Surat ul Lail

Surah: 92

Verse: 17

سورة الليل

وَ سَیُجَنَّبُہَا الۡاَتۡقَی ﴿ۙ۱۷﴾

But the righteous one will avoid it -

اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And those with Taqwa will be far removed from it. meaning, the righteous, pure, most pious person will be saved from the Fire. Then He explains who he is by His saying, الَّذِي يُوْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 یعنی جہنم سے دور رہے گا اور جنت میں داخل ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] یعنی جو لوگ اپنی ساری زندگی اللہ سے ڈرتے ہوئے گزارتے ہیں ان کو جہنم کی ہوا تک نہیں لگے گی۔ اس لیے کہ انہیں جہنم سے دور رکھ کر صاف بچا لیا جائے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وسیجنھا الاتضی …: جہنم سے وہی شخص دور رہے گا جو اپنا مال اس لئے دیتا ہے کہ وہ خود بھی پاک ہوجائے اور اس کا مال بھی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ (And saved from it will be the most God-fearing one who gives his wealth [ in charity ] to become purified,....92:17-18). This verse describes the reward of the most God-fearing person, as opposed to the punishment of the most wretched in the preceding verse. The word atqa is the superlative form and signifies a man of taqwa, that is, the most God-fearing person, who spends his wealth in obedience of his Lord in order to purify himself from sins, will be kept far away from the fire of Hell. The wordings of the verse give good news, in general, to anyone who spends in Allah&s cause in a state of faith, but the occasion of revelation indicates that atqa refers to Sayyidna Abu Bakr As-Siddiq (رض) in particular. Ibn Abi Hatim reports from Sayyidna &Urwah (رض) that seven Muslims had been enslaved by the Makkan disbelievers. When they became Muslims, they were persecuted in a variety of ways. Sayyidna Abu Bakr (رض) spent a great amount of his money, and purchased them and set them free. Verses [ 17-21] were revealed on this occasion. [ Mazhari ]

وسیجبھا الاتقی الذی یوتی مالہ یتزکی یہ اہل شقاوت کے مقابل اہل سعادت تقویٰ شعار حضرات کی جزاء کا بیان ہے کہ جو آدمی اتقیٰ یعنی مکمل اطاعت حق کا خوگو رہو اور وہ اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف اس لئے خرچ کرتا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہوجائے ایسا شخص اس جہنم کی آگ سے دور رکھا جائے گا۔ الفاظ آیت کے تو عام ہیں جو شخص بھی ایمان کے ساتھ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے اس کے لئے یہ بشارت ہے لیکن شان نزول کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مراد اس لفظ اتقیٰ سے حضرت صدیق اکبر ہیں ابن ابی حاتم نے حضرت عروہ سے روایت کیا ہے کہ سات مسلمان ایسے تھے جن کو کفار مکہ نے اپنے غلام بنایا ہوا تھا جب وہ مسلمان ہوگئے تو ان کی طرح طرح کی ایذائیں دیتے تھے حضرت صدیق اکبر نے اپنا بڑا مال خرچ کر کے ان کو کفار سے خرید کر آزاد کردیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَسَيُجَنَّبُہَا الْاَتْقَى۝ ١٧ ۙ یجنب مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ یجنب ( تفعیل) مصدر۔ ایک جانب رکھا جائے گا۔ ایک طرف رکھا جائے گا۔ بچایا جائے گا اجتناب ورجل جَنِبٌ وجَانِبٌ. قال عزّ وجل : إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] ، وقال عزّ وجل : وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] ، واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] عبارة عن تركهم إياه، فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] ، وذلک أبلغ من قولهم : اترکوه . قال تعالیٰ في النار : وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى الَّذِي يُؤْتِي مالَهُ يَتَزَكَّى [ اللیل/ 17- 18] ، وذلک إذا أطلق فقیل : جنب فلان فمعناه : أبعد عن الخیر، وذلک يقال في الدعاء في الخیر، وقوله عزّ وجل : وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] ، من : جنبته عن کذا أي : أبعدته، وقیل : هو من جنبت الفرس، كأنما سأله أن يقوده عن جانب الشرک بألطاف منه وأسباب خفيّة . الاجتناب ( افتعال ) بچنا ، یکسو رہنا ، پہلو تہی کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبائِرَ ما تُنْهَوْنَ عَنْهُ [ النساء/ 31] اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے ۔ اجتناب رکھو گے ۔ الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَواحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ [ النجم/ 32] جو ۔۔۔ بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرتے ہیں ۔ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ [ الحج/ 30] اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو ۔ اور آیت کریمہ :۔ واجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ [ الزمر/ 17] میں بتوں سے اجتناب کے معنی ہیں کہ انہوں نے طاغوت کی عبادت یکسر ترک دی اس طرح وہ طاغوت سے دور رہے ۔ نیز فرمایا :۔ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [ المائدة/ 90] سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ ۔ اور یہ یعنی اجتنبوا بنسیت اترکوہ کے زیادہ بلیغ ہے ۔ جنب بنوفلان بےشیر شدن قوم جنب فلان خیرا ۔ فلاں خیر سے محروم ہوگیا ۔ جنب شر ا ۔ وہ شر سے دور رہا ۔ چناچہ قرآن میں نار جہنم کے متعلق ہے :۔ وَسَيُجَنَّبُهَا الْأَتْقَى الَّذِي يُؤْتِي مالَهُ يَتَزَكَّى [ اللیل/ 17- 18] اور جو بڑا پرہیزگار ہے وہ اس ( نار) سے بچالیا جائے گا ۔ جو اپنا مال دیتا ہ تاکہ پاک ہو ۔ لیکن اگر مطلق یعنی بغیر کسی متعلق کے جنب فلان ؛ کہا جائے تو اس کے معنی خیر سے محروم ہونا ہی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح دعائے خیر کے لئے بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنامَ [إبراهيم/ 35] اور مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے کہ بتوں کی برستش کرنے لگیں بچائے رکھ ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(17 ۔ 21) اور دوزخ سے ایسا شخص یعنی حضرت ابوبکر صدیق دور رکھا رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہے اور جو اپنا مال اللہ کی راہ میں محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتا ہے سوائے اپنے عالیشان پروردگار کی رضا جوئی کے اس کے ذمہ کسی کا احسان نہ تھا کہ اس دینے سے اس کا بدلہ اتارنا مقصود ہو اور حضرت ابوبکر صدیق کو اس قدر ثواب اور بدلہ عطا کیا جائے گا کہ وہ خوش ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٧{ وَسَیُجَنَّـبُـہَا الْاَتْقَی ۔ } ” اور بچالیا جائے گا اس سے جو انتہائی متقی ہے۔ “ اس آیت کے بارے میں تقریباً تمام مفسرین متفق ہیں کہ اس کے مصداق حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہیں۔ کیونکہ قبل ازیں آیت ٥ اور ٦ میں جن تین اوصاف کا ذکر ہوا ہے وہ اس امت کی جس شخصیت میں بتمام و کمال نظر آتے ہیں وہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی شخصیت ہے۔ ” تصدیق بالحسنی “ کے حوالے سے آپ (رض) کے بارے میں خود حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ میں نے جس کسی کو بھی دعوت دی اس نے کچھ نہ کچھ توقف ضرور کیا ‘ سوائے ابوبکر (رض) کے۔ ان (رض) کے سامنے جونہی میں نے اپنی نبوت کا ذکر کیا وہ فوراً مجھ پر ایمان لے آئے۔ آپ (رض) کے تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ زمانہ جاہلیت میں بھی آپ (رض) توحیدپر کاربند اور بت پرستی سے دور رہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے میں بھی آپ (رض) کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ آپ (رض) نے کئی نادار خاندانوں کی کفالت مستقل طور پر اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ مکہ کے بہت سے غلاموں اور لونڈیوں کو آپ (رض) نے منہ مانگی قیمت میں خرید کر آزاد کرایا تھا اور غزوئہ تبوک کے موقع پر تو آپ (رض) نے اپنا پورا اثاثہ لا کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قدموں میں ڈھیر کردیا تھا۔ غرض مذکورہ تینوں اوصاف بدرجہ اتم امت کے َمردوں میں آپ (رض) کی شخصیت میں ‘ جبکہ خواتین میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ (رض) کی شخصیت میں پائے جاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(92:17) وسیجنبھا الاتقی۔ واؤ عاطفہ۔ س بمعنی تحقیق۔ یجنب مضارع مجہول واحد مذکر غائب۔ یجنب (تفعیل) مصدر۔ ایک جانب رکھا جائے گا۔ ایک طرف رکھا جائے گا۔ بچایا جائے گا۔ محفوظ رکھا جائے گا۔ ھا ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع نارا ہے۔ الاتقی : وقی سے افعل التفضیل کا صیغہ ہے یہ بھی اشقی کی طرح بمعنی تقی (صفت مشبہ) آیا ہے ۔ اور یجنب کا مفعول مالم یسم فاعلہ ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور تحقیق اس آگ سے محفوظ رکھا جائے گا وہ پکا پرہیزگار ۔۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : بدبخت شخص کے مقابلے میں نیک بخت کا کردار اور اس کا انعام۔ جہنم سے ہر وہ شخص دور رکھا جائے گا جس نے کفر و شرک سے توبہ کی اور اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی سے بچتا رہا اور اس نے اپنے مال کو پاک کرنے اور اپنے آپ کو بخل سے بچانے کے لیے صدقہ کیا۔ وہ کسی پر صدقہ اس لیے نہیں کرتا کہ اس نے اس کے احسان کا بدلہ چکانا ہے۔ کسی کے احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دینا نہایت ہی بہتر عمل ہے لیکن بہترین صدقہ یہ ہے کہ جس پر وہ خرچ کررہا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے سوا کسی قسم کا مفاد نہ پایا جائے۔ اسی بات کو سورة الدّھر میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور دل میں کہتے ہیں کہ ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ “ (الدھر : ٨، ٩) ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ بہت جلد راضی کردے گا، راضی کرنے کی کئی صورتیں ہیں۔ 1 ۔ اس کا دل اپنے کام پر خوش ہوگا۔ 2 ۔ لوگوں میں اس کا احترام بڑھے گا۔ 3 ۔ اس کے مال میں برکت ہوگی۔ 4 ۔ آخرت میں اسے عظیم اجر دیا جائے گا۔ مفسرین نے ان آیات کا سب سے پہلا مصداق حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو قرار دیا ہے جن کے متعلق مشہور مؤرخ ابن عساکر اور ابن جریر نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کا مکہ میں یہ کام تھا کہ اسلام قبول کرنے کی وجہ سے جس غلام یا لونڈی پر ظلم کیا جاتا۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کسی نہ کسی قیمت میں اسے خرید لیتے اور پھر اللہ کی رضا کی خاطر آزاد کردیتے۔ ان کے والد ابوقحافہ نے ایک دن کہا کہ بیٹا تم ایسے لوگوں کو خرید کر آزاد کرتے ہو جو مشکل وقت میں تیرے کام آنے والے نہیں ان کی بجائے ان لوگوں پر مال خرچ کیا کرو جو مشکل وقت میں آپ کے کام آئیں۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اپنے باپ سے عرض کرتے ہیں کہ ” اَیْ اَبِ اِنَّمَا اُرِیْدُ مَا عِنْدَاللّٰہِ “ ” اے باپ میں تو ” اللہ “ کے لیے ایسا کرتا ہوں۔ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَیُّ الصَّدَقَۃِ أَعْظَمُ أَجْرًا قَالَ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِیْحٌ شَحِیْحٌ تَخْشَی الْفَقْرَ وَتَأْمَلُ الْغِنٰی وَلَاتُمْھِلُ حَتّٰی إِذَابَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ قُلْتَ لِفُلَانٍ کَذَا وَلِفُلَانٍ کَذَا وَقَدْ کَانَ لِفُلَانٍ ) (رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب فضل صدقۃ الشیخ الصحیح) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر پوچھتا ہے کہ کونسا صدقہ زیادہ اجر کا باعث ہے ؟ فرمایا جب تو تندرست اور مال کی خواہش رکھتا ہو محتاجی کے خوف اور مالدار بننے کی خواہش کے باوجود صدقہ کرے۔ اتنی دیر نہ کر کہ جان حلق تک آپہنچے اس وقت تو کہے کہ اتنا فلاں کو دو اور اتنا فلاں کو دو ۔ حالانکہ اب تو سارا مال ہی فلاں فلاں کا ہوچکا۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَۃٍمِنْ کَسْبٍ طَیِّبٍ وَلَا یَقْبَلُ اللّٰہُ إِلَّا الطَّیِّبَ وَإِنَّ اللّٰہَ یَتَقَبَّلُھَا بَیَمِیْنِہٖ ثُمَّ یُرَبِّیْھَا لِصَاحِبِہٖ کَمَا یُرَبِّيْ أَحَدُکُمْ فَلُوَّہٗ حَتّٰی تَکُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ ) (رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے پاکیزہ کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا۔ اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز ہی قبول فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً اسے اپنے دائیں ہاتھ میں لیتے ہیں پھر اس کو صدقہ کرنے والے کے لیے بڑھاتے رہتے ہیں جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ آدمی کا کیا ہوا صدقہ پہاڑ کی مانند ہوجاتا ہے۔ “ مسائل ١۔ انسان کو صرف اللہ کی رضا کے لیے صدقہ کرنا چاہیے۔ ٢۔ جو مسلمان ” اللہ “ کی رضا کے لیے صدقہ کرے گا اللہ تعالیٰ اسے خوش وخرم فرما دیں گے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ “ کی رضا کے لیے صدقہ کرنے کے فوائد : ١۔ صدقہ کرنا ” اللہ “ کو قرض دینا ہے۔ (الحدید : ١١) ٢۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کو دگنا تگنا کرکے واپس کرے گا۔ (التغابن : ١٧) ٣۔ اللہ تعالیٰ صدقہ کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ (یوسف : ٨٨) ٤۔ مومن اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ( التوبہ : ٩٩) ٥۔ ” اللہ “ سات سو گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ (البقرۃ : ٢٦١) ٦۔” اللہ “ کے ہاں اضافے کی کوئی حد نہیں ہے۔ (البقرۃ : ٢٦١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وسیجنبھا الاتقی (17:92) ” اور اس سے دور رکھا جائے گا وہ نہایت پرہیز گار ہوگا “۔ اور یہ متقی شخص ہی نیک بخت ہے بمقابلہ بدبخت (اشقی) کے ۔ اور اس کی مزید تشریح۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” وسیجنبہا “ یہ بشارت اخرویہ ہے۔ جہنم کی بھڑکتی آگ سے اس کو دور رکھا جائیگا جو نہایت متقی اور پرہیزگار ہوگا جو اپنا مال محض اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتا ہو اور چاہتا ہو کہ گناہوں سے پاک صاف ہو کر خدا کے یہاں حاضر ہو۔ ” وما لاحد عندہ “ اور کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ وہ اس کا بدلہ دے رہا ہو یعنی جن غریبوں اور مسکینوں پر وہ مال خرچ کرتا ہے ان کے کسی احسان کے بدلے ایسا نہیں کرتا، بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ ” الا ابتغاء وجہ ربہ الاعلی “ استثناء منقطع ہے اور ” الا “ بمعنی لکن ہے لیکن وہ اپنے رب اعلی کی رضا جوئی کے لیے کرتا ہے جو کچھ بھی کرتا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) اور اس بھڑکتی ہوئی آگ سے اس شخص کو دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہے۔