Surat ul Baqara

Surah: 2

Verse: 167

سورة البقرة

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا لَوۡ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنۡہُمۡ کَمَا تَبَرَّءُوۡا مِنَّا ؕ کَذٰلِکَ یُرِیۡہِمُ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ حَسَرٰتٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِخٰرِجِیۡنَ مِنَ النَّارِ ﴿۱۶۷﴾٪  4

Those who followed will say, "If only we had another turn [at worldly life] so we could disassociate ourselves from them as they have disassociated themselves from us." Thus will Allah show them their deeds as regrets upon them. And they are never to emerge from the Fire.

اور تابعدار لوگ کہنے لگیں گے کاش ہم دنیا کی طرف دوبارہ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہیں ، اسی طرح اللہ تعالٰی انہیں ان کے اعمال دکھائے گا ان کو حسرت دلانے کو ، یہ ہرگز جہنم سے نہ نکلیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said: وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُواْ لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّوُواْ مِنَّا ... And those who followed will say: "If only we had one more chance to return (to the worldly life), we would disown (declare ourselves as innocent from) them as they have disowned (declared themselves as innocent from) us." This Ayah means: `If we only had a chance to go back to the life so that we could disown them (their idols, leaders, etc.) shun their worship, ignore them and worship Allah Alone instead.' But they utter a lie in this regard, because if they were given the chance to go back, they would only return to what they were prohibited from doing, just as Allah said. This is why Allah said: ... كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ ... Thus Allah will show them their deeds as regrets for them. meaning, their works will vanish and disappear. Similarly, Allah said: وَقَدِمْنَأ إِلَى مَا عَمِلُواْ مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَأءً مَّنثُوراً And We shall turn to whatever deeds they (disbelievers, polytheists, sinners) did, and We shall make such deeds as scattered floating particles of dust. (25:23) Allah also said: مَّثَلُ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِرَبِّهِمْ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ The parable of those who disbelieved in their Lord is that their works are as ashes, on which the wind blows furiously on a stormy day. (14:18) and: وَالَّذِينَ كَفَرُواْ أَعْمَـلُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْأنُ مَأءً As for those who disbelieved, their deeds are like a mirage in a desert. The thirsty one thinks it to be water. (24:39) This is why Allah said, ... وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ And they will never get out of the Fire.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

ف 1 آخرت میں پیروں اور گدی نشینوں کی بےبسی اور بےوفائی پر مشرکین حسرت کریں گے لیکن ان کو وہاں اس حسرت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ کہیں گے کاش دنیا میں ہی وہ شرک سے توبہ کرلیں

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠٦] ان دو آیات میں میدان محشر کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے اور مشرکوں اور ان کے معبودوں یعنی مرشدوں اور (مریدوں) پیروکاروں کے درمیان مکالمہ بیان کیا گیا ہے۔ جو یہاں دنیا میں اپنے مریدوں کے مشکل کشا، حاجت روا اور شفاعت کے ٹھیکیدار بنے ہوئے تھے۔ قیامت کے دن چونکہ اللہ کے حضور جواب دہی کی دہشت اور خوف اس قدر زیادہ ہوگا کہ ہر ایک کو اپنی ہی جان کی پڑی ہوگی۔ لہذا یہ پیشوا حضرات ان مریدوں کی اعانت و امداد یا سفارش سے نہ صرف انکار کریں گے، بلکہ دنیا میں ان کو اپنا مرید ہونے سے ہی انکار کردیں گے اور کہہ دیں گے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہے نہ ہم انہیں پہچانتے ہیں۔ بلکہ ان سے بےزاری اور نفرت کا اظہار کریں گے۔ یہ صورت حال دیکھ کر مرید حضرات سخت مایوس ہوجائیں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش ہمیں دنیا میں جانے کا ایک اور موقع مل سکے تو ہم بھی ان سے یہی سلوک کریں جو آج یہ ہم سے کر رہے ہیں اور ہم بھی ان پیروں سے ایسے بےتعلق اور بیزار ہوجائیں۔ جیسے یہ آج ہم سے بےتعلق اور بےزار بن گئے ہیں۔ [ ٢٠٧] ایک حسرت تو یہ ہوگی کہ مرشدوں نے اپنے وعدوں کے خلاف بےزاری کا اظہار کردیا، اور دوسری یہ کہ جو اچھے اعمال مثلاً صدقہ و خیرات اور نذر و نیاز وغیرہ کرتے رہے وہ تو ان کے شرک کی وجہ سے ضائع ہوجائیں گے اور برے اعمال برقرار رہیں گے۔ اس طرح وہ کئی قسم کی حسرتوں کا مجموعہ بن جائیں گے۔ ان کے مرشد بھی باعث حسرت اور ان کے اعمال بھی باعث حسرت لیکن ان حسرتوں کا نتیجہ کچھ بھی نہ نکلے گا اور دوزخ کے عذاب سے نجات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ كَـمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّا۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ يُرِيْہِمُ اللہُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَيْہِمْ۝ ٠ ۭ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ۝ ١٦٧ ۧ تبع يقال : تَبِعَهُ واتَّبَعَهُ : قفا أثره، وذلک تارة بالجسم، وتارة بالارتسام والائتمار، وعلی ذلک قوله تعالی: فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] ، ، قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] ، فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] ، اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] ، وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] ، وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] ، ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ت ب ع) تبعہ واتبعہ کے معنی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں یہ کبھی اطاعت اور فرمانبرداری سے ہوتا ہے جیسے فرمایا ؛ فَمَنْ تَبِعَ هُدايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ البقرة/ 38] تو جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ غمناک ہونگے قالَ يا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ اتَّبِعُوا مَنْ لا يَسْئَلُكُمْ أَجْراً [يس/ 20- 21] کہنے لگا کہ اے میری قوم پیغمبروں کے پیچھے چلو ایسے کے جو تم سے صلہ نہیں مانگتے اور وہ سیدھے رستے پر ہیں ۔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدايَ [ طه/ 123] تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا ۔ اتَّبِعُوا ما أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ [ الأعراف/ 3] جو ( کتاب ) تم پر تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو ۔ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ [ الشعراء/ 111] اور تمہارے پیرو تو ذلیل لوگ کرتے ہیں ۔ وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبائِي [يوسف/ 38] اور اپنے باپ دادا ۔۔۔ کے مذہب پر چلتا ہوں ثُمَّ جَعَلْناكَ عَلى شَرِيعَةٍ مِنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْها وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر ( قائم ) کردیا ہے تو اسیی ( راستے ) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَاتَّبَعُوا ما تَتْلُوا الشَّياطِينُ [ البقرة/ 102] ( ہزلیات ) کے پیچھے لگ گئے جو ۔۔۔ شیاطین پڑھا کرتے تھے ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ كر الْكَرُّ : العطف علی الشیء بالذّات أو بالفعل، ويقال للحبل المفتول : كَرٌّ ، وهو في الأصل مصدر، وصار اسما، وجمعه : كُرُورٌ. قال تعالی: ثُمَّ رَدَدْنا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ [ الإسراء/ 6] ، فَلَوْ أَنَّ لَنا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الشعراء/ 102] ، وَقالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنا كَرَّةً [ البقرة/ 167] ، لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً [ الزمر/ 58] والْكِرْكِرَةُ : رحی زَوْرِ البعیر، ويعبّر بها عن الجماعة المجتمعة، والْكَرْكَرَةُ : تصریف الرّيحِ السّحابَ ، وذلک مُكَرَّرٌ من كَرَّ. ( ک ر ر ) الکر۔ اس کے اصل معنی کسی چیز کو بالذات بالفعل پلٹا نا یا موڑ دینا کے ہیں ۔ اور بٹی ہوئی رسی کو بھی کر کہاجاتا ہے ۔ یہ اصل میں مصدر ہے مگر بطور اسم استعمال ہوتا ہے ۔ اس کی جمع کرور آتی ہے اسی سے الکرۃ ( دوسری بار ) ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ رَدَدْنا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ [ الإسراء/ 6] پھر ہم نے دوسری بار تم کو ان پر غلبہ دیا ۔ فَلَوْ أَنَّ لَنا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ الشعراء/ 102] کا ش ہمیں دنیا میں پھرجانا ہو تو ہم مومنوں میں ہوجائیں ۔ وَقالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنا كَرَّةً [ البقرة/ 167]( یہ حال دیکھ کر ) پیروی کرنے والے ( حسرت سے ) کہیں گے کہ اسے کاش ہمیں پھر دنیا میں جانا نصیب ہوتا ۔ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً [ الزمر/ 58] لو ان لی کرۃ ۔ اگر مجھے پھر ایک بار دنیا میں جانا نصیب ہوتا ۔ الکرکرۃ ( مثل زبرجۃ ) شتر کے سینہ کی سخت جگہ کو کہتے ہیں ۔ اور لوگوں کی مجتمع جماعت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ الکرکرۃ کے معنی ہوا کے بادل کو چلانا کے ہیں اور یہ کر سے فعل رباعی ہے ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے حسر الحسر : كشف الملبس عمّا عليه، يقال : حسرت عن الذراع، والحاسر : من لا درع عليه ولا مغفر، والمِحْسَرَة : المکنسة، وفلان کريم المَحْسَر، كناية عن المختبر، وناقة حَسِير : انحسر عنها اللحم والقوّة، ونوق حَسْرَى، والحاسر : المُعْيَا لانکشاف قواه، ويقال للمعیا حاسر ومحسور، أمّا الحاسر فتصوّرا أنّه قد حسر بنفسه قواه، وأما المحسور فتصوّرا أنّ التعب قد حسره، وقوله عزّ وجل : يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] ، يصحّ أن يكون بمعنی حاسر، وأن يكون بمعنی محسور، قال تعالی: فَتَقْعُدَ مَلُوماً مَحْسُوراً [ الإسراء/ 29] . والحَسْرةُ : الغمّ علی ما فاته والندم عليه، كأنه انحسر عنه الجهل الذي حمله علی ما ارتکبه، أو انحسر قواه من فرط غمّ ، أو أدركه إعياء من تدارک ما فرط منه، قال تعالی: لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران/ 156] ، وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة/ 50] ، وقال تعالی: يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر/ 56] ، وقال تعالی: كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة/ 167] ، وقوله تعالی: يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس/ 30] ، وقوله تعالی: في وصف الملائكة : لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء/ 19] ، وذلک أبلغ من قولک : ( لا يحسرون) . ( ح س ر ) الحسر ( ن ض ) کے معنی کسی چیز کو ننگا کرنے اور حسرت عن الذارع میں نے آستین چڑھائی الحاسر بغیر زرہ مابغیر خود کے ۔ المحسرۃ فلان کریم الحسر کنایہ یعنی ناقۃ حسیر تھکی ہوئی اور کمزور اونٹنی جسکا گوشت اور قوت زائل ہوگئی ہو اس کی جمع حسریٰ ہے الحاسر ۔ تھکا ہوا ۔ کیونکہ اس کے قویٰ ظاہر ہوجاتے ہیں عاجز اور درماندہ کو حاسربھی کہتے ہیں اور محسورۃ بھی حاسرۃ تو اس تصور کے پیش نظر کہ اس نے خود اپنے قوٰی کو ننگا کردیا اور محسور اس تصور پر کہ درماندگی نے اس کے قویٰ کو ننگا دیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَهُوَ حَسِيرٌ [ الملک/ 4] تو نظر ( ہر بار ) تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی ۔ میں حسیر بمعنی حاسرۃ بھی ہوسکتا ہے اور کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہوکر بیٹھ جاؤ ۔ الحسرۃ ۔ غم ۔ جو چیز ہاتھ سے نکل جائے اس پر پشیمان اور نادم ہونا گویا وہ جہالت اور غفلت جو اس کے ارتکاب کی باعث تھی وہ اس سے دیر ہوگئی یا فرط غم سے اس کے قوی ننگے ہوگئے یا اس کوتاہی کے تدارک سے اسے درماند گی نے پالیا قرآن میں ہے : ۔ لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ آل عمران/ 156] ان باتوں سے مقصود یہ ہے کہ خدا ان لوگوں کے دلوں میں افسوس پیدا کردے ۔ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكافِرِينَ [ الحاقة/ 50] نیز یہ کافروں کے لئے ( موجب ) حسرت ہے ۔ يا حَسْرَتى عَلى ما فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ [ الزمر/ 56] اس تقصیر پر افسوس ہے جو میں نے خدا کے حق میں کی ۔ كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمالَهُمْ حَسَراتٍ عَلَيْهِمْ [ البقرة/ 167] اسی طرح خدا ان کے اعمال انہیں حسرت بنا کر دکھائے گا ۔ يا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ [يس/ 30] بندوں پر افسوس ہے اور فرشتوں کے متعلق فرمایا : ۔ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ [ الأنبیاء/ 19] وہ اس کی عبادت سے نہ کنیا تے ہیں اور نہ در ماندہ ہوتے ہیں ۔ اس میں سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے ۔ خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٦٧) متبعین کہیں گے کاش ہمیں دنیا میں پھر لوٹنا آسان اور ممکن ہوجائے تو پھر ہم بھی ان سرداروں اور راہنماؤں سے دنیا میں اسی طرح الگ اور بیزار ہوجائیں گے، جس طرح کہ یہ ہم سے آخرت میں علاوہ پڑے ہیں، آخرت میں اسی طرح حسرتیں اور ندامتیں رہ جائیں گی، لیڈروں اور ان کے ماننے والوں سے کسی کو بھی نجات نہیں ملے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٦٧ (وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً ) (فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّءُ وْا مِنَّا ط) (کَذٰلِکَ یُرِیْہِمُ اللّٰہُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْہِمْ ط) وہ کہیں گے کاش ہم نے سمجھا ہوتا ‘ کاش ہم نے ان کی پیروی نہ کی ہوتی ‘ کاش ہم نے ان کو اپنا لیڈر اور اپنا ہادی و رہنما نہ مانا ہوتا ! !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

165. Here particular reference is made to the dismal end of those so-called religious leaders who mislead people, and of their gullible followers who fall easy prey to their deception. This has been done in order to warn the Muslims to beware of the errors which misled former nations, and to impress upon them the need to develop the capacity to distinguish between true and spurious leaders so as to avoid being led by the latter.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :165 یہاں خاص طور پر گمراہ کرنے والے پیشواؤں اور لیڈروں اور ان کے نادان پیروؤں کے انجام کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ جس غلطی میں مُبتلا ہو کر پچھلی اُمتّیں بھٹک گئیں اس سے مسلمان ہوشیار رہیں اور رہبروں میں امتیاز کرنا سیکھیں اور غلط رہبری کرنے والوں کے پیچھے چلنے سے بچیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(2:167) لو۔ یہاں بمعنی لیت (حرف تمنی) ہے ای کاش۔ کرۃ۔ کر۔ کسی طرف مڑجانا۔ جھک جانا۔ لوٹ جانا۔ کر کے بعد ۃ وحدت کی ہے جس کے معنی ایک بار۔ کرۃ۔ ایک بار لوٹنا۔ ایک پھیرا۔ ایک واپسی۔ دشمن پر یکبار گی حملہ کرنے کو بھی اسی مناسب سے کرۃ کہتے ہیں کرار لوٹ لوٹ کر دشمن پر حملہ کرنے والا۔ سورة الملک میں ہے ثم ارجع البصر کر تین (67:4) پھر نگای کو دوسری بار ڈال ۔ پھر دوبارہ (غور سے) نگاہ ڈال۔ فنتبرا۔ ف تمنی کے جواب میں ہے ۔ نتبراء مضارع منصوب کا صیغہ جمع متکلم ۔ منصوب بوجہ جواب تمنی کیونکہ لو۔ بمعنی لیت آیا ہے۔ نصب علی جواب التمنی لان لو فی معنی المتمنی والمعنی لیت لنا کرۃ فنتبرا۔ (مدارک التنزیل) مطلب آیت کا ہے اے کاش ہمیں ایک بار پھر دینا میں جانا نصیب ہو کہ جس طرح یہ ہم سے بیزار ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ہم بھی (دنیا میں) ان سے بیزار ہوں۔ کما میں کاف حرف تشبیہ کا ہے اور ما موصولہ ہے۔ اسی طرح جیسے یہ ہم سے بیزار ہو رہے ہیں۔ کذلک۔ کاف حرف تشبیہ ذلک اسم اشارہ بعید۔ اس میں ذ۔ اسم اشارہ ہے ۔ اور ک حرف خطاب ہے اسی طرح یریہم اللہ اعمالہم حسرات علیہم۔ یری مضارع جمع مذکر غائب اراء ۃ (افعال) مصدر وہ دکھائے گا۔ ہم۔ یری کا مفعول اول۔ (ھم کا مرجع مشرکین معبود ان باطل کے پیروکار ہیں) اعمالہم مضاف مضاف الیہ مل کر مفعول ثانی۔ اور اگر یری افعال قلوب سے ہو تو حسرات اس کا تیسرا مفعول ہوجائے گا۔ ورنہ حال ہوگا (تفسیر مظہری) ۔ وما ھم بخرجین من النار۔ خرجین۔ اسم فاعل جمع مذکر کا صیغہ ہے۔ اس جملہ کی تشریح کرتے ہوئے صاحب تفسیر مظہری لکھتے ہیں۔ اور وہ کبھی دوزخ سے نہ نکلیں گے۔ وما ہم بخرجین اصل میں ما یخرجون تھا۔ جملہ فعلیہ سے جملہ اسمیہ اس لئے بنا لیا گیا کہ بطور مبالغہ یہ سمجھا جائے کہ جہنم میں ہمیشہ ہی کے لئے رہیں گے۔ اور اس لئے کہ نجات اور خلاصی پانے سے بالکل مایوس ہوجائیں ۔ جملہ فعلیہ میں اتنا مبالغہ نہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ان آیتوں میں قیامت کے دن مشرکین اور ان کے پیشواؤں کی حالت زار کا ذکر ہے کہ جن رؤسا اور پیشواؤں کی محبت یہ دم بھرتے ہیں قیامت کے دن وہ ان سے بیزاری اور لا تعلقی کا اظہار کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دیکھتے ہی ان کے باہم تعلقات قطع ہوجائیں گے آخر کار یہ اپنے پیشواؤں کی دیدہ شوئی کو دیکھ کر بایں الفاظ اپنے غیظ وغضب کا اظہار کریں گے کے کاش ہمیں پھر دنیا میں لوٹا دیا جائے تو ہم بھی تم سے بیزاری کا اظہار کریں جس طرح آج تم ہم سے کر رہے ہو۔ ان کی بد اعمالیاں ان کے دلوں میں حسرت بن کر رہ جائیں گی۔ وما ھم بخا رجین من النار۔ سے ثاتب ہوتا ہے کہ کفار ابدی جہنمی ہیں اور یہ کہ جہنم کبھی فنا نہ ہوگا۔ (قربطی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اس عذاب میں کئی طرح کی شدت ثابت ہوئی اور اہل شرک کے عقیدہ کا بطلان ہے آگے اہل شرک کے بعض اعمال کا بطلان ہے جیسے سانڈ کی تعظیم وغیرہ۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

کاش وہ اس منظر کو دیکھ سکتے کہ پیشوا اپنے مریدوں سے بےتعلقی کا اظہار کررہے ہیں ۔ انہوں نے عذاب خود دیکھ لیا ہے ۔ ان کے درمیان تعلقات اور دوستیاں ختم ہوچکی ہیں ۔ پیشوا ہے کہ مرید دونوں نفسا نفسی کی حالت میں ہیں ۔ وہ قیادت اور ریاست ڈھیر ہوگئی جس کی وجہ سے پیروکار ان کے پیچھے بھاگتے تھے ۔ قائدین کو خود اپنی پڑی ہے ۔ وہ پیروؤں کی عزت پر کیا توجہ کریں ، ان کو کس طرح بچائیں ۔ اب تو الٰہ واحد کی حقیقت اور طاقت ظاہر ہوچکی ہے ۔ اب تو ان کے سامنے صرف ایک ہی قدرت ہے ۔ گمراہ قیادتوں کا جھوٹ ، ان کی کمزوری اور اللہ کے سامنے ان کا عجز اور عذاب الٰہی کے سامنے ان کی سراسیمگی اور بےبسی سب پر ظاہر ہوچکی ہے ۔ وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ” اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کی پیروی کرتے تھے ، کہیں گے کاش کہ ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزار ظاہر کررہے ہیں ، ہم ان سے بیزار ہوکر دکھادیتے ۔ “ وہاں یہ فریب خوردہ پیروکار اپنی گمراہ قیادت پر سخت غیض وغضب کا اظہار کریں گے ۔ وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش ایک موقع ہمیں اور مل جاتا اور ہم زمین پر دوبارہ لوٹادیئے جاتے تاکہ اپنی کمزور اور ناکارہ دھوکہ باز قیادت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ۔ کیا وہ ہولناک منظر ہے یہ ، قائد اور پیروکار ایک دوسرے پر تبرّا بھیج رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے ہیں ۔ کل کے دوست آج سخت دشمن ہیں ۔ ان کے اس حسرتناک انجام پر یہ نتیجہ بیان کیا جاتا ہے۔ كَذَلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ ” یوں اللہ ان لوگوں کے اعمال ، جو یہ دنیا میں کررہے ہیں ، ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے ۔ مگر آگ سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ۔ “ اب بتادیا جاتا ہے کہ زندگی کی پاک چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ، ناپاک اور خبیث چیزوں سے دور رہو ، خبردار ! شیطان کی اطاعت نہ کرو ، وہ تو ہر وقت ناپاک چیزوں کی طرف پکارتا ہے ۔ شیطان بعض چیزوں کو اللہ کی طرف سے حلال قرار دیتا ہے اور بعض کو حرام قرار دیتا ہے ۔ حالانکہ اللہ نے اسے تحلیل وتحریم اور قانون سازی کا اختیار ہرگز نہیں دیا ۔ (مسلمانوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ اپنے عقائد ونظریات کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ذریعے سے راہ نمائی حاصل نہ کریں۔ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر ، ایسی چیزوں کو پکارتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ سمجھتی ہیں ۔ ان کے اس احمقانہ فعل پر تنبیہ کی جاتی ہے ۔ یوں ان آیات کا فصل سابق کی آیات کے ساتھ معنوی ربط بھی واضح ہوجاتا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن متبوعین کا اپنے ماننے والوں سے بیزاری ظاہر کرنا اور اس وقت ان کی پشیمانی ہونا ان آیات میں کافروں کی ایک اور حسرت اور ندامت اور شناعت اور فظاعت ذکر فرمائی۔ اور وہ یہ کہ جو لوگ دنیا میں پیشوا تھے اور قوموں اور قبیلوں کے اور ملک و وطن کے بڑے تھے جن کے پیچھے چل کر ان کی اولاد نے اور قوم و قبیلہ نے اور ملک کے بسنے والوں نے اپنا ناس کھویا اور کفر اور شرک میں مبتلا ہوئے۔ یہ سردار ان قوم اور زعماء ملک و وطن قیامت کے دن اپنے ماننے والوں اور پیچھے چلنے والوں اور ان کی رضا مندی کیلئے قربانیاں دینے والوں سے صاف صاف کہہ دیں گے کہ ہمارا تمہارا کوئی تعلق نہیں اور یہ بیزاری ایسے موقع پر ہوگی جب ان کے ماننے والے اس دنیا سے گزر چکے ہوں گے اور کفر و شرک پر مرچکے ہوں گے۔ وہاں نہ ایمان لانا معتبر ہوگا نہ دنیا میں واپس آسکیں گے اور عذاب بھگتنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا ان کے آپس کے تعلقات ختم ہوچکے ہوں گے اور کوئی کسی کو کسی طرح بھی مدد نہ دے سکے گا۔ کما قال تعالیٰ (مَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلاَ شَفِیْعٍ یُّطَاعُ ) (سورۃ مومن) ” ظالموں کے لیے نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی سفارشی ہوگا جس کی اطاعت کی جائے) ۔ جب سردار ان قوم بیزاری ظاہر کردیں گے تو وہ لوگ جنہوں نے ان کا اتباع کیا تھا یوں کہیں گے کہ اگر ہمیں دنیا میں واپس جانا نصیب ہوجائے تو ہم ان سے اسی طرح بیزاری ظاہر کریں جیسا کہ آج وہ ہم سے بیزار ہوگئے۔ پھر فرمایا (کَذٰلِکَ یُرِیْھِمُ اللّٰہُ اَعْمَالَھُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْھِمْ ) (یعنی جس طرح ان کو آپس کی بیزاری کا منظر دکھایا جائے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کے دوسرے اعمال بھی حسرتیں بنا کر ان کو دکھائے گا اور حسرت سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ دوزخ کے عذاب کے ساتھ حسرتوں کا عذاب مستقل عذاب ہوگا۔ بار بار نادم ہوں گے کہ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کا اتباع کرلیتے تو اچھا تھا۔ کفر و شرک اختیار نہ کیا ہوتا، فلاں فلاں عمل اختیار کرتے تو کیا ہی اچھا ہوتا اور اس عذاب میں مبتلا نہ ہوتے اس دن کا سوچنا، سمجھنا، نادم ہونا، دوزخ سے نکلنے کا ذریعہ نہ بنے گا اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ کبھی بھی اس سے نکلنا نصیب نہ ہوگا۔ (وَمَا ھُمْ بْخَارْجْیْنَ مِنَ النَّارْ )

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

304 مشرکین انتہائی حسرت ویاس کے عالم میں آرزو کریں گے کہ کاش ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے اور ہم ان سے اسی طرح بیزاری کا اظہار کریں جس طرح آج انہوں نے ہم کو چھوڑ دیا ہے اگر ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے تو ہم کبھی شرک نہیں کریں گے اور صرف اللہ ہی کی عبادت کریں اور ان گمراہ کرنے والوں کی باتوں میں نہیں آئیں گے فلا نلتفت الیھم بل فوحد اللہ وحدہ بالعبادۃ (ابن کثیر ص 203 ج 1) ۔305 کذلک یہاں ویسا ہی ہے جیسا کہ کذلک جعلناکم امۃ وسطاً میں ہے اور رؤیت سے رؤیت بصری مراد ہے اور حسرات، اعمالھم سے حال ہے وحال من اعمالھم ان کانت بصریۃ (روح ص 36 ج 2) یعنی اس طرح ان کے مزعومہ اسباب نجات کو باطل کر کے اور ان کی آرزٓوں پر پانی پھیر کر ہم ان کے اعمال کو سراپا حسرت ندامت بناکر ان کو دکھائیں گے۔ یعنی ان کی وہ تمام عبادتیں جو دنیا میں انہوں نے کی تھیں شرک کی وجہ سے سب رائیگاں جائیں گی اور آخرت میں حسرت ندامت کے بغیر انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ 306 اور وہ کفار اور مشرکین کبھی جہنم سے نہیں نکل سکینگے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ کفار اور مشرکین ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ دلیل علی خلود الکفار فیھا وانھم لا یخرجون منھا (قرطبی ص 207 ج 2 ۔ۭ وَمَا ھُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّار کی ترکیب مسند الیہ میں نفی حصر کا فائدہ دیتی ہے یعنی خروج من النار کی نفی کفار میں محصور ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ جو مومن گنہگار اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے دوزخ میں جائیں گے۔ وہ اس میں ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ جیسا کہ معتزلہ وخوارج کا خیال ہے۔ المتبادر فی امثالہ حصڑ النفی فی المسند الیہ۔۔۔ ففیہ اشارۃ الی عدم خلود عصاۃ المومنین الداخلین فی قولہ تعالیٰ والذین امنوا اشد حبا للہ فی النار (روح ص 37 ج)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3 مشاہدہ عذاب کا وقت وہ وقت ہوگا جب کہ وہ تمام ذی اثر اور صاحب اقتدار لوگ جنکی پیروی کی جاتی تھی اور ان کا کہا چلتا تھا ان سب لوگوں سے بیزار اور علیحدہ ہوجائیں گے جو ا ن کی پیروی کیا کرتے تھے اور ان کے کہنے پر چلتے تھے اور یہ سب تابع اور متبوع عذاب خداوندی کا مشاہرہ کریں گے اور ان کے ہر قسم کے باہمی تعلقات ٹوٹ جائیں گے اور وہ تمام پیروی کرنیوالے عوام اپنے سرداروں اور بڑوں کی یہ حالت دیکھ کر یوں کہیں گے۔ کاش ! ہم کو کسی طرح باز گشت میسر آجائے اور ایک دفعہ دنیا میں جانے کا موقع مل جائے تو ہم بھی ان سے اسی طرح بےزاری کا اظہار کریں اور ان سے الگ ہوجائیں جس طرح یہ ہم سے آج الگ ہوگئے اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ان کو حسرت و ندامت کی شکل میں دکھائیگا اور انکو آتش دوزخ سے کبھی نکلنا نصیب نہ ہوگا۔ (تیسیر) برأت اور تبری کے معنی ہیں علیحدگی، بیزاری، خلاصی، پیچھا چھڑانا، جسکی صحبت نہ پسند ہو اس سے الگ ہوجانا مطلب یہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کرنے والے عام طور سے دو قسم کیل وگ ہوتے تھے ایک تو وہ جو آباد ی میں ذی اثر اور ذی اقتدار ہوتے تھے جیسے سردار، نمبردار، چودھری، سرمایہ دار، قوم کے بڑے لوگ، قوم کے روساء اور دوسرے وہ چھوٹے لوگ جو ان بڑوں کے زیر اثر ہوتے تھے اور ان کی اتباع کرتے تھے اور ان کے کہنے پر چلا کرتے تھے۔ قیامت کے دن جب جہنم اور اس کا عذاب سامنے آئے گا تو یہ چھوٹے اور کمزور لوگ ان بڑے لوگوں سے یہ خواہش کریں گے کہ ہم کو اس عذاب سے بچائو کیونکہ تم ہمارے بڑے ہو، اور ہم تمہارے کہنے کی وجہ سے کفر اور شرک کا ارتکاب کرتے تھے لیکن قیامت کے خطرناک دن میں بھلا کون کسی کے کام آسکتا ہے۔ وہ بڑے لوگ ان کو دھتکار دیں گے کہ ہم کو اپنی پڑی ہوئی ہے ہم تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ اس موقعہ پر ہر قسم کے تعلقات، میل جول، برادری، رشتہ داری، ایک فریق کا متبوع ہونا دوسرے کا تابع ہونا، غرض ہر قسم کا ارتباط قطع ہوجائیگا۔ اس مایوسا نہ طرز عمل کو دیکھ کر یہ چھوٹے لوگ جو بڑوں کے تابع فرمان تھے غصہ ہوکر یہ کہیں گے کہ کسی طرح دنیا میں ہم ایک دفعہ پھر چلے جائیں تو تم سے بدلہ لیں اور تم کو ایسا ہی کورا جواب دیں جیسا تم نے کورا جواب دے کر ہم سے اپنا پیچھا چھڑایا ہے۔ یہ اس گفت و شنید کا کا خلاصہ ہے جو اس دن تابع اور متبوع چھوٹوں اور بڑوں کے درمیان پیش آئیگی۔ قرآن حکیم میں اور بھی کئی مقامات پر مختلف عنوان سے یہ واقعہ ذکر کیا گیا ہے مزید تفصیل اس موقع پر عرض کردی جائے گی۔ آگے ارشاد ہوتا ہے کہ جس طر ح یہ ہولناک منظر ان کو پیش آئیگا اسی طرح ان کے برے اعمال حسرت و ندامت کرکے اللہ تعالیٰ ان کو دکھائے گا۔ رویتہ سے مراد یہاں اگر قلب کی رویت ہے تب تو حسرات تیسرا مفعول ہے ورنہ حسرات ترکیب میں حال ہے حسرت کے معنی سخت ندامت اور پشیمانی کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ جب ان کو بُرے اعمال ان کے دکھائے جائیں گے تو ان پر سخت ندامت اور پشیمانی واقع ہوگی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بُرے اعمال کو حسرت و ندامت کی شکل میں پیش کیا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اعمال صالحہ کو دکھایا جائے اور کہا جائے کہ ان نیک اعمال کے ترک کرنے کی وجہ سے تم عذاب میں مبتلا ہو۔ تو اس پر ان کو سخت حسرت و پشیمانی ہو۔ بہر حال بُرے اعمال کے ارتکاب پر اور بھلے اعمال کے ترک پر دونوں ہی باتیں اس دن حسرت و پشیمانی کا موجب ہونگی بلکہ کافروں نے جو کام اپنے نزدیک نیک سمجھ کر کئے ہونگے اور وہ وہاں بیکار ثابت ہونگے تو اس پر بھی ندامت ہوگی اور چونکہ چاروں طرف ہر اعتبار سے حسرت ہی حسرت نظر آئیگی اس لئے اس دن کا نا م ہی یوم الحسرۃ ہے۔ حضر ت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جن کو لوگ پوجتے ہیں سو اللہ کے اس روز پوجنے والوں کو جواب دینگے اور ان کی امید سب طرف ٹے ٹوٹے گی اور افسوس کھائیں گے۔ اس وقت کچھ فائدہ نہیں افسوس کا یہاں سے بت پرستوں کا احوال ہے۔ (موضح القرآن) شاہ صاحب (رح) نے متبوع سے کافروں کے معبد مراد لئے ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ معبود ان باطلہ بھی اس دن اپنی برأت کا اظہار کریں گے اور اپنی پوجا کرنیوالوں کی پوجا کا انکار کردیں گے ماکنتم ایانا تعبدون یعنی تم تو ہم کو نہیں پوجا کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے جو تفسیر کی ہے اس میں حسرت و ندامت کی شدت زیادہ ہے کیونکہ جن کو معبود سمجھ کر اور حاجت روا اور مشکل کشا جان کر پوجا تھا جب وہی ان کی امداد سے انکار کردیں گے تو اس وقت پشیمانی زیادہ ہوگی اور نجات کی آس بالکل ہی ٹوٹ جائیگی۔ اب مطلب یہ ہوگا کہ جب ان کے معبود ان کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھا لیں گے اور یہ دیکھیں گے کہ جن کو ہم معبد سمجھتے تھے وہ خود آج پریشان اور کسمپرسی میں مبتلا ہیں تو بگڑ کر کہیں گے کاش ہم دنیا میں کسی طرح ایک بار پھر چلے جائیں تو تمہاری عبادت سے بالکل الگ رہیں اور تمہاری پرستش سے دست بردار ہوجائی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے جو لطیف معنی بیان کئے ہیں اس کی بھی گنجائش ہے اور یہ شاہ صاحب کی دقیق نظری کا کمال ہے اور اس معنی کو اوپر کی آیت سے بہت ہی ربط ہے کیونکہ اوپر کی آیت میں انداد کی محبت کا ذکر تھا اور اس آیت میں اس محبت کے انجام بد کا ذکر ہے سبب کے معنی اصل میں تو اسی کے ہیں ہم نے ہر قسم کے تعلقات منقطع ہوجانے کے ساتھ تفسیر کی ہے مگر حضر ت شاہ صاحب (رح) نے امید ٹوٹ جانا کیا ہے۔ (تسہیل)