Surat ut Teen
Surah: 95
Verse: 5
سورة التين
ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾
Then We return him to the lowest of the low,
پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا ۔
ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾
Then We return him to the lowest of the low,
پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا ۔
Then We reduced him to the lowest of the low. meaning, to the Hellfire. This was said by Mujahid, Abu Al-Aliyah, Al-Hasan, Ibn Zayd and others. Then after this attractiveness and beauty, their destination will be to the Hell-fire if they disobey Allah and belie the Messengers. This is why Allah says,
5۔ 1 یہ اشارہ ہے انسان کی ارذل العمر کی طرف جس میں جوانی اور قوت کے بعد بڑھاپا اور ضعف آجاتا ہے اور انسان کی عقل اور ذہن بچے کی طرح ہوجاتا ہے۔ بعض نے اس سے کردار کا وہ سفلہ پن لیا ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان انتہائی پست اور سانپ بچھو سے بھی گیا گزرا ہوجاتا ہے بعض نے اس سے ذلت و رسوائی کا وہ عذاب مراد لیا ہے جو جہنم میں کافروں کے لیے ہے، گویا انسان اللہ اور رسول کی اطاعت سے انحراف کر کے اپنے احسن تقویم کے بلند رتبہ واعزاز سے گرا کر جہنم کے اسفل السافلین میں ڈال لیتا ہے۔
[٦] انسان تمام مخلوق سے پست کیسے ؟ یعنی اگر انسان اپنی ان خداداد ذہنی صلاحیتوں اور جسمانی قوتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرے اور اللہ کی نافرمانی اور بغاوت پر اتر آئے تو انسان حیوانوں کی سطح سے بھی نیچے گر جاتا ہے وہ اس طرح کہ حیوانوں کو اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کی تمیز نہیں بخشی اور انسان اگر اس تمیز کے ہوتے ہوئے بھی اسے استعمال نہ کرے تو جانوروں سے بدتر ٹھہرا۔ لیکن انسان تو اخلاقی لحاظ سے اتنی پستی میں جاگرتا ہے جس کا حیوانوں میں تصور بھی محال ہے۔ انسانی معاشرے میں حرص، طمع، خودغرضی، شہوت پرستی، نشہ بازی، کمینہ پن، ظلم و بربریت، لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت جیسی برائیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ حیوانوں میں کہاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ اس لحاظ سے انسان فی الواقع تمام مخلوق سے پست اور کہتر بن جاتا ہے۔
(ثم رددنہ اسفل سفلین : اس بہترین بناوٹ میں اس کی شکل و صورت کا حسن، اس کی عقل، اس کی فطرت پر پیدائش اور وہ سب کچھ شامل ہے جو کسی حیوان کو حاصل نہیں۔ پھر اگر وہ اس عقل اور فطرت کے تقاضوں پر عمل نہ کرے بلکہ انسانیت سے اتر کر حیوانیت میں جا گرے اور شہوت و غضب اور دوسری حیوانی صفات سے مغلوب ہوجائے، تو اس سے زیادہ نیچا اور ذلیل کوئی نہیں، کیو کہ پھر وہ اس حد تک گر جاتا ہے کہ کوئی حیوان نہیں بھی گرتا ، حتیٰ کہ وہ اپنے مالک و خالق کو بھی بھول جاتا ہے، اس کے ساتھ شریک بنانے لگتا ہے اور زمین میں ایسا فساد برپا کرتا ہے جو کوئی حیوان بھی نہیں کرسکتا۔ ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ آگ ہے اور اس میں گرنے والوں سے نیچا اور ذلیل کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ انھی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(اولئک کالانعام بل ھم اضل) (الاعراف : ١٨٩)” یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ “
ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (then We turned him into the lowest of the low...95:5). In the preceding sentence, it was stated that man is created in the best composition and is the most beautiful being. In the prime of his life, man is brimming with strength and vigour and all his faculties are functioning at their best. As opposed to that, this sentence states that when man ages, he physically grows weaker and his health deteriorates all the time. He even begins to lose his physical beauty. He no longer has a good-looking and attractive face. He begins to look uglier. He becomes useless and a burden to others. Other animals, on the contrary, are useful to the end of their lives. Man utilises them for milk, for mounting, for luggage-loading and for myriad of other things. When they are slaughtered or dead, man still utilises their hide, hair, bones and every other part or fibre of theirs usefully. Man, on the other hand, becomes useless when he falls ill or grows old. From the worldly point of view he is unable to do anything. Even when he dies, no part of his body is of any benefit to any man or animal. In short, the phrase &the lowest of the low& refers to bodily condition. His body bends over and legs can barely carry him. The man who was once supporting others now needs others to support him. [ Dahhak and others vide Qurtubi ].
ثم رددنہ اسفل سفلین، پہلے جملے میں ساری مخلوقات اور کائنات سے احسن بنانے کا بیان تھا، اس جملے میں اس کے بالمقابل یہ بتلایا گیا ہے کہ جس طرح وہ اپنی ابتدا اور شباب میں ساری مخلوقات سے زیادہ حسین اور سب سے بہتر تھا آخر میں اس پر یہ حالت بھی آتی ہے کہ وہ بد سے بدتر اور برے سے برا ہوجاتا ہے ظاہر یہ ہے کہ بدتری اور برائی اس کی ظاہری جسمانی حالت کے اعتبار سے بتلائی گئی ہے کہ شباب ڈھلنے کے بعد شکل و صورت بدلنے لگتی ہے بڑھاپا اس کا روپ بالکل بدل ڈالتا ہے، بدہئیت بد شکل نظر آنے لگتا ہے بیکار اور دوسروں پر بار ہو کر رہ جاتا ہے۔ کسی کے کام نہیں آتا، بخلاف دوسرے جانوروں کے کہ وہ آخر تک اپنے کام میں لگے رہتے ہیں، انسان ان سے دودھ اور سواری باربرداری کے اور دوسری قسم کے سینکڑوں کام لیتے ہیں، وہ ذبح کردیئے جائیں یا مر جائیں تو بھی ان کی کھال، بال، ہڈی، غرض جسم کا ریزہ ریزہ انسانوں کے کام میں آتا ہے بخلاف انسان کے کہ جب وہ بیماری اور بڑھاپے میں عاجز و درماندہ ہوجاتا ہے تو مادی اور دنیاداری کے اعتبار سے کسیک ام کا نہیں رہتا مرنے کے بعد بھی اس کے کسی جز سے کسی انسان یا جانور کو فائدہ نہیں پہنچتا، خلاصہ یہ ہے کہ اس کے اسفل السلافلین میں پہنچ جانے سے مراد اس کی مادی اور جسمانی کیفیت ہے۔ یہ تفسیر حضرت ضحاک وغیرہ ائمہ تفسیر سے منقول ہے (کمافی القرطبی)
ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ ٥ ۙ رد الرَّدُّ : صرف الشیء بذاته، أو بحالة من أحواله، يقال : رَدَدْتُهُ فَارْتَدَّ ، قال تعالی: وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( رد د ) الرد ( ن ) اس کے معنی کسی چیز کو لوٹا دینے کے ہیں خواہ ذات شے کہ لوٹا یا جائے یا اس کی حالتوں میں سے کسی حالت کو محاورہ ہے ۔ رددتہ فارتد میں نے اسے لوٹا یا پس وہ لوٹ آیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 147] ( مگر بکے ) لوگوں سے اس کا عذاب تو ہمیشہ کے لئے ٹلنے والا ہی نہیں ۔ سفل السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر/ 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی، ( س ف ل ) السفل یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر/ 74]
آیت ٥{ ثُمَّ رَدَدْنٰــہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ ۔ } ” پھر ہم نے لوٹا دیا اس کو پست ترین حالت کی طرف۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی اس عظیم المرتبت مخلوق (کی روح) کو اس کے جسد خاکی میں بٹھا کر نیچے دنیا میں بھیج دیا۔ لیکن واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر جہالت کی تاریکی میں نہیں بلکہ ہدایت کے اجالے میں بھیجا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسے کامیابی اور ناکامی کے راستوں کا شعور بھی عطا کیا ‘ اس کی فطرت میں نیکی و بدی کی تمیز بھی ودیعت کی اور وقتاً فوقتاً وہ براہ راست ہدایات بھی بھیجتا رہا : { وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰٹـھُمْ اَنْفُسَھُمْط } (الحشر : ١٩) کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اللہ کو فراموش کردیا اور اس کی پاداش میں اللہ نے انہیں اپنے آپ سے ہی غافل کردیا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اب اگر وہ اپنے شرفِ انسانی کو بھلا کر محض حیوانی سطح پر زندگی بسر کرتا رہے اور خود کو حیوان ہی سمجھتا رہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔ اس فلسفے کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنی سرشت (حیوانی وجود کے تقاضوں) کے اعتبار سے انسان میں کچھ کمزوریاں اور خامیاں پائی جاتی ہیں ‘ لیکن اپنی فطرت (روح) کے لحاظ سے یہ بہت اعلیٰ اور عظیم المرتبت مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی روح کو اس کے حیوانی جسم میں متمکن فرما کر اسے دنیا میں بھیجاتو اس کا ارفع و اعلیٰ روحانی وجود اس کے حیوانی جسم میں قید ہو کر گویا اسفل (نچلی ) مخلوق کی سطح پر آگیا۔ چناچہ دنیوی زندگی میں اس کے سامنے اصل ہدف یہ ہے کہ وہ اپنے شعور اور اللہ تعالیٰ کی فراہم کردہ ہدایت کے مطابق راستہ اختیار کرے ‘ اس راستے کے تقاضے پورے کرنے کے لیے محنت کرے اور اسفل سطح سے اوپر اٹھ کر اپنی اصل عظمت اور حقیقی منزل کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اب اگلی آیت میں اس راستے کی نشاندہی اور مطلوبہ محنت کے طریقے کی وضاحت کی گئی ہے :
4 The commentators in general have given two meanings of this: (1) That We reversed him to the miserable state of old age in which he was no longer able to think and understand and work; and (2) that We reversed him to the lowest stage of Hell. But these two meanings cannot be an argument for the object for the confirmation of which this Surah was revealed. The Surah is meant to reason out the truth of the judgement in the Hereafter. On this, neither has this tact any bearing that some human beings are caused to reach the most miserable state of old age, nor that a section of human beings will be cast into Hell. The first thing cannot be an argument for the judgement because old age comes upon both the good and the bad people, and a person's reaching this age is no punishment which he might suffer in consequence of his deeds. As for the second thing, it will occur in the Hereafter. It cannot be presented as an argument before the people who are being convinced of the meting out of rewards and punishments in the Hereafter itself. Therefore in our opinion the correct meaning of the verse is: After having been created in the finest of moulds when man uses the powers of his body and mind in evil ways Allah grants him the power to do only evil and causes him to reach the lowest ebb of degradation. This is a truth which one commonly observes in human society. People become so overwhelmed by greed, selfishness, lustfulness, addiction to intoxicants, meanness, rage and fury and such other traits that morally . they are actually reduced to the lowest of the low. Consider only one example: When a nation is blinded by its hostility to another country it surpasses all savage beasts in barbarity. A wild beast preys upon its victim only for the sake of food, it does not resort to a general massacre; but man resorts to massacre of his own kind. The beast only uses its claws and teeth but man who has been created in the best of moulds invents the gun, rifle, tank, aircraft, atom and hydrogen bombs and countless other weapons by his intellect so that he can instantly destroy whole populations. The beast only kills or inflicts a wound but man invents such painful methods of torturing men like himself as cannot even be -imagined by a' beast. Then to wreak his vengeance and fury on his enemies he forces the women to march out in naked processions: they are subjected to rape by tens and twenties of men; they are dishonoured before the eyes of their fathers, brothers and husbands; children are massacred in front of their parents; mothers are forced to drink their children's blood; human beings are burnt and buried alive. There is no wild species of animals in the world which may equal this human barbarity in any degree. The same is also the case with other evil traits: man proves himself to he the lowest of the low in whichever evil he indulges. So much so that he degrades even religion which is the most sacred thing for man: he worships the trees, animals and mountains, even the sex organs of man and woman; he keeps religious prostitutes in the places of worship to win the goodwill of the gods and commits adultery with them as an act of virtue. In his mythology he attributes such filthy tales to his gods and goddesses which would make the most wretched beast to hang his head in shame.
سورة التِّیْن حاشیہ نمبر :4 مفسرین نے بالعموم اس کے دو معنی بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ ہم نے اسے ارذل العمر ، یعنی بڑھاپے کی ایسی حالت کی طرف پھیر دیا جس میں وہ کچھ سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کے قابل نہ رہا ۔ دوسرے یہ کہ ہم نے اسے جہنم کے سب سے نیچے درجے کی طرف پھیر دیا ۔ لیکن یہ دونوں معنی اس مقصود کلام کے لیے دلیل نہیں بن سکتے جسے ثابت کرنے کے لیے یہ سورہ نازل ہوئی ۔ سورۃ کا مقصود جزا و سزا کے برحق ہونے پر ا ستدلال کرنا ہے ۔ اس پر نہ یہ بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں میں سے بعض لوگ بڑھاپے کی انتہائی کمزور حالت کو پہنچا دیے جاتے ہیں ، اور نہ یہی بات دلالت کرتی ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ پہلی بات اس لیے جزا و سزا کی دلیل نہیں بن سکتی کہ بڑھاپے کی حالت اچھے برے ، دونوں قسم کے لوگوں پر طاری ہو تی ہے ، اور کسی کا اس حالت کو پہنچنا کوئی سزا نہیں ہے جو اسے اس کے اعمال پر دی جاتی ہو ۔ رہی دوسری بات تو وہ آخرت میں پیش آنے والا معاملہ ہے ۔ اسے ان لوگوں کے سامنے دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جا سکتا ہے ۔ جنہیں آخرت ہی کی جزا و سزا کا قائل کرنے کے لیے یہ سارا استدلال کیا جا رہا ہے؟ اس لیے ہمارے نزدیک آیت کاصحیح مفہوم یہ ہے کہ بہترین ساخت پرپیدا کیے جانے کے بعد جب انسان اپنے جسم اور ذہن کی طاقتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے برائی ہی کی توفیق دیتا ہے اور گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہا تک پہنچا دیتا ہے کہ کوئی مخلوق گراوٹ میں اس حد کو پہنچی ہوئی نہیں ہوتی ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو انسانی معاشرے کے اندر بکثرت مشاہدے میں آتی ہے ۔ حرص ، طمع ، خود غرضی ، شہوت پرستی ، نشہ بازی ، کمینہ پن ، غیظ و غضب اور ایسی ہی دوسری خصلتوں میں جو لوگ غرق ہو جاتے ہیں وہ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع سب نیچوں سے نیچ ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر صرف اسی ایک بات کو لے لیجیے کہ ایک قوم جب دوسری قوم کی دشمنی میں اندھی ہو جاتی ہے تو کس طرح درندگی میں تمام درندوں کو مات دیتی ہے ۔ درندہ تو صرف اپنی غذا کے لیے کسی جانور کا شکار کرتا ہے ۔ جانوروں کا قتل عام نہیں کرتا ۔ مگر یہ احسن تقویم پر پیدا ہونے والا انسان اپنی عقل سے کام لے کر توپ ، بندوق ، ٹینک ، ہوائی جہاز ، ایٹم بم ، ھائیڈروجن بم اور دوسرے بے شمار ہتھیار ایجاد کرتا ہے تاکہ آن کی آن میں پوری پوری بستیوں کو تباہ کر کے رکھ دے ۔ درندہ صرف زخمی یا ہلاک کرتا ہے ۔ مگر انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کو اذیت دینے کے لیے ایسے ایسے درد ناک طریقے اختراع کرتا ہے جن کا تصور بھی کبھی کسی درندے کے دماغ میں نہیں آ سکتا ۔ پھر یہ اپنی دشمنی اور انتقام کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے کمینہ پن کی اس انتہا کو پہنچتا ہے کہ عورتوں کے ننگے جلوس نکالتا ہے ، ایک ایک عورت کو دس دس بیس بیس آدمی اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں ، باپوں اور بھائیوں اور شوہروں کے سامنے ان کے گھر کی عورتوں کی عصمت لوٹتے ہیں ، بچوں کو ان کے ماں باپ کے سامنے قتل کرتے ہیں ۔ ماؤں کو اپنے بچوں کا خون پینے پر مجبور کرتے ہیں ، انسانوں کو زندہ جلاتے اور زندہ دفن کرتے ہیں ۔ دنیا میں وحشی سے وحشی جانوروں کی بھی کوئی قسم ایسی نہیں ہے جو انسان کی اس وحشت کا کسی درجہ میں بھی مقابلہ کر سکتی ہو ۔ یہی حال دوسری بری صفات کا بھی ہے کہ ان میں سے جس کی طرف بھی انسان رخ کرتا ہے ، اپنے آپ کو ارذل المخلوقات ثابت کر دیتا ہے ۔ حتی کہ مذہب ، جو انسان کے لیے مقدس ترین شے ہے ، اس کو بھی وہ اتنا گرا دیتا ہے کہ درختوں اور جانوروں اور پتھروں کو پوجتے پوجتے پستی کی انتہا کو پہنچ کر مرد و عورت کے اعضائے جنسی تک کو پوج ڈالتا ہے ، اور دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے عبادت گاہوں میں دیو داسیاں رکھتا ہے جن سے زنا کا ارتکاب کار ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے ۔ جن ہستیوں کو وہ دیوتا اور معبود کا درجہ دیتا ہے ان کی طرف اس دیو مالا میں ایسے ایسے گندے قصے منسوب ہوتے ہیں جو ذلیل ترین انسان کے لیے بھی باعث شرم ہیں ۔
2: اس کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ جو لوگ مؤمن نہ ہوں، وہ دُنیا میں چاہے کتنے خوبصورت رہے ہوں، آخرت میں وہ انتہائی نچلی حالت کو پہنچ جائیں گے، کیونکہ اُنہیں دوزخ میں ڈالا جائے گا، اِسی لئے آگے اُن اِنسانوں کا استثناء کیا گیا ہے جو ایمان لائیں، اور نیک عمل کریں۔ اور اکثر مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ ہر اِنسان بڑھاپے میں جا کر اِنتہائی خستہ حالت کو پہنچ جاتا ہے۔ اُس کی خوبصورتی بھی جاتی رہتی ہے، اور طاقت بھی جواب دے جاتی ہے، اور آئندہ کسی اچھی حالت کے واپس آنے کی اُنہیں کوئی امید نہیں ہوتی، کیونکہ وہ آخرت کے قائل ہی نہیں ہوتے۔ البتہ نیک مسلمان چاہے اس بڑھاپے کی بُری حالت کو پہنچ جائیں، لیکن ان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ بری حالت عارضی ہے، اور آگے دُوسری زندگی آنے والی ہے، جس میں اِن شا اللہ اُنہیں بہترین نعمتیں میسر آئیں گی، اور یہ عارضی تکلیفیں ختم ہوجائیں گی۔ اس احساس کی وجہ سے ان کی بُڑھاپے کی تکلیفیں بھی ہلکی ہوجاتی ہیں۔
(95:5) ثم رددنہ اسفل سافلین : ثم تراخی وقت کے لئے یا تراخی فی الرتبہ کے لئے۔ رددنا ماضی جمع متکلم رد (باب نصر) مصدر سے۔ ہم نے لوٹا دیا۔ ہم نے پھیر دیا۔ ہم نے واپس کردیا۔ یہاں بمعنی جعلنا (ہم نے بنادیا) ہے ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع الانسان ہے۔ اسفل السافلین۔ مضاف مضاف الیہ۔ (اسفل ۔ اعلی کی ضد ہے۔ سب سے نیچا۔ سفول سے جس کے معنی نیچے ہونے کے ہیں افعل التفضیل کا صیغہ ہے) مل کر رددنا کا مفعول ثانی ہے۔ اسفل السافلین کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) یہ مفعول (ہ) سے حال ہے۔ اس صورت میں تقدیر کلام ہوگا :۔ رددنہ حال کو نہ اسفل سافلین : ای ارذل۔ اس حال میں کہ وہ ان سب سے رذیل ترین ہوگا۔ (2) یہ بھی جائز ہے کہ یہ مکان کی تعریف ہو۔ ای رددنہ مکانا اسفل السافلین ہم اس کو (جہنم کی) سب سے نیچی جگہ (کی طرف) پھیر دیں گے۔
ف 17 شاہ صاحب لکھتے ہیں :” اسے لائق بنایا فرشتوں کے مقام کا جب منکر ہو تو جانوروں سے بدتر۔ “ (موضح)
9۔ یعنی وہ خوبصورتی اور قوت مبدل بہ قبح و ضعف ہوجاتا ہے اور برے سے برا ہوجاتا ہے، اس سے مقصود کمال قبح کا بیان کرنا ہے جس سے قدرت علی الاعادہ پر کافی استدلال ہوتا ہے۔
ثم رددنہ ........................ سفلین (5:95) ” پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے نیچوں سے نیچا کردیا “۔ اس قدر نیچے کہ بہائم بھی اس سے بلند نظر آنے لگے ، وہ ایسے انسانوں کے مقابلے میں سیدھی راہ پر نظر آنے لگے کیونکہ وہ فطرت پر قائم ہوتے ہیں ، ان کو اللہ کی تسبیح وتہلیل کا الہام ہوتا ہے اور وہ اس کرہ ارض پر جس مقصد کے لئے پیدا کیے گئے ہیں اسے پورا کرتے رہتے ہیں حالانکہ اس انسان کو دوسرے بہائم کے مقابلے میں نہایت ہی اچھی ساخت پر پیدا کیا گیا تھا ، لیکن یہ رب تعالیٰ کا انکار کرنے لگا اور ایسے گہرے گڑھے میں گرا کہ اس سے زیادہ اور کوئی گہرائی اور گراوٹ نہ رہی۔ لقد خلقنا ........................ تقویم (4:95) ” ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا “۔ یعنی اپنی فطرت اور اپنی صلاحیتوں کے لحاظ سے وہ بہترین تھا۔ ثم رددنہ .................... سفلین (5:95) ” پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے نیچوں سے نیچا کردیا “۔ جب اس نے اپنی فطرت کو اس سطح سے گرادیا جو اس کے لئے رب تعالیٰ نے مقرر کی تھی اور یہ تشریح کردی تھی کہ اس خط سے نیچے گراوٹ ہے اور اوپر انسانیت اور فطرت ہے۔
﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَۙ٠٠٥﴾ (پھر ہم انسان کو نیچے درجہ والوں سے بھی نیچی حالت میں لوٹا دیتے ہیں) ۔ بعض مفسرین کرام نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ شانہ نے اچھی صورت میں پیدا فرمایا اچھے سے اچھے سانچے میں ڈھال دیا حسن و جمال کا پیکر بنا دیا، وہ قوت اور طاقت کے ساتھ جیتا رہا اور اپنے ناز و انداز دکھاتا رہا پھر جب اللہ تعالیٰ نے بڑھاپا دیا تو بہت گئی گزری حالت میں ہوگیا، نظر بھی کمزور، کان بھی بہرے، دل میں خفقان اور بھولو نسیان، دماغ بیکار، شعور اور ادراک ختم، قد جھک گیا، كمر کمان بن گئی، ٹانگیں لڑکھڑانے لگیں، دوسروں پر وبال، خدمت کا محتاج، یہ بدحالی بڑھاپے میں انسان کو لاحق ہوجاتی ہے۔ سورة یٰسین میں اسی کو فرمایا ہے : ﴿وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ١ؕ اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ ٠٠٦٨﴾ (اور ہم جس کی عمر زیادہ کردیتے ہیں اس کو سابقہ طبعی حالت پر لوٹا دیتے ہیں) ۔
5:۔ ” ثم رددناہ “ باغیوں اور سرکشوں کے لیے تخویف اخروی ہے۔ انسان کو ہم نے ظاہری اور باطنی خوبیوں سے نوازا۔ مگر جب اس نے عقل و خرد سے کام نہ لے کر ہماری اطاعت سے سرتابی کی تو ہم نے اس کو جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں دھکیل دیا۔ یعنی ہم نے اس کے لیے اس کی سزا کا فیصلہ کردیا۔