Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 37

سورة التوبة

اِنَّمَا النَّسِیۡٓءُ زِیَادَۃٌ فِی الۡکُفۡرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُحِلُّوۡنَہٗ عَامًا وَّ یُحَرِّمُوۡنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِئُوۡا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ فَیُحِلُّوۡا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ؕ زُیِّنَ لَہُمۡ سُوۡٓءُ اَعۡمَالِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿٪۳۷﴾  11

Indeed, the postponing [of restriction within sacred months] is an increase in disbelief by which those who have disbelieved are led [further] astray. They make it lawful one year and unlawful another year to correspond to the number made unlawful by Allah and [thus] make lawful what Allah has made unlawful. Made pleasing to them is the evil of their deeds; and Allah does not guide the disbelieving people.

مہینوں کا آگے پیچھے کر دینا کفر کی زیادتی ہے اس سے وہ لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کافر ہیں ۔ ایک سال تو اسے حلال کر لیتے ہیں اور ایک سال اسی کو حرمت والا کر لیتے ہیں کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں تو موافقت کرلیں پھر اسے حلال بنالیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے انہیں ان کے برے کام بھلے دکھا دیئے گئے ہیں اور قوم کفار کی اللہ رہنمائی نہیں فرماتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Admonishing the Preference of Opinion in a Religious Matter Allah says; إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُواْ يُحِلِّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِوُواْ عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّهُ فَيُحِلُّواْ مَا حَرَّمَ اللّهُ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ The postponing (of a Sacred Month) is indeed an addition to disbelief: thereby the disbelievers are led astray, for they make it lawful one year and forbid it another year in order to adjust the number of months forbidden by Allah, and make such forbidden ones lawful. The evil of their deeds is made fair-seeming to them. And Allah guides not the people who disbelieve. Allah admonishes the idolators for choosing their wicked opinions over Allah's Law. They changed Allah's legislation based upon their vain desires, allowing what Allah prohibited and prohibiting what Allah allowed. They thought that three consecutive sacred months were rather long for them to remain without fighting, for they were full of anger and rage. This is why before Islam they innovated a change in the Sacred Month of Muharram, delaying it to the month of Safar! Therefore, they allowed fighting in the Sacred Month and made the non-sacred month sacred, to make the Sacred Months in a year four, as Allah decided! Ali bin Abi Talhah said that Ibn Abbas commented on Allah's statement, إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ (The postponing (of a Sacred Month) is indeed an addition to disbelief), "Junadah bin Awf bin Umayyah Al-Kinani, known as Abu Thumamah, used to attend the Hajj season every year and declare, `Abu Thumamah is never rejected nor refuted!,' and he used to treat Safar as sacred for people one year (and un-sanctify Muharram) and treat Muharram as sacred another year (and un-sanctify Safar in that year). This is why Allah said, إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ (The postponing (of a Sacred Month) is indeed an addition to disbelief). Allah says, `They allow Muharram one year and make it sacred another year."' Al-Awfi narrated a similar statement from Ibn Abbas. Layth bin Abi Sulaym narrated that Mujahid said, "There was a man from Bani Kinanah who would attend the Hajj season every year riding his donkey. He would proclaim, `O people! I am never rejected, denied or refuted in what I say. We made this coming Muharram sacred, and Safar not!' The following year he would come again and declare the same words then say, `We made this coming Safar sacred and delayed Muharram (revoked its sanctity).' This is the meaning of Allah's statement, لِّيُوَاطِوُواْ عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّهُ (in order to adjust the number of months forbidden by Allah), to four months. Allah says, `They allow what Allah disallowed by delaying the Sacred Month."' The idolators used to allow Muharram one year and sanctify Safar in its place. They would continue the months of the year according to their normal count and names. The next year they would sanctify Muharram and continue the year, Safar, Rabi`, until the end of the year. ... يُحِلِّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِّيُوَاطِوُواْ عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّهُ فَيُحِلُّواْ مَا حَرَّمَ اللّهُ ... They make it lawful one year and forbid it another year in order to adjust the number of months forbidden by Allah, and make such forbidden ones lawful. Therefore, they would still sanctify four months every year, but would one year sanctify the third from the three consecutive Sacred Months, Muharram, and postpone and delay it another year to Safar. In his book of Sirah, Imam Muhammad bin Ishaq presented a very useful beneficial discussion on this matter. He said; "The first to start the practice of overlooking the sanctity of months for the Arabs, thus allowing what Allah sanctified of them and sanctifying what Allah allowed of them, was "Al-Qalammas". He was Hudhayfah bin Abd Fuqaym bin Adi bin Amr bin Thalabah bin Al-Harith bin Malik bin Kinanah bin Khuzaymah bin Mudrikah bin Ilyas bin Mudar bin Nizar bin Madd bin Adnan. His son Abbad maintained this practice, then after him his son Qala bin Abbad did the same, Then his son Umayyah bin Qala, then his son Awf bin Umayyah, then his son Abu Thumamah Junadah bin Awf. He was the last one of his sons (to continue this practice) before Islam. The Arabs used to gather around him when Hajj finished, and he would stand and give them a speech in which he sanctifies Rajab, Dhul-Qadah and Dhul-Hijjah. He would defer the sanctity of Muharram to Safar one year and uphold its sanctity another year, so as to appear upholding the number (of Sacred Months) Allah made sacred. Therefore, he would allow what Allah prohibited and prohibit what Allah allowed." Allah knows best.

احکامات دین میں رد و بدل انتہائی مذموم سوچ ہے مشرکوں کے کفر کی زیادتی بیان ہو رہی ہے کہ وہ کس طرح اپنی فاسد رائے کو اور اپنی ناپاک خواہش کو شریعت ربانی میں داخل کر کے اللہ کے دین کے احکام میں رد و بدل کر دیتے تھے ۔ حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنا لیتے تھے ۔ تین مہینے کی حرمت کو تو ٹھیک رکھا پھر چوتھے مہینے محرم کی حرمت کو اس طرح بدل دیا کہ محرم کو صفر کے مہینے میں کر دیا اور محرم کی حرمت نہ کی ۔ تاکہ بظاہر سال کے چار مہینے کی حرمت بھی پوری ہو جائے اور اصلی حرمت کے مہینے محرم میں لوٹ مار قتل و غارت بھی ہو جائے اور اس پر اپنے قصیدوں میں مبالغہ کرتے تھے اور فخریہ اپنا یہ فعل اچھالتے تھے ۔ ان کا ایک سردار تھا جنادہ بن عمرو بن امیہ کنانی یہ ہر سال حج کو آتا اس کی کنیت ابو ثمامہ تھی یہ منادی کر دیتا کہ نہ تو ابو ثمامہ کے مقابلے میں کوئی آواز اٹھا سکتا ہے نہ اس کی بات میں کوئی عیب جوئی کر سکتا ہے سنو پہلے سال کا صفر مہینہ حلال ہے اور دوسرے سال کا حرام ۔ پس ایک سال کے محرم کی حرمت نہ رکھتے دوسرے سال کے محرم کی حرمت منا لیتے ۔ ان کی اسی زیادتی کفر کا بیان اس آیت میں ہے ۔ یہ شخص اپنے گدھے پر سوار آتا اور جس سال یہ محرم کو حرمت والا بنا دیتا لوگ اس کی حرمت کرتے اور جس سال وہ کہدیتا کہ محرم کو ہم نے ہٹا کر صفر میں اور صفر کو آگے بڑھا کر محرم میں کر دیا ہے اس سال عرب میں اس ماہ محرم کی حرمت کوئی نہ کرتا ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ بنی کنانہ کے اس شخص کو علمس کہا جاتا تھا یہ منادی کر دیتا کہ اس سال محرم کی حرمت نہ منائی جائے اگلے سال محرم اور صفر دونوں کی حرمت رہے گی پس اس کے قول پر جاہلیت کے زمانے میں عمل کر لیا جاتا اور اب حرمت کے اصلی مہینے میں جس میں ایک انسان اپنے باپ کے قاتل کو پا کر بھی اس کی طرف نگاہ بھر کر نہیں دیکھتا تھا اب آزادی سے آپس میں خانہ جنگیاں اور لوٹ مار ہوتی ۔ لیکن یہ قول کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتا کیونکہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ گنتی میں وہ موافقت کرتے تھے اور اس صورت میں گنتی کی موافقت بھی نہیں ہوتی بلکہ ایک سال میں تین مہینے رہ جاتے ہیں اور دوسرے سال میں پانچ ماہ ہو جاتے ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ کی طرف سے تو حج فرض تھا ذی الحجہ کے مہینے میں لیکن مشرک ذی الحجہ کا نام محرم رکھ لیتے پھر برابر گنتی گنتے جاتے اور اس حساب سے جو ذی الحجہ آتا اس میں حج ادا کرتے پھر محرم کے نام سے خاموشی برت لیتے اس کا ذکر ہی نہ کرتے پھر لوٹ کر صفر نام رکھ دیتے پھر رجب کو جمادی الاخر پھر شعبان کو رمضان اور رمضان کو شوال پھر ذوالقعدہ کو شوال ذی الحجہ کو ذی القعدہ اور محرم کو ذی الحجہ کہتے اور اس میں حج کرتے ۔ پھر اس کا اعادہ کرتے اور دو سال تک ہر ایک مہینے میں برابر حج کرتے ۔ جس سال حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حج کیا اس سال مشرکوں کی اس گنتی کے مطابق دوسرے برس کا ذوالقعدہ کا مہینہ تھا ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقعہ پر ٹھیک ذوالحجہ کا مہینہ تھا اور اسی کی طرف آپ نے اپنے خطبے میں اشارہ فرمایا اور ارشاد ہوا کہ زمانہ گھوم پھر کر اسی ہئیت پر آ گیا ہے جس ہئیت پر اس وقت تھا جب زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے بنائے لیکن یہ قول بھی درست نہیں معلوم ہوتا ۔ اس وجہ سے کہ اگر ذی القعدہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حج ہوا تو یہ حج کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( آیت واذان من اللہ و رسولہ الی الناس یوم الحج الاکبر الخ ، ) یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آج کے حج اکبر کے دن مشرکوں سے علیحدگی اور بیزاری کا اعلان ہے ۔ اس کی منادی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حج میں ہی کی گئی پس اگر یہ حج ذی الحجہ کے مہینے میں نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس دن کو حج کا دن نہ فرماتا اور صرف مہینوں کی تقدیم و تاخیر کو جس کا بیان اس آیت میں ہے ثابت کرنے کے لئے اس تکلف کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ وہ تو اس کے بغیر بھی ممکن ہے ۔ کیونکہ مشرکین ایک سال تو محرم الحرام کے مہینے کو حلال کر لیتے اور اس کے عوض ماہ صفر کو حرمت والا کر لیتے سال کے باقی مہینے اپنی جگہ رہتے ۔ پھر دوسرے محرم کو حرام سمجھتے اور اس کی حرمت و عزت باقی رکھتے تاکہ سال کے چار حرمت والے مہینے جو اللہ کی طرف سے مقرر تھے ان کی گنتی میں موافقت کرلیں پس کبھی تو حرمت والے تینوں مہینے جو پے درپے ہیں ان میں سے آخری ماہ محرم کی حرمت رکھتے کبھی اسے صفر کی طرف موخر کر دیتے ۔ رہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ زمانہ گھوم پھر کر اپنی اصلی حالت پر آ گیا ہے یعنی اس وقت جو مہینہ ان کے نزدیک ہے وہی مہینہ صحیح گنتی میں بھی ہے اس کا پورا بیان ہم اس سے پہلے کر چکے ہیں واللہ اعلم ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ عقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے مسلمان آپ کے پاس جمع ہوگئے آپ نے اللہ تعالیٰ کی پوری حمد و ثناء بیان فرما کر فرمایا کہ مہینوں کی تاخیر شیطان کی طرف سے کفر کی زیادتی تھی کہ کافر بہکیں ۔ وہ ایک سال محرم کو حرمت والا کرتے اور صفر کو حلت والا پھر محرم کو حلت والا کر لیتے یہی ان کی وہ تقدیم تاخیر ہے جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے ۔ امام محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب السیرت میں اس پر بہت اچھا کلام کیا ہے جو بیحد مفید اور عمدہ ہے ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں کہ اس کام کو سب سے پہلے کرنے والا علمس حذیفہ بن عبید تھا ۔ پھر قیم بن عدی بن عامر بن ثعلبہ بن حارث بن مالک بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ۔ پھر اس کا لڑکا عباد پھر اس کا لڑکا قلع پھر اس کا لڑکا امیہ پھر اس کا لڑکا عوف پھر اس کا لڑکا ابو ثمامہ جنادہ اسی کے زمانہ میں اشاعت اسلام ہوئی ۔ عرب لوگ حج سے فارغ ہو کر اس کے پاس جمع ہوتے یہ کھڑا ہو کر انہیں لیکچر دیتا اور رجب ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کی حرمت بیان کرتا اور ایک سال تو محرم کو حلال کر دیتا اور محرم صفر کو بنا دیتا اور ایک سال محرم کو ہی حرمت والا کہدیتا کہ اللہ کی حرمت کے مہینوں کی گنتی موافق ہو جائے اور اللہ کا حرام حلال بھی ہو جائے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

37۔ 1 نسییء کے معنی پیچھے کرنے کے ہیں۔ عربوں میں بھی حرمت والے مہینوں میں قتال وجدال اور لوٹ مار کو سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن مسلسل تین مہینے، ان کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے، قتل و غارت سے اجتناب، ان کے لئے بہت مشکل تھا۔ اس لئے اس کا حل انہوں نے یہ نکال رکھا تھا جس حرمت والے مہینے میں قتل و غارت کرنا چاہتے اس میں وہ کرلیتے اور اعلان کردیتے کہ اس کی جگہ فلاں مہینہ حرمت والا ہوگا مثلًا محرم کے مہینے کی حرمت توڑ کر اس کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ قرار دے دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا کہ یہ کفر میں زیادتی ہے کیونکہ اس کا ادل بدل مقصود لڑائی اور دنیاوی مفادات کے حصول کے سوا کچھ نہیں۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کے خاتمے کا اعلان یہ کہہ کر فرمادیا کہ زمانہ گھوم گھما کر اپنی اصلی حالت میں آگیا ہے یعنی اب آئندہ مہینوں کی یہ ترتیب اسی طرح رہے گی جس طرح ابتدائے کائنات سے چلی آرہی ہے۔ 37۔ 2 یعنی ایک مہینے کی حرمت توڑ کر اس کی جگہ دوسرے مہینے کو حرمت والا قرار دینے سے ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے چار مہینے حرمت والے رکھے ہیں، ان کی گنتی پوری رہے۔ یعنی گنتی پوری کرنے میں اللہ کی موافقت کرتے تھے، لیکن اللہ نے قتال وجدال اور غارت گری سے جو منع کیا تھا، اس کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی، بلکہ انہیں ظالمانہ کاروائیوں کے لئے ہی وہ ادل بدل کرتے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٩] لیپ کا طریقہ کیوں رائج ہوا اور لیپ کے ذریعے ٣٦ سالوں میں ایک حج گم کردینا :۔ مہینوں کو آگے پیچھے کرلینے کا ایک دوسرا طریق بھی مشرکین عرب میں رائج ہوچکا تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ ہر قمری سال میں ١٠ دن زیادہ شمار کر کے اسے شمسی سال کے مطابق بنا لیتے تھے۔ اور اسے کبیسہ یا لوند یا لیپ (LeAP) کہا کرتے تھے اور اسی کبیسہ کا دوسرا طریقہ یہ تھا کہ ہر تین قمری سال بعد ایک ماہ زائد شمار کرلیا جاتا تھا تاکہ قمری سال بھی شمسی سال کے مطابق رہے۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ حج کے موقعہ پر بیت اللہ کے متولیوں کو اور دوسرے عبادت خانوں کے مجاوروں کو جو نذرانے پیش کیے جاتے تھے وہ عموماً غلہ کی صورت میں ہوتے تھے اور غلہ پکنے کا تعلق سورج یا شمسی سال سے ہوتا ہے۔ اگر وہ قمری تقویم پر قائم رہتے تو ان کے نذرانے انہیں بروقت نہیں مل سکتے تھے۔ محض اس دنیوی مفاد کی خاطر انہوں نے دوسرے ملکوں کی دیکھا دیکھی یہ کبیسہ کا طریق اختیار کیا تھا۔ اس طرح بعض دوسری قباحتوں کے علاوہ ایک بڑی قباحت یہ واقع ہوتی تھی کہ ٣٦ قمری سال کے عرصہ میں ٣٥ حج ہوتے تھے اور ایک حج گم کردیا جاتا تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب ١٠ ھ میں آپ نے حج کیا تو حج کے ایام انہی اصلی قمری تاریخوں اور قمری تقویم کے مطابق تھے۔ چناچہ آپ نے اسی موقع پر اپنے خطبہ حجۃ الوداع میں کبیسہ کے اس غیر شرعی اور مذموم طریقہ کو کالعدم قرار دے کر شرعی احکام کو قمری تقویم پر استوار کردیا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے :۔ سیدنا ابو بکرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے (حجۃ الوداع کے خطبہ میں) فرمایا && دیکھو ! زمانہ گھوم پھر کر پھر اسی نقشہ پر آگیا جس دن اللہ نے زمین اور آسمان پیدا کیے تھے۔ سال بارہ ماہ کا ہوتا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ تین تو لگاتار ہیں ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور چوتھا رجب کا جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔ && (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ نیز کتاب المغازی۔ باب حجۃ الوداع)

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّمَا النَّسِيْۗءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ : ” النَّسِيْۗءُ “ یہ ” فَعِیْلٌ“ کے وزن پر مصدر ہے۔ ” نَسَأَ الشَّیْءَ “ کا معنی ہے اس نے فلاں چیز کو مؤخر (پیچھے) کردیا۔ اونٹوں کو حوض سے ہٹایا جائے تو کہا جاتا ہے : ” نَسَأْتُ الْاِبِلَ عَنِ الْحَوْضِ “ ” میں نے اونٹوں کو حوض سے پیچھے ہٹا دیا۔ “ مشرکین ” نسء “ دو طرح سے کرتے تھے، ایک تو وہ جو اوپر حاشیہ (٤) میں بیان ہوا ہے، دوسرا یہ کہ وہ لوگ جنگ و جدل اور لوٹ مار کے عادی تھے، مسلسل تین ماہ اس کام سے باز رہنا ان کے لیے مشکل تھا، اس لیے وہ حرمت والے مہینے، مثلاً محرم کو حلال قرار دے کر اس سے اگلے ماہ صفر کو حرمت والا مقرر کرلیتے۔ ان کے ہاں بس چار ماہ حرمت والے پورے کرنے ضروری تھے، رہی ان کی تعیین تو وہ انھوں نے اپنے اختیار میں لے رکھی تھی، اسی کو اللہ تعالیٰ نے کفر میں زیادتی قرار دیا، کیوں کہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینا تو اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے، پھر اللہ تعالیٰ کے ہاں عبادات کے اوقات جو قمری حساب سے بدل بدل کر ہر موسم میں آتے رہتے تھے انھوں نے ان کے اصل اوقات سے ہٹا دیے تھے، یہ بھی کفر پر مزید کفر تھا۔ پھر وہ اپنے اس عمل پر خوش تھے اور شیطان نے ان کے لیے ان کے برے اعمال بھی خوشنما بنا دیے تھے۔ (وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ ) یعنی اب جو حق کو چھپانے اور اس سے انکار پر تل ہی جائے تو اللہ تعالیٰ اسے سیدھے راستے پر کیوں لائے گا ؟ کفر کا معنی چھپانا اور انکار دونوں آتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The second verse (37) also refers to this very custom of Jahiliyyah by saying: اِنَّمَا الںَّسِٓیُ زِیَادَۃُ فِی الکُفرِ (... is nothing but an increase in the infidel¬ity). The word: نَسِیی (nasi’) is a verbal noun that means to move back or postpone. It is also used in the sense of that which is delayed (mu&akhkhar). By putting these months back and forth, the Mushriks of Arabia thought, they would be achieving two things - that it will serve their material interests and that it would also give them the credit of com¬plying with the Divine injunction. This approach was not approved by Allah Ta` ala for their act of postponing and moving months from where they belonged was nothing but an addition to their stance of denial which was going to lead them further astray. That they go about de¬claring that a sacred month was not sacred in some year and then be ready to name it as sacred in some other year was simply unaccepta¬ble. The sentence: لِّيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّ‌مَ اللَّـهُ (so that they may conform [ only ] to the number of what Allah has sanctified) following soon after means that a mere act of conforming to the given number cannot stand for the correct compliance of the injunction. The truth of the matter is that the month for which the injunction has been given should be the month in which the injunction must be carried out. This is imperative. Injunctions and Rulings The verses cited above prove that the order of months and the names by which they are known in Islam should not be taken as terms coined by human beings. In fact, the day the Lord of all the worlds created the heavens and the Earth, He had also settled this order and these names and, along with it, particular injunctions to be carried out during particular months. From here, we also come to know that, in all Islamic legal injunctions, only lunar months are credible in the sight of Allah Ta&ala. In other words, all injunctions of the Shari’ ah of Islam - such as, fasting, Hajj, Zakah and many others - relate to the lunar calendar. But, when it comes to finding out the day, date and year, the way the Holy Qur&an has declared the Moon as its indicator, it has, very similarly, identified the Sun too as the other sign: لِتعلَمُوا عَدَہَ السِّنِینَ وَالحِسَاب (so that you may know the number of years and the count [ of time ] - 10:5). Therefore, keeping track of days and years through a lunar or solar calendar is equally permissible. But, Allah Ta` ala has favored the lunar calendar for His injunctions and has made it the pivot round which the laws of the Shari’ ah of Islam revolve. Therefore, the preservation of the lunar calendar is Fard al-Kifayah (a religious obligation which, if fulfilled by some, will absolve others). If the entire community of Muslims were to abandon the lunar calendar and forget all about it, then, everyone will be a sinner. However, if it remains viably preserved, the use of another calendar is also permissible - but, there is no doubt that it is against the way of Allah and the way of the worthy forbears of Islam - therefore, it is not good to opt for it unnecessarily. The month intercalated to complete the count of years has also been considered by some as impermissible under this verse. But, that is not correct because the system of reckoning under which the inter¬calation of a month is made has nothing to do with the laws of the Shari’ ah of Islam. The people of Jihiliyyah changed these religious laws by adding to the lunar and legal months, therefore, they were censured. As for the practice of intercalation, it does not affect Islamic legal injunctions, therefore, it is not included under this prohibition.

دوسری آیت میں بھی اسی رسم جاہلیت کا ذکر اس طرح فرمایا (آیت) اِنَّمَا النَّسِيْۗءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ ، لفظ نسی مصدر ہے جس کے معنی پیچھے ہٹا دینے اور موخر کردینے کے ہیں، اور بمعنی موخر بھی استعمال ہوتا ہے۔ مشرکین عرب نے ان مہینوں کے آگے پیچھے کرنے کو یہ سمجھا تھا کہ اس طرح ہماری اغراض نفسانی بھی فوت نہ ہوں گی، اور حکم خداوندی کی تعمیل بھی ہوجائے گی، حق تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ تمہارا مہینوں کو موخر کرنا اور اپنی جگہ سے ہٹا دینا کفر میں اور زیادتی ہے، جس سے ان کفار کی گمراہی اور بڑہتی ہے، کہ وہ شہر حرام کو کسی سال تو حرام قرار دیں اور کسی سال حلال کرلیں۔ (آیت) لِّيُوَاطِــــُٔــوْا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ ، یعنی تاکہ وہ پوری کرلیں گنتی ان مہینوں کی جن کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے، مطلب یہ ہے کہ محض گنتی پوری کرلینے سے تعمیل حکم نہیں ہوتی بلکہ جو حکم جس مہینہ کے لئے دیا گیا ہے اسی مہینہ میں اس کو پورا کرنا ضروری ہے۔ احکام و مسائل مذکورہ آیتوں سے ثابت ہوا کہ مہینوں کی جو ترتیب اور ان مہینوں کے جو نام اسلام میں معروف ہیں وہ انسانوں کی بنائی ہوئی اصطلاح نہیں، بلکہ رب العالمین نے جس دن آسمان و زمین پیدا کئے اسی دن یہ ترتیب اور یہ نام اور ان کے ساتھ خاص خاص مہینوں کے خاص خاص احکام متعین فرما دیئے تھے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک احکام شرعیہ میں قمری مہینوں کا اعتبار ہے، اسی قمری حساب پر تمام احکام شرعیہ روزہ، حج، زکوٰة وغیرہ دائر ہیں، لیکن قرآن حکیم نے تاریخ و سال معلوم کرنے کے لئے جیسے قمر کو علامت قرار دیا ہے اسی طرح آفتاب کو بھی اس کی علامت فرمایا ہے، (آیت) لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ ، اس لئے تاریخ و سال کا حساب چاند اور سورج دونوں سے جائز ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام کے لئے چاند کے حساب کو پسند فرمایا، اور احکام شرعیہ اس پر دائر فرمائے اس لئے قمری حساب کا محفوظ رکھنا فرض کفایہ ہے، اگر ساری امت قمری حساب ترک کرکے اس کو بھلا دے تو سب گہنگار ہوں گے، اور اگر وہ محفوظ ہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی جائز ہے لیکن سنت اللہ اور سنت سلف کے خلاف ضرور ہے اس لئے بلا ضرورت اس کو اختیار کرنا اچھا نہیں۔ حساب کو پورا کرنے کے لئے جو لوند کا مہینہ بڑھایا جاتا ہے، بعض لوگوں نے اس کو بھی اس آیت کے تحت ناجائز سمجھا ہے، مگر وہ صحیح نہیں کیونکہ جس حساب میں لوند کا مہینہ بڑھاتے ہیں اس سے احکام شرعیہ کا تعلق نہیں، اہل جاہلیت قمری اور شرعی مہینوں میں زیادتی کرکے شرعی احکام کو بدلتے تھے، اس لئے منع کیا گیا لوند کا کوئی اثر شرعی احکام پر نہیں پڑتا اس لئے وہ اس ممانعت میں داخل نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّمَا النَّسِيْۗءُ زِيَادَۃٌ فِي الْكُفْرِ يُضَلُّ بِہِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّيُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا لِّيُوَاطِــــُٔــوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللہُ فَيُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللہُ۝ ٠ ۭ زُيِّنَ لَہُمْ سُوْۗءُ اَعْمَالِـہِمْ۝ ٠ ۭ وَاللہُ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ۝ ٣٧ ۧ النسیء هو مصدر علی رأي الزمخشريّ ، وزنه فعیل من أنسأ أي أخّر، أو اسم مصدر لأنه نقص عن عدد حروف فعله، وقیل هو صفة مشتقّة بمعنی مفعول أي منسوء، وفي المختار . النسیء في الآية فعیل بمعنی مفعول به قولک نسأه من باب قطع أي أخّره فهو منسوء فحوّل منسوء إلى نسیء کما حوّل مقتول إلى قتیل . زاد الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] ( زی د ) الزیادۃ اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف/ 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ ( زيادة) ، مصدر سماعيّ لفعل زاد يزيد وزنه فعالة بکسر الفاء، وثمّة مصادر أخری هي زيد بفتح الزاي وکسرها وسکون الیاء، وزید بفتحتین، كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ ( ضل)إِضْلَالُ والإِضْلَالُ ضربان : أحدهما : أن يكون سببه الضَّلَالُ ، وذلک علی وجهين : إمّا بأن يَضِلَّ عنک الشیءُ کقولک : أَضْلَلْتُ البعیرَ ، أي : ضَلَّ عنّي، وإمّا أن تحکم بِضَلَالِهِ ، والضَّلَالُ في هذين سبب الإِضْلَالِ. والضّرب الثاني : أن يكون الإِضْلَالُ سببا لِلضَّلَالِ ، وهو أن يزيّن للإنسان الباطل ليضلّ کقوله : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، أي يتحرّون أفعالا يقصدون بها أن تَضِلَّ ، فلا يحصل من فعلهم ذلك إلّا ما فيه ضَلَالُ أنفسِهِم، وقال عن الشیطان : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] ، وقال في الشّيطان : وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] ، وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] ، وإِضْلَالُ اللهِ تعالیٰ للإنسان علی أحد وجهين : أحدهما أن يكون سببُهُ الضَّلَالَ ، وهو أن يَضِلَّ الإنسانُ فيحكم اللہ عليه بذلک في الدّنيا، ويعدل به عن طریق الجنّة إلى النار في الآخرة، وذلک إِضْلَالٌ هو حقٌّ وعدلٌ ، فالحکم علی الضَّالِّ بضَلَالِهِ والعدول به عن طریق الجنّة إلى النار عدل وحقّ. والثاني من إِضْلَالِ اللهِ : هو أنّ اللہ تعالیٰ وضع جبلّة الإنسان علی هيئة إذا راعی طریقا، محمودا کان أو مذموما، ألفه واستطابه ولزمه، وتعذّر صرفه وانصرافه عنه، ويصير ذلک کالطّبع الذي يأبى علی الناقل، ولذلک قيل : العادة طبع ثان «2» . وهذه القوّة في الإنسان فعل إلهيّ ، وإذا کان کذلک۔ وقد ذکر في غير هذا الموضع أنّ كلّ شيء يكون سببا في وقوع فعل۔ صحّ نسبة ذلک الفعل إليه، فصحّ أن ينسب ضلال العبد إلى اللہ من هذا الوجه، فيقال : أَضَلَّهُ اللهُ لا علی الوجه الذي يتصوّره الجهلة، ولما قلناه جعل الإِضْلَالَ المنسوب إلى نفسه للکافر والفاسق دون المؤمن، بل نفی عن نفسه إِضْلَالَ المؤمنِ فقال : وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] ، فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ، وقال في الکافروالفاسق : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ، وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] ، كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] ، وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] ، وعلی هذا النّحو تقلیب الأفئدة في قوله : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] ، والختم علی القلب في قوله : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وزیادة المرض في قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] . الاضلال ( یعنی دوسرے کو گمراہ کرنے ) کی دوصورتیں ہوسکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کا سبب خود اپنی ضلالت ہو یہ دو قسم پر ہے ۔ (1) ایک یہ کہ کوئی چیز ضائع ہوجائے مثلا کہاجاتا ہے اضللت البعیر ۔ میرا اونٹ کھو گیا ۔ (2) دوم کہ دوسرے پر ضلالت کا حکم لگانا ان دونوں صورتوں میں اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کا سبب ضلالۃ ہی ہوتی ہے ۔ دوسری صورت اضلال کی پہلی کے برعکس ہے یعنی اضلال بذاتہ ضلالۃ کا سبب بنے اسی طرح پر کہ کسی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے باطل اس کے سامنے پر فریب اور جاذب انداز میں پیش کیا جائے جیسے فرمایا : لَهَمَّتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ أَنْ يُضِلُّوكَ وَما يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 113] ، ان میں سے ایک جماعت تم کو بہکانے کا قصد کرچکی تھی اور یہ اپنے سوا کسی کو بہکا نہیں سکتے۔ یعنی وہ اپنے اعمال سے تجھے گمراہ کرنے کی کوشش میں ہیں مگر وہ اپنے اس کردار سے خود ہی گمراہ ہو رہے ہیں ۔ اور شیطان کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا ۔ اور شیطان کے بارے میں فرمایا : ۔ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيراً [يس/ 62] اور اس نے تم میں سے بہت سی خلقت کو گمراہ کردیا تھا ۔ وَيُرِيدُ الشَّيْطانُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَلالًا بَعِيداً [ النساء/ 60] اور شیطان تو چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔ وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ [ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمہیں خدا کے رستے سے بھٹکادے گی ۔ اللہ تعالیٰ کے انسان کو گمراہ کرنے کی دو صورتیں ہی ہوسکتی ہیں ( 1 ) ایک یہ کہ اس کا سبب انسان کی خود اپنی ضلالت ہو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اضلال کی نسبت کے یہ معنی ہوں گے کہ جب انسان از خود گمرہ ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں اس پر گمراہی کا حکم ثبت ہوجاتا ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آخرت کے دن اسے جنت کے راستہ سے ہٹا کر دوزخ کے راستہ پر ڈال دیا جائے گا ۔ ( 2 ) اور اللہ تعالٰ کی طرف اضلال کی نسببت کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ باری تعالیٰ نے انسان کی جبلت ہی کچھ اس قسم کی بنائی ہے کہ جب انسان کسی اچھے یا برے راستہ کو اختیار کرلیتا ہے تو اس سے مانوس ہوجاتا ہے اور اسے اچھا سمجھنے لگتا ہے اور آخر کا اس پر اتنی مضبوطی سے جم جاتا ہے کہ اس راہ سے ہٹا نایا اس کا خود اسے چھوڑ دینا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ اعمال اس کی طبیعت ثانیہ بن جاتے ہیں اسی اعتبار سے کہا گیا ہے کہ عادت طبعہ ثانیہ ہے ۔ پھر جب انسان کی اس قسم کی فطرت اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور دوسرے مقام پر ہم بیان کرچکے ہیں کہ فعل کی نسبت اس کے سبب کی طرف بھی ہوسکتی ہے لہذا اضلال کی نسبت اللہ تعالیٰ کیطرف بھی ہوسکتی ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گمراہکر دیا ور نہ باری تعالیٰ کے گمراہ کر نیکے وہ معنی نہیں ہیں جو عوام جہلاء سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اللہ تعالیٰ کی طرف گمراہ کرنے کینسبت اسی جگہ کی ہے جہاں کافر اور فاسق لوگ مراد ہیں نہ کہ مومن بلکہ حق تعالیٰ نے مومنین کو گمراہ کرنے کی اپنی ذات سے نفی فرمائی ہے چناچہ ارشاد ہے ۔ وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ إِذْ هَداهُمْ [ التوبة/ 115] اور خدا ایسا نہیں ہے کہ کسی قومکو ہدایت دینے کے بعد گمراہ کردے ۔ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمالَهُمْ سَيَهْدِيهِمْ [ محمد/ 4- 5] ان کے عملوں کر ہر گز ضائع نہ کریگا بلکہ ان کو سیدھے رستے پر چلائے گا ۔ اور کافر اور فاسق لوگوں کے متعلق فرمایا : فَتَعْساً لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمالَهُمْ [ محمد/ 8] ان کے لئے ہلاکت ہے اور وہ ان کے اعمال کو برباد کردیگا : وما يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفاسِقِينَ [ البقرة/ 26] اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو ۔ كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكافِرِينَ [ غافر/ 74] اسی طرح خدا کافررں کو گمراہ کرتا ہے ۔ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ [إبراهيم/ 27] اور خدا بےانصافوں کو گمراہ کردیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ [ الأنعام/ 110] اور ہم ان کے دلوں کو الٹ دیں گے ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے انکے دلوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة/ 10] ان کے دلوں میں ( کفر کا ) مرض تھا خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ میں دلوں کے پھیر دینے اور ان پر مہر لگا دینے اور ان کی مرض میں اضافہ کردینے سے بھی یہی معنی مراد ہیں ۔ حلَ أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه/ 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد/ 31] ، ( ح ل ل ) الحل اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد/ 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی عام العَامُ کالسّنة، لکن كثيرا ما تستعمل السّنة في الحول الذي يكون فيه الشّدّة أو الجدب . ولهذا يعبّر عن الجدب بالسّنة، والْعَامُ بما فيه الرّخاء والخصب، قال : عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] ، وقوله : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت/ 14] ، ففي كون المستثنی منه بالسّنة والمستثنی بِالْعَامِ لطیفة موضعها فيما بعد هذا الکتاب إن شاء الله، ( ع و م ) العام ( سال ) اور السنۃ کے ایک ہی معنی ہیں ۔ لیکن السنۃ کا لفظ عموما اس سال پر بولا جاتا ہے جس میں تکلیف یا خشک سالی ہو اس بنا پر قحط سالی کو سنۃ سے تعبیر کرلیتے ہیں اور عامہ اس سال کو کہا جاتا ہے جس میں وسعت اور فروانی ہو قرآن پاک میں ہے : ۔ عامٌ فِيهِ يُغاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ [يوسف/ 49] اس کے بعد ایک ایسا سال آئیگا جس میں خوب بارش ہوگی اور لوگ اس میں نچوڑیں گے اور آیت کریمہ : ۔ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت/ 14] تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے ۔ میں لفظ سنۃ کو مستثنی منہ اور لفظ عام کو مستثنی لانے میں ایک لطیف نکتہ ہے جسے ہم اس کتاب کے بعد کسی دوسرے موقع پر بیان کریں گے انشا اللہ وطأ وَطُؤَ الشیءُ فهو وَطِيءٌ بيّن الوَطَاءَةِ ، والطَّأَةِ والطِّئَةِ ، والوِطَاءُ : ما تَوَطَّأْتَ به، ووَطَأْتُ له بفراشه . ووَطَأْتُهُ برجلي أَطَؤُهُ وَطْأً ووَطَاءَةً ، وتَوَطَّأْتُهُ. قال اللہ تعالی: إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] وقرئ : وِطَاءً وفي الحدیث : «اللهمّ اشدد وَطْأَتَكَ علی مضر» أي : ذلّلهم . ووَطِئَ امرأتَهُ كناية عن الجماع، صار کالتّصریح للعرف فيه، والمُوَاطَأَةُ : الموافقة، وأصله أن يَطَأَ الرجل برجله مَوْطِئَ صاحبه . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّمَا النَّسِيءُ إلى قوله : لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ [ التوبة/ 37] ( و ط ء ) وطوء الشئی فھواوطییء : کے معنی کسی چیز کے پامال ہونے کے ہیں ۔ الوطاء ہر اس شے کو کہتے ہیں جو پاؤں کے نیچے روندی جائے جیسے فراش وغیرہ ۔ وطات لہ بفرشہ کسی کے لئے فراش بچھا نا ۔ وطا تہ ( ف ) برجل وطا ووطا ۃ ووطا ءۃ وتوطاحہ کسی چیز کو پاوں سے روند نا قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ شک نہیں کہ رات کا اٹھنا ( نفس بہیمی کو ) سخت پامال کرتا ہے ۔ ایک قرات میں وطاء ہے اور حدیث میں ہے ( اللھم اشدد وطاتک علی مضر) اے اللہ مضر پر اپنی گرفت کو سخت کر یعنی انہیں ذلیل کر وطی امراء تہ عورت سے ہمبستری کرنا یہ لفظ اگر چہ اپنے اصل معنی کے لحاظ سے جماع کے معنی میں بطو ر کنایہ استعمال ہوتا ہے لیکن عرف میں بمنزلہ لفظ صریح کے ہیں ۔ المواطاۃ ۔ اس کے معنی موافقت کے آتے ہیں اور اصل معنی دوسرے کے نشان قدم پر اپنا قدم رکھنے کے ہیں چناچہ آیت آخر میں فرمایا ۔ لِيُواطِؤُا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَّهُ [ التوبة/ 37] تاکہ ادب کے مہینوں کی جو خدا نے مقرر کئے ہیں ۔ گنتی پوری کرلیں ۔ حرم الحرام : الممنوع منه إمّا بتسخیر إلهي وإمّا بشريّ ، وإما بمنع قهريّ ، وإمّا بمنع من جهة العقل أو من جهة الشرع، أو من جهة من يرتسم أمره، فقوله تعالی: وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] ، فذلک تحریم بتسخیر، وقد حمل علی ذلك : وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] ، وقوله تعالی: فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] ، وقیل : بل کان حراما عليهم من جهة القهر لا بالتسخیر الإلهي، وقوله تعالی: إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] ، فهذا من جهة القهر بالمنع، وکذلک قوله تعالی: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] ، والمُحرَّم بالشرع : کتحریم بيع الطعام بالطعام متفاضلا، وقوله عزّ وجلّ : وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] ، فهذا کان محرّما عليهم بحکم شرعهم، ونحو قوله تعالی: قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] ، وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] ، وسوط مُحَرَّم : لم يدبغ جلده، كأنه لم يحلّ بالدباغ الذي اقتضاه قول النبي صلّى اللہ عليه وسلم : «أيّما إهاب دبغ فقد طهر» . وقیل : بل المحرّم الذي لم يليّن، والحَرَمُ : سمّي بذلک لتحریم اللہ تعالیٰ فيه كثيرا مما ليس بمحرّم في غيره من المواضع وکذلک الشهر الحرام، وقیل : رجل حَرَام و حلال، ومحلّ ومُحْرِم، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم/ 1] ، أي : لم تحکم بتحریم ذلک ؟ وكلّ تحریم ليس من قبل اللہ تعالیٰ فلیس بشیء، نحو : وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام/ 138] ، وقوله تعالی: بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة/ 67] ، أي : ممنوعون من جهة الجدّ ، وقوله : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات/ 19] ، أي : الذي لم يوسّع عليه الرزق کما وسّع علی غيره . ومن قال : أراد به الکلب فلم يعن أنّ ذلک اسم الکلب کما ظنّه بعض من ردّ عليه، وإنما ذلک منه ضرب مثال بشیء، لأنّ الکلب کثيرا ما يحرمه الناس، أي : يمنعونه . والمَحْرَمَة والمَحْرُمَة والحُرْمَة، واستحرمت الماعز کناية عن إرادتها الفحل . ( ح ر م ) الحرام ( ح ر م ) الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو خواہ یہ ممانعت تسخیری یا جبری ، یا عقل کی رو س ہو اور یا پھر شرع کی جانب سے ہو اور یا اس شخص کی جانب سے ہو جو حکم شرع کو بجالاتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ وَحَرَّمْنا عَلَيْهِ الْمَراضِعَ [ القصص/ 12] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر ( دوائیوں کے ) دودھ حرام کردیتے تھے ۔ میں حرمت تسخیری مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَحَرامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْناها [ الأنبیاء/ 95] اور جس بستی ( والوں ) کو ہم نے ہلاک کردیا محال ہے کہ ( وہ دنیا کی طرف رجوع کریں ۔ کو بھی اسی معنی پر حمل کیا گیا ہے اور بعض کے نزدیک آیت کریمہ ؛فَإِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ المائدة/ 26] کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لئے حرام کردیا گیا ۔ میں بھی تحریم تسخیری مراد ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ منع جبری پر محمول ہے اور آیت کریمہ :۔ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ [ المائدة/ 72] جو شخص خدا کے ساتھ شرگ کریگا ۔ خدا اس پر بہشت کو حرام کردے گا ۔ میں بھی حرمت جبری مراد ہے اسی طرح آیت :۔ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُما عَلَى الْكافِرِينَ [ الأعراف/ 50] کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کا فروں پر حرام کردیا ہے ۔ میں تحریم بواسطہ منع جبری ہے اور حرمت شرعی جیسے (77) آنحضرت نے طعام کی طعام کے ساتھ بیع میں تفاضل کو حرام قرار دیا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُساری تُفادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْراجُهُمْ [ البقرة/ 85] اور اگر وہ تمہارے پاس قید ہوکر آئیں تو بدلادے کر ان کو چھڑی ابھی لیتے ہو حالانکہ ان کے نکال دینا ہی تم پر حرام تھا ۔ میں بھی تحریم شرعی مراد ہے کیونکہ ان کی شریعت میں یہ چیزیں ان پر حرام کردی گئی ۔ تھیں ۔ نیز تحریم شرعی کے متعلق فرمایا ۔ قُلْ : لا أَجِدُ فِي ما أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلى طاعِمٍ يَطْعَمُهُ ... الآية [ الأنعام/ 145] الآیۃ کہو کہ ج و احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں ان کو کوئی چیز جسے کھانے والا حرام نہیں پاتا ۔ وَعَلَى الَّذِينَ هادُوا حَرَّمْنا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ [ الأنعام/ 146] اور یہودیوں پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کردیئے ۔ سوط محرم بےدباغت چمڑے کا گوڑا ۔ گویا دباغت سے وہ حلال نہیں ہوا جو کہ حدیث کل اھاب دبغ فقد طھر کا مقتضی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ محرم اس کوڑے کو کہتے ہیں ۔ جو نرم نہ کیا گیا ہو ۔ الحرم کو حرام اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے اس کے اندر بہت سی چیزیں حرام کردی ہیں جو دوسری جگہ حرام نہیں ہیں اور یہی معنی الشہر الحرام کے ہیں یعنی وہ شخص جو حالت احرام میں ہو اس کے بالمقابل رجل حلال ومحل ہے اور آیت کریمہ : يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضاتَ أَزْواجِكَ [ التحریم/ 1] کے معنی یہ ہیں کہ تم اس چیز کی تحریم کا حکم کیون لگاتے ہو جو اللہ نے حرام نہیں کی کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام نہ کی ہو وہ کسی کے حرام کرنے سے حرام نہیں ہوجاتی جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنْعامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُها [ الأنعام/ 138] اور ( بعض ) چار پائے ایسے ہیں کہ ان کی پیٹھ پر چڑھنا حرام کردیا گیا ہے ۔ میں مذکور ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ [ الواقعة/ 67] بلکہ ہم ( برکشتہ نصیب ) بےنصیب ہیں ان کے محروم ہونے سے بد نصیبی مراد ہے ۔ اور آیت کریمہ : لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [ الذاریات/ 19] مانگنے والے اور نہ مانگنے ( دونوں ) میں محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خوشحالی اور وسعت رزق سے محروم ہو اور بعض نے کہا ہے المحروم سے کتا مراد ہے تو اس کے معنی نہیں ہیں کہ محروم کتے کو کہتے ہیں جیسا ان کی تردید کرنے والوں نے سمجھا ہے بلکہ انہوں نے کتے کو بطور مثال ذکر کیا ہے کیونکہ عام طور پر کتے کو لوگ دور ہٹاتے ہیں اور اسے کچھ نہیں دیتے ۔ المحرمۃ والمحرمۃ کے معنی حرمت کے ہیں ۔ استحرمت الما ر عذ بکری نے نر کی خواہش کی دیہ حرمۃ سے ہے جس کے معنی بکری کی جنس خواہش کے ہیں ۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] ساء اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک/ 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء/ 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نسیٔ کیا ہے ؟ قول باری ہے (انما النسیٔ زیادۃ فی الکفر۔ نسئی نو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے) نسئی تاخیر کو کہتے ہیں۔ اسی سے ہے۔ ” البیع بالنسیئۃ “ یعنی ادھار سودا، جب آپ بیع کو موخر کردیں تو کہیں گے۔ ’ نسات البیع ‘۔ قول باری ہے (ماننسخ من اٰیۃ اوننسھا۔ جس آیت کو ہم منسوخ کردیتے یا اسے موخر کردیتے ہیں) یعنی ہم اسے موخر کردیتے ہیں۔ حیض موخر ہوجانے کی بنا پر عورت اگر حاملہ ہوجائے تو کہا جاتا ہے ” نسات المرأۃ “۔ جب اونٹنی کی رفترار بڑھانے کے لئے آپ اسے پیچھے سے چلائیں تو کہا جائے گا ” نسات الناقۃ “۔ اس لئے کہ آپ اسے پیچھے رہ جانے سے روکتے اور جھڑکتے ہیں۔ منساۃ لاٹھی کو کہتے ہیں جس کے ذریعے تکلیف دہ چیز کو ہٹایا جاتا ہے اور جانور کو ہنکایا اور جھڑکا جاتا ہے اور اس طرح اسے پیچھے رہ جانے سے روک دیا جاتا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے نسی کا ذکر فرمایا اس سے اس کی مراد وہ تاخیر ہے جو زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ سال کے مہینوں میں کردیا کرتے تھے اور اس کے نتیجے میں حج اپنے مقرر وقت کے سوا کسی اور وقت میں ادا کرلیا جاتا تھا۔ اور مہینوں کے حرام ہونے کا اعتقاد حرام مہینوں کی جائے غیر حرام مہینوں سے متعلق ہوجاتا۔ حضرت ابن عباس (رض) کے قول کے مطابق یہ لوگ محرم کو صفر قرار دے دیتے تھے۔ ابن نجیح اور دیگر حضرات نے کہا ہے کہ قریش کے لوگ ہر چھ ماہ بعد کچھ دنوں کا شمار کرلیتے جس کے ذریعے وہ ہر تیرہ سال میں ذی الحجۃ کے مہینے کو اس کے درست وقت پر لے آتے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے حجۃ الوداع کے موقع پر زمانے کو پلٹا کر اس کی اصل حالت پر لے آیا جس حالت پر وہ زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت قائم کیا گیا تھا اس طرح اسلام کا زمانہ مہینوں کی تعداد اور اس کی ترتیب کے لحاظ سے درست ڈگر پر آگیا اور حج ذی الحجہ میں ہی ادا ہونے لگا۔ ابن اسحاق کا قول ہے کہ عرب کے ایک بادشاہ نے جس کا نام حذیفہ اور لقب قلمس تھا سب سے پہلے نسی کا طریقہ ایجاد کیا۔ اس نے محرم کو پیچھے کردیا اور پھر وہ اسے ماہ حرام قرار دیتا اور ایک سال ماہ حلال۔ جب وہ محرم کو ماہ حرام قرار دیتا تو حرمت کے تین مہینے پے در پے آجاتے۔ یہی وہ تعداد ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے عہد میں حرمت کا حکم دیا تھا۔ جب یہ بادشاہ محرم کو ماہ حلال قرار دیتا تو اس کی جگہ صفر محرم میں داخل ہوجاتا تاکہ حرمت کے مہینوں کی تعداد پوری ہوجائے۔ پھر وہ کہتا کہ میں نے حرمت کے چار مہینے مکمل کردیئے ہیں جس طرح یہ تھے کیونکہ میں نے اگر ایک مہینے کو ماہ حلال قرار دیا ہ تو اس کی جگہ ایک اور مہینے کو ماہ حرام بنادیا ہے۔ “ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فریضہ حج ادا کیا تو اس کے بعد محرم کا مہینہ اپنے اصل وقت پر آیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (ان عدۃ الشھور عند اللہ اثنا عشر شھراً ) اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ نسی کا یہ عمل جو مشرکین کیا کرتے تھے وہ کفر تھا کیونکہ کفر میں اضافہ کفر کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ یہ لوگ نسیٔ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حرام کئے ہوئے مہینے کو حلال قرار دیتے اور حلال کئے ہوئے مہینے کو حرام۔ یہ لوگ اپنے مشرکانہ عقائد کی بنا پر کافر تو تھے ہی اور نسیٔ کی بنا پر انہوں نے اپنا کفر اور بڑھالیا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٧) اور نیز ماہ محرم کو صفر تک موخر کردینا یہ نافرمانی اور کفر میں زیادتی ہے جس سے عام کفار غلطی میں پڑجاتے ہیں۔ چناچہ وہ محرم کو کسی سال حلال سمجھ کر اس میں قتال کرلیتے ہیں اور کسی سال اسے حرام سمجھ کر اس میں قتال نہیں کرتے، چناچہ جب وہ ماہ محرم کو حلال کرتے ہیں تو اس کے بدلے صفر کو حرام کرلیتے ہیں تاکہ چار محترم مہینوں کی گنتی پوری ہوجائے، پھر اللہ تعالیٰ کے حرام کیے ہوئے مہینے کو حلال کرلیتے ہیں، ان کی بداعمالیاں ان کو مستحسن معلوم ہوتی ہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنے دین کی ایسے شخص کو توفیق نہیں دیتا جو اس کا اہل نہیں ہوتا اور یہ کارگزاریاں نعیم بن ثعلبہ نامی ایک شخص کیا کرتا تھا۔ شان نزول : (آیت) ” انما النسیء “ (الخ) ابن جریر (رح) نے مالک (رض) سے روایت کیا ہے کہ کافر سال کے تیرہ مہینے بنا لیتے تھے، چناچہ محرم کو صفر بناکر اس میں حرام چیزوں کو حلال کرلیتے تھے، اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٧ (اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَۃٌ فِی الْْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) یعنی امن کے مہینوں کو اپنی جگہ سے ہٹا کر آگے پیچھے کردینا کفر میں مزید ایک کافرانہ حرکت ہے۔ (یُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّیُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِءُوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ) (فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ط) یعنی اس طرح الٹ پھیر کر کے وہ ان مہینوں کو حلال کرلیتے جو اصل میں اللہ نے حرام ٹھہرائے ہیں۔ مشرکین عرب بھی بارہ مہینوں میں سے چار مہینوں کو محترم مانتے تھے مگر اپنی مرضی سے ان مہینوں کو آگے پیچھے کرتے رہتے اور سال کے آخر تک ان کی تعداد پوری کردیتے۔ (زُیِّنَ لَہُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِہِمْ ط وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ) یہاں وہ پانچ رکوع ختم ہوئے جن کا تعلق نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت خصوصی سے ہے۔ ان آیات میں اس سلسلے میں تکمیلی اور آخری احکام دے دیے گئے ہیں۔ اب چھٹے رکوع سے غزوۂ تبوک کے موضوع کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس کے پس منظر کے ضمن میں چند باتیں پھر سے ذہن میں تازہ کرلیں۔ سن ٦ ہجری میں صلح حدیبیہ کے فوراً بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عرب سے باہر مختلف فرمانرواؤں کی طرف اپنے خطوط اور ایلچی بھیجنے شروع کیے۔ اس سلسلے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نامۂ مبارک بصرٰی (شام) کے رئیس شرحبیل بن عمرو کی طرف بھی بھیجا گیا۔ یہ شخص رومن ایمپائر کا باج گزار تھا۔ اس کے پاس حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نامۂ مبارک حضرت حارث بن عمیر ازدی (رض) لے کر گئے تھے۔ شرحبیل نے تمام اخلاقی و سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حضرت حارث (رض) کو شہید کرادیا۔ لہٰذا سفیر کے قتل کو اعلان جنگ سمجھتے ہوئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین ہزار صحابہ (رض) پر مشتمل ایک لشکر تیار کر کے حضرت زید بن حارثہ (رض) کی زیر قیادت شام کی طرف بھیجا۔ جب یہ لشکر موتہ پہنچا تو انہوں نے ایک لاکھ رومیوں کا لشکر اپنے خلاف صف آرا پایا۔ مخالف لشکر کی تعداد کا اندازہ کرنے کے بعد مسلمانوں میں مقابلہ کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں مشورہ ہوا۔ چناچہ شوق شہادت میں انہوں نے مقابلے کا فیصلہ کیا۔ شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن نہ مال غنیمت ‘ نہ کشور کشائی ! (اقبالؔ ) جمادی الاولیٰ ٨ ہجری کو ان دونوں لشکروں کے درمیان موتہ کے مقام پر جنگ ہوئی۔ مسلمان لشکر کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زید (رض) بن حارثہ کے علاوہ خصوصی طور پر دو مزید کمانڈر بھی مقررفرمائے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ اگر زید (رض) شہید ہوجائیں تو جعفر (رض) بن ابی طالب (جعفر طیار (رض) کمان سنبھالیں گے ‘ اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو عبداللہ بن رواحہ انصاری (رض) لشکر کے امیر ہوں گے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقرر کردہ تینوں کمانڈر اسی ترتیب سے یکے بعد دیگرے شہید ہوگئے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ (رض) کی شہادت کے بعد حضرت خالدبن ولید (رض) نے از خود لشکر کی کمان سنبھالی ‘ اور کامیاب حکمت عملی کے تحت اپنے لشکر کو رومیوں کے نرغے سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔ جنگ موتہ سے پیدا ہونے والی صورت حال میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان عام فرمایا کہ رومیوں کے مقابلے کے لیے تمام ممکنہ وسائل بروئے کار لاتے ہوئے ایک بڑا لشکر تبوک کے لیے روانہ کیا جائے۔ اس مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود لشکر کے ساتھ جانے کا فیصلہ فرمایا۔ تبوک مدینہ سے شمال کی جانب تقریباً ساڑھے تین سو میل کی مسافت پر حجاز کا آخری شہر ہے۔ یہ وہ علاقہ تھا جہاں سے آگے اس زمانے میں رومن ایمپائر کی سرحد شروع ہوتی تھی۔ غزوۂ تبوک میں شرکت کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اعلان عام فرمایا تھا۔ یعنی جنگ کے قابل ہر صاحب ایمان شخص کے لیے فرض تھا کہ وہ اس مہم میں شریک ہو۔ یہ اہل ایمان کے لیے سخت امتحان اور آزمائش کا وقت تھا۔ قحط کا زمانہ ‘ شدید گرمی کا موسم ‘ طویل صحرائی سفر ‘ وقت کی سپر پاور سے مقابلہ اور سب پر مستزاد یہ کہ فصل سنبھالنے کا موسم سر پر کھڑا تھا۔ گویا ایک سے بڑھ کر ایک مسئلہ تھا اور ایک سے بڑھ کر ایک امتحان ! مدینہ کے بیشتر لوگوں کی سال بھر کی معیشت کا دارومدار کھجور کی فصل پر تھا ‘ جو اس وقت پک کر تیار کھڑی تھی۔ مہم پر نکلنے کا مطلب یہ تھا کہ پکی ہوئی کھجوروں کو درختوں پر ہی چھوڑ کر جانا ہوگا۔ عورتیں چونکہ کھجوروں کو درختوں سے اتارنے کا مشکل کام نہیں کرسکتی تھیں ‘ اس لیے پکی پکائی فصل ضائع جاتی صاف نظر آرہی تھی۔ دوسری طرف اس مہم کا اعلان منافقین پر بہت بھاری ثابت ہوا اور ان کی ساری خباثتیں اس کی وجہ سے طشت ازبام ہوگئیں۔ چناچہ آئندہ گیارہ رکوعوں کی آیات اپنے اندر اس سلسلے کے چھوٹے بڑے بہت سے موضوعات سمیٹے ہوئے ہیں ‘ مگر دوسرے مضامین کے درمیان میں ایک مضمون جو مسلسل چل رہا ہے وہ منافقین کا تذکرہ ہے۔ گویا یہ مضمون ایک دھاگہ ہے جس میں دوسرے مضامین موتیوں کی طرح پروئے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس سے پہلے سورة النساء میں منافقین کا ذکر بڑی تفصیل سے آچکا ہے ‘ لیکن آئندہ گیارہ رکوع اس موضوع پر قرآن کے ذروۂ سنام کا درجہ رکھتے ہیں۔ بہرحال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیس ہزار کا لشکر لے کر تبوک تشریف لے گئے۔ مقابل میں اگرچہ ہرقل (قیصرروم) بنفس نفیس موجود تھا ‘ لیکن شایدوہ پہچان چکا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں ‘ چناچہ وہ مقابلے میں آنے کی جرأت نہ کرسکا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ عرصہ تبوک میں قیام فرمایا۔ اس دوران میں ارد گرد کے بہت سے قبائل نے آکر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معاہدے کیے۔ اس مہم میں اگرچہ جنگ کی نوبت نہ آئی مگر مسلمان لشکر کا مدینہ سے تبوک جا کر رومن ایمپائر کی سرحدوں پر دستک دینا اور ہرقل کا مقابلہ کرنے کی بجائے کنی کترا جانا ‘ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ چناچہ نہ صرف اس علاقے میں مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی بلکہ اسلامی ریاست کی سرحدیں عملی طور پر تبوک تک وسیع ہوگئیں۔ دوسری طرف جنگ موتہ کی وجہ سے مسلمانوں کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا تھا اس کی بھر پور انداز میں تلافی ہوگئی۔ سلطنت روم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا یہ سلسلہ جو غزوۂ تبوک کی صورت میں شروع ہوا ‘ اس میں مزید پیش رفت دورصدیقی (رض) میں ہوئی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے فوراً بعد مدینہ سے لشکر اسامہ (رض) کی روانگی بھی اس سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

سورة التَّوْبَة حاشیہ نمبر :37 عرب میں نسی دو طرح کی تھی ۔ اس کی ایک صورت تو یہ تھی کہ جنگ و جدل اور غارت گری اور خون کے انتقام لینے کی خاطر کسی حرام مہینے کو حلال قرار دے لیتے تھے اور اس کے بدلے میں کسی حلال مہینے کو حرام کر کے حرام مہینوں کی تعداد پوری کر دیتے تھے ۔ دوسری صورت یہ تھی کہ قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اس میں کبِیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیتے تھے ، تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے اور وہ ان زحمتوں سے بچ جائیں جو قمری حساب کے مطابق مختلف موسموں میں حج کے گردش کرتے رہنے سے پیش آتی ہیں ۔ اس طرح ۳۳ سال تک حج اپنے اصلی وقت کے خلاف دوسری تاریخوں میں ہو تا رہتا تھا اور صرف چونتیسویں سال ایک مرتبہ اصل ذی الحجہ کی ۹ – ۱۰ تاریخ کو ادا ہوتا تھا ۔ یہی وہ بات ہے جو حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےخطبہ میں فرمائی تھی کہ ان الزمان قد استدار کھیئتہ یوم خلق اللہ السمٰوٰت والارض ۔ یعنی اس سال حج کا وقت گردش کرتا ہو اٹھیک اپنی اس تاریخ پر آگیا ہے جو قدرتی حساب سے اس کی اصل تاریخ ہے ۔ اس آیت میں نَسی کو حرام اور ممنوع قرار دے کر جہلائے عرب کی ان دونوں اغراض کو باطل کر دیا گیا ہے ۔ پہلی غرض تو ظاہر ہے کہ صریح طور پر ایک گناہ تھی ۔ اس کے تو معنی ہی یہ تھے کہ خدا کے حرام کیے ہوئے کو حلال بھی کر لیا جائے اور پھر حیلہ بازی کر کے پابندی قانون کی ظاہری شکل بھی بنا کر رکھ دی جائے ۔ رہی دوسری غرض تو سرسری نگاہ میں وہ معصوم اور مبنی بر مصلحت نظر آتی ہے ، لیکن درحقیقت وہ بھی خدا کے قانون سے بدترین بغاوت تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے عائد کردہ فرائض کے لیے شمسی حساب کے بجائے قمری حساب جن اہم مصالح کی بنا پر اختیار کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے بندے زمانے کی تمام گردشوں میں ، ہر قسم کے حالات اور کیفیات میں اس کے احکام کی اطاعت کے خوگر ہوں ۔ مثلاً رمضان ہے ، تو وہ کبھی گرمی میں اور کبھی برسات میں اور کبھی سردیوں میں آتا ہے ، اور اہل ایمان ان سب بدلتے ہوئے حالات میں روزے رکھ کر فرمانبرداری کا ثبوت بھی دیتے ہیں اور بہترین اخلاقی تربیت بھی پاتے ہیں ۔ اسی طرح حج بھی قمری حساب سے مختلف موسموں میں آتا ہے اور ان سب طرح کے اچھے اور برے حالات میں خدا کی رضا کے لیے سفر کر کے بندے اپنے خدا کی آزمائش میں پورے بھی اُترتے ہیں اور بندگی میں پختگی بھی حاصل کرتے ہیں ۔ اب اگر کوئی گروہ اپنے سفر اور اپنی تجارت اور اپنے میلوں ٹھیلوں کی سہولت کی خاطر حج کو کسی خوشگوار موسم میں ہمیشہ کے لیے قائم کر دے ، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے مسلمان کوئی کانفرنس کر کے طے کرلیں کہ آئندہ سے رمضان کا مہینہ دسمبر یا جنوری کے مطابق کر دیا جائے گا ۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بندوں نے اپنے خدا سے بغاوت کی اور خود مختار بن بیٹھے ۔ اسی چیز کا نام کفر ہے ۔ علاوہ بریں ایک عالمگیر دین جو سب انسانوں کے لیے ہے ، آخر کس شمسی مہینے کو روزے اور حج کے لیے مقرر کرے؟ جو مہینہ بھی مقرر کیا جائے گا وہ زمین کے تمام باشندوں کے لیے یکساں سہولت کا موسم نہیں ہو سکتا ۔ کہیں وہ گرمی کا زمانہ ہوگا اور کہیں سردی کا ۔ کہیں وہ بارشوں کا موسم ہوگا اور کہیں خشکی کا ۔ کہیں فصلیں کاٹنے کا زمانہ ہوگا اور کہیں بونے کا ۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ نسی کی منسُوخی کا یہ اعلان سن ۹ ھجری کے حج کے موقع پر کیا گیا ۔ اور اگلے سال سن ۱۰ ھجری کا حج ٹھیک ان تاریخوں میں ہُوا جو قمری حساب کے مطابق تھیں ۔ اس کے بعد سے آج تک حج اپنی صحیح تاریخوں میں ہو رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: یعنی مہینوں کو آگے پیچھے کر کے انہوں نے چار مہینے کی گنتی تو پوری کردی، لیکن ترتیب بدلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس مہینے میں واقعۃ اللہ تعالیٰ نے لڑائی حرام قرار دی تھی، اس میں انہوں نے لڑائی کو حلال کرلیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٧۔ اس آیت میں اللہ پاک نے مشرکین عرب کی یہ ایک اور گمراہی بیان فرمائی کہ اگرچہ ان لوگوں نے ان چار مہینوں کی توقیر ملت ابراہیم سے بطور وراثت کے پائی تھی مگر اکثر عرب کے معاش اور زندگی کا دار و مدار لوٹ مار پر تھا اور غارت گری سے جو کچھ حاصل ہوتا تھا اس پر گذر اوقات کیا کرتے تھے اس لئے متصل تین مہینے تک ان لوگوں کو لوٹ مار سے باز رہنا شاق گذرا اس واسطے ان مہینوں میں بھی یہ لوگ ان باتوں سے باز نہ آتے تھے اور ان مہینوں میں لوٹ مار کو انہوں نے اپنے اوپر حلال کرلیا تھا اور انکے عوض دوسرے مہینوں کو ان مہینوں کا قائم مقام کر کے چار مہینے کی گنتی پوری کردیا کرتے تھے نسیٔ کے معنے تاخیر کے ہیں یہاں مطلب یہ ہے کہ مثلا محرم کی گنتی میں تاخیر کر کے صفر کو محرم قرار دے دیا کرتے تھے یہ نسیٔ قبیلہ بنی کنانہ کے لوگوں نے نکالی تھی ان میں کا ایک شخص اس باب میں بہت مشہور تھا جس کا نام قلمس حذیفہ بن عبد فقیم بن عدی بن عامر تھا اہل عرب جب حج سے فارغ ہو کر اس کے پاس جمع ہوتے تھے تو یہ خطبہ پڑھتا تھا رجب اور ذی قعدہ اور ذی الحجہ کو حرام کردیتا تھا اور ایک سال محرم کو حلال کرتا اور اس کے عوض صفر کو حرام مقرر کردیتا تھا دوسرے سال محرم کو حرام اور صفر کو حلال کرتا تھا تاکہ چار مہینے کی گنتی پوری ہوجائے اسی کو اللہ پاک نے فرمایا کہ یہ نسیٔ گناہ پر گناہ ہے اور کفر میں ایک بڑی زیادتی ہے جس کے سبب سے کفار گمراہ ہو رہے ہیں اپنی خوشی سے کسی سال ایک مہینہ کو حرام کرلیتے ہیں اصل میں شیطان نے ان کی نظروں میں اس کام کو اچھا کر کے دکھایا ہے مگر خداوند جل شانہ ایسے کفار کو کبھی ہدایت پر نہیں لاتا معتبر سند سے مسند بزار اور مستدرک حاکم میں ابودرداء سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حلال وہ چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا اسی طرح حرام وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا مطلب یہ ہے کہ شریعت الٰہی میں سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کو کسی چیز کے حرام یا حلال ٹھہرانے کا حق نہیں ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابی بکرہ (رض) کی حدیث اوپر کی آیت کی تفسیر میں گذر چکی ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زمانہ اپنی اسی اصلی شکل پر آگیا کہ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے جس بارہ مہینے میں خاص چار مہینے ادب کے ہیں کہ ان میں لڑائی منع ہے یہ حدیثیں آیت کی گویا تفسیر ہیں جس تفسیر کا حاصل یہ ہے کہ جب شریعت الٰہی میں سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کو حرام حلال ٹھہرنے کا حق نہیں ہے تو عرب کے مشرکوں نے مہینے کے ہٹا دینے کی جو رسم ٹھہرا رکھی تھی جس سے خلاف مرضی لڑائی کی ممانعت کے مہینوں میں یہ لوگ لڑائی ٹھان لیتے تھے اور سوائے ذی الحجہ کے اور مہینوں میں حج کو ڈال کر لوگوں کے حج کو بےموسمی کردیتے تھے مکہ میں اسلام پھیل جانے کے بعد اب وہ جاہلیت کی رسم قائم نہیں رہ سکتی بلکہ اسلام کے بعد تو مہینوں کی وہی گنتی قائم رہے گی جو زمین و آسمان کے پیدا کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ نے قرار دی ہے کیونکہ لڑائی کی ممانعت کے اس طرح کے چار مہینے شریعت الٰہی میں نہیں ہیں کہ بارہ مہینے میں جونسے چار مہینے یہ لوگ چاہیں مقرر کرلیں بلکہ وہ خاص چار مہینے ہیں جن کو زمین و آسمان کے پیدا کرنے کے وقت اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حکمت سے انہیں بزرگ ٹھہرایا ہے ان لوگوں کو اللہ کی حکمت کا حال تو معلوم نہیں پھر ان لوگوں نے شیطان کے بہکانے سے یہ حیلہ جو نکال رکھا ہے کہ جس سال چاہتے ہیں صفر کو محرم کی جگہ گن لیتے ہیں اور محرم کو صفر کی جگہ یہ حیلہ ان لوگون کا اس سبب سے ہے کہ یہ لوگ احکام الٰہی کے منکر ہیں اور ایسے منکر لوگوں کو زبردستی راہ راست پر لانا انتظام الٰہی کے برخلاف ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:37) النسییٔ۔ النساء کے معنی کسی چیز کو اس کے وقت سے مؤخر کردینے کے ہیں اسی سے محاورہ ہے نسئت المرأۃ۔ عورت کے حیض کا مقرر وقت ٹل گیا۔ حیض آنے میں تاخیر ہوگئی۔ نساۃ نسییٔ ونسیئۃ۔ تاخیر۔ اسی سے ہے منساۃ لاٹھی یا ڈنڈا کہ اس سے کسی چیز کو پیچھے ہٹایا جاتا ہے۔ اور اسی سے نسا اللہ فی اجلک۔ اللہ تمہاری اجل میں تاخیر کردے۔ یعنی تمہاری عمر دراز کرے۔ عرب کا قدیم دستور تھا کہ ذوالقعدہ ذوالحجہ، محرم اور رجب المرجب کے مہینوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اور اس میں کسی قسم کا جنگ و جدال جائز نہیں سمجھتے تھے لیکن جب ان کا بگاڑ عروج کو پہنچا تو ان میں سے بعض زورآور قبائل اپنے مفاد کی خاطر بعض دفعہ اعلان کردیتے کہ اس سال ہم نے فلاں مہینے کو اشہر حرم سے خارج کردیا ہے اور اس کی بجائے فلاں مہینے کو اشہر حرم میں داخل کرلیا ہے۔ اس طرح وہ چار مہینوں کی گنتی تو پوری کرلیتے لیکن اپنی مرضی سے ان کے تعین میں ردوبدل کرلیتے ۔ اس قسم کا ردوبدل النسی کہلاتا تھا۔ زیادۃ۔ زاد یزید (ضرب) کا مصدر ہے زیادتی ۔ زیادہ ہونا۔ زیادہ کرنا۔ النسیٔ کفر میں مزید اضافہ کا باعث ہے۔ یضل۔ مضارع مجہول واحد مذکر غائب اضلال (افعال) سے گمراہ کئے جاتے ہیں۔ یضل بہ الذین کفروا۔ یعنی کافر لوگ اس النسیٔ کے ذریعہ مزید گمراہ کئے جاتے ہیں۔ ان کے سردار نسی کے ذریعہ ان کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس جگہ فعل (یضل) مسند اور الذین کفروا (مفعول مالم یسم فاعلہ) مسند الیہ ہے۔ فعل کا اسناد مفعول کی طرف کرنے کی قرآن میں متعدد مثالیں ہیں۔ مثلاً اسی آیۃ میں آگے آیا ہے زین لہم سوء اعمالہم۔ یحلونہ عاما ویحرمونہ عاما۔ حلال قرار دے لیتے ہیں اس کو کسی سال اور حرام قرار دے دیتے ہیں اسے کسی سال یعنی کسی سال حرمت کے مہینے کو ماہ حرام رہنے دیتے ہیں اور کسی سال اس کو حلال قرار دے دیتے ہیں۔ یعنی کسی سال اس میں قتل و غارت کو جائز قرار دے لیتے ہیں یحرمونہ اور یحلونہ ہر دو میں ضمیر واحد مذکر غائب النسیٔ کی طرف راجع ہے۔ جس سے وہ ماہ حرام کو بدل دیا کرتے تھے لیواطئوا۔ مضارع جمع مذکر غائب مواطاۃ (مفاعلۃ) مصدر تاکہ موافقت پیدا کرلیں درست کرلیں۔ برابر کرلیں۔ لیواطئوا عدۃ ما حرم اللہ۔ تاکہ جس تعداد کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اس کے ساتھ موافقت پیدا کرلیں۔ مہینوں کی گنتی کو برابر کرلیں۔ فیحلوا ما حرم اللہ۔ پس اس طرح جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اس کو اپنی مطلب برآری کے لئے حلال کرلیں۔ زین۔ مزین کرکے دکھایا گیا۔ خوشنما کرکے دکھایا گیا۔ تزئین (تفعیل) سے ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ سوء اعمالہم۔ ان کے اعمال کی برائی ۔ قباحت۔ گناہ۔ برا کام ۔ عیب۔ ساء یسوء سوء (باب نصر) سے اسم ہے۔ ان کے برے اعمال۔ ان کے اعمال میں سے برے عمل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 زمانہ جاہلیت میں مشرکین ان چار مہینوں کی حرمت کے قائے ل تھے مگر ضرورت پڑنے پر حیلہ سازی کرتے اور کسی حرام مہینے میں جنگ کرنے پڑتی تو اسے سرکا کر اس کی جگہ کوئی اگلا غیر حرام مہینہ رکھ دیتے اور اسے م نسیئی کہتے اور حج کے موقع پر اس کے علان اکا اختیار بنو کنانہ کو تھا۔ چناچہ آخر میں ابو ثمامہ جنا دہ بن عوف کنانہ یہ اعلان کیا کرتے تھے۔ حافظ ابن کثیر (رح) لکھتے ہیں یہ نسیئی کی رسم صرف محرم اور صفر کے مہینوں میں ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے زیادۃ فی الکفر فرماکر اس کی تر دید فرمائی ( کبیر)2 سال میں چار مہینوں کی گنتی پوری کرلیں۔ آگے پیچھے ہوجائیں تو کوئی ہرج نہیں۔ ( وحیدی)3 محرم کو سرکا کر صفر کی جگہ رکھ لیا تو گو یا انہوں نے محرم کے حلال قرار دے لیا۔ اب جب صفر کو محرم کی جگہ رکھ لیا اور اگلہ مہینہ محرم ہوا گو یا نیا سال شروع ہوگیا کبیہ کی رسم سے سال کے چودہ مہینے بھی ہوجاتے۔ ( وحیدی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ یہاں سے غزوہ تبوک کا بیان ہے تبوک ایک مقام ہے ملک شام میں رسول اللہ جب فتح مکہ و غزوہ حنین وغیرہما سے فارغ ہوئے تو آپ کو خبر ہوئی کہ روم کا بادشاہ مدینہ پر فوج بھیجنی چاہتا ہے اور وہ فوج تبوک میں جمع کی جائے گی آپ نے خود ہی قصد سفر کا مقابلہ کے لیے فرمایا اور مسلمانوں میں اس کا اعلان عام کردیا چونکہ وہ زمانہ گرمی کی شدت کا تھا اور مسلمانوں کے پاس سامان بہت کم تھا اور سفر بھی دوردراز کا تھا اس لیے اس غزوہ میں جانا بڑی ہمت کا کام تھا اس لیے ان آیا میں اس کی بہت ترغیب دی گئی اور چونکہ منافقین بوجہ عدم ایمان وعدم اخلاص کے اس میں طرح طرح کے بہانے پیش کرنے لگے اور ان کی طرح طرح کی خباثتیں ظاہر ہوئیں اس لیے ان آیات میں ان پر بھی بہت تشنیع ہوئی ہے۔ غرض آپ اس مقام تبوک تک تشریف لے جاکر لشکر نصاری کے منتظر رہے مگر وہ ایسے مرعوب ہوئے کہ ان کا حوصلہ نہ پڑا اور آپ وہاں ایک عرصہ مقیم رہ کر خیر و عافیت کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لائے اور یہ واقعہ رجب 9 ہجری میں ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ مضمون جاری ہے۔ مشرکین اور کفار نے جس طرح اپنی اغراض کی خاطر دین ابراہیم کے دوسرے مسائل کو تبدیل کردیا تھا اسی طرح انھوں نے اپنے مفاد کے پیش نظر حرمت والے مہینوں کو بھی تبدیل کردیا تھا۔ جس کی مؤرخین نے دو وجوہات بیان فرمائی ہیں۔ ١۔ ان مہینوں میں اپنے دشمن کو کمزور سمجھتے تو حرمت والے مہینے کی پرواہ کیے بغیر اس پر حملہ کردیتے۔ ٢۔ قمری مہینوں کے حساب سے حج کا موسم تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جس سے مناسک حج کی ادائیگی میں دقت محسوس کرتے اور اس کے ساتھ ان کی تجارت پر بھی منفی اثرات پڑتے تھے کیونکہ حج کے موقع پر دنیا کے کونے کونے سے تاجر آتے اور شدت موسم کی وجہ سے کچھ لوگ ان دنوں آنے سے کتراتے۔ ان وجوہات کی بنا پر انھوں نے ” نسیء “ کا من ساختہ اصول بنایا نسیء کا معنیٰ ہے مؤخر کرنا یعنی اگر حرمت والے مہینوں میں انھیں مار دھاڑ اور جنگ وجدال کی ضرورت پیش آتی تو وہ ان مہینوں میں قتل و غارت اور جنگ وجدال کرلیتے اور اس کے بدلے میں سال کے کسی اور مہینے کو محترم مہینہ قرار دے لیتے۔ اس طرح اپنے فائدے کی خاطر اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حرمت والے مہینوں کو تبدیل کردیتے۔ ان کی من ساختہ تقویم سے سال کا کیلنڈر تیار ہوتا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حج ذوالحجہ میں ہونے کی بجائے بارہ مہینوں میں تبدیل ہوتا رہتا۔ ان کی اس حرکت کو اللہ تعالیٰ نے کفر پر کفر کرنے کے مترادف قرار دیا ہے کیونکہ انھوں نے اللہ کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا اور اس حرکت پر نادم ہونے کی بجائے یہ سمجھ کر مطمئن ہوجاتے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حرمت والے چار مہینے پورے کردیے ہیں اور ان کی حرمت کو قائم رکھا ہے۔ اس لیے ہمارا حج بھی ملت ابراہیم کے مطابق ادا ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہی حج مقبول ہوتا ہے۔ جسے اس کے مقرر کردہ مناسک اور ایّام میں ادا کیا جائے۔ حج کے ایّام تبدیل کرنے اور اللہ تعالیٰ کی حرمتیں پامال کرنے کے باوجود ان کا عقیدہ تھا کہ ہم نیک کام کر رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ حج ہر موسم میں آئے تاکہ مسلمان مشقت کے عادی ہوں۔ جس سے ان کو دشمن کا مقابلہ کرنے کی تربیت حاصل ہو اور وہ اپنے رب کے مقررہ کردہ اصول کے پابند رہتے ہوئے اس کے تقاضے پورے کریں۔ دوسری حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تمام ممالک کے لیے حج کا موسم یکساں رہے۔ یہاں تک کفار کا بنایا ہوا ” نسی “ کا اصول تھا۔ یہ عقیدہ اور تصور شیطان کا پیدا کردہ ہے تاکہ انسان ایک رسم اور بدعت کو دین اور ثواب سمجھ کر کرے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا عمل مردود اور گناہ ہی رہتا ہے بدعت و رسومات پر عمل کرنے والے لوگ حقیقتاً اللہ تعالیٰ کے دین کے ساتھ کفر کرتے ہیں کیونکہ وہ اسے دین اور ثواب سمجھ کر کرتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ اور انھیں ہدایت نہیں دیتا۔ کفار کے بنائے ہوئے نسئی کے اصول اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے قانون کے مطابق حجۃ الوداع کا حج ٹھیک اس مہینہ اور ایام میں آیا جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھا تھا۔ اسی موقعہ پر آپ نے یہ الفاظ ادا فرمائے : (عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال الزَّمَانُ قَدْ اسْتَدَارَ کَہَیْءَتِہِ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ السَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ثَلَاثَۃٌ مُتَوَالِیَاتٌ ذو الْقَعْدَۃِ وَذُو الْحِجَّۃِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِی بَیْنَ جُمَادَی وَشَعْبَانَ ) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق ] ” حضرت ابو بکرہ (رض) نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بیان نقل کرتے ہیں آپ نے فرمایا زمانہ گھوم کر بالکل اپنی اصل جگہ پر آگیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینوں کا ہے اس میں سے چار حرمت والے ہیں تین مہینے متواتر ہیں۔ ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم جبکہ رجب جمادی اور شعبان کے درمیان ہے۔ “ مسائل ١۔ نسیء پر عمل کرنا کفر کرنے کے مترادف ہے۔ ٢۔ دین میں رد و بدل کرنا پرلے درجے کا کفر ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال اور اس کے حلال کو حرام کرنا گمراہی ہے۔ ٤۔ شیطان برے اعمال اور بدعات کو خوبصورت اور دین بنا کر پیش کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شیطان کن لوگوں کے اعمال خوبصورت بناتا ہے : ١۔ ظالموں کے دل سخت ہوگئے اور شیطان ان کے اعمال کو مزین کرکے دکھاتا ہے۔ (الانعام : ٤٣) ٢۔ اکثر مشرکین کے لیے قتل اولاد کا عمل مزین کردیا۔ (الانعام : ١٣٧) ٣۔ شیطان نے اللہ کے راستہ سے روکنے والوں کے برے اعمال کو مزین کردیا اور کہا تم ہی غالب ہو گے۔ (الانفال : ٤٨) ٤۔ اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کئی امتوں کی طرف رسول بھیجے شیطان نے ان کے بد اعمال کو مزین کردیا۔ (النحل : ٦٣) ٥۔ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرنے والوں کے برے اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (النمل : ٢٤) ٦۔ قوم عاد وثمود کے اعمال بد کو شیطان نے مزین کردیا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٧۔ ہر گروہ کے بد اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (الانعام : ١٠٩) ٨۔ شیطان نے کہا میں ضرور ان کے اعمال ان کے سامنے مزین کر کے پیش کروں گا اور انہیں گمراہ کرونگا۔ (الحجر : ٣٩) ٩۔ حد سے تجاوز کرنے والوں کے اعمال ان کے لیے مزین کیے جاتے ہیں۔ (یونس : ١٢) ١٠۔ کفار کے اعمال ان کے لیے مزین کیے جاتے ہیں۔ (الانعام : ١٢٢) ١١۔ انہوں نے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دیا ان کے لیے برے اعمال مزین کر دئیے گئے۔ (التوبۃ : ٣٧) ١٢۔ کفار کے لیے ان کی تدابیر کو مزین کردیا گیا تو انہوں نے اللہ کی راہ سے روکنا شروع کردیا۔ (الرعد : ٣٣) ١٣۔ وہ شخص جس کے لیے برے اعمال مزین کردئیے گئے اور وہ انہیں اچھے اعمال تصور کرتا ہے اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت سے نوازتا ہے۔ (فاطر : ٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت مجاہد کا کہنا ہے کہ " بنی کنانہ کا ایک شخص اپنے گدھے پر سوار ہوکر ہر سال موسم حج میں آتا ، اور یہ اعلان کرتا : لوگو ! مجھ پر نہ کوئی عیب جوئی کی جاسکتی ہے اور نہ میں ناکام ہوتا ہوں۔ نہ میری بات کو رد کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے محرم کو حرام قرار دیا اور صفر کو موخر کردیا ہے ۔ اس کے بعد وہ دوسرے سال آتا اور یہی بات کہتا۔ ہم نے صفر کو حرام قرار دیا ہے اور محرم کو موخر کردیا ہے اور یہ مطلب ہے۔ لیواطئوا عدۃ ما حرم اللہ : " تاکہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری کردیں " یعنی چار ماہ کی تعداد پوری کردیں۔ اس طرح وہ حلال مہینوں کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیں۔ عبدالرحمن ابن زید ابن اسلم کا کہنا ہے کہ یہ شخص بنی کنانہ میں سے تا اور اس کام ؟ ؟ تھا۔ جاہلیت کا رواج یہ تھا کہ ان میں سے کوئی قبیلہ دوسرے پر حرام مہینوں میں ڈاکہ نہ ڈالتا تھا۔ بعض اوقات ہوتا کہ ایک شخص کے سامنے اس کے باپ کا قاتل آجاتا لیکن وہ اس پر ہاتھ نہ ڈالتا اگر حرام مہینوں کوئی مقاتلہ کے لی دوسروں سے امداد طلب کرتا تو لوگ کہتے ، دیکھتے نہیں حرام مہینہ ہے تو امداد طلب کرنے والا یہ کہتا کہ اسی سال ہم اسے ملتوی کردیں گے۔ چناچہ اس سال محرم کے بجائے دو صفر ہوں گے اور دوسرے سال ہم دو محرم کردیں گے۔ اس طرح وہ لوگ کرلیتے۔ اور اگلے سال وہ سفر کے مہینے کو بھی محرم کی طرح حرام قرار دیتے۔ اس طرح دو مہینے حرام قرار پاتے۔ اس آیت کی تفسیر میں یہی دو اقوال ہیں اور یہی نسیئ کی دو صورتیں رائج تھیں۔ پہلی صورت میں وہ محرم کے بدلے صفر کو رحرام قرار دیتے۔ اور چار کی تعداد پوری کرتے لیکن اللہ نے منصوص طور پر جن مہینوں کو حرام قرار دیا تھا۔ یہ چار بعینہ وہ نہ ہوتے کیونکہ اس میں محرم نہ ہوتا۔ اور دوسری صورت میں ایک سال تین مہینے حرام ہوتے اور دوسرے میں پانچ حرام ہوتے اور اس طرح دو سالوں کی اوسط آٹھ کی تعداد پوری ہوجاتی۔ لیکن اس طرح بھی محرم کا احترام بہرحال ٹوٹ جاتا۔ اور اس کی جگہ صفر حرام ہوجاتا۔ ان دونوں صورتوں میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیا جاتا جو اسلامی شریعت کے خلاف عمل تھا۔ اسے زیادۃ فی الکفر قرار دیا گیا کیونکہ نظریاتی کفر کے ساتھ یہ از خود قانون سازی کرکے کفر کا ارتکاب کیا گیا۔ يُضَلُّ بِهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا " جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں " وہ دھوکہ دیتے ہیں ، دین کو کھیل بناتے ہیں اور نصوص میں تاویل و تحریف کرتے ہیں۔ زُيِّنَ لَهُمْ سُوْۗءُ اَعْمَالِهِمْ " ان کے برے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں " اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کو برائی اچھائی نظر آتی ہے ، وہ بدزبانی کو زیبائش سمجھتے ہیں۔ اس طرح وہ گمراہی کو گمراہی سمجھتے ہی نہیں اور کفریہ اعمال میں بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْن : " اور منکرین حق کو اللہ کی ہدایت نہیں دیا کرتا " کیونکہ انہوں نے خود اپنے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں۔ انہوں نے دلائل ہدایت پر غور کرنا ہی چھوڑ دیا۔ لہذا نہوں نے اپنے آپ کو اس بات کا مستحق بنا لیا ہے کہ وہ جس حال میں ہیں ، اللہ انہیں اس میں چھوڑ دے۔ ۔۔۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت میں جاہلیت والوں کے ایک طریقہء کار کا تذکرہ فرمایا اور وہ یہ کہ حرام مہینے کو موخر کردینا کفر میں زیادتی ہے، مشرکین عرب مشرک تو تھے ہی اپنے اس طریقہ کار سے بھی مزید کفر میں ترقی کر گئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تحریم کو بدل کر أشھر الحرام کو حلال کرلیتے تھے۔ آگے بڑھنے سے پہلے النَّسِیْءُ یعنی حرام مہینوں کو موخر کرنے کا مطلب سمجھ لینا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے چار مہینوں کو حرام قرار دیا تھا یعنی ان میں قتل و قتال کی اجازت نہ تھی۔ قریش مکہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے بھی تھے اور کعبہ شریف کے متولی بھی تھے جو ان کے جد امجد حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل ( علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا، ان لوگوں میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی شریعت میں سے جو باتیں باقی رہ گئی تھیں، ان میں حج کرنا بھی تھا اور چار مہینوں کو محترم بھی سمجھتے تھے اور ان میں قتل و قتال کو حرام مانتے تھے۔ لیکن ان میں اور عرب کے دیگر قبائل میں جاہلیت کی وجہ سے شرو فساد اور قتل و قتال ایک پیشہ بن کر رہ گیا تھا اور ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حملہ کر کے لوٹ مار کے ذریعہ مال حاصل کر کے اپنی معیشت بناتا تھا۔ کبھی لڑائی ٹھن جاتی تھی اور لوٹ مار اور جنگ کی ضرورت ان چار مہینوں میں سے کسی مہینے میں محسوس کرتے تھے تو یوں کرلیتے تھے کہ کسی مہینے کو موخر کردیتے تھے۔ مثلاً ماہ محرم میں انہیں جنگ کرنا ہوتا تو یوں کہتے تھے کہ یہ ماہ محرم نہیں ہے بلکہ ماہ صفر ہے۔ محرم اس سے آئندہ مہینہ ہوگا۔ اس طرح سے محرم کو صفر قرار دے کر جنگ کرلیتے تھے اور ماہ صفر کو شہر حرام قراد دے دیتے تھے، اللہ کی طرف سے جو مہینہ حرمت والا تھا اس کو اپنی طرف سے حلال اور جو مہینہ حلال تھا اسے حرام قرار دے دیتے تھے۔ اس طرح اللہ کی تحلیل و تحریم کو بدل دیتے تھے اور اپنے نفسوں کو یوں سمجھا لیتے تھے کہ ہم نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ جو قتال کیا ہے وہ شہر حرام میں نہیں کیا (حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ مہینہ حرمت والا تھا) ان لوگوں کے آگے پیچھے کردینے سے نہ حقیقت میں کوئی مہینہ بدلا اور نہ تحلیل و تحریم کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا حکم بدلا۔ اوپرماہ محرم و ماہ صفر کے آگے پیچھے کرنے کی ایک مثال پیش کی گئی ہے۔ اس طرح سے وہ سال کے بارہ مہینوں کو اپنی اپنی جگہ سے ہٹا چکے تھے۔ اور یہ جانتے ہوئے کہ حج کا مہینہ ماہ ذوالحجہ ہی ہے آگے بڑھاتے بڑھاتے یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ حج بھی ذوالحجہ کے علاوہ دوسرے مہینوں میں ہونے لگا۔ ١٠ ھ میں جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حج کیا جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔ تو وہ ٹھیک نو ذی الحجہ کو واقع ہوا تھا۔ آپ نے یوم النحر یعنی دسویں ذوالحجہ کو جو خطبہ دیا اس میں فرمایا اِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ کَھَیْءَتِہٖ یَوْمَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضَکہ بلاشبہ زمانہ گھوم کر اپنی اسی جگہ پر آگیا ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا۔ یعنی مشرکین کے آگے بڑھانے اور پیچھے ہٹانے کی تغییر اور تبدیل جو تھی اس کا کوئی دخل اور اثر مہینوں کی ترتیب میں نہیں رہا۔ اگر یہ لوگ تغییر اور تبدیل نہ کرتے تب بھی یہ مہینہ اپنی اصل کے اعتبار سے ذی الحجہ ہی ہوتا لہٰذا بارہ مہینے اب اپنی جگہ پر آگئے ہیں۔ مشرکین عرب کی اس النَّسِیْءُ والی رسم جاہلی کے بارے میں فرمایا (یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) کہ اس کے ذریعہ کفار گمراہ کیے جاتے ہیں (یُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّیُحَرِّّمُوْنَہٗ ) کسی مہینے کو ایک سال حلال قرار دیتے تھے اور ایک سال حرام قرار دے دیتے تھے۔ (لِّیُوَاطِءُوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ) تاکہ وہ ان مہینوں کی گنتی پوری کرلیں جو اللہ نے حرام قرار دیئے تھے یعنی سال میں گنتی کے اعتبار سے چار مہینوں کی حرمت اپنے خیال میں اس طرح بر قرار رکھتے تھے کہ کوئی سے چار مہینے اپنی اغراض کے مطابق حرام مان لیتے تھے۔ چاہے وہ وہی مہینے ہوں جو اللہ کی طرف سے حلال ہیں اسی طرح اللہ کے حرام قرار دیئے ہوئے مہینوں کو حلال قرار دے دیتے تھے۔ (فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللّٰہُ ) اور صرف یہ دیکھتے تھے کہ گنتی کے اعتبار سے آٹھ مہینے ہم نے حلال قرار دیئے حالانکہ ان حلال قرار دیئے ہوئے مہینوں میں وہ مہینے بھی آجاتے تھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام قرار دیئے گئے تھے۔ کبھی تو مہینوں کو آگے پیچھے کر کے تحریم اور تحلیل کی رسم کا طریقہ اختیار کرلیتے تھے اور کبھی یوں کہتے تھے کہ اس سال محرم کا مہینہ حرام نہیں ہے اس کی جگہ صفر کا مہینہ حرام ہوگا پھر اپنی اغراض نفسانیہ کے لیے ضرورت محسوس کرتے تو صفر کا مہینہ آنے پر کہہ دیتے تھے کہ یہ مہینہ حرام نہیں ہے۔ آئندہ مہینہ یعنی ربیع الاول حرام ہوگا۔ شیطان نے انہیں اس قسم کا سبق پڑھایا تھا اور ان کے اعمال کو اچھا کر کے پیش کردیا تھا۔ اسی کو فرمایا (زُیِّنَ لَھُمْ سُوْٓءُ اَعْمَالِھِمْ ) کہ ان کے لیے ان کے برے اعمال مزین کردیئے گئے جنہیں وہ اچھا سمجھتے ہیں۔ پھر فرمایا (وَ اللّٰہُ لَایَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ ) کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا (کیونکہ وہ ہدایت پر آنا نہیں چاہتے) ۔ فائدہ : احکام شرعیہ میں قمری مہینوں کا اعتبار ہے جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت کریمہ (یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ ) کی تفسیر میں ہم نے لکھ دیا ہے۔ عبادات، حج، زکوٰۃ، عدت کا اعتبار چاند کے مہینوں سے ہے۔ اسی لیے چاند کے مہینوں کا محفوظ رکھنا اور ان کی ابتداء انتہاء جاننا فرض کفایہ ہے۔ بعض قوموں میں ہر تیسرا سال تیرہ مہینے کا ہوتا ہے۔ یہ اللہ کی وضع کردہ ترتیب کے خلاف ہے۔ دنیاوی معاملات کے لیے بطور یاد داشت اگر قمری مہینوں کے علاوہ دوسرے مہینوں کو استعمال کیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ لیکن پسندیدہ نہیں ہے۔ کیونکہ ہجری مہینوں کے سوا جو دوسرے مہینے رائج ہیں انہیں دشمنان دین نے اختیار کر رکھا ہے۔ وہ ہمارے ہجری مہینوں کو کوئی حیثیت نہیں دیتے تو ہمیں ان کی طرف مائل ہونے کی کیا ضرورت ہے ؟

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

31: النسیئ مصدر ہے بمعنی تاخیر یعنی ایک ماہ کو اس کی مقررہ جگہ سے پیچھے شمار کرنا اور اللہ کی تحریم کو باطل کردینا کفر و ضلالت میں اضافہ ہے اور اس طرح ان کا کفر دوہرا ہوجاتا ہے۔ ایک توحید و رسالت کے انکار کا کفر اور دوسرا اللہ کی تحریمات کو باطل کرنے کا کفر “ لِیُوَاطِئُوْا الخ ” ایک سال محرم کو حلال کرتے ہیں اور ایک سال حرام تاکہ سال میں اشہر حرم کی تعداد چار ہوجائے لیکن مہینوں کی خصوصیت کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ “ ان العرب کانوا اذا جاء شھر حرام وھم محاربون احلوه وحرموا مکانه شھراً اٰخر فیسرحلون المحرم ویحرمون صفراً الخ ” (روح ج 10 ص 93) ۔ 32: یعنی اشہر حرم کی تعداد پوری کرنے کے لیے کسی حلال مہینے کو حرام قرار دے لیتے اور حرام مہینے کو حلال کرلیتے۔ خصوصیت ماہ کی پرواہ نہ کرتے۔ “ و الحاصل انه کان الواجب علیھم العدة والتخصیص فحیث ترکوا التخصیص فقد استحلوا ما حرم اللہ تعالیٰ ” (روح) یہاں سورت کا پہلا حصہ ختم ہوا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

37 کسی مہینے کو ہٹاکر آگے پیچھے کردینا کفر کے عہد میں بڑھائی ہوئی بات ہے جس سے منکرینِ دین حق گمراہ کئے جاتے ہیں کہ وہ ایک سال حرام مہینے کو حلال کرلیتے ہیں اور دوسرے سال اس کو حرام کرلیتے ہیں تاکہ نج مہینوں کو اللہ تعالیٰ نے حرمت والا مقرر کیا ہے اور جن کو ادب کے لئے تجویز فرمایا ہے ان کی گنتی پوری کردیں لہٰذا اس طرز عمل سے یہ لوگ ان مہینوں کو جن کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے حلال کرلیتے ہیں ان کے اعمال کی برائی ان کو مزین اور خوش نما کرکے دکھائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے منکرین حق کو ہدایت کی توفیق نہیں دیا کرتا۔ حضرت ابراہیم کی ملت میں مذکورہ چار مہینے ادب اور حرمت کے شمار ہوتے تھے اور ان مہینوں میں امن رہتا تھا جنگ بند ہوجاتی تھی لیکن دورکفرو جہالت میں جنگی مصلحتوں کے پیش نظر ان مہینوں میں ردو بدل کرنے لگے محرم کے مہینے کو کہہ دیا کہ یہ صفر کا مہینہ شمار ہوگا اور صفر کا مہینہ محرم کا شمار کیا جائے گا عام طریقہ سے محرم اور صفر کا بہت زیادہ تبادلہ کیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس ردوبدل سے حرمت و حلت ہی بدل جاتی تھی جس مہینے جنگ بند ہونی چاہئے اس میں لڑائی لڑلئے اور جس میں جنگ کی اجازت تھی اس میں جنگ بند کرکے بیٹھ گئے اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کی مذمت فرمائی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کافروں نے ایک گمراہی نکالی تھی کہ آپس میں لڑتے اس میں آجاتا ماہ حرام اس کو ہٹا دیتے کہتے اب کے برس صفر پہلے آیا محرم پیچھے آوے گا ماہ حرام میں لڑتے اس حیلہ سے اس پر حق تعالیٰ نے فرمایا۔ 12 ۔ برے اعمال اگر کسی کو اچھے معلوم ہونے لگیں تو سمجھو توبہ کی توفیق ہوگئی۔