Surat ul Balad

Surah: 90

Verse: 17

سورة البلد

ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ وَ تَوَاصَوۡا بِالۡمَرۡحَمَۃِ ﴿ؕ۱۷﴾

And then being among those who believed and advised one another to patience and advised one another to compassion.

پھر ان لوگوں میں سے ہو جاتا ہے جو ایمان لاتے اور ایک دوسرے کو صبر کی اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ امَنُوا ... Then he became one of those who believed, meaning, then, along with these beautiful and pure characteristics, he was a believer in his heart, seeking the reward of that from Allah. This is as Allah says, وَمَنْ أَرَادَ الاٌّخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُوْمِنٌ فَأُولَـيِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا And whoever desires the Hereafter and strives for it, with the necessary effort due for it while he is believer, then such are the ones whose striving shall be appreciated. (17:19) Allah also says, مَنْ عَمِلَ صَـلِحاً مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُوْمِنٌ Whoever works righteousness -- whether male or female -- while being a true believer.... (16:97) Allah says, ... وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ and recommended one another to patience, and recommended one another to compassion. meaning, he was from the believers who worked righteous deeds, and advised each other to be patient with the harms of the people, and to be merciful with them. This is similar to what has been related in the noble Hadith, الرَّاحِمُونَ يَرْحَمُهُمُ الرَّحْمنُ ارْحَمُوا مَنْ فِي الاَْرْضِ يَرْحَمْكُمْ مَنْ فِي السَّمَاء The merciful people will be treated with mercy by the Most Merciful (Allah). Be merciful to those who are on the earth and He Who is above the heavens will be merciful to you. In another Hadith he said, لاَا يَرْحَمُ اللهُ مَنْ لاَا يَرْحَمِ النَّاس Allah will not be merciful with whoever is not merciful with the people. Abu Dawud recorded from Abdullah bin Amr that he narrated (from the Prophet), مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا فَلَيْسَ مِنَّا Whoever does not show mercy to our children, nor does he recognize the right of our elders, then he is not of us. Then Allah says, أُوْلَيِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ اعمال خیر، اسی وقت نافع اور اخروی سعادت کا باعث ہونگے جب ان کا کرنے والا صاحب ایمان ہوگا۔ 17۔ 2 اہل ایمان کی صفت ہے کہ وہ ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی تلقین کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢] اصحاب الیمین کے لئے کونسی صفات ضروری ہیں :۔ اس آیت سے بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ انسان کتنے ہی اچھے اعمال بجا لائے جب تک ایماندار نہ ہو، اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو، اس کے اعمال آخرت میں کسی کام نہیں آئیں گے بلکہ برباد ہوجائیں گے۔ دوسری یہ کہ صرف ایمان لانا ہی کافی نہیں بلکہ باقی ایمانداروں کا ساتھ دینا بھی ضروری ہے تاکہ اسلام کو غالب کرنے اور غالب رکھنے کے راستہ میں جو مشکلات پیش آتی ہیں۔ ان کی اجتماعی طور پر مدافعت کی جائے۔ تیسری یہ کہ اسلام کی نظر میں اجتماعی زندگی ہی پسندیدہ ہے۔ تاکہ اسلامی معاشرے کے سب افراد ایک دوسرے کے دکھ درد اور رنج و راحت میں شریک ہو سکیں۔ اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط بنائے رکھتا ہے۔ && پھر آپ نے اپنی انگلیوں کو قینچی کرلیا۔ (بخاری کتاب الادب باب تعاون المومنین بعضھم بعضاً ) ٢۔ انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آپس میں بغض حسد نہ کرو۔ ترک ملاقات نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک ملاقات کرے۔ && بخاری کتاب الادب باب ما ینتہی عن التحاسد) چوتھی یہ کہ مسلمان صرف خود ہی صبر نہیں کرتے بلکہ سب ایک دوسرے کو بھی صبر کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اور صبر کا مفہوم بڑا وسیع ہے۔ ایک مسلمان کی پوری زندگی صبر ہی صبر ہے۔ اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا بھی صبر ہے اور احکام شریعت پر ثابت قدم اور ان کا پابند رہنا بھی صبر ہے۔ پانچویں یہ کہ وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو ایک دوسرے پر رحم کرنے کی تاکید بھی کرتے رہتے ہیں چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ١۔ جو شخص دوسروں پر رحم نہیں کرتا اس پر (اللہ کی طرف سے) بھی رحم نہیں کیا جائے گا۔ (بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس والبہائم) اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں۔ && تم اس مخلوق پر رحم کرو جو زمین میں ہے تم پر وہ ذات رحم کرے گی جو آسمانوں میں ہے۔ ٢۔ مسلمان ایک دوسرے پر رحم کرنے & دوستی رکھنے اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی طرح ہیں & جب ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سب اعضاء بےچین ہوجاتے ہیں & نیند نہیں آتی اور بخار چڑھ جاتا ہے۔ (حوالہ ایضاً ) ٣۔ ایک دفعہ ایک آدمی سفر کر رہا تھا اسے سخت پیاس لگی۔ پھر ایک کنواں ملاتو اس میں اترا اور پانی پیا۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا ہے۔ اس نے سوچا کہ کتے کو پیاس کی وجہ سے ایسی ہی تکلیف ہوگی جیسے مجھے ہوتی ہے۔ وہ پھر کنویں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھر کر اور اسے منہ میں تھام کر اوپر چڑھا پھر کتے کو پانی پلایا۔ اللہ نے اس کے کام کی قدر کی اور اس کو بخش دیا && لوگوں نے عرض کیا & اے اللہ کے رسول ! کیا ہمیں جانوروں پر رحم کرنے میں بھی ثواب ملے گا &&؟ فرمایا ہر تازہ کلیجے والے پر ثواب ملے گا۔ && (حوالہ ایضاً ) ٤۔ آپ ایک دفعہ اپنے صحابہ کرام (رض) کو نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک اعرابی (گنوار) نماز میں ہی کہنے لگا : && اے اللہ مجھ پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحم کر اور ہمارے علاوہ اور کسی پر نہ کر && آپ نے جب نماز سے سلام پھیرا تو اس بدو سے فرمایا && ارے تم نے تو کشادہ کے آگے بند لگادیا اور کشادہ سے آپ کی مراد اللہ کی رحمت تھی۔ (حوالہ ایضاً )

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ثم کان من الذین امنوا…: جنت کی بلندیوں پر پہنچنے کے لئے یہی کافی نہیں کہ گردنیں آزاد رکے یا یتیم اور مسکین کو کھانا کھلائے، بلکہا ن کے ساتھ ساتھ ایمان بھی ضروری ہے، اگر ایمان نہیں تو کوئی عمل قبول نہیں۔ (دیکھیے نسائ : ١٤٤ نحل : ٩٧۔ بنی اسرائیل : ١٩) پھر ایمان اور عمل صالح کے ساتھ ایک دوسرے کو صبر اور رحم کرنے کی وصیت اور تاکید بھی ضروری ہے۔ سورة عصر میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ ” ثم کان من الذین امنوا “ کے الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ مشکل گھاٹی کی چڑھئای کے لئے جو امور ضروری ہیں ان میں پہلے گردن چھڑانا اور یتیم یا مسکین کو کھانا کھلانا ہے پھر اس کے بعد ایمان لانا اور حق و مرحمت کی وصیت کرنا ہے ، مگر اہل علم فرماتے ہیں کہ ” ثم “ ہمیشہ ترتیب زمانی کے لئے نہیں ہوتا، بعض اوقات ترتیب ذکری کے لئے بھی ہوتا ہے، یعنی موقع کی مناسبت سے بعد کی ایک چیز پہلے ذکر کردی جاتی ہے۔ یہاں مال داروں کے لئے خرچ کرنا چونکہ بہت مشکل کام ہے اس لئے پہلے اس کا ذکر فرمایا، پھر ایمان اور تواصی بالحق و المرحمہ کا ذکر اس لئے فرمایا کہ ایمان کے بغیر گردن چھڑانا، کھانا کھلانا یا نیکی کا کوئی بھی کام بےسود ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Obligations of a Believer ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْ‌حَمَةِ ‌ (then he did not join those who believe and advise each other to be patient and advise each other to be merciful...90:17). The verse points out that the doing only of good actions mentioned in the foregoing verse is not enough for raising the all round stature of the Muslim community. Good ideals and right principles, combined with continuous and sustained adherence to the path of moral rectitude and teaching of virtues to others, are equally essential for the attainment of the high aim. Thus the verse after &faith& draws the attention of a believer to his socio-moral obligation to the effect that he ought to teach his other Muslim brothers to be patient and to be merciful. The word sabr signifies &to withhold oneself from evil deeds and to act upon good deeds&. The word marhamah signifies &to show mercy to one another or to empathise with others and abstain from hurting them.& This embraces almost all the injunctions of the entire religion. Al-hamdulillah The Commentary on Surah Al-Balad Ends here

ثم کان من الذین امنو وتواصو بالصبر وتواصوا بالمرحمة۔ اس آیت میں ایمان کے بعد مومن کا یہ فرض بتلایا گیا کہ وہ دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی صبر اور رحمت کی تلقین کرتا رہے۔ صبر سے مراد نفس کو برائیوں سے روکنا اور بھلائیوں پر عمل کرنا ہے اور رحمت سے مراد دوسروں کے حال پر رحم کھانا، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھ کر ان کی ایذا اور ان پر ظلم سے بچنا، اس میں تقریباً دین کے سارے ہی احکام آگئے۔ تمت سورة البلد بحمد اللہ ٣٢ شعبان ٩١٣١

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ۝ ١٧ ۭ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ وصی الوَصِيَّةُ : التّقدّمُ إلى الغیر بما يعمل به مقترنا بوعظ من قولهم : أرض وَاصِيَةٌ: متّصلة النّبات، ويقال : أَوْصَاهُ ووَصَّاهُ. قال تعالی: وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة/ 132] وقرئ : وأَوْصَى «2» قال اللہ عزّ وجلّ : وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ [ النساء/ 131] ، وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت/ 8] ، يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ [ النساء/ 11] ، مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء/ 12] حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ ( و ص ی ) الوصیۃ : واقعہ پیش آنے سے قبل کسی کو ناصحانہ انداز میں ہدایت کرنے کے ہیں اور یہ ارض واصیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی پیوستہ گیا ہ یعنی باہم گھتی ہوئی گھاس والی زمین کے ہیں اور اوصاہ ووصا کے معنی کسی کو وصیت کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَوَصَّى بِها إِبْراهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ [ البقرة/ 132] اور ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اس بات کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی ۔ ایک قرات میں اوصی ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَوَصَّيْنَا الْإِنْسانَ [ العنکبوت/ 8] اور ہم نے انسان کو حکم دیا ۔ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِها[ النساء/ 12] وصیت کی تعمیل کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض کے ۔ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنانِ [ المائدة/ 106] کہ وصیت کے وقت تم دو مر د ۔ وصی ( ایضاء) کسی کی فضیلت بیان کرنا ۔ تواصی القوم : ایک دوسرے کو وصیت کرنا قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَواصَوْا بِالْحَقِّ وَتَواصَوْا بِالصَّبْرِ [ العصر/ 3] اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے ۔ أَتَواصَوْا بِهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طاغُونَ [ الذاریات/ 53] کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو اس بات کی وصیت کرتے آئے ہیں بلکہ یہ شریر لوگ ہیں ۔ صبر الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ( ص ب ر ) الصبر کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب/ 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر» ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے (ثم کان من الذین امنوا۔ پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے) مفہوم یہ ہے وہ شخص ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لائے ۔ اس طرح حرف ثم یہاں حرف وائو کے معنی میں ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اور پھر بھی ان لوگوں میں سے نہیں جو کہ ایمان لائے اور ایک دوسرے کو فرض ادا کرنے کی رغبت دلائی اور ایک نے دوسرے کو فقراء و مساکین پر رحم کی فہمایش کی۔ ان ہی خوبیوں کے مالک جنتی ہیں جن کو ان کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } ” پھر وہ شامل ہو ان لوگوں میں جو ایمان لائے “ یہاں پر لفظ ثُمَّ بہت اہم اور معنی خیز ہے۔ یعنی پہلے انسان اس مشکل گھاٹی کو عبور کرے ‘ اپنے دل کی زمین میں انفاق فی سبیل اللہ کا ہل چلائے ‘ اس کے ذریعے سے دل کی زمین سے حب مال کا جھاڑ جھنکاڑ صاف کرے ‘ اور پھر (ثُمَّ ) اس میں ایمان کا بیج ڈالے۔ اگر وہ اس ترتیب اور اس انداز سے محنت کرے گا تو تبھی ایمان کا پودا اس کے دل کی زمین میں اپنی جڑیں پھیلائے گا اور برگ و بار لائے گا۔ { وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ ۔ } ” اور جنہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی اور باہم ایک دوسرے کو ہمدردی کی نصیحت کی۔ “ یہ مضمون سورة العصر میں بایں الفاظ آیا ہے : { اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ۔ } ” سوائے ان کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کیے ‘ اور باہم ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی “۔ الفاظ اور مفہوم کے اعتبار سے ان دونوں آیات میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ البتہ دونوں جگہ مذکور اصطلاحات کی ترتیب مختلف ہے۔ سورة العصر کی اس آیت میں ایمان کے بعد عمل صالح کا بیان ہے جبکہ آیت زیر مطالعہ میں عمل صالح (غرباء و مساکین اور یتیموں کے حقوق کی ادائیگی) کے بعد ایمان کا ذکر ہے۔ سورة العصر میں تواصی بالحق کے بعد تواصی بالصبر کا تذکرہ ہے ‘ جبکہ یہاں پر پہلے تواصی بالصبر اور بعد میں تواصی بالمرحمہ کا ذکر آیا ہے۔ اس پہلو سے دونوں آیات کے تقابلی مطالعہ سے بہت سے حقائق و رموز کی نشاندہی ہوتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 That is, "In addition to these qualities it is essential that one should be a believer, for without faith no act is an act of virtue, nor acceptable in the sight of Allah. At numerous places in the Qur'an it has been stated that only such an act of virtue is appreciable and becomes a means of salvation as is accompanied by faith. In .Surah An-Nisa', for example, it has been said: "The one who dces good deeds, whether man or woman, provided that the one is a believer, will enter Paradise (v. 1245.) " In Surah An-Nahl: "Whosoever does righteous deeds, whether male or female, provided that he is a believer, We shall surely grant him to live a pure life in this world, and We will reward such people (in the Hereafter) according to their best deeds" (v. 97) . In Surah Al-Mu'min: "Whoever does good, whether man or woman, provided that he is a believer, all such people shall enter Paradise wherein they shall be provided without measure." (v : 4U) . Whoever studies the Qur'an, will see that in this Book wherever the good reward of a righteous act has been mentioned, it has always been made conditional upon the faith, a good act without faith; has nowhere been regarded as acceptable to God, nor has any hope been given for a reward for it. Here, the following important point also should not remain hidden from view: In this verse it has not been said: "Then he believed", but: "Then he joined those who believed.' This means that mere believing as an individual and remaining content with it is not what is desired; what is desired is that every new believer should join those who have already believed so as to form a party of the believers, to bring about a believing society, which should work for establishing the virtues and wiping out the vices as demanded by the faith. 14 These are two of the important characteristics of the believing society, which have been expressed in two brief sentences. The first characteristic is that its members should exhort one another to patience, and the second that they should exhort one another to compassion and mercy. As for patience, we have explained at many places that in view of the extensive meaning in which the Qur'an has used this word, the entire life of a believer is a life of patience. As soon as a man stops on to the path of the faith, test of his patience starts. Patience is required to be exercised in performing the acts of worship enjoined by Allah patience is needed in carrying out the commands of Allah; abstention from the things forbidden by Allah is not possible without patience; patience is needed in abandoning the moral evils and in adopting the pure morals; temptations to sin faced at every step can be resisted only by recourse to patience. On countless occasions in life obedience to God's law entails losses, troubles, hardships and deprivations, and disobedience to the law seems to bring benefits and pleasures. Without patience no believer can fare well on such occasions. Then, as soon as a believer has adopted the way of the faith, he has to meet with resistance not only from his own self and personal desires but also from his children, family, society, country and nation and from the base-hearted among men and jinn of the entire world; so much so that he is even required to abandon his country and undertake Jihad in the cause of God. Under all these conditions only the quality of patience can cause a man to remain steadfast to principles. Now, obviously, if every believer individually was put to such a hard test, he would be faced with the danger of defeat at every step and world hardly be able to pass through the test successfully. On the contrary, if there existed a believing society every member of which was not only himself possessed of patience but all its members also were .supporting one another mutually in the test of patience, successes would fall to its lot, a tremendous power would be generated to face the evil, a mighty force of good individuals would be ready to help bring the entire society on to the path of virtue and righteousness. As for mercy and compassion, it is the distinctive feature of the society of believers that they are not a hard-hearted, merciless and unjust people but a society whose members are merciful and compassionate. to humanity at large and sympathetic and friendly among themselves. A believer as an individual is an embodiment of Allah's quality of mercy and the group of the believers as a party also is a representative of Allah's Messenger, who has been described thus: "O Muhammad, We have sent you to be a real blessing for the people of the world." (AI-Anbiya': 107) . The highest moral quality which the Holy Messenger (upon whom be Allah's peace) tried his utmost to inculcate among his followers was this very quality of mercy. Consider - the following of his sayings, which show what importance he attached to it. Hadrat Jarir bin `Abdullah says that the Holy Messenger (upon whom be peace) said: "Allah does not show mercy to him who does not show mercy to others." (Bukhari, Muslim) . Hadrat `Abdullah bin `Amr bin al-`As says that the holy Prophet said: "The Rahman (Merciful) shows mercy to those who show mercy (to others) . Show mercy to those who live in the earth, the One who is in heaven will show mercy to you." (Abu Da'ud, Tirmidhi) . Hadrat Abu Sa`id Khudri has reported that the Holy Prophet said: "The one who dces not show mercy, is not shown mercy. " (Bukhari in Al-Adab al-Mufrad) . Ibn `Abbas says that the Holy Prophet said: "The ane who does not treat our young ones mercifully and does not treat our elderly ones respectfully, dces not belong to us. " (TirmidhI) . Abu Da'ud has related this same saying of the Holy Prophet on the authority of Hadrat `Abdullah bin `Amr, thus: "The one who did not feel pity on our young and did not respect our elderly does not belong to us." Hadrat Abu Hurairah says: "I have heard Abul-Qasim, the Truthful (upon whom be peace) , say: "The heart of the wretched one is deprived of the quality of mercy altogether' . " (Musnad Ahmad, Tirmidhi) . Hadrat `Iyad bin Humad relates that the Holy Prophet said: "Three kinds of men belong to Paradise, one of whom is the person who is kindly and compassionate to every relative and every Muslim." (Muslim) . Hadrat Nu`man bin Bashir has reported that the Holy Prophet said: "You will find the believers like a body in the matter of mutual kindness, love and sympathy, so that if one part of the body suffers the whole body suffers and becomes restless because of it." (Bukhari, Muslim) . Hadrat Abu Musa Al-ash`ari says that the Holy Prophet said: "The believer is for the other believer like a wall each part of which supports and strengthens the other part." (Bukhari, Muslim) . Hadrat `Abdullah bin 'Umar has reported that the Holy Prophet said: "A Muslim is a brother of the other Muslim: neither treats him unjustly, nor withholds his help from him. The person who works to fulfil a need of his brother, Allah will seek to fulfil his need; and the one who rescues a Muslim from an affliction, Allah will rescue him from an affliction of the afflictions of the Resurrection Day; and the one who conceals the fault of a Muslim, Allah will conceal his fault on the Resurrection Day. " (Bukhari, Muslim) . These traditions indicate what kind of a society is envisaged by the Qur'anic instruction given in this verse, which exhorts the righteous people to join the group of the believers after they have affirmed the faith.

سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :13 یعنی ان اوصاف کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ آدمی مومن ہو ، کیونکہ ایمان کے بغیر نہ کوئی عمل صالح ہے اور نہ اللہ کے ہاتھ وہ مقبول ہو سکتا ہے ۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ نیکی وہی قابل قدر اور ذریعہ نجات ہے جو ایمان کے ساتھ ہو ۔ مثلاً سورہ نساء میں فرمایا جو نیک اعمال کرے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، اور ہو وہ مومن ، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے ( آیت 124 ) ۔ سورہ نحل میں فرمایا جو نیک عمل کرے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، اور ہو وہ مومن ، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ایسے لوگوں کو ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے ( آ یت 97 ) ۔ سورہ مومن میں فرمایا اور جو نیک عمل کرے ، خواہ مرد ہو یا عورت ، اور ہو وہ مومن ، ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے ، وہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا ( آیت 40 ) ۔ قرآن پاک کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ یہ دیکھے گا کہ اس کتاب میں جہاں بھی عمل صالح کے اجر اور اس کی جزائے خیر کا ذکر کیا گیا ہے وہاں لازماً اس کے ساتھ ایمان کی شرط لگی ہوئی ہے ۔ عمل بلا ایمان کو کہیں بھی خدا کے ہاں مقبول نہیں قرار دیا گیا ہے اور نہ اس پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے ۔ اس مقام پر یہ اہم نکتہ بھی نگاہ سے مخفی نہ رہنا چاہیے کہ آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ پھر وہ ایمان لایا بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ پھر وہ ان لوگوں میں شامل ہوا جو ایمان لائے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ محض ایک فرد کی حیثیت سے اپنی جگہ ایمان لا کر رہ جانا مطلوب نہیں ہے ، بلکہ مطلوب یہ ہے کہ ہر ایمان لانے والا ان دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جائے جو ایمان لائے ہیں تاکہ اس اہل ایمان کی ایک جماعت بنے ، ایک مومن معاشرہ وجود میں آئے ، اور اجتماعی طور پر ان بھلائیوں کو قائم کیا جا ئے جن کا قائم کرنا ، اور ان برائیوں کو مٹایا جائے جن کا مٹانا ایمان کا تقاضا ہے ۔ سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :14 یہ مومن معاشرے کی دو اہم خصوصیات ہیں جن کو دو مختصر فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے ۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں ۔ اور دوسری یہ کہ وہ ایک دوسرے کو رحم کی تلقین کریں ۔ جہاں تک صبر کا تعلق ہے ، ہم اس سے پہلے بارہا اس امر کی وضاحت کر چکے ہیں کہ قرآن مجید جس وسیع مفہوم میں اس لفظ کو استعمال کرتا ہے اس کے لحاظ سے مومن کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہے ، اور ایمان کے راستے میں قدم رکھتے ہی آدمی کے صبر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے ۔ خدا کی فرض کردہ عبادتوں کے انجام دینے میں صبر درکار ہے ۔ خدا کے احکام کی اطاعت و پیروی میں صبر کی ضرورت ہے ۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ اخلاق کی برائیوں کو چھوڑنا اور پاکیزہ اخلاق اختیار کرنا صبر چاہتا ہے ۔ قدم قدم پر گناہوں کی ترغیبات سامنے آتی ہیں جن کا مقابلہ صبر ہی سے ہو سکتا ہے ۔ بے شمار مواقع زندگی میں ایسے پیش آتے ہیں جن میں خدا کے قانون کی پیروی کی جائے تو نقصانات ، تکالیف ، مصائب ، اور محرومیوں سے سابقہ پڑتا ہے اور اس کے برعکس نافرمانی کی راہ اختیار کی جائے تو فائدے اور لذتیں حاصل ہوتی نظر آتی ہیں ۔ صبر کے بغیر ان مواقع سے کوئی مومن بخریت نہیں گزر سکتا ۔ پھر ایمان کی راہ اختیار کرتے ہی آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے لے کر اپنے اہل و عیال ، اپنے خاندان ، معاشرے ، اپنے ملک و قوم ، اور دنیا بھر کے شیاطین جن و انس کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، حتی کہ راہ خدا میں ہجرت اور جہاد کی نوبت بھی آ جاتی ہے ۔ ان سب حالات میں صبر ہی کی صفت آدمی کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے ۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ ایک ایک مومن اکیلا اکیلا اس شدید امتحان میں پڑ جائے تو ہر وقت شکست کھا جانے کے خطرے سے دوچار ہو گا اور مشکل ہی سے کامیاب ہو سکے گا ۔ بخلاف اس کے اگر ایک مومن معاشرہ ایسا موجود ہو جس کا ہر فرد خود بھی صابر ہو اور جس کے سارے افراد ایک دوسرے کو صبر کے اس ہمہ گیر امتحان میں سہارا بھی دے رہے ہوں تو کامرانیاں اس معاشرے کے قدم چومیں گی ۔ بدی کے مقابلے میں ایک بے پناہ طاقت پیدا ہو جائے گی ۔ انسانی معاشرے کو بھلائی کے راستے پر لانے کے لیے ایک زبردست لشکر تیار ہو جائے گا ۔ رہا رحم ، تو اہل ایمان کے معاشرے کی امتیازی شان یہی ہے کہ وہ ایک سنگدل ، بے رحم اور ظالم معاشرہ نہیں ہوتا بلکہ انسانیت کے لیے رحیم و شفیق اور آپس میں ایک دوسرے کا ہمدرد و غمخوار معاشرہ ہوتا ہے ۔ فرد کی حیثیت سے بھی ایک مومن اللہ کی شان رحیمی کا مظہر ہے ، اور جماعت کی حیثیت سے بھی مومنوں کا گروہ خدا کے اس رسول کا نمائندہ ہے جس کی تعریف میں فرمایا گیا ہے کہ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ( الانبیاء ۔ 106 ) آنحضور نے سب سے بڑھ کر جس بلند اخلاقی صفت کو اپنی امت میں فروغ دینے کی کوشش فرمائی ہے وہ یہی رحم کی صفت ہے ۔ مثال کے طور پر آپ کے حسب ذیل ارشادات ملاحظہ ہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں اس کی کیا اہمیت تھی ۔ حضرت جریر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یرحم اللہ من لا یرحم الناس ( بخاری ۔ مسلم ) اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا: الراحمون یرحمھم الرحمن ۔ ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء ( ابو داؤد ۔ ترمذی ) رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے ۔ زمین والوں پر رحم کرو ، آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔ حضرت ابو سعید خدری حضور کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: من لا یرحم لا یرحم ( بخاری فی الادب المفرد ) ۔ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لیس منا من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا ( ترمذی ) وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھائے ، اور ہمارے بڑے کی توقیر نہ کرے ۔ ابو داؤد نے حضور کے اس ارشاد کو حضرت عبداللہ بن عمرو کے حوالہ سے یوں نقل کیا ہے: من لم یرحم صغیرنا و یعرف حق کبیرنا فلیس منا ۔ جس نے ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھایا اور ہمارے بڑے کا حق نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو القاسم صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: لا تنزع الرحمۃ الا من شقی ( مسند ا حمد ۔ ترمذی ) بد بخت آدمی کے دل ہی سے رحم سلب کر لیا جاتا ہے ۔ حضرت عیاض بن حمار کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا تین قسم کے آدمی جنتی ہیں ۔ ان میں سے ایک: رجل رحیم رقیق القلب لکل ذی قربی و مسلم ۔ ( مسلم ) وہ شخص ہے جو ہر رشتہ دار اور ہر مسلمان کے لیے رحیم اور رقیق القلب ہو ۔ حضرت نعمان بن بشیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تری المومنین و تراحمھم و توادھم و تعاطفھم کمثل الجسد اذا اشتکی عضوا تداعی لہ سائر الجسد بالسھر و الحمی ۔ ( بخاری و مسلم ) تم مومنوں کو آپس کے رحم اور محبت اور ہمدری کے معاملہ میں ایک جسم کی طرح پاؤ گے کہ اگر ایک عضور میں کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی خاطر بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ حضرت ابو موسی اشعری کہتے ہیں کہ حضور نے فرمایا: المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً مومن دوسرے مومن کے لیے اس دیوار کی طرح ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر حضور کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: المسلم اخو المسلم لا یظلمہ و لا یسلمہ و من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ و من فرج عن مسلم کربۃ فرج اللہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیامۃ و من ستر مسلما سترہ اللہ یوم القیامۃ ۔ ( بخاری و مسلم ) مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کی مدد سے باز رہتا ہے ۔ جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے میں لگا ہوگا اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جائے گا ۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو کسی مصیبت سے نکالے گا اللہ تعالی اسے روز قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت سے نکال دے گا ، اور جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا اللہ قیامت کے روز اس کی عیب پوشی کرے گا ۔ ان ارشادات سے معلوم ہو جاتا ہے کہ نیک اعمال کرنے والوں کو ایمان لانے کے بعد اہل ایمان کے گروہ میں شامل ہونے کی جو ہدایت قرآن مجید کی اس آیت میں دی گئی ہے اس سے کس قسم کا معاشرہ بنانا مقصود ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(90:17) ثم کان من الذین امنوا وتواصوا بالصبر وتواصوا بالمرحمۃ۔ صاحب تفسیر حقانی تحریر کرتے ہیں :۔ ثم اس مقام پر تراخی ذکر کے لئے ۔ یعنی ان سب باتوں کا ذکر کرنے کے بعد میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اسے ایمان دار بھی ہونا چاہیے۔ بعض علماء کے نزدیک ثم اس جگہ تاخیر وقوع کے لئے ہے۔ یعنی کفار کے اعمال خیر توقف میں رہتے ہیں۔ اگر اخیر میں ایمان لے آیا تو یہ اعمال مقبول ہوجاتے ہیں ورنہ مردود۔ چناچہ حکیم بن حزام نے اسلام لانے کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ میں نے حالف کفر میں بہت سے نیک کام کئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تیرے ایمان نے ان سب کو نیک اور مقبول بنادیا۔ اولی یہی ہے کہ ثم تراخی ذکر کے لئے ہے۔ ثم کان من الذین امنوا کا ترجمہ ہوگا :۔ پھر وہ ان لوگوں میں جو ایمان لائے۔ (یعنی بغیر ایمان کے کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی، ایمان جڑ ہے، ایمان ہی بنیاد ہے۔ اعمال صالحہ اس پر عمارت ہے کوئی عمارت بغیر بنیاد کے قائم نہیں رہ سکتی۔ وتواصوا بالصبر۔ اس کا عطف امنوا پر ہے۔ تواصوا ماضی جمع مذکر غائب ہے۔ انہوں نے باہم وصیت کی۔ وہ کہہ مرے۔ انہوں نے تاکید کی۔ تواصی (تفاعل) مصدر ہے۔ وہ ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کرتے ہیں۔ وتواصوا بالمرحمۃ۔ اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ مرحمۃ رحم یرحم (باب سمع) کا مصدر ہے۔ مہربانی کرنا۔ رحم کرنا۔ ترس کھانا۔ وہ ایک دوسرے کو رحم کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لانے پر صبر و استقلال کی اور مخلوق پر رحم کھانے کی تلقین کرتے ہیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ ایمان تو سب سے مقدم ہے پھر امر بالثبات علی الایمان اوروں سے افضل ہے، پھر ترک اضرار بقیہ سے اہم ہے، پھر ان اعمال کا رتبہ ہے جو فک رقبہ سے ذا متربة تک مذکور ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مشکل ترین کاموں میں مزید مشکل ترین کام۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسکین کو کھانا کھلانا، رشتہ دار یتیم کی پرورش کرنا، اخلاقی لحاظ اور مالی اعتبار سے مشکل ترین کام ہیں لیکن ان کاموں سے مشکل ترین کام یہ ہے کہ انسان اپنے باطل نظریات بالخصوص کفر و شرک کو چھوڑ کر توحید و رسالت کا عقیدہ اپنائے اور اس راستے میں جو بھی مشکلات آئیں ان کا پورے حوصلے کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے حوصلوں کو بھی بلند رکھنے کی کوشش کرے اور ایک دوسرے کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا رویہ اختیار کرے۔ دین اختیار کرنے پر مشکلات کا آنا یقینی امر ہے مشکلات پر قابو پانے کے لیے یہی دو طریقے ہیں جن پر چل کر مسلمان اپنے ایمان کو سلامت رکھ سکتا ہے۔ ایماندار شخص کو خود صبر کرنے اور دوسروں کو صبر کرنے کی تلقین کرنے کے ساتھ ایک دوسرے سے نرمی اور مہربانی بھی کرنی چاہیے۔ اس کے بغیر حق کا قافلہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ مشکلات باطل پرستوں کی طرف سے ہوں یا بیماری اور غربت کی صورت میں ہوں ایماندار کا شیوہ ہے کہ وہ خود بھی صبر کرے اور ایسے حالات میں اپنے ساتھیوں کو بھی صبر کرنے کی تلقین کرتا رہے۔ (عَنْ عَبْدِاللَّہِ بْنِ عَمْرٍو یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الرَّاحِمُونَ یَرْحَمُہُمُ الرَّحْمَنُ ارْحَمُوا أَہْلَ الأَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ ) (رواہ ابو داؤد : باب فِی الرَّحْمَۃِ قال الالبانی ھٰذا حدیث صحیح) ” حضرت عبداللہ بن عمرو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ رحم کرنے والوں پر رحم کرتا ہے تم زمین والوں پر رحم کرو ! آسمان والا تم پر رحم فرمائے گا۔ (عَنْ جَرِیرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لاَ یَرْحَمُ اللَّہُ مَنْ لاَ یَرْحَمُ النَّاسَ ) (باب قَوْلِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی (قُلِ ادْعُوا اللَّہَ ) ” حضرت جریر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اس بندے پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَیْسَ الْوَاصِلُ بالْمُکَافِءِ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِیْ إِذَا انْقَطَعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَہَا) (رواہ الترمذی : باب مَا جَآءَ فِیْ صِلَۃِ الرَّحِم) ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا برابری کرنے والا صلہ رحم نہیں ہے، صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے جس سے تعلق توڑا جائے تو وہ اسے جوڑنے کی کوشش کرے۔ “ (عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الْمُؤْمِنُ الَّذِيْ یُخَالِطُ النَّاسَ وَیَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ أَعْظَمُ أَجْرًا مِّنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِیْ لَایُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا یَصْبِرُ عَلٰی أَذَاھُمْ ) (رواہ ابن ماجۃ : کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء) ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو مومن لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ اجر والا ہے جو نہ لوگوں میں گھل مل کر رہتا ہے اور نہ ان کی دی ہوئی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے۔ “ مسائل ١۔ باطل نظریات کو چھوڑنا اور حق بات کو قبول کرنا مشکل ترین کاموں میں سے اہم ترین کام ہے۔ ٢۔ ایمانداروں کو ایک دوسرے کو صبر اور مہر بانی کرنے کی تلقین کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن نرمی اور مہربانی کرنے کی فضیلت : ا۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کرنے کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٤۔ صبر کا انجام اچھا ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ صابر مسلمان کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : ٢٤) ٧۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان : ٧٥) ٨۔ صابر بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ (الزمر : ١٠) ٩۔ ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنے کا حکم ہے۔ (آل عمران : ٢٠٠) ١٠۔ بنی اسرائیل سے والدین کے ساتھ احسان کرنے کا عہدلیا گیا۔ (البقرۃ : ٨٣) (مریم : ٣٢) ١١۔ لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم۔ ( البقرۃ : ٨٣) ١٢۔ غیر مسلم والدین کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ (لقمان : ١٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثم کان ............................ بالمرحمة (17:90) ؟ ؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آدمی ان لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی تلقین کی “۔ لفظ تم یہاں ” پھر “ کے معنی میں نہیں ہے ، کہ پہلے یہ دوکام ہیں اور بعد میں اسلام ہے ، بلکہ معنی یہ ہے کہ یہ دوجزوی کام بھی ضروری ہیں لیکن ان سے پہلے ایمان لانا ضروری ہے ، اور یہ ضروری اور عام اصول ہے۔ اور اعلیٰ مقام و مرتبہ ہے ، اگر ایمان نہیں ہے تو پھر غلاموں کو آزاد کرنا ، اور لوگوں کو کھانا کھلانا مفید ہی نہیں ہے۔ ہر اچھے عمل سے قبل ایمان لانا ضروری ہے۔ اللہ کے ہاں کسی بھی عمل صالح میں وزن صرف ایمان کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ایمان ہی اعمال کو ایک منہاج مسلسل منہاج کی لڑی میں پرودیتا ہے۔ ایمان کی وجہ سے عمل صالح مسلسل اور دائمی نوعیت اختیار کرلیتا ہے اور ایمان کے بغیر اگر کوئی نیکی کرتا ہے تو وہ محض ایک عارضی جوش ہوتا ہے۔ بدلتے ہوئے مزاجوں کے ساتھ بدل جاتا ہے ، یا کسی مصلحت کی وجہ سے کوئی نیکی کرتا ہے یا تعریف سننے کے لئے۔ اب معنی یوں ہوا کہ مشکل گھاٹی یہ ہے کہ کسی غلام کو آزاد کردے ، یا کسی یتیم ومسکین کو فاقے کے دن کھانا کھلائے لیکن سب سے اول یہ کہ وہ اہل ایمان میں سے ہو اور ایک دوسرے کو صبر اور رحم کرنے کی نصیحت کرنے والوں میں سے ہو۔” ثم “ کا لفظ گویا یہاں ” پھر “ کے معنی میں نہیں بلکہ ” سب سے بڑی بات یہ کہ “ کا مفہوم دیتا ہے۔ صبر کی وصیت اس لئے ضروری ہے کہ ایمان کے تقاضوں میں سے بالعموم اہم تقاضا صبر ہے۔ اور دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرنے کے لئے بالخصوص صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر ایک دوسرے کو صبر کی وصیت بھی کرنا یہ صبر سے بھی ایک اونچا درجہ ہے۔ یعنی اسلامی جماعت ایسے درجے پر ہوتی ہے کہ اس کے افراد اور کارکن باہم ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے ہیں اور اس طرح وہ ایمان کے تقاضے پورے کرنے میں ایک دوسرے کے لے ممدومعاون ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں کے احساسات ایک دوسرے کے ساتھ ہم رنگ ہوتے اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ قدم ملا کر چلتے ہیں ، اور یہ سمجھتے ہیں کہ زمین کے اوپر ایمانی نظام کے قیام کا فریضہ صبر اور مصابرت ہی سے ادا ہوسکتا ہے۔ اس لئے وہ اس کا گراں کے سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات پر ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے ثابت قدمی کا باعث بنتے ہیں۔ ایک دوسرے کو حوصلہ دیتے ہیں ، ایک دوسرے کو قوت دیتے ہیں۔ یہ صبر اور تواصی بالصبر انفرادی صبر سے آگے ایک بلند درجہ ہے۔ اگرچہ یہ صبر بھی انفرادی صبر ہی پر قائم ہوتا ہے لیکن تواصی بالصبر سے اشارہ اس طرف سے ہی کہ مومنین اجتماعی صبر ہی کریں۔ اور یہ کہ وہ ایک دوسرے کے لئے ہمت توڑنے کا باعث نہ بنیں بلکہ ہمت بڑھانے کا باعث ہوں۔ ہزیمت کا باعث نہ بنیں بلکہ اقتحام اور مشکلات کو انگیز کرنے کا باعث بنیں۔ جزع فزع کا باعث بنیں بلکہ ایک دوسرے کے اطمینان کا باعث بنیں۔ اسی طرح خلق خدا پر رحم کرنا ایک بات ہے اور ایک دوسرے کو لوگوں پر رحم کرنے کی تلقین کرنا ایک دوسرا فعل ہے۔ جو رحم کی تلقین کرنے پر ایک زیادہ بات ہے۔ اور اس میں یہ اشارہ ہے کہ یہ صفت جماعت مسلمہ کی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو رحم کی وصیت کریں اور اس فعل پر ایک دوسرے کو اکسائیں اور اسے ایک انفرادی اور اجتماعی فریضہ سمجھیں ، کہ افراد جماعت کا یہ شعار ہو اور نکتہ تعاون ہو۔ صبر اور تواصی صبر ، رحم او تواصی رحم کے اندر سے یہ ہدایت نکلتی ہے کہ اسلام ایک اجتماعی دین ہے جس کے قیام کے لئے جماعت ضروری ہے ، کیونکہ یہ ایک جماعت ایک سوسائٹی کا دین ہے اور اس کے قیام سے ایک امت وجود میں آتی ہے ، لیکن یہ ایسا اجتماعی دین نہیں ہے کہ اس میں انفرادی ذمہ داری ہو ، یہ گویا انفرادی ذمہ داری کی بنا پر اجتماعی دین ہے۔ انفرادی ذمہ داری اس میں بہت واضح ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا : ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ تَوَاصَوْا بالصَّبْرِ وَ تَوَاصَوْا بالْمَرْحَمَةِؕ٠٠١٧ کہ مذکورہ افعال خیر ایمان کے ساتھ ہونے چاہئیں کیونکہ ایمان کے بغیر آخرت میں کوئی عمل نافع نہیں ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ صفت ایمان اور دوسری صفات کے ساتھ آپس میں ایک دوسرے کو صبر کی تلقین بھی کرتے رہنا چاہیے نیکیوں پر جما رہنا اور گناہوں سے رکا رہنا اور مشکلات و مصائب پر جزع و شکوہ و شکایت نہ کرنا یہ سب کچھ صبر میں آجاتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ آپس میں ایک دوسرے کو مرحمت یعنی مخلوق پر رحمت کرنے کی وصیت بھی کرتے رہنا چاہیے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

8:۔ ” ثم کان “ ثم تعقیب ذکری کے لیے ہے یعنی ان مصارف میں خرچ کرے لیکن اس کے ساتھ ایمان شرط ہے۔ مومن بھی ہوں اور دوسرے گناہوں سے بچنے اور مصائب پر صبر کرنے کی وصیت بھی کریں اور لوگوں پر مہربانی کرنے اور ان کا ترس کھانے کی تلقین کریں یا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو ایسے کاموں کی ترغیب دیں جو اللہ کی رحمت کا باعث اور موجب ہوں۔ ” وتواصوابالمرحمۃ عباد اللہ او بموجبات رحمۃ اللہ “ (مظہری) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) پھر وہ ان لوگوں میں سے بھی ہوا جو ایمان لائے اور ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے کی تاکید اور ایک دوسرے کو مخلوق پر رحم کرنے کی فہمائش کرتے رہے یعنی اگر یہ مذکورہ بھلائیاں کرنے والا ان لوگوں میں سے ہو جو ایمان لائے اور ایک دوسرے کو صبر علی الطاعات اور مخلوق پر شفقت و رحم کی تاکید اور تقید کرتے رہے تو یہ نیکیاں ان کو نفع دیں گی۔ اور گھاٹی کا گزر جانا اور عبور کو لینا آسان ہوگا۔ ورنہ یہ تمام مذکورہ بھلائیاں بیکار اور اکارت ہوجائیں گی اور ان کے لئے نفع بخش نہ ہوں گی اور یہ گھاٹی عبور نہ کرسکیں گے۔ وتواصوا بالصبر کا مطلب یہ ہے کہ ادائے فرض اور تمام اوامرالٰہی اور نواہی پر ثابت قدم اور صبر کے ساتھ قائم رہیں اطاعت میں جو تکلیف اور گناہوں سے بچنے میں جو کلفت ہوتی ہے اس کو برداشت کریں اور ایک دوسرے پر رحم کریں اور خدا کی مخلوق پر رحم کرنے کی تقید کرتے رہے اور ترک ظلم کی فہمائش کرتے رہے۔