Surat ut Tauba

Surah: 9

Verse: 96

سورة التوبة

یَحۡلِفُوۡنَ لَکُمۡ لِتَرۡضَوۡا عَنۡہُمۡ ۚ فَاِنۡ تَرۡضَوۡا عَنۡہُمۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَرۡضٰی عَنِ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿۹۶﴾

They swear to you so that you might be satisfied with them. But if you should be satisfied with them - indeed, Allah is not satisfied with a defiantly disobedient people.

یہ اس لئے قسمیں کھائیں گے کہ تم ان سے راضی ہو جاؤ ۔ سو اگر تم ان سے راضی بھی ہو جاؤ تو اللہ تعا لٰی تو ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہیں ہوتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْاْ عَنْهُمْ فَإِن تَرْضَوْاْ عَنْهُمْ ... They (the hypocrites) swear to you (Muslims) that you may be pleased with them, but if you are pleased with them, Allah said that if the believers forgive the hypocrites when they swear to them, ... فَإِنَّ اللّهَ لاَ يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ certainly Allah is not pleased with the people who are Fasiqin. who rebel against the obedience of Allah and His Messenger. Fisq, means, `deviation'.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

96۔ 1 ان تین آیات میں ان منافقین کا ذکر ہے جو تبوک کے سفر میں مسلمانوں کے ساتھ نہیں گئے تھے نبی اور مسلمانوں کو بخریت واپسی پر اپنے عذر پیش کرکے ان کی نظروں میں وفادار بننا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جب ان کے پاس آؤ گے تو یہ عذر پیش کریں گے، تم ان سے کہہ دو ، کہ ہمارے سامنے عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اصل حالات سے ہمیں باخبر کردیا ہے۔ اب تمہارے جھوٹے عذروں کا ہم اعتبار کس طرح کرسکتے ہیں ؟ البتہ ان عذروں کی حقیقت مستقبل قریب میں مذید واضح ہوجائے گی، تمہارا عمل، جسے اللہ تعالیٰ بھی دیکھ رہا ہے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر بھی اس پر ہے، تمہارے عذروں کی حقیقت کو خود بےنقاب کر دے گا۔ تیسری آیت میں فرمایا، یہ تمہیں راضی کرنے کے لئے قسمیں کھائیں گے۔ لیکن ان نادانوں کو یہ پتہ نہیں کہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی جاؤ تو انہوں نے جس فسق یعنی اطاعت الٰہی سے گریز و فرار کا راستہ اختیار کیا ہے اس کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ ان سے راضی کیونکر ہوسکتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ : یعنی ان کے قسمیں کھانے اور حیلے بہانے کرنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ تم ان سے درگزر کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ ان سے راضی بھی ہوجاؤ، اگر تم ان کی باتوں سے متاثر ہو کر راضی ہو بھی جاؤ تو اللہ تعالیٰ ان کے فسق کی وجہ سے ان سے کبھی راضی نہیں ہوگا۔ ” فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَرْضٰی عَنْھُمْ “ کے بجائے (لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ ) کہنے میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بیان ہوا ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے بھی ان کے فسق کی وجہ سے کسی صورت ان سے راضی ہونا جائز نہیں۔ شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” جس شخص کے حالات سے معلوم ہوتا ہو کہ وہ منافق ہے، اس کی طرف سے تغافل تو جائز ہے مگر اس سے دوستی اور محبت روا نہیں۔ “ (موضح)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

2. The third instruction given to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ap¬pears in the third verse (96): |"They swear before you so that you may be pleased with them.|" The order of Allah Ta` ala is that their wish was not to be granted and he was not to be pleased with them. However, it was also said that, ` even if you were to be pleased with them, it was not going to work for them in any manner, because Allah is not pleased with them. And how could Allah be pleased with them when they are still adamant about their denial and hypocrisy?

تیسرا حکم تیسری آیت میں یہ ہے کہ یہ لوگ قسمیں کھا کر آپ کو اور مسلمانوں کو راضی کرنا چاہیں گے اس کے متعلق حق تعالیٰ نے یہ ہدایت فرمادی کہ ان کی یہ خواہش پوری نہ کی جائے، آپ ان سے راضی نہ ہوں، اور یہ بھی فرمادیا کہ بالفرض اگر آپ راضی بھی ہوگئے تو ان کو کوئی فائدہ اس لئے نہیں پہنچے گا کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی نہیں ہے اور اللہ کیسے راضی ہو جبکہ یہ اپنے کفر و منافقت پر قائم ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْھُمْ۝ ٠ ۚ فَاِنْ تَرْضَوْا عَنْھُمْ فَاِنَّ اللہَ لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ۝ ٩٦ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ، قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] فسق فَسَقَ فلان : خرج عن حجر الشّرع، وذلک من قولهم : فَسَقَ الرُّطَبُ ، إذا خرج عن قشره وهو أعمّ من الکفر . والفِسْقُ يقع بالقلیل من الذّنوب وبالکثير، لکن تعورف فيما کان کثيرا، وأكثر ما يقال الفَاسِقُ لمن التزم حکم الشّرع وأقرّ به، ( ف س ق ) فسق فسق فلان کے معنی کسی شخص کے دائر ہ شریعت سے نکل جانے کے ہیں یہ فسق الرطب کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی گدری کھجور کے اپنے چھلکے سے باہر نکل آنا کے ہیں ( شرعا فسق کا مفہوم کفر سے اعم ہے کیونکہ فسق کا لفظ چھوٹے اور بڑے ہر قسم کے گناہ کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اگر چہ عرف میں بڑے گناہوں کے ارتکاب پر بولا جاتا ہے اور عام طور پر فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کر نیکے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قسم میں اللہ کا ذکر ہو یا نہ ہو وہ قسم ہی ہے قول باری ہے یخلفون لکم لترضوا عنھم فان ترضوا عنھم فان اللہ لا یرضی عن القوم الفاسقین ۔ یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تا کہ تم ان سے راضی ہو جائو حالانکہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ایسے فاسق لوگوں سے ہرگز راضی نہ ہوگا ۔ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ایسا شخص جس پر اتہام لگا ہو اس کی طرف سے اعتذار کی خاطر حلف اٹھانا اور قسمیں کھانا اس سے راضی ہوجانے اور اس کے عذر کو قبول کرلینے کا موجب نہیں ہوتا اس لیے کہ آیت ان لوگوں سے ان کی قسموں کے باوجود راضی ہونے کی ممانعت کی مقتضی ہے۔ اس آیت میں اللہ نے یخلفون فرمایا اور اس کے ساتھ باللہ کا اضافہ نہیں کیا جبکہ پہلی آیت میں سیحلفون باللہ فرمایا اور اس طرح پہلی آیت کے اندر حلف میں اللہ کے نام کا ذکر کیا اور دوسری آیت کے اندر حلف میں ۔ اس کا ذکر نہیں کیا جس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہ دونوں صورتیں ہم معنی ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا ۔ یخلفون علی الکذب وھم یعلمون وہ جان بوجھ کر جھوٹ پر قسمیں کھاتے ہیں ۔ اسی طرح قسم کے لفظ کے بارے میں قول باری ہے ۔ واقسموا باللہ جھد ایمانھم ۔ یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں ۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوا اذا قسموا لیصرمنھا مصبحین جبکہ ان لوگوں نے قسم کھائی تھی کہ ہم اس کا پھل ضرور صبح چل کر توڑیں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے حلف کے ذکر پر اکتفا کرتے ہوئے اسم اللہ کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص کہے حلف میں حلف اٹھاتا ہوں اور یہ کہے حلف باللہ میں اللہ کے نام کا حلف اٹھاتا ہوں تو ان دونوں فقروں میں کوئی فرق نہیں ہوگا ۔ اسی طرح اقسم میں قسم کھاتا ہوں ۔ اوراقسم باللہ میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں ۔ میں کوئی فرق نہیں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٦) تاکہ آپ ان کو معاف کردیں اور ان سے کوئی مواخذہ نہ کریں سو تم بھی انکو ان کے حال پر چھوڑ دو کیوں کہ وہ باکل بیہودہ ہیں اور آخرت میں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے ان کاموں کے بدلے میں جو کہ وہ کہتے اور کرتے تھے اور یہ آپ کی رضا حاصل کرنے کے لیے قسمیں کھائیں گے، بالفرض آپ ان کی جھوٹی قسموں سے ان سے راضی ہو بھی جائیں تو اللہ ان منافقین سے راضی نہیں ہوتا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٦ (یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ لِتَرْضَوْا عَنْہُمْ ج) اب یہ ان منافقین کی دنیا داری کے لحاظ سے مجبوری تھی۔ ایک معاشرے کے اندر سب کا اکٹھے رہنا سہنا تھا۔ اوس اور خزرج کے اندر ان کی رشتہ داریاں تھیں۔ ایسے ماحول میں وہ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمانوں کے دل ان کی طرف سے صاف نہ ہوئے تو وہ اس معاشرے کے اندر ایک طرح سے اچھوت بن کر رہ جائیں گے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کے اندر اپنا اعتماد پھر سے بحال کرنے کے لیے ہر طرح سے دوڑ دھوپ کر رہے تھے ‘ مسلمانوں سے ملاقاتیں کرتے تھے ‘ ان کو اپنی مجبوریاں بتاتے تھے اور ان کے سامنے قسمیں کھا کھا کر اپنے اخلاص کا یقین دلانے کی کوشش کرتے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ۔ یعنی ان کے قسمیں کھانے اور حیلے کرنے کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ تم ان سے درگزر کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ ان سے راضی بھی ہوجاؤ مگر اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوگا۔ اس میں اشارہ ہے کہ مسلمانون کے لیے کسی صورت بھی ان سے راضی ہونا جائز نہیں ہے (از کبیر) شاہ صاحب لکھتے ہیں، جس شخص کے حالات سے معلوم ہوتا ہو کہ وہ منافق ہے اس کی طرف سے تغافل تو جائز ہے مگر اس سے محبت اور دوستی روا نہیں۔ (از موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ عذر وحلف میں ان کی دوغرضیں فرمائیں اعراض اور رضا اور اس کے متعلق تین حکم فرمائے ایک لاتعتذروا دوسرا اعرضو تیسرا عدم رضا جو فان ترضوا سے مفہوم ہوتا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ منافقوں کے بارے میں مزید ناراضگی کا اظہار۔ منافقین کے بارے میں مزید سختی کرتے ہوئے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر آپ ان کی جھوٹی قسموں، مصنوعی عاجزی اور ظاہری درماندگی پر راضی ہو بھی جائیں تو یاد رکھیں اللہ تعالیٰ ہرگز ان پر راضی نہیں ہوگا۔ کیونکہ حقیقتاً یہ لوگ نافرمان ہیں اس آیت میں یہ اصول دو ٹوک انداز میں سمجھا دیا گیا ہے کہ اصل رضامندی اللہ ہی کی ہوتی ہے اگر نبی آخر الزماں بھی کسی شخص سے راضی ہوجائیں تو یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہوجائے۔ اس کی چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں تاکہ لوگ اپنے باطل عقیدہ پر غور کرسکیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ساڑھے نوسو سال سمجھا یا۔ لیکن قوم ایمان نہ لائی بالآخر خضرت نوح (علیہ السلام) کی بددعا کے نتیجہ میں قوم پر عذاب آیا اور انکا بیٹا ان کی آنکھوں کے سامنے غرقآب ہوا حضرت نوح (علیہ السلام) نے بےساختہ اپنے رب سے فریاد کی کہ الٰہی ! آپ نے میرے اہل کو بچانے کا وعدہ کیا تھا مگر میرا بیٹا میرے سامنے ڈبکیاں لے رہا ہے۔ اس پر نوح (علیہ السلام) کو ان الفاظ میں وارننگ دی گئی کہ اے نوح یہ تیرے اہل میں سے نہیں کیونکہ یہ اعمال صالح کا خوگر نہیں۔ (ھود۔ ٤٦) جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس پر راضی نہ ہو اس پر وقت کا پیغمبر بیشک وہ اس کا باپ ہی کیوں نہ ہو راضی ہوجائے تو پیغمبر کی رضا ربِّ ذوالجلال کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی بیٹی اور خاندان کو نصیحت کرنا : (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَا بَنِیْ عَبْدِ مَنَافٍ ، اشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللَّہِ ، یَا بَنِی عَبْدِ الْمُطَّلِبِ اشْتَرُوْا أَنْفُسَکُمْ مِنَ اللَّہِ ، یَآ أُمَّ الزُّبَیْرِ بْنِ الْعَوَّامِ عَمَّۃَ رَسُول اللَّہِ ، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ ، اشْتَرِیَا أَنْفُسَکُمَا مِنَ اللَّہِ ، لاَ أَمْلِکُ لَکُمَا مِنَ اللَّہِ شَیْءًا، سَلاَنِی مِنْ مَّالِی مَا شِءْتُمَا) [ رواہ البخاری : کتاب المناقب باب من انتسب الی آباۂ فی الاسلام والجاہلیۃ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے بنی عبد مناف اپنے آپ کو اللہ کے عذاب سے بچالو، اے بنی عبدالمطلب اپنے آپ کو اللہ سے بچا لو، اے زبیر بن عوام کی والدہ، رسول اللہ کی پھوپھی، اے فاطمہ بنت محمد اپنے آپ کو اللہ سے بچا لو۔ میں تمہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ میرے مال میں سے جو لینا چاہتی ہو لے لو۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کے باوجود عبداللہ بن ابی کا انجام : (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ لَمَّا تُوُفِّیَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ جَاءَ ابْنُہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ إِلٰی رَسُول اللّٰہِ َ فَسَأَلَہٗ أَنْ یُّعْطِیَہٗ قَمِیصَہٗ یُکَفِّنُ فیہِ أَبَاہُ فَأَعْطَاہُ ثُمَّ سَأَلَہٗ أَنْ یُّصَلِّیَ عَلَیْہِ فَقَامَ رَسُول اللّٰہِ َ لِیُصَلِّیَ عَلَیْہِ فَقَامَ عُمَرُ فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ تُصَلِّی عَلَیْہِ وَقَدْ نَہَاکَ رَبُّکَ أَنْ تُصَلِّیَ عَلَیْہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) إِنَّمَا خَیَّرَنِی اللّٰہُ فَقَالَ اسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً وَسَأَزِیدُہٗ عَلَی السَّبْعِیْنَ قَالَ إِنَّہٗ مُنَافِقٌ قَالَ فَصَلّٰی عَلَیْہِ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَأَنْزَلَ اللّٰہُ وَلَا تُصَلِّ عَلٰی أَحَدٍ مِّنْہُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَی قَبْرِہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب تفسیر القران ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں جب عبداللہ بن ابی فوت ہوا۔ اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے آپ سے قمیص کا مطالبہ کیا کہ اس میں اس کے والد کو کفن دیا جائے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قمیص عنایت کردی۔ پھر اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز جنازہ پڑھانے کی گزارش کی۔ جب رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت عمر (رض) نے رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کپڑے کو پکڑکرعرض کی اے اللہ کے رسول ! کیا آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان لوگوں کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع کیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ حضرت عمر (رض) نے کہا یہ تو منافق ہے۔ پھر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز پڑھائی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ” آپ ان میں سے کسی پر بھی نماز نہ پڑھائیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ “ (التوبۃ : ٨٤) مسائل ١۔ منافق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یقین دلانے کے لیے جھوٹی قسمیں اٹھاتے تھے۔ ٢۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی رضا کے پابند تھے۔ اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا کا پابند نہیں۔ ٣۔ منافق اپنے رب کا نافرمان ہوتا ہے۔ ٤۔ منافق کی قسم پر اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

91:“ یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ الخ ” وہ قسمیں اس لیے کھائیں گے تاکہ تم لوگ ان سے راضی ہوجاؤ۔ لیکن یاد رکھو یہ لوگ خدا کے سخت نافرمان اور باغی ہیں۔ اگر تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ان سے کبھی راضی نہیں ہوگا۔ اور صرف تمہاری رضامندی سے انہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ “ اي رضاکم لا ینتج لھم نفعا لان اللہ تعالیٰ ساخط علیھم ولا اثر لرضا احد مع سخطه تعالیٰ ” (روح ج 11 ص 4) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

96 نیز اس لئے تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے کہ تم ان سے راضی ہوجائو حالانکہ بالفرض تم اگر ان سے راضی بھی ہوجائو تو یقیناً ایسے نافرمان لوگوں سے اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوگا یعنی اول تو تم راضی نہیں ہوگے لیکن اگر لوفرضنا تم راضی بھی ہوجائو تو اللہ تعالیٰ راضی نہیں ہوگا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جس شخص کا احوال معلوم ہو کہ منافق ہے اس کی طرف سے تغافل روا ہے لیکن دوستی اور محبت اور یگانگی روا نہیں۔ 12