتا جو میدان جہاد میں دادشجاعت دیتے ہیں یا میدان عمل میں غلبہ اسلام کے لئے کوشش کرتے ہیں ۔ ذکر اللہ اور جہاد حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) نے تفسیر مظہری میں بحث فرمائی ہے کہ عمارت مسجد سے مسجد کے ظاہری انتظامات مراد ہوں تو جہاد کی فضیلت مسلم ہے لیکن عمارت مسجد یا مسجد کی آبادی سے مراد اگر ذکر اللہ ہو تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد کے مطابق ذکر اللہ جہاد سے افضل ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھیں ایسا عمل بتلادوں جو تمام اعمال سے بہتر سب سے افضل اور درجات کو بلند کرنے والا اور اللہ کی راہ میں سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہو اور اس سے بھی افضل ہو کہ تم جہاد میں دشمن سے مقابلہ کرو ، اور مارو اور مارے جاؤ ۔ تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ ضرور فرمائیے تو ارشاد ہوا وہ عمل ذکر اللہ ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذکر اللہ جہاد سے افضل ہے ۔ یہ جس حدیث کا مفہوم بیان ہوا ہے ۔ یہ مسنداحمد ترمذی اور ابن ماجہ میں مذکور ہے لہٰذا فرماتے ہیں کہ مشرکین کا فخر مسجد میں ذکر اللہ کرنے پر نہ تھا ، ظاہری آبادی مراد تھی لہٰذ جہاد کو افضل قرار دیا گیا ۔ مگر حق یہ ہے کہ ذکر اللہ جس طرح مسجد میں ضروری ہے ویسے ہی جہاد میں کسی کافر طاقت سے مقابلہ ہو تو جم کر لڑو اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ قلب سلیم دراصل ذکر کثیر ذکر قلبی ہی ہے اور جب یہ نصیب ہوتا ہے تو دل ہر دھڑکن میں کئی بار اللہ اس کی فضیلت میں کلام نہیں ۔ ذکر لسانی یا عملی عبادات تو فوت بھی ہوسکتی ہیں جیسے غزوہ خندق میں حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار نمازیں فوت ہوئیں مگر قلب اطہر اور وجود عالی کا ذکر تو کسی حال میں منقطع نہ ہوا نیز حالات اور ضرورت کے اعتبار سے اعمال کی فضیلت تبدیل ہوسکتی ہے جیسے اشدضرورت میں سب کچھ چھوڑ کر حتی کہ نماز قضا ہوسکتی ہے مگر جہاد میں سستی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ لیکن ذکر خفی یاقلبی عمل ہی عظیم الشان ہے کہ کوئی بھی مصرو فیت اسے روک نہیں سکتی لہٰذ ایہ سب سے افضل ہے کہ خلوص فی العبادات بھی اسی کا پھل ہے اور خلوص فی الجہاد بھی اسی کا ثمر ۔ اور یہ سب باتیں روز روشن کی طرح واضح ہیں مگر بدکاریا نور ایمان سے محروم لوگوں کو اللہ کریم سمجھنے کی استعداد سے بھی محروم فرمادیتے ہیں اور گناہ سے عقل بھی زنگ آلو د ہوجاتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قرآن کے مثالی انسان اور ان کے درجات کا تذکرہ بلاشبہ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا ایمان سے محروم رہنے والوں سے تو ان کا درجہ بہت بلند ہو ہی گیا مگر جن لوگوں نے ایمان قبول کرکے عمارت مسجد اور حاجیوں کی خدمت کافریضہ پورے خلوص سے نبھایا یہ گھروں کو قربان کرکے ہجرت کرنے والے اور اپنے مال اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ان سے بھی بڑھ گئے اور ان مہاجرین ومجاہد ین کا درجہ اللہ کریم کے حضور بہت بڑا ہے اور پورے طور پر کامیابی انہی کو نصیب ہوئی ۔ اللہ کریم انھیں اپنی رحمت کی نوید سناتے ہیں کہ انھوں نے ایمان و عبادات کے ساتھ میدان عمل میں اپنی جان لڑادی اگر تبقا ضائے بشریت کوئی لغزش بھی ہوجائے یا کسی طرح کی کمی رہ جائے تو اللہ کی رحمت اس کا مداواکردے گی نیز انھیں اپنی رضا کی بشارت دیتا ہے اور اپنی جنت ان پر نچھ اور کرتا ہے جس میں بیحد و حساب نعمتیں ہوں گی اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے نہ نعمتوں میں کمی آئے گی اور نہ ان کی مدت قیام کبھی ختم ہوگی ۔ یاد رہے ! قرآن حکیم کے مثالی مسلمان جن کے درجات کا ذکر فرمایا جارہا ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور وہی لوگ ہمیشہ کے لئے معیار قرار دیئے گئے ہیں ۔ تعلقات کی نوعیت اے ایمان والو ! تمہیں ایسے لوگوں سے کوئی واسطہ نہ رکھنا ہوگا جو اسلام کے مقابلہ میں کفر سے محبت رکھتے ہوں خواہ وہ تمہارے والدین ہوں یا بھائی کہ جسم کا رشتہ محض بقائے نسل اور دنیا کی ضرورت پوری کرنے کا باعث ہے اور ایمان کا رشتہ ہی حقیقی رشتہ ہے جس پر دائمی اور اخروی زندگی کی کامیابی کا مدار ہے ۔ بیشک والدین کے ساتھ محبت حسن سلوک اور ان کی خدمت بہت بڑا کام ہے اسی طرح بھائیوں کے حقوق ہیں لیکن اگر اسلام کی محبت اور ان کی محبت میں ٹکراؤ آجائے یا وہ کفر پر مصر ہوں تو پھر دین کا رشتہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت قائم رہے گی اور ان کا تعلق ختم ہوگا اگر کوئی ا اس کے باوجود بھی ان سے تعلق رکھے گا توبہت بڑا نافرمان شمار ہوگا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عملی طور پر یہ ثابت کردیا کہ جنہوں نے اسلام قبول کیا وہ انھیں محبوب ہوگئے اور جو کبھی محبوب تھے عزیز رشتہ دار بھائی اور بیٹے تھے مگر جب اسلام کے مقابل بدرو احد میں آئے تو ان کی تلواروں کو اپنی تلواروں پہ روکا اور رہتی دنیا تک تعلقات کی نوعیت کی مثال قائم کردی ۔ اللہ کریم ہمیں ان کے مبارک نقوش پاپہ چلنے کی سعادت بخشے ! آمین۔ ایک فیصلہ کن انداز میں ارشاد ہوا کہ سب لوگوں کو بتادیجئے کہ اگر والدین بیٹے بھائی یا بیبیاں یا تمہارے اقارب اور مال و دولت یا وہ کاروبار جس کے بند ہونے کا ڈر ہو یا پسندیدہ مکان تمہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ محبوب ہوں یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے میں رکاوٹ بنتے ہوں تو عذاب الٰہی کا انتظار کرو کہ ایسے بدکار لوگ کبھی منزل کو نہیں پاسکتے اپنے نزول کے اعتبار سے آیہ کریمہ کا خطاب ان لوگوں سے ہے ۔ محبت الٰہیہ تمام محبتوں پہ غالب ہونی چاہیے جو باو جود قدرت رکھنے کے محض تعلقات یا مالی نقصان سے ڈرکر ہجرت نہ کریں مگر اس کے عموم میں ہمیشہ کے لئے سب لوگ شامل ہیں اور اس دور میں باوجود طاقت کے اگر کوئی ہجرت نہ کرتا تو مسلمان شمارہی نہ ہوتا تھا آج بھی ایسی سرزمین جہاں فسق وفجور کا غلبہ ہو چھوڑ دینے کا حکم ہے سوائے اس کے کہ آدمی میں ترک وطن کی یا اس سرزمین سے نکلنے کی طاقت ہی نہ ہو۔ طلب زر میں مغرب کا سفر جو لوگ محض دولت کمانے کے لئے مسلمان معاشرہ چھوڑ کرمغرب کے کافر انہ اور انتہائی فحش معاشرے میں جانا پسند کرتے ہیں وہ بہت بڑا گناہ کرتے ہیں اور اکثر عذاب الٰہی کو دنیا میں بھی دیکھ کر ہی مرتے ہیں اور آخرت بھی تباہ کربیٹھتے ہیں ۔ حق یہ ہے کہ بدکاروں سے تعلق ختم کرکے اور ایسے معاشرے کو ترک کرکے نیک لوگوں میں جابسنا آج بھی فرض ہے اور ہمیشہ رہے گا سوائے ان لوگوں کے جو وہاں دینی کام کی غرض سے یاسر کاری فرائض کی ادائیگی کے لئے جائیں وہ بھی ایسے لوگ ہونے چاہیں جو وہاں جاکر اپنا رنگ قائم رکھیں ان کے رنگ میں نہ رنگ جائیں ۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ ایسے معاشرے میں پیدا ہونے والا اگر نور ایمان پالے تو ہر طرح کی فطری محبت کو قرآن کرکے عقلی اور شعوری محبت جو وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قائم کرتا ہے کا دم بھرے اور ایسے لوگوں میں جاب سے جو دین دار ہوں نیز عملی زندگی میں نفاذ اسلام اور ردکفر کے لئے جہاد کرے ورنہ ایمان بچانا مشکل ہوجائیگا ۔ اثرمحبت جس طرح بدکاروں کے ساتھ رہنے سے ایمان خطرے میں پڑجاتا ہے اسی طرح نیکوکاروں اور مشائخ کی صحبت میں اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے امام بیضاوی (رح) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بہت کم لوگ اس وعید سے مستثنی ہوں گے ورنہ بڑے بڑے عابد وزاہد مال و دولت یا عزیز و اقارب کی محبت میں اسیر جہاد سے بیگانہ ہوچکے ہیں ۔ اگر چہ یہاں محبت عقلی مراد ہے اور فطری جذبات اگرچہ اپنا اثررکھتے ہوں ، مگر ان محبتوں کو اللہ کے راستے میں حائل نہ ہونے دے تو بھی نہ صرف اس وعید سے بچ جائے گا بلکہ لائق ستائش ہے مگر اس محبت کا حقیقی مقام یہ ہے کہ یہی الفت طبیعت اور مزاج پر بھی غالب آجائے اور باقی سب محبتیں ضرور ہوں مگر اس کے تابع ہو کر ۔ شیخ اور صحبت شیخ کی ضرورت صاحب تفسیر مظہری کے مطابق اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محبت کا یہ درجہ ایک نعمت کبری ہے مگر اس کا حصول انعکاسی طور پر صحبت مشائخ سے ہی ممکن ہے جیسے صحبت رسالت نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہ نعمت بخشی ان کی صحبت نے تابعین کو عطاکی اور آج تک یہ ثابت ہے جو جذبہ دل صحبت شیخ میں انعکا سی طور پر نصیب ہوتا ہے وہ اس کے بغیر ممکن نہیں ۔ اگر بدکار کی صحبت سے منع فرمایا کہ ایمان اور ہدایت کے لئے خطرہ ہے تو یہی مشائخ کی صحبت اختیار کرنے کی دلیل بھی ہے کہ اس میں ایمان کی لذت وحلاوت نصیب ہوتی ہے اور عقلی وشعوری محبت ترقی کرکے مرتبہ عشق پہ فائزہوتی ہے ۔ اکثرمفسرین نے یہاں یہی مسلک اپنایا ہے اور فرمایا کہ مقام خلہ تک رسائی کے لئے خلیل آسا سب کچھ لٹانا پڑے ۔ نیز فرمایا کہ شریعت وسنت کی حفاظت اس میں رکاوٹ ڈالنے والوں سے مقابلہ اور جہاد ہی اس محبت وسرفروشی کانشان ہیں ۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 17 تا 22 ان یعمروا (یہ کہ وہ آباد کریں) شھدین (گواہ ہیں (گواہی دینے والے) حبطت ضائع ہوگئی (ضائے ہوگئے) النار (آگ) لم یخش نہیں ڈرتا (نہیں ڈرا) عسی (شاید کہ، امید ہے کہ) المھتدین (ہدایت پانے والے ) اجعلتم (کیا تم نے بنا لیا ہے سقایۃ (پانی پلانا) عمارۃ (تعمیر کرنا، آباد کرنا، بسانا... ) لایستون (دونوں برابر نہیں ہیں) لایھدی (ہدایت نہیں دیتا ) اعظم (بہت بڑا) الفآئزون (کامیاب ہونے والے) رضوان (خوشنودی) نعیم مقیم (ہمیشہ رہنے والی نعمتیں ) ابداً (ہمیشہ) اجر عظیم (بہت بڑا اجر، بدلہ) تشریح :- آیت نمبر 17 تا 22 فتح مکہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خانہ کعبہ اور مسجد حرام سے بتوں کو ہٹوا دیا تھا۔ اس طرح اللہ کا گھر بتوں سے پاک صاف ہوگیا ، کفار و مشرکین سے ان کے ظلموں کا بدلہ لئے بغیر ان کو عاف معافی دیدی گئی تھی چناچہ مشرکین اب بھی نماز، حج اور طواف اپنے باطل طریقوں پر کرنے کیلئے آزاد تھے۔ جہاں اہل ایمان ان ارکان کو ادا کرتے وہیں کفار و مشرکین اپنے طریقوں سے کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کرتے تھے۔ حج کے عظیم اجتماع میں اگر ایک طرف اہل ایمان ہوتے تو دوسری طرف کفار و مشرکین بھی اپنے طریقے پر حج اور اس کے ارکان کو ادا کرتے تھے۔ فتح مکہ کے اگلے ہی سال حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس بات کا اعلان کرنے کے لئے حضرت ابوبکر صدیق کو حج کے عظیم اجتماع میں اپنی طرف سے بھیج دیا کہ اب آئندہ سال سے عبادت کا کوئی باطل طریقہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جب یہی سورة انفال کی آیات نازل ہوئیں تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی مرتضیٰ کو یہ کہہ کر روانہ کردیا کہ حج کے اجتماع عام میں ان آیات کو پڑھ کر سنا دیا جائے کہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات یہ ہیں کہ آئندہ سال سے حج میں کوئی مشرک و کافر شرکت نہ کرسکے گا اور کسی کو ننگے ہو کر طواف کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ آیت نمبر 17 کے ذریعے یہ اعلان بھی ہوگیا کہ نہ صرف مسجد حرام کی بلکہ کسی مسجد کی بھی کوئی خدمت مشرکین انجام نہ دے سکیں گے۔ آیت نمبر 18 میں یہ بتایا گیا ہے کہ آئندہ سے مساجد کی خدمت صرف وہی لوگ انجام دے سکیں گے جو نماز اور زکوۃ کے نظام کو قائم کریں گے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں گے۔ آیت نمبر 19 کی شان نزول کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ۔ مشرکین مکہ اس بات پر بہت فخر و غرور کیا کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ اور مسجد حرام کے متولی اور اس کی عمارت کی حفاظت و ترقی کے ذمہ دار ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس کا بیان ہے کہ جب ان کے والد اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت عباس جنہوں نے اس وقت تک ایمان قبول نہیں کیا تھا اور غزوہ بدر میں گرفتار کر لئے گئے تھے۔ جب ان کو کفر و شرک میں رہنے سے عار دلائی گئی تو انہوں نے جواب دیا کہ تم لوگ صرف ہماری برائیاں کرتے ہو اور ہماری بھلائیوں کا ذکر نہیں کرتے ہو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ بیت اللہ اور مسجد حرام کو آباد رکھنے اس کا انتظام کرنے اور حجاج کرام کو پانی پلانے جیسی مقدس خدمات کے بھی متولی و منتظم ہیں۔ اس پر قرآن میں آیت نمبر 17 تا 19 نازل ہوئیں جن میں اس بات کو وضاحت سے ارشاد فرما دیا گیا ہے کہ کیا حاجیوں کو پانی پلانا، مسجد حرام کا انتظام کرنا اور دوسری خدمات سر انجام دینا ایمان باللہ ایمان بالآخرۃ اور جہاد فی سبیل اللہ کے برابر ہو سکتی ہیں۔ ہرگز نہیں اللہ کے نزدیک ایسے ایمان لانے والوں اور مجاہدین کا بہت بڑا رتبہ اور مقام ہے اور ان کے لئے جنت کی راحتیں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی، جنت کی دائمی نعمتیں ان کی منتظر ہیں جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور تصور سے بھی زیادہ وہ اجر عظیم کے مستحق ہوں گے۔ ایسے نجات پانے والے اور کفر و شرک میں مبتلا رہ کر اللہ کے گھر کی نگہبانی کا دعویٰ کرنے والے برابر کیسے ہو سکتے ہیں۔ آیت نمبر 18 میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ مسجدوں کو آباد رکھنا اہل ایمان کی ذمہ داری ہے۔ اس میں جو عمارت کا لفظ آیا ہے اس کے کئی معنی ہیں (1) ظاہری در و دیوار کی تعمیر (2) مسجدوں کی حفاظت ، صفائی ستھرائی اور ضروریات کا انتظام کرنا (3) نماز اعتکاف ، تلاوت، حفظ قران درس و تدریس وغیرہ مسجد کے اندر انجام دینا۔ ظاہر ہے یہ سارے کام اب وہی سر انجام دیں گے جو اہل ایمان و اہل توحید ہیں۔ مشرکین کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح یہ مسئلہ بھی واح ہے کہ یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین سے چندہ لے کر مسجدوں کی تعمیر اور اس کا انتظام حرام ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ حرام و حلال کا کوئی تصور نہیں رکھتے۔ ان کے پاس عام طور سے کمائی سود، شراب، زنا کاری اور حرام ذریعوں سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص ان کفار سے چندہ لے کر مسجد تعمیر کرے گا تو نہ صرف اس پر کوئی ثواب نہیں ہوگا بلکہ حرام کمائی سے اللہ کا گھر تعمیر کرنے کا ایسے لوگوں کو عذاب بھی ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ یہاں مسجدوں کی آبادی و تعمیر کیلئے چار چیزوں کو بنیادی طور پر بیان فرمایا گیا ہے۔ (1) ایمان، (2) نماز، (3) زکوۃ (4) جہاد، بین السطور یہ بات بہت واضح طور پر کہی گئی ہے کہ جس شخص میں ان میں سے کسی ایک صفت کی بھی کمی ہوگی وہ مسجدوں کی آبادی میں حصہ نہیں لے سکتا۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ بوجہ اس کے کہ ان کی قبولیت کی شرط نہیں پائی جاتی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشرکین اور کفار کے ساتھ اس لیے بھی قتال کرنے کا حکم ہوا۔ تاکہ ان سے حرم ہمیشہ کے لیے خالی کروالیا جائے۔ سورۃ التوبہ کے تعارف میں عرض کیا تھا کہ اس کی اکثر آیات فتح مکہ کے موقع پر نازل ہوئیں اس لیے قتال فی سبیل اللہ کا حکم دیتے ہوئے مشرکین مکہ کی اس حیثیت کو چیلنج کیا گیا ہے ج... س بناء پر وہ پوری دنیا میں بالخصوص سرزمین عرب میں معزز اور محترم جانے جاتے تھے۔ لوگوں کی نظروں میں یہ اللہ کے گھر کے متولی اور خدمت گار تھے جس وجہ سے ان کا احترام کیا جاتا تھا لوگ سمجھتے کہ ان میں کوئی خاص خوبی نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ انھیں کیونکر اپنے گھر کا متولی اور خدمت گار بناتا۔ اس بنا پر لوگ انھیں مقدس اور محترم سمجھتے تھے اور مکہ والے بھی اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم بیت اللہ اور مسجد حرام کے متولی اور حجاج کرام کے خادم ہیں لہٰذا ہم مسلمانوں سے افضل اور اعلیٰ ہیں۔ اہل مکہ اور لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا ہے کہ مشرکین کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدوں کو آباد کریں کیونکہ ان کا قول و فعل ان پر گواہ ہے کہ وہ مسجد حرام اور بیت اللہ کے مالک یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور شرک کرنے والے ہیں۔ جب کہ بیت اللہ اور مسجد حرام کا مقصد ہی اللہ تعالیٰ کی خالص عبادت کرنا ہے اور اسی مقصد کے لیے ہی مساجد بنائی جاتی ہیں۔ جب کافر اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتا اور مشرک اس کی خالص عبادت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا پھر انھیں یہ حق کیونکر دیا جاسکتا ہے کہ وہ مسجد حرام اور دیگر مساجد کے متولی بن کر رہیں انھیں تو مسجد میں آنے کی بجائے بتوں، مزاروں اور آتش کدوں میں جا کر ہی خوار ہونا چاہیے۔ لہٰذا انھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ مسجد حرام یا کوئی اور مسجد تعمیر کریں اور اس کی تولیت یا خدمت و خطابت کے ذریعے لوگوں سے مراعات اور احترام حاصل کریں۔ ان کے اعمال ضائع ہوئے اور یہ لوگ ہمیشہ کے لیے جہنم رسید ہوں گے۔ لہٰذا مساجد کو وہی لوگ تعمیر کریں اور وہی انھیں آباد کریں جو اللہ اور آخرت پر خالصتاً ایمان رکھتے ہوئے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرنے والے ہیں اگر ایسے لوگوں سے کوئی چوک ہوجائے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی رہنمائی کرے گا غیر اللہ سے ڈرنے سے مراد حقیقی اور دائمی خوف ہے جو صرف مشرک کے دل میں ہوا کرتا ہے کیونکہ مشرک بتوں، مزارات اور یہاں تک کہ درختوں سے ڈرتا اور کانپتا ہے یہی وجہ ہے کہ بیشمار شرک کرنے والے مزارات اور بت خانوں میں لگے ہوئے درختوں سے پتہ توڑنے کی جرأت نہیں کرتے کہ کہیں بت یا قبر والا ناراض نہ ہوجائے ان کے مقابلے میں مواحد صرف اللہ تعالیٰ کا خوف ہی دل میں بٹھائے رکھتا ہے کیونکہ اس کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی نفع دے سکتا ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں ہدایت کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہ ڈرے اگر وہ کسی دوسرے کا خوف اپنے دل میں محسوس کرے گا تو حقیقت سمجھنے کے باوجود اسے اپنانے سے خوف زدہ رہے گا۔ (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِینَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہُ قَالَ لَا یَنْفَعُہٗ إِنَّہٗ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیءَتِی یَوْمَ الدِّینِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الایمان ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! ابن جدعان زمانہء جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا تھا اور مساکین کو کھانا کھلایا کرتا تھا کیا اس کو اس کا کوئی فائدہ ہوگا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں، کیونکہ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ اے میرے رب ! قیامت کے دن میری خطائیں معاف کرنا۔ “ گویا کہ وہ آخرت کا منکر تھا۔ مسائل ١۔ مشرکین کو بیت اللہ میں داخل ہونے کا کوئی حق نہیں۔ ٢۔ مشرک کو کسی مسجد کا متولی نہیں ہونا چاہیے۔ ٣۔ شرک اور کفر سے آدمی کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن مشرک انتہائی ذلیل ہوتا ہے : ١۔ مشرک پلید ہوتا ہے۔ (التوبۃ : ٢٨) ٢۔ مشرکوں کو لائق نہیں کہ مسجد حرام کے قریب آئیں۔ (التوبۃ : ١٧) ٣۔ مشرکوں کے اعمال برباد ہوجائیں گے۔ (الانعام : ٨٨) ٤۔ مشرکوں پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے۔ (الفتح : ٦) ٥۔ مشرک پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ : ٧٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اعلان براءت کے بعد کسی کے لیے اب کوئی حجت باقی نہ رہی کہ کیوں وہ مشرکین کے ساتھ نہ لڑے۔ اب لوگوں کے ذہن میں یہ خلجان بھی نہ رہے کہ مشرکین زیارت حرم سے مھروم ہوں گے الا یہ کہ وہ اب مسجد حرام کی عمارت میں حصہ نہ لے سکیں گے جبکہ جاہلیت میں یہ مشرکین ان کاموں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ اس لیے کہ مشرکین کا ح... ق ہی نہیں ہے کہ وہ مسجدیں تعمیر کریں۔ یہ صرف اہل ایمان کا حق ہے کہ وہ مساجد تعمیر کریں اور ان میں فرائض دینی ادا کریں۔ دور جاہلیت میں تو وہ یہ کام کرتے تھے۔ مسجد حرام کی تعمیر اور حاجیوں کو پانی پلانے کا تو اب اس قاعدہ کلیہ سے مستثنی نہیں کیا جاسکتا۔ ان آیات میں ان خلجانات کو رفع کیا گیا ہے جو بعض مسلمانوں کے دلوں میں تھیں کہ اسی اصول نے ایک نیک کام سے لوگوں کو روک دیا ہے۔ مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ : " مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں در آں حالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت دے رہے ہیں "۔ یہ نہایت ہی مکروہ امر ہے اور اصول فطرت سے متضاد ہے کہ مشرکین مساجد کی تعمیر میں حصہ لیں۔ مساجد تو صرف ذکر الٰہی کے ہیے ہوتی ہیں اور اللہ کے سوا ان میں کسی اور کا نام نہیں لیا جاتا۔ لہذا تعمیر مساجد میں وہ لوگ کیسے حصہ لے سکتے ہیں جن کے دل میں توحید ہی نہ ہو اور وہ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہوں۔ پھر ان کی زندگی بھی شہادت حق کے بجائے شہادت کفر دے رہی ہو اور زندگی کی عملی شہادت ایسی شہادت ہوتی ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کا تو اقرار ہی کرنا پڑتا ہے۔ اُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ ښ وَفِي النَّارِ هُمْ خٰلِدُوْنَ : " ان کے تو سارے اعمال ضاعئ ہوگئے اور جہنم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے "۔ ان کے تو سب اعمال باطل ہیں۔ تعمیر مساجد پر بھی ان کو کوئی اجر ملنے والا نہیں ہے ، کیونکہ انہوں نے عقیدہ توحید قبول کرنے کے بجائے کفر و شرک کو اختیار کیا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مشرکین اس کے اہل نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں معالم التنزیل (ص ٢٧٣ ج ٢) میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت عباس کو قید کرلیا گیا تو مسلمانوں نے عباس کو عار دلائی کہ تم کفر اختیار کیے ہوئے ہو اور اور تمہارے اندر قطع رحمی بھی ہے (کیونکہ رسول اللہ (صلی ال... لہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین نے مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا) اور اس بارے میں حضرت علی نے سخت باتیں کہہ دیں تو اس کے جواب میں عباس نے کہا کہ آپ لوگ ہماری برائیاں تو ذکر کرتے ہیں کیا بات ہے کہ ہماری خوبیاں ذکر نہیں کرتے حضرت علی نے فرمایا کیا تمہارے پاس خوبیاں بھی ہیں ؟ عباس نے کہا کہ ہاں ! ہم مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں اور کعبہ کی دربانی کرتے ہیں اور حجاج کو پانی پلاتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ (مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یَّعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اللّٰہِ ) (آخر تک) نازل فرمائی۔ اور یہ بتادیا کہ مشرکوں کا یہ کام نہیں کہ مسجدوں کو آباد کریں۔ مشرک ہوتے ہوئے مسجد کی آبادی کا کوئی معنی نہیں۔ کعبہ شریف تو شرک کے دشمن حضرات ابراہیم (علیہ السلام) نے بنایا تھا۔ کعبہ اور کعبہ کی مسجد کی بنیاد توحید پر ہے جو لوگ اپنے اقرار و اعمال سے یہ گواہی دے رہے ہیں کہ ہم کافر ہیں یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے دین کو نہیں مانتے ان کا مسجد کو آباد کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کیونکہ وہاں یہ لوگ شرک کرتے ہیں اگر ظاہری کوئی آبادی کردی یعنی اس کے متولی بن کر کچھ در و دیوار کی دیکھ بھال کرلی تو کفر اور شرک جیسی بغاوت کے سامنے یہ بےحقیقت ہے پھر مسجد حرام میں جاتے تھے تو سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے (جیسا کہ سورة انفال کے چوتھے رکوع میں گزر چکا ہے) ایسا آباد کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک آباد کرنے میں شمار نہیں ہے، صاحب معالم التنزیل (ص ٢٧٣ ج ٢) لکھتے ہیں : أی ما ینبغی للمشرکین أن یعمروا مساجد اللہ، اوجب علی المسلمین منعھم من ذلک لأن المساجد انما تعمر لعبادۃ اللہ وحدہ فمن کان کافرا باللہ فلیس من شانہ ان یعمرھا (یعنی اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنا مشرکوں کا کام نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ مشرکوں کو اللہ کے گھر سے روکیں کیونکہ مسجدیں خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت سے آباد ہوتی ہیں جو اللہ کا منکر ہے مسجدوں کو آباد کرنا اس کا کام نہیں ہے) پھر فرمایا (اُولٰٓءِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ) کہ ان کے سب اعمال اکارت چلے گئے (کیونکہ کفر کے ساتھ کوئی بھی عمل اگرچہ بظاہر عبادت ہو آخرت میں کوئی نفع دینے والا نہیں) (وَ فِی النَّارِھُمْ خٰلِدُوْنَ ) (اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15: یہ قتال کے مانع ثانی کا جواب ہے۔ مانع یہ تھا کہ مشرکین بیت اللہ کی تعمیر اور اس قسم کے دوسرے نیک اعمال بجا لاتے ہیں لہذا ان سے قتال کیونکر روا ہے۔ فرمایا مشرکین کا کوئی عمل قبول نہیں۔ کفر و شرک کی حالت میں ان کے تمام نیک اعمال ضائع اور رائیگاں ہیں۔ لہذا ان کے دوسرے شر انگیز اعمال کی وجہ سے ان سے...  جہاد لازم ہے۔ “ اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ الخ ” بیت اللہ کی تعمیر اور دوسرے اعمال صالحہ صرف انہی لوگوں سے قبول کیے جاتے ہیں جو شرک سے توبہ کریں۔ خدائے واحد پر اور آخر پر ایمان لائیں اور تمام اعمال شریعت کے مطابق بجا لائیں۔ “ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ ” اور صرف اللہ سے ڈرے اور معبودان باطلہ سے نہ ڈرے جس طرح مشرکین ڈرتے ہیں۔ “ کانوا یخشون الاصنام و یرجونھا فارید نفی تلک الخشیة عنھم ” (مدارک ج 12 ص 92) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

17 مشرکین کا یہ کام نہیں اور مشرک اس کے اہل نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مساجد کو آباد کریں جبکہ ان کی حالت یہ ہے کہ وہ خود اپنے کردار اور اپنے اعمال سے اپنے اوپر کفر کی شہادت دے رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے تمام اعمال ضائع اور خراب ہوئے اور وہ لوگ ہمیشہ آگ میں رہنے والے ہیں۔ یعنی کفر و شرک کی حالت میں...  جو بھلے کام بھی کئے جائیں ان پر کوئی اجر مرتب نہیں ہوتا بعض لوگ خانۂ کعبہ کی مجاوری پر فخر کرتے تھے یہ ان کا جواب ہے۔  Show more