Surat ul Zilzaal

Surah: 99

Verse: 1

سورة الزلزال

اِذَا زُلۡزِلَتِ الۡاَرۡضُ زِلۡزَالَہَا ۙ﴿۱﴾

When the earth is shaken with its [final] earthquake

جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Day of Judgement, what will take place during it, the Condition of the Earth and the Condition of the People Ibn `Abbas said, إِذَا زُلْزِلَتِ الاَْرْضُ زِلْزَالَهَا When the earth quakes with its Zilzal. This means that it will move from beneath it. وَأَخْرَجَتِ الاْأَرْضُ أَثْقَالَهَا

مرحلہ وار قیامت: زمین اپنے نیچے سے اوپر تک کپکپانے لگے گی اور جتنے مردے اس میں ہیں سب نکال پھینکے گی ۔ جیسے اور جگہ ہے ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ Ǻ۝ ) 22- الحج:1 ) لوگو اپنے رب سے ڈرو یقین مانو کہ قیامت کا زلزلہ اس دن کا بھونچال بڑی چیز ہے اور جگہ ارشاد ہے ( وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ Ǽ۝ۙ ) 84- الانشقاق:3 ) جبکہ زمین کھینچ کھانچ کر برابر ہموار کر دی جائیگی اور اس میں جو کچھ ہے وہ اسے باہر ڈال دے گی اور بالکل خالی ہو جائیگی صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں زمین اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو اگل دے گی سونا چاندی مل ستونوں کے باہر نکل پڑے گا قاتل اسے دیکھ کر افسوس کرتا ہوا کہے گا کہ ہائے اسی مال کے لیے میں نے فلاں کو قتل کیا تھا آج یہ یوں ادھر ادھر بکھر رہا ہے کوئی آنکھ بھر کر دیکھتا بھی نہیں اسی طرح صلہ رحمی توڑنے والا بھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں آ کر رشتہ داروں سے میں سلوک نہیں کرتا تھا چور بھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں میں نے ہاتھ کٹوا دئیے تھے غرض وہ مال یونہی بکرا پھرے گا کوئی نہیں لے گا انسان اس وقت ہلکا بکا رہ جائیگا اور کہے گا یہ تو ہلنے جلنے والی نہ تھی بلکہ ٹھہیر ہوئی بوجھل اور جمی ہوئی تھی اسے کیا ہو گیا کہ یوں بید کی طرح تھرانے لگی اور ساتھ ہی جب یدکھے گا کہ تمام پہلی پچھلی لاشیں بھی زمین نے اگل دیں تو اور حیران و پریشان ہو جائیگا کہ آخر اسے کیا ہو گیا ہے؟ پس زمین بالکل بدل دی جائیگی اور آسمان بھی اور سب لوگ اس قہار اللہ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے زمین کھلے طور پر صاف صاف گواہی دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں فلاں زیادتی اس شخص پر کی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا جانتے بھی ہو کہ زمین کی بیان کردہ خبریں کیا ہوں گی لوگوں نے کہا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے تو آپ نے فرمایا جو جو اعمال بنی آدم نے زمین پر کیے ہیں وہ تمام وہ ظاہر کر دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں نیکی یا بدی فلاں جگہ فلاں وقت کی ہے ۔ امام ترمذی اس حدیث کو حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں معجم طبرانی میں ہے کہ آپ نے فرمایا زمین سے بچو یہ تمہاری ماں ہے جو شخص جو نیکی بدی اس پر کرتا ہے یہ سب کھول کھول کر بیان کر دے گی یہاں وحی سے مراد حکم دینا ہے اوحی اور اس کے ہم معنی افعال کا صلہ حرف لام بھی آتا ہے الی بھی مطلب یہ ہے کہ اللہ اسے فرمائے گا کہ بتا اور وہ بتاتی جائیگی اس دن لوگ حساب کی جگہ سے مختلف قسموں کی جماعتیں بن بن کر لوٹیں گے کوئی بد ہو گا کوئی نیک کوئی جنتی بنا ہو گا کوئی جہنمی یہ معنی بھی ہیں کہ یہاں سے جو الگ الگ ہوں گے تو پھر اجتماع نہ ہو گا یہ اس لیے کہ وہ اپنے اعمال کو جان لیں اور بھلائی برائی کا بدلہ پا لیں گے اسی لیے آخر میں بھی بیان فرما دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ گھوڑوں والے تین قسم کے ہیں ایک اجر پانے والا ایک پردہ پوشی والا اور ایک بوجھ اور گناہ والا اجر والا تو وہ ہے جو گھوڑا پالتا ہے جہاد کی نیت سے اگر اس کے گھوڑے کی اگاڑی پچھاڑی ڈھیلی ہو گئی اور یہ ادھر ادھر سے چرتا رہا تو یہ بھی گھوڑے والے کے لیے اجر کا باعث ہے اور اگر اس کی رسی ٹوٹ گئی اور یہ ادھر ادھر چلا گیا تو اس کے نشان قدم اور لید کا بھی اسے ثواب ملتا ہے اگر یہ کسی نہر پر جا کر پانی پی لے چاہے پلانے کا ارادہ نہ ہو تو بھی ثواب مل جاتا یہ گھوڑا تو اس کے لیے سراسر اجر و ثواب ہے دوسرا وہ شخص جس نے اس لیے پال رکھا ہے کہ دوسروں سے بےپرواہ رہے اور کسی سے سوال کی ضرورت نہ ہو لیکن اللہ کا حق نہ تو خود اس بار میں بھولتا ہے نہ اس کی سواری میں پس یہ اس کے لیے پردہ ہے تیسرا وہ شخص ہے جس نے فخر و ریا کاری اور ظلم و ستم کے لیے پال رکھا ہے پس یہ اس کے ذمہ بوجھ اور اس پر گناہ کا بر ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ گدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے آپ نے فرمایا مجھ پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے سوائے تنہا اور جامع آیت کے اور کچھ نازل نہیں ہوا کہ ذرہ برابر نیکی یا بدی ہر شخص دیکھ لے گا ( مسلم ) حضرت صعصعہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ آیت سن کر کہہدیا تھا کہ صرف یہی آیت کافی ہے اور زیادہ اگر نہ بھی سنوں تو کوئی ضرورت نہیں ( مسند احمد ونسائی ) صحیح بخاری شریف میں بروایت حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروی ہے کہ آگ سے بچو اگرچہ آدھی کھجور کا صدقہ ہی ہو اسی طرح صحیح حدیث میں ہے کہ نیکی کے کام کو ہلکا نہ سمجھو گو اتنا ہی کام ہو کہ تو اپنے ڈول میں سے ذرا سا پانی کسی پیاسے کو پلوا دے یا اپنے کسی مسلمان بھائی سے کشادہ روئی اور خندہ پیشانی سے ملاقات کر لے دوسر یایک صحیح حدیث میں ہے کہ سائل کو کچھ نہ کچھ دے دو گو جلا ہوا کھر ہی ہو مسند احمد کی حدیث میں ہے اے عائشہ گناہوں کو حقیر نہ سمجھو یاد رکھو کہ ان کا بھی حساب لینے والا ہے ابن جریر میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عتالی عنہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہیت ھے کہ یہ آیت اتری تو حضرت صدیق نے کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا اور پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں ایک ایک ذرے برابر کا بدلہ دیا جائیگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے صدیق دنیا میں جو جو تکلیفیں تمہیں پہنچی ہیں یہ تو اس میں آ گئیں اور نیکیاں تمہارے لیے اللہ کے ہاں ذخیرہ بنی ہوئی ہیں اور ان سب کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن تمہیں دیا جائیگا ابن جریر کی ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سورت حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں نازل ہوئی تھی آپ اسے سن کر بہت روئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا مجھے یہ سورت رلا رہی ہے آپ نے فرمایا اگر تم خطا اور گناہ نہ کرتے کہ تمہیں بخشا جائے اور معاف کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کسی اور امت کو پیدا کرتا جو خطا اور گناہ کرتے اور اللہ انہیں بخشتا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعال یعنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سن کر پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا مجھے اپنے سب اعمال دیکھنے پڑیں گے آپ نے فرمایا ہاں پوچھا بڑے بڑے فرمایا ہاں پوچھا اور چھوٹے چھوٹے بھی فرمایا ہاں میں نے کہا ہائے افسوس! آپ نے فرمایا ابو سعید خوش ہو جاؤ نیکی تو دس گنے سے لے کر سات سوگنے تک بلکہ اس سے بھی زیادہ تک اللہ جسے چاہے دے گا ہاں گناہ اسی کے مثل ہوں گے یا اللہ تعالیٰ اسے بھی بخش دے گا سنو کسی شخص کو صرف اس کے اعمال نجات نہ دے سکیں گے میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کو بھی نہیں؟ فرمایا نہ مجھے ہی مگر یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے اس کے راویوں میں ایک ابن لہیعہ ہیں یہ روایت صرف انہی سے مروی ہے حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب آیت ویطعمون الطعام علی حبہ الخ نازل ہوئی یعنی مال کی محبت کے باوجود مسکین یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں تو لوگ یہ سمجھ گئے کہ اگر ہم تھوڑی سی چیز راہ اللہ دینگے تو کوئی وثاب نہ ملے گا مسکین ان کے دروازے پر آتا لیکن ایک آدھ کھجور یا روٹی کا ٹکڑا وغیرہ دینے کو حقارت خیال کر کے یونہی لوٹا دیتے تھے کہ اگر دیں تو کوئی اچھی محبوب و مرغوب چیز دیں ادھر تو اس خیال کی ایک جماعت تھی دوسری جماعت وہ تھی جنہیں یہ خیال پیدا ہوگیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں پر ہماری پکڑ نہ ہوگی مثلا کبھی کوئی جھوٹ بات کہہ دی کبھی ادھر ادھر نظریں ڈال لیں کبھی غیبت کر لی وغیرہ جہنم کی وعید تو کبیرہ گناہوں پر ہے تو یہ آیت فمن یعمل نازل ہوئی اور انہیں بتایا گیا کہ چھوٹی سی نیکی کو حقیر نہ سمجھو یہ بڑی ہو کر ملے گی اور تھوڑے سے گناہ کو بھی بےجان نہ سمجھو کہیں تھوڑا تھوڑا مل کر بہت نہ بن جائے ذرہ کے معنی چھوٹ یچیونٹی کے ہیں یعنی نیکیوں اور برائیوں کو چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی اپنے نامہ اعمال میں دیکھ لے گا بدی تو ایک ہی لکھی جاتی ہے نیکی ایک کے بدلے دس بلکہ جس کے لیے اللہ چاہے اس سے بھی بہت زیادہ بلکہ ان نیکیوں کے بدلے برائیاں بھی معاف ہو جاتی ہیں ایک ایک کے بدل دس دس بدیاں معاف ہو جاتی ہیں پھر یہ بھی ہے کہ جس کی نیکی برائی سے ایک ذرے کے برابر بڑھ گئی وہ جنتی ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں گناہوں کو ہلکا نہ سمجھا کرو یہ سب جمع ہو کر آدمی کو ہلاک کر ڈالتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان برائیوں کی مثال باین کی کہ جیسے کچھ لوگ کسی جگہ اترے پھر ایک ایک دو دو لکڑیاں چن لائے تو لکڑیوں کا ڈھیر لگ جائیگا پھر اگر انہیں سلگایا جائے تو اس وقت اس آگ پر جو چاہیں پکا سکتے ہیں ( اسی طرح تھوڑے تھوڑے گناہ بہت زیادہ ہو کر آگ کا کام کرتے ہیں اور انسان کو جلا دیتے ہیں ) سورۃ اذازلزلت کی تفسیر ختم ہوئی ، فالحمد اللہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1۔ 1 اس کا مطلب ہے سخت بھو نچال سے ساری زمین لرز اٹھے گی اور ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی، یہ اس وقت ہوگا جب پہلا نفخہ پھونکا جائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١] یعنی زمین پر لگاتار زلزلے آئیں گے اور یہ علاقائی قسم کے نہیں ہوں گے۔ بلکہ پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ان مسلسل اور متواتر زلزلوں کی وجہ سے زمین میں کوئی نشیب و فراز باقی نہیں رہے گا۔ اور ایسے زلزلے نفخہ صور ثانی کے وقت آئیں گے نفخہ صور اول کے وقت جو زلزلہ آئے گا اس سے قیامت برپا ہوگی اور سب جاندار مخلوق مرجائے گی۔ نفخہ صور ثانی کے وقت شدید زلزلوں سے زمین کے نشیب و فراز ختم کرکے اسے ہموار اور چٹیل میدان بنادیا جائے گا۔ دریاؤں، پہاڑوں، سمندروں غرضیکہ ہر چیز کو ختم کردیا جائے گا جس سے اس زمین کی ہیئت ہی بدل جائے گی پھر اس پر میدان محشر قائم ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(اذا زلزلت الارض زلزالا :” زلزل یزلزل زلزلۃ و زلزالا “ (فعللہ) سخت لہانا۔ یہاں ” زلزال “ مصدر مفعول کے معنی میں ہے، یعنی سخت ہلایا جانا۔ اس سے مراد دور سے نفخہ کے ساتھ آنے والا زبردست زلزلہ ہے، کیونکہ دور سے نفخہ کے ساتھ ہی مردے قبروں سے نکلیں گے، فرمایا :(ثم نفخ فیہ اخری فاذا ھم قیام ینظرون) (الزمر : ٦٨) ” پھر اس میں دوسری دفعہ پھونکا جائے گا تو یک لخت وہ کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہوں گے۔ “ (زلزالھا “ (اپنے زلزلے ) سے مراد یہ ہے کہ زمین کو سخت ہلا دینے کے لئے جتنا زبردست زلزلہ ہونا چاہیے اس قسم کے زلزلے کے ساتھ وہ سخت ہلا دی جائے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Merits of Surah Az-Zilzal Sayyidna Anas and Ibn ` Abbas (رض) report that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said that Surah Al-Zilzal equals half the Qur&an, Surah Al-Ikhlas equals a third of the Qur&an and Surah Al-Kafirun equals a quarter of the Qur&an. [ Transmitted by al-Tirmidhi, al-Baghawi and a1-Mazhari ]. The Scene of the Day of Resurrection Verse [ 1] إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْ‌ضُ زِلْزَالَهَا (When the earth will be trembled with its quake.) It is not clear whether this earthquake refers to the convulsion that will take place in the world before the &first blowing of the trumpet&, as is mentioned in connection with the portents of the Doomsday, or it refers to the quake that will occur after the &second blowing& when the dead bodies will be resurrected and thrown out of their graves. Narratives and views of the commentators differ on this issue. It is not inconceivable that many quakes and convulsions would occur: first, before the &first blowing&; and second, after the &second blowing& at the time of raising the dead. Here it probably refers to the second quake, and the context supports it, because the Surah later on describes the scenes of the Day of Resurrection, such as reckoning, weighing and evaluating of deeds, and recompense. Allah knows best. [ Mazhari ]

خلاصہ تفسیر جب زمین اپنی سخت جنبش سے ہلائی جائے گی اور زمین اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی (مراد بوجھ سے دفینے اور مردے ہیں اور اگرچہ بعض روایات سے پہلے بھی دفینوں کا باہر آجانا معلوم ہوتا ہے لیکن ممکن ہی کہ قیامت سے پہلے جو دفینے باہر آگئے تھے مرورایام سے پھر ان پر مٹی آگئی ہو اور مستور ہوگئے ہوں اور قیامت کے روز پھر نکلیں اور دفائن کے ظاہر ہوجانے کی شاید یہ حکمت ہو کہ ماں کی بہت محبت کرنے والی اپنی آنکھوں اموال کا بیکار ہونا دیکھ لیں) اور (اس حالت کو دیکھ کر کافر) آدمی کہے گا کہ اس کو کیا ہوا (کہ زمین اس طرح ہل رہی ہے اور سب دفینے باہر آرہے ہیں) اس روز زمین اپنی سب (اچھی بری) خبریں بیان کرنے لگے گی اس سبب سے کہ آپ کے رب کا اس کو یہی حکم ہوگا (ترمذی وغیرہ میں اس کی تفسیر میں حدیث مرفوع آئی ہے کہ جس شخص نے روئے زمین پر جیسا عمل کیا ہوگا اچھا یا برا زمین سب کہہ دے گی یہ اس کی شہادت ہوگی) اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر (موقف حساب سے) واپس ہوں گے (یعنی جو لوگ حساب محشر سے فارغ ہو کر لوٹیں گے تو کچھ جماعتیں جنتی کچھ دوزخی قرار پا کر جنت و دوزخ کی طرف چلی جاویں گی) تاکہ اپنے اعمال ( کے ثمرات) کو دیکھ لیں، سو جو شخص (دنیا میں) ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کو دیکھ لیگا اور جو شخص ذرہ برابر بدی کرے گا وہ اس کو دیکھ لیگا (بشرطیکہ اس وقت تک وہ خیر و شر باقی رہی ہو، ورنہ اگر کفر کے سبب وہ چیز فنا ہوچکی ہو یا ایمان و توبہ کے ذریعہ بدی معاف ہوچکی ہو تو وہ اس میں داخل نہیں کیونکہ اب نہ وہ باطل شدہ خیر خیر ہے اور نہ وہ معاف کیا ہوا گناہ اور شر شر ہے اس لئے محشر میں وہ سامنے نہ آویں گی۔ ) معارف و مسائل اذا زلزلت الارض زلزالھا :۔ اس میں اختلا ہے کہ اس آیت میں جس زلزلہ کا ذکر ہے یہ وہ زلزلہ ہے جو نفخہ اولیٰ سے پہلے دنیا میں ہوگا جیسا کہ علامات قیامت میں اس زلزلہ کا ذکر آیا ہے یا اس زلزلہ سے مراد نفخہ ثانیہ کے بعد جب مردے زندہ کر زمین سے اٹھیں گے اس وقت کا زلزلہ ہے۔ روایات اور اقوال مفسرین کے مختلف ہیں اور اس میں کوئی بھی بعد نہیں کہ زلزلے متعدد ہوں ایک نفخہ اول سے پہلے، دوسرا نفخہ ثانیہ کے بعد مردوں کے زندہ ہونے کے وقت اور اس جگہ یہی دوسرا زلزلہ مراد ہو اور اس سورت میں جو آگے احوال قیامت حساب کتاب کا ذکر ہے وہ قرینہ اسی کا ہے کہ یہ زلزلہ دوسرا نفخہ ثانیہ کے بعد کا ہے۔ واللہ اعلم (از مظہری)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا۝ ١ ۙ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) زلزل : الاضطراب، وتكرير حروف لفظه تنبيه علی تكرير معنی الزّلل فيه، قال : إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة/ 1] ، وقال : إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج/ 1] ، وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب/ 11] ، أي : زعزعوا من الرّعب . التزلزل اس کے معنی اضطراب کے ہیں اور اس میں تکرار حروف تکرار معنی پر دال ہے قرآن میں ہے : ۔ إِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها[ الزلزلة/ 1] جب زمین بڑے زور سے ہلائی جائے گی ۔ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ [ الحج/ 1] بیشک قیامت کا زلزلہ بڑی ( سخت ) مصیبت ہوگی ۔ وَزُلْزِلُوا زِلْزالًا شَدِيداً [ الأحزاب/ 11] اور وہ ( دشمنوں کے رعب سے ) خوب ہی جھڑ جھڑائے گئے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(1 ۔ 2) جب زمین میں زلزلہ آئے گا اور وہ اپنی سخت جنبش سے ہلا دی جائے گی جس کی وجہ سے جو کچھ اس پر درخت اور پہاڑ اور مکانات وغیرہ ہیں سب ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور زمین اپنے خزانوں اور مالوں کو باہر نکال پھینکے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١{ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا ۔ } ” جب زمین ہلائی جائے گی جیسے کہ ہلائی جائے گی۔ “ یعنی تم انسان یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اس زلزلے کی کیفیت کیسی ہوگی ۔ سورة الحج کے آغاز میں اس کیفیت کی شدت کا نقشہ بایں الفاظ کھینچا گیا ہے : { یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمْج اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ - یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ہُمْ بِسُکٰرٰی وَلٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ ۔ } ” اے لوگو ! تقویٰ اختیار کروا پنے رب کا ‘ یقینا قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہوگا۔ جس دن تم اس کو دیکھو گے ‘ اس دن (حال یہ ہوگا کہ) بھول جائے گی ہر دودھ پلانے والی جسے وہ دودھ پلاتی تھی اور (دہشت کا عالم یہ ہوگا کہ) ہر حاملہ کا حمل گرجائے گا اور تم دیکھو گے لوگوں کو جیسے وہ نشے میں ہوں ‘ حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے ‘ بلکہ اللہ کا عذاب ہی بہت سخت ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1 Zalzalah means to shake violently over and over again. Thus, zulzilat-il,ardu means that the earth will be shaken violently by convulsion after convulsion, and since shaking of the earth has been mentioned, it automatically gives the meaning that the entire earth will be shaken and not a limited territory of it. Then, in order to express the great intensity of the earthquake the word zilzalaha has been added, which literally means "its being shaken". It mean: "It will be so shaken as a huge sphere like it ought to be shaken, or shaken to its utmost intensity." Some commentators have taken it to imply the first earthquake with which the first stage of Resurrection will begin, i:e. when all living beings will perish and the present order of the world will be upset. But, according to a large section of them, ii implies the earthquake with which the second stage of Resurrection will begin, i. e. when all the former and the latter generations of mankind will rise back to life. This second commentary seems to be more correct, for the whole subsequent theme supports it.

سورة الزلزال حاشیہ نمبر : 1 اصل الفاظ ہیں زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا ۔ زلزلہ کے معنی پے در پے زور زور سے حرکت کرنے کے ہیں ۔ پس زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ کا مطلب یہ ہے کہ زمین کو جھٹکے پر جھٹکے دے کر شدت کے ساتھ ہلا ڈالا جائے گا ۔ اور چونکہ زمین کو ہلانے کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے اس سے خود بخود یہ مطلب نکلتا ہے کہ زمین کا کوئی مقام یا کوئی حصہ یا علاقہ نہیں بلکہ پوری کی پوری زمین ہلا ماری جائے گی ۔ پھر اس زلزلے کی مزید شدت کو ظاہر کرنے کے لیے زِلْزَالَهَا کا اس پر اضافہ کیا گیا ہے جس کے لفظی معنی ہیں اس کا ہلایا جانا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ایسا ہلایا جائے گا جیسا اس جیسے عظیم کرے کو ہلانے کا حق ہے ، یا جو اس کے ہلائے جانے کی انتہائی ممکن شدت ہوسکتی ہے ۔ بعض مفسرین نے اس زلزلے سے مراد وہ پہلا زلزلہ لیا ہے جس سے قیامت کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوگا یعنی جب ساری مخلوق ہلاک ہوجائے گا اور دنیا کا یہ نظام درہم برہم ہوجائے گا ۔ لیکن مفسرین کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک اس سے مراد وہ زلزلہ ہے جس سے قیامت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا ، یعنی جب تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ زندہ ہوکر اٹھیں گے ۔ یہی دوسری تفسیر زیادہ صحیح ہے کیونکہ بعد کا سارا مضمون اسی پر دلالت کرتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١۔ ٨۔ دجال کا پیدا ہونا سورج کا مغرب سے نکلنا۔ لال آندھی کا آنا۔ جس طرح یہ چیزیں دنیا کی مدت اخیر ہونے کی علامتیں ہیں اسی طرح اس وقت ایک زلزلہ بھی لال آندھی کے آنے کے بعد آئے گا جس کا ذکر ترمذی ١ ؎ وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) وغیرہ کی روایت سے آیا ہے اور ایک زلزلہ دوسرا صور پھونکا جائے گا جس آئے گا جس کا ذکر قرآن شریف میں کئی جگہ آیا ہے اس آیت میں جو زلزلہ کا ذکر ہے بعض مفسر کہتے ہیں کہ اس سے پہلا زلزلہ مراد ہے اور بعض کہتے ہیں دوسرا زلزلہ مراد ہے۔ اس زلزلہ کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حساب و کتاب اور زمین کی شہادت کا ذکر فرمایا ہے اور یہ باتیں تو ضرور دوسرے صور کے بعد کی ہیں اس لئے اس زلزلہ سے دوسرا زلزلہ مراد لینا زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے اگر اس زلزلہ سے پہلا زلزلہ مراد لیاجائے گا تو نکال ڈالے زمین اپنے بوجھ کا مطلب زمین کے خزانوں کے باہر آجانے کا ہوگا۔ جس کا ذکر صحیح ٢ ؎ مسلم کی حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت میں ہے اور اگر زلزلہ سے دوسرا زلزلہ مراد لیا جائے تو زمین کے بوجھ باہر آنے سے مردوں کا باہر آجانا مراد لیا جائے گا جس کا ذکر قرآن میں کئی جگہ ہے۔ مسند امام احمد ترمذی ٣ ؎ نسائی وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ زمین پر ذرہ ذرہ جو لوگ کرتے ہیں اس سب کی گواہی قیامت کے دن زمین ادا کرے گی۔ ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے جس وقت زمین ذرہ ذرہ نیک و بد عمل کی گواہی دے گی اس وقت لوگ کہیں گے کہ زمین کو کیا ہوگیا کہ یہ اس طرح کی گواہی پر مستعد ہوگئی۔ غرض اچھے لوگ شکر کے طور پر اور برے لوگ خوف سے اس کا چرچا کریں گے جو عمل اکارت ہوجائیں گے ان کو بھی اس طرح دیکھ لے گا کہ مثلاً فلاں وقت کی نماز یا فلاں وقت کا روزہ یا صدقہ فلاں ریا کاری کے سبب سے اکارت ہوگئے ان کا کچھ اجر نہ ملے گا۔ ترمذی ١ ؎ وغیرہ کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اس سورة کو ایک دفعہ پڑھے اس کو آدھے قرآن کی تلاوت کا ثواب ملتا ہے آدھے قرآن کے ثواب کی حدیث کو حاکم نے صحیح ٢ ؎ کہا ہے لیکن پاؤ قرآن کے ثواب کے باب میں چند حدثیں آئی ہیں۔ (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی اشراط الساعۃ ص ٥٤ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح مسلم باب حسر الفرات عن جبل من ذھب ص ٣٩١ ج ٢) (٣ ؎ جامع ترمذی۔ تفسیر سورة زلزلت ص ١٩٣ ج ٢۔ ) ١ ؎ جامع ترمذی۔ باب ماجاء فی اذا زلزلت ص ١٣٢ ج ٢۔ ٢ ؎ الترغیب و الترہیب۔ الترغیب فی قرأۃ اذا ازلزلت ص ٦٤١ ج ٢

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(99:1) اذا زلزلت الارض زلزالہا : اذا شرطیہ ، زلزلت ماضی مجہول واحد مؤنث غائب۔ زلزال (فعلال) مصدر سے۔ الارض مفعول مالم یسم فاعلہ۔ زلزالہا میں زلزال مفعول مطلق مضاف ھا ضمیر واحد مؤنث غائب (جس کا مرجع الارض ہے) مضاف الیہ۔ (زلزال مصدر ہے اور اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے) مطلب یہ کہ مصدر کو مفعول مطلق لانے کا مقصد فعل کی تاکید ہے۔ یعنی حرکت الارض حرکۃ شدیدۃ۔ یعنی زمین شدت کے ساتھ بار بار ہلائی جائے گی۔ جیسے کہ دوسری جگہ قرآن مجید میں آیا ہے :۔ اذا رجت الارض رجا (56:4) جب زمین بھونچال سے لرزے گی ! اذا شرطیہ۔ ظرف زمان بمعنی جب۔ زلزال ہلانا۔ جھڑ جھڑ دینا۔ زلزلہ میں ڈالنا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی قیامت کے قریب جب وہ صور پھونکے جانے سے دہل جائے اور اس میں بھونچال آجائے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

سورة الزلزال آیات ١ تا ٨۔ اسرار ومعارف۔ جب زمین کو جھنجھوڑ ڈالا جائے گا ، یعنی قیامت قائم ہوگی اور زمین تمام لوگوں کو اور مال وزر کو اگل دے گی یا وہ راز جو بہرحال اس کے پاس محفوظ ہوں گے کھول دے گی تو انسان کہہ اٹھے گا زمین کو کیا ہوگیا اس نے تو سب کچھ بتادیا۔ ہاں ضرور بتائے گی کہ تیرے پروردگار کا حکم اس کو بتانے ہی کا ہوگا اس روز لوگ الگ الگ طبقے اور جماعتیں بن جائیں گے جس طرح کے لوگوں اور کردار کی رفاقت دنیا میں اختیار کی اسی طرح کے گروپوں میں کھڑے ہوں گے کہ اپنے اعمال کے نتائج کو دیکھیں جس کسی نے ذرہ برابر بھی نیکی کی ہوگی وہ اس کا بدلہ پائے گا اس سے علماء نے دلیل اختیار فرمائی ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا آخر کسی نہ کسی وقت دوزخ سے رہائی پالے گا اور جس کسی نے ذرہ برابر بھی برائی کی ہوگی اس کا نتیجہ بھی دیکھ لے گا حدیث پاک کا مفہوم ہے کسی گناہ کو چھوٹا نہ سمجھا جائے کہ سب پر مواخذہ تو ہوگا ، اللہ کریم رحم فرمائے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ زلزلت۔ ہلاڈالی گئی۔ اثقال۔ بوجھ۔ مالھا ۔ کیا ہوگیا اسے ؟ ۔ تحدت۔ بیان کردے گی۔ اخبر۔ خبریں۔ حالات۔ یصدر۔ باہر نکلنے گا۔ لوٹے گا۔ اشتات۔ مختلف گروہ۔ مثقال ۔ وزن۔ برابر۔ یرہ۔ وہ اس کو دیکھ گا۔ تشریح : نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب زمین پر ایک شخص بھی اللہ اللہ کہنے والا نہ رہے گا تو نظام کائنات کو درہم برہم کرکے ہر چیز پر فنا کی کیفیت طاری کردی جائے گی۔ اسی کو قیامت کہا جاتا ہے جو برحق ہے اور اس کے آنے میں ذرا بھی شک نہیں ہے۔ لیکن پہلا صور پھونکے جانے کے بعد کیا ہوگا اس کو اس سورت میں بیان فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے کہ جب زمین مسلسل جھٹکوں اور زلزلوں سے ہلا ماری جائے گی۔ اور زمین و آسمان کے نظام کو توڑ کر ایک ہموار زمین تیار کرلی جائے گی و اس وقت موجودہ زمین اپنے اندر دفن کئے گئے انسان یا اس کے بکھرے ہوئے اجزا کو نکال کر باہر پھینک دے گی پھر اللہ تعالیٰ ان کو جمع کرکے پہلے والی شکل و صورت میں ڈھال دے گا، سونا، چاندی اور اپنے اندر کے مع دنیات کو زمین اگل دے گی۔ اس وقت مدہوشی کا عالم یہ ہوگا کہ کسی کو اتنے زبردست مال و دولت کی طرف دیکھنے کی توجہ تک نہ ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زمین اپنے اندر کے جگر کے ٹکڑے اور سونے، چاندی کی بڑی بڑی چٹانیں کھول کر رکھ دے گی۔ اس وقت وہ شخص جس نے مال کی وجہ سے کسی کو قتل کیا ہوگا کہے گا یہ ہے وہ چیز ؟ جس کے لئے میں نے قتل جیسا جرم کیا تھا۔ جس شخص نے مال و دولت کی محبت میں اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کیا ہوگا وہ کہے گا کہ یہ ہے وہ مال و دولت ؟ جس کی وہ سے میں نے ایسی حرکت کی تھی۔ جس کا ہاتھ چوری کی سزا میں کاٹا گیا تھا وہ بھی (نہایت افسوس کے ساتھ) کہے گا کہ میں نے اس کی وجہ سے اپنا ہاتھ کٹوایا تھا۔ پھر کوئی شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو اس کی طرف دیکھنا گوارا کرے گا۔ (الصحیح مسلم) ۔ جب زمین زور زور سے ہلنا شروع ہوجائے گئی تو آدمی کے منہ سے گھبراہٹ اور مایوسی میں یہ الفاظ نکلیں گے کہ آج اس زمین کو کیا ہوگیا کہ وہ برابر ہلے جار ہی ہے۔ جب اس کو یقین ہوجائے گا کہ یہ زمین تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے اس وقت آدمی کے سامنے اس کا سارا کیا دھرا نظر آنے لگے گا۔ اس دن ہر شخص اپنے ہی جیسے عمل والے لوگوں کی طرف کھنچتا چلا جائے گا۔ چور چور کی طرف اور نیک آدمی نیک لوگوں کی طرف جائے گا اور پھر یہ جماعتیں اللہ کے سامنے پیش ہوں گی اور ہر ایک اپنے عمل کے اثرات اور ثمرات کو سامنے دیکھے گا۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابو سعید خدری (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جب ” قمن یعمل “ والی آیت نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا۔ کیا میں اپنا عمل خود دیکھوں گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں۔ اس پر میں نے عرض کیا بڑے برے گناہ ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں۔ میں نے عرض کیا چھوٹے چھوٹے گناہ ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں۔ اس پر میں نے عرض کیا پھر میں تو مارا گیا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابو سعید خوش ہوجائو کیونکہ ہر نیکی اپنی جیسی دس نیکیوں کے برابر ہوگی۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ زمین کی خبریں بتانا کیا ہے ؟ صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زمین ہر مرد اور عورت کے تمام اعمال پر گواہی دے گی جو اس نے اس پر کئے ہوں گے۔ اس لئے کہ اس کے پروردگار کا اس کو یہی حک ہوگا یعنی زمین کو حک دیا جائے گا کہ وہ تمام لوگوں کے اعمال کو بیان کردے اور اس نے اس زمین پر جو کچھ کیا ہے وہ اس کو ظاہر کردے۔ (کشف الرحمن) ۔ حضرت ربعہ الخرشی (رض) سے روایت ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ذرا زمین سے بچ کر رہنا کیونکہ یہ تمہاری جڑ اور بنیاد ہے اور اس پر عمل کرنے والا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کے عمل کی یہ خبر نہ دے گی اچھی یا بری۔ (معجم الطبرانی) ۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا ہر عمل خیر اور ہر عمل شر اس کے سامنے آجائے گا اور وہ اس کو اپنی کھلی آنکھ سے دیکھے گا اور اس کی جزا یا سزا پائے گا۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو کون سا عمل خیر ہے اور کون سا شر ہے ؟ کیونکہ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے عمل کو اچھا اور بہتر نہ سمجھتا ہو۔ دنیا میں ہر فرقہ اور جماعت نیک اور بہتر کام کرکے ایک سکون محسوس کرتا ہے اور اسی میں اپنی نجات سمجھتا ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ”……“ یعنی ہر جماعت کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اسی میں مگن ہے۔ خیر اور شر کیا ہے اس سلسلہ میں ہمیں اسلامی تعلیمات سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ ہے کہ انسان دنیا میں جو بھی نیک ، بھلا اور بہتر کام کرتا ہے اللہ کے ہاں اس کی قدر کی جاتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ہر وہ کام جو نیکی کے جذبے سے کیا جائے اور اس کی بنیادوں میں ایمان کا جذبہ نہ ہو تو اس کا چھا بدلہ اسی دنیا میں دیدیا جاتا ہے، آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا لیکن اگر ایمان کے کے ساتھ وہ عمل کیا جائے گا جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے تو اس پر ایمان اور عمل صالح کی برکت سے اس کو دنیا میں بھی بہتری عطا کی جاتی ہے اور اس کو آخرت میں اس کے تصور سے بھی زیادہ اجر اور بدلہ عطا کیا جائے گا۔ یعنی ایمان و عمل صالح اختیار کرنے والے شخص کو دونوں جہانوں میں عظمتیں عطا کی جائیں گی۔ اسی بات کو فرمایا گیا کہ جس نے کوئی بھی بھلا اور نیک کام کیا وہ اس کو دیکھے گا اور جس نے کوئی بھی گناہ اور خطا کا کام کیا وہ اس کو بھی بھگتے گا اور کھلی آنکھوں سے دیکھے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط سورت : البیّنہ کا اختتام ان الفاظ پر ہوا کہ ” اللہ تعالیٰ “ ہر اس شخص پر راضی ہوگا جس نے اس سے ڈر کر زندگی بسر کی اللہ تعالیٰ کے ڈر کا حقیقی تقاضا ہے کہ انسان ہر دم قیامت کا عقیدہ تازہ رکھے جس دن کی ابتداء بڑے بڑے زلزلوں سے ہوگی۔ قرآن مجید نے یہ حقیقت بڑی تفصیل کے ساتھ بتلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب پہلی دفعہ اسرافیل صور میں پھونک مارے گا تو زمین و آسمانوں میں ایسا بھونچال آئے گا کہ بالآخر ہر چیز ختم ہوجائے گی۔ ایک مدّت کے بعد جس کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں اس مدّت میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی باقی رہے گی۔ اسرافیل دوسری پھونک مارے گا تو ایک دفعہ پھر زمین پر زبردست زلزلے رونما ہوں گے جن سے زمین کو پوری طرح ہلا کر رکھ دیا جائے گا، پہلا صور پھونکنے پر زمین چٹیل میدان بن جائے گی اور دوسری دفعہ صور پھونکنے پر زمین اپنے اندر کے بوجھ باہر پھینک دے گی کیونکہ اسے رب تعالیٰ نے اس طرح کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ ” اور جو کچھ زمین میں ہے اسے باہر پھینک کر خالی ہوجائے گی اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کے لیے یہی لازم ہے۔ “ (الانشقاق : ٥) اکثر مفسرین کے نزدیک ” اَثْقَالَھَا “ سے مراد انسان اور اس کے اعمال ہیں، چناچہ اگر کوئی انسان ڈوب کرمرا یا آگ میں جل کر راکھ ہوا، رب ذوالجلال کے حکم سے نہ صرف زمین انسان کے ذرّات کو باہر نکال دے گی بلکہ لوگ اس طرح زمین سے صحیح سالم نکلیں گے جس طرح مرنے سے پہلے تھے، نہ صرف انسان اپنے وجود کے ساتھ زمین سے نکلیں گے بلکہ جو کچھ اس دھرتی پر کرتے رہے۔ زمین اس کے پورے کے پورے ثبوت پیش کرے گی۔ ماضی میں سائنسی ترقی نہ ہونے کی وجو سے بیشمار لوگ اس بات پر گمراہ ہوئے کہ انسان کے اعمال کا کس طرح وزن کیا جاسکے گا کیونکہ اعمال کا ٹھوس وجود نہیں ہوتا۔ لیکن سائنسی ترقی نے ایک حد تک یہ ثابت کردیا ہے کہ ہر چیز کا ایک وجود ہوتا ہے۔ قیامت کے دن انسان جونہی اپنا کیا کرایا دیکھے گا تو پکار اٹھے گا کہ زمین کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ ہر بات بیان کیے جا رہی ہے، ایسا اس لیے ہوگا کہ اسے اس کے رب کا حکم ہوگا۔ قیامت کے دن زمین ہر قسم کا ثبوت پیش کرنے کے ساتھ شہادت دے گی جس کا انکار کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوگا۔ (اِِنَّا اَنذَرْنٰکُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ وَیَقُوْلُ الْکٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا) (النبا : ٤٠) ” ہم نے تمہیں اس عذاب سے ڈرادیا ہے جو قریب آچکا ہے جس دن آدمی سب کچھ دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں مٹی بنا رہتا۔ “ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَرَأَ رَسُول اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہَذِہِ الآیَۃَ (یَوْمَءِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا) قَالَ أَتَدْرُونَ مَا أَخْبَارُہَا ؟ قَالُوا اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ أَخْبَارَہَا أَنْ تَشْہَدَ عَلَی کُلِّ عَبْدٍ أَوْ أَمَۃٍ بِمَا عَمِلَ عَلَی ظَہْرِہَا تَقُولُ عَمِلَ یَوْمَ کَذَا کَذَا وَکَذَا فَہَذِہِ أَخْبَارُہَا) (رواہ الترمذی : باب ما جاء فی العرض، قال الترمذی ھٰذاحدیث حسن صحیح ) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (یَوْمَءِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَہَا) پھر آپ نے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ زمین کی خبریں کیا ہوں گی ؟ صحابہ نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا زمین کا خبر دینا یہ ہے کہ وہ ہر مرد اور عورت کے عمل کے متعلق گواہی دے گی جو اس نے زمین پر رہتے ہوئے کیا ہوگا۔ زمین کہے گی کہ اس نے فلاں دن فلاں عمل کیا، یہی اس کی خبریں ہوں گی۔ “ مسائل ١۔ قیامت کے دوسرے مرحلے میں زمین کو پوری طرح ہلاکر رکھ دیا جائے گا۔ ٢۔ زمین اپنے سینے سے ہر قسم کا بوجھ نکال باہر کرے گی۔ ٣۔ زمین اس دن انسان کے حق یا اس کے خلاف ہر قسم کی شہادت دے گی مجرم کہے گا کہ زمین کو کیا ہوگیا ہے ؟ ٤۔ زمین ہر چیز اس لیے بیان کرے گی کیونکہ اسے اس کے رب کا حکم ہوگا۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن انسان کے حق یا اس کے خلاف پیش ہونے والی شہادتیں : ١۔ قیامت کے دن ” اللہ “ پر جھوٹ باندھنے والوں کے خلاف گواہ پیش کیے جائیں گے۔ (ہود : ١٨) (النور : ٢٤) (البقرۃ : ١٤٣) (یٰس : ٦٥) (حٰم السجدۃ : ٢٠) ( البقرۃ : ١٤٢) (الحج : ٧٨)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ ہے منظر قیام قیامت کا ، اس دن زمین نہایت شدت سے ہلا ماری جائے گی اور ایک شدید زلزلہ برپا ہوگا اور زمین کے پیٹ کے اندر جو کچھ ہوگا ، وہ اسے باہر پھینک دے گی اور اس نے ایک طویل عرصے سے انسانی جانوں کا جو بوجھ اٹھارکھا ہوگا ، یا اس کے اندر جو معدنیات ہوں گے وہ ان کو اٹھاکر باہر پھینک دے گی ، گویا اس بوجھ کو باہر پھینک کر وہ ہلکی ہوجائے گی۔ یہ ایک ایسی تصویر کشی ہے کہ سننے والے اپنے پاﺅں کے نیچے کھڑی ہر چیز متزلزل محسوس کرتے ہیں کہ وہ ڈگمگا رہے ہیں ، لڑکھڑا رہے ہیں ، ان کے قدموں کے نیچے سے زمین کانپ رہی ہے ، دوڑرہی ہے ، یہ ایک ایسا منظر ہے جس کو دیکھ کر انسان تمام امور سے قطع تعلق کرلیتا ہے جو انسان کو اس زمین سے وابستہ کرتے ہیں اور جن کے بارے میں انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ثابت اور باقی ہیں۔ قرآن اس قسم کے مناظر سے جو اثرات قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہ ان میں سے پہلا اثر ہے اور قرآن کی یہ منفرد آیات سنتے ہی یہ اثر انسان کے اعصاب تک منتقل ہوجاتا ہے۔ یہ تاثر اس وقت اور گہرا ہوجاتا ہے ۔ جب قرآن کریم میدان حشر میں کھڑے اس ” انسان “ کے تاثرات قلم بند کرتا ہے ، جو ان مناظر کو دیکھ رہا ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہ سورة الزلزال کا ترجمہ ہے لفظ زلزال اور زلزلہ دونوں سخت جھٹکا کھانے اور سخت حرکت کرنے کے معنی میں آتے ہیں دونوں باب فعللہ (رباعی مجرد) کے مصادر ہیں زلزالھا مفعول مطلق ہے جو تاکید اور بیان شدت کے لیے لایا گیا ہے جیسا کہ سورة الاحزاب میں فرمایا : ﴿وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا﴾ یہاں بھی قیامت کے زلزلہ کو بیان فرمایا ہے، یہ زلزلہ بہت سخت اور شدید ہوگا۔ جیسا کہ سورة الحج میں فرمایا : ﴿یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْءٌ عَظِیْمٌ﴾ (اے لوگو ! بیشک اپنے رب سے ڈرو، بیشک قیامت زلزلہ بہت بڑی چیز ہے) وہ زلزلہ دنیا والے زلزلوں جیسا نہیں کہ دو چار شہروں میں آگیا وہ تو پوری زمین کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گا، اس وقت کی سخت مصیبت کو سورة الحج میں ارشاد فرمایا ہے : ﴿یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْھَلُ كلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ كلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا وَ تَرَی النَّاسَ سُكٰرٰی وَ مَا ھُمْ بِسُكٰرٰی وَ لٰكنَّ عَذَاب اللّٰہِ شَدِیْدٌ﴾ (جس روز تم اس کو دیکھو گے اس روز تمام دودھ پلانے والیاں اپنی دودھ پیتے کو بھول جائیں گی اور تمام حمل والیاں اپنا حمل ڈال دیں گی، اور وہ لوگ تجھے نشہ کی سی حالت میں دکھائی دیں گے حالانکہ وہ نشہ میں نہ ہوں گے، اور لیکن اللہ کا عذاب ہے ہی سخت چیز) اتنے بڑے سخت زلزلہ کے بعد میدان حشر میں حاضری ہوگی، سب قبروں سے نکل کر حساب کتاب کے لیے جمع کیے جائیں گے، اب زمین اپنے اندر کے دفینوں کو نکال دے گی جسے ﴿وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَاۙ٠٠٢﴾ میں بیان فرمایا ہے، مردے بھی باہر آجائیں گے اور اموال بھی، یہ سب اموال کسی کے کچھ کام نہ آئیں گے جن پر دنیا میں لڑائیاں لڑا کرتے تھے اور لوگوں کی جانیں لیتے تھے میدان حشر میں لوگ جمع ہوں گے، اعمال نامے پیش ہوں گے۔ گواہیاں ہوں گی انہی گواہیاں دینے والوں میں زمین بھی ہوگی جسے ﴿يَوْمَىِٕذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَهَاۙ٠٠٤﴾ میں بیان فرمایا ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

2:۔ ” اذا زلزلت “ یہ وہ زلزلہ ہے جو نفخہ اولی کے وقت آئے گا جس سے زمین اپنی تہ تک ہل جائیگی اور یہ زلزلہ اس قدرسخت اور شدید ہوگا کہ زمین پر کوئی جاندار زندہ نہ رہے گا پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر ہموار ہوجائیں گے دریا اور سمندر خشک ہو کر زمین کے برابر ہوجائیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(1) جب زمین اپنی پوری حرکت سے خوب ہلائی جائے۔