Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 20

سورة التوبة

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ۙ اَعۡظَمُ دَرَجَۃً عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفَآئِزُوۡنَ ﴿۲۰﴾

The ones who have believed, emigrated and striven in the cause of Allah with their wealth and their lives are greater in rank in the sight of Allah . And it is those who are the attainers [of success].

جو لوگ ایمان لائے ہجرت کی اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وہ اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں اور یہی لوگ مراد پانے والے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Those who believed and emigrated and strove hard and fought in Allah's cause with their wealth and their lives, are far higher in degree with Allah. They are the successful. يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] جہاد کے فضائل کتاب و سنت میں بہت سے مقامات پر مذکور ہیں یہاں ہم صرف دو احادیث پر اکتفا کرتے ہیں۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ کے پاس آیا اور کہنے لگا && مجھے ایسا عمل بتلائیے جو جہاد کے ہم پلہ ہو ؟ && آپ نے فرمایا && میں ایسا کوئی عمل نہیں پاتا۔ && (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب فضل الجھاد والسیر) ٢۔ سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ سے سوال کیا گیا : اللہ کے رسول ! لوگوں میں سب سے افضل کون ہے ؟ && فرمایا && مومن جو اللہ کی راہ میں اپنی جان اور مال سے جہاد کرتا ہو۔ && (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب أفضل الناس مومن۔۔ مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب فضل الجھاد والرباط)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا : ” هَاجَرُوْا “ یعنی اپنا دین اور جان و مال بچانے کے لیے اپنا گھر بار اور رشتہ داروں کو چھوڑا۔ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ : اس آیت سے مہاجرین کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے جن میں ابو بکر، عمر، عثمان، علی، ابو عبیدہ بن جراح، طلحہ، زبیر اور بہت سے دوسرے صحابہ کرام (رض) شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر راضی ہو اور ہمیں ان کے ساتھ اٹھائے۔ قرآن خود ان کے آخرت میں فائز و سرخرو ہونے کی شہادت دے رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ انھیں برا بھلا کہتے اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں وہ خود لعنتی ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Verse 20 enlarges upon the subject initiated with the words: لَا يَسْتَوُونَ (la yastawun: they are not equal) in the previous verse (19) where it was said that the believing Mujahidin and those engaged only in main¬taining the masjid and serving water to pilgrims are not equal. This was enlarged by saying: الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُ‌وا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَ‌جَةً عِندَ اللَّـهِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ ﴿٢٠﴾ (those who believed and emigrated and took up jihad in the way of Allah, with their wealth and lives, are greater in rank in the sight of Allah, and they are the successful ones). The reason is that the Mushriks against them simply had no measure of success what¬soever. As for Muslims in general, they too shared this success in es¬sence, but the success of those identified above had more to it. There-fore, they were the ones whose success was comprehensive.

بیسویں آیت میں اس مضمون کی تفصیل ہے جو پہلی آیت میں لَا يَسْتَوٗنَ کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے یعنی ایمان لانے والے مجاہد اور صرف عمارت مسجد اور سقایہ حجاج کرنے والے اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہیں، اس میں ارشاد فرمایا : (آیت) اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ ۙ اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ ، یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اپنی جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہ اللہ کے نزدیک درجہ میں بڑے ہیں، اور پورے کامیاب یہی لوگ ہیں “ کیونکہ ان کے مقابلہ میں جو مشرک ہیں ان کو تو کامیابی کا کوئی درجہ ہی حاصل نہیں اور جو مسلمان ہیں اگرچہ نفس کامیابی میں وہ بھی شریک ہیں مگر ان کی کامیابی ان سے بڑھی ہوئی ہے اس لئے پورے کا میاب یہی لوگ ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ۝ ٠ ۙ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللہِ۝ ٠ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفَاۗىِٕزُوْنَ۝ ٢٠ هجر والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . ( ھ ج ر ) الھجر المھاجر ۃ کے اصل معی) تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ درج الدّرجة نحو المنزلة، لکن يقال للمنزلة : درجة إذا اعتبرت بالصّعود دون الامتداد علی البسیطة، کدرجة السّطح والسّلّم، ويعبّر بها عن المنزلة الرفیعة : قال تعالی: وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] ( د ر ج ) الدرجۃ : کا لفظ منزلہ ميں اترنے کی جگہ کو درجۃ اس وقت کہتے ہیں جب اس سے صعود یعنی اوپر چڑھتے کا اعتبار کیا جائے ورنہ بسیط جگہ پر امدیاد کے اعتبار سے اسے درجۃ نہیں کہتے جیسا کہ چھت اور سیڑھی کے درجات ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا اطلاق مزدلہ رفیع یعنی بلند مرتبہ پر بھی ہوجاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلِلرِّجالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ [ البقرة/ 228] البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ فوز الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] ، ( ف و ز ) الفوز کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج/ 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب/ 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠) بیشک جو حضرات رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ آگئے اور اطاعت خداوندی میں اپنے مال و دولت خرچ کیے اور جہاد وہ بمقابل اہل سقایہ اور اہل عمارت وغیرہ کے درجہ میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت ہی بڑے ہیں اور ان ہی حضرات نے جنت کے ذریعے کامیابی حاصل کی اور دوزخ سے مکمل نجات حاصل کی ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:20) اعظم درجۃ عند اللہ۔ ای اعظم درجۃ من اہل السقایۃ والعمارۃ عند اللہ۔ یعنی اللہ کے نزدیک ایمان والوں۔ ہجرت کرنے والوں اور اپنے جان و مال سے جہاد کرنے والوں کو درجہ اہل سقاء و اہل عمارت سے بہت بڑا ہے۔ یبشرہم۔ وہ ان کو خوشخبری دیتا ہے تبشیر (تفعیل) سے مضارع واحد مذکر غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ رضوان۔ رضا مندی، خوشنودی۔ مرضی۔ رضا۔ رضی یرضی کا مصدر ہے رضوان اور جنت۔ بوجہ ب حرف جر کے مجرور ہیں فیہا میں ھا ضمیر واحد مؤنث جنت کی طرف راجع ہے۔ نعیم۔ اسم نکرہ۔ نعمت۔ راعت۔ نعمت کثیرہ۔ فی جنت النعیم (156:12) نعمتوں کی بہشت میں اور جنت النعیم (21:8) نعمتوں کے باغ میں ۔ مقیم۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ دوامی۔ لازوال۔ اقامۃ سے۔ نعیم مقیم لازوال دائمی نعمتیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رفاقت میں اپنے گھر بار اور رشتہ داروں کو چھوڑا۔ (وحیدی ) 6 اس آیت میں مہاجرین کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے جن میں سے حضرت ابوبکر (رض) ، عمر (رض) ، عثمان (رض) ، علی (رض) ، ابو عبیدہ (رض) ، بن جراح، طلحہٰ (رض) زبیر (رض) اروبہت سے دوسرے صحابہ کرام شامل ہیں، قرآن خود ان کے آخرت میں فا ئز وسر خرو ہونے کی شہادت دے رہا ہے معلوم ہوا کہ جو لوگ انہیں بر بھلا کہتے اور ان پر لعنت بھیجتے ہیں وہ خود لعنتی اور نامراد ہیں۔ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مسجد حرام کی تعمیر و ترقی اور حجاج کی خدمت کا ایمان اور کردار کے ساتھ موازنہ کرنے کے بعد حقیقی ایمان کے تقاضے بیان کیے گئے ہیں۔ ایمان صرف فکر اور عقیدہ کا نام نہیں یہ اس وقت تک مکمل اور اکمل نہیں ہوتا۔ جب تک اس کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں۔ اس کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس نظریے کی خاطر ہر اس بات اور عمل کو چھوڑ دے جس سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے۔ ہجرت کا حقیقی اور جامع مفہوم بیان کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حقیقی مہاجر وہ ہے کہ جو ہر اس کام کو چھوڑ دے جس سے اللہ نے منع کیا ہے۔ دوسرا مرکزی اور بنیادی تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اس دعوت کے لیے اپنا مال اور جان کھپانے کی کوشش کرے جس کا اس نے کلمہ پڑھ کر اقرار اور اظہار کیا ہے اس کے بارے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا کسی ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل اس راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ اہل علم نے جہاد کی چار اقسام بیان کی ہیں : ١۔ جہاد بالنفس : سب سے پہلے انسان اپنی خواہشات اور جذبات کے خلاف جہاد کرے تاآنکہ اس کا نفس اللہ اور اس کے رسول کی غلامی میں رہنے پر راضی ہوجائے۔ ایک غزوۂ سے واپسی پر آپ نے صحابہ (رض) کو فرمایا کہ جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف آؤ۔ صحابہ نے استفسار کیا کہ جہاد اکبر کیا ہے آپ نے فرمایا اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا۔ ٢۔ جہاد باللسان : نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا۔ یہ وہ جہاد ہے کہ جب تک اس کے تقاضے پورے نہ ہوجائیں اس وقت تک قتال فی سبیل اللہ کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی کے پیش نظر صحابہ (رض) کا معمول تھا کہ جب ایسے لوگوں کے ساتھ ان کا سامنا ہوتا جن تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچی تھی صحابہ قتال فی سبیل اللہ سے پہلے انھیں دو باتوں کی دعوت دیتے تھے۔ اسلام قبول کرو یا جزیہ دینے کے لیے تیار ہوجاؤ جب لوگ انکار کرتے تو پھر ان کے ساتھ قتال فی سبیل اللہ کیا جاتا۔ اس لحاظ سے پہلے جہاد باللسان ہے پھر جہاد بالسیف۔ مکہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ کو جہاد اکبر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی کفار کے خلاف جہاد جاری رکھو۔ یہ بہت بڑا جہاد ہے۔ (الفرقان : ٥٢) اہل علم نے جہاد بالقلم کو بھی اس جہاد میں شامل کیا ہے۔ ٣۔ جہاد بالمال : قرآن مجید میں متعدد مقامات پر جہاد بالمال کا پہلے ذکر کیا گیا ہے کیونکہ مال کے بغیر اسلحہ اور مجاہدین کی ضروریات پوری نہیں ہوسکتیں۔ جہاد فی السیف سے پہلے جہاد بالمال کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ٤۔ جہاد بالسیف : اس سے مراد میدان کار زار میں دشمن کے خلاف برسرپیکار ہونا ہے جو لوگ اس جہاد میں حصہ لیں گے وہ دنیا میں کامیاب اور آخرت میں ان کے رب نے انھیں اپنی رحمت، خوشنودی اور ہمیشہ ہمیش جنت میں داخلے کی بشارت دی ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے اجر عظیم ہوگا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلَاثٌ مِنْ أَصْلِ الْإِیمَانِ الْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَلَا نُکَفِّرُہُ بِذَنْبٍ وَلَا نُخْرِجُہُ مِنْ الْإِسْلَامِ بِعَمَلٍ وَالْجِہَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِی اللّٰہُ إِلٰی أَنْ یُقَاتِلَ آخِرُ أُمَّتِی الدَّجَّالَ لَا یُبْطِلُہُ جَوْرُ جَاءِرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ وَالْإِیمَان بالْأَقْدَارِ ) [ رواہ ابو داؤد : کتاب الجہاد باب فی الغزو مع أئمۃ الجوار ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین چیزیں ایمان کی اصل ہیں 1 جس نے لا الہ الا اللہ کہا اس سے ہاتھ روک لینا۔ 2 کسی کے گناہ کی وجہ سے اسے کافر نہ قرار دینا۔ اس کی عملی غلطی سے دائرہ اسلام سے خارج قرار نہ دینا۔ 3 اور جہاد جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اس وقت سے لے کر میری امت کے دجال سے لڑنے تک جاری رہے گا۔ اسے کسی ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل نہیں روک سکے گا اور ایمان تقدیر کے مطابق ہے۔ “ (عَنْ زَیْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُہَنِیّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ جَہَّزَ غَازِیًا فِی سَبِیل اللّٰہِ فَقَدْ غَزَا وَمَنْ خَلَفَ غَازِیًا فِی أَہْلِہِ فَقَدْ غَزَا) [ رواہ الترمذی : کتاب الجہاد باب فضل من جہز غازیا ] ” حضرت زید بن خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کسی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کا سامان مہیا کیا بلاشبہ اس نے خود جہاد کیا۔ جس نے کسی مجاہد کے گھر کی خیر خواہی کی گویا اس نے بھی جہاد کیا۔ “ مسائل ١۔ ایمان کا تقاضا ہے کہ اللہ کے راستے میں مال اور جان کے ساتھ جہاد کیا جائے۔ ٢۔ مجاہدین دنیا میں کامیاب اور آخرت میں اجر عظیم پائیں گے۔ ٣۔ مجاہدین ہمیشہ ہمیش جنت میں رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن کامیاب ہونے والے لوگ : ١۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں، مومنات سے ہمیشہ کی جنت اور اپنی رضا مندی کا وعدہ فرمایا ہے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ : ٧٢، ٨٩، ١٠٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جنت کے بدلے ان کے مال و جان خرید لیے ہیں، یہ بڑی کامیابی ہے۔ (التوبۃ : ١١١) ٣۔ اے اللہ نیک لوگوں کو برائی سے بچا جو برائی سے بچ گیا اس پر تیرا رحم ہوا۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المومن : ٩) ٤۔ ان کا جہنم کے عذاب سے بچنا اللہ کے فضل سے ہوگا اور یہی کامیابی ہے۔ (الدخان : ٥٧) ٥۔ اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یہ ظاہر کامیابی ہے۔ (الجاثیۃ : ٣٠) ٦۔ مومنوں کے لیے ہمیشہ کی جنت ہے جس میں پاک صاف مکان ہیں۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ (الصف : ١٢) ٧۔ جس کو آگ کے عذاب سے بچا دیا گیا اور جنت کا داخلہ مل گیا وہ کامیاب ہے۔ (آل عمران : ١٨٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

20 ۔ 22: یہ مضمون اب اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ مومنین ، مہاجرین اور مجاہدین بلند مرتبہ لوگ ہیں۔ اللہ کی رحمت اور رضامندی ان کے انتظار میں ہے اور ان کے لیے جنت میں نعیم مقیم ہے۔ اور اس کے علاوہ اجر عظیم بھی ہے۔ اس آیت میں افضل تفضیل کے صیغے استعمال ہوئے ہیں اعظم درجۃ ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں کے درجے اسفل ہیں بلکہ اس سے مطلق فضیلت مراد ہے کیونکہ ان لوگوں کے بالمقابل وہ لوگ جن کے اعمال اکارت گئے اور جہنم میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ لہذا ایسے لوگوں کے درمیان اعمال و درجات کا کوئی تناسب نہیں ہے۔ ایک طرف کافر ہیں اور دوسری جانب مومنین مہاجرین اور مجاہدین ہیں جو اعلی درجوں میں اور دائمی نعمتوں میں ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مومن مہاجرین اور مجاہدین کو بشارت : اس کے بعد ایمان اور ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَجٰھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ ) (جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا درجہ کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک یہ لوگ بہت بڑے ہیں، اور یہ لوگ ہی کامیاب ہیں)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17: یہ ان صحابہ کرام کے لیے بشارت اخروی ہے جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں تن من دھن سے جہاد کیا ان کے حسب ذیل فضائل بیان کیے گئے۔ (1) وہ غیر مہاجرین اور غیر مجاہدین مومنوں سے افضل ہیں۔ (2) وہ آخرت میں کامیاب اور بامراد رہیں گے۔ (3) اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہے۔ (4) اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے جنات نعیم کا فیصلہ فرمادیا ہے جن کی ہر نعمت دائمی اور لازوال ہوگی اور وہ بھی ابد الآباد ان میں رہیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

20 جو لوگ ایمان لائے اور اللہ کے لئے ترکِ وطن کیا اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد بھی کیا تو یہ لوگ درجہ اور مرتبہ کے اعتبار سے خدا کے نزدیک بہت بڑے ہیں اور یہی لوگ اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہونے والے ہیں۔ یعنی مہاجرین اور مجاہدین کا مقابلہ کہاں ہوسکتا ہے۔