Surat uz Dhuha

Surah: 93

Verse: 5

سورة الضحى

وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی ؕ﴿۵﴾

And your Lord is going to give you, and you will be satisfied.

تجھے تیرا رب بہت جلد ( انعام ) دے گا اور تو راضی ( و خوش ) ہو جائے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And verily, your Lord will give you so that you shall be well-pleased. meaning, in the final abode Allah will give him until He pleases him concerning his followers, and in that which He has prepared for him from His generosity. From this will be the River of Al-Kawthar, which will have domes of hollowed pearls on its banks, and the mud on its banks will be the strongest fragrance of musk, as will be mentioned. Imam Abu `Amr Al-Awza`i recorded that Ibn `Abbas said, "The Messenger of Allah was shown that which his Ummah would be blessed with after him, treasure upon treasure. So he was pleased with that. Then Allah revealed, وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى (And verily, your Lord will give you so that you shall be well-pleased). So, Allah will give him in Paradise one million palaces, and each palace will contain whatever he wishes of wives and servants." This was recorded by Ibn Jarir and Ibn Abi Hatim from his route of transmission. This chain of narration is authentic to Ibn `Abbas, and statements like this can only be said from that which is Tawqif. A Mention of some of Allah's Favors upon the Messenger Enumerating His Favours upon His Messenger, Muhammad Allah says; أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَأوَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اس سے دنیا کی فتوحات اور آخرت کا اجر وثواب مراد ہے، اس میں وہ حق شفاعت بھی داخل ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت کے گناہ گاروں کے لئے ملے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] آپ پر اللہ کے انعامات :۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے کیا کچھ دیا تھا ؟ اس بات کا احاطہ ہم نہیں کرسکتے بلکہ ہم تو یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ کونسی عزوشرف کی بات تھی جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے عطا نہ کی ہو۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صحابہ کرام (رض) کی ایسی جماعت عطا کی جن میں سے ایک ایک فرد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی جان تک فدا کرنے پر فخر محسوس کرتا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا غیر مشروط مطاع بنایا۔ ان کا معلم اور مزکی بنایا۔ اپنی کتاب کا مفسر بنایا۔ پورے عرب سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کوششوں سے کفر و شرک کا مکمل طور پر استیصال ہوگیا۔ پورے جزیرہ عرب میں اسلام کا غلبہ ہوگیا۔ آپ ٢٣ سال کے قلیل عرصہ میں ایک وحشی & اجڈ اور ایک دوسرے کے خون کی پیاسی قوم کو دنیا بھر کی تہذیب و تمدن کی علمبردار قوم بنادیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے بعد آپ کی یہ تحریک پوری دنیا پر چھا گئی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک قلیل عرصہ میں ایسا تمدنی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی انقلاب بپا کیا جس کی نظیر پوری دنیا کی تاریخ ڈھونڈھنے سے کہیں نہیں ملتی۔ یہ سب کچھ کیا تھا ؟ یہ اللہ کی رحمت اور عطا تھی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا کچھ عطا کریں گے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہوجائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ولسوف یعطیک ربک فترضی :) یہ مزید تسلی ہے، اس میں اللہ کی فتح و نصرت ، لوگوں کا فوج در فوج اسلام میں داخل ہونا، زمین کے مشارق و مغارب کا آپ کی امت کے قبضے میں آنا، قیامت کو آپ کے ہاتھ میں ” لواء الحمد “ ہونا ، مقام محمود ملنا، شفاعت کبریٰ ، امت کی مغفرت ، غرض وہ سب کچھ شامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا اور دے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَ‌بُّكَ فَتَرْ‌ضَىٰ (And of course, your Lord will give you so much that you will be pleased....93:5). Allah does not specify here what he will give him. The statement is open and general. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) will be granted everything he desires so much that he will be pleased. Among his desired thing is the progress of Islam; the general spread of Islam in the world; fulfillment of every need of the Ummah; triumph of the Holy Prophet himself over his enemies and raising the word of Allah in the land of the enemy. When this verse was revealed, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: اِذا ! لّا اَرضٰی وَ وَاحدُ مِّن اُمَّتِی فِی النَّار &If that is the case, then I will not be pleased as long as one [ single member ] of my Ummah [ remains ] in Fire.& [ Qurtubi ]. In a narration by Sayyidna ` Ali (رض) ، the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: |"Allah will accept my intercession for my Ummah [ community ]. Allah will ask: رضیتَ یا محمد &0 Muhammad, are you pleased?& He will reply: یا رَبِّ رَضِیتُ |"My Lord, I am pleased.|" Muslim records from Sayyidna ` Amr Ibn-ul-` As to the effect that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) recited a verse concerning the Prophet Ibrahim : (علیہ السلام) فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ &...So, one who followsme is surely mine, and the one who disobeys me, then You are Most Forgiving, Very Merciful. [ 14:36] & Then he recited a verse which contains the words of Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ &If You punish them, then, they are Your slaves [ 5:118] & Then he raised his hands, he wept and prayed: اَللّٰھُمَّ اُمَّتِی اُمَّتِی &0 Allah, my ummah, my ummah!& Allah sent Jibra&il علیہ السلام to inquire as to why he was weeping [ while Allah knows the reason ]. Jibra&il Amin علیہ السلام came and inquired why he was weeping. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied: |"I seek my ummah&s forgiveness.|" Allah sent Jibra&il (علیہ السلام) back to inform him that He has pardoned them, and that Allah would please him and would not displease him regarding his ummah.

ولسوف یعطیک ربک فترضی، یعنی آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں، اس میں حق تعالیٰ نے یہ متعین کر کے نہیں بتالای کہ کیا دیں گے اس میں شارہ عمومی کی طرف ہے کہ آپ کی ہر مرغوب چیز آپ کو اتنی دیں گے کہ آپ راضی ہوجائیں۔ آپ کی مرغوب چیزوں میں دین اسلام کی ترقی، دین اسلام کا عام طور پر دنیا میں پھیلنا پھر امت کی ہر ضرورت اور خود آپ کا دشمنوں پر غالب آنا، ان کے ملک میں اللہ کا کلمہ بلند کرنا اور دین حق پھیلانا سب داخل ہیں۔ حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اذا لا ارضی و واحدمن امتی فی النار یعنی جب یہ بات ہے تو میں اس وقت تک راضی نہ ہوں گا جب تک میری امت میں سے ایک آدمی بھی جہنم میں رہے گا (قرطبی) اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ میری امت کے بارے میں میری شفاعت قبول فرمائیں گے یہاں تک کہ حق تعالیٰ فرما دیں گے ریت یا محمد، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اب بھی آپ راضی ہیں، تو میں عرض کروں گا یا رب رضیت یعنی اے میرے پروردگار میں راضی ہوں اور صحیح مسلم میں حضرت عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ آیت تلاوت فرمائی جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق ہے فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور رحیم پھر دوسری آیت تلاوت فرمائی جس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قول ہے ان تعذبھم فانھم عبادک پھر آپ نے دعا کے لئے دونوں ہاتھ اٹھائے اور گریہ وزاری شروع کی اور بار بار فرماتے تھے اللھم امتی امتی، حق تعالیٰ نے جبرئیل امین کو بھیجا کہ آپ سے دریافت کریں کہ آپ کیوں روتے ہیں (اور یہ بھی فرمایا کہ اگرچہ ہمیں سب معلوم ہے) جبرئیل امین آئے اور سوال کیا، آپ نے فرمایا کہ میں اپنی امت کی مغفرت چاہتا ہوں۔ حق تعالیٰ نے جبرئیل امین سے فرمایا کہ پھر جاؤ اور کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ آپ سے فرماتے ہیں کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کردیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہ کریں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى۝ ٥ ۭ سوف سَوْفَ حرف يخصّص أفعال المضارعة بالاستقبال، ويجرّدها عن معنی الحال، نحو : سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] ، وقوله : فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] ، تنبيه أنّ ما يطلبونه۔ وإن لم يكن في الوقت حاصلا۔ فهو ممّا يكون بعد لا محالة، ويقتضي معنی المماطلة والتأخير، واشتقّ منه التَّسْوِيفُ اعتبارا بقول الواعد : سوف أفعل کذا، والسَّوْفُ : شمّ التّراب والبول، ومنه قيل للمفازة التي يَسُوفُ الدلیل ترابها : مَسَافَةٌ ، قال الشاعر : إذا الدّليل اسْتَافَ أخلاق الطّرق والسُّوَافُ : مرض الإبل يشارف بها الهلاك، وذلک لأنها تشمّ الموت، أو يشمّها الموت، وإمّا لأنه ممّا سوف تموت منه . ( س و ف ) سوف ۔ حرف تسویف یہ حرف ہے جو فعل مضارع کو معنی حال سے مجرد کر کے معنی استقبال کے لئے خاص کردیتا ہے ( اسی لئے اسے حرف استقبال بھی کہتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي[يوسف/ 98] میں اپنے پروردگار سے تمہارے لئے بخشش مانگوں گا ۔ اور آیت : ۔ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ [ الأنعام/ 135] عنقریب تم کو معلوم ہوجائے گا ۔ میں متنبہ کیا ہے جس بات کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اگرچہ فی الحال وہ حاصل نہیں ہے ۔ لیکن وہ لامحالہ ہوکر رہے گی ۔ اور اس میں مماطلتہ ( ٹال مٹول ) اور تاخیر کے معنی پائے جاتے ہیں اور چونکہ وعدہ کرنے والا سوف افعل کذا کا محاورہ استعمال کرتا ہے اسلئے التسویف ( تفعیل ) کے معنی ٹال مٹول کرنا بھی آجاتے ہیں ۔ السوف ( ن) کے معنی مٹی یابول کی بو سونگھنے کے ہیں پھر اس سے اس ریگستان کو جس میں راستہ کے نشانات بنے ہوئے ہوں اور قافلہ کا رہنما اس کی مٹی سونگھ کر راہ دریافت کرے اسے مسافتہ کہا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( درجز ) ( 246) اذاللیل استاف اخلاق الطرق جب رہنما بت نشان راستوں پر سونگھ سونگھ کر چلے ۔ السوف ۔ اونٹوں کے ایک مرض کا نام ہے جس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہوجاتے ہیں اور اس مرض کو سواف یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس سے موت کی بو سونگھ لیتے ہیں یا موت ان کو سونگھ لیتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے جلد ہی ان کی موت آجاتی ہے ۔ عطا العَطْوُ : التّناول، والمعاطاة : المناولة، والإعطاء : الإنالة . قال تعالی: حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] . واختصّ العطيّة والعطاء بالصّلة . قال : هذا عَطاؤُنا فَامْنُنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسابٍ [ ص/ 39] ( ع ط و ) العطوا ( ن ) کے معنی ہیں لینا پکڑنا اور المعاد طاہ باہم لینا دینا الاعطاء ( افعال ) قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ [ التوبة/ 29] یہاں تک کہ جزیہ دیں ۔ اور العطیۃ والعطاء خاص کر اس چیز کو کہتے ہیں جو محض تفضیلا دی جائے ۔ رضي يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] ، والرِّضْوَانُ : الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ. ( ر ض و ) رضی ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة/ 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح/ 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة/ 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة/ 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة/ 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب/ 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید/ 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح/ 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة/ 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة/ 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ۔ } ” اور عنقریب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اتنا کچھ عطا فرمائے گا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی ہوجائیں گے۔ “ یعنی اب بہت جلد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محنتوں کے ایسے ایسے نتائج آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آئیں گے کہ انہیں دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خوش ہوجائیں گے۔ (١) یہاں پر پچھلی سورت کی آخری آیت کے یہ الفاظ بھی ذہن میں تازہ کرلیں : { وَلَسَوْفَ یَرْضٰی ۔ } گویا جو خوشخبری یہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سنائی جارہی ہے وہی بشارت سورة اللیل میں حضرت ابوبکر (رض) کو دی گئی ہے۔ دونوں آیات کا اسلوب اصلاً ایک سا ہے ‘ صرف ضمیر اور صیغے کا فرق ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چونکہ وحی آتی تھی اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صیغہ حاضر (تَرْضٰی) میں براہ راست مخاطب کیا گیا ‘ جبکہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے لیے غائب کا صیغہ (یَرْضٰی) آیا ہے۔ ” انقباض “ کی مذکورہ کیفیت کے سیاق وسباق میں اب اللہ تعالیٰ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنے احسانات جتا رہا ہے۔ یہ بھی دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہی کا ایک انداز ہے۔ جبکہ اس میں ہمارے لیے بھی راہنمائی ہے کہ جب کسی وقت آدمی پر ڈپریشن اور افسردگی کی کیفیت طاری ہو تو اسے چاہیے کہ اس کیفیت میں وہ خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ کے احسانات کو گن گن کر یاد کرے کہ اللہ تعالیٰ کس کس انداز میں اس کی مدد کرتا رہا ہے اور کیسی کیسی مشکلات سے اسے نجات دلاتا رہا ہے۔ ظاہر ہے ماضی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے احسانات یاد کرنے سے ایک پریشان حال آدمی کا حوصلہ بڑھتا ہے اور اس کی مثبت سوچ کو تحریک ملتی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 That is "Although it will take some time, yet the time is not far when your Lord will bless you with so much that you will be well pleased "This promise was fulfilled during the lifetime of the Holy Prophet and all Arabia, from the southern coasts to the Syrian frontiers of the Byzantine empire and the Iraqi frontiers of the Persian empire in the north, and from the Persian Gulf in the east to the Red Sea in the west, carne under his control. For the first time in the history of Arabia this land became subject to one law and rule. Whichever power clashed with it was doomed to destruction. The slogan La ilaha ill-allah-u Muhammad ur-Rasul-Allah reverberated throughout the land where the polytheists and the followers of the earlier scriptures had tried their utmost to keep their false creeds and slogans aloft till the last. The people not only bowed their heads in obedience, their hearts also were conquered, and their .beliefs, morals and acts were revolutionised. There is no precedent in human history that nation sunk in paganism might have completely changed in only 33 years. Then the movement started by the Holy Prophet gathered such power that it spread over a large part of Asia, Africa and Europe and its influence reached every nook and corner of the world. This much Allah gave His Messenger in the world, the glory and extent of what he will give him in the Hereafter cannot be imagined." (Also see E.N. 112 of Surah Ta Ha) .

سورة الضُّحٰی حاشیہ نمبر :5 یعنی اگرچہ دینے میں کچھ دیر تو لگے گی ۔ لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب تم پر تمہارے رب کی عطا و بخشش کی وہ بارش ہو گی کہ تم خوش ہو جاؤ گے ۔ یہ وعدہ حضور کی زندگی ہی میں اس طرح پورا ہوا کہ سارا ملک عرب جنوب کے سواحل سے لے کر شمال میں سلطنت روم کی شامی اور سلطنت فارس کی عراقی سرحدوں تک ، اور مشرق میں خلیج فارس سے لیکر مغرب میں بحر احمر تک آپ کے زیر نگین ہو گیا ، عرب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ سر زمین ایک قانون اور ضابطہ کی تابع ہو گئی ، جو طاقت بھی اس سے ٹکرائی وہ پاش پاش ہو کر رہ گئی ، کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلَ اللہِ سے وہ پورا ملک گونج اٹھا جس میں مشرکین اور اہل کتاب اپنے جھوٹے کلمے بلند رکھنے کے لیے آخری دم تک ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے ، لوگوں کے سر ہی اطاعت میں نہیں جھک گئے بلکہ ان کے دل بھی مسخر ہو گئے اور عقائد ، اخلاق اور اعمال میں ایک انقلاب عظیم برپا ہو گیا ۔ پوری انسانی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ ایک جاہلیت میں ڈوبی قوم صرف 23 سال کے اندر اتنی بدل گئی ہو ۔ اس کے بعد حضور کی برپا کی ہوئی تحریک اس طاقت کے ساتھ اٹھی کہ ایشیاء ، افریقہ اور یورپ کے ایک بڑے حصے پر وہ چھا گئی اور دنیا کے گوشے گوشے میں اس کے اثرات پھیل گئے ۔ یہ کچھ تو اللہ تعالی نے اپنے رسول کو دنیا میں دیا ، اور آخرت میں جو کچھ دے گا اس کی عظمت کا تصور بھی کوئی نہیں کر سکتا ۔ ( نیز دیکھو جلد سوم ، طہ حاشیہ 112 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ مقسم بہ کو بشارت سے مناسبت یہ ہے کہ وحی کا تتابع وابطاء مشابہ لیل و نہار کے تبدل کے ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولسوف ............................ فترضیٰ (5:93) ” عنقریب تمہارا رب تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہوجاﺅ گے “۔ اب اس سورت کا سیاق آگے بڑھتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یاد دلاتا ہے کہ آپ کے ساتھ رب تعالیٰ کا سلوک تو روزاول ہی سے نہایت اچھا رہا ہے تاکہ آپ کو اس بات کا یقین ہوجائے کہ رب تعالیٰ آپ پر مہربان رہا ہے۔ آپ کے ساتھ محبت کرتا ہے اور آپ پر رحم وکرم کرتا ہے اور اس سے قبل بھی کئی مواقع پر آپ پر فضل وکرم کرتا رہا ہے ، محبت اور انس کا سلوک کرتا رہا ہے اور آپ کے ساتھ اس حسن سلوک کو نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿وَ لَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ٠٠٥﴾ (اور عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو دے گا سو آپ خوش ہوجائیں گے) ۔ یعنی دنیا والی زندگی میں جو کچھ مال کی کمی ہے اس کا خیال نہ فرمائیں آخرت میں اللہ تعالیٰ آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے کسی چیز کی کوئی کمی محسوس نہ کریں گے۔ عموم الفاظ میں دنیاوی اموال کی کمی کی طرف اشارہ ہے۔ مخالفین جو آپ کو یہ دیکھ کر آپ کے پاس دولت نہیں ہے نامناسب کلمات کہنے کی جرات کرتے ہیں یہ کوئی قابل توجہ چیز نہیں ہے درحقیقت اللہ تعالیٰ کی عطا اور بخشش کا پوری طرح آخرت ہی میں مظاہرہ ہوگا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقام محمود عطا کیا جائے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا جو دنیا میں آپ کو دی تھیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابھی بطن مادر ہی میں تھے کہ آپ کے والد کی وفات ہوگئی (اور ایک قول یہ ہے کہ آپ کی پیدائش کے بعد ان کی وفات ہوئی) ۔ آپ یتیم تو تھے ہی جب پانچ سال کی عمر ہوئی آپ کی و الدہ بھی وفات پا گئیں اور وہ بھی مقام ابواء میں جو جنگل بیابان تھا وہاں سے آپ کی باندی ام ایمن (رض) مکہ معظمہ لے گئیں۔ آپ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کی پرورش کی پھر چند سال بعد ان کی بھی وفات ہوگئی تو آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت کی ذمہ داری لی اور بڑی محبت اور شفقت کے ساتھ پرورش کی، اسی کو فرمایا : ﴿اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاٰوٰى٠٠٦﴾ (کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ نے آپ کو یتیم پایا پھر ٹھکانہ دیا) ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی۔ شفقت کے ساتھ پرورش کرائی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کا کرم اور انعام ہے۔ ﴿ وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى ۪٠٠٧﴾ (اور اللہ نے آپ کو بیخبر پایا سو راستہ بتادیا) ۔ اس میں دوسرا انعام بیان فرمایا اور وہ یہ کہ آپ امی تھے پڑھے لکھے نہیں تھے۔ جن لوگوں نے آپ کی کفالت کی ان کو بھی خیال نہ آیا کہ آپ کو کچھ پڑھائیں باہر کے لوگوں سے بھی کوئی میل جول نہ تھا جو کچھ علم حاصل کرلیتے اور خاص کر دینی علوم و معارف اور احکام و مسائل کے جاننے کا تو کوئی طریقہ تھا ہی نہیں، جیسا کہ سورة الشوریٰ میں فرمایا ہے : ﴿مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِيْمَانُ وَ لٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا ١ؕ﴾ اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا آپ کو نبوت اور رسالت سے نوازا، کامل اور جامع شریعت عطا فرمائی، اپنی معرفت بھی عطاء کی، ملائكہ سے متعلق علوم بھی دیئے۔ حضرت گزشتہ انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی امتوں کے احوال بھی بتائے، آخرت کی تفصیلات سے بھی آگاہ فرمایا، اصحاب جنت اور اصحاب جہنم کے احوال سے بھی باخبر فرمایا اور وہ علوم نصیب فرمائے جو کسی کو نہیں دیئے۔ سورة النساء میں فرمایا ﴿ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ ١ؕ وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيْمًا ٠٠١١٣﴾ (اور اللہ نے آپ کو وہ سکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے) ۔ سورة ٴ بنی اسرائیل میں فرمایا : ﴿ اِنَّ فَضْلَهٗ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيْرًا ٠٠٨٧﴾ (بلاشبہ اللہ کا فضل آپ پر بہت بڑا ہے) ۔ (١) قال القرطبی ای غافلاً عما یراد بک من امر النبوة فھداک ای ارشدک والضلال ھنا بمعنی الغفلة کقولہٖ جل ثناءہ لا یضل ربی ولا ینسی ای لا یغفل وقال فی حق نبیہٖ وان کنت من قبلہ لمن الغفلین وقال قوم ضالاً لم تکن تدری القران والشرائع فھداک اللہ الی القرآن، وشرائع الاسلام) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اور آپ کا پروردگار آگے چل کر آپ کو اتنا کچھ دے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے یعنی آگے آپ کو اتنی نعمتیں عطا کی جائیں گی کہ آپ ان نعمتوں کے ملنے سے خوش ہوجائیں گے دنیا اور آخرت میں آپ کو اس قدر بیشمار نعمتیں ملنے والی ہیں کہ آپ راضی اور خوش ہوجائیں گے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن رو کر دعا فرما رہے تھے اللھم امتی اللھم امتی حضرت جبرئیل حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ ہم تمہاری امت کے بارے میں تم کو خوش کردیں گے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے جبرئیل اگر میری امت کا ایک شخص بھی دوزخ میں رہ جائے گا تو میں خوش نہ ہوں گا۔ بہرحال آخرت میں شفاعت عامہ اور خاصہ اور مقام محمود اور لواء الحمد وغیرہ اور دنیا میں مدد اور فتح دشمنوں کے مقابلے میں اور اتباع کرنیوالوں کی کثرت اور فتوحات اور دین کا علو اور بلندی۔ اور آپ کی امت کاخیرالامم ہونا وغیرذلک آگے اور مزید انعامات و احسانات کا ذکر فرمایا، چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔