Surat ut Teen

Surah: 95

Verse: 6

سورة التين

اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمۡ اَجۡرٌ غَیۡرُ مَمۡنُوۡنٍ ؕ﴿۶﴾

Except for those who believe and do righteous deeds, for they will have a reward uninterrupted.

لیکن جو لوگ ایمان لائے اور ( پھر ) نیک عمل کئے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

إِلاَّ الَّذِينَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ... Save those who believe and do righteous deeds. Some have said, ثُمَّ رَدَدْنَـهُ أَسْفَلَ سَـفِلِينَ (Then We reduced him to the lowest of the low). "This means decrepit old age." This has been reported from Ibn `Abbas and `Ikrimah. Ikrimah even said, "Whoever gathers the Qur'an (i.e., he memorizes it all), then he will not be returned to decrepit old age." Ibn Jarir preferred this explanation. Even if this was the meaning, it would not be correct to exclude the believers from this, because some of them are also overcome by the senility of old age. Thus, the meaning here is what we have already mentioned (i.e., the first view), which is similar to Allah's saying, وَالْعَصْرِ إِنَّ الاِنسَـنَ لَفِى خُسْرٍ إِلاَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّـلِحَـتِ By Al-`Asr. Verily man is in loss, except those who believe and perform righteous deeds. (103:1-3) Concerning Allah's statement, ... فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ Then they shall have a reward without end. meaning, that will not end, as we have mentioned previously. Then Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] یعنی بنی نوع انسان کی اکثریت ایسی ہی تھی جو احسن تقویم پر برقرار رہنے کے بجائے اسفل السافلین کی پستی تک جا پہنچی۔ پھر انہی قوموں پر اللہ کے عذاب آتے رہے اور وہ تباہ و برباد ہوتی رہیں۔ نبی ہمیشہ اس وقت مبعوث کیے جاتے ہیں جب کوئی قوم اسفل السافلین کی پستیوں میں جاگرتی ہے پھر ان انبیاء پر بھی تھوڑے ہی لوگ ایمان لانے والے ہوتے ہیں۔ پھر ان ایمان لانے والوں اور اعمال صالح بجا لانے والوں کی نسلیں بھی بعد میں انتشار، شرکیہ عقائد یا ایسے عقائد و اعمال میں مبتلا ہوجاتی ہے جو ایمان بالآخرت کو عملاً باطل بنا دیتے ہیں اور صرف وہی لوگ محفوظ رہتے ہیں جو انبیاء پر صحیح طور پر ایمان لاتے، صحیح عقائد پر قائم رہتے اور انہیں عقائد کے مطابق نیک اعمال بجا لاتے ہیں۔ یہی لوگ اس صفت احسن تقویم کا حق ادا کرتے ہیں۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا تھا اور انہی لوگوں کے لیے اخروی نجات اور غیر منقطع اجر ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(الا الذین امنوا و عملوا الصلحت…: اور اگر یہ احسن تقویم کے مطابق ایمان لا کر عمل صالح کرے تو اس کو ایسا اجر ملے گا جو کبھی نمنقطع نہیں ہوگا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ‌ مَمْنُونٍ ‌ (except those who believed and did righteous deeds, because for them there is a reward never ending....95:6). The foregoing interpretation of the preceding verse should not be misunderstood. The exceptive sentence does not mean that the believers will not attain to decrepit old age. It would not be correct to exclude the believers from this, because some of them are also overcome by the senility of old age. The sense, however, is that they do not suffer a big harm due to their physical or mental deterioration in old age. Only those will suffer from it who spent their entire energy on improving their physical condition that has now ended. They shall have no portion of it in the Hereafter. The righteous believers will have an unfailing reward. This verse makes it clear that even after reaching old age, a believer never becomes useless. Even in decrepitude he can accumulate rewards - comfort and high positions - for the Hereafter that are eternal. During the period of senility when he is unable to do righteous deeds, the good deeds will be recorded in his Record Book which he used to do in good health. Sayyidna Anas (رض) narrates that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that when a Muslim falls ill Allah instructs the recording angels to record the good deeds he used to perform in good health. [ Al-Baghawi transmitted it in Sharh-us-Sunnah from Abu Musa, and Bukhari has reported the same rewards for a traveller and a person suffering from a disease.) Here instead of mentioning the rewards and blessings of Paradise for the righteous believers, the verse reads: لَهُمْ أَجْرٌ‌ غَيْرُ‌ مَمْنُونٍ (for them there is a reward never ending.) This could signify that their reward starts in this mortal world [ and continues in the Hereafter eternally ]. Allah gathers around them in their decrepit old age such sincere companions who benefit from them spiritually until the last moment of their life. They serve them in every possible way. The righteous servants of Allah in decrepitude are productive while generally the senile and people in bad health are thought to be unproductive. Some commentators say that the statement - رَ‌دَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (We turned him into the lowest of the low) does not refer to human beings in general. It refers specifically to unbelievers who destroyed the God-given best composition, human perfection, honour and intellect by pursuing physical pleasures. As a result of their ingratitude, they will be turned into the lowest of the low. In this interpretation, the exception - إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا (except those who believed and did righteous deeds, because for them there is a reward never ending) will carry its basic interpretation, in that they will not be turned into the lowest of the low. For those who believed and did righteous deeds, there is a reward that is unending. [ Thus in al-Mazhari ].

اس تفسیر پر اگلی آت میں جو مؤمنین صالحین کے استثناء یعنی الا الذین امنو وعملو الصلحت قلھم اجر غیر ممنون کا ذکر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان پر بڑھاپے میں کے حالات اور عجز و درماندگی نہیں آتی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس جسمانی بیکاری اور مادی خرابی کا نقصان ان کو نہیں پہنچتا بلکہ نقصان صرف ان لوگو کو پہنچتا ہے جنہوں نے اپنی ساری فکر اور توانائی اسی مادی درستی پر خرچ کی تھی وہ اب ختم ہوگئی اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں بخلاف مؤمنین صالحین کے کہ ان کا اجر وثواب کبھی قطع ہونیوالا نہیں۔ اگر دنیا میں بڑھاپے کی بیماری کمزوری اور عجز سے سابقہ بھی پڑا تو آخرت میں ان کے لئے درجات عالیہ اور راحت ہی راحت موجود ہے اور بڑھاپے کی بیکاری اور عجز سے سابقہ بھی پڑا تو آخرت میں ان کے لئے درجات عالیہ اور راحت ہی راحت موجود ہے اور بڑھاپے کی بیکاری میں بھی عمل کم ہوجانے کے باوجود ان کے نامہ اعمال میں وہ سب اعمال لکھے جاتے ہیں جو وہ قوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب کوئی مسلمان کسی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال کلھنے والے فرشتے کو حکم دیدیتے ہیں کہ جو جو عمل خیر یہ اپنی تندرستی میں کیا کرتا تھا وہ سب اس کے اعمال نامہ میں لکھتے رہو (رواہ البغوی فی شرح السنہ و البخاری عن ابی موسیٰ مثلہ فی المریض والمسافر) اس کے علاوہ اس مقام پر مؤمنین صالحین کی جزاء جنت اور اس کی نعمتوں کو بیان کرنے کے بجائے لھم اجرغیر ممنون فرمایا ہے یعنی ان کا اجر کبھی مقطوع و منقطع ہونیوکالا نہیں۔ اس میں اشارہ اس طرف بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا یہ صلہ دنیا کی مادی زندگی ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ حق تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کے لئے بڑھاپے اور صنعف میں ایسے مخلف رفقاء مہیا فرما دیتے ہیں جو ان کے آخری لمحہ تک ان سے روحانی فوائد اٹھاتے ہیں اور ان کی ہر طرح کی خدمت کرتے ہیں اسی طرح بڑھاپے کا وہ وقت جب انسان مادی اور جسمانی طور پر معطل بیکار اور لوگوں پر بار سمجھا جاتا ہے، اللہ کے یہ بندے اس وقت بھی بیکار نہیں ہوتے اور بعض حضرات مفسرین نے اس آیت کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ رددنہ اسفل سفلین عام انسانوں کے لئے نہیں بلکہ کفار و فجار کے لئے ہے۔ جنہوں نے خدا داد احسن تقویم اور انسانی کمالات و شرافت اور عقل کو مادی لذائذ کے پیچھے برباد کردیا تو اس ناشکری کی سزا میں ان کو اسفل السلافلین میں پہنچا دیا جائے گا، اس صورت میں الا الذین امنوا کا استثناء اپنے ظاہری مفہوم پر رہتا ہے کہ اسفل سافلین میں پہنچنے سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے اور عمل صالح کے پابند رہے کیونکہ ان کا اجر ہمیشہ جاری رہے گا۔ (کذافی المظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ۝ ٦ ۭ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے مَمْنُونٍ هو المنّة بالقول، وذلک أن يمتنّ به ويستکثره، وقیل معناه : لا تعط مبتغیا به أكثر منه، وقوله : لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ [ الانشقاق/ 25] قيل : غير معدود کما قال : بِغَيْرِ حِسابٍ [ الزمر/ 10] وقیل : غير مقطوع ولا منقوص . ومنه قيل : المَنُون للمَنِيَّة، لأنها تنقص العدد وتقطع المدد . وقیل : إنّ المنّة التي بالقول هي من هذا، لأنها تقطع النّعمة وتقتضي قطع الشّكر، بعض نے کہا ہئ کہ منہ بالقول مراد ہے یعنی احسان جتلانا اور اسے بہے بڑا خیال کرنا ۔ بعض نے اس کا معنی یہ بیان کیا ہے زیادہ کی طلب کے لئے احسان نہ کر اور آیت کریمہ : ۔ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ [ الانشقاق/ 25] ان کے لئے بےانتہا اجر ہے ۔ میں بعض نے غیر ممنون کے معنی غیر محدود یعنی ان گنت کئے ہیں ۔ جیسا کہ دوسری جگہ بغیر حساب فرمایا ہے : ۔ بعض نے اس معنی غیر مقطوع ولا منقوص کئے ہیں یعنی ان کا اجر نہ منقطع ہوگا اور نہ سہی کم کیا جائے گا ۔ اسی سے المنون بمعنی موت ہے کیونکہ وہ تعداد کو گھٹاتی اور عمر کو قطع کردیتی ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦{ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ } ” سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے “ اب مذکورہ پستی سے صرف وہی لوگ نکل پائیں گے جو اپنے شعور و حواس سے کام لیتے ہوئے اپنے خالق اور معبود کو پہچانیں گے یعنی اس پر ایمان لائیں گے اور پھر محنت کر کے اپنے کردار و عمل کو اس کی منشاء ومرضی کے مطابق ڈھالیں گے ‘ یعنی اعمال صالحہ کا اہتمام کریں گے۔ { فَلَہُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ ۔ } ” تو ان کے لیے ایسا اجر ہوگا جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوگا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 The commentators who have taken asfala safilin to imply the state of extreme old age when man loses his sense and reason, interpret this verse to mean: "But the people who in the prime and strength of their age believed and did righteous deeds would have in this old age too the same righteous deeds credited for them and will be rewarded accordingly. No reduction will be made in their rewards on the ground that they could not perform those righteous deeds in that period of Iife". And the commentators who construe reversal to safilin to imply being cast into the lowest stage of Hell interpret this verse to mean: "the people also believed and did righteous deeds are an exception: they will not be reversed to this stage but they will have a reward unending and unfailing." But, neither of these meanings is relevant to the reasoning made in this Surah to justify the judgement of the Hereafter. In our opinion the verse means: "Just as it is a common observation in human society that the morally degraded are made the lowest of the low, so this also is an observation of every age that those who believed in God, the Hereafter and the Prophethood and who moulded their lives after righteousness and piety, remained secure from this degeneration and remained consistent with the best mould and nature that Allah had created them on. Therefore, they are worthy of the unending reward, i.e. the reward which will neither be less than what they deserve, nor will it ever be cut off. "

سورة التِّیْن حاشیہ نمبر :5 جن مفسرین نے اسفل سافلین سے مراد بڑھاپے کی وہ حالت کی ہے جس میں انسان اپنے ہوش حواس کھو بیٹھتا ہے وہ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ مگر جن لوگوں نے اپنی جوانی اور تندرستی کی حالت میں ایمان لا کر نیک اعمال کیے ہوں ان کے لیے بڑھاپے کی اس حالت میں بھی وہی نیکیاں لکھی جا ئیں گی اور انہی کے مطابق وہ اجر پائیں گے ۔ ان کے اجر میں اس بات پر کوئی کمی نہ کی جائے گی کہ عمر کے اس دور میں ان سے وہ نیکیاں صادر نہیں ہوئیں ۔ اور جو مفسرین اسفل سافلین کی طرف پھیرے جانے کا مطلب جہنم کے ادنی ترین درجہ میں پھینک دیا جانا لیتے ہیں ان کے نزدیک اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ایمان لا کر عمل صالح کرنے والے لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں ، وہ اس درجہ کی طرف سے مناسبت نہیں رکھتے جو جزا و سزا کے برحق ہونے پر اس سورت میں کہا گیا ہے ہمارے نزدیک آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسانی معاشرے میں یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ اخلاقی پستی میں جو گرنے والے لوگ گرتے گرتےسب نیچوں سے نیچ ہو جاتے ہیں ، اسی طرح یہ بھی ہر زمانے کا عام مشاہدہ ہے کہ جو لوگ خدا اور آخرت اور رسالت پر ایمان لائے اور جنہوں نے اپنی زندگی عمل صالح کے سانچے میں ڈھال لی وہ اس پستی میں گرنے سے بچ گئے اور اسی احسن تقویم پر قائم رہے جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا تھا ، اس لیے وہ اجر غیر ممنون کے مستحق ہیں ، یعنی ایسے اجر کے جو نہ ان کے استحقاق سے کم دیا جائے گا ، اور نہ اس کا سلسلہ کبھی منقطع ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(95:6) الا الذین امنوا وعملوا الصلحت۔ یہ استثناء متصل ہے کیونکہ نیکوکار مومن دوزخ کی طرف نہیں لوٹائے جائیں گے اور نہ بدترین حالت کی طرف انہیں لے جایا جائے گا۔ فلہم : میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب صالح الاعمال مؤمنوں کے لئے ہے اور ف سببیہ ہے۔ یعنی بہ سبب ان کے صالح اعمال کے (ان کو اجر غیر ممنون ملے گا) ۔ اجر غیر ممنون : اجر بدلہ، صلہ، ثواب، مزدوری۔ غیر کا استعمال مختلف جگہ مختلف معنوں میں ہوا ہے۔ قرآن مجید میں اس کا استعمال چار طور پر ہوا ہے۔ (1) صرف نفی کے لئے۔ جیسے ھو فی الخصام غیر مبین (43:18) دلیل پیش کرنے کے وقت، مناظرہ کرنے کے وقت وہ کھول کر بیان نہیں کرسکتا۔ (2) لفظ الا کی طرح صرف استثناء کیلئے۔ جیسے ہل من خالق غیر اللہ (35:3) کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے (نہیں ہے) (3) اصل چیز کو باقی رکھتے ہوئے صرف ظاہری شکل و صورت کی نفی کے لئے جیسے کہ :۔ کلما نضحت جلودھم بدلنھم جلودا غیرھا (4:56) جب دوزخیوں کے بدن کی کھال جل جائے گی تو اللہ ان کی کھال کی صورت ازسر نو بدل دیگا۔ (4) صورت اور اصل شے سب کی نفی۔ یعنی کسی شے کی مکمل نفی کرکے دوسری شے کو اس کہ جگہ قائم کرنا۔ جیسے اغیر اللہ ابغی ربا (6:165) کیا اللہ کو چھوڑ کر میں کوئی اور رب ڈھونڈوں۔ ممنون : من (باب نصر) مصدر سے اسم مفعول کا صیغہ واحد مذکر۔ کم کیا ہوا۔ قطع کیا ہوا۔ منقطع ۔ ختم ہوا ہوا۔ یعنی ان کا اجر نہ کم کیا جائے گا نہ منقطع اور ختم ہوگا۔ یا اسی مصدر سے بمعنی احسان کرنا۔ احسان جتلانا۔ یا کم کرتا ہے۔ ممنون احسان جتلایا ہوا۔ کم کیا ہوا۔ غیر ممنون مضاف مضاف الیہ ۔ مل کر صفت اجر کی۔ غیر کی صورت وہی ہوگی جو اوپر مذکور ہوئی (1) میں۔ یعنی صرف نفی کی اور اجر غیر ممنون کا ترجمہ ہوگا وہ ثواب آخرت جو بےحساب ہوگا۔ ہمیشہ رہنے والا ہوگا۔ کبھی کم نہ ہوگا۔ اور احسان جتا کر اس کا مزہ بھی کر کر انہ کیا جائے گا۔ فلہم اجر غیر ممنون جملہ علت استثناء کے مقام میں ہے کہ احسان کو پختہ کر رہا ہے۔ آیات 456 میں ارشاد خدا وندی ہے کہ ہم نے انسان کو بہترین انداز میں پیدا کیا اور اس میں ہر قسم کی جسمانی اور روحانی طاقتیں و دیعت کردیں ۔ پھر جس نے ان سے خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھایا وہ ضلالت اور رذالت کے گڑھے میں پڑگئے اور جنہوں نے مشیت ایزدی کے مطابق ان سے صحیح فائدہ اٹھایا اور مومن بن کر اعمال صالحہ کئے وہ اجر غیر ممنون کے مستحق ٹھہرے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 اگر سفل سافلین سے ارذل العمر یعنی بڑھاپا مراد لیا جائے تو اس استثناء کا مطلب یہ ہوگا کہ مومن اگر بڑھاپے میں نیک عمل نہ کرسکے تو ان سے ان عملوں کا ثواب ملتا رہے گا جو وہ جوانی اور تندرستی کی حالت میں کیا کرتا تھا۔ مگر ححافظ ابن قیم نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے یعنی کہ جو لوگ منکر ہوتے ہیں وہ تو جانوروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں اور ان ٹھکانا دوزخ ہوجاتا ہے، لیکن جو لوگ اپنی خداد صلاحیتوں سے کام لے کر ایمان لاتے اور نیک عمل کرتے ہیں، انہیں آخرت میں بےانتہا ثواب ملے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ذلّت اور پستی سے بچنے والے لوگوں کا کردار اور انعام۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا فرما کر اسے بہترین عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ذات باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہی ذات ہے جس نے موت اور زندگی بنائی تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہترین عمل کرتا ہے۔ (الملک : ٢) اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہ صرف بہترین عمل کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ اس کی سہولت کے لیے ہر دور میں انسانوں میں بہترین انسانوں کو اپنا رسول منتخب کیا اور انہیں لوگوں کے لیے نمونہ بنایا تاکہ وہ لوگوں کو بہترین تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں ان میں آخری رسول حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جن کے بارے میں ارشاد ہے : (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا) (الاحزاب : ٢١) ” حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے بشرطیکہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت کے بارے میں امید رکھتا ہو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والا ہو۔ “ بہترین عمل کرنے کے لیے بہترین نظریے یعنی عقیدے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اس کی بھی وضاحت کردی ہے تاکہ انسان کو بہترین عقیدہ اور عمل اختیار کرنے میں کسی قسم کی دقّت پیش نہ آئے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر حقیقی ایمان لائیں گے اور اس کے حکم کے مطابق عمل کریں گے انہی کا ایمان اور عمل بہتر ہوگا، بہتر عمل کرنے والوں کو قیامت کے دن ایسا اجر عطا کیا جائے گا جس میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ بہترین عقیدہ اور عمل۔ (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا اِِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ اِِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ) (حمٓ السجدۃ : ٣٣) ” اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوسکتی ہے جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیے اور اقرار کیا کہ میں مسلمان ہوں۔ “ ” اللہ “ سے احسن عمل کی توفیق مانگتے رہنا چاہیے : (عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَخَذَ بِیَدِہِ وَقَالَ یَا مُعَاذُ وَاللَّہِ إِنِّیْ لَاُحِبُّکَ وَاللَّہِ إِنِّیْ لأُحِبُّکَ فَقَالَ أُوصِیْکَ یَا مُعَاذُ لاَ تَدَعَنَّ فِی دُبُرِکُلِّ صَلاَۃٍ تَقُوْلُ ” اللَّہُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ “ ) (رواہ أبوداوٗد : باب فی الإستغفار، قال البانی صحیح) ” حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑا اور دو مرتبہ فرمایا اے معاذ ! اللہ کی قسم میں تجھ سے محبت کرتا ہوں پھر فرمایا اے معاذ ! میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ ہر فرض نماز کے بعد یہ کلمات پڑھتے رہنا اور انہیں کبھی نہ چھوڑنا۔ الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ “ (عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاۃَ الْقُرَشِیِّ (رض) یَقُولُ سَمِعْتُ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَدْعُواللَّہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَاب الآخِرَۃِ ) (رواہ احمد : مسند بسر بن ارطاۃ) ” حضرت بسر بن ارطاۃ قرشی (رض) کہتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا۔ اے اللہ ! ہمارے تمام معاملات کا انجام اچھا فرما اور ہمیں دنیا اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔ “ (عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَان النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُولُ ” اللَّہُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَاب النَّارِ “ ) (رواہ البخاری : باب (ومنہم من یقول ربنا آتنا۔۔ ) ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دعا کیا کرتے تھے۔” اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کرنا اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ “ مسائل ١۔ پختہ ایمان اور نیک اعمال کے ساتھ ہی قیامت کے دن نجات ممکن ہوگی۔ ٢۔ آخرت کی کامیابی اتنی زیادہ ہوگی کہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ نیک اعمال کا صلہ دیتا ہے : ١۔ جو نیک اعمال کرتے رہے ہیں اللہ ان کا بدلہ دے گا۔ (الزمر : ٣٥) (الحج : ٥٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ ایمان لانے والوں اور نیک اعمال کرنے والوں کو جزا دے گا۔ (سبا : ٤) (الانفال : ٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الاالذین ............................ الصلحت (6:95) ” سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے “۔ تو یہ وہ لوگ ہیں جو فطرت کی راہ پر سیدھے قائم رہتے ہیں اور ایمان اور عمل صالح کے ساتھ اپنی فطرت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں اور پھر اس کمال تک پہنچتے ہیں جو ان کے لئے مقدر کردیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اکمل الکاملین بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے۔ فلھم .................... ممنون (6:95) ” ان کے لئے نہ ختم ہونے والا اجر ہے “۔ یعنی دائمی اور نہ رکنے اور نہ کٹنے والا۔ وہ لوگ جو اپنی فطرت کو نیچے سے نیچے گرالیتے ہیں ، تو وہ نیچے ہی گرتے چلے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ جہنم کے بھی سب سے نچلے مرتبے میں ہوتے ہیں جہاں ان کی انسانیت کی آخری علامت بھی ختم ہوجاتی ہے اور وہ مجسم گراوٹ بن جاتے ہیں۔ اعلیٰ علین اور اسفل سافلین دراصل دوانتہائی مقامات ہیں اور دونوں کا آغاز مقام فطرت کے خط مستقیم سے ہوتا ہے۔ مقام فطرت سے انسان ایمان وعمل صالح سے اٹھتارہتا ہے اور اٹھتے اٹھتے اپنے مقام مقرر جنت نعیم تک پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر انسان فطرت سے انحراف کرلے اور نیچے کی طرف کرتا رہے اور روحانیت سے اپنا رشتہ کاٹ لے تو جہنم تک پہنچ کر اس کے بھی نچلے درجے میں جاگرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی زندگی میں ایمان کی قدروقیمت کیا ہے۔ یہ وہ نور ہے جس کی روشنی میں انسان مقام بلند تک پہنچتا ہے۔ ایمان وہ رسی ہے جو انسانی فطرت اور اس کے خالق کے درمیان رابطے کا کام دیتی ہے۔ اور یہ وہ روشنی ہے جس کے نور میں یہ اس مقام تک قدم بقدم بڑھتا ہے جو نہایت مکرم لوگوں کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ جب یہ رابطہ ٹوٹ جاتا ہے جب یہ چراغ بجھ جاتا ہے ، تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسانیت نہایت ہی گہرے گڑھے میں گر جاتی ہے اور گرتی چلی جاتی ہے ، آدمیت حیوانات سے بھی نیچے چلی جاتی ہے۔ اور انسان مٹی کا ایک بت رہ جاتا ہے اور پھر یہ پتھر کی طرح جہنم کا ایندھن بن جاتا ہے۔ اس فضا اور ماحول میں انسان کے نام ایک کال آتی ہے :

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا ﴿ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ﴾ (الآیۃ) (مگر جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کے لیے بڑا ثواب ہے جو کبھی منقطع نہ ہوگا) ۔ اوپر جو ﴿ ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَۙ٠٠٥﴾ کی تفسیر کی گئی اس کے مطابق مفسرین نے اس استنثاء کا یہ مطلب بتایا ہے کہ مومنین اور صالحین بندے بڑھاپے کی حالت کو پہنچ کر بھی ناکام نہیں رہتے وہ ایمان پر جمے رہتے ہیں ان کے ایمان اور اعمال کی وجہ سے ان کا ثواب جاری رہتا ہے اور یہ اجر موت کے بعد انہیں مل جائے گا جو کبھی ختم نہ ہوگا (مطلب یہ ہوا کہ کافر اپنی قوت اور طاقت اور جوانی سے دھوکہ کھا کر ایمان اور اعمال صالحہ سے دور رہتا ہے پھر اسے دوہرا خسران اور نقصان لاحق ہوجاتا ہے اول تو دنیا میں بڑھاپے کی بدحالی دوم موت کے بعد دوزخ کا داخلہ اور وہاں کے عذاب کی فراوانی) اور اہل ایمان ہر حال میں ایمان اور اعمال صالحہ پر جمے رہتے ہیں آخرت میں ان کے لیے بےانتہا اجر ہے۔ تفسیر میں تکلف ہے استثناء کا جوڑ اطمینان بخش طریقے پر نہیں بیٹھتا۔ علمائے تفسیر میں سے جن حضرات نے ﴿اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ﴾ سے دوزخ مراد لی ہے ان کی بات دل کو زیادہ لگتی ہے۔ صاحب معالم التنزیل نے لکھا ہے : وقال الحسن وقتادة و مجاھد یعنی ثم رددناہ الی النار یعنی الی ﴿اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ﴾ لان جھنم بعضھا اسفل من بعض۔ یعنی حضرت حسن و قتادہ و مجاہد (رح) نے فرمایا ہے کہ ﴿اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ﴾سے دوزخ مراد ہے اس کے مختلف طبقات ہیں بعض بعض سے نیچے ہیں اس صورت میں دونوں آیتوں کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے انسان کو سب سے اچھے سانچہ میں ڈھالا، حسن قامت اور اور حسن اعضاء کا جمال دے کر اس پر احسان فرمایا سارے انسانوں کو اس انعام کے شکریہ میں شکر گزار ایماندار اور اعمال صالحہ والا ہونا لازم تھا لیکن انسانوں کی دو قسمیں ہوگئیں بعض مومن ہوگئے بعض کافر اور کافروں میں بھی فرق مراتب ہے ان مراتب کے اعتبار سے جہنم کے طبقات میں داخلہ ہوگا ان میں بہت سے وہ بھی ہوں گے جو ﴿اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ﴾میں جائیں گے جیسا کہ سورة النساء میں ﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ﴾ فرمایا ہے۔ انسانوں کی یہ جماعت یعنی کافر جو دنیا میں حسن و جمال اور اچھے قدو قامت والے تھے دوزخ میں جائیں گے یہ دنیا کی خوبصورتی اور چال ڈھال اور ناز و انداز کی رفتار قیامت کے دن کچھ کام نہ آئے گا۔ بنی آدم کا دوسرا گروہ یعنی مومنین صالحین دوزخ سے بچ جائیں گے انہیں جنت نصیب ہوگی اور اعمال صالحہ کا اجر وثواب ہمیشہ ملتا رہے گا۔ صاحب روح المعانی نے اسی معنی کو ترجیح دی ہے۔ حیث قال ثم المتبادر من السیاق الاشارة الی حال الکافر یوم القیامة وانہ یکون علی اقبح صورة وابشعھا بعد ان کان علی احسن صورة وابدعھا لعدم شکرہ تلک النعمة وعملہ بموجبھا۔ یاد رہے کہ لفظ الانسان سے جنس انسان مراد ہے لہٰذا انسان کا خوبصورتی میں ایک ہی طرح ہونا پھر ﴿اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ﴾ میں داخل ہونا لازم نہیں آتا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

6:۔ ” الا الذین “ یہ مومنوں کے لیے بشارت اخرویہ ہے۔ جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک کام کیے ان کے لیے آخرت میں کبھی ختم نہ ہونے والا اجر وثواب ہے۔ جنت میں ان کو جو نعمتیں ملیں گی وہ کبھی ختم نہ ہوں گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) مگر ہاں جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کے پابند رہے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ بڑھاپے میں آدمی بچوں کے اور اپاہجوں کی حالت سے بھی نیچے گر جاتا ہے اور ضعف وقوۃ اور ظاہری خوبی سب جاتی رہتی ہے سروساقد کمان بن جاتا ہے۔ دانت ٹوٹنے سے چہرہ بگڑ جاتا ہے ہوش و حواس میں فرق آجاتا ہے عقل صحیح نہیں رہتی اس کو فرمایا پھر پھینک دیا اس کو نیچوں سے نیچے اعمال میں کمی ہوجاتی ہے اس ردی حالت پر لوٹا دینے سے یہ وہم ہوتا کہ شاید آخرت میں بھی یہی حالت ہوگی اور بوڑھوں کی وہاں بھی حالت ردی اور خراب ہوگی اس لئے فرمایا جو لوگ اہل ایمان ہیں اور نیک اعمال کے پابند رہے ہوں گے ان کے اجر میں کمی نہیں ہوگی بلکہ جو عمل جوانی میں کرتے رہتے تھے وہی اعمال شیخوخت میں بھی لکھے جاتے رہیں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کچھ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بہت بوڑھے ہوگئے تھے اور ارزل عمر کو پہنچ گئے تھے اور جو عمل صحت اور شباب کے زمانے میں کیا کرتے تھے ان میں فرق آگیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی جانب سے عذر نازل فرمایا اور ان کو بتایا کہ ان کے لئے وہی اجر ہے جو وہ صحت اور عقل کی موجودگی میں کیا کرتے تھے ان کے اجر میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی جس سے آخرت میں ان کو نقصان پہنچے بلکہ ان کا اجر منقطع نہ ہوگا۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے منکر مراد ہے کہ ہم نے اس کو اچھی حالت اور بہترین سانچے میں ڈھالا لیکن اس نے دین حق کا انکار کیا اور اپنے کفر پر قائم رہا تو ہم نے اس کو عذات میں ڈال کر اس کو نیچے سے نیچا کردیا اور اس کو ذلت کے گھڑے میں ڈال دیا۔ چنانچہحضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ہم نے اس کو لائق بنایا فرشتوں کے مقام کے پھر جب منکر ہوا تو جانوروں سے بدتر ہے۔ خلاصہ : یہ کہ جس شخص نے ان تمام خوبیوں کے باوجود ایمان لانے سے انکار کیا تو ہم اس کو اسفل الرفلین میں پھینک دیتے ہیں مگر ہاں جو ان میں سے ایمان لے آیا اور اعمال صالح کا پابند رہے تو اس کو نہ ختم ہونے والا اجر عطا کیا جاتا ہے اور قصرندلت میں گرنے سے اس کو بچا لیاجاتا ہے۔