Surat ul Balad
Surah: 90
Verse: 2
سورة البلد
وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۲﴾
And you, [O Muhammad], are free of restriction in this city -
اور آپ اس شہر میں مقیم ہیں ۔
وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۲﴾
And you, [O Muhammad], are free of restriction in this city -
اور آپ اس شہر میں مقیم ہیں ۔
And you are free in this city. he (Ibn Abbas) said, "O Muhammad! It is permissible for you to fight in it." Similar was reported from Sa`id bin Jubayr, Abu Salih, `Atiyah, Ad-Dahhak, Qatadah, As-Suddi and Ibn Zayd. Al-Hasan Al-Basri said, "Allah made it lawful (to fight in) for him (the Prophet ) for one hour of a day." The meaning of what they have said was mentioned in a Hadith that is agreed- upon as being authentic. In it the Prophet said, إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّموَاتِ وَالاَْرْضَ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللهِ إِلَى يَوْم الْقِيَامَةِ لاَا يُعْضَدُ شَجَرُهُ وَلاَا يُخْتَلَى خَلَاهُ وَإِنَّمَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةٌ مِنْ نَهَارٍ وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالاَْمْسِ أَلاَ فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَايِب Verily, Allah made this city sacred on the Day that He created the heavens and the earth. Therefore, it is sacred by the sanctity of Allah until the Day of Judgement. Its trees should not be uprooted, and its bushes and grasses should not be removed. And it was only made lawful for me (to fight in) for one hour of a day. Today its sanctity has been restored just as it was sacred yesterday. So, let the one who is present inform those who are absent. In another wording of this Hadith, he said, فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللهِ فَقُولُوا إِنَّ اللهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُم So, if anyone tries to use the fighting of the Messenger (to conquer Makkah) as an excuse (to fight there), then tell him that Allah permitted it for His Messenger and He has not permitted it for you. Concerning Allah's statement, وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ
2۔ 1 یہ اشارہ ہے اس وقت کی طرف جب مکہ فتح ہوا، اس وقت اللہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اس شہر حرام میں قتال کو حلال فرما دیا تھا جب کہ اس میں لڑائی کی اجازت نہیں ہے چناچہ حدیث میں ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شہر کو اللہ نے اس وقت سے حرمت والا بنایا ہے، جب سے اس نے آسمان و زمین پیدا کئے۔ پس یہ اللہ کی ٹھہرائی ہوئی حرمت سے قیامت تک حرام ہے، نہ اس کا درخت کاٹا جائے نہ اس کے کانٹے اکھیڑے جائیں، میرے لئے اسے صرف دن کی ایک ساعت کے لئے حلال کیا گیا تھا اور آج اس کی حرمت پھر اسی طرح لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ اگر کوئی یہاں قتال کے لئے دلیل میری لڑائی کو پیش کرے تو اس سے کہو کہ اللہ کے رسول کو تو اس کی اجازت اللہ نے دی تھی جب کہ تمہیں یہ اجازت اس نے نہیں دی (صحیح بخاری)
[٢] حل کا لغوی مفہوم :۔ حِلَّ : حَلَّ کا بنیادی معنی && گرہ کھولنا && اور اس کی ضد عَقَدَ یعنی گرہ لگانا ہے۔ ارباب حل و عقد، ارباب بست و کشاد مشہور الفاظ ہیں۔ اور سامان باندھنے اور کھولنے کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ مسافر سامان باندھ کر سفر پر جاتا ہے اور جہاں فروکش ہوتا ہے تو سامان کھول دیتا ہے۔ لہذا حل کا لفظ کسی جگہ اترنے، فروکش ہونے اور قیام پذیر ہونے کے لیے بھی استعمال ہونے لگا۔ علاوہ ازیں حلال کا لفظ حرام کے مقابلہ میں بھی آجاتا ہے۔ حرام ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے سختی سے منع کیا جائے یعنی اس پر گرہ لگا دی جائے اور حلال اس گرہ کے کھولنے کو کہتے ہیں۔ اور حِلٌّ، حَلَّ سے اسم فاعل ہے۔ اسی وجہ سے حل کے یہاں کئی معنی کیے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ مکہ وہ شہر ہے جہاں آپ کسی وقت فاتحانہ حیثیت سے فروکش ہوں گے۔ دوسرا یہ کہ اس شہر میں مسلمانوں پر اور آپ پر ہر طرح کے ظلم و ستم کو حلال سمجھ لیا گیا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ ایک وقت آنے والا ہے جبکہ آپ اس شہر میں فاتحانہ حیثیت میں داخل ہو کر اس کی سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے لے کر آج تک قائم شدہ حرمت کو توڑ دیں گے اور حلال بنادیں گے گو یہ کام صرف ایک ساعت کے لیے ہی ہوگا۔ ہمارے خیال میں یہی تیسرا مفہوم راجح ہے کیونکہ درج ذیل احادیث اسی مفہوم کی تائید کرتی ہیں : مکہ کی حرمت :۔ ١۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال قبیلہ خزاعہ نے قبیلہ بنو لیث کا ایک آدمی مار ڈالا۔ کیونکہ بنولیث نے خزاعہ کا ایک آدمی پہلے مارا تھا۔ جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور خطبہ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کو روک کر مکہ سے قتل کو روک دیا۔ اور اب اللہ، اس کا رسول اور مسلمان (مکہ کے کافروں پر) غالب ہیں۔ سن رکھو ! مکہ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا ہے نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا اور میرے لیے بھی دن کی ایک ساعت کے لیے حلال ہوا۔ سن رکھو ! مکہ اس وقت بھی حرام ہے یہاں کے نہ کانٹے توڑے جائیں، نہ درخت کاٹے جائیں & نہ یہاں سے کوئی گری پڑی چیز اٹھائی جائے۔ الا یہ کہ اٹھانے والا اسے مالک تک پہنچا دینے کا ارادہ رکھتا ہو۔ اگر یہاں کوئی مارا جائے تو اس کے وارث کو دو میں سے ایک بات کا اختیار ہے۔ یا تو دیت لے لے اور یا قصاص (قاتل اس کے حوالہ کردیا جائے) اتنے میں اہل یمن کے ایک شخص (ابوشاہ) نے آکر عرض کی && یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو باتیں فرمائی ہیں۔ مجھے لکھ دیجیے && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (صحابہ سے) کہا : && اسے لکھ دو && پھر ایک قریشی (سیدنا عباسص) نے عرض کی : && یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اذخر (گھاس کاٹنے) کی اجازت دے دیجیے۔ ہم اسے اپنے گھروں اور اپنی قبروں میں بچھاتے ہیں && آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :&& اچھا اذخر (کاٹنے) کی اجازت ہے۔ (بخاری، کتاب العلم۔ باب کتابۃ العلم) ٢۔ ابو شریح نے عمرو بن سعید (جو یزید کی طرف سے حاکم مدینہ تھا) سے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ سے دوسرے دن خطبہ ارشاد فرمایا۔ پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : اللہ نے مکہ کو حرام کیا ہے لوگوں نے نہیں کیا تو جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے یہاں نہ خون بہانا درست ہے اور نہ کوئی درخت کاٹنا اور اگر کوئی شخص یہ دلیل لے کہ اللہ کے رسول یہاں لڑے تو تم اسے کہو : اللہ تعالیٰ نے تو اپنے رسول کو (فتح مکہ کے دن) خاص اجازت دی تھی جو تمہیں نہیں دی۔ اور مجھے بھی صرف دن کی ایک گھڑی اجازت دی گئی۔ اس کے بعد اس کی وہی حرمت ہے جو کل تھی۔ اور جو شخص یہاں موجود ہے وہ اس کو یہ باتیں بتادے جو یہاں موجود نہیں && لوگوں نے ابو شریح سے پوچھا : && تو پھر عمرو بن سعید نے اس کا کیا جواب دیا ؟ ابو شریح کہنے لگے : عمرو نے یہ جواب دیا کہ : میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ مکہ گنہگار کو پناہ نہیں دیتا اور نہ اس کو جو خون یا چوری کرکے بھاگے۔ (بخاری، کتاب العلم۔ باب لیبلغ العلم الشاہد الغائب) اس آیت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی بھی دی گئی ہے اور ایک بہت بڑی پیشین گوئی بھی ہے جو اس وقت کی گئی جب مسلمان کافروں کے ظلم و جور کی چکی میں پس رہے تھے اور اس وقت کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی۔ مگر اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یہ پیشین گوئی ٨ ھ میں سو فیصد پوری ہوئی۔
وَأَنتَ حِلٌّ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ (and [ 0 Holy Prophet,] you are going to be allowed to fight in this city....90:2). The word hillun bears two possibilities: [ 1] It could be derived from hulul which signifies to reside in or to descend on some place. In this sense, hillun signifies &a dweller or resident& and the verse purports to say that the city of Makkah itself is sacred, and since Holy Prophet Muhammad (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is the inhabitant of this city, it adds to the sanctity, honour and glory of the place. Thus, on account of the Holy Prophet&s (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) residing in that city its honour and sanctity has been enhanced and augmented. The second possibility is that it is derived from hillatun which means &the thing the doing of which is lawful&. From this point of view, hillun could signify one of two things: One that the pagans of Makkah consider it lawful to do the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) any harm, even to kill him, in this City of Makkah which is so sacred that the doing of harm to a living creature in its precincts, not to say of killing it or hunting it, is strictly forbidden even according to their own belief system. Secondly, this may be a prophecy that the city of Makkah is going to be made lawful for the Holy Prophet in the sense that fighting in it will be allowed for him for a specified time, and He will alight in this City of Makkah, as it happened on the occasion of the Conquest of Makkah. On this occasion, all the injunctions and ordinances of the حرم Haram were suspended for one day, and it was made lawful to kill the disbelievers. Mazhari cites three possible meanings, and says that all three of them are equally possible.
وانت حل بھذا البلد لفظ حل میں دو احتمال میں ایک یہ کہ حلول سے مشتق ہو جس کے معنے کسی شئی کے اندر سمانے اور رہنے اور اترنے کے آتے ہیں، اس اعتبار سے حل کے معنے اترنے والے اور رہنے والے کے ہوں گے۔ اور مرد آیت کی یہ ہوگی کہ شہر مکہ خود بھی محترم اور مقدس ہے خصوصاً جبکہ آپ بھی اس شہر میں رہتے ہیں تو مکین کی فضیلت سے بھی مکان کی فضیلت بڑھ جاتی ہے اسلئے شہر کی عظمت و حرمت آپ کے اس میں مقیم ہونے سے دوہری ہوگئی۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ لفظ حل مصدر حلت سے مشتق ہو جس کے معنے کسی چیز کے حلال ہونے کے ہیں، اس اعتبار سے لفظ حل کے دو معنے ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ آپ کو کفار مکہ نے حلال سمجھ رکھا ہے کہ آپ کے قتل کے درپے ہیں حالانکہ وہ خود بھی شہر مکہ میں کسی شکار کو بھی حلال نہیں سمجھتے مگر ان کا ظلم و سرکشی اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ جس مقدس مقام پر کسی جانور کا قتل بھی جائز نہیں اور خود ان لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے وہاں انہوں نے اللہ کے رسول کا قتل وخون حلال سمجھ لیا ہے دوسرے معنے حل کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کے لئے حرم مکہ میں قتال کفار حلال ہونے والا ہے جیسا کہ فتح مکہ میں ایک روز کے لئے آپ سے احکام حرم اٹھا لئے گئے تھے اور کفار کا قتل حلال کردیا گیا تھا۔ خلاصہ تفسیر مذکور میں یہی تیسرے معنے لے کر تفسیر کی گئی۔ مظہری میں تینوں احتمال مذکور ہیں اور تینوں معنے کی گنجائش ہے ووالد وماولد، والد سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں جو سب انسانوں کے باپ ہیں اور ماولد سے ان کی اولاد مراد ہے جو ابتداء دنیا سے قیامت تک ہوگی۔ اس طرح اس لفظ میں حضرت آدم اور تمام بنی آدم کی قسم ہوگئی۔ آگے جواب قسم مذکور ہے۔
وَاَنْتَ حِـلٌّۢ بِہٰذَا الْبَلَدِ ٢ ۙ حلَ أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه/ 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد/ 31] ، ( ح ل ل ) الحل اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه/ 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد/ 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی
آیت ٢{ وَاَنْتَ حِلٌّم بِہٰذَا الْبَلَدِ ۔ } ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ حلال کرلیے گئے ہیں اس شہر میں۔ “ کچھ مترجمین نے اس آیت کا ترجمہ یوں بھی کیا ہے کہ ” آپ کے لیے حلال ہوجائے گا یہ شہر “۔ یعنی اگرچہ یہ بلد الحرام ہے ‘ یہاں خونریزی وغیرہ کی اجازت نہیں ‘ لیکن ایک وقت آئے گا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اجازت مل جائے گی ‘ جیسے فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حلال کردیا گیا اور اس دن لشکرکشی کے دوران مسلح تصادم کے اکا دکا واقعات بھی ہوئے ۔ البتہ میرے نزدیک آیت کا اصل مدعا اور مفہوم وہی ہے جو میں نے ترجمے میں اختیار کیا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس بلد الحرام میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت پر حملے ہو رہے ہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عزت نفس کو مجروح کیا جا رہا ہے ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسلسل ستایا جا رہا ہے ۔ اس وادی غَیْر ذِی زَرْعٍ کے ماحول میں جہاں معمول کی زندگی بھی سراپا مشقت ہے وہاں اہل شہر کی مخالفت نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے زندگی کو مزید کٹھن اور مشکل بنا دیا ہے۔ چناچہ دعوت حق کی جدوجہد میں مسلسل سختیاں برداشت کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے شب و روز کی اس وقت جو صورت حال اور کیفیت ہے ‘ ہم اس کی قسم کھا رہے ہیں۔
3 Three meanings of the words in the Text have been given by the commentators: (1) "That you are a resident of this city and your residence here has further enhanced the glory of this city"; (2) "that although this city is a sanctuary; a time will come when for some time it will become lawful for you to fight and kill the enemies of the true Faith here; and, (3) "that in this city where even killing of animals and cutting of trees is forbidden for the people of Arabia, and where everyone is living in perfect peace, you, O Prophet, have no peace, and persecuting you and devising plans to kill you has been made lawful." Although the words are comprehensive enough to cover all the three meanings, yet when the theme that follows is considered, one feels that the first two meanings bear no relevance to it, and only the third meaning seems to be correct.
سورة الْبَلَد حاشیہ نمبر :3 اصل الفاظ ہیں أَنْتَ حِلٌّ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ اسکے تین معنی مفسرین نے بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ آپ اس شہر میں مقیم ہیں اور آپ کے مقیم ہونے سے اس کی عظمت میں اور اضافہ ہو گیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اگرچہ یہ شہر حرم ہے مگر ایک وقت آئے گا جب کچھ دیر کے لیے یہاں جنگ کرنا اور دشمنان دین کو قتل کرنا آپ کے لیے حلال ہو جائے گا ۔ تیسرے یہ کہ اس شہر میں جنگل کے جانوروں تک کو مارنا اور درختوں تک کو کاٹنا اہل عرب کے نزدیک حرام ہے اور ہر ایک کو یہاں امن میسر ہے ، لیکن حال یہ ہو گیا ہے کہ اے نبی ، تمہیں یہاں کوئی امن نصیب نہیں تمہیں ستانا اور تمہارے قتل کی تدبیریں کرنا حلال کر لیا گیا ہے ۔ اگرچہ الفاظ میں تینوں معنوں کی گنجائش ہے ، لیکن جب ہم آگے کے مضمون پر غور کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ پہلے دو معنی اس سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے اور تیسرا مفہوم ہی اس سے میل کھاتا ہے ۔
1: اس شہر سے مراد مکہ مکرَّمہ ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے خصوصی تقدس عطا فرمایا ہے، اور اُس میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مقیم ہونے کی بنا پر اس کے تقدس میں اور اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ آپ کی تشریف آوری کے لئے اِس شہر کا انتخاب فرما کر اﷲ تعالیٰ نے اِس کی شان اور بڑھا دی ہے۔ اس جملے کی دو تفسیریں اور بھی ہیں جن کی تفصیل ’’معارف القرآن‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔
(90:2) وانت حل بھذا البلد : واؤ حالیہ ہے اور جملہ ھذا البلد سے حال ہے۔ حل حل یحل (باب ضرب) کا مصدر ہے۔ بمعنی حلال۔ حلال ہونا۔ اترنا۔ نازل ہونا ۔ فائز ہونا۔ بمعنی کسی جگہ اترنے والا بھی ہے ۔ چناچہ کہتے ہیں۔ ما زلت حلا بھذا البلد۔ میں اس شہر میں ہمیشہ اترنے والا ہوں۔ (المنجد) یعنی میں اس شہر میں ہمیشہ رہنے والا ہوں۔ اس سے محلہ ہے۔ رہنے کی جگہ۔ اترنے کی جگہ۔ فروکش ہونے کی جگہ۔ شہر کا ایک حصہ جہاں رہائش رکھی جاتی ہو۔ یہاں حل بمعنی حال بمعنی اسم فاعل آیا ہے۔ رہنے والا۔ الحل کے اصل معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ ہے :۔ واحلل عقدۃ من لسانی (20:27) اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فروکش ہونا بھی آتے ہیں۔ اصل میں یہ حلل الاحمال عند النزول سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گرہ کشائی کے ہیں۔ پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے۔ لہٰذا حل کے معنی کسی جگہ اترنا کے ہیں۔ (المفردات) مولانا فتح محمد جالندھری اپنے ترجمہ کے اخیر میں فوائد کے عنوان کے تحت نمبر 329 پر رقمطراز ہیں :َ مفسرین نے حل کے معنی حلال بھی کئے ہیں۔ اور لکھا ہے کہ خدا نے اس شہر میں مقاتلہ ہمیشہ کے لئے حرام کیا ہے مگر جناب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اس میں فتح مکہ کے دن قتال کرنا جائز کیا تھا ۔ اس بناء پر آیت کا ترجمہ یوں ہونا چاہیے۔ کہ تم کو اس شہر میں (قتال) حلال ہونے والا ہے۔ مگر ہمارے نزدیک زیادہ مناسب یہ ہے کہ حل کے معنی حال یعنی ساکن و نازل لئے جائیں۔ اسی وجہ سے ہم نے ترجمہ کیا ہے۔ ” تم اسی شہر میں رہتے ہو۔ اس صورت میں مکہ معظمہ کی دوسری فضیلتوں میں سے ایک یہ فضیلت بھی اس کی قسم کھانے کا موجب ہوگی کہ وہ حضرت خاتم النبیین کا مسکن تھا۔
1۔ چناچہ فتح مکہ کے روز آپ کے لئے احکام حرم باقی نہیں رہے تھے۔
(2) اور آپ کو قید نہ رہے گی اس شہر میں یہ جملہ معترضہ کے طور پر فرمایا اور پیشین گوئی فرمائی کہ آپ کو کسی کے قتل کرنے اور لڑائی کرنے کی ممانعت اس شہر میں نہ رہے گی بلکہ اس شہر میں آپ کو جنگ حلال ہونے والی ہے جیسا کہ فتح مکہ کے روز ہوا۔ اور آپ کے لئے حرم کے احکام باقی نہ رہے۔ اور بعض ایسے کافروں کو آپ کے حکم سے قتل کیا گیا جو کعبہ کے پردے میں چھپے ہوئے تھے۔ بعض حضرات نے وانت حل کا ترجمہ نازل ہونے یا داخل ہونے والے کیا ہے یعنی میں اس شہر مکہ کی قسم کھاتا ہوں جس میں آپ فاتحانہ داخل ہونے والے ہیں یا میں اس شہر مکہ کی قسم کھاتا ہوں حالانکہ آپ اس میں پیدا ہوئے اور آپ اس شہر میں مقیم ہیں۔ اس میں شاید اس بات کا اشارہ ہو کہ آپ جیسے محترم مکین کے نزول اجلال کی وجہ سے یہ مکان اور یہ شہر قابل احترام اور لائق قسم ہوا یعنی جس دیس میں آپ رہتے ہیں اس دیس کی قسم۔ کعبہ راز یمن قدوم توصد شرف ذی مروہ راز مقدم پاک تو صد صفا بطحاز نور طلعت تو یافتہ فروغ یثرب زخاک پائے توبا رونق وبہا حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہتے ہیں لڑائی قید ہے ہر شخص کو یعنی وہاں کوئی لڑائی نہیں کرتا مگر حضرت کو فتح مکہ کے دن قید معاف ہوئی تھی جو کوئی آپ سے لڑا اس کو مارا پھر وہی قید قائم ہے قیامت تک۔ آگے پھر بعض چیزوں کی قسم کھائی چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔