Surat ut Teen

Surah: 95

Verse: 3

سورة التين

وَ ہٰذَا الۡبَلَدِ الۡاَمِیۡنِ ۙ﴿۳﴾

And [by] this secure city [Makkah],

اور اس امن والے شہر کی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

By this city of security. meaning Makkah. This was said by Ibn `Abbas, Mujahid, `Ikrimah, Al-Hasan, Ibrahim An-Nakha`i, Ibn Zayd and Ka`b Al-Ahbar. There is no difference of opinion about this. Some of the Imams have said that these are three different places, and that Allah sent a Messenger to each of them from the Leading Messengers, who delivered the Great Codes of Law. - The ... first place is that of the fig and the olive, which was Jerusalem, where Allah sent `Isa bin Maryam. - The second place is Mount Sinin, which is Mount Sinai where Allah spoke to Musa bin `Imran. - The third place is Makkah, and it is the city of security where whoever enters is safe. It is also the city in which Muhammad was sent. They have said that these three places are mentioned at the end of the Tawrah. The verse says, - "Allah has come from Mount Sinai - meaning the one upon which Allah spoke to Musa bin `Imran; - and shined fromSa`ir - meaning the mountain of Jerusalem from which Allah sent `Isa; - and appeared from the mountains of Faran - meaning the mountains of Makkah from which Allah sent Muhammad ." Thus, He mentioned them in order to inform about them based upon their order of existence in time. This is why He swore by a noble place, then by a nobler place, and then by a place that is the nobler than both of them. Man becoming Lowly even though He was created in the Best Form and the Result of that Allah says, لَقَدْ خَلَقْنَا الاِْنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 اس سے مراد مکہ مکرمہ ہے، جس میں قتال کی اجازت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں جو اس میں داخل ہوجائے، اسے بھی امن حاصل ہوتا ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ دراصل تین مقامات کی قسم ہے جن میں سے ہر ایک جگہ میں جلیل القدر پیغمبر مبعوث ہوئے، انجیر اور زیتون سے مراد وہ علاقہ ہے جہاں پر اس کی پیداوار ہوئی اور وہ ہے...  بیت المقدس، جہاں حضرت عیسیٰ پیغمبر بن کر آئے، سنین پر حضرت موسیٰ کو نبوت ملی، اور شہر مکہ میں سیدالرسل حضرت محمد کی بعثت ہوئی۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤] البلد الامین یعنی شہر مکہ معظمہ جہاں طوفان نوح کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل (علیہما السلام) نے مل کر دوبارہ کعبہ تعمیر کیا تھا اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے اپنی ساری زندگی یہیں بسر کی تھی اور جہاں افضل الانبیاء نبی آخرالزمان پیدا ہوئے۔ یہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت عطا ہ... وئی اور نبوت کے بعد تیرہ سال یہیں گزارے۔ اسی مقام کے لیے سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اس شہر کو محترم اور امن والا بنا دے۔ اور اڑھائی ہزار سال گزرنے کے بعد اس شہر کا احترام بدستور قائم رہا۔ عرب بھر میں ہر جگہ لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم رہتا تھا۔ بس یہی ایک جگہ تھی جہاں لوگوں کو امن میسر آتا تھا اور مکہ کی یہ حرمت آج تک قائم ہے اور آئندہ بھی قائم رہے گی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(وھذا البلد الامین : شہر مکہ میں جو ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) نے آباد کیا اور جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوئے۔ اسے بلد امین اس لئے فرمایا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کے لئے دعا کی تھی :(رب اجعل ھذا بلداً امناً ) (البقرۃ : ١٢٦)” اے میرے رب ! اس (جگہ) کو ایک امن والا ش... ہر بنا دے۔ “  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ۝ ٣ هذا ( ذَاكَ ذلك) وأما ( ذا) في (هذا) فإشارة إلى شيء محسوس، أو معقول، ويقال في المؤنّث : ذه وذي وتا، فيقال : هذه وهذي، وهاتا، ولا تثنّى منهنّ إلّا هاتا، فيقال : هاتان . قال تعالی: أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] ، هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53]...  ، هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] ، إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] ، إلى غير ذلك هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] ، هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] ، ويقال بإزاء هذا في المستبعد بالشخص أو بالمنزلة : ( ذَاكَ ) و ( ذلك) قال تعالی: الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] ، ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] ، ذلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى [ الأنعام/ 131] ، إلى غير ذلك . ( ذ ا ) ہاں ھذا میں ذا کا لفظ اسم اشارہ ہے جو محسوس اور معقول چیز کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ ھذہ وھذی وھاتا ۔ ان میں سے سرف ھاتا کا تژنیہ ھاتان آتا ہے ۔ ھذہٰ اور ھٰذی کا تثنیہ استعمال نہیں ہوتا قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَكَ هذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ [ الإسراء/ 62] کہ دیکھ تو یہی وہ ہے جسے تونے مجھ پر فضیلت دی ہے ۔ هذا ما تُوعَدُونَ [ ص/ 53] یہ وہ چیزیں ہیں جن کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔ هذَا الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ [ الذاریات/ 14] یہ وہی ہے جس کے لئے تم جلدی مچایا کرتے تھے ۔ إِنْ هذانِ لَساحِرانِ [ طه/ 63] کہ یہ دونوں جادوگر ہیں ۔ هذِهِ النَّارُ الَّتِي كُنْتُمْ بِها تُكَذِّبُونَ [ الطور/ 14] یہی وہ جہنم ہے جس کو تم جھوٹ سمجھتے تھے ۔ هذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي يُكَذِّبُ بِهَا الْمُجْرِمُونَ [ الرحمن/ 43] یہی وہ جہنم ہے جسے گنہگار لوگ جھٹلاتے تھے ۔ ھذا کے بالمقابل جو چیز اپنی ذات کے اعتبار سے دور ہو یا باعتبار مرتبہ بلند ہو ۔ اس کے لئے ذاک اور ذالک استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا الم ذلِكَ الْكِتابُ [ البقرة/ 1- 2] یہ کتاب یہ خدا کی نشانیوں میں سے ہے ۔ ذلِكَ مِنْ آياتِ اللَّهِ [ الكهف/ 17] یہ اس لئے کہ تمہارا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہلاک کردے ۔ بلد البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی: بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] ، وقال عزّ وجلّ : فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر : وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» . ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد/ 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ/ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف/ 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف/ 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة/ 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف/ 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔ امین : امانت دار۔ معتبر۔ امن والا۔ امانۃ باب کرم مصدر سے ۔ بمعنی امانت دار ہونا۔ ا میں ہونا۔ اور امن باب سمع مصدر بمعنی امن میں ہونا۔ مطمئن ہونا۔ محفوظ ہونا سے اسم فاعل کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے اور اسم مفعول کا بھی کیونکہ فعیل کا وزن دونوں میں مشترک ہے یہ رسول کی پانچویں صفت ہے اور وہ وہاں کا امین ہے۔ پر اعتماد ہے۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ۔ } ” اور گواہ ہے یہ امن والا شہر۔ “ التِّین کے معنی انجیر کے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قوم نوح (علیہ السلام) کے علاقے میں ایک بڑے پہاڑ کا نام بھی جبل التِّین تھا اور یہ کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اسی پہاڑ کے دامن میں ساڑھے نو سو سال تک دعوت و تبلیغ کے فر... ائض سرانجام دیے۔ اسی طرح الزَّیْتُون سے مراد زیتون کا پھل اور درخت بھی ہے اور وہ پہاڑی بھی جس پر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اکثر تبلیغی خطبات دیا کرتے تھے۔ ان خطبات میں سے آپ (علیہ السلام) کا ایک خطبہ ” پہاڑی کے وعظ “ (Sermon of the Mount) کے نام سے خاص طور پر مشہور ہے۔ تیسری قسم (وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ ) کا تعلق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات سے ہے۔ کو ہِ طور پر آپ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا۔ اور امن والے شہر سے مکہ مکرمہ مراد ہے جہاں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سورت کے نزول کے وقت دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔ گویا ان آیات میں جن مقامات کی قسمیں کھائی گئی ہیں ان میں سے ہر مقام کا تعلق ایک جلیل القدر شخصیت سے ہے۔ گویا ان شخصیات کو گواہ بنا کر یہاں اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ بنیادی طور پر انسان بہت بلند مرتبت اور صاحب عزت و عظمت مخلوق ہے۔ اگر کسی کو اس حقیقت کے بارے میں کوئی شک ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے بندے نوح (علیہ السلام) کی زندگی کے شب و روز کا تصور کرے۔ اس کے بندے عیسیٰ (علیہ السلام) کے کردار کا نقشہ ذہن میں لائے ‘ موسیٰ (علیہ السلام) کی عظیم المرتبت شخصیت کو یاد کرے اور پھر سب سے بڑھ کر اس کے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بےمثال سیرت کا نمونہ دیکھے۔ یہ شخصیات ‘ ان کے کردار اور ان کی سیر تیں اس حقیقت پر گواہ ہیں کہ :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: انجیر اور زیتون فلسطین اور شام میں زیادہ پیدا ہوتے ہیں، اس لئے ان سے فلسطین کے علاقے کی طرف اشارہ ہے جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا، اور اُنہیں اِنجیل عطا فرمائی گئی تھی۔ اور صحرائے سینا کا پہاڑ طُور وہ ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا فرمائی گئی تھی، اور ’... ’اس امن وامان والے شہر‘‘ سے مراد مکّہ مکرَّمہ ہے، جہاں حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم پیغمبر بنا کر بھیجا گیا، اور آپ پر قرآنِ کریم نازل ہوا۔ ان تینوں کی قسم کھانے سے مقصود یہ ہے کہ جو بات آگے کہی جا رہی ہے، وہ ان تینوں کتابوں میں درج ہے، اور تینوں پیغمبروں نے اپنی اپنی امتوں کو بتائی ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(95:3) وھذا البلد الامین : واؤ قسمیہ، ھذا اسم اشارہ واحد مذکر ۔ البلد الامین۔ موصوف وصفت مل کر مشر الیہ۔ اس امن والے شہر کی، یعنی مکہ مکرمہ کی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) اور اس امن والے شہر کی۔