Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 81

سورة التوبة

فَرِحَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ بِمَقۡعَدِہِمۡ خِلٰفَ رَسُوۡلِ اللّٰہِ وَ کَرِہُوۡۤا اَنۡ یُّجَاہِدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ قَالُوۡا لَا تَنۡفِرُوۡا فِی الۡحَرِّ ؕ قُلۡ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا ؕ لَوۡ کَانُوۡا یَفۡقَہُوۡنَ ﴿۸۱﴾

Those who remained behind rejoiced in their staying [at home] after [the departure of] the Messenger of Allah and disliked to strive with their wealth and their lives in the cause of Allah and said, 'Do not go forth in the heat." Say, "The fire of Hell is more intensive in heat" - if they would but understand.

پیچھے رہ جانے والے لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے جانے کے بعد اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہیں انہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جانوں سے جہاد کرنا نا پسند رکھا اور انہوں نے کہہ دیا کہ اس گرمی میں مت نکلو ۔ کہہ دیجئے کہ دوزخ کی آگ بہت ہی سخت گرم ہے کاش کہ وہ سمجھتے ہوتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Hypocrites rejoice because They remained behind from Tabuk! Allah says; فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَفَ رَسُولِ اللّهِ ... Those who stayed away (from Tabuk expedition) rejoiced in their staying behind the Messenger of Allah; Allah admonishes the hypocrites who lagged behind from the battle of Tabuk with the Companions of the Messenger of Allah, rejoicing that they remained behind after the Messenger departed for the battle, ... وَكَرِهُواْ أَن يُجَاهِدُواْ ... they hated to strive and fight, (along with the Messenger), ... بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَقَالُواْ ... with their properties and their lives in the cause of Allah, and they said, (to each other), ... لااَ تَنفِرُواْ فِي الْحَرِّ ... "March not forth in the heat." Tabuk occurred at a time when the heat was intense and the fruits and shades became delightful. This is why they said, لااَ تَنفِرُواْ فِي الْحَرِّ ("March not forth in the heat)." Allah said to His Messenger, ... قُلْ ... Say, (to them), ... نَارُ جَهَنَّمَ ... "The fire of Hell..., which will be your destination because of your disobedience, ... أَشَدُّ حَرًّا ... ". ..is more intense in heat;" than the heat that you sought to avoid; it is even more intense than fire. Imam Malik narrated that Abu Az-Zinad said that Al-A`raj narrated that Abu Hurayrah said that the Messenger of Allah said, نَارُ بَنِي ادَمَ الَّتِي تُوقِدُونَهَا جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّم The fire that the son of Adam kindles is but one part of seventy parts of the Fire of Jahannam. They said, "O Allah's Messenger! This fire alone is enough." He said, فُضِّلَتْ عَلَيْهَا بِتِسْعَةٍ وَسِتِّينَ جُزْءًا (Hellfire) was favored by sixty-nine parts. The Two Sahihs collected this Hadith. Al-A`mash narrated that Abu Ishaq said that An-Nu`man bin Bashir said that the Messenger of Allah said, إِنَّ أَهْوَنَ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِمَنْ لَهُ نَعْلَنِ وَشِرَاكَانِ مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ كَمَا يَغْلِي الْمِرْجَلُ لاَ يَرَى أَنَّ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ النَّارِ أَشَدُّ عَذَابًا مِنْهُ وَإِنَّهُ أَهْوَنُهُمْ عَذَابًا On the Day of Resurrection, the person who will receive the least punishment among the people of the Fire, wears two slippers made from the Fire of Jahannam causing his brain to boil, just as a pot boils. He thinks that none in the Fire is receiving a more severe torment than he, when in fact he is receiving the least torment. The Two Sahihs collected this Hadith. There are many other Ayat and Prophetic Hadiths on this subject. Allah said in His Glorious Book, كَلَّ إِنَّهَا لَظَى نَزَّاعَةً لِّلشَّوَى By no means! Verily, it will be the Fire of Hell. Taking away (burning completely) the scalp! (70:15-16) هَـذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُواْ فِى رَبِّهِمْ فَالَّذِينَ كَفَرُواْ قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارِ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ يُصْهَرُ بِهِ مَا فِى بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ وَلَهُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ كُلَّمَأ أَرَادُواْ أَن يَخْرُجُواْ مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُواْ فِيهَا وَذُوقُواْ عَذَابَ الْحَرِيقِ Al-Hamim (boiling water) will be poured down over their heads. With it will melt (or vanish away) what is within their bellies, as well as (their) skins. And for them are hooked rods of iron (to punish them). Every time they seek to get away therefrom, from anguish, they will be driven back therein, and (it will be said to them): "Taste the torment of burning!" (22:19-22) and, إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِـَايَـتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَاراً كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَـهُمْ جُلُوداً غَيْرَهَا لِيَذُوقُواْ الْعَذَابَ Surely, those who disbelieved in Our Ayat, We shall burn them in Fire. As often as their skins are roasted through, We shall change them for other skins that they may taste the punishment. (4:56) Allah said here, ... قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَّوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ Say: "The fire of Hell is more intense in heat;" if only they could understand! meaning, if they have any comprehension or understanding, they would have marched with the Messenger of Allah during the heat, so as to save themselves from the Fire of Jahannam, which is much more severe. Allah, the Exalted, then warns the hypocrites against their conduct,

جہنم کی آگ کالی ہے جو لوگ غزوہ تبوک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تھے اور گھروں میں ہی بیٹھنے پر اکڑ رہے تھے ۔ جنہیں راہ اللہ میں مال و جان سے جہاد کرنا مشکل معلوم ہوتا تھا جنہوں نے ایک دوسرے کے کان بھرے تھے کہ اس گرمی میں کہاں نکلو گے؟ ایک طرف پھر پکے ہوئے ہیں سائے بڑھے ہوئے ہیں دوسری جانب لو کے تھپیڑے چل رہے ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ جہنم کی آگ جس کی طرف تم اپنی اس بد کرداری سے جا رہے ہو وہ اس گرمی سے زیادہ بڑھی ہوئی حرارت اپنے اندر رکھتی ہے ۔ یہ آگ تو اس آگ کا سترواں حصہ ہے جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے اور روایت میں ہے کہ تمہاری یہ آگ آتش دوزخ کے ستر اجزاء میں سے ایک جز ہے پھر بھی یہ سمندر کے پانی میں دو دفعہ بجھائی ہوئی ہے ورنہ تم اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کرسکتے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک ہزار سال تک آتش دوزخ دھونکی گئی تو سرخ ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک جلائی گئی تو سفید ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکی گئی تو سیاہ ہو گئی پس وہ اندھیری رات جیسی سخت سیاہ ہے ۔ ایک بار آپ نے ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰۗىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ Č۝ ) 66- التحريم:6 ) کی تلاوت کی اور فرمایا ایک ہزار سال تک جلائے جانے سے وہ سفید پڑ گئی پھر ایک ہزار سال تک بھڑکانے سے سرخ ہو گئی پھر ایک ہزار سال تک دھونکے جانے سے سیاہ ہو گئی پس وہ سیاہ رات جیسی ہے اس کے شعلوں میں بھی چمک نہیں ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اگر دوزخ کی آگ کی ایک چنگاری مشرق میں تو اس کی حرارت مغرب تک پہنچ جائے ۔ ابو یعلی کی ایک غریب روایت میں ہے کہ اگر اس مسجد میں ایک لاکھ بلکہ اس سے بھی زیادہ آدمی ہوں اور کوئی جہنمی یہاں آ کر سانس لے تو اس کی گرمی سے مسجد اور مسجد والے سب جل جائیں ۔ اور حدیث میں ہے کہ سب سے ہلکے عذاب والا دوزخ میں وہ ہو گا جس کے دونوں پاؤں میں دو جوتیاں آگ کی تسمے سمیت ہوں گی جس کی گرمی سے اس کی کھوپڑی ابل رہی ہو گی اور وہ سمجھ رہا ہو گا کہ سب سے زیادہ سخت عذاب اسی کو ہو رہا ہے حالانکہ دراصل سب سے ہلکا عذاب اسی کا ہے ۔ قرآن فرماتا ہے کہ وہ آگ ایسی شعلہ زن ہے جو کھال اتار دیتی ہے ۔ اور کئی آیتوں میں ہے ان کے سروں پر کھولتا ہوا گرم پانی بہایا جائے گا ۔ جس سے ان کے پیٹ کی تمام چیزیں اور ان کے کھالیں جھلس جائیں گی پھر لوہے کے ہتھوڑوں سے ان کے سر کچلے جائیں گے ۔ وہ جب وہاں سے نکلنا چاہیں گے اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ جلنے کا عذاب چکھو ۔ ایک اور آیت میں ہے کہ جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے انکار کیا انہیں ہم بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈال دیں گے ان کی کھالیں جھلستی جائیں گی اور ہم ان کھالوں کے بدلے اور کھالیں بدلتے جائیں گے کہ وہ خوب عذاب چکھیں ۔ اس آیت میں بھی فرمایا ہے کہ اگر انہیں سمجھ ہوتی تو وہ جان لیتے کہ جہنم کی آگ کی گرمی اور تیزی بہت زیادہ ہے ۔ تو یقینا یہ باوجود موسمی گرمی کے رسول اللہ کے ساتھ جہاد میں خوشی خوشی نکلتے اور اپنے جان و مال کو راہ اللہ میں فدا کرنے پر تل جاتے ۔ عرب کا شاعر کہتا ہے کہ تو نے اپنی عمر سردی گرمی سے بچنے کی کوشش میں گذار دی حالانکہ تجھے لائق تھا کہ اللہ کی نافرمانیوں سے بچتا کہ جہنم کی آگ سے بچ جائے ۔ اب اللہ تبارک و تعالیٰ ان بدباطن منافقوں کو ڈرا رہا ہے کہ تھوڑی سی زندگی میں یہاں تو جتنا چاہیں ہنس لیں ۔ لیکن اس آنے والی زندگی میں ان کے لئے رونا ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ لوگو روؤ اور رونا نہ آئے تو زبردستی روؤ جہنمی روئیں گے یہاں تک کہ ان کے رخساروں پر نہر جیسے گڑھے پڑ جائیں گے آخر آنسو ختم ہو جائیں گے اب آنکھیں خون برسانے لگیں گی ان کی آنکھوں سے اس قدر آنسو اور خون بہا ہو گا کہ اگر کوئی اس میں کشتی چلانی چاہے تو چلا سکتا ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ جہنمی جہنم میں روئیں گے اور خوب روتے ہیں رہیں گے ، آنسو ختم ہونے کے بعد پیپ نکلنا شروع ہوگا ۔ اس وقت دوزخ کے داروغے ان سے کہیں گے اے بدبخت رحم کی جگہ تو تم کبھی ہو نہ روئے اب یہاں کا رونا دھونا لاحاصل ہے ۔ اب یہ اونچی آوازوں سے چلا چلا کر جنتیوں سے فریاد کریں گے کہ تم لوگ ہمارے ہو رشتے کنبے کے ہو سنو ہم قبروں سے پیاسے اٹھے تھے پھر میدان حشر میں بھی پیاسے ہی رہے اور آج تک یہاں بھی پیاسے ہی ہیں ، ہم پر رحم کرو کچھ پانی ہمارے حلق میں چھو دو یا جو روزی اللہ نے تمہیں دی ہے اس میں سے ہی تھوڑا بہت ہمیں دے دو ۔ چالیس سال تک کتوں کی طرح چیختے رہیں گے چالیس سال کے بعد انہیں جواب ملے گا کہ تم یونہی دھتکارے ہوئے بھوکے پیاسے ہی ان سڑیل اور اٹل سخت عذابوں میں پڑے رہو اب یہ تمام بھلائیوں سے مایوس ہو جائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

81۔ 1 یہ منافقین کا ذکر ہے جو تبوک میں نہیں گئے اور جھو ٹے عذر پیش کر کے اجازت حاصل کرلی۔ خلاف کے معنی ہیں پیچھے یا مخالفت۔ یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانے کے بعد آپ کے پیچھے یا آپ کی مخالفت میں مدینہ میں بیٹھے رہے۔ 81۔ 2 یعنی اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ جہنم کی آگ کی گرمی کے مقابلے میں، دنیا کی گرمی کوئی حیثیت نہیں رکھتی، تو وہ کبھی پیچھے نہ رہتے۔ حدیث میں آتا ہے کہ دنیا کی یہ آگ جہنم کی آگ کا 70 واں حصہ ہے۔ یعنی جہنم کی آگ کی شدت دنیا کی آگ سے 69 حصے زیادہ ہے (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٦] منافقوں کا غزوہ تبوک میں شامل ہونے والوں کی حوصلہ شکنی :۔ منافق بظاہر تو اللہ اور رسول پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے لیکن اس دعویٰ کی تصدیق کے لئے جن اعمال صالحہ کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں مفقود تھے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے نہ ان کے دعوؤں کو قابل اعتبار سمجھا اور نہ ان کی قسموں کو۔ اسی وجہ سے متعدد مقامات پر انہیں جھوٹا کہا اور بعض دوسرے مقامات پر کافر قرار دیا ور کہیں دونوں صفات کو ملا کر بیان کیا۔ اپنے دعوٰی کے خلاف اعمال میں سے ہی ایک یہ تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ تو اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کرتے ہی نہ تھے اور جو جاتے تھے وہ بھی بادل نخواستہ جاتے تھے تاکہ مسلمان انہیں منافق نہ سمجھنے لگیں اور ایک صفت ان میں مشترکہ یہ تھی کہ جہاد پر جانے والوں کی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے۔ غزوہ تبوک کے اعلان جہاد کے وقت چونکہ گرمی زوروں پر تھی اور سفر بھی طویل اور تکلیف دہ تھا۔ لہذا انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اسی وجہ سے جہاد سے روکنا شروع کردیا۔ جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس گرمی کا علاج تو تم نے سوچ لیا مگر اس کے بدلے جہنم کی آگ جو اس گرمی سے ستر گنا زیادہ گرم ہوگی اس کا کیا علاج کرو گے ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ : منافقین کے مختلف احوال اور ان کی سازشوں اور منصوبوں کے طویل ذکر کے بعد اب خصوصاً ان منافقین کا ذکر شروع ہوتا ہے جو جنگ تبوک میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہ گئے بلکہ جھوٹے عذر پیش کرکے اجازت لی اور مدینہ منورہ میں ٹھہرے رہے، ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ” الْمُخَلَّفُوْنَ “ کا لفظ استعمال کیا ہے ” وہ جو پیچھے چھوڑ دیے گئے “ یعنی وہ خوش نہ ہوں کہ یہ ان کا کارنامہ ہے کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے اور آرام کے ساتھ مدینہ کے اندر گھروں میں رہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انھیں اللہ کی طرف سے جانے کی توفیق ہی نہیں ملی اور وہ اس کی جناب سے دھکیلے ہوئے پیچھے چھوڑ دیے گئے۔ ان کی حیثیت اس ردی سامان کی ہے جو ساتھ نہیں لے جایا جاتا، بلکہ پھینک دیا جاتا ہے، یا پیچھے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وَكَرِهُوْٓا اَنْ يُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ : کیونکہ اللہ کی خاطر خوشی سے مال و جان کی قربانی ایمان کے بغیر نہیں دی جاسکتی، جس سے یہ محروم ہیں۔ اس میں نکلنے والے مومنوں کی دلی کیفیت اور ان کی تعریف بھی ظاہر ہے کہ وہ کس خوشی سے نکلے۔ وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ : یعنی صرف خود ہی نہیں دوسروں کو گرمی کی شدت اور لمبے سفر کی صعوبتوں سے ڈرا کر پیچھے رکھنے کی کوشش کرتے رہے، کیونکہ یہ سفر سخت گرمی کے موسم میں پیش آیا تھا۔ زمخشری (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ان کی جہالت کا نتیجہ قرار دیا کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ آدمی تھوڑی سی تکلیف برداشت کرنے سے اگر ہمیشہ کی ناقابل برداشت تکلیف سے بچ رہا ہو تو کوئی جاہل بلکہ اجہل ہی ہوگا جو وہ تھوڑی سی تکلیف برداشت نہ کرے اور ہمیشہ کی سخت ترین تکلیف برداشت کرنا پسند کرلے۔ اسی طرح انھیں معلوم ہی نہیں کہ اصل گرمی کیا ہوتی ہے، ورنہ اگر وہ جہنم کی گرمی سے آگاہ ہوتے اور ان کا اس پر ایمان ہوتا تو وہ دنیا کی شدید سے شدید گرمی کی بھی پروا نہ کرتے۔ ” لَوْ كَانُوْا يَفْقَهُوْنَ “ کا یہی مطلب ہے، کیونکہ جہنم کا ایک غوطہ دنیا کی تمام لذتیں بھلا دے گا۔ [ مسلم : ٢٨٠٧ ] اور ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمہاری آگ جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ “ آپ سے کہا گیا : ” یا رسول اللہ ! یقیناً وہی کافی تھی۔ “ فرمایا : ” وہ ان (آگوں) سے انہتر (٦٩) حصے زیادہ کردی گئی ہے اور وہ سب اس کی گرمی کی طرح ہیں۔ “ [ بخاری، بدء الخلق، باب صفۃ النار و أنہا مخلوقۃ : ٣٢٦٥۔ مسلم : ٢٨٤٣ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Behavior patterns of hypocrites who did not take part in the battle of Tabuk, despite the general call of Jihad, continue to be the main theme since several previous verses. The current verses give another example of their behavior. Then, it was said that they will be punished in the Hereafter, their names will be eliminated from the list of the mujahidin of Islam forever in this mortal world and that they will never be allowed to take part in any future Jihad. The word: مُخَلَّفُونَ (those who were left behind - 81) is the plural of مُخَلَّفُ (mukhallaf) which means ` abandoned& or left out. The subtle hint thus released is that these people are pleased with the idea that they have stayed away from endangering their lives by not participating in the Jihad. But, the truth of the matter is that Allah Ta` ala did not con¬sider them to be worthy of this supreme honor. Therefore, it is not they who have abandoned the Jihad, in fact, it is Jihad that has aban¬doned them. The reason is that Allah and His Messenger have, at their discretion, considered it fit that they should be left out. Following immediately, there is the word: خلاف (khilaf) in: خِلَافَ رَ‌سُولِ اللَّـهِ translated as ` to the displeasure of the Messenger of Allah.& This word could be taken in the sense of ` behind& or ` after& as well. In fact, this is the meaning Abu ` Ubayd has gone by. If so, it would mean that these people were rejoicing in their staying (at home) after (the departure of) the Messenger of Allah - an occasion not really worth the mirth. As for the word: بِمَقْعَدِهِمْ (bimaq` adihim: their sitting back) in the same verse, it appears here in the sense of قعود (qu’ ud: sitting) as a verbal noun. It is also possible to take the word khilaf in the sense of mukhalafat (contravention, opposition). In that case, it would mean that they sat home in contravention of the command of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Then, they did not leave it at that. They prompted others too by saying that they should not march in that hot weather: (لَا تَنفِرُ‌وا فِي الْحَرِّ‌. We already know that the command to fight the battle of Tabuk was given at a time when the heat was intense. The rejoinder to their comment came from Allah Ta` ala: قُلْ نَارُ‌ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّ‌ا (Say: [ 0 Prophet ] the fire of Jahannam is more intense in heat) that is, these people are really unfortunate. They see the heat of a certain given time and try to beat it one way or the other. But, they do not realize that their disobedience to the command of Allah and His Messenger would bring them face to face with the fire of Jahannam. Why would they not worry about it? Is it that the heat of our seasons is more intense than the heat of Hell?

خلاصہ تفسیر یہ پیچھے رہ جانے والے خوش ہوگئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ( جانے کے) بعد اپنے بیٹھے رہنے پر اور ان کو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان کے ساتھ جہاد کرنا ناگوار ہوا ( دو وجہ سے اول کفر دوسرے آرام طلبی) اور ( دوسروں کو بھی) کہنے لگے کہ تم ( ایسی تیز) گرمی میں ( گھر سے) مت نکلو آپ ( جواب میں) کہہ دیجئے کہ جہنم کی آگ ( اس سے بھی) زیادہ ( تیز اور) گرم ہے ( سو تعجب ہے کہ اس گرمی سے تو بچتے ہو اور جہنم میں جانے کا خود سامان کر رہے ہو، کہ کفر و مخالفت کو نہیں چھوڑتے) کیا خوب ہوتا اگر وہ سمجہتے، سو ( ان امور مذکورہ کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں ( تھوڑے دنوں ہنس ( کھیل) لیں اور ( پھر آخرت میں) بہت دنوں ( یعنی ہمیشہ) روتے رہیں ( یعنی ہنسنا تھوڑے دنوں کا ہے پھر رونا ہمیشہ ہمیشہ کا) ان کاموں کے بدلہ میں جو کچھ ( کفر و نفاق و خلاف وغیرہ) کیا کرتے تھے ( جب ان کا حال معلوم ہوگیا) تو اگر خدا تعالیٰ آپ کو ( اس سفر سے مدینہ کو صحیح وسالم) ان کے کسی گروہ کی طرف واپس لائے ( گروہ اس لئے کہا کہ ممکن ہے کہ بعض اسوقت تک مر جائیں، یا کوئی کہیں چلا جائے اور) پھر یہ لوگ ( براہ خوشامد و دفع الزام سابق کسی جہاد میں آپ کے ساتھ) چلنے کی اجازت مانگیں ( اور دل میں اس وقت بھی یہی ہوگا کہ عین وقت پر کچھ بہانہ کرسکیں گے) تو آپ یوں کہہ دیجئے کہ ( اگرچہ اس وقت دنیا سازی کے طور پر باتیں بنا رہے ہو، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارا مافی الضمیر بتلا دیا ہے، اس لئے نہایت وثوق سے کہتا ہوں کہ) تم کبھی بھی میرے ساتھ ( جہاد میں) نہ چلو گے اور نہ میرے ہمراہ ہو کر کسی دشمن ( دین) سے لڑو گے ( جو کہ اصلی مقصود ہے چلنے سے کیونکہ) تم نے پہلے بھی بیٹھے رہنے کو پسند کیا تھا ( اور اب بھی عزم وہی ہے) تو ( خواہ مخواہ جھوٹی باتیں کیوں بناتے ہو، بلکہ مثل سابق اب بھی) ان لوگوں کے ساتھ بیٹھے رہو ( جو واقعی) پیچھے رہ جانے کے لائق ہی ہیں ( بوجہ عذر کے جیسے بوڑھے اور بچے اور عورتیں ) ۔ معارف و مسائل اوپر سے سلسلہ منافقین کے حالات کا چل رہا ہے، جو غزوہ تبوک میں حکم عام کے باوجود شریک نہیں ہوئے، مذکور الصدر آیات میں بھی انہی کا ایک حال اور پھر اس کی سزائے آخرت کی وعید اور دنیا میں آئندہ کے لئے ان کا نام مجاہدین اسلام کی فہرست سے خارج کردینا اور آئندہ ان کو کسی جہاد میں شرکت کی اجا زت نہ ہونا مذکور ہے۔ مُخَلَّفُوْنَ ، مخلف کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں متروک، یعنی جس کو چھوڑ دیا گیا ہو، اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ لوگ تو یہ سمجھ کر خوش ہو رہے ہیں کہ ہم نے اپنی جان کو مصیبت میں ڈالنے سے بچایا، اور جہاد میں شرکت نہیں کی، مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ اس فضیلت کو پاسکیں، اس لئے وہ تارک جہاد نہیں، بلکہ متروک ہیں کہ اللہ و رسول نے ہی ان کو چھوڑ دینے کے قابل سمجھا۔ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ ، لفظ خلاف کے معنی یہاں |" پیچھے |" اور |" بعد |" کے بھی ہوسکتے ہیں، ابو عبید نے یہی معنی لئے ہیں، جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جہاد پر چلے جانے کے بعد آپ کے پیچھے رہ جانے پر خوش ہو رہے ہیں، جو درحقیقت خوشی کی چیز نہیں، بِمَقْعَدِهِمْ ، یہ لفظ یہاں مصدری معنی میں بمعنے قعود ہے۔ دوسرے معنی خلاف کے اس جگہ مخالفت کے بھی ہوسکتے ہیں، کہ یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی مخالفت کرکے گھر میں بیٹھے رہے، اور صرف خود ہی نہیں بیٹھے بلکہ دوسروں کو بھی یہ تلقین کی کہ لَا تَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ ، یعنی گرمی کے زمانہ میں جہاد کے لئے نہ نکلو۔ یہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ غزوہ تبوک کا حکم اس وقت ہوا تھا جب کہ گرمی سخت پڑ رہی تھی حق تعالیٰ نے ان کی بات کا جواب یہ دیا قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا، یعنی یہ بد نصیب اس وقت کی گرمی کو تو دیکھ رہے ہیں اور اس سے بچنے کی فکر کر رہے ہیں، اس کے نتیجہ میں حکم خدا و رسول کی نافرمانی پر جو جہنم کی آگ سے سابقہ پڑنے والا ہے اس کی فکر نہیں کرتے، کیا یہ موسم کی گرمی جہنم کی گرمی سے زیادہ ہے، اس کے بعد فرمایا :

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللہِ وَكَرِہُوْٓا اَنْ يُّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ۝ ٠ ۭ قُلْ نَارُ جَہَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا۝ ٠ ۭ لَوْ كَانُوْا يَفْقَہُوْنَ۝ ٨١ فرح الْفَرَحُ : انشراح الصّدر بلذّة عاجلة، وأكثر ما يكون ذلک في اللّذات البدنيّة الدّنيوية، فلهذا قال تعالی: لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] ، وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] ، ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] ، ( ف ر ح ) ا لفرح کے معنی کسی فوری یا دینوی لذت پر انشراح صدر کے ہیں ۔ عموما اس کا اطلاق جسمانی لذتوں پر خوش ہونے کے معنی میں ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ وَلا تَفْرَحُوا بِما آتاکُمْ [ الحدید/ 23] اور جو تم کو اس نے دیا ہوا اس پر اترایا نہ کرو ۔ وَفَرِحُوا بِالْحَياةِ الدُّنْيا[ الرعد/ 26] اور ( کافر ) لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہورہے ہیں ۔ ذلِكُمْ بِما كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ [ غافر/ 75] یہ اس کا بدلہ ہے کہ تم ۔۔۔۔۔ خوش کرتے تھے خلف پیچھے رہنا وخَلَّفْتُهُ : تركته خلفي، قال فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ [ التوبة/ 81] ، أي : مخالفین، وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا [ التوبة/ 118] ، قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح/ 16] ، والخالِفُ : المتأخّر لنقصان أو قصور کالمتخلف، قال : فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة/ 83] ، والخَالِفةُ : عمود الخیمة المتأخّر، ويكنّى بها عن المرأة لتخلّفها عن المرتحلین، وجمعها خَوَالِف، قال : رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة/ 87] ، ووجدت الحيّ خَلُوفاً ، أي : تخلّفت نساؤهم عن رجالهم، والخلف : حدّ الفأس الذي يكون إلى جهة الخلف، وما تخلّف من الأضلاع إلى ما يلي البطن، والخِلَافُ : شجر كأنّه سمّي بذلک لأنّه فيما يظنّ به، أو لأنّه يخلف مخبره منظره، ويقال للجمل بعد بزوله : مخلف عام، ومخلف عامین . وقال عمر رضي اللہ عنه : ( لولا الخِلِّيفَى لأذّنت) «1» أي : الخلافة، وهو مصدر خلف . قرآن میں ہے : ۔ فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلافَ رَسُولِ اللَّهِ [ التوبة/ 81] جو لوگ ( غزوہ تبوک ) میں پیچھے رہ گئے وہ پیغمبر خدا کی ( مرضی ) کے خلاف بیٹھ رہنے سے خوش ہوئے ۔ یعنی پیغمبر خدا کے مخالف ہوکر ۔ وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا[ التوبة/ 118] اور ان تینوں پر بھی جن کا معاملہ ملتوی کیا کیا تھا ۔ قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ [ الفتح/ 16] پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہدو ۔ الخالف ۔ نقصان یا کوتاہی کی وجہ سے پیچھے رہنے ولا اور یہی متخلف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخالِفِينَ [ التوبة/ 83] پیچھے رہنے والوں کے ساتھ بیٹھے رہو ۔ الخالفۃ خیمے کا پچھلا ستون بطور کنا یہ اس سے مراد عورت لی جاتی ہے کیونکہ یہ مجاہدین سے پیچھے رہ جاتی ہیں ۔ اس کی جمع خوالف ہے قرآن میں ہے : ۔ رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوالِفِ [ التوبة/ 87] یہ اس بات سے خوش ہیں کہ عورتوں کے ساتھ جو پیچھے رہ جاتی ہیں ( گھروں میں ) بیٹھ رہیں ۔ یعنی مرد گئے ہوئے ہیں صرف عورتیں موجود ہیں ۔ الخلف ( ایضا ) کلہاڑی کی دھار ۔ پہلو کی سب سے چھوٹی پسلی جو پیٹ کے جانب سب سے آخری ہوتی ہے ۔ الخلاف بید کی قسم کا ایک درخت کیونکہ وہ امید کے خلاف اگتا ہے یا اس کا باطن ظاہر کے خلاف ہوتا ہے : نہ سالگی یک یا دو سال گذستہ باشد ۔ الخلیفی ۔ خلافت ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا قول ہے اگر بار خلافت نہ ہوتا تو میں خود ہی اذان دیا کرتا ( اذان کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے ) قعد القُعُودُ يقابل به القیام، والْقَعْدَةُ للمرّة، والقِعْدَةُ للحال التي يكون عليها الْقَاعِدُ ، والقُعُودُ قد يكون جمع قاعد . قال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] ، الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] ، والمَقْعَدُ : مكان القعود، وجمعه : مَقَاعِدُ. قال تعالی: فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55] أي في مکان هدوّ ، وقوله : مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] كناية عن المعرکة التي بها المستقرّ ، ويعبّر عن المتکاسل في الشیء بِالْقَاعدِ نحو قوله : لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] ، ومنه : رجل قُعَدَةٌ وضجعة، وقوله : وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] وعن التّرصّد للشیء بالقعود له . نحو قوله : لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] ، وقوله : إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] يعني متوقّفون . وقوله : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] أي : ملك يترصّده ويكتب له وعليه، ويقال ذلک للواحد والجمع، والقَعِيدُ من الوحش : خلاف النّطيح . وقَعِيدَكَ الله، وقِعْدَكَ الله، أي : أسأل اللہ الذي يلزمک حفظک، والقاعِدَةُ : لمن قعدت عن الحیض والتّزوّج، والقَوَاعِدُ جمعها . قال : وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] ، والْمُقْعَدُ : من قَعَدَ عن الدّيون، ولمن يعجز عن النّهوض لزمانة به، وبه شبّه الضّفدع فقیل له : مُقْعَدٌ «1» ، وجمعه : مُقْعَدَاتٌ ، وثدي مُقْعَدٌ للکاعب : ناتئ مصوّر بصورته، والْمُقْعَدُ كناية عن اللئيم الْمُتَقَاعِدِ عن المکارم، وقَوَاعدُ البِنَاءِ : أساسه . قال تعالی: وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] ، وقَوَاعِدُ الهودج : خشباته الجارية مجری قواعد البناء . ( ق ع د ) القعود یہ قیام ( کھڑا ہونا کی ضد ہے اس سے قعدۃ صیغہ مرۃ ہے یعنی ایک بار بیٹھنا اور قعدۃ ( بکسر ( قاف ) بیٹھنے کی حالت کو کہتے ہیں اور القعود قاعدۃ کی جمع بھی ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ النساء/ 103] تو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرو ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِياماً وَقُعُوداً [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں ۔ المقعد کے معنی جائے قیام کے ہیں اس کی جمع مقاعد ہے قرآن میں ہے : ۔ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر/ 55]( یعنی ) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ یعنی نہایت پر سکون مقام میں ہوں گے اور آیت کریمہ : ۔ مَقاعِدَ لِلْقِتالِ [ آل عمران/ 121] لڑائی کیلئے مور چوں پر میں لڑائی کے مورچے مراد ہیں جہاں سپاہی جم کر لڑتے ہیں اور کبھی کسی کام میں سستی کرنے والے کو بھی قاعدۃ کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لا يَسْتَوِي الْقاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ [ النساء/ 95] جو مسلمان ( گھروں میں ) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے ۔ اسی سے عجل قدعۃ ضجعۃ کا محاورہ جس کے معنی بہت کاہل اور بیٹھنے رہنے والے آدمی کے ہیں نیز فرمایا : ۔ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجاهِدِينَ عَلَى الْقاعِدِينَ أَجْراً عَظِيماً [ النساء/ 95] خدا نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے ۔ اور کبھی قعدۃ لہ کے معیم کیس چیز کے لئے گھات لگا کر بیٹھنے اور انتظار کرنے کے بھی آتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِراطَكَ الْمُسْتَقِيمَ [ الأعراف/ 16] میں بھی سیدھے رستے پر بیٹھوں گا ۔ نیز فرمایا : ۔ إِنَّا هاهُنا قاعِدُونَ [ المائدة/ 24] ہم یہیں بیٹھے رہینگے یعنی یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے رہینگے اور آیت کر یمہ : ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں بائیں بیٹھے ہیں ۔ میں قعید سے مراد وہ فرشتہ ہے جو ( ہر وقت اعمال کی نگرانی کرتا رہتا ہے اور انسان کے اچھے برے اعمال میں درج کرتا رہتا ہے یہ واحد وجمع دونوں پر بولا جاتا ہے اسے بھی قعید کہا جاتا ہے اور یہ نطیح کی جد ہے ۔ یعنی میں اللہ تعالیٰ سے تیری حفاظت کا سوال کرتا ہوں ۔ القاعدۃ وہ عورت جو عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے نکاح اور حیض کے وابل نہ رہی ہو اس کی جمع قواعد ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَالْقَواعِدُ مِنَ النِّساءِ [ النور/ 60] اور بڑی عمر کی عورتیں ۔ اور مقعدۃ اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جو ملازمت سے سبکدوش ہوچکا ہو اور اپاہج آدمی جو چل پھر نہ سکے اسے بھی مقعد کہہ دیتے ہیں اسی وجہ سے مجازا مینڈک کو بھی مقعد کہا جاتا ہے اس کی جمع مقعدات ہے اور ابھری ہوئی چھاتی پر بھی ثدی مقعد کا لفظ بولا جاتا ہے اور کنایہ کے طور پر کمینے اور خمیس اطوار آدمی پر بھی مقعدۃ کا طلاق ہوتا ہے قواعد لبنآء عمارت کی بنیادیں قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْراهِيمُ الْقَواعِدَ مِنَ الْبَيْتِ [ البقرة/ 127] اور جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادی اونچی کر رہے تھے قواعد الھودج ( چو کھٹا ) ہودے کی لکڑیاں جو اس کے لئے بمنزلہ بنیاد کے ہوتی ہیں ۔ كره قيل : الْكَرْهُ والْكُرْهُ واحد، نحو : الضّعف والضّعف، وقیل : الكَرْهُ : المشقّة التي تنال الإنسان من خارج فيما يحمل عليه بِإِكْرَاهٍ ، والکُرْهُ : ما يناله من ذاته وهو يعافه، وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] ( ک ر ہ ) الکرہ ( سخت ناپسند یدگی ) ہم معنی ہیں جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے جیسے ضعف وضعف بعض نے کہا ہے کہ کرۃ ( بفتح الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو انسان کو خارج سے پہنچے اور اس پر زبر دستی ڈالی جائے ۔ اور کرہ ( بضم الکاف ) اس مشقت کو کہتے ہیں جو اسے نا خواستہ طور پر خود اپنے آپ سے پہنچتی ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ [ التوبة/ 33] اور اگر چہ کافر ناخوش ہی ہوں ۔ جهد الجَهْدُ والجُهْد : الطاقة والمشقة، وقیل : الجَهْد بالفتح : المشقة، والجُهْد : الوسع . وقیل : الجهد للإنسان، وقال تعالی: وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] ، وقال تعالی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] ، أي : حلفوا واجتهدوا في الحلف أن يأتوا به علی أبلغ ما في وسعهم . والاجتهاد : أخذ النفس ببذل الطاقة وتحمّل المشقة، يقال : جَهَدْتُ رأيي وأَجْهَدْتُهُ : أتعبته بالفکر، والجِهادُ والمجاهدة : استفراغ الوسع في مدافعة العدو، والجِهَاد ثلاثة أضرب : - مجاهدة العدو الظاهر . - ومجاهدة الشیطان . - ومجاهدة النفس . وتدخل ثلاثتها في قوله تعالی: وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] ، وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] ، إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «جاهدوا أهواء کم کما تجاهدون أعداء کم» والمجاهدة تکون بالید واللسان، قال صلّى اللہ عليه وسلم «جاهدوا الکفار بأيديكم وألسنتکم» ( ج ھ د ) الجھد والجھد کے معنی وسعت و طاقت اور تکلف ومشقت کے ہیں ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ الجھد ( فتح جیم کے معنی مشقت کے ہیں اور الجھد ( ( بضم جیم ) طاقت اور وسعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ الجھد کا لفظ صرف انسان کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ [ التوبة/ 79] اور جنہیں اپنی محنت ومشقت ( کی کمائی ) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ النور/ 53] کے معنی یہ ہیں کہ وہ بڑی زور زور سے قسمیں کھاکر کہتے ہیں کے وہ اس میں اپنی انتہائی کوشش صرف کریں گے الاجتھاد ( افتعال ) کے معنی کسی کام پر پوری طاقت صرف کرنے اور اس میں انتہائی مشقت اٹھانے پر طبیعت کو مجبور کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے میں نے غور ومحکر سے اپنی رائے کو مشقت اور تعب میں ڈالا ۔ الجھاد والمجاھدۃ دشمن کے مقابلہ اور مدافعت میں اپنی انتہائی طاقت اور وسعت خرچ کرنا اور جہا دتین قسم پر ہے ( 1 ) ظاہری دشمن یعنی کفار سے جہاد کرنا ( 2 ) شیطان اور ( 3 ) نفس سے مجاہدہ کرنا اور آیت کریمہ : ۔ وَجاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ [ الحج/ 78] کہ اللہ کی راہ میں پوری طرح جہاد کرو ۔۔۔۔۔ تینوں قسم جہاد پر مشتمل ہے ۔ نیز فرمایا :۔ وَجاهِدُوا بِأَمْوالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 41] کہ خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرو ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا بِأَمْوالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ الأنفال/ 72] جو لوگ ایمان لائے اور وطن چھوڑ گئے اور خدا کی راہ میں اپنے مال وجان سے جہاد کرتے رہے ۔ اور حدیث میں ہے (66) کہ جس طرح اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو اسی طرح اسی خواہشات سے بھی جہاد کیا کرو ۔ اور مجاہدہ ہاتھ اور زبان دونوں کے ساتھ ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا (67) کہ کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں کے ذریعہ جہاد کرو ۔ ميل المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین، والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا، ( م ی ل ) المیل اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ نفر النَّفْرُ : الانْزِعَاجُ عن الشیءِ وإلى الشیء، کالفَزَعِ إلى الشیء وعن الشیء . يقال : نَفَرَ عن الشیء نُفُوراً. قال تعالی: ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] ، وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] ونَفَرَ إلى الحربِ يَنْفُرُ ويَنْفِرُ نَفْراً ، ومنه : يَوْمُ النَّفْرِ. قال تعالی: انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا [ التوبة/ 41] ، إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] ، ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] ، وَما کانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] . ( ن ف ر ) النفر ( عن کے معی کسی چیز سے رو گردانی کرنے اور ( الی کے ساتھ ) کسی کی طرف دوڑنے کے ہیں جیسا کہ نزع کا لفظ الیٰ اور عن دونوں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے محاورہ ہے نفر عن الشئی نفورا کسی چیز سے دور بھاگنا ۔ قرآن میں ہے ما زادَهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ فاطر/ 42] تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی ۔ وَما يَزِيدُهُمْ إِلَّا نُفُوراً [ الإسراء/ 41] مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں ۔ نفر الی الحرب ( ض ن ) نفر لڑائی کیلئے نکلنا اور اسی سی ذی الحجہ کی بار ھویں تاریخ کو یوم النفر کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز حجاج منیٰ سے مکہ معظمہ کو واپس ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے انْفِرُوا خِفافاً وَثِقالًا[ التوبة/ 41] تم سبکسار ہو یا گراں بار ( یعنی مال واسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت گھروں سے نکل آؤ ۔ إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذاباً أَلِيماً [ التوبة/ 39] اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو بڑی تکلیف کا عذاب دے گا ۔ ما لَكُمْ إِذا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 38] تمہیں کیا ہوا کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو وما کان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طائِفَةٌ [ التوبة/ 122] اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ مومن سب کے سب سب نکل آئیں تو یوں کیوں نہیں کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جاتے حر الحرارة ضدّ البرودة، وذلک ضربان : - حرارة عارضة في الهواء من الأجسام المحميّة، کحرارة الشمس والنار . - وحرارة عارضة في البدن من الطبیعة، کحرارة المحموم . يقال : حَرَّ يومُنا والریح يَحِرُّ حرّاً وحرارةوحُرَّ يومنا فهو محرور، وکذا : حرّ الرّجل، قال تعالی: لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ : نارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا[ التوبة/ 81] ، والحَرور : الریح الحارّة، قال تعالی: وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ [ فاطر/ 21] ، واستحرّ القیظ : اشتدّ حرّه، والحَرَر : يبس عارض في الکبد من العطش . ( ح رر ) الحرارۃ یہ برودۃ کی ضد ہے اور حرارت دوقسم پر ہے ( ا) وہ حرارت جو گرم اجسام سے نکل کر ہوا میں پھیل جاتی ہے جیسے سورج اور آگ کی گرمی (2) وہ حرارت جو عوارض طبیعہ سے بدن میں پیدا ہوجاتی ہے ۔ جیسے محموم ( بخار زدہ ) کے بدن کا گرم ہونا کہا جاتا ہے ۔ حر ( س ) حرارۃ الیوم اوالریح دن یا ہوا گرم ہوگئی ۔ ایسے دن کو محرورُ کہا جاتا ہے اسی طرح حررجل کا محاورہ ہے قرآن میں ہے : لا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ قُلْ : نارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا[ التوبة/ 81] کہ گرمی میں مت نکلنا ( ان سے ) کہہ دو کہ دوذخ کی آگ اس سے کہیں زیادہ گرم ہے ۔ الحرور گرم ہوا ۔ لو ۔ ارشاد : وَلَا الظِّلُّ وَلَا الْحَرُورُ [ فاطر/ 21] اور نہ ایسا یہ اور نہ دھوپ کی تپش ۔ استحر القیظ گرمی سخت ہوگئی ۔ الحررُ یبوست جو شدت پیاس کی وجہ سے جگر میں پیدا ہوجاتی ہے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ جہنم کے مختلف طبقات ( درکات) علی سبیل التنزل یہ ہیں۔ (1) جہنم (2) لظیٰ (3) حطمہ (4) سعیر (5) سقر (6) جحیم (7) ہاویۃ۔ سب سے نیچے منافقوں کا یہی ٹھکانہ ہے شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ فقه الفِقْهُ : هو التّوصل إلى علم غائب بعلم شاهد، فهو أخصّ من العلم . قال تعالی: فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ( ف ق ہ ) الفقہ کے معنی علم حاضر سے علم غائب تک پہچنچنے کے ہیں اور یہ علم سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً [ النساء/ 78] ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨١) منافقین غزوہ تبوک میں نہ جاکر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خوش ہوگئے ان کو اطاعت خداوندی میں جہاد کرنا ناگوار ہوا اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ایسی سخت گرمی میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے مت جانا، آپ ان منافقوں سے فرما دیجیے کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ تیز اور گرم ہے، کیا خوب ہوتا اگر وہ سمجھتے اور اس کی تصدیق کرتے۔ شان نزول : (آیت) فرح المخلفون “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو اپنے ساتھ چلنے کا حکم دیا اور یہ گرمی کا زمانہ تھا ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گرمی بہت سخت ہے اور ہم ایسی گرمی میں چلنے کی طاقت نہیں لہٰذا اس سخت گرمی میں نہ نکلیے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” قل نار جہنم “ الخ۔ یعنی آپ فرما دیجیے کہ جہنم کی آگ اس سے بھی زیادہ گرم ہے۔ نیز محمد بن کعب قرظی (رح) سے منقول ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت گرمی میں تبوک کی طرف روانہ ہوئے تو بنی سلمہ میں سے ایک شخص نے کہا کہ ایسی سخت گرمی میں مت نکلو، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (آیت) ” قل نار جھنم اشد حرا “۔ الخ۔ اور امام بیہقی (رح) نے دلائل میں بواسطہ اسحاق، عاصم بن عمرو بن قتادہ اور عبداللہ بن ابی بکر بن حزم سے روایت کی ہے کہ منافقین میں سے ایک شخص نے کہا کہ ایسی سخت گرمی میں مت چلیے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨١ (فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِہِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَکَرِہُوْٓا اَنْ یُّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) (وَقَالُوْا لاَ تَنْفِرُوْا فِی الْْحَرِّ ط) یہ لوگ خود بھی اللہ کے رستے میں نہ نکلے اور دوسروں کو بھی روکنے کی کوشش میں رہے کہ ہم تو رخصت لے آئے ہیں ‘ تم بھی ہوش کے ناخن لو ‘ اس قدر شدید گرمی میں سفر کے لیے مت نکلو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨١۔ ٨٢۔ اللہ پاک نے اس آیت میں ان منافقوں کی مذمت بیان کی جو غزوہ تبوک میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ جہاد میں نہیں شریک ہوئے اور حضرت کا ساتھ نہیں دیا اپنے گھروں میں بیٹھے رہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جانے پر خوشی ظاہر کی اور لڑنے سے جی چرایا اور اپنے مال و دولت کی خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے بخل کیا اور خدا کی راہ میں اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھنا۔ برا سمجھا حالانکہ خدا کے نزدیک بڑے بڑے مرتبے اس شخص کے ہیں جو جان ومال سے جہاد میں شریک ہو ان منافقوں نے خود تو جی چرایا تو چرایا مگر اوروں کو بھی منع کرتے تھے کہ ایسی گرمی میں کہا جہاد میں لڑنے کو جاؤ گے جیسا کہ خود اللہ پاک نے آگے بیان فرمایا۔ صحیح مسلم میں سفیان (رض) بن عبداللہ ثقفی کی حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے آپ نے فرمایا کہ شرع کے احکام کو دل سے ماننا چاہئے اور پھر ان پر چستی سے قائم رہنا چاہئے ١ ؎ صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر شخص کے ساتھ ایک فرشتہ رہتا ہے جو اس شخص کو نیک کاموں کی رغبت دلاتا رہتا ہے اور ایک شیطان رہتا ہے جو اس شخص کو برے کاموں میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے ان حدیثوں کو آیت کے اس ٹکڑے کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ منافق لوگ شرع کے احکام کو دل سے نہیں مانتے اس لئے ان احکام کی بابندی ان پر شاق گزرتی ہے اسی واسطے دین کی لڑائی کا کوئی پاس کا سفر ہو اور اس میں کچھ مال ہاتھ آجانے کی امید بھی ہو تو ایسے موقع پر یہ لوگ اوپرے دل سے لشکر اسلام کا ساتھ دیتے ہیں یہ تبوک کا سفر دور کا سفر ایک سخت موسم میں تھا اس لئے جھوٹے عذر کر کے اس سفر سے بچ گئے اور ان کے ساتھ کے شیاطینوں نے ان کو یہ بہکا دیا کہ ایسے سخت موسم میں طرح طرح کے عذر دل سے سفر کو ٹال دیا تو گویا ان لوگوں نے یہ بڑی ہو شیاری کی اس بہکاوے کی ہوشیاری پر فخر کر کے لشکر اسلام کی واپسی تک یہ لوگ خوشیاں مناتے تھے انہی خوشیوں کا ذکر آیت میں ہے۔ فی سبیل اللہ کے معنے فی دین اللہ جس کا مطلب یہ ہے کہ دین الہی کے احکام کی عظمت ان لوگوں کے دل میں نہیں ہے اس لئے ان احکام کی پابندی میں یہ لوگ اپنی جان اور اپنے مال کو خطرہ میں نہیں ڈالنا چاہتے بیہقی اور تفسیر ابن جریر میں کئی طریقہ سے جو شان نزول اس آیت کی بیان کی گئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبوک کی لڑائی کے لئے مدینہ سے سفر کرنے کا حکم دیا تو وہ موسم میں سفر مناسب نہیں ہے اور خود بھی مصنوعی عذر کر کے مدینہ میں رہ گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ جھوٹے عذر کر کے یہ لوگ دنیا کی تھوڑی سی گرمی سے اگر بچ گئے تو یہ جگہ کچھ خوش ہونے اور ہنسنے کی نہیں ہے بلکہ نہایت رونے کی جگہ ہے کہ اس میں انہوں نے اللہ کے رسول کے حکم کی مخالفت کی جس مخالفت کی سزا میں ان کو دوزخ کی آگ کی گرمی برداشت کرنی اور سہنی پڑے گی۔ جس کے آگے دنیا کی گرمی کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ صحیح بخاری مسلم اور ترمذی میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے ‘ کہ دنیا میں جو آگ لوگوں کے کام آتی ہے یہ نسبت دوزخ کی آگ کے انہتر ٢٩ دریجہ حرارت اس کی گھٹائی گئی ہے مسندامام احمد بن حنبل ابن ماجہ اور بہیقی میں انس (رض) بن مالک سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ تین ہزار برس تک دوزخ کی آگ دھونکائی گئی ہے اس لئے دھونکاتے دھونکاتے اس کا رنگ کالا ہوگیا ہے ستر درجہ حرارت کم کر کے دو دفعہ دریا میں ٹھنڈی کی جا کر وہ آگ دنیا میں اتاری اگر ایسے ہی اتاری جاتی تو دنیا میں نہ وہ آگ ٹھہر سکتی نہ اس سے کوئی فائدہ اٹھا سکتا تھا اس حدیث کی سند کے ایک راوی یزید بن ابان رقاشی کو اگرچہ بعضے علماء نے ضعیف کہا ہے لیکن ابن معین اور ابن عدی نے اس کو ثقہ کہا ہے اسی واسطے حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم میں عبداللہ بن قیس (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوزخ کے عذاب کی تکلیف سے دوزخی لوگ یہاں تک روئیں گے کہ ان کے آنسوؤں میں اگر کشتی چلائی جاوے تو چل سکے اور جب ان کے اصل آنسو سوکھ جاویں گے تو یہ لوگ خون کے آنسوؤں سے روئیں گے دنیا کی دھوپ کی ذراسی تیزی اور دنیا کی ناپائدار ہستی ان دونوں کے مقابلہ کے طور پر دوزخ کی آگ کی تیزی اور دوزخ کے مدتوں تک کے رونے سے اللہ تعالیٰ نے جو لوگوں کو ڈرایا ہے یہ حدیثیں سمجھ دار آدمی کے حق میں اس ڈر کی گویا تفسیر ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(9:81) المخلفون۔ وہ جو پیچھے چھوڑ دئیے گئے۔ اسم مفعول جمع ہے اس کا فاعل بیان نہیں کیا گیا ۔ پیچھے چھوڑ دینے والا۔ اللہ تعالیٰ ہی ہوسکتا ہے یا شیطان یا ان کی سستی یا مؤمنین ہوسکتے ہیں۔ بمقعدہم۔ مقعد اسم ظرف مکان۔ مفرد۔ مقاعد جمع ۔ قعدۃ۔ قعود مصدر۔ باب نصر بیٹھنے کی جگہ۔ یعنی اپنے گھروں میں بیٹھے رہنے پر (خوش ہیں) ۔ خلف۔ اس کے معنی پیچھے۔ مخالفت دونوں ہوسکتے ہیں۔ خلاف کے معنی ” الٹا “ بھی ہوسکتے ہیں ۔ قرآن مجید میں متعدد بار آیا ہے اوتقطع ایدیہم وارجلہم من خلاف (5:33) یا کاٹے جائیں ان کے ہاتھ اور پاؤں الٹی طرف سے۔ یعنی دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں یا بایاں ہاتھ اور دایاں پاؤں۔ لا تنفروا۔ فعل نہی۔ جمع مذکر حاضر۔ تم مت نکلو۔ تم مت کوچ کرو۔ نفار اور نفور سے۔ نفرالی الحرب۔ وہ لڑائی کے لئے نکلا۔ الا تنفروا یعذبکم عذابا الیما (9:39) اگر نہ نکلو گے تو خدا تم کو دردناک عذاب دیگا۔ نفور۔ بمعنی نفرت اور بدکنا بھی ہے جیسے مازادہم الا نفورا (35:42) تو اس سے ان کی نفرت ہی بڑھی۔ یا کانھم حمر مستنفرۃ (74:50) گویا وہ گدھے ہیں کہ بدک جاتے ہیں۔ الحر۔ گرمی۔ یعنی اتنی شدید گرمی میں گھر سے نہ نکلو۔ یفقھون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ سمجھ جاتے ۔ جان لیتے۔ فقہ مصدر (باب سمع) سمجھنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

(ف 5 یعنی جنگ تبوک میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ج کے ساتھ نہ گئے بلکہ جھو ٹے عذر پیش کر کے اجازت لی اور مدینہ منورہ میں ٹھہرے رہے۔ قتادہ (رض) کہتے ہیں ان کی تعداد بارہ تھی۔ ( ابن ابی حاتم وغیرہ)6 یہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ غزوہ تبوک جن دونوں پیش آیا ان دنوں سخت گرمی کا موسم تھا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 81 تا 89 اسرار و معارف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے محرومی بہت بڑی بدنصیبی ہے خواہ نہ کرنے والا یہ سمجھ رہا ہو کہ وہ آرام سے ہے اور خواہ مخواہ کی مصیبت نماز روزہ جہاد سے بچا ہوا ہے اپنے گھر میں اپنی پسند سے وقت بسر کررہا ہے مگر حقیقت میں وہ ایک بہت بڑی مصیبت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جیسے تبوک پہ حاضرنہ ہونے والے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے جی چراکر خوش بیٹھے تھے کہ ہم مزے میں ہیں مال بھی بچا جان کو بھی تکلیف میں نہیں ڈالا بلکہ انھیں جان ومال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا گواراہی نہیں اور گناہ کا اثرہی یہ ہوتا ہے کہ نیکی کے لئے دل میں جگہ نہیں رہتی بلکہ دوسروں سے بھی کہتے ہیں کیوں گرمی میں ہلاک ہوتے ہو مت جاؤ یہ لمبا سفر اور اس غضب کی گرمی یعنی اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں دنیاوی مشکلات کا تذکرہ کرکے دوسروں کو بھی اس سعادت سے روکنا چاہتے ہیں ۔ جیسا کہ آجکل کا امیر طبقہ دیند ار ہونے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے تو انھیں بتائیے کہ جہنم کی آگ بہت زیادہ گرم اور تباہ کردینے والی ہے اس کی مشکلات بہت ہیبت ناک ہیں ۔ اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ترک کرکے تمہیں خوش نہ ہونا چاہیئے کہ دنیا کی مشکلات سے خود کو بچالیابل کہ تم بہت بڑی مصیبت میں خود کو اپنے ہاتھوں ڈال رہے ہو ، اگر تمہیں سمجھنے کی صلاحیت حاصل ہے تو غور کرکے دیکھو۔ لیکن اگر اسی حال پہ خوش ہو تو بہت تھوڑی دیر کے لئے خوشی بھی منالو ، مگر یادرکھو ! اس فانی اور لمحاتی خوشی کے ساتھ ابدی رنج بھی لگا ہوا ہے اور ان اعمال کے نتیجے میں ہمیشہ کے لئے رونا تمہارا مقدربن جائے ۔ جان بوجھ کر اطاعت رسالت کو حقیر سمجھ کر ترک کرنا ایسا شدید گناہ ہے کہ اگر کبھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ان سے پھر سے ملاقات ہو اور یہ جہاد میں شرکت کا ارادہ بھی ظاہر کریں تو فرمادیجتے اب تم بیٹھے ہی رہو ہ کہ میری ہمرکابی کے شرف سے ہمیشہ کے لئے محروم کردیئے گئے ہو۔ لہٰذا نہ کبھی میرے ساتھ چلنے کی تمنا کرو اور نہ میرا ہاتھ بٹانے کی آرزو تمہیں اب تو فیق جہاد نہ ہوگی ۔ تمہاری یہ باتیں بھی اوپرے دل سے ہیں کہ خلوص جیسی عظیم نعمت سے تو تم پہلے ہی محروم ہوچکے ہو تم نے اتباع کرکے میرا ساتھ دینے کی بجائے پیچھے رہ کر اطاعت نہ کرنے والوں کا ساتھ دیا لہٰذا اب انہی کے ساتھ رہو اور وہی انجام بھگتو جو ان کو نصیب ہو۔ اعاذنا اللہ منھا کاش ! آج کے ترقی پسند غور فرمالیتے ۔ ارکان دین سے مذاق منافقت کی دلیل ہے ایسے شخص کا جنازہ بڑھنا یا قبر کی تکریم جائز نہیں آپ آئند ہ کبھی ان کا جناز ہ نہ پڑھیں اور نہ ہی ان میں سے کسی کی قبر پر کھڑے ہوں ۔ یہ ایک بہت بڑی محرومی اور سزا تھی جو منافقین پر مسلط کی گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کا چنازہ پڑھنے سے روک دیا گیا آخرت کی شفاعت سے محرومی کا یہ منظر موت ہی پہ واضح کردیا گیا۔ حالا ن کہ یہ لوگ اپنے مسلمان ہونے کے دعویدار تھے اور بظاہر نماز روزہ بھی کرتے تھے اور اس کو دنیوی اعتبار سے نقصان دہ تبا تے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد کسی منافق پر نماز جنازہ نہیں پڑھی ۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد چونکہ وحی نازل ہونا بندہوگئی اور یقینا کوئی نہیں جانتا کون منافق ہے ؟ اس لئے علماء کا ارشاد ہے کہ ہر اس آدمی پر نماز پڑھی جائے گی جو اپنے مسلمان ہونے کا دعوے رکھتا ہے ۔ لیکن ان آیات سے یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہے کہ جو شخص نیک لوگوں کا مذاق اڑائے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے روکے اور دین پر عمل کو دنیا کی تر قی میں رکاوٹ جانتا ہو اس پر نہ تو نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہونا ۔ ہاں ! اگر مجبوری ہو جیسے کوئی رشتہ دار مرجائے جسے کوئی سنبھا لنے والا نہ ہو تو محض گڑھے میں پھینکنے کی اجازت ہوگی ۔ قبریہی ہے جس میں جسم دفن ہوتا ہے بعض جدید مققین کے نزدیک قبر سے یہ گڑھا مراد نہیں جہاں جسم دفن ہوتا ہے بلکہ علیین یا سجین میں ہوتی ہے اس آیہ کریمہ ان کے اس وہم کی تردید بھی کردی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وقت دفن اسی گڑھے پر کھڑے ہوتے تھے لہٰذایہی قبر ہے اور قبر کا عذاب ثواب یا سوال و جواب اسی گڑھے میں واقع ہوتے ہیں ۔ کسی نیک آدمی کا قبر پر کھڑا ہونا بھی میت کے لئے نفع بخش ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قبر پر کھڑا ہونے سے میت کو فائدہ ہوتا تھا اور یہ امر اس کے لئے نہایت نفع بخش تھا اس لئے منافقین کو اس سعادت سے محروم کردیا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی قبور میں سے کسی پر کھڑا ہونے سے روک دیا گیا ۔ حدیث پاک اور سیرت میں ایسے بہت سے واقعات بیان ہوئے ہیں جن سے یہ امرثابت ہوتا ہے کہ کسی نیک انسان کا قبر پر کھڑا ہونا بھی بہت نفع بخش ہے اور اس آیہ کریمہ سے بھی صاف ثابت ہورہا ہے ۔ اور اے مخاطب ! یہ بات کہ ان کے پاس مال ہے انھیں اولاد نصیب ہے ۔ تجھے ہرگز حیرت میں نہ ڈالے کہ محض کسی شے کا وجودہی مقصد نہیں ہوتا ۔ جیسے کسی سخت پیاسے کو پانی نہ ملے مگر ڈھیر سونا مل جائے تو اس کو کیا خوشی ہوگی کہ پیاس سے تو مرنے کو ہے لہٰذا اس دولت کو پا کر اور دکھی ہوگی کہ کاش ! یہ میرے کام آسکتی ۔ وہی حال ان منافقین کا ہے کہ مال سے مراد تو آرام ہے جو انھیں نصیب ہی نہیں اور ایک بےکلی اور بےچینی انھیں گھیر ہوئے ہے ۔ اولاد سے مراد بھی عزت وناموس اور آرام ہی ہے ۔ سو ان کی اولاد بھی ان کی رسوائی کا سبب بنتی ہے لہٰذایہ دونوں چیزیں جو نعمت ہی تھیں مگر ان کے لئے عذاب ثابت ہوئیں اور اللہ ایسا ہی قادر ہے کہ جب عذاب کرنا چا ہے تو آرام کے اسباب کو نتائج کے اعتبار سے عذاب کا باعث بنادیتا ہے اور ان پر تو یہ عذاب بھی ہے کہ اسی حال میں کفرہی پہ مرتے ہیں اور توبہ بھی نصیب نہیں ہوتی ۔ اس عذاب کی دلیل ان کا یہ حال ہے کہ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمرکاب جہاد کرنے کا حکم سنتے ہیں تو مختلف بہانے کرنے لگتے ہیں ۔ حالانکہ حیلوں بہانوں سے رخصت کے طالب ہوتے ہیں اور کہتے ہیں ، ہمیں نہ جانے والوں کا ساتھ ٹھیک ہے وہیں رہنے دیں ۔ دین پر عمل اور دین کی دربلندی کے لئے کوشش کرنا آج بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہاتھ بٹانے کے مترادف ہے اور جن لوگوں کو اس کی توفیق نہیں ، انھیں خوش نہ ہونا چاہیئے بلکہ یہ فکر کرنی چاہیئے کہ آخروہ اس سعادت سے کیوں محروم ہیں ؟ اصل مداردل کے حال پر ہے یہ تو خوش ہیں کہ شاید وہ تکلیف سے بچ گئے اور آرام سے بیٹھے ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ ان کے گناہوں کی پاداش میں ان کے دلوں پر مہر کردی گئی ۔ لہٰذا یہ سود و زیاں کی سمجھ ہی کھو بیٹھے ہیں ۔ یہ آیہ کریمہ بتارہی ہے کہ اصل مدار دل کے حال پر ہے اور جب تک دل زندہ اور روشن نہ ہو توفیق عمل نصیب ہوتی ہے ۔ نہ عمل کرنے کا نفع اور نہ کرنے کا نقصان سمجھ میں آتا ہے ۔ ان کے مقابل روشن ترین دل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہے اور ان لوگوں کا جن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معیت ایمان کے ساتھ نصیب ہے اور اس کی دلیل واضح ہے کہ وہ اپنی جان اپنا مال اللہ کی راہ میں نچھاور کرتے ہیں اور اپنی بہترین کوشش غلبہ اسلام کے لئے کر رہے ہیں ۔ لہٰذا تمام بھلائیاں خواہ وہ دنیا سے متعلق ہو یا آخرت سے ، انہی کا مقدر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہیں اور ایسے ہی لوگوں کے لئے جو اپنا جان و مال اور اپنی بہترین کوشش غلبہ اسلام کی راہ میں صرف کرتے ہیں اللہ نے جنت تیار کی ہے جس کے نیچے نہریں رواں ہیں جو سدا شاداب ہے ، اور یہی حقیقی کامیابی ہے کہ ان لوگوں کے مدارج کو پایا جائے اور ان کے نقوش پا پر چل کر حیات بسر ہو۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح آیت نمبر 81 تا 82 گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر منافقین نے اس جہاز میں شرکت سے بچنے اور مال و دولت حاصل کرنے کیلئے ہزاروں بہانے بنائے تھے، وہیں وہ جاں نثار اور مجاہیدن صحابہ بھی تھے جو ہر چیز سے بےنیاز ہو کر محض اللہ کی رضا و خوشنوید اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت و محبت میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے جہاد میں شریک ہونے کو سعادت سمجھ رے تھے۔ فرمایا گیا کہ یہ منافق جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں گھر پر بیٹھے رہ گئیا ور انہوں نے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرنے کو برا سمجھا ہے اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اتنی شدید گرمی کے موسم میں سفر نہ کرو۔ ان کے لئے فرمایا کہ یہ تو دنیا کی گرمی ہے لیکن جب تمہیں تمہارے اعمال کے بدلے میں جہنم میں ڈالا جائے گا اس جہنم کی آگ اور گرمی کا تو دنیا کی گرمی سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ اس دنیا کی گرمی تو چند دن کی ہوتی ہے پھر موسم بدل جاتا ہے لیکن جہنم کی گرمی تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہوگی۔ کاش اس بات کو اسی دنیا کی عارضی زندگی میں سمجھ لیا ہوتا۔ آج تم جتنی خوشیاں منا سکتے ہو منا لو۔ لیکن پھر تمہیں بہت زیادہ روناپڑے گا۔ ان آیات میں جہنم کی شدت کا ذکر ہے۔ قرآن کریم میں جہنم کی اس آگ کو انتہائی شدید کہا گیا ہے جس کا تصور اس دنیا میں ممکن ہی نہیں ہے۔ لیکن ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ جو بھی کافر اور مشرک ہیں ان کو اس جہنم میں ڈالا جائے گا جس کا ذکر کیا گیا ہے لیکن منافقین کے لئے فرمایا گیا ہے کہ وہ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں اس لئے ڈالے جائیں گے کہ وہ کافرانہ حرکتیں بھی کرتے تھے اور دھوکا دینے کے لئے مسلمانوں میں شریک بھی رہتے تھے تو ایک سزا ان کے کفر کی ہے اور ایک سزا ان کی اہل ایمان کو دھوکہ دینے کی ہے۔ اسی طرح آج وہ لوگ جو عیسائی ، یہودی یا مشرک ہیں ان کی سزا جہنم ہے لیکن وہ لوگ جو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ختم نبوت کا انکار کرتے ہیں ان کی سزا بھی دگنی ہے وجہ یہ ہے کہ ایک تو یہ کفر کہ وہ ختم نبوت کا عملاً انکار کرتے ہیں اور دوسری سزا اس بات کی کہ وہ مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے ان جے سی اعمال کرتے ہیں اور کفار و مشرکین سے ساز باز بھی رکھتے ہیں۔ منافقین اور قادیانی درحقیقت ایک ہی سکے کے دوزخ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان جیسے مکاروں سے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ منافقین کے لیے بخشش کی دعا کرنا اس لیے بھی جائز نہیں یہ خود جان بوجھ کر جہاد سے پیچھے رہنے والے اور لوگوں کو جہاد سے بددل کرنے والے ہیں۔ مُخَلّفَ کی جمع مُخَلَّفُوْنَ ہے جس کا معنی ہے وہ لوگ جنھیں ان کے عذربہانوں اور شرارتوں کی وجہ سے پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ منافقین کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر جہاد کے لیے نکلنے کے بجائے اپنے گھروں میں بیٹھے رہیں بظاہر تو وہ اپنے آپ میں خوش ہوتے کہ ہم نے پیچھے رہنے کی باضابطہ اجازت لی ہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ اللہ کے رسول جانتے تھے کہ یہ لوگ جھوٹے بہانے اور خود ساختہ مجبوریاں پیش کرکے جہاد سے پیچھے رہنا چاہتے ہیں اس لیے آپ انھیں بیٹھ رہنے کی اجازت دیتے تاکہ ان کی شرارتوں سے اسلامی لشکر مامون ہوجائے اور دوسری طرف لوگوں کے سامنے یہ بات آشکار ہوجائے کہ یہ لوگ اسلام کے بارے میں مخلص نہیں ہیں اس کے باوجود مال غنیمت کے لالچ اور مسلمانوں کی مخبری کرنے کے لیے کچھ منافق شریک جہاد ہوجایا کرتے تھے۔ یہاں پیچھے رہنے والوں کے لیے مُخَلَّفُوْنَ کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا گیا ہے کہ ان کو ان کی شرارت اور بدنیتی کی وجہ سے پیچھے چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ انھوں نے اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کو ناپسند کیا اور لوگوں کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ تبوک کا سفر طویل ہے اور شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ جہاد کے لیے نکلنا گویا کہ اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنا ہے۔ اس پر انھیں بتلایا گیا کہ تم دنیا کی گرمی کا بہانہ بناتے ہو ذرا اپنے مستقبل کی طرف جھانکو اور وہ وقت یاد کرو کہ جب جہنم میں تمہیں جھونکا جائے گا اس کی آگ کتنی شدید تر ہوگی کاش تم لوگ سمجھ جاؤ۔ منافق غزوۂ تبوک کی طرف نکلنے والے مسلمانوں کو یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ یہ ہیں سلطنت رومہ کے فاتح جو اسے فتح کرنے کے لیے نکل رہے ہیں۔ اس پر منافقوں کو سمجھایا گیا کہ ہنسو تھوڑا اور روؤ زیادہ جو کچھ کر رہے ہو اس کی سزا پاؤ گے کیونکہ دنیا کی خوشیاں آخرت کے مقابلے میں نہایت قلیل ہیں اور جو لوگ کفر و شرک اور منافقت کی حالت میں مریں گے ان کے لیے جہنم میں رونا ہی رونا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ أُوقِدَ عَلَی النَّارِ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی احْمَرَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی ابْیَضَّتْ ثُمَّ أُوقِدَ عَلَیْہَا أَلْفَ سَنَۃٍ حَتَّی اسْوَدَّتْ فَہِیَ سَوْدَاءُ مُظْلِمَۃٌ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ جہنم ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک ہزار سال تک دوزخ کی آگ کو بھڑکایا گیا یہاں تک کہ وہ سرخ ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکا یا گیا حتیٰ کہ وہ سفید ہوگئی پھر اس کو ایک ہزار سال تک بھڑکایا گیا حتیٰ کہ وہ سیاہ ہوگئی اب وہ سیاہ ہے۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بلاشبہ رسول مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہاری دنیاوی آگ جہنم کی آگ کے سترویں درجے کی ہے۔ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی گئی یہ ہی کافی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ اس سے انہتر درجے زیادہ سخت ہے اور ہر درجہ دوسرے سے زیادہ تیزتر ہے۔ “ [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق ] مسائل ١۔ منافق کی منافقت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا کہ یہ اس کی راہ میں جہاد کرے۔ ٢۔ منافقوں کو پیچھے چھوڑ دینا چاہیے۔ ٣۔ جہنم کی آگ دنیا کی آگ سے انہتر گنا زیادہ ہے۔ ٤۔ انسان کو تھوڑا ہنسنا اور اللہ کے حضور زیادہ رونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن جہنم کی آگ کی کیفیت : ١۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔ (البقرۃ : ٢٤) ٢۔ جہنم کی آگ بہت زیادہ گرم ہوگی۔ (التوبۃ : ٨١) ٣۔ مجرم لوگ جہنم کے گرجنے برسنے کی آوازیں سنیں گے۔ (الفرقان : ١٢) ٤۔ جہنم بھرنے کا نام نہیں لے گی۔ (ق : ٣٠) ٥۔ جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے اور اس پر سخت گیر فرشتوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے۔ (التحریم : ٦) ٦۔ مجرموں کو جب جہنم میں ڈالا جائے گا تو وہ اس کی گرج دار آواز سنیں گے۔ (الملک : ٧) ٧۔ جہنم سے بڑے بڑے محلات کے برابر شعلے اٹھیں گے۔ ( المرسلٰت : ٣٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب سیاق کلام ایک بار پھر ان لوگوں کی طرف پھرجاتا ہے جو رسول اللہ سے پیچھے رہ گئے تھے یعنی غزوہ تبوک کے اہم مرحلے میں۔ یہ لوگ جو پیچھے رہ گئے تھے ان سے یہ جرم دنیا پرستی کی وجہ سے سرزد ہوا۔ انہوں نے آرام اور راحت کو پسند کیا۔ انہوں نے انفاق فی سبیل اللہ سے پہلو تہی کی۔ کم ہمتی اور بےحمیتی اور بےایمانی اور دلی کمزور نے ان کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ یہ موقف اختیار کریں۔ ان کے لیے جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ بھی نہایت ہی حقارت امیز ہے یعنی یہ کوئی سامان ہے جو پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہ کو چھوڑ کر اس کے مقابلے میں امن و سکون اور عیش و راحت کو قبول کیا۔ انہوں نے رسول اللہ اور مجاہدین کو اکیلے چھوڑ کر سخت ترین گرمی کی مشقتوں کے لیے چھوڑ دیا اور اس بات کو پسند نہ کیا کہ اپنی جان و مال کے ذریعے اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس " جھلسا دینے والی گرمی میں مت نکلو " یہی اقوال ان تمام لوگوں کے منہ سے نکلتے ہیں جو عیش کوش ہوتے ہیں۔ یہ پست ہمت زنانہ چال والے لوگ ہوتے ہیں اور ان کو کسی صورت میں بھی مرد نہیں کہا جاسکتا۔ یہ لوگ ضعف ہمت کا نمونہ ہیں ۔ یہ کمزور ارادے کے لوگ ہیں۔ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مشکلات سے گھبراتے ہیں اور جدوجہد سے نفرت کرتے ہیں اور جہد و مشقت کے مقابلے میں ذلت آمیز راحت کو پسند کرتے ہیں۔ اور جہد و مشقت کی باعزت زندگی انہیں گوارا نہیں ہوتی۔ وہ شیر کی زندگی کی مقابلے میں گیدڑ کی زندگی کے خوگر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ آگے بڑھنے والی صٖفوں کے پیچھے تھکے ماندے پڑے رہتے ہیں۔ لیکن باہمت لوگوں کی یہ اگلی صفیں پر خطر اور کانٹوں والی راہوں کو چیرتی ہوئی اگے بڑھتی ہیں۔ اس لیے ان کی فطرت زندہ ہوتی ہے اور جانتے ہیں مشکلات کو انگیز کرنا اور آگے ہی بڑھتے چلے جانا انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ پیچھے رہنے اور گھروں میں بیٹھنے کے مقابلے میں ایسے لوگوں کو دشمن کا سامنا کرنے میں زیادہ مزہ آتا ہے۔ فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلٰفَ رَسُوْلِ اللّٰهِ وَكَرِهُوْٓا اَنْ يُّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَقَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِي الْحَرِّ ۭ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّا ۭ لَوْ كَانُوْا يَفْقَهُوْنَ ۔ جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ " اس سخت گرمی میں نہ نکلو " ان سے کہو کہ جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے ، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا۔ دنیا میں تو وہ گرمی سے جان بچا کر چھاؤں میں بیٹھ جائیں گے لیکن آخرت کی گرمی کا کیا علاج کریں گے۔ وہاں تو وہ دائما آگ میں رہیں گے۔ اللہ کی جانب سے یہ ایک حقیقت پسندانہ طنز ہے۔ دنیا میں اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنا تو بہت قلیل مدت کی مشقت ہے بمقابلہ جہنم کی گرمی کے جہاں جو بھی جائے گا ایک طویل عرصہ تک رہے گا اور معلوم کہ کس قدر وہاں رہے گا

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

منافقین کا اس پر خوش ہونا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہ گئے ان آیات میں بھی منافقین کی مذمت ہے جو غزوۂ تبوک میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نہیں گئے تھے آپ تشریف لے گئے اور یہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے رہ گئے۔ ان کو پیچھے رہ جانے پر کوئی افسوس نہیں تھا بلکہ خوشیاں منا رہے تھے کہ اچھا ہوا ہم نہ گئے۔ انہوں نے آپ کے ہمراہ نہ جانے پر خوشی منائی اور انہیں یہ نا گوار ہوا کہ اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ اپنے گھروں میں بیٹھے رہ جانے پر افسوس تو کیا ہوتا دوسروں کو بھی جانے سے روک رہے تھے اور یوں کہہ رہے تھے کہ گرمی میں مت نکلو۔ ایسی سخت گرمی میں جانے کا موقعہ نہیں ہے۔ انہوں نے دنیا کی گرمی کا تو خیال کیا۔ دوزخ کی آگ کی گرمی سے بچنے کا ارادہ نہ کیا۔ حالانکہ وہ دنیا والی گرمی سے بہت زیادہ گرم ہے اور اس سے بچنے کا راستہ یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبر داری کی جائے، دنیا کی گرمی تو قابل برداشت ہے۔ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ غزوۂ تبوک کے لیے نکلے تھے کوئی پگھل تو نہیں گئے، تکلیف تو ہوئی مگر خیریت کے ساتھ واپس آگئے دوزخ کی آگ کی کس کو سہار ہے جس کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ تمہاری یہ آگ (جو دنیا میں ہے) دوزخ کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا جلانے کو (تو) یہی بہت ہے آپ نے فرمایا (اس کے باو جود) دنیا کی آگ کی بہ نسبت دوزخ کی آگ میں ٦٩ درجہ زیادہ گرمی بڑھا دی گئی ہے۔ ہر درجہ کی گرمی اسی قدر ہے جتنی دنیا کی آگ کی گرمی ہے۔ (بخاری ص ٤٦٢ ج ١) دنیا کی گرمی سے گھبرا کر فرائض اور واجبات چھوڑنے والے اس پر غور کرلیں۔ ان لوگوں کا خود جانے کا ارادہ نہ تھا اور تکوینی طور پر بھی ان کے بارے میں یہی فیصلہ تھا کہ یہ لوگ نہ جائیں جیسا کہ (وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ انْبِعَاثَھُمْ فَثَبَّطَھُمْ ) میں فرمایا ہے اس لیے اَلْمُخَلَّفُوْنَ فرمایا کہ یہ لوگ پیچھے ڈال دیئے گئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

76:“ فَرِحَ الْمُخَلَّفُوْنَ الخ ”“ اَلْمُخَلَّفُوْنَ ” یعنی ان کو اللہ نے پیچھے چھوڑ دیا اور جہاد میں شریک ہونے کی ان کو توفیق نہ دی۔ “ اي خلفھم اللہ و ثبطھم ” (قرطبی ج 8 ص 216) ۔ حضرت شیخ نے فرمایا “ اي المخلفون بقھر اللہ ” اس سے وہ منافقین مراد ہیں جو جنگ تبوک میں عمداً شریک نہ ہوئے۔ “ مَقْعَد ” مصدر میمی ہے جو منافقین غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوئے وہ بہت خوش تھے کہ شدت گرما میں وہ سفر کی تکلیفوں اور صعوبتوں سے بچ گئے اور انہوں نے اللہ کی راہ میں مال و جان سے جہاد کرنے کو ناپسند کیا۔ “ وَ قَالُوْا لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّ ” منافقوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا یا انہوں نے مومنوں کو بد دل کرنے کی غرض سے ان سے کہا کہ گرمی میں مت جاؤ اور اپنے گھروں میں آرام کرو۔ “ قال بعضھم لبعض او قالوا للمؤمنین تثبیطا ” (مدارک ج 2 ص 106) ۔ 77:“ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ الخ ” اللہ تعالیٰ نےحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ آپ ان آرام و راحت کے دلداد گان سے فرما دیں جہنم کی آگ جو آخرت میں ان کا ٹھکانا ہوگی دنیا کی اس گرمی سے کہیں زیادہ سخت اور شدید ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

81 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غزوئہ تبوک میں تشریف لے جانے کے بعد یہ پیچھے رہ جانے والے بہت خوش ہوئے ان متخلفین نے اس بات کو ناپسند کیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے جہاد کریں اور یوں کہنے لگے کہ ایسی سخت گرمی میں کوچ نہ کرو اور گھروں سے مت نکلو آپ کہہ دیجئے کہ جہنم کی آگ اس سے بھی زیادہ گرم ہے کیا خوب ہوتا اگر وہ اس بات کو سمجھ سکتے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوئہ تبوک میں جانے لگے تو بہانہ ساز منافقوں نے ساتھ نہ دیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خوشی کا اظہار کیا کہ ہم تو بچ گئے کچھ مخلص مسلمان بھی رہ گئے تھے ان کا ذکر اور ان کی توبہ کا بیان آگے آئے گا۔