Surat ul Alaq

Surah: 96

Verse: 10

سورة العلق

عَبۡدًا اِذَا صَلّٰی ﴿ؕ۱۰﴾

A servant when he prays?

جبکہ وہ بندہ نماز ادا کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Have you seen him who prevents. A servant when he prays? This was revealed about Abu Jahl, may Allah curse him. He threatened the Prophet for performing Salah at the Ka`bah. Thus, Allah firstly admonished him with that which was better by saying, أَرَأَيْتَ إِن كَانَ عَلَى الْهُدَى

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

10۔ 1 مفسرین کہتے ہیں کہ روکنے والے سے مراد ابو جہل ہے جو اسلام کا شدید دشمن تھا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

عَبْدًا اِذَا صَلّٰى۝ ١٠ ۭ عبد والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب : الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] . الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِ... نْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] . والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة، والناس في هذا ضربان : عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] . العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة/ 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل/ 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم/ 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے وہ دوقسم پر ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص/ 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء/ 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان/ 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف/ 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر/ 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران/ 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر/ 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم/ 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان/ 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف/ 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔ ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق/ 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء/ 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠{ عَبْدًا اِذَا صَلّٰی ۔ } ” (ہمارے) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔ “ یہ اشارہ ہے ابوجہل کی ان جسارت آمیز حرکات کی طرف جو وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز سے روکنے کے لیے کیا کرتا تھا۔ مثلاً ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل نے آپ ... (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا تو اونٹ کی اوجھڑی منگوا کر عین سجدے کی حالت میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پشت مبارک پر رکھوا دی۔ حضرت فاطمہ (رض) ابھی بچی تھیں ‘ ان کو پتا چلا تو آپ (رض) گھر سے بھاگم بھاگ حرم میں پہنچیں اور اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے اس غلاظت کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوپر سے ہٹایا۔ اسی طرح ایک اور موقع پر ابوجہل نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھتے دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گردن مبارک میں چادر ڈال کر اس قدر زور سے مروڑا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھیں ابل پڑیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سفر طائف سے واپسی کے زمانے میں بھی پیش آیا۔ اس واقعہ کی تفصیل روایات میں یوں آتی ہے کہ ابوجہل نے لات اور عزیٰ کی قسم کھا کر کہا تھا کہ اگر اس نے پھر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا تو ان کی گردن روند ڈالوں گا اور ان کا منہ خاک آلود کر دوں گا۔ ایک دن اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حرم میں نماز پڑھتے دیکھا تو غصے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ڈانٹتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بڑھا تاکہ اپنی قسم پوری کرے مگر پھر یکدم دہشت زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔ لوگوں نے پوچھا کیا ہوا ؟ کیوں پیچھے ہٹ آئے ؟ کہنے لگا کہ آگے بڑھنے پر مجھے اپنے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان حائل آگ سے بھری ہوئی ایک خندق اور ایک پروں والی کوئی مخلوق دکھائی دی جو میری تکہ بوٹی کرنے کو تیار تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر وہ میرے قریب پھٹکتا تو فرشتے اس کے چیتھڑے اڑادیتے۔ یہاں یہ نکتہ لائق توجہ ہے کہ پہلے دونوں واقعات کے حوالے سے ابوجہل کو ایسے کسی غیر معمولی یا غیر مرئی ردعمل کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ میرے نزدیک اس کی توجیہہ یہ ہے کہ پہلے دونوں واقعات کے زمانے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پشت پناہی کے لیے دنیوی اسباب کے طور پر جناب ابوطالب موجود تھے ‘ جبکہ تیسرا واقعہ اس زمانے میں پیش آیا جب یہ دنیوی سہارا بھی موجود نہ رہا اور اب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت براہ راست اللہ تعالیٰ خود فرما رہا تھا۔ اس لیے اس وقت غیبی مدد کے ذریعے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حفاظت کو یقینی بنایا گیا۔ آیات زیر مطالعہ میں خاص طور پر اسی واقعہ کا تذکرہ ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 "A Servant" : the Holy Messenger of Allah himself. The Holy Prophet has been mentioned by this epithet at several places in the Qur'an. For example, "Glory be to Him Who transported His servant one night from the Masjid alHaram to the distant Temple." (Bani Isra'il: 1) ; "All praise is for Allah Who has sent down this Book to His servant." (AI-Kahf: 1) ; "And that when the servant of Allah stoo... d up to pray, the people got ready to assault him." (Al-Jinn: 19) . This shows that it is a special style of love by which Allah makes mention of His Messenger Muhammad (upon whom be His peace and blessings) in His Book. Besides, it also shows that AIiah after appointing His Messenger to Prophethood had taught him the method of performing the Prayer. There is no mention of this method anywhere in the Qur'an, saying: "O Prophet, perform the Prayer in this and this way." Hence, this is another proof that the Revelation sent down to the Holy Prophet did not only consist of what has been recorded in the Qur'an, but besides this, other things also were taught to him by revelation, which are not recorded in the Qur'an.  Show more

سورة العلق حاشیہ نمبر : 10 بندے سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اس طریقے سے حضور کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے ، مثلا سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا ( بنی اسرائیل 1 ) پاک ہے وہ جو لے گی... ا اپنے بندے کو ایک رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ ( الکہف ۔ 1 ) تعریف ہے اس خدا کے لیے جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی وَّاَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ كَادُوْا يَكُوْنُوْنَ عَلَيْهِ لِبَدًا ( الجن 19 ) اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوا تو لوگ پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہوگئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک خاص محبت کا انداز ہےہ جس سے اللہ تعالی اپنی کتاب میں اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرماتا ہے ۔ علاوہ بریں اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے نبوت کے منصب پر سرفراز فرمانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھنے کا طریقہ سکھا دیا تھا ۔ اس طریقے کا ذکر قرآن مجید میں کہیں نہیں ہے کہ اے نبی تم اس طرح نماز پڑھا کرو ۔ لہذا یہ اس امر کا ایک اور ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن میں درج ہے ، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے آپ کو ایسی باتوں کی تعلیم دی جاتی تھی جو قرآن میں درج نہیں ہیں ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(96:10) عبدا اذا صلی : ارایت (کیا تو نے دیکھا) بمعنی اخبرنی (تو مجھے بتا) آیا ہے۔ اس میں ہمزہ اولی محض استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ تقریر و تنبیہ کے لئے ہے۔ رایت کا فاعل ضمیر مستتر ہے یعنی انت الذی اسم موصول ینھی عبدا اس کا صلہ۔ (عبدا مفعول فعل ینہی کا) ۔ ینہی فعل مضارع واحد مذکر غائب نہی (باب فتح) م... صدر سے۔ وہ منع کرتا ہے۔ وہ روکتا ہے) موصول اور صلہ مل کر ارایت کا مفعول ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ اے مخاطب : یعنی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا تو نے دیکھا بھلا بتاؤ تو سہی اس شخص کے متعلق جو منع کرتا ہے یا روکتا ہے ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے۔ اس میں نماز پڑھنے والے سے مراد رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں اور روکنے والا ابو جہل لعین ہے۔ ان العبد المصلی ھو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والنا ہی ھو اللعین ابو جھل۔ (روح المعانی) الذی ینہی سے مراد ابو جہل ہے اور عبدا سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات ہے۔ (تفسیر مظہری) جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم خداوندی کے تحت کعبہ میں نماز پڑھنا شروع کی تو خبر ابوجہل تک پہنچی تو اس نے قریش کے لوگوں سے دریافت کیا تصدیق ہونے پر اس نے آپ کو دھمکایا اور کہا کہ حرم میں اس طریقہ پر عبادت نہ کریں اور کہا کہ اگر میں نے اس طرح حرم کعبہ میں نماز پڑھتے دیکھ لیا تو گردن پر پاؤں رکھ کر منہ زمین میں رگڑ دوں گا پھر ایسا ہوا کہ اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسے نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ تو وہ آگے بڑھا تاکہ آپ کی گردن مبارک پر پاؤں رکھے مگر یکایک لوگوں نے دیکھا کہ وہ پیچھے ہٹ رہا ہے۔ لوگوں کے دریافت کرنے پر اس نے کہا کہ میرے اور ان کے درمیان آگ کی خندق تھی جس نے مجھے ان کے قریب نہ جانے دیا۔ (تفہیم القرآن)  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یہ آیت ابوجہل کے متعلق نازل ہوئی تھی جس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز پڑھنے سے روکا تھا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) ایک خاص بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے مطلب یہ ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھتے ہیں تو یہ نماز پڑھنے سے منع کرتا ہے یہ ابوجہل خبیث کی حالت ہے کہ ایک دن جب آپ نماز ادا کررہے تھے وہ بےادبی کی نیت سے چلا مگر قریب جاکر لوٹ آیا کسی نے دریافت کیا ان کی گردن پر کیوں نہیں کھڑا ہوگیا...  کہنے لگا میں نے وہاں پہنچ کر ایک آگ کی خندق دیکھی اورر اس میں کچھ پر دار چیزیں دیکھیں اس لئے میں لوٹ آیا۔  Show more